Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مباحث > عبداللہ حسین

مباحث |
حسنِ ادب
مباحث

عبداللہ حسین
ARI Id

1689956600868_56117502

Access

Open/Free Access

Pages

۳۳۳

عبداللہ حسین
خاندانی پس منظر:
پاکستان سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی شہرت یافتہ ناول و افسانہ نگار تھے جو اپنے ناول اداس نسلیں کی وجہ سے دنیائے ادب میں شہرت رکھتے ہیں۔عبد اللہ حسین 14 اگست 1931ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد خان تھا۔ والد محمد اکبر خان برطانوی راج میں راولپنڈی میں ایکسائزانسپکٹر کی حیثیت سے ملازمت کرتے تھے، جن کا آبائی وطن پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کا ضلع بنوں تھا۔ عبد اللہ حسین کے والدین وطن کو خیر باد کہہ کر پنجاب میں آبسے تھے۔ ان کی تین بیٹیاں تھیں۔ عبد اللہ حسین اپنے والد کی پانچویں مگر آخری بیوی کی واحد اولاد تھے اور پاچ برس کی عمر سے ہی اپنے آبائی شہر گجرات میں رہنے لگے تھے۔ چونکہ عبد اللہ حسین کے والد سرکاری ملازمت میں تھے اس وجہ سے انہیں ملک کے مختلف علاقوں میں منتقل ہونا پڑا۔ وہ راولپنڈی کے علاوہ فیروزپور اور جھنگ جیسے شہروں میں بھی رہے۔
تعلیم:
عبد اللہ حسین کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی تھی۔ نو برس کی عمر میں عبد اللہ حسین کی مذہبی درس و تدریس کے سلسلے میں صدرالدین نام کے ایک مولوی صاحب کو رکھا گیا۔ انہوں نے پرائمری کی تعلیم سناتن دھرم اسکول میں حاصل کی جو 1960ء کے بعد مدرسۃ البنات کہلایا اور 1946ء میں گجرات کے اسلامیہ ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1952ء میں انہوں نے زمیندار کالج، گجرات سے بی ایس سی کیا۔
انگریزی میں دسترس:
عبد اللہ حسین جب تعلیمی مراحل میں تھے اور گریجویشن کے لیے کالج میں گئے تھے تو وہاں انگریزی زبان سے ہی زیادہ واسطہ پڑتا تھا چاہے وہ تاریخ ہو، جغرافیہ ہو یا اکنامکس۔ انگریزی ذریعہ تعلیم ہونے کی وجہ سے ان کو اس زبان پر دسترس حاصل ہو گئی۔ اسی زمانے میں انہوں نے کئی انگریزی ناول پڑھے۔ پھر دیگر یورپی ادب کا انگریزی ترجمہ پڑھا۔ روسی اور فرانسیسی ناول پڑھے۔ انہوں نے اپنے ناولوں اور افسانوں کے ترجمے خود کیے اور براہِ راست انگریزی میں بھی ان کی تحریریں شائع ہوتی رہیں۔
ملازمت اورجلا وطنی:
