Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > اشفاق احمد

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

اشفاق احمد
ARI Id

1689956600868_56117499

Access

Open/Free Access

Pages

۳۲۰

اشفاق احمدرجحان ساز شخصیت
پیدائش:
معروف دانشور، ادیب، ڈرامہ نگار، تجزیہ نگار، سفر نامہ نگار اور براڈ کاسٹر جناب اشفاق احمد خان بھارت کے شہر ہوشیار پور کے ایک چھوٹے سے گاؤں خان پور میں ڈاکٹر محمد خان کے گھر 22 اگست 1925ء کو بروز پیر پیدا ہوئے۔
تعلیم:
اشفاق احمد کی پیدائش کے بعد اْن کے والد ڈاکٹر محمد خان کا تبادلہ خان پور سے فیروز پور ہو گیا۔ اشفاق احمد نے اپنی تعلیمی زندگی کا آغاز اسی گاؤں فیروز پورسے کیا۔ اور فیروز پور کے ایک قصبہ مکستر سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔اشفاق احمد نے ایف۔ اے کا امتحان بھی اسی قصبہ فیروز پور کے ایک کالج ‘‘رام سکھ داس ’’ سے پاس کیا۔ اس کے علاوہ بی۔اے کا امتحان امتیازی نمبروں کے ساتھ فیروز پور کے ‘‘آر، ایس،ڈی ‘‘RSDکالج سے پاس کپا۔
پاکستان ہجرت:
قیام پاکستان کے بعد اشفاق احمد اپنے خاندان کے ہمراہ فیروز پور (بھارت) سے ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔ پاکستان آنے کے بعد اشفاق احمد نے گورنمنٹ کالج لاہور کے ‘‘شعبہ اردو ’’ میں داخلہ لیا۔یہاں معروف اساتذہ سے علم حاصل کیا۔اْس زمانے میں بانو قدسیہ نے بھی ایم۔ اے اردو میں داخلہ لیا۔ یہ وہ دور تھا جب اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی میں اردو کی کلاسیں ابھی شروع نہیں ہوئی تھیں۔
شادی:
جن دنوں اشفاق احمد گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم۔ اے اردو کے طالب علم تھے۔ بانو قدسیہ ان کی ہم جماعت تھی۔ ذہنی ہم آہنگی دونوں کو اس قدر قریب لے آئی کہ دونوں نے شادی کا فیصلہ کیا۔ان کے والد ایک غیر پٹھان لڑکی کو بہو بنانے کے حق میں نہ تھے۔جس کی وجہ سے شادی کے بعد ان کو مجبوراً اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔
تصانیف:
اشفاق احمد کی تصانیف میں افسانے، ناول، ٹی وی ڈرامے، ریڈیائی ڈرامے، فیچر اور سفر نامے شامل ہیں۔ اشفاق احمد کے لازوال اور شاہکار تصانیف مندرجہ ذیل ہیں۔اجلے پھول، ایک محبت سو افسانے، وداع جنگ، ایک ہی بولی، سفر مینا، صبحانے فسانے، ایک محبت سو ڈرامے، توتا کہانی، بند گلی، طلسم ہوش افزا،اور ڈرامے، ننگے پاؤں، مہانسرائے، حیرت کدہ، شالہ کوٹ، من چلے کا سودا، بابا صاحبا، سفر در سفر، اچے برج لاہور دے، ٹاہلی تھلے، کھیل تماشا، گلدان، حسرتِ تعمیر، کھیل کہانی، زاویہ، گرما گرم لطیفے وغیرہ۔
ملازمتیں :
اشفاق احمد نے ایم اے اردو میں داخلہ سے قبل ہی ریڈیو پاکستان میں جاب شروع کر دی تھی۔ جہاں انھیں ۰۸روپے ملتے تھے۔ بقول اے حمید:
" قیام پاکستان کے بعد اشفاق احمد جب لاہور منتقل ہوئے تو مالی حالت دگرگوں تھی۔ لہٰذا میٹرک کی سند دکھا کر محکمہ ریلوے میں ملازمت حاصل کر لی جہاں صرف ایک دن گزار سکا۔ اس کے بعد مہاجرین کیمپ میں ملازم ہو گیا۔ ایک دن سودی خانہ میں گزارا اور اگلے دن ایک اور شعبہ میں منتقل کر دیا گیا۔ جہاں اس کی ڈیوٹی لاؤڈ سپیکر کے ذریعے اناؤنسمنٹ پر لگا دی گئی۔"
