Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین |
حسنِ ادب
نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین

میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم
ARI Id

1689956699836_56117632

Access

Open/Free Access

Pages

44

میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم
ایک باوقار ،خودمختار، ذی شعور اور زندہ و بیدار قوم کا یہ شعار ہوتا ہے کہ وہ خود کو فعال و سرگرم اور پر جوش رکھنے کے لیے قومی اہمیت کے حامل دنوں کو کبھی فراموش نہیں کرتی بلکہ انہیں ہمیشہ یاد رکھتی ہے اور جب بھی سال بعد وہ دن آتا ہے تو پورے جوش و جذبے اور ذوق وشوق کے ساتھ اسے مناتی ہے تا کہ نئی نسلیں بھی اس کی افادیت و اہمیت سے آگاہ ہوں اور ان کے اندر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا داعیہ پیدا ہو جس نے انہیں اور ان کے آباؤ اجدادکو اورپوری قوم کو اس نعمتِ عظمیٰ سے نوازا، حریت فکر، مقام ِبندگی اور حصولِ سعادت کے آداب سے آشنا کیا اور یہ ذوق و دیعت کیا کہ میدان میں آئیں اور اپنی آزادی و بقائ، عقائد ونظریات اور تہذیب وشعار کی حفاظت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں اورکسی کوقومی وجود کی طرف دستِ تعدی دراز کرنے اور نظریاتی سرحدوں پر شب خون مارنے کی اجازت نہ دیں۔
حضور نبی کر یمصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم پیر کے دن روزہ رکھا کرتے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمسے پوچھا گیا کہ آپ اس دن روزہ کیوں رکھتے ہیں تو آپصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا (’’اَنَاوُلِدْتَ‘‘) میں روزہ اس لیے رکھتا ہوں کہ اس میں میری ولادت ہوئی ہے۔ اُمت کے لئے اس سے بڑھ کر قومی اہمیت کا دن اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اپنے نبیصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی ولادت کے دن کو دھوم دھام سے منانا، جائز حدود کے اندر رہ کر خوشی کا اظہار کرنا، غربا و مساکین کو کچھ کھلانا، روزہ رکھنا ، عبادت کرنا، دُرودوسلام کا نذرانہ پیش کرنا، اس دن کے حوالے سے ضروری ہی نہیں بلکہ سعادت مندی کی دلیل بھی ہے۔ جب حضورصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے خود اس دن کو منایا اور اسے روزے کے لیے خاص کیا تو نیاز منداُمت کا بدرجہ اولیٰ یہ فرض بنتا ہے کہ اسے خصوصیت کے ساتھ منائے اسے ذکر ودعا اور دُرودوسلام کے لیے مختص کرے اور اپنے عظیم نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکی سنت پر عمل پیرا ہو۔
میلاد کیلئے ’’عید ‘‘کے لفظ کا استعمال:۔
بعض کج فہم ،کور ذوق میلادِ مصطفیٰ کیلئے لفظ ’’عید کا استعمال ‘‘ انتہائی بُرا تصور کرتے ہیں۔ حالانکہ اہل تحقیق کے نزدیک یہ کوئی قابل گرفت امرنہیں۔
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’حضرت سید ناعیسیٰ علیہ السلام بارگاہِ کبریائی میں عرض کرتے ہیں:۔
’’اے اللہ! اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل فرما کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ، ہمارے اگلوں پچھلوں کی‘‘ (پارہ۷ ، رکوع ۵)
بخاری’’ کتاب الایمان‘‘ میں روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک یہودی کہنے لگا کہ ’’ اے امیر! تمھاری کتاب میں ایک ایسی آیت ہے کہ اگر ہم پر وہ نازل ہوتی تو ہم اس کے ’ ’ یوم نزول‘‘ کو عیدقراردیتے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ’’وہ کونسی آیت ہے‘‘ وہ بولا!
