Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین |
حسنِ ادب
نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین

عدلِ اجتماعی کا تصورو اہمیّت
ARI Id

1689956699836_56117628

Access

Open/Free Access

Pages

22

عدل اجتماعی کا تصور واہمیت
(تعلیمات نبوی کی روشنی میں)
عدل و انصاف فقط حشر پہ موقوف نہیں
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے
اس کائنات رنگ و بو میں ہر سو عدل و انصاف کا نظام کارفرما ہے۔ کائنات کی ہر چیز نظام عدل کے گردمحو گردش ہے۔ ہر شعبہ زیست عدل و انصاف کے بغیر اپنا وجود قائم رکھنے سے قاصر ہے۔ اگر عدل و انصاف عنقاء ہوجائے تو کارخانہ حیات خزاں آشنا ہو جائے گا۔فصلِ بہار کے عطر بیز جھو نکے بھی اس کی عروق مردہ میں تازہ خون کی روانی کو برقرار نہ رکھ سکیں گے۔ عدل سے مراد معنوی طور پر کسی شے کو اس کے درست مقام پر رکھنا ہے۔ شرعی اصطلاح میں عدل سے مراد لوگوں میں انصاف کرناہے، ان کے حقوق دلوانا ،ظلم کا خاتمہ کرنا، عدل اسلامی تعلیمات میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ نیز عدل کے معنی ہیں ’’افراط و تفریط سے بچنا‘‘ یعنی کسی شے کا زیادہ ہونا نہ کم ہونا یہ درجہ مقام وسط یعنی درمیانی ہے۔ اگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو دنیا میں جوبھی برائیاں ہیں وہ افراط وتفریط ہی کا نتیجہ ہیں۔ یعنی اجتماعی عدل کے قیام میں جو چیز سد سکندری ثابت ہوتی ہے وہ افراط وتفریط ہے۔ عدل اجتماعی جیسا کہ مفہوم سے ظاہر ہے کہ ایسا عدل جوسب کے لئے ہو، سب کا ہدف ہو، اور سب اس کے حصول کے خواہاں ہوں۔ نیز سب کیلئے ممدّ و معاون ثابت ہو یہ اسلام کا طرہ ٔامتیاز ہے کہ اجتماعی عدل کے حامی اسلام کے ہر سنہری دور میں موجود ر ہے ہیں۔
احادیثِ مبارکہ میں اسوۂ حسنہ سے عدل کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکے مبارک عہد میں عدل کرنے میں کافر و مسلمان میں کوئی امتیاز نہ رکھا جاتا تھا۔ ایک دفعہ ایک یہودی اور مسلمان میں کسی بات پر تنازعہ ہوا، آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمنے دونوں کا مؤقف سنا اور پھر یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا ۔مشہور واقعہ ہے کہ جب قبیلہ بنو مخزوم کی عورت فاطمہ چوری کے جرم میں پکڑی گئی تو آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمنے حد شرعی جاری کر نے کاحکم دے دیا، لوگوں نے سفارش کی تو آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سخت ناراض ہوئے اور تنبیہ فرمائی کہ تم سے پہلے قو میں اس لئے تباہ ہوگئیں کہ اگر ان کا کوئی غریب جرم کرتا تو سزاوار ہوتا، اور اگر کوئی امیر با اثر جرم کرتا تو وہ چھوڑ دیا جا تا۔ خبردار! اگر فاطمہ بنت محمدصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمبھی اسی جرم میں پکڑی جاتی تو حد شرعی جاری ہوتی۔ اسلام نے جس شرح و بسط سے عدل و انصاف کے جملہ پہلوؤں کو متبیّن کیا ہے۔ دیگر مذاہب میں ایسی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ اسلامی عقیدہ کی رُو سے سب سے بڑا عادل منصف خدائے وحدہٗ لاشریک ہے۔ چنانچہ اسمائے باری تعالیٰ میں اسم ’’عدل‘‘بھی شامل ہے وہ اپنے عدل ہی سے کارخانہ عالم کو سنبھالے ہوئے ہے۔
شَھِدَاللہُ و اَنَّہٗ لَا اِلٰہَ اِ لَّا ھُوَ وَالْمَلٰئِکَۃُ وَ اُلُوْ الْعِلمِ قَائِماً بِالْقِسْطِ
(آل عمران،۱۸۰)
ترجمہ:۔ اللہ تعالیٰ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ،فرشتے اور اہل علم بھی شاہد ہیں کہ اللہ تعالیٰ عدل و انصاف سے کارخانہ ٔعالم کو سنبھالے ہوئے ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مختلف زبانوں میں مختلف انبیاء کرام علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تو اُن کی بعثت کا ایک مقصد عدل وانصاف کا قیام بھی تھا۔ دنیا میں ظلم و استبداد کی چکی میں پسنے والی انسانیت کا درماں عدل و انصاف سے کرناتھا۔ عدل و انصاف کے تریاق سے ظلم کے زہر ہلاہل کو نیست و نابود کر نا تھا۔
لَقَدْ اَرْسَلْنَارُسُلُنَابِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَامَعَھُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقَوْم َ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (الحدید، ۲۵)
ترجمہ:۔ بے شک ہم نے پیغمبروں کو کھلے معجزے دے کر بھیجا اور ہم نے ان پر کتابیں اتاریں اور تر ازو کورواج دیا تا کہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک نازل فرمایا تو اس عظیم کتاب کے نزول کا مقصد بھی عدل و انصاف قرار دیا۔ اس حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب میں رسالت مآبصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کوحکم دیتا ہے۔
اِنَّااَنْزَلْنَا اِلَیکَ الْکِتَابَ بِاالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَااَرَاکَ اللّٰہُ وَلَا تَکُنْ لَّلخَائِنِیْنَ خَصِیْماً (انسائ، ۱۰۵)
