Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نسیم سخن: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول تقاریر |
حسنِ ادب
نسیم سخن: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول تقاریر

احساس مروت کو کچل دیتے ہیں حالات
ARI Id

1689956677855_56117610

Access

Open/Free Access

Pages

245

احساس مُروَّت کوکچل دیتے ہیں حالات
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امّا بعد فاعوذ بااللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تلک الایام نداولھا بین الناس -- صدق اللہ العظیم -
صدر ِذی وقار معزز اسا تذہ کرام اور میرے ہم مکتب ساتھیو!
آج مجھے جس موضوع پر لب کشائی کا موقع فراہم کیا گیا ہے وہ ہے:’’احساس مُروَّت کو کچل دیتے ہیں حالات ‘‘
جنابِ صدر!
احساس سے مراد محسوس کرنا ہے، اور اس کا تعلق قوتِ عقل سے ہے جو عقل کی دولت سے مالا مال ہے، جو گلستانِ عقل و شعور کا گل سرسبز ہے، جو بحرِ آگہی کی اٹھتی ہوئی موج ہے، جو آسمان فہم و فراست کا قطب ستارہ ہے، جو میدانِ ادراک و وجدان کا شاہسوار ہے وہ احساس جیسی متاع گراں کا بھی مالک ہے۔ وہ نہ صرف جہاندیدہ ہے بلکہ گرم سرد چشیدہ بھی ہے۔
اگرچہ اس کائنات میں غیرذوی العقول مخلوق بھی کچھ احساس کا پاس رکھتی ہے لیکن احساس کی تمام جزئیات و کلیات سے کماحقہٗ باخبر اشرف المخلوقات انسان ہی ہوتا ہے۔
بندوں میں خدا ڈھونڈ رہا، عشق کے بندے
میں عشق کے بندوں میں خدا ڈھونڈ رہا ہوں
معزز سامعین!
حواس خمسہ میں سے کسی حس کے ذریعے جب کوئی چیز معلوم کی جاتی ہے یا کسی کا ادراک حاصل کیا جا تا ہے تو وہ احساس ہی ہوتا ہے۔ قوت لامسہ، سامعہ یہ جملہ قو تیں معلومات اکٹھی کرتی ہیں۔ اگر خارجی عوامل کارفرما نہ ہوں اور یہ جملہ قویٰ قوانین فطرت کے مطابق عمل کر رہے ہوں تو اس کائناتِ رنگ و بو کے گلستان میں بہار آجاتی ہے۔ نرگس و گلاب کھلکھلا اُٹھتے ہیں ، عنادل وقمریاں سریلے گیت گانا شروع کر دیتی ہیں، ان کی آواز سے گلشن ہستی کا سارا ماحول خوشگوار ہو جا تا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے کہ ہم لوگوں کے درمیان ایّام بدلتے رہتے ہیں۔
صدرِذی وقار!
مُروّت، رعایت، اخلاق اور انسانیت کا احساس ہی ایک ایسی صفت ہے جو انسان کو زمین کی اتھاہ گہرائیوں سے اُٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک لے جاتی ہے، اگر کسی کے ساتھ مروت ہوتی ہے تو اس کی ہیئت وصورت آنکھ کوبھلی بھلی لگتی ہے، کان اس کی آواز سن کر اپنے اندر رس گھلتا ہوامحسوس کرتے ہیں، اس کا اُٹھنا بیٹھنا، چلنا پھر ناسب اچھا لگتا ہے،
صدرِ محترم!
دنیا میں ایسی بہت سی شخصیات گزری ہیں جن کو پسند کرنے والے بڑی مروت اور محبت سے انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں اور ان کا احساسِ مروت دیدنی ہوتا ہے۔
افسانہ نگاری اور ادب سے پیار کرنے والے شیکسپئیر کو یاد کرتے ہیں۔
فن طب کے متوالے بوعلی سینا کے حالات کی ورق گردانی کرتے ہیں۔
اشتراکی نظریات کی رعایت کرنے والے نفیس اور کارل مارکس کی بات کرتے ہیں۔
ہندو ازم کے رسیا نہرو اور مسٹر گاندھی کو موضوع خیال بناتے ہیں۔
جرأت و بہادری پسند کرنے والے رستم و سہراب کے کارنامے لکھتے ہیں۔
ظلم و بربریت کے خواہشمند ہٹلر کوتحریر کرتے ہیں۔
سفاکیت اور وحشت کو مروت کی نظروں سے دیکھنے والے چنگیز خاں اورہلاکو خاں کے کارناموں کو قلمبند کرتے ہیں۔
جنابِ والا !
