Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نسیم سخن: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول تقاریر |
حسنِ ادب
نسیم سخن: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول تقاریر

دولت ہے جس کے پاس وہی با کمال ہے
ARI Id

1689956677855_56117554

Access

Open/Free Access

Pages

108

دولت ہے جس کے پاس وہی باکمال ہے
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امّا بعد فاعوذ بااللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
معزز اسا تذہ کرام اور میرے ہم وطن ساتھیو!
آج مجھے جس موضوع پر لب کشائی کا موقع مل رہا ہے وہ ہے:’’دولت ہے جس کے پاس وہی با کمال ہے ‘‘
صدرِذی وقار!
ہر انسان خواہ غریب ہو یا امیر ہو، خواہ وہ چیتھڑ وں میں ملبوس ہو یا اس نے خلعتِ فاخرہ زیب تن کی ہو، خواہ وہ سیاہ فام ہو یا سرخ رو ہو، خواہ اس کا قد چھوٹا ہو یا مناسب قد و قامت کا مالک، ہر ایک کو اشتیاق ہے کہ وہ کمال حاصل کرے ، اور اعلیٰ سے اعلیٰ مراتب پر فائز ہوجائے ،ترقی کے مدارج طے کرتا ہوا ثریّا تک پہنچ جائے۔
کسبِ کمال کُن کہ عزیز جہاں شوی!
جنابِ صدر!
معلم کا کمال یہ ہے کہ تدریسی میدان کا شاہسوار ہو،زیرِتعلیم طلباء کی رہنمائی کے لیے مہارت تامہ کا حامل ہو، اپنے مضمون پر مکمل دسترس رکھتا ہو، اس کا ہر سال رزلٹ %100 رہتا ہو، اُس مدرسہ کی نظر میں کامیاب مدرس ہو، خصائل صالحہ کا مجسمہ ہو، تدریسی مہارتوں کے استعمال میں اُسے ید ِطولیٰ حاصل ہو۔
جنابِ والا!
خطیب کا کمال یہ ہے کہ اس کا خطبہ معیاری ہو۔ فرقہ واریت سے پاک ہو، اس کی بیان کردہ روایات حشوو زواید سے پاک ہوں۔ اس کی زبان میں روانی ہو، اور حسنِ صورت کے ساتھ ساتھ حسنِ سیرت کا بھی مالک ہو۔ اس کے پر تاثیر بیان سے تمام سامعین برابرمتمتع ہوں۔
صدرِمحترم!
معلم کمال کی بلندیوں کو چھو سکتا ہے ،مقنن کا طائرکمال فضاء کی بلندیوں میں پرواز کرسکتا ہے۔ خطیب کی ترقی و عروج کی عندلیب گلشن کمال و مراتب رفیعہ میں مسحورکن نغمے آلاپ سکتی ہے۔ ماہر ِمعاشیات کی نائو بحرِکمال و عروج میں رواں دواں ر ہ سکتی ہے۔ سیاستدان کے گلستان عروج و کمال میں گلہائے رنگارنگ نظر آسکتے ہیں ،لیکن
جنابِ صدر!
اس کے لیے طائر غور وفکر کو قوت پرواز بخشناہوگی ، قلوب اورذہن کے در یچوں کو وا کر نا ہوگا، سوچ بچار کرنا ہو گا۔ حصول کمال و ترقی کے لیے غور وفکر کی عادت ڈالنا ہوگی ، جسم کی مضبوطی کے ساتھ قوت ِادراک ہوتو ترقی و کمال کی منازل آسان ہو جاتی ہیں ، کمال کے شاہینوں کی آمد ورفت صاف دکھائی دینا شروع ہو جاتی ہے، تنزُّل اور غربت کے مہیب سائے چھٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔
جنابِ صدر!
یہ سب کچھ اس وقت ہو گا، جب انسان معاشی طور پر مضبوط ہوگا۔ اس کی اقتصادی حالت معیاری ہوگی۔ اس کے گھروں میں خوش بختی اور خوش نصیبی کی دیوار بلند ہوگی۔ اس کے آنگن میں غربت و افلاس کے عفریت کا منحوس سایہ نہ ہو گا۔ اس کے دستر خوان پر انواع و اقسام کے معیاری کھانے ہوں گے۔ اس کی ظاہری بشاشت قابل دید ہوگی۔
جنابِ صدر!
دین اسلام میں بھی اخروی زندگی کی بہتری کے ساتھ ساتھ دنیوی زندگی کی بھی بہتری طلب کرنے کی تاکیداور ہدایت کی گئی ہے، ’’ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار‘‘ دعا مانگی جاتی ہے۔ دنیوی زندگی میں حسن ہوگا تو اخروی زندگی بھی زیب وزینت کے تاج سے مرصعّ ہوگی۔ ورنہ جناب غربت تو انسان کو کفر تک پہنچادیتی ہے۔
بُرا ہے کس قدر جُرمِ غریبی
مجھے پہچانتا کوئی نہیں ہے
محترم صدر!
یہ بات مترشحّ ہورہی ہے کہ مال و دولت کا صحیح استعمال انسان کو کمال کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔ معلم کی تدریس معیاری ہوتی ہے۔ منصف کا انصاف بے لاگ ہوتا ہے، تا جر کی تجارت شفاف ہوتی ہے، قانون دان کا قانون پائیدار ہوتاہے، عابد کی عبادت نمودونمائش سے پاک ہوتی ہے، زاہد کا زہد پرخلوص ہوتا ہے۔ اس لیے کہ یہ معاشی طور پر خوشحال ہوتے ہیں ، اور معاشی خوشحالی ہستی میں بہار لے آتی ہے۔ جنابِ والا معلوم یہ ہوا کہ دولت جس کے پاس ہے وہی با کمال ہے۔
اُس کے ہی رُخ پہ دوستو حُسن و جمال ہے
وہ شخص جو کہ صاحب ِ مال و منال ہے
راشدؔ کوئی نہ کہہ سکا اس بات کو غلط
دولت ہے جس کے پاس وہی با کمال ہے

والسلام

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...