ترجمہ:۔ ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ اتاری تا کہ جیسا تم کو خدا نے سمجھایا ہے اس کے مطابق لوگوں میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا کرو اور دغابازوں کے حامی نہ ہو۔
انسان جو انسانیت کے منصب رفیعہ پر متمکن ہونے کے ساتھ ساتھ حلقہ بگوش اسلام بھی ہوتو اس کی حرکت اس کی نشست و برخاست، اس کے قیام وقعودسب کے سب رضائے الٰہی کے حصول کے متمنی ہوتے ہیں۔ وہ پورا وقت اس خواہش کی تکمیل کے لئے مختص کر دیتا ہے اور اسی میں اپنی کامیابی و کامرانی تصور کرتا ہے۔
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لئے مجاہد میں اسی لئے ہوں غازی
قرآن مجید جہاں دیگر شعبہ ہائے حیات میں انسان کی راہنمائی کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا وہاںرضائے الٰہی کے حصول کیلئے بھی عدل وانصاف کو انتہائی ناگز یرقرار دیتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَاَقْسِطُوْ ا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ (الحجرات،۹)
ترجمہ: اور انصاف کرو بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول پاکصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمنے فرمایا، عدل کرنے والے اللہ کے پاس نور کے منبروں پررحمن کے دائیں جانب بیٹھے ہوں گے ، اور رحمن کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ ( اعلیٰ مراتب پر ہوں گے) جو لوگ اپنے گھر والوں اور جن پر ان کو حاکم بنایا گیا ہے۔ ان میں عدل سے فیصلے کریں گے۔ (صحیح مسلم، ۱۸۲۷)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا کہ جب دنیا کی بقاء میں صرف ایک دن رہ جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس دن کو طویل کر دے گا حتیٰ کہ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو بھیجے گا جس کا نام میرے نام کے موافق اور جس کے والد کا نام میرے والد کے نام موافق ہو گا۔ وُہ زمین میں عدل و انصاف کو بھر دے گا جس طرح زمین پہلے ظلم و ناانصافی سے بھری ہوگی۔ (سنن ابی داؤد،۴۲۸۲)
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد مجھے رسالت مآبصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے پاس لے کر گئے اور عرض کی کہ آپ گواہ ہوجائیں کہ میں نے نعمان کو اتنی چیز یں ہبہ کر دی ہیں۔ آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے پوچھا کہ کیا جتنی چیزیں تم نے نعمان کو دی ہیں بقیہ بیٹوں کو بھی اتنی ہی چیز یں دی ہیں؟ اُس نے کہا کہ نہیں تو پھر آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمنے ارشادفرمایا کہ تم میرے سواکسی اور کو گواہ بنالو۔ اس کے بعد آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمنے فرمایا کہ کیا تمہیں اس سے خوشی نہیں ہوگی کہ تمہارے بیٹے تمھارے ساتھ نیکی کرنے میں برابر ہوں؟ اس نے کہا کہ کیوں نہیں! پھر آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمنے کہا کہ تم بھی ان کے ساتھ برابر کا سلوک کرو۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا کہ مجھے گواہ نہ بناؤ کیونکہ میں ظلم پر گواہی نہیں دیتا۔ (صحیح البخاری ،۲۶۵۰)
مندرجہ بالا آیات مبارکہ اور احادیث شریف سے عدل اجتماعی کی بابت وضاحت ہوتی ہے۔ اسی عظیم صفت سے متصف قضاۃ نے معرکۃ الاراء فیصلے سنائے اور معاشرے میں استبدادی قوتوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں اہم کردار ادا کیا ایسے سپوتوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔
اسلام نے اولین بار ایک ایسے معاشرے کو جنم دیا جو صراطِ مستقیم اور راہِ اعتدال پر گامزن رہا (اعتدال کے لفظ میں ہی لفظ عدل شامل ہے جو ایک قوم کو صحیح خطوط پر استوار کرنے کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔) اس معاشرے کا ہر فرد نیکی کا گرویدہ اور بدی سے متنفر تھا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنا فرضِ منصبی بنا کر اسلامی معاشرہ ’’امت وسط‘‘ کے لقب کا مستحق ہوا۔ دنیا میں اجتماعی عدل کو اسی طرح قائم کیا جاسکتا ہے کہ برائی کی جڑ کاٹ دی جائے اور شجر بر کو بارآور بنانے کے لئے جہدِ مسلسل کی جائے۔ اسی طرح دنیا کے نظام میں اعتدال پیدا ہوسکتا ہے اور دراصل یہی عدل اجتماعی ہے جس سے ہر مستحق عدل کو انصاف نصیب ہوتا ہے۔ اس سے ظلم وستم کے بادل چھٹتے ہیں عدل وانصاف کی بادِنسیم اٹھکیلیاں کرتی ہے، ظلم کے عفریت کے جبڑوں سے اسے رستگاری ملتی ہے اور عدل کا پھر یرا اس کے سر پر منڈلاتا ہے۔ عدل و انصاف کی فاختہ اس کے گھر کی منڈیر پر بیٹھتی ہے۔
