Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نسیم سخن: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول تقاریر |
حسنِ ادب
نسیم سخن: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول تقاریر

علامہ اقبال کا پیغام خودی
ARI Id

1689956677855_56117616

Access

Open/Free Access

Pages

260

علامہ اقبال کا پیغام خودی
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امّا بعد فاعوذ بااللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
معزز سامعین اور میرے ہم مکتب شاہینو!
آج مجھے جس موضوع پر اظہار خیال کرنا ہے وہ ہے:’’علامہ اقبال کا پیغام خودی‘‘
ہر چیز ہے جو خود نمائی
ہر ذرہ شاہد کبریائی
بے ذوق نمود زندگی موت
تعمیر خودی میں ہے خدائی
جنابِ صدر!
قابل صد احترام صدرِ مدرسہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک خودی کے معنی خودشناسی اور خود آگا ہی کے ہیں وہ اپنی شاعری میں خودی کی تعلیم دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنے اندر خودی پیدا کرو۔ اپنے آپ کو پہچانو اور اپنے اندر خداداد صلاحیتوں کو اجاگر کر کے بیروئے کار لا ؤ۔
معزز سامعین!
علامہ اقبال کا پیام خودی کوئی نیا پیغام نہیں ہے۔ یہ وہی پیغام ہے جو بزرگانِ دین نے اپنے پیروکاروں کو دیا، یہ وہی پیغام خودی ہے جو حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے دیا، یہ وہی پیغام خودی ہے جو بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ نے دیا ، یہ وہی پیغام خودی ہے جو فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے دیا، یہ وہی پیام خودی ہے جو معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے نوے لاکھ ہندو قوم کو دے کر کلمہ پڑھایا، یہ وہی پیغام خودی ہے جو داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے لاہور کے منکرین کرامت کو مسجد میں نماز کی حالت میں کعبہ دکھا کر دیا ، یہ وہی پیغام خودی ہے جو بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے حاضرین کو دیکر اپنا لوہا منوایا، یہ وہی پیغام خودی ہے جو حضرت امام حسین ؓنے نیزے پر قرآن سنا کر امت مسلمہ کو دیا ،یہ وہی پیغام خودی ہے جس کا درس محسنِ کائناتؐ نے اپنے علم وعمل سے اُمت محمد ی کو دیا اور فرمایا’’ من عرف نفسہ فقد عرف ربہ‘‘ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے اللہ کو پہچان لیا۔ بقول اقبال:
تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود
مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا
وجود کیا ہے ، فقط جوہرِ خودی کی نمود
کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا
صدرِ محترم!
اپنے آپ کو بچانا، اپنی فطری صلاحیتوں کی نوعیت کو سمجھنا، ان کی نوعیت کے مطابق ان کی تربیت کرنا اور ان کو بروئے کار لا نا وہ مسلسل عمل ہے جسے اقبال اپنی زبان میں خودی کا تحفظ ترقی اور کھیل کہتے ہیں ظاہر ہے کہ خودی کی تکمیل عمل کے بغیر ناممکن ہے۔
خود عمل تیرا ہے صورت گر تری تقدیر کا
شکوہ کرنا ہو تو اپنا کر مقدر کا نہ کر
معزز سامعین!
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ جب خودی کی بات کرتے ہیں تو وہ نہیں چاہتے کہ کوئی شخص اس صفت سے متصف ہو کر گردن میں تیر نہ ڈالے، اپنے ہاتھ پشت پر نا باندھے، زمین پر اکڑ کے چلے ،تحقیر آمیز انداز اپنائے ، لہجے میں فرعونیت بھری آواز ہواورگلشنِ کا ئنات کے ہر برگ و بار کو مسلتا پھرے وہ تو انسان کو اس وصف سے متصف ایسا مردقلندر، مردمومن اور شاہکار دیکھنا چاہتے ہیں جوعروسِ گیتی کو سنوارے اور اس سے گیسوؤں میں توحید و رسالت کی مشاطگی کرے۔
غافل نہ ہو خودی سے، کر اس کی پاسبانی
شاید کسی حرم کا ہے تُو بھی آستانہ
جنابِ صدر!
آج ہم اگر اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں تعلیمات ِاقبال جو قرآن و حدیث کا خلاصہ ہیں ان پرعمل پیرا ہونا ہوگا۔ کیونکہ زبانی نعرہ بازی میں کوئی منفعت نظر نہیں آتی۔
یہ ذکر نیم شبی ، یہ مراقبے ، یہ سُرور
تری خودی کے نگہ باں نہیں تو کچھ بھی نہیں
والسلام

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...