Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نسیم سخن: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول تقاریر |
حسنِ ادب
نسیم سخن: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول تقاریر

آزادی ایک انمول نعمت ہے
ARI Id

1689956677855_56117607

Access

Open/Free Access

Pages

237

آزادی ایک انمول نعمت ہے
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امّا بعد فاعوذ بااللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پڑی وطن کو ضرورت اگر تو ہم دیں گے
لہو کا تیل چراغوں میں روشنی کے لیے
صدر ِفطین، اساتذہ متین اور سامعین باتمکین السلام علیکم! میں آج جس موضوع پر لب کشائی کی جسارت کرنے جارہا ہوں، اس کا عنوان ہے:’’آزادی ایک انمول نعمت ہے‘‘
ہم نے سوکھی ہوئی شاخوں پہ لہو چھڑکا تھا
پھول اگر اب بھی نہ کھلتے تو قیامت کرتے
صدرِذی وقار!
آزادی خدا کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس نعمت کا شکر ادا کرنا سب سے بڑی سعادت ہے۔ شکر در اصل نعمت کی فراوانی کا سبب ہوا کرتا ہے اور کفران نعمت، نعمت کے زوال کا باعث بنتا ہے۔
سامعین محترم!
آیئے ! آج ہم اپنے گریبان میں منہ ڈال کر جھانکیں کہ ہم نے آزادی کی نعمت کا کس حد تک شکر ادا کیا ہے اور خدا اور مخلوقِ خدا سے جو وعدے کیے تھے، انہیں کہاں تک پورا کیا ہے؟
صدرِذی وقار!
ہم نے نعرہ لگایا تھا کہ’’ ہم پاکستان میں قرآن کا قانون جاری کریں گے۔نبی کریمؐ کی سنت کی روشنی میں زندگی کا سفر طے کریں گے، نیکی کا علم بلند کریں گے اور بدی کو سرنگوں کرکے چھوڑیں گے، گناہوں کی اندھیری رات میں نیکی کے دیئے جلائیں گے اور شب تیرہ کی تیرگی کا جنازہ نکال کر دم لیں گے۔ جبر واستبدادکی کالی گھٹائیں چھٹ جائیںگی ، عدل و انصاف کا قاضی محمود و ایاز کو ایک صف میں کھڑا کر دے گا، غربت کے مہیب سائے رخصت ہو جائیں گے، تنگدستی اورمحتاجی کے عفریت کو منہ کی کھانی پڑے گی ، خوشحالی کا آفتاب طلوع ہوگا اور افلاس زدہ انسان امن و عافیت کے گہوارے میں خوشی کے نغمے گاتے ہوئے زندگی بسر کریں گے۔‘‘
ہاں سامعینِ محترم!
یہ تھے وہ مقاصد جن کے حصول کے لیے برصغیر کے لاکھوں بلکہ کروڑوں انسانوں نے ناقابل فراموش قربانیاں دیں۔ ہاں ایسی ارضِ پاک کے لیے ہمیں آگ اور خون کے دریاؤں سے گزرنا پڑا۔ یہ پاکستان نہ تو حسینوں کی ادائوں سے بنا اور نہ ہی مغنیہ کی صداؤں سے بنا، اور نہ ہی رقص وتبسم کا کرشمہ ہے، یہ نہ حنا آلود ہاتھوں کی مہک سے اور نہ ہی مشاطگی کے انداز ساحرانہ سے وجود میں آیا۔ اس کی نقش گری نہ تو سہاگ رات کی رنگ رلیوں میں ہوئی اور نہ ہی حجلۂ عروسی میں۔ جی ہاں ! لاکھوں مسلمانوں کی گرد نیںاس کی نذر ہوئیں، جوانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی ، دختران اسلام کے سہاگ اجڑے، غیرت مند باپ اور غیور بھائیوں کے سامنے ان کی عصمتوں کو تار تار کیا گیا اور کتنی ہی بے گور وکفن لاشیں گنگا اور جمنا کے آب ِرواں میں تیرتی رہیں۔ ہاں ہاں میں چیخ چیخ کر یہ کہتا ہوں کہ یہ وہی ارضِ پاک ہے جسے گمنام شہیدوں کے خونی سیلاب نے رنگینی بخشی۔(ماخوذ)
مگر افسوس کہ آج ہم نے آزادی کا مفہوم ہی بدل ڈالا، ہم نے اس کا مقصد ہی کچھ اورسمجھ لیا۔
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
صدرِذی وقار!
آج ہمارا عجب حال ہو چکا ہے، ہماری زندگی کے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور تہذیبی بلکہ تمام پہلو چوپٹ ہو چکے ہیں، ایک بے ترتیبی اور انار کی ہے جو چہار سو پھیلی ہوئی ہے اور یوں لگتا ہے کہ ہمارا شعور، ہمارا احساس اپنی موت آپ مر چکا ہے اور جب قوموں کے ذہن مردہ ہو جائیں اور احساس باقی نہ رہے تو قوم کی ذہنی پستی اسے اغیار کی دہلیز پر جھکنے کے لیے مجبور کر دیتی ہے اور جب قو میں خانہ ٔاغیار کا طواف کرنے لگتی ہیں تو آباؤ اجداد کی میراث گم ہو جایا کرتی ہے۔
میرے طالب علم ساتھیو!
آخر میں آپ سے یہی التجا ہے کہ اپنے آباؤ اجداد کی اس میراث کوگم نہ ہونے دینا، میری اس ارضِ پاک کو غیروں کے حوالے نہ ہونے دینا، اسے خودکش حملے کرنے والوں اور دہشت گردوں کے حوالے نہ کرنا، میری اس ارضِ پاک پر کوئی آنچ نہ آنے دینا، آزادی کے خالی نعرے ہی نہ لگاتے رہنا۔ اقبال اور قائد کی کی بیقرار روح کا بھی دھیان رکھنا۔
منائو جشن آزادی مگر اس احتیاط کے ساتھ
کسی چراغ کی لو سے کسی کا گھر نہ جلے
والسلام

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...