ایک دفعہ پیغمبر عالمصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ایک اعرابی سے کچھ قرض لیا اور ایک معینہ مدت تک واپس کرنے کا کہا مقررہ وقت پر جب وہ اعرابی آیا اور اپنے قرض کی واپسی کے لئے کہا تو اتفاقاً اس وقت قرض کی واپسی کا انتظام نہ ہو سکا اور آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے اعرابی سے مزید مہلت طلب کی اور کہا کہ فی الوقت میںآپ کی مطلوبہ رقم واپس نہیں لوٹا سکتا چند ایّام کے بعدایسا ہو سکے گا۔ یہ سن کر اعرابی کوطیش آ گیا اور غیض وغضب کی حالت میں مغلظات بکنے لگا۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اس وقت رسالت کے سائے میں تھے انھوںنے اس اعرابی کو پکڑ لیاقریب تھا کہ وہ اس کو سزا دیتے لیکن حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمنے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کومنع کر دیا اور فرمایا کہ میں اس کا مقروض ہو ںاور قرض لوٹانا میرا فرض ہے۔ اور یہ اس کا حق مجھ پر فرض ہے لہذا اس وقت بردباری اور صبر وتحمل کی ضرورت ہے۔ بالآخر آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمنے ایک صحابی سے قرض لے کر اس اعرابی کا قرض ادا کر دیا۔
اعرابی نے سوچا کہ میں حضورصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کے جم غفیر میں تھا۔ اگر وہ چاہتے تو میرا ز جر وتوبیخ سے ،مار پیٹ سے حلیہ بگاڑ دیتے لیکن حضورصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے منع کرنے پر وہ اپنے عزائم کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ مجھے میرے رویے پراظہار برہمی کرنا اُن کی آقائے نامدار کے ساتھ والہانہ عقیدت تھی اور آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا ان کو رو کناسر اسر عدل و انصاف تھا، اس ماحول سے متاثر ہوکر اعرابی حلقہ بگوش اسلام ہو گیا۔ عدل اجتماعی کی ایسی عظیم مثال شاذ ہی ملتی ہے کہ ایک غیرمسلم کے ساتھ عدل کیا جارہا ہے۔ حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکی پوری تعلیمات اس قسم کے واقعات سے مزیّن ہے۔
غزوہ خندق میں جب مدینے کے ایک جانب کھائی کھودنے کا فیصلہ ہوا تو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کے ساتھ ساتھ حضورصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمبرابر کے شریک تھے۔ خندق کی کھدائی اور مٹی ہٹانے میں جس طرح دیگر صحابہ کرا م رضی اللہ تعالیٰ عنہم مصروفِ عمل تھے بالکل اسی طرح تاجِ نبوت کو اپنے سر سجانے والا بھی مصروف کار تھا۔ آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے اس تاثر کو ختم کرنے کیلئے پیہم جد و جہد کی کہ اسلام کی تعلیمات میں تشدّد اور امتیازی طرزعمل ہے۔ عدل اجتماعی یہی ہے کہ ایسے انصاف کا مظاہرہ کیا جائے جس سے دیگر تمام افراد مستفید ہوں۔ اس وقت اگر سرکارِ دو عالمصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم خندق کی کھدائی میں شریک نہ ہوتے تو کوئی صحابی ٹس سے مس نہ ہوتا بلکہ آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے تمام صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکے لئے جان تک قربان کرنے کیلئے ہمیشہ مستعدر ہتے لیکن آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا یہ فعل آنے والی انسانیت کیلئے عدل و انصاف کی تاریخ رقم کر گیا۔
فتح مکہ کے موقع پرقریش کے ظالم سردار آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے سامنے سرنگوں کھڑے ہیں۔ اُن کے ذہن افسردہ ہیں۔ اُن کے قلب رنجیدہ ہیں۔ اجسام ہیبت نبوّت کے سامنے لرزہ براندام ہیں۔ انہیں آمنہ کے لعل کو، مدینے کے تاجدار کو، درّ یتیم کو، فخرالمسلمین کو دورانِ قیام مکہ پہنچائی گئیں ہمہ قسم تکلیفیں ازبر ہیں، ظلم کے پہاڑ توڑے گئے پہاڑ رہ رہ کر یاد آرہے ہیں، اب قِصرکفر و شرک منہدم ہو چکا ہے۔ علم اسلام بلند ہو چکا ہے۔ سرداران قریش اس انتظار میں ہیں کہ ابھی آواز آئے گی کہ ان کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے، ان کے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں، ان کے آرام و سکون کو برباد کردیا جائے، اسی سراسیمگی کے عالم میں صدائے مُسرت نوید جانفزاء لے کر بلند ہوتی ہے کہ ’’لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْم‘‘ .آج کے دن تم پرکوئی پکڑ نہیں ہے۔ عام معافی کا اعلان ہو جاتا ہے، رسول اللہصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم چاہتے تو ان سے ظلم کا بدلہ لے سکتے تھے لیکن شانِ رحمت العالمینی کے علمبردار نے معاف فرمادیا۔ اُن کے پہنچائے گئے زخموں پرکوئی اور فرمانروا ہوتا تو مرہم ظلم واستبداد کی صورت میں رکھتا اور اسی میں ہی اُس کی انا کی تسکین ہوتی لیکن آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم چونکہ سراپا رحمت اور مجسمہ عدل وانصاف تھے۔ آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے عام معافی کا اعلان کر دیا اور چند لوگوں کے علاوہ کسی سے کوئی انتقام نہ لیا گیا۔ یہ عدل اجتماعی کی ایک عظیم مثال ہے جو خود پر کئے گئے مظالم کے بدلے میں معافی کا اعلان کر کے اُمّت کے سامنے پیش کی۔ آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمنے یہ نہیں کیا کہ فلاں قبیلہ کو بخش دیا جائے اور فلاں کو عقوبت خانوں میں ڈال دیا جائے۔ آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ظلم کے بدلے عدل و انصاف اور احسان کا مظاہرہ کیا۔ کرم خوردہ سماج کو عدل و انصاف کے حیات بخش خون سے زندگی بخشی اور شان عفو و درگزر کا منظر ’’ الم نشرح‘‘ ہوا۔
نہ سنو گر برا کہے کوئی
نہ کہو گر برا کرے کوئی