اس کے بعد جب ایم۔ اے اردو کا امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کر لیا تو انہیں عابد علی عابد نے لیکچر ار بھرتی کروا دیا۔یوں وہ دو سال تک ‘‘دیال سنگھ کالج ’’ میں پڑھاتے رہے۔اسی دوران اٹلی میں اردو پڑھانے اور براڈ کاسٹر کی اسامی نکلی تو یہ دونوں صلاحیتیں اْن میں موجود تھیں۔ اس طرح اشفاق احمد 1953ء میں روم یونیورسٹی اٹلی میں اردو کے پروفیسر مقرر ہوئے اور سابقہ ریڈیو روم سے پروگرام بھی کرنے لگے اور یہاں رہ کر انہوں نے اٹلی کی زبان بھی سیکھ لی۔انھوں نے ایک ادبی مجلہ’’داستان گو’’ کے نام سے جاری کیا۔ جو اردو کے چھپنے والے ابتدائی رسالوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اور اس کے علاوہ دو سال تک ہفت روزہ ‘‘لیل و نہار’’ کی ادارت بھی کی۔ 1972ء میں مرکزی ارد و بورڈ کے ڈائریکٹر بھی مقرر ہوئے۔اس کے علاوہ صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں وفاقی وزارت تعلیم کے مشیر بھی رہے۔
اشفاق احمد اور ریڈیو کی دنیا:
ریڈیو پاکستان کے لیے اشفاق احمد کی خدمات بیش قیمت ہیں انہوں نے 1949ء کے لگ بھگ ریڈیو پاکستان کے لیے لکھنا شروع کیا۔ اور دیکھتے دیکھتے مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ گئے ‘‘اپنی تمام تر تخلیقی قوتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جس محنت، لگن اور محبت کے ساتھ اس نے افسانے لکھے اسی محنت اور لگن کے ساتھ ریڈیو کے لیے لکھا ریڈیو کی دنیا میں اشفاق احمد کا لازوال شاہکار ‘‘تلقین شاہ’’ ہے جو 30 برس بعد بھی اسی طرح مقبول خاص و عام رہا جس طرح پہلے تھا۔ بقول ا ے حمید:
"جب تک تلقین شاہ کا فیچر ریڈیو پر نشر ہوتا رہتا لوگ ریڈیو سیٹ سے الگ نہیں ہوتے تھے۔ آج بھی جب ریڈیو پاکستان کے کسی سٹیشن سے یہ فیچرنشر ہوتا ہے تو اس کی تازگی اور شادابی روز اوّل کی طرح قائم و دائم رہتی ہے۔"
"تلقین شاہ" کی کامیابی ایک اوریجنل ادیب اور تخلیقی صلاحیتوں کے مالک افسانہ نگار کی کامیابی تھی۔ اس فیچر میں اشفاق احمد نے اس کردار کے ذریعے معاشی ناہمواریوں پر کڑی تنقید کی اشفاق احمد نے تلقین شاہ میں جو کردار تخلیق کیے وہ ہمارے معاشرے کے سچے کردار ہیں۔ان کے افسانے اس لحاظ سے قابل قدر ہیں جو ادب برائے زندگی کا جیسا جاگتا نمونہ۔ انہوں نے اپنے ادب سے معاشرے کی اصلاح کا کام کیا ہیں۔اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان میں میں بھی صلاحیتوں کو نکھارا۔
اشفاق احمد اور ٹیلی وڑن:
انہوں نے ڈرامے لکھنا شروع کیے ان کے حقیقی جوہر ٹیلی ویڑن میں آ کر کھلے انہوں نے فیچر اور ڈرامے لکھے ان کی تعداد پونے چار سو کے قریب ہے جو زیادہ مقبول ہوئے ان میں توتا کہانی،ایک محبت سو افسانے،حیرت کدہ،من چلے کا سودا،بند گلی، اور اوچے برج لاہور دے ،تلقین شاہ شامل ہیں۔
"کسی نے اشفاق احمد پر اعتراض کیا کہ آپ کے ڈراموں کے کردار فلسفیانہ رنگ کے طویل مکالمے بولتے ہیں۔ اس پر اشفاق احمد نے جواب دیاکہ کبھی آپ نے شکسپیئر کے ڈرامے پڑھے ہیں اگر اس کے ڈراموں کے کردار ایک ایک منٹ کے مکالمے بول سکتے ہیں تو میرے ڈراموں کے کردار بھی بول سکتے ہیں"۔
ایک محبت سو افسانے، اشفاق احمد کا پہلا افسانوی مجموعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ٹی وی ڈراموں کی سیریز بھی تھی جسے بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔
’’لوگ ڈرامہ ٹیلی کاسٹ ہونے سے پانچ دس منٹ قبل ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔ جتنی دیر تک ڈرامہ نشر ہوتا کوئی کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔‘‘