جس کو جتنی محبت ، عقیدت، رواداری ، مروت، لحاظ، کسی کے ساتھ رعایت اور قلبی لگاؤ ہوتا ہے وہ اتناہی اس کا ذکر کرتا ہے اور اتنا ہی اس کے ساتھ تعلق استوار کرتا ہے۔ احساس مروت اتنا ہی مستحکم ہو گا جتنا کسی کے ساتھ قلبی تعلق ہو گا۔ اور اتنا نحیف اور غیرمستحکم ہوگا جتنا قلبی تعلق کا فقدان ہوگا۔ وہ کتنا عظیم شخص ہوتا ہے جس کو مخلوق خدا سے محبت ہوتی ہے۔بقول اقبال:۔
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
صاحبِ صدر!
مروت کا احساس برقرار ہے تو چاند کی چاندنی برقرار رہتی ہے، سورج کی روشنی برقرار رہتی ہے، ستاروں کی چمک برقرار رہتی ہے، سیاروں کی دمک برقرار رہتی ہے، چمنستانِ قلب و روح کی طراوت برقرار رہتی ہے۔ صحراؤں کی سنسناہٹ برقرار رہتی ہے، فضاؤں کی سر سراہٹ برقرار رہتی ہے ،گلوں کی تازگی برقرار رہتی ہے، باد صباء کی فرحت برقرار رہتی ہے، فضاؤں میں موجود طیور کی بلند پروازی برقرار رہتی ہے، فلک بوس پہاڑوں کی رفعت و بلندی برقرار رہتی ہے، کلیوں کی چٹک برقرار رہتی ہے اور گلوں کی مہک برقرار رہتی ہے۔
معزز سامعین!
جب حالات بگڑ جائیں ، ذہن پژمردگی کا شکار ہو جائے ، اپنے پرائے بن جائیں، جانے انجانے بن جائیں ، دوست دشمن بن جائیں ، کھوٹے اور کھرے کی تمیز ختم ہوجائے ، خودغرضی ، خود پرستی ، اقرباء پروری ، رشوت ستانی کا دور دورہ ہو جائے، احساس مروت اور رواداری کا فقدان ہو جائے۔ تو وجود عدم میں بدلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ہست نیست کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
محترم صدر!
احساس مروت جو حالات کے ظلم و استبداد کی چکی میں بری طرح پس چکا ہے جو زمانے کے دو پاٹوں کے در میان بری طرح کچلا جا چکا ہے۔ جس کو زمانہ کی مسموم ہوائیں اپنے زہر ہلاہل سے صفحہ ہستی سے مٹا چکی ہیں، ایسے میں عروسِ گیتی کے گیسوؤں میں مشاطگی ناممکن ہے۔ گلستانِ ہستی میں نظر آنیوالے پھول حقیقت نہیں بلکہ کاغذ کے ہوتے ہیں۔
صاحبِ صدر!
جب احساس مروت حالات کی بھینٹ چڑھ کر ختم ہو جائے تو پھر تو واعظ کا وعظ کام دیتا ہے نہ ناصح کی نصیحت کام دیتی ہے، نہ صدیق کی صداقت کام دیتی ہے ، نہ رفیق کی رفاقت کام دیتی ہے نہ خطیب کی خطابت کام دیتی ہے اور نہ فقیہ کی فقاہت کام دیتی ہے، کیونکہ ان کے ضمیر مردہ اور احساس مروت ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:۔
حرم فروش فقیہوں کے حوضِ کوثر سے
مُغنیّہ کے لبوں کی شراب بہتر ہے
جنابِ والا!
انسان کے احساس مروت کو کچلنے والے عوامل کچھ خار جی ہوتے ہیں اور کئی ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا تعلق داخلی طور پر ہوتا ہے۔ اخلاقی بیماریاں اور عاداتِ قبیحہ جب انسان کے اندر پیدا ہو جاتی ہیں تو ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں جس سے رواداری ، محبت، مودت ، مروت، خوش اخلاقی ، راست بازی، ایفائے عہد ، دستگیری، مردم شناسی ، قوانین کی پابندی، نظم و ضبط کی پاسداری، جذ بہ ایثارجیسی خصائل حمیدہ رُخصت ہو جاتی ہیں اور انسان کی ناؤ بحرِ ظلمات میں غوطے لگانا شروع کر دیتی ہے۔ یہ جملہ بیماریاں انسان کے قلب اور روح کو زنگ آلود کر دیتی ہیں اور اس کو احساس تک نہیں رہتا۔ احسا سِ مروت کو حالات کے عفریت کے خوفناک جبڑوں نے کچل دیا ہوتا ہے۔بقول شاعر:۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دِل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
والسلام

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...