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقانِ حمید میں ارشادفرمایا ہے کہ ــ’’اِنَّ اللہَ یَامُرُکَمْ بِالْعَدْلِ وَالْاَحْسَان‘‘ بیشک اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے تمہیں عدل اور احسان کا۔ قرآن پاک میں جو حکم آتا ہے وُہ سب کے لئے ہوتا ہے بشرطیکہ صاحب ایمان ہو۔ دینِ اسلام کی خلعت فاخرہ اُس نے زیب تن کی ہو، غیرمسلم مکلف نہیں ہوتا۔ اب اگر کوئی شخص زرق برق لباس میں ملبوس ہو یا چیتھڑوںسے وہ صرف اپنے سَتر کو ڈھانپ سکتا ہو، چمنستان و گلستان کے پڑوس میں رہائش پذیر ہو ، یا کسی ویرانے میں لگائی گئی جھونپڑی میں وحشت سے پریشان حال ، میدان علم و دانش کا شاہسوار ہو یا بحر جہالت میں اُس کی ناؤ ٹامکٹوئیاں مار رہی ہو۔ آسمانِ علم و معرفت کا آفتاب و ماہتاب ہو یا حروفِ ابجد از ہر کرنے والا طفلِ مکتب، الغرض کوئی بھی ہو بشرطیکہ مسلمان ہو تو وہ اس بات کا پابند ہے کہ عدل و انصاف کا مظاہرہ کرے۔ یہ عدلِ اجتماعی کی لازوال مثال ہے۔ مسلمان ہونے کے ناطے جس طرح دیگر عبادات کی پابندی لازمی ہے اس طرح عدل و انصاف سے معاشرہ کو اسلامی معاشرہ بنانے میں اہم کردار ادا کرنابھی انتہائی ناگزیر ہے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’ادخلو فی السلم کافۃ‘‘اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ۔ اگر کوئی صوم وصلوٰۃ کا پابند ہے، زکوٰۃ کی بروقت ادائیگی اس کا پسندیدہ عمل ہے، حرمین شریفین کی زیارت کے لئے حج و عمرہ کی غرض سے سفرکا متمنی رہتا ہے ، مساکین ویتمٰی کے ساتھ حسنِ سلوک اُس کا طرّہ امتیاز ہو ،سخاوت کی صورت میں حاتم طائی کا ہم پلّہ ہو پھر بھی وُہ اسلام کے زیور سے اُس وقت تک مرصع ّومزیّن نہیں ہوسکتا جب تک اُس کے دل و دماغ میں ، قلب و نظر میں ، ادراک و شعور میں عدل و انصاف کی منّورو مستنیر کرنیں جلوہ گر نہ ہوں۔ عدل و انصاف کا تاج سر پر سجانے والاشخص معاشرے کے ماتھے کا جھومر ہوتا ہے اور اس کے برعکس ظالم و جا بر شخص ملک وقوم کے لئے ناسور ثابت ہوتا ہے۔
جملہ عبادات کا اگر بنظر غائر مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات مترشحّ ہو جاتی ہے کہ ہر عبادت میں عدل شامل ہے۔ عدل کی جامع تعریف جو سلف صالحین سے منقول ہے وہ یہی ہے کہ ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھنا ہے، اُس سے سرمو انحراف عدل نہیں ہے۔ جملہ عبادات کی کماحقّہ ادائیگی بغیر عدل کے ناممکن ہے شرعی نقطۂ نظر سے ہی عدلِ اجتماعی کی ایک تابندہ مثال ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کے دور پر اگر نظر دوڑائیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ انہوں نے عدل وانصاف کے تقاضے پورے کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا کہ میرے اصحابہ رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین ستاروں کی مانند ہیں ان کی اقتداء کر وہدایت پاجاؤگے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی زندگیاں ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زمانہ ہے اور کسی مقام پرلوگوں کے درمیان دوڑ کا مقابلہ ہوتا ہے، اُس مقابلے میں حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیٹا بھی شریک تھا۔ اس مقابلے میں ایک عام شخص کا بیٹا جیت جاتا ہے اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے کو شکست ہو جاتی ہے، مجدی اور سروری کا تصورصحابی کے بیٹے میں بدرجہ اتم موجود ہے، ہزیمت اور شکست نے اعصاب پر اعصاب شکن حملے کیے، دل ودماغ نے حقیقت کا اعتراف کرنے میں عجز کا اظہار کیا، تعصب کی عینک نے فاتح کی تصویر مکدّ ر دکھائی۔ دریں اثناء صحابی رسولصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے بیٹے نے مقابلہ جیتنے والے کوتھپڑ رسید کر دیا۔ جب یہ خبر اُس لڑکے کے والد کو پہنچی تو اُس نے یہ تمام واقعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روبرو پیش کیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو نبی کریمصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے بعد عدل و انصاف میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو طلب فرمایا اور ساری صورتحال سے آگاہ کیا کہ تمہارے بیٹے نے یہ زیادتی کی ہے اور شکست اُٹھانے کے بعد اُس فاتح لڑکے کو کہا ہے کہ تم نہیں جانتے کہ میں معزز لوگوں کا بیٹا ہوں، پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُس کے بیٹے کو اور مظلوم فاتح کو آمنے سامنے کھڑا کرتے ہیں۔ اور فاتح کو فرماتے ہیں کہ معزز لوگوں کے بیٹے کو مارو! اور اس طرح فیصلہ کر کے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہیں۔