بعد میں یہی ڈرامے نئے اداکاروں پر رنگین فلمبند کر کے ٹیلی وڑن پر ایک دفعہ پھر پیش کیے گئے تو اس بار بھی یہ ڈراموں کا ایک مقبول ترین سلسلہ ثابت ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اشفاق احمد کے ٹی وی ڈراموں میں فلسفیانہ خیالات اور تصوف کا اثر نمایاں ہوتا گیا۔ ان کی آخری عمر کی تحریروں پر تصوف کا گہرا اثر نظر آتا ہے انہوں نے سارے فلسفیانہ مسائل کو آسان الفاظ میں بیان کیا۔اردو ڈرامہ نگاری اور افسانہ نگاری میں ایک نئے رجحان کو متعارف کروایا۔
اشفاق احمد اور سفر نامہ نگاری:
افسانہ نگاری اور ڈرامہ نگاری کے ساتھ ساتھ اشفاق احمد نے صنفِ سفر نامے بھی لکھنے کی کوشش کی جس میں وہ بہت کامیاب رہے۔ وہ بڑے کامیاب سفر نامے لکھ سکتے تھے لیکن اْس نے اس صنف پر پوری توجہ نہیں دی۔ اشفاق احمد کا ایک بہترین سفر نامہ ‘‘سفردرسفر ’’ کے نام سے منظر عام پر آ چکا ہے اور کتابی شکل میں موجود ہے۔ اس سفر میں ان کے ساتھ کچھ ادیب اور شاعر دوست بھی ان کے ہمسفر تھے۔ جن میں مسعود قریشی اور ممتاز مفتی کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔اشفاق احمد کے سفر ناموں میں بھی یہ خوبی ہے کہ وہ اپنے سفر نامے میں اپنی ذات کو بھی شامل کر دیتے ہیں اور پڑھنے والے کی ذات کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں۔
اشفاق احمد بطور مدیر:
"داستان گو’’ وہ رسالہ تھا جسے اشفاق احمد اور بانو قدسیہ نے مل کر نکالا۔ یہ ایک پاکٹ سائز رسالہ تھا۔ یعنی قمیص کی جیب میں آسانی سے آ جاتا تھا۔ ا۔ اشفاق احمد نے سائنسی موضوعات کے علاوہ اور بھی بہت سے موضوعات پر لکھا۔اس رسالے میں ادب کے علاوہ سائنسی معلومات،شکاریات، آسیبیات، نفسیات، مزاحیات ہر قسم کا مواد چھپتا تھا۔’’’’ میر شکاری’’ کے قلمی نام سے انہوں نے شکاریات کے جو قصے لکھے وہ ادب کا ایک حصہ بن گئے"داستان گو’’ کا ایک کارنامہ اس کا ناولٹ نمبر ہے۔ جس میں منٹو، شوکت تھانوی، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی، اے حمید، اشفاق احمد قراۃ العین حیدر اور عزیز احمد کے ناولٹ شامل تھے۔ یہ ناولٹ نمبر واقعی ایک یادگار نمبر ہے۔ لیکن داستان گو زیادہ عرصے تک نہ چل سکا۔ اور آخر کار بند ہو گیا۔۔اشفاق احمد نے بانو قدسیہ کے ساتھ مل کر بہت کام کیا انہوں نے بہت سے ادبی معاملات میں ان کی مدد کی 1993 ء میں بانو قدسیہ کو ستارہ امتیاز برائے ادب ملا۔
اشفاق احمد تصوف کی دنیا میں :
اشفاق احمد کی ابتدائی دور کی تحریروں میں محبت کا رنگ غالب ہے۔ یعنی اْن کے افسانوی مجموعے ‘‘ایک محبت سو افسانے ’’ پر محبت کا رنگ چڑھا ہوا ہے۔ لیکن ان کے آخری دور کی تحریریں اور خصوصاً ڈراموں میں اْن کا رجحان تصوف کی طرف مائل نظر آتا ہے۔جب تک قدرت اللہ شہاب اور ممتاز مفتی زندہ رہے اشفاق احمد کا تذکرہ اْن کے ساتھ آتا رہا۔ اور جوں ہی ان تینوں کا ذکر آتا تصوف کے حوالوں سے عجیب و غریب مباحث چھڑ جاتے۔ اشفاق احمد میں یہ خوبی تھی کہ وہ ایسا فقرہ بول دیتے کہ مقابل چونک پڑتا تھا۔
اشفاق احمد کے بارے میں بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ان کے اچانک ظاہر یا پھر غائب ہو جانے والے ‘‘بابے ’’ فکشن کی ضرورت کے تحت آتے ہیں۔ تاہم اشفاق احمد کا اصرار رہا کہ ان کا وجود ہے اور جو کچھ وہ بیان کرتے ہیں حقیقی زندگی میں روحانی سطح پر ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اشفاق احمد نے اسی فکری مواد پر مشتمل کئی ڈرامے بھی لکھے جن کو ٹیلی وڑن پر بڑی مہارت سے پیش کیا گیا۔ ‘‘من چلے کا سودا ’’ ایسے ہی ڈراموں میں سے ایک ہے۔
