Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نسیم سخن: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول تقاریر |
حسنِ ادب
نسیم سخن: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول تقاریر

ماں کی شان
ARI Id

1689956677855_56117526

Access

Open/Free Access

Pages

51

ماں کی شان
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امّا بعد فاعوذ بااللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
معزز اسا تذہ کرام اور میرے ہم مکتب ساتھیو!
آج مجھے جس موضوع پر اظہار خیال کرنا ہے وہ ہے:’’ماں کی شان ‘‘
صدرِ ذی وقار!
ماں کا نام جب زبان پر آتا ہے تو جسم کالواں لواں سراپا ادب واحترام بن جاتا ہے۔ دل میں ماں کی محبت کی شمع روشن ہو جاتی ہے، تمام بدن عجز وانکساری کے جذبات سے معمور ہو جاتا ہے، روح انسانی طراوت اور تازگی محسوس کرتی ہے اور زندگی کی گاڑی شاہرا ہ حسن و جمال پر رواں دواں ہو جاتی ہے۔
صدرِ محترم!
ماں کیا ہے، ماں ایک گلشنِ حیات کا تر و تازہ گل سر سبز ہے جس پرکبھی پژمردگی نہیں چھاتی ، ماں ایک ایسا بار آور شجر سایہ دار ہے جو کبھی خزاں آشنا نہیں ہوتا، ماں ایک ایسی شمع مستنیر ہے جس کا روح پروانوں کی طرح طواف تو کرتی ہے لیکن جل کر راکھ نہیں ہوتی۔
محترم صدر!
ماں ایک صنف نازک ہے، جو ایک وقت میں اپنے باپ کی گود میں ہوتی ہے، جس پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ بھائی اس کے سر پر دستِ شفقت رکھتا ہے، زندگی کے حسین وجمیل لمحات وہ بیوی بن کر بھی گزارتی ہے۔ لیکن وہ ساعتیں جو اسے مناصب ِرفیعہ پرمتمکن کرنے کا باعث بنتی ہیں وہ صرف اسے ماں بن کر ہی حاصل ہوتی ہیں۔
معزز سامعین!
قرآن و حدیث عظمت ِماں کے شاہد ہیں ، تمام رشتے مقدس ہوتے ہیں۔ والد کا رشتہ عظیم ہوتا ہے، یہ گھر کا سربراہ ہوتا ہے، سارے گھر کی ذمہ داری اس پر ہوتی ہے، بچوں کی تربیت کا مرحلہ ہو، خاندانی امور اپنانے کی بات ہو، باہمی لین دین ہو، عزیز و اقارب کے ساتھ تعلقات کی بات ہو یہ جملہ امور والد کے گرد ہی گھومتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے جنت ماں کے قدموں تلے ہی رکھی ہے۔
صدرِ ذی وقار!
ماں کا مقام بڑا بلند ہے، کائنات کی تمام رنگینیاں، تمام رعنائیاں، زمین پرکشت ِزعفران بنے ہوئے کھیت، فلک پرمحو پرواز قلاباز کی قلابازیاں، یہ سب کی سب ایک ماں کی مرہون منت ہیں۔ کیونکہ انجینئر ہو، کوئی سیاستدان ہو کوئی صنعتکار ہو، سب کے سب ماں ہی کے شجر سایہ دار کے نیچے محواستراحت ہیں۔
محترم صدر!
کوئی معلم بنا تو کسی ماں کا بیٹا تھا، کوئی مجاہد بنا تو اس کے کانوں میں بھی ماں کی لوریوں کی صدائے بازگشت تھی، کوئی مسیحابناتو اس کی ماں کا ہی ہاتھ تھا، کوئی رستم زماں بنا تو اس کے اعضاء بھی کسی ماں کے شیرِ شیر یں سے قوی تھے۔کوئی منصف اور جج بنا تو وہ بھی کسی ماں کا لختِ جگر تھا۔
صدرِ عالیشان!
کوئی سکندر بنا تو ماں ہی کی بدولت ، جناب اس دنیا میں اگر کوئی منصب ِعدالت پر فائز ہوا، اگر کوئی منصب شجاعت پر فائز ہوا، اگر کوئی منصب صداقت پرمتمکن ہوا، اگر کوئی ولی بنا ہو، اگر کوئی صحابی کے مرتبے تک پہنچا ہوان سب کے خمیر میں ماں ہی کی ممتاشامل ہے۔ اور ان سب کے جھولوں کوکسی نہ کسی ماں نے جھلایا ہے۔
جنابِ صدر!
یہ بات درست ہے کہ عورت ولی بھی بنی ہے صحابیہ کے منصبِ رفیعہ کا تاج بھی اس نے سر پرسجایا ہے لیکن نبی نہیں بنی ۔نبوت کا ارفع منصب اسے نہیں ملا۔
جنابِ صدر!
یہ درست ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر سوائے حضرت آدم ںکے کسی نہ کسی ماں کے شکم اطہر میں رہے اور پھر بعد میں نبوت کے عظیم انعام سے نوازے گئے۔
جنابِ صدر!
آج کائنات کا ذرّہ ذرّہ ماں کی عظمت ِشان کی گواہی دے رہا ہے۔
سارے جسم و جاں پہ اُس کی ماں کا ہی احسان ہے
سب کو ہے تسلیم راشدؔ ماں کی اعلیٰ شان ہے
والسلام

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...