عدل کا تقاضا بھی ہے کہ مجرموں کو ان کے جرم کی پوری پوری سزادی جائے اسلام کی عدالت میں ان سے کوئی رعایت نہیں، ورنہ حکومت اور معاشرے کا نظام اپنے وجود کو قائم رکھنے میں قاصر رہے گا۔ اگر چہ مسلمان اجتماعی طور پر عدل کے پابند ہیں، یعنی معاشرے کا، قوم کا، ملک کا ہر فرد عدل کا پابند ہے، ہر ایک اپنی بساط کے مطابق عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے مستعد رہے۔ تاہم اسلامی ریاست اس سے آزاد نہیں ہوسکتی۔ لازماً اس کو بھی عدل و انصاف کا پابند ہونا چاہیے۔ عدل و انصاف کی فراہمی اسلامی عدالت کا فرضِ اوّلین ہے۔ ہمیں اپنے اکابرین ، سلف صالحین ، اور برگزیدہ ہستیوں کے عمل سے یہی بات متبیّن ہوتی ہے کہ انہوں نے ہر زمانے میں عدل و انصاف کے دامن کو تھامے رکھا اور تمام معاملات میں عزت و عظمت نے اُن کا استقبال کیا۔ عدل کے بارے میں علمائے کرام کے اقوال:۔
٭ علامہ ابن ھمام رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ کتاب اللہ اورسنت رسولصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکے مطابق فیصلہ کرنا عدل ہے نہ کہ محض اپنی رائے سے۔
٭ عبدالرّحمن بن ناصرالدین سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ حقوق واجبہ کوخرچ کرنا اورمستحقین میں برابرحقوق تقسیم کرنا عدل ہے۔
٭ ابنِ حزم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا نفس کے حقوق ادا کرنا اور اس سے دوسروں کے حقوق حاصل کرناعدل ہے۔
٭ علامہ شریف جرجانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا افراط اور تفریط کے درمیان امر متوسط عدل ہے اور جو کام دین میں منع ہوں اُن سے بچتے ہوئے صراطِ مستقیم پر قائم رہناعدل ہے۔
٭ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ عدل کا تصور واضح کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں:
بندہ کاحصہ عدل میں بالکل ظاہر ہے اس میں کوئی حق نہیں ہے عدل کے لیے اُس کے نفس کی صفات میں سے اُس کے لیے جو پہلی چیز واجب ہے وُہ یہ ہے کہ ُاس کی شہوت اور اُس کا غضب اُس کی عقل اور اُس کے دین کے تابع ہوں کیونکہ اس نے اگر اپنی عقل کو اپنی شہوت اور غضب کے تابع کر دیا تو اُس نے اپنے اوپر ظلم کیا اور عدل کے لیے دوسری چیز یہ واجب ہے کہ وہ تمام معاملات میں حدود شرع کی رعایت کرے اور ہر عضو میں اُس کا عدل یہ ہے کہ وہ اپنے ہر عضو کو شریعت کے اذن کے مطابق استعمال کرے اور اپنے اہل وعیال میں اس کا عدل یہ ہے کہ اُن کے جائز حقوق کو ادا کرے اور اگروُہ حکومت کے کسی منصب پر فائز ہے تو اُس کا عدل یہ ہے کہ وہ اپنے تمام فرائض کو دیانت داری سے ادا کرے۔
عدل وانصاف کی اہمیت اور فوائد:۔
(1) عدل کرنے والا دنیا اور آخرت میں مامون ہو جاتا ہے، دنیا میں تعریف و تحسین اور آخرت میں اجر وثواب کامستحق گرداناجا تا ہے۔
(۲) عادل بادشاہ کی حکومت اور سلطنت کو استحکام حاصل ہوتا ہے اور دشمن کے حملے کے وقت عوام اُس کی پشت پر ہوتے ہیں۔
(۳) عادل حکمران سے مخلوق راضی رہتی ہے اور اُن کی رضا کی وجہ سے ان سے اللہ بھی راضی رہتا ہے۔
(۴) عدل وانصاف کرنے والا پہلے اپنے اعضاء کے ساتھ عدل کرتا ہے اور ان کو گناہوں سے بچاتا ہے اور اپنے اہل وعیال سے عدل کرتا ہے اور ان کو برائیوں سے اجتناب کرنے کی تلقین کرتا ہے اور نیکی کرنے کی ہد ایت کرتا ہے اور پھر عام مسلمانوں اور معاشرے میں نیکی کا حکم دیتا ہے۔
(۵) عدل اور انصاف سوشلزم ،کمیونزم اور کیپلزم کا راستہ روکتا ہے اور اسلامی نظام معیشت کی راہ ہموار کرتا ہے۔
(۶) عدل و انصاف سے نبیصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی سنّت اور آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی سیرت کی اتباع حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے۔
(۷) عدل اور انصاف لوگوں کے حقوق اور انکی امانتوں کی حفاظت کا ضامن ہے اور اس سے معاشرہ بے چینی، خلفشاری اور انارکی سے محفوظ رہتا ہے۔
(۸) عدل وانصاف قائم کرنالا الہ الا اللہکی شہادت میں اخلاص کی علامت ہے۔
(۹) عدل و انصاف کرنے والے کو قیامت کے دن نورکا لباس پہنایاجائے گا۔
(۱۰) عدل و انصاف کرنے والا قیامت کے دن اللہ کی لعنت سے، فرشتوں کی لعنت سے اور لوگوں کی لعنت سے محفوظ رہے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکی وفات کا وقت قریب آیا تو آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے خطبہ ارشاد فر مایا:
ــ’’جس نے مجھ سے کوئی بدلہ لینا ہے لے لے میں حاضر ہوں!‘‘ آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے اپنے آپ کو بھی قصاص کے لیے پیش کر کے واضح فرمادیا کہ بحثیت بشر نبی کی ذات بھی قوانین شرعیہ سے بالا تر نہیں ہے۔ آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمنے یہ مثال قائم کر کے اُمّت مسلمہ کے لیے راہ عمل کاتعیّن کر دیا۔ وُہ ہستی جس کے بارے میں ہے کہ ’’بعد از خدائے بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘ کی صدائیں منبر ومحراب میں بلند ہوئیں، جن کے توسل سے دعا ئیں اجابت کا جامہ زیب تن کرتی ہیں۔ جن کے نقش قدم پر چلنا باعث ِ رحمت ونجات ہے۔ جن کی حیات طیّبہ ہمارے لیے نمونہ کامل ہے۔ وُہ اگر اپنے آپ کو قانون سے بالاتر نہیں سمجھتے تو ماوشما کس گنتی میں ہیں۔
