Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نسیم سخن: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول تقاریر |
حسنِ ادب
نسیم سخن: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول تقاریر

میری آواز کو باغی کہہ سکتے ہو تو کہو
ARI Id

1689956677855_56117593

Access

Open/Free Access

Pages

203

میری آواز اقبال کا شاہین
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امّا بعد فاعوذ بااللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
معزز اسا تذہ کرام اور میرے ہم مکتب ساتھیو!
آج مجھے جس موضوع پرلب کشائی کرنی ہے وہ ہے:’’اقبال کا شاہین ‘‘
جنابِ صدر!
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اشعار میں جو لفظ شاہین استعمال کیا ہے، اس سے مراد ان کی صرف ظاہری طور پر نظر آنے والا شاہین نہیں ہے، صرف ایک معروف پرندے کے طور پر ذکر کیا جانے والا شاہین نہیں آسمان کی بلندیوں پر محو پرواز طائرنہیں ہے۔
جناب صدر!
شاہین سے مراد وہ نوجوان نسل لیتے ہیں ، شاہین کی خصوصیات وہ نوجوان نسل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں، نوجوان نسل کی اصلاح ہی ان کے لیے تعمیر وطن میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے، وہ شاہیں کا ذکر کر کے انسانیت کو ان کا اصل مقام دلانے کی مساعی جمیلہ کرتے ہیں، وہ شاہین کی خصوصیات کے قائل ہیں ، وہ نو جوان نسل کو ارفع مقام پرمتمکن کرنے کے خواہشمند ہیں۔
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
صدرِذی وقار!
اقبال کا حکیمانہ فلسفہ ’’شاہین کے روپ میں ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ مسلمان کا مقصد حیات اس سرزمین پر خلافت الہی قائم کرنا ہے، دینِ اسلام کا بول بالا کرنا ہے، اپنے فکروعمل سے سنسار کوگلزار بنانا ہے، بلندی کردار اور پختگی اعمال سے اس جہاں کو امن و آشتی کا گہوارہ بنانا ہے۔ علم و حکمت کی روشن کرنوں سے دنیا پر چھائی گھٹاٹوپ تاریکیوں کو ختم کرنا ہے، اس لیے علامہ اقبالؒ نوجوان نسل سے یہ تمنا اور امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ شاہین کی طرح اپنی بلند ہمتی، عمل پیہم، جہدِمسلسل، انتھک کوشش سے اپنے اوپر چھائی ہوئی سستی ، کاہلی اور جہالت کو اُتارپھینکیں۔
جھپٹنا، پلٹنا ، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
صد رِمحترم!
ملت اسلامیہ کو آج پہلے سے زیادہ خطرات لاحق ہیں ،فرعون صفت باطل قوتیں اپنے بھیا نک عزائم سے ظلم و ستم، جبر وتشدد، درندگی وسفاکی کی نئی تاریخ رقم کر رہی ہیں۔ طاغوتی طاقتیں مسلمانوں کے وسائل ہڑپ کر رہی ہیں۔ ذہن خریدے جارہے ہیں، نصاب تعلیم بدلے جارہے ہیں، اسلام دشمن قوتیں اس امت کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے جمع ہو چکی ہیں۔ اس وقت شا ہیں جیسی بلندپروازی اور ہمت وحوصلے کی اشد ضرورت ہے۔
محترم صدر!
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے جس طرح اپنے افکار کے ذریعے قوم میں بیداری پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے اس طرح نسلِ نو کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے شاہین کا استعارہ استعمال کیا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل سے ایسے افعال سرزد ہوں جو قابلِ صدمبارکباد ہوں۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ میری ملت کا نوجواں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھارہے، اور من وسلویٰ کا انتظار کرتا رہے، وہ اپنے ملت کے نوجوانوں میں شاہین صفت پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح شاہین کسی کا مارا ہوا شکارنہیں کھاتا اس طرح تو بھی صرف اپنے قوت بازو پر بھروسہ کر، کسی پر اعتماد نہ کر اسی میں ملک و قوم کی بقا اور اسی میں دنیوی و اُخروی کامیابی ہے۔