ان کے گھریلو حالات بہت اچھے نہیں تھے اس وجہ سے وہ اس ملک میں آگے کی تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور اسی سال ضلع جہلم کے ڈنڈوت میں واقع ڈالمیا سیمنٹ فیکٹری اور نیشنل فیکٹری میں بطور اپرینٹس کیمسٹ ملازمت اختیار کر لی۔ بعد ازاں میانوالی کے داؤد خیل میں میپل لیف سیمنٹ فیکٹری میں کیمسٹ کے عہدہ پر تقرری ہوئی۔ 1959ء میں عبد اللہ حسین کو کولمبو پلان کا فیلو شپ ملا۔ میک ماسٹر یونیورسٹی کینیڈا سے کیمیکل انجینئری میں ڈپلوما حاصل کرنے کی غرض سے کینیڈا جانا پڑا لیکن صرف ایک سال دو مہینے بعد ہی پاکستان لوٹ آئے جہاں ان کو پاکستان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن میں سنیئر کیمسٹ کی حیثیت سے ملازمت مل۔
عبد اللہ حسین کی طبعیت میں ٹھراؤ یا یکسانی کم تھی۔ وہ اپنے والد کی طرح ہمیشہ باغیانہ ذہن کی طرح کام کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 1965ء میں پاکستان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کی ملازمت سے استعفا دے دیا اور فاروقیہ سیمنٹ فیکٹری میں چیف کیمسٹ کی حیثیت سے ملازمت کرلی لیکن یہاں بھی وہ اپنی بے چین طبیعت کی وجہ سے زیادہ دن نہ ٹک سکے اور دسمبر 1966ء میں اس فیکٹری کو بھی خیر باد کہا۔ پھر پاکستان سے لندن چلے گئے وہاں برمنگھم شہر کے ایک ادارے کول بورڈ (Coal Board) میں اپرینٹس کیمسٹ کی حیثیت سے 1967ء میں ملازمت اختیار کی لیکن محض دو سال ہی یہ ملازمت رہی اور اسے چھوڑ دیا اور لندن کے ایک ادارے نارتھ تھامس گیس بورڈ سے وابست ہو گئے۔ عبد اللہ حسین نے 1975ء میں استعفا دے دیا،۔ایک سال بعد انہوں نے پھر پاکستان کا رخ کیا اور وہاں مستقل سکونت کا ارادہ کیا لیکن اس زمانے میں پاکستان میں سیاسی ہنگامی آرائی عروج پر تھی۔۔ چند مہینوں بعد ان کی بیوی کو لیبیا کی ایک کمپنی میں ملازمت مل گئی اور عبد اللہ حسین پھر لیبیا کو روانہ ہو گئے۔ اب ان کو قدرے سکون حاصل تھا اور فرصت کے لمحات میسر ائے۔
شادی:
عبد اللہ حسین کی شادی ڈاکٹر فرحت آرا سے 1963ء میں ہوئی، جن سے ایک بیٹا علی خان اور ایک بیٹی نور فاطمہ ہیں۔
ذہنی نشو و نما میں والدین کا کردار:
عبد اللہ حسین کے والد کو شکار کا بڑا شوق تھا۔ اپنی ملازمت سے سبکدوشی کے بعد ان کی شکار سے دلچسپی خوب بڑھی، معاشی حالات بہتر نہ ہونے کے سبب انہیں زراعت کا پیشہ اختیار کرنا پڑا۔ کھیتی باڑی اور دیہی زندگی سے قریب تر رہنے کے باعث عبد اللہ حسین کی ذہنی نشو و نما میں یہ سارے ماحول، مناظر اور حالات کارفرما رہے۔ ان کی ذاتی لائبریری بھی تھی، ان کے پاس سترہ جلدوں پر مشتمل کتاب ’’The Secrets Of The Court Of king James‘‘ موجود تھی۔ اس کتاب کا اس زمانے میں رکھنا ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ وہ برطانوی حکومت کے ملازم ہونے کے باوجود اپنے باغیانہ مزاج کی وجہ سے اس پابندی سے ذرا خائف نہ تھے۔ جب ذہنی تربیت اور اس کی پرداخت ایسے ماحول میں ہو تو پھر عبد اللہ حسین میں اس طرح خصوصیتوں کا درآنا لازمی تھا۔ ماں کا وجود ان کے لیے اتنا ہی اہم تھا جتنا والد کا۔ وہ اس بات پر ملول تھے کہ انہوں نے تمام زندگی صدمے جذب کیے۔ انہوں نے زندگی کے تلخ حقائق کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، پرکھا اور سمجھا۔ ان سے جو بھی تجربات ملے یا تو سکھ کی شکل میں یا کبھی صدمات کے روپ میں۔ دراصل ان سے حاصل شدہ موخذہ سے ہی انہوں نے اپنی کہانیوں اور ناولوں کی بنت کاری کی۔
ادبی خدمات
عبد اللہ حسین بطور قلمی نام:
عبد اللہ حسین نے جب اپنے لیے کوئی قلمی نام اختیار کرنا چاہا تو انہیں خود اپنا نام محمد خان پسند نہیں آیا صرف اس لیے کے کرنل محمد خان وہاں پہلے سے وہاں موجود تھے۔ انھیں سیمنٹ فیکٹری کا ہم منصب "طاہرعبداللہ حسین" کا نام اچھا لگا اور انہوں نے "عبد اللہ حسین" بطورِ قلمی نام اختیار کر لیا۔
ابتدائی تخلیقات:
عبد اللہ حسین نے اپنی ادبی زندگی کی شروعات کہانی لکھنے سے کی تھی اور باقاعدہ اشاعتی سلسلہ 1962ء میں رسالہ سویرا لاہور میں شائع ہونے والی کہانی ندی سے ہوتا ہے۔ ندی کی اشاعت کے ایک برس بعد اسی رسالے میں ان کی تین کہانیاں سمندر، جلاوطن، پھول کا بدن شائع ہوئیں۔ 1963ء میں عبد اللہ حسین کی ایک اور کہانی دھوپ چھپی۔ پھر انہوں نے ایک طویل خاموشی اختیار کر لی۔
اداس نسلیں کی تخلیق:
1956ء میں والد کے انتقال سے عبد اللہ حسین کو شدید ذہنی جھٹکا لگا۔ نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہوئے۔ "اداس نسلیں" لکھنے کے لیے عبد اللہ حسین نے مواد کے حصول کا کام جون 1956ء سے ہی شروع کر دیاتھا۔ وہ پانچ سال تک اس پر محنت کرتے رہے اور مئی 1961ء میں یہ پایہ تکمیل کو پہنچا لیکن اس کی اشاعت 1963ء میں عمل میں آئی۔ اس ناول میں تین نسلوں کے کوائف بیان کیے گئے ہیں۔ اس ناول کے پلاٹ اور مرکزی خیال کے بارے میں ان کا کہنا تھا:
"اس کا جو پلاٹ ہے، مرکزی پلاٹ، وہ شروع سے آخر تک ایک ہی دفعہ ذہن میں آیا تھا۔ جب لکھنا شروع کیا تھا اس وقت یہ میرے لیے اتنی اہم نہ تھی، پھر میں نے باقاعدہ اس بارے میں پڑھنا شروع کیا۔ کتابیں پڑھیں، لوگوں سے ملا، شروع کے کئی باب لکھنے کے بعد کی بات ہے بلکہ میرا خیال ہے کہ پہلی جنگ عظیم جہاں سے شروع ہوتی ہے وہاں تک لکھنے کے بعد کی بات ہے۔ میں نے باقاعدہ تاریخ پڑھی، اپنے عہد کی تاریخ، جنگ کے سلسلے میں بڑے دور دور کے گاؤں میں جا کر پرانے سپاہیوں سے ملا۔"