بطور مترجم:
اشفاق احمد نے بہت سے ادبی شاہکار کا ترجمہ کیا ہیلن شکیئر کی تراسی صفحات کی کتاب’’ Getting Along With Others‘‘کا ترجمہ’’دوسروں سے نباہ ‘‘ کے نام سے کیا۔ ہیمنگوے کی ’’A Farewel To Arms’’کا انگریزی سے اشفاق احمد نے ‘‘وداع جنگ’’ کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا۔شاعری بھی کی ‘‘کھٹیا وٹیا ‘‘اس کی آزاد پنجابی نظموں کا مجموعہ ہے جسے سنگ میل لاہور نے 1988ء میں پہلی مرتبہ شائع کیا۔
شخصیت:
بقول ممتاز مفتی :
" اگر آپ اس کی شخصیت کے بنیادی عناصر سے واقف ہونا چاہتے ہیں تو اسے اْس وقت دیکھیئے جب وہ اکیلے میں بیٹھا ہو۔ جب اسے یہ احساس نہ ہو کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ اگر اسے ذرا بھی شک پڑ گیا تو اس کے اندر کی بنی سجی طوائف خاتون ہوشیار ہو جائے گی۔"
اشفاق احمد کی شخصیت میں ہفت رنگی عناصر پیدا ہو چکے تھے۔ ایک بے نیاز صوفی بابا تھے وہ زندگی کے تجربات کو کرداروں کی صورت میں بیان کرتے تھے۔ خوش گفتار دوست تھے۔ پرخلوص مہمان نواز،خوش گفتار،ہمدرد محبت کی خوشبو بکھیرنے والے عالم انسانیت سے محبت کرنے والے انسان تھے۔
وفات:
اشفاق احمد کچھ عرصے سے علیل تھے۔وہ پتے کے کینسر میں مبتلا تھے۔ یہی مرض جان لیوا ثابت ہوا اور وہ 79 برس کی عمر میں 8 ستمبر 2004ء کو دن 9 بجے بروز سوموار اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔
موضوع18: ڈاکٹر انیس ناگی
حالات زندگی:
انیس ناگی پاکستان کے نامور محقق، افسانہ نگار، ناول نگار، نقاد، کالم نگار، مترجم اور شاعر تھے۔انیس ناگی 10 ستمبر 1939ء کو شیخوپورہ میں ابراہیم ناگی کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کا خاندانی نام " یعقوب علی ناگی " تھا۔ انہوں نے مسلم ہائی اسکول نمبر 2 لاہور سے میٹرک کیا، گورنمنٹ کالج لاہور سے انٹر اور اورینٹل کالج لاہور سے ایم اے (اردو) کیا۔ جامعہ پنجاب سے اردو ادب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد وہ گورنمنٹ کالج لاہور اور گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں تدریسی فرائض سر انجام دیے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے میگزین راوی کے مدیر بھی رہے۔ بعد ازاں انیس ناگی نے سول سروس کا امتحان پاس کیا اور ڈپٹی سیکرٹری ایجوکیشن سمیت مختلف سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ 1999ء میں وہ بورڈ آف ریونیو کے ارکان کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔
ادبی خدمات:
انیس ناگی کا ادبی سفر بہت طویل ہے۔ انہوں نے شاعری، ناول، افسانہ، تنقید اور تراجم میں طبع آزمائی کی اور ہر صنف میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بہت احسن طریقے سے اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے جذباتی نثر کی بجائے کارآمد نثر تخلیق کی اور شعوری طور پر ناول کو ادبی زبان کے برعکس عام بول چال میں قلمبند کیا۔ عام معاشرتی اور سیدھی سادی زبان میں قاری کے سامنے اپنی تخلیقات پیش کیں۔ ان کی جدید اردو نظم کو نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی بہت پزیرائی ملی۔ وہ ساٹھ کی دہائی میں نئی شاعری کی تحریک کے نام سے سامنے آنے والے ان لوگوں میں شامل تھے جن کے لیے رائج شاعری کا روایتی پیرایہ اور اظہار ناقابلِ قبول تھا اور وہ شاعری میں نئے اظہار کو رواج دینا چاہتے تھے۔ نئی شاعری کی اس تحریک کے نمایاں لوگوں میں ان کے ساتھ جیلانی کامران، افتخار جالب، محمد سلیم الرحمان، عباس اطہر، زاہد ڈار، فہیم جوزی اور سعادت سعید کے نام بھی شامل ہیں۔