چڑیوں کی طرح، دانوں پہ گرتا ہے کس طرح
پرواز رکھ بلند کہ بن جائے تو عقاب
والسلامکو باغی کہہ سکتے ہو تو کہو
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امّا بعد فاعوذ بااللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
معزز اسا تذہ کرام اور میرے ہم مکتب ساتھیو!
آج مجھے جس موضوع پر لب کشائی کا موقع دیا گیا ہے وہ ہے:’’میری آواز کو باغی کہہ سکتے ہو تو کہو‘‘
صدرِذی وقار!
آواز ہی سب کے مافی الضمیر کے اظہار کا واحد ذریعہ ہے جس سے مخاطب تک رسائی ممکن ہوئی ہے۔ آواز فی الفورخوشی بھی بہم پہنچاتی ہے اورغم سے بھی ہمکنار کر دیتی ہے۔
جنابِ صدر!
آواز کا اپنا ایک نشہ ہوتا ہے۔ نکلتی جبڑوں کے درمیان سے ہے لیکن مفا ہم کے اعتبار سے کلیتاًمختلف ہوتی ہے ،کسی آواز میں رعب و د بد بہ ہوتا ہے اور کوئی آواز مرجھائی ہوئی اور دبی سی محسوس ہوتی ہے۔
صد رِ محترم!
کوئی آواز کسی کے حق میں ہوتی ہے، کوئی آواز کسی کی مخالفت میں ہوتی ہے۔ کسی آواز سے کان مستفید ہوتے ہیں، کسی آواز سے قوت سماعت متنفر ہوتی ہے۔
صدرِذی وقار!
میں اس انتظار میں رہتا ہوں کہ کسی مستحق ہمدردی کے حق میں آواز اُٹھاؤں کسی بیوہ و یتیم کی بہبود کے لیے میری آواز دیگر سامعین کی قوت سماعت سے ٹکرائے۔
جنابِ صدر!
آواز اسمبلی میں بھی اُٹھائی جاتی ہے، آواز معاشرے کے زعماء بھی اُٹھاتے ہیں، آواز رات کو پہرے پر موجود پہرے والا بھی اُٹھاتا ہے ،آواز امتحان میں کامیابی کی اچانک خبر سن کر طالب علم بھی اُٹھاتا ہے۔
جنابِ صدر!
آواز بستر مرگ پر لیٹاہوا صاحب ِفراش شخص رات کی تنہائیوں میں بھی اُٹھاتا ہے، آواز کوچہ گرد مزدور ریڑھی پر بھی لگاتا ہے۔ آواز کی گونج زندگی کے ہر شعبے میں سنائی دیتی ہے۔
جنابِ صدر!
میں آواز معاشرے کے نکھار میں اٹھاؤں گا۔ زندگی کے معیار میں اٹھاؤں گا ، بیمار کے علاج میں اٹھاؤں گا ، ذہن کی تعمیر میں اٹھاؤں گا، ملت کی خوشحالی میں اٹھاؤں گا۔ قوم کی غربت میں اٹھاؤں گا۔
صدرِذی وقار!
میری آواز ملاوٹ کے خلاف ہوگی ، میری آواز کر پشن اور بدعنوانی سے بغاوت کرے گی ، میری آواز کساد بازاری کے خلاف ہوگی ، میری آواز رشوت سے متعفّن کاروبار کی مخالفت میں ہوگی۔
جنابِ صدر!
میری آواز کی گونج سے قمارخانہ میں زلزلہ آ جائیگا ، میری آواز کی لہریں بحر ظلم و بربریت میں ارتعاش پیدا کر دیں گی ، میری آواز کی رفتارعیش وعشرت کی مسافت کو چشمِ زدن میں طے کر لے گی۔ اور بجائے عیش و عشرت کے اصلاح معاشرہ کے لیے بلند ہوگی۔
صدرِ محترم!
میری آواز کو آپ باغی کہیں گے تو کیا ہوگا ۔مخالف یہی کرتے ہیں، معاندانہ رویہ رکھنے والے یوں ہی کہتے ہیں، اعداء کا یہ شیوہ رہا ہے، میری آواز نا انصافی ،ظلم و بربریت ، وعدہ خلافی ، کذب بیانی ، اقرباء پروری، تعصب اورنسل پرستی کے خلاف بغاوت بلند کرتی رہے گی۔ تم اس کو باغی کہہ سکتے ہو تو کہتے رہو۔
والسلام

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...