آج ہم میں سے اگر کوئی دنیاوی عہدے پر فائز ہو، اور اس فانی زندگی پر ترجیح دیتا ہو، اُس کی نظر میں عارضی زندگی کی چمک دمک اُخروی زندگی کی ابدی خوشی سے کہیں بالاتر ہو اور وہ اپنے آپ کو قانون سے مستثنیٰ گردانتا ہو تو پھر اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ اُس کا یہ فعل قابل نفریں تو ہوسکتا ہے لیکن قابل تحسین ہرگز نہیں ہوسکتا۔ وُہ ہستی جس کی اطاعت کو، جس کی فرمانبرداری کو ، جس کی اتباع کو خالقِ کائنات خود اپنی اطاعت کہے اور وہ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر نہ سمجھے اور وقتِ وفات علی الاعلان کہہ دے کہ جس کسی نے بدلہ لینا ہے لے تو پھر عام شخص کیسے مستثنیٰ ہوسکتا ہے۔ قانون کی پابندی ہر کس و ناکس کے لیے لازمی ہے۔
زندگی کا کوئی شعبہ ایسانہیں جس میں عدل کی ضرورت نہ پڑتی ہو۔ ایک مثالی معاشرہ کے قیام کے لیے عدل وانصاف انتہائی ناگزیر ہے۔
لین دین ، معاملات، ملازمتیں ، باہمی تعلقات کے تمام پہلوؤں میں عدل و انصاف کی ضرورت پڑتی ہے اور اس سے فرارنا ممکن ہے۔ ہر معاملہ میں توازن لازمی ہے جہاں اس کی کمی ہوگی وہاں حقوق تلف ہوں گے،خون خرابہ ہو گا حسن محجوب ہوگا، خلفشاری ہوگی ، بدامنی ہوگی ، انار کی ہوگی ، کساد بازاری ہوگی ، زندگی بے بندگی شرمندگی میں بدل کر رہ جائے گی۔ انسانوں کی برادری کے قیام کا انحصار عدل پر ہے، اقوام اور قبائل کے تعلقات کا دارومدار عدل و انصاف پر ہے۔ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کرانا بہت ضروری ہے، کیونکہ اس سے امن قائم ہوتا ہے۔ جہاں کسی عدالتی عمل میں بگاڑ پیدا ہوا وہاں نقص امن نے بھیانک شکل اختیار کر لی۔ عدالتوں کا قیام اس لیے ہوتا ہے کہ وہ عوام النّاس کے درمیان عدل قائم کریں۔ ظالم سے مظلوم کاحق دلوائیں،ظلم و استبداد کی چکی میں پسنے والی انسانیت کے زخموں پر مرہم لگائیں۔ بلا تفریق عدل و انصاف کا بول بالا کریں، اور اپنے رستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کا سد باب کریں۔
عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کروانے کے لیے ریاست کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے عدالت کے ساتھ تعاون کریں۔ قانون سے کوئی ماوراء نہیں ہوتا۔ ہماری تاریخ کے اورق اس قسم کے فیصلوں سے بھرے پڑے ہیں کہ حکمرانوں نے خود اپنے آپ کو کٹہرے میں پیش کیا، جب دل و دماغ میں یہ فتور پیدا ہو جائے کہ میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہوں ، میر اسلسلہ نسب دیگر لوگوں سے ارفع ہے، میں قانون کی گرفت سے بالا تر ہوںتو پھر عدالتی نظام تعطل کا شکار ہو جاتا ہے اور جملہ اراکینِ عدالت بد دلی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس طرح اُن کے فیصلہ کرنے کی جوقوت ہے وُہ بھی متاثر ہوتی ہے۔
ملک وقوم اور معاشرہ اس اندھے قانون میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے، ایسا قانون جو چھوٹے، بڑے امیر و غریب، آ جرواجیر میں فرق روار کھے وُہ ایک عظیم عدلیہ کے قیام کا باعث نہیں بن سکتا۔
دور نبوی ہو، خلفائے راشدین ہوں، دور بنوامیہ ہو، دور بنو عباس ہو جتنے ادواربھی گزرے ہیں سب میں قانونِ الٰہی کی حکمرانی رہی ہے۔ خدائی قانون سب کے لیے ایک ہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نظر میں تمام انسان برابر ہیں۔ اگر کوئی بزعم خویش کسی اعلیٰ نسل سے تعلق رکھتا ہے اور وہ اسلامی قوانین کی دھجیاں اڑاتا ہے، اسلامی شعار کی بے حرمتی کرتا ہے تو اس کے لیے جو عذاب ِآخرت مقرر ہے وُہ ضروراُس کا سزاوار ٹھہر ے گا۔ اس کے برعکس اگر کوئی سیدھا سادا مسلمان ہے، ایک عام گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، سادا مگر پاک لباس زیب تن کرتا ہے اور احکامِ الٰہی کی بجا آوری میں کوئی پس و پیش نہیںکرتا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل پیرا ہے تو اس وجہ سے آخرت کے انعامات سے محروم نہیں رکھا جائے گا کہ وہ ایک عظیم گھرانے سے تعلق نہیں رکھتا ہے یا اس کی نسبت کمزور ہے، اس کو وہ تمام انعامات جس کا وعدہ کیا ہے ضرور ملیںگے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے کہ’’ اے لوگو بیشک ہم نے تمہیں عورت اور مرد سے پیدا کیا اور قومیں اور قبائل بنائے تاکہ تمہاری پہچان ہو۔ بیشک اللہ تعالیٰ کے نزدیک افضل وہ ہے جو پرہیز گار ہے یعنی فضیلت کا دارومدار تقوی پر ہے نا کہ کسی مال و منفعت پر یاکسی رنگ نسل پر جو پرہیز گار ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں فضیلت والا ہے اور جو پرہیز گارنہیں ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں فضیلت والا نہیں ہے۔‘‘ دنیا میں اس کا ایک مقام ممکن ہے، دنیا میں اس کی آؤ بھگت کی جاسکتی ہے، اس فانی زندگی کے ایّام وہ اچھے گزارسکتا ہے، اس عارضی زندگی کے شب وروزر نگین بناسکتا ہے لیکن حقیقی زندگی اور ابدی زندگی میں آسائش وآلام مفقود ہے۔ اپنے حقیقی مالک ، خالق اور رازق جس کی رضا ہر مسلمان کا مقصدِ حیات ہونی چاہیے اس سے وہ کوسوں دور ہے اور یہی اس کی ناکامی ہے اور اس کے خائب و خاسر ہونے کا سبب عدم تقویٰ ہے۔ اگر وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے پروردگار کی نظر میں اعلی مقام حاصل کرلے، اور مناسب رفیعہ پرمتمکن ہوجائے تو اس کوتقویٰ اختیار کرنا ہوگا اور اس کو درِ عدالت پر دستک دینا ہوگی کیونکہ یہی اس کی منزل کے قریب کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ’’اَعْدِ لُوْ ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوی‘‘ عدل کر وتقوی کے زیادہ قریب ہے۔