اردو کے معروف افسانہ نگار سعادت حسن منٹو پر ان کا بے شمار کام ہے اور ان کے ناولوں میں اہم ترین ناول" زوال "ہے جس میں ایک ڈھلتی عمر کے بیوروکریٹ کے بتدریج بے رحمانہ ذہنی اور جسمانی انتشار کو بڑے موثر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ ان کا دوسرا مقبول ناول دیوار کے پیچھے ہے جسے اردو میں ناول کی نئی روایت کا آغاز کہا جاتا ہے جس میں انسان کے وجودی کرب کا تخلیقی بیان ہے۔
انیس ناگی کی ایک اور اہم تخلیق جنس اور وجود ہے۔ انیس ناگی نے ان آٹھ مضامین میں عورت کے حوالے سے ایسے موضوعات پر قلم اٹھایا ہے جن سے ہمارا اکثر بلا واسطہ یا بالواسطہ سامنا ہوتا ہے۔ انیس ناگی کی ان تحریروں سے احساس ہوتا ہے کہ بہت توجہ اور سنجیدگی سے لکھی گئی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایسے موضوعات پر کھلے اظہار کے یے ایک جراتِ رندانہ درکار ہے جو شاید مصلحتاً کم کم پائی جاتی ہے۔ انیس ناگی نے پاکستانی عورت کی جنسیات کو سمجھنے کے لیے کسی حد تک کلینکل انداز اختیار کیا ہے لیکن کہنے کی طرح اعدادو شمار کی بھرمار سے گریز کیا ہے۔ اپنے عمیق مطالعے اور زندگی کے معاملات کی گہری بصیرت کی وجہ سے انیس ناگی کے یہ مضامین اپنے میدان میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں جن کے وسیلے سے پاکستانی عورت کو سمجھا جاسکتا ہے اس اعتبار سے" جنس اور و جود" اردو میں پہلی کتاب ہے جس میں پاکستان کی تمدنی حالت میں پاکستانی عورت کا وجودی مطالعہ کیا گیا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ کتاب سے وابستگی کا ایسا عاشق کم پیدا ہوا ہو گا۔ ناول، شاعری، تنقید اور دستاویزی فلم، غرضہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ ترجمے کے میدان میں اترے تو اردو دنیا کو سینٹ جان پرس، کامیو اور پابلو نرودا سے متعارف کرایا۔ اس پر بھی بیان مزید وسعت کا تقاضا کرے تو اپنا رسالہ نکال لیتے ہیں۔
انیس ناگی نے تنقید میں بھی کام کیا اور نظمیں بھی لکھیں۔ ان کے ہاں مکروہ، ممنوع اور نامانوس الفاظ بکثرت نظر آتے ہیں۔ ان کی نظم میں انتشار، بے سمتی اور ابہام سے پر تصورات موجود ہیں۔ انیس کی نظم کا فرد بے سمتی کا شکار ہے۔
تصانیف:
انیس ناگی کی شاعری اور نثر کی پچاس سے زائد کتب شائع ہو چکی ہیں جن میں چند قابل ذکر یہ ہیں :
ابھی کچھ اور،آگ ہی آگ،بشارت کی رات،بیابانی کا دن،بیگانگی کی نظمیں،بے خوابی کی نظمیں،بے خیالی میں،نوحے،روشنیاں،زرد آسمان،غیر ممنوعہ نظمیں،صداؤں کا جہاں،زوال،ایک لمحہ سو چ کا ،درخت مرے وجود کا،دیوار کے پیچھے،کیمپ،گردش،محاصرہ،قلعہ،ایک ادھوری سرگزشت،جنس اور وجود وغیرہ شامل ہیں۔
وفات:
انیس ناگی 7 اکتوبر، 2010ء کو لاہور کی پنجاب پبلک لائبریری میں دوپہر کے وقت کتابوں کے مطالعے کے دوران میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے اور وہ علامہ اقبال ٹاؤن کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...