یونیسکو نے اداس نسلیں کو انگریزی ترجمے کے لیے منتخب کیا۔ برطانیہ میں اپنے دورانِ قیام عبد اللہ حسین نے اداس نسلیں کا انگریزی ترجمہ’’The Weary Generations‘‘ کے نام سے کیا تھا۔ اس کی اشاعت سے انگریزی حلقوں میں بھی اس کی خوب پزیرائی ہوئی۔ ہندوستان میں ہارپر کولنز اور پاکستان میں سنگ میل پبلی کیشنز نے اسے چھاپا۔ عبد اللہ حسین کی اصل پہچان ان کے پہلے ناول اداس نسلیں سے ہے جس کے اب تک پچاس سے زائد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ بلاشبہ یہ ناول عالمی ادب کے معیار پر پورا اترتا ہے۔
اداس نسلیں کے بعد:
اداس نسلیں کے بعد نشیب 1981ء میں منظرِ عام پر آئی جس میں پانچ افسانے اور دو ناولٹ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 1982ء میں باگھ، 1989ء میں قید، 1994ء میں رات، 1996ء میں نادار لوگ، نادار لوگ کا دوسرا حصہ بھی وہ لکھ رہے تھے اور اس کا نام بھی آزاد لوگ تجویز کرچکے تھے لیکن اسے مکمل نہ کرسکے، اب بس لکھا ہوا حصہ ہی منتظرِ اشاعت ہے۔ 2012ء میں چھ افسانوں پر مشتمل ایک مجموعہ فریب کے نام سے شائع۔
انگریزی ناول:
انگریزی میں انہوں نے’’Emigre Journeys‘‘ کے نام سے ایک ناول لکھا جو شائع ہوچکا ہے، اس ناول کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ان کے افسانے واپسی کا سفر کی توسیعی اور تفصیلی شکل ہے۔ افغانستان کو موضوع بنا کر انہوں نے ایک ناول’’The Afghan Girl‘‘ کے نام سے بھی انگریزی میں لکھا۔
تصانیف
ناول:
اداس نسلیں - (1963ء ) باگھ - (1982ء ) نادار لوگ - (1996ء )
ناولٹ:
• قید - (1989ئ) • رات - (1994ئ)
افسانے:
• نشیب - (1981ء ) • فریب - (2012ء )
تراجم:
• The Weary Generations (اداس نسلیں کا ترجمہ)
ناقدین کی رائے:
معروف نقاد اور افسانہ نگار ڈاکٹر سلیم اختر نے عبد اللہ حسین کے بارے میں بڑے پتے کی بات کی ہے:
"آج عبداللہ حسین بطور ناول نگار جس بلند مقام پر نظر آتا ہے وہ پبلک رلیشننگ کی بدولت نہیں، نہ اس نے اپنے گروپ کی تشکیل کی اور نہ ہی وہ کسی گروپ کے سربراہ کا ادبی مزارع بنا بلکہ عبداللہ حسین جیسے سچ بولنے والے کی تو پبلک رلیشننگ ہو ہی نہیں سکتی۔"
اعزازات :
عبد اللہ حسین کو ان کے کلاسیک ناول اداس نسلیں پر1963ء میں آدم جی ادبی انعام اور اکادمی ادبیات پاکستان نے آ پ کی ادبی خدمات کے صلے میں کمال فن ادب انعام 2012ء میں ملا۔ عبداللہ حسین کہتے ہیں:
’’اگر محمد سلیم الرحمان اور حنیف رامے مجھے افسانہ لکھنے کا نہ کہتے، تو شاید میں ناول کے علاوہ کبھی کچھ نہ لکھ پاتا۔ کیوں کہ میرا خیال تھا کہ افسانہ میرا میدان نہیں۔ افسانہ نگار کا وڑن اور طرح کا ہوتا ہے۔ مجھے کہا گیا کہ جب تک میری کچھ تحریریں نہیں چھپیں گی، میرا ناول نہیں چھاپا جاسکتا، تو میں نے ’’ندی‘‘ لکھی یہ میری پہلی کہانی تھی۔‘‘