یہ ایک فطری بات ہے کہ ہر انسان اُس امر کا خواہاں ہے جس میں اس کی منفعت زیادہ ہو، اس کے مفاد میں ہو۔مندرجہ بالا آیت کریمہ سے یہ مستفاد ہوتا ہے، اور یہ مفہوم سمجھ میں آتا ہے کہ انصاف کرو یہ تمہیں تقویٰ کی معراج پر پہنچا دے گا۔ اور تمھیں اُخروی زندگی میں کامیابی مل جائے گی۔
عدل وانصاف کا شجر سایہ دار اُس وقت بار آور ثابت ہوگا جب ہم ہر شعبے میں عدل و انصاف کے بیج بوئیں گے۔ کیونکہ عدل ہر شعبے میں ہو گا تو پھر ہی اس کے اثرات مرتب ہوں گے اور پھر ہی یہ عمل اجتماعی ہوگا اور اگر یہ صرف کسی ایک شعبہ میں ہو اور دیگر شعبہ جات اس وجود سے خالی ہوں تو ایسا عدل انفرادی تو کہلا سکتا ہے عدلِ اجتماعی ہرگز نہیں۔
تعلیمات نبویصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی روشنی میں اگر ہم دیکھیں تو عہد ِنبوی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمسے لے کر اب تک جہاں بھی اسلام کے پیروکار موجود ہیں وہاں زندگی کے تمام شعبوں میں عدل و انصاف کا نور نظر آتا ہے اگر کسی پہلو کی کوکھ عدل سے خالی ہوتو وہاں خلفشاری اور بے چینی تو ہوگی سکون و اطمینان محال ہے۔
عدل کا جیساکہ قبل ازیں ذکر کیا گیا ہے کہ ایک چیز کو اس کا اصل مقام دینا، برابری مساوات، اور یکسانیت اس میں داخل ہیں۔ ہرشخص اپنے اپنے شعبے میں عدل کا پابند ہے اور پھر یہ مل کر ایک اجتماعی شکل اختیار کر جاتا ہے، جس سے معاشرے کے معاشی اور سیاسی تمام شعبے اس کی پرُنور کرنوں سے منور ومستنیر ہو جاتے ہیں اور ایک عظیم معاشرے کی تشکیل ہو جاتی ہے۔
ایک خطیب اگرمحراب و منبر کے تقدس کا خیال رکھتے ہوئے دورانِ خطابت عدل وانصاف کا مظاہرہ کرے گا تو اس کا سامعین پر خوشگوار اثر پڑے گا۔ خطیب اور واعظ کا عدل یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے مطابق اپنی وعظ و نصیحت کے مضمون کو مرتب کرے۔ فرقہ واریت اور مسلکی آگ کو ہوا نہ دیں۔ اسی طرح اُس کا وعظ جہاں پر تاثیر ہو گا وہاں اُس کے دُوررس نتائج برآمد ہوں گے۔
ایک جج اور منصف جس کا منصب یہی انصاف کرنا ہے وہ بھی صرف اسی صورت میں کامیاب عادل اور منصف ہوسکتا ہے کہ اس کے مطالعہ کی میز رشوت، اقربا پروری تعصب اور خودغرضی کی گرد سے پاک اور صاف ہو اور اس کا ذہن ریاست میں استحکام بخشنے کا آرزومند ہو اور اس کے جذبات حبُ ا لوطنی سے معمور ہوں۔
سیاستدان اگر خدمت خلق کا جذبہ لے کر آئے گا، اسمبلیوں کی نشستوں کی زینت بنے گا تو وہ بھی صرف اس صورت میں کامرانی کے گلستان و چمنستان میں گل چینی کر سکتا ہے جب اس کی رگوں میں دوڑنے والا خون عدل و انصاف کے حیات بخش قطروں کی صورت میں محو گردش ہو۔ اگر وہ عدل و انصاف کے زیور سے مزیّن ہوگا تو راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کا خاتمہ اس کے لیے مشکل نہ ہوگا۔ اور حقوق العباد کی پاسداری میں اسمبلی میں اٹھنے والی اس کی آواز ایوانوں کو ہلا کر رکھ دے گی ۔ ظلم و ستم کی گھنگھور گھٹائیں چھٹ جائیں گی۔ اور عدل و انصاف کا آفتاب نمودار ہو جائے گا۔
انسان اگر اپنے اعضاء سے عدل کرے جس مقصد کے لیے وہ بنائے گئے ہیں اسی مقصد کے لیے استعمال کرے تو وہ تندرست و توانا ر ہیں گے اور اپنے ہدف کے حصول میں مستعد رہیں گے، اگر وہ غلط استعال ہوں گے تو ان میں اضمحلال پیدا ہو جائے گا اور توازن برقرار نہ رکھ سکیں گے۔ کسان کا عدل یہ ہے کہ وہ اپنے کھیت وکھلیان کو سرسبز و شاداب بنانے کے لیے شب و روز کاوش کرے، بیج بونے سے لے کر فصل کی کاشت تک انتھک محنت کرے اور پھر اس کی یہ کوشش رنگ لائے گی اورفصل میں خاطر خواہ فائدہ ہوگا۔ اور اس کے کھیت و کھلیان اس کی دن رات کی محنت سے کشتِ زعفران کا نمونہ پیش کریں گے اور اگر اس نے اپنی اس فصل کے ساتھ عدل نہ کیا تو پھر نفع بخش چیز کے علا وہ خس و خاشاک ہی اُگیں گے جومنفعت سے خالی ہوں گے۔
شعبہ تدریس میں عدل کی ایک صورت اس طرح مترشحّ ہوتی ہے کہ معلم اورمتعلم دونوں عدل و انصاف کے تقاضے پورے کریں گے۔متعلم کے لیے یہ عدل ہے کہ وہ ہمہ تن گوش ہوکر تعلیم حاصل کرے اور اپنا پورا وقت اورمکمل توجہ اس کی طرف گامزن رکھے۔ اور معلم کے لیے یہ عدل ہے کہ وہ اپنی تدریس کو کامیاب بنائے۔ سبق کو پڑھانے سے پہلے اس کا مطالعہ کر کے آئے، طلباء کی روحانی تربیت کرے، پورا وقت تدریس پر صرف کرے، طلباء کی ہرلحاظ سے تربیت کرے۔ اگر یہ دونوں معلم اورمتعلم اپنی ذات کے ساتھ عدل نہیں کریں گے تو معلم کی دی ہوئی تعلیم اورمتعلم کے پڑھے ہوئے اسباق معاشرے میں قوم میں اور ملک میں کوئی اہم کردار ادا کرنے سے قاصر رہیں گے۔ نتیجتاً ظلم وستم ، جبر و استبداد کے مہیب سائے ملک کے تعلیمی اداروں اور جامعات کو اپنی گرفت میں لے لیں گے اورتعلیمی ہدف بھی پورا نہ ہو سکے گا۔