عبداللہ حسین آگے کہتے ہیں کہ میراناول ’’اْداس نسلیں‘‘ چھپنے کی نوبت آئی، تو مجھ سے کہا گیا کہ میرا نام کچھ گڑ بڑ پیدا کرسکتا ہے۔ اْسی زمانے میں کرنل محمد خان کی کتاب ’’بجنگ آمد‘‘ چھپی تھی، تو یہ خیال پیدا ہوا کہ محمد خان کے نام سے اگر ایک ناول مارکیٹ میں آتا ہے، تو کہیں یہ نہ سمجھا جائے کہ دونوں ذکر شدہ کتابیں یہ ایک ہی آدمی کی ہیں۔ بس یہی وجہ تھی نام تبدیل کرنے کی۔
ناول ’’اداس نسلیں‘‘ جو 1963ء میں چھپا تھا، نے غیر معمولی شہرت عبداللہ حسین کو دی تھی۔ وہ پاکستان کے ادبی منظر نامہ سے سترہ سال کی غیر حاضری کے بعد 1981ء کو کہانیوں اور ناولٹوں کے مجموعے ’’نشیب‘‘ کے ساتھ دوبارہ منظرِ عام پر آئے۔ اب کی بار انہوں نے اردو کے قارئین کو ’’اداس نسلیں‘‘ سے بہت مختلف اور ایک نئی طرح کے اسلوب سے چونکا دیا، جیسے اپنی نثر میں ایک تجربے کی جوت جگائی۔ اس کتاب میں دو ناولٹ ’’نشیب‘‘ اور ’’واپسی کا سفر‘‘ اور پانچ کہانیاں ’’ندی‘‘، ’’سمندر‘‘، ’’جلا وطن‘‘، ’’دھوپ‘‘ اور ’’مہاجرین‘‘ ہیں۔ ان میں سے اولین چاروں کہانیاں پہلے سے طبع شدہ تھیں جب کہ ا?خری ذکر شدہ کہانی ’’مہاجرین‘‘ غیر مطبوعہ تھی۔
1982ء میں عبداللہ حسین کا معروف ناول ’’باگھ‘‘ شائع ہوا جس میں اْداس نسلیں کی نسبت ایک مختلف اور منفرد اسلوب کو بروئے کار لایا گیا تھا۔ ’’باگھ‘‘ کی اشاعت کے پانچ سال بعد اپریل 1988ء کو عبداللہ حسین کا تیسرا ناول ’’قید‘‘ منظر عام پر آیا۔ ان کا ایک ناولٹ ’’رات‘‘ بھی شائع ہوا۔ 1996ء میں ان کا ناول ’’نادار لوگ‘‘ زیورِ طبع سے ا?راستہ ہوا جسے ’’اداس نسلیں‘‘ ہی کی کڑی قرار دیا جاسکتا ہے۔
انگلستان میں قیام کے دوران میں ہی عبداللہ حسین نے اپنے ناول ’’اداس نسلیں‘‘ کو انگریزی میں خود ہی ترجمہ کیا۔ یہ’’The Weary Generations‘‘کے عنوان سے شائع ہوا۔ ان کا ایک اور ناول’’Emigre Journeys‘‘کے عنوان سے بھی شائع ہوا، جسے ان کی طویل کہانی ’’واپسی کا سفر‘‘ کی توسیع مانا جاسکتا ہے۔اس طرح فغانستان کی جنگ کے تناظر میں لکھا گیا ان کا ضخیم ناول’’The Afghan Girl‘‘ ہنوز زیرِ طبع ہے۔ یہ ایک رومانوی کہانی پر مبنی ناول ہے۔اپنی وفات تک عبداللہ حسین ’’نادار لوگ‘‘ کے دوسرے حصے اور اس ٹرائیولوجی کے تیسرے ناول پر کام کر رہے تھے جس کا نام انہوں نے ’’آزاد لوگ‘‘ تجویز کیا تھا۔ اس عنوان کے بارے میں ان سے استفسار کیا گیا، تو انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے بتایا:
’’یہ ان لوگوں کی کہانی ہے جو ہر طرح کے قاعدے قانون سے آزاد ہوچکے ہیں۔ مادرپدر آزاد لوگ یعنی ایسی نسل جو ناقابلِ اصلاح ہے۔‘‘
عبداللہ حسین 5 جولائی 2015ء کو 83 برس کی عمرمیں کینسر کے مرض میں مبتلا ہوکر فوت ہوئے اور لاہور میں سپرد خاک ہوئے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...