طبی شعبہ کی طرف جاتے ہیں تو اُس میں بھی کامیابی اسی صورت میں متبیّن ہوتی نظر آتی ہے کہ مسیحا اپنے پیشہ سے وفا کرے، طبیب اپنے شعبہ سے مخلص ہو، اور یہ اخلاص اس صورت میں پیدا ہوسکتا ہے کہ طبیب مساوات اور عدل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ اگر وہ عادل طبیب ہے تو وہ اپنے پیشے سے وفا کر رہا ہے اس کے برعکس ہے تو وہ حقیقتاً مسیحائی کی عظیم صفت سے متّصف نہ ہے۔ کسی مریض کو وہ کافی دیر تک چیک کرے اور اس کو مفید اورمتمتع مشوروں سے نوازتار ہے، اور کسی کے لیے صرف نبض پر ہاتھ رکھنے کا وقت ہوتو یہ عدل نہیں بلکہ ظلم ہے، جو ایک کامیاب طبیب بننے میں سد سکندری ثابت ہوتا ہے۔ اور یہ ایک مسیحا کے لیے مناسب نہ ہے کہ وہ امیر وغریب، اور چھوٹے بڑے میں دورانِ تشخیص فرق روارکھے۔ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ہی وہ اپنے پیشہ سے مخلص رہ سکتا ہے۔
الغرض زندگی کے جملہ تمام شعبوں میں اگر عدل و انصاف کی بادِنسیم نہ پہنچی تو پھر و ہ ظلم و استبداد کے عفریت کے خونخوار جبڑوں سے کبھی محفوظ نہ رہ سکیں گے۔ اوربحثیت مسلمان اگر ہم نے عدل و انصاف کا دامن نہ تھاما تو پھر ہم نام کے مسلمان ہوں گے، حقیقی اسلام کے روح پرور مناظر سے ہماری آنکھوں کو بھی ٹھنڈک نصیب نہ ہو سکے گی۔ کیونکہ عدل اسلامی احکامات کا ایک جزولا ینفک ہے اور مسلمان اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک اسلام میں ’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجائو‘‘ کے مصداق اسلام میں پورا پورا داخل نہ ہوجائے۔ اجتماعی عدل ہی کامیابی و کامرانی کی قصر رفیعہ پرمتمکن ہونے کا باعث بنتا ہے۔ لیکن آج ہم اس عظیم صفت سے محروم ہیں اور دیار غیر کی آب و ہواکے مسموم جھونکوں نے ہماری خودداری ، عزتِ نفس، اولوالعزمی ، مساوات او ر عدل و انصاف جیسی عظیم خصوصیات کو یکسر ختم کردیا ہے۔ ہمارے سلف صالحین اِن خصائل حمیدہ سے مرصعّ و مزیّن تھے اور ان کو دیکھ کر کفر و شرک کے در و دیوارلرزہ بر ندام ہو جایا کرتے تھے۔
مثال ماہ چمکتا تھا جس کا داغِ سجود
خرید لی ہے فرنگی نے وہ مسلمانی
اسلام نے عدل وانصاف کے عمل کو پورا کرنے کے لیے اصولِ اساس وضع کیے ہیں۔ جو کچھ یوں ہیں
(۱) مدعی اور مدعا علیہ دونوں کو عدالت میں یکساں سمجھا جائے فیصلہ اس وقت ہو جب سماعت مکمل ہوجائے۔
(۲) فیصلہ ظاہری بیانات اور دلائل پر ہو کیونکہ قانون لوگوں کی نیابت اور دلی ارادوں پر مواخذہ نہیں کرتا۔ فرمان رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمہے:۔
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ظاہرکو دیکھ کر فیصلہ کروں‘‘ اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلی بھید جانتا ہے۔
(۳) حضور اکرمصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجاتو نصیحت فرمائی کہ کوئی فیصلہ اس وقت تک نہ کرنا جب تک فریقین کا مقدمہ مکمل نہ سن لو۔
(۴) عدالت کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ شہادت وثبوت مہیا کر نامدعی کی ذمہ داری ہے، عدمِ شہادت کی صورت میں مد عاعلیہ سے بے گناہی کی قسم لی جاتی ہے۔ ’’البینہ علی المدعی والیمین علی من انکر‘‘
(۵) عدالتی کاروائی میں قاضی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس لیے فریقین میں سے کسی کی رعایت کرنے کا حکم نہیں ہے اس کا جھکا ئو اگر کسی طرف ہو تو اس سے انصاف کی توقع عبث ہے۔
یہ تعلیماتِ نبویصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا نتیجہ تھا کہ عرب کے بدّ و راہبر اور رہنما بن گئے اور عرب کے صحراؤں میں بہار آ گئی اور دنیا کے اندر اسلام کے جھنڈے لہرانے لگے کفر و شرک کے در و دیوار میں زلزلہ آ گیا اور عدل و انصاف کے ہر سو چرچے ہونے لگے۔
اک عرب نے آدمی کا بول بالا کر دیا
خاک کے ذرّوں کو ہمدوش ثریا کر دیا
خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مرُدوں کو مسیحا کر دیا
آج اگر ہم تعلیمات نبویصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم پرعمل کرتے ہوئے عدل و انصاف کا دامن تھام لیں اور زندگی کے جملہ شعبوں میں اس پرعمل پیرا ہو جائیں تو ہمارے جملہ اموربحسن و خوبی انجام پانے لگیں گے۔ اور دیگر اقوام سے ہم کسی صورت بھی پیچھے نہ رہیں گے۔جو عدل اجتماعی دور نبویصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم میں تھا، دورصحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین میں تھا، خلفائے راشدین رحمۃ اللہ علیہ میں تھا، دور تابعین میں تھا، دور آئمہ مجتہدین میں تھا، دور سلف صالحین میں تھا، آج ہمارے حیات کے جملہ پہلوؤں کا جز و لاینفک بن جائے تو ہماری ترقی وعروج کی تمام راہیں وا ہو جائیں گی۔ المختصر ہماری بقاء کا راز تعلیمات نبویصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکی روشنی میں عدل و انصاف کے جملہ تقاضوں کو پورا کرنے میں مضمر ہے۔
کٹتا ہے ظالم کا سر تو عدل کی شمشیر سے
ہے بقا مظلوم کی انصاف کی زنجیر سے

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...