’’آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل فرمایا اورتم پراپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام کو چننے کے لیے راضی ہوگیا‘‘ (پارہ ۶، رکوع ۵)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشادفرمایا کہ ہم نے اس دن کی اہمیت اور اس کے مقام کو ذہن نشین کر لیا ہے۔ قرآن پاک اور صحاح ستہ کی عظیم کتاب بخاری شریف کی حدیث سے یہ بات مُترشحّ ہورہی ہے کہ نعمت کے ملنے کے دن کو اور قرآنِ پاک کی آخری آیت کے نزول کے دن کو عید کہا جارہا ہے۔ ذرا سوچنے کی زحمت گوارا کریں کہ یہ تمام تر تعریفیں آخر کس کے صدقہ مل رہی ہیں؟ قرآنِ پاک کی آخری آیت نازل ہوتو عید کی خوشیاں حاصل ہو جائیں اور اگر خاتم النبین تشریف لائیں تو پھر ہم کیوں نہ عید منائیں۔ حقیقت میں یہی تو عید ہے کیونکہ سب عیدیں اور خوشیاں اسی عید کے صدقے ملی ہیں۔
میلا د اور قرآن پاک:۔
اور یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ دیا میں نے تم کو کتاب اور حکمت سے پھر آیا تمہارے پاس عظمت والا رسول، جو تصدیق کرنے والا ہے اس کی جو تمھارے پاس ہے تو تم ضرور اس پر ایمان لاؤ گے اس کی ضرور مدد کرو گے۔ (آل عمران، ۸۱)
اس آیت میں ذکرمصطفی ہواحضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکی تشریف آوری کا ذکر سب سے پہلی محفل جوصرف انبیاء کی تھی میں ہوا۔ گویا حضورصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے میلا د کا ذکر کرنے والا خدا اور سامعین انبیاء تھے۔ علاوہ از یں قرآنِ پاک سارے کا سارا شان مصطفی بیان کر رہا ہے۔ قرآنِ پاک میں موجود جملہ آیات ذکر ِرسول کی شمع سے منور ومُستنیر ہیں۔
میلا داور حدیث:
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی محفل میںاپنا میلادیوںبیان کیا’’میں تم کو اپنے ابتدائی معاملات کی خبر دیتا ہوں،میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خوشخبری ہوں اور میں اپنی والدہ کا وُہ چشم دید منظر ہوں جو انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا تھا کہ ان کے جسم پاک سے ایک ایسا نور نکلا جس کی روشنی میں شام کے محلات نظر آ گئے‘‘ (مشکوٰۃ باب فضائل سید المرسلین ،۵۱۳)
اس حدیث پاک سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کے اجتماع میں خود اپنی محفل میلاد منعقد فرمائی، اور اپنی ولادت، اپنا حسب نسب، اپنی خاندانی شرافت کا بیان فرما کر اپنی اُمت کو بھی میلاد منانے کی ترغیب عنایت فرمائی۔
میلاد اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین:۔
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضو رصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکی شان میں نعتیہ قصیدے لکھے اور پڑھے حضورصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ان پر اظہار خوشنودی فر مایا اور اُن کے لیے یوں دعامانگی۔
اَللّٰھُمَّ اَیَّدْ ہ‘بِرُوْحِ الْقُدُسْ = ’’اے اللہ(حسان) کی مددفرماروح القدس کے ساتھ‘‘ (بخاری ج۱ص ۲۵)
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے نعتیہ اشعار میں حضو رصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکی ولادت کا تذکرہ بھی فرمایا۔
میلادالنبیصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی محفل میں تلاوت ، نعت ،تقر یر (میلاد کے موضوع پر یا سیرت کے موضوع پر) اسلام، اور قرآنِ پاک پڑھا ہوا طعام، یہ تقریبا ًجلسہ میلادالنبیصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکے ارکانِ خمسہ ہیں اور انہی پر تقریبا ًعرصہ دراز سے عمل ہورہا ہے۔ دورِ رسالت، دورِصحابہ ، دورِ تابعین، دورِ تبع تابعین ، دورِ اولیائے کاملین میں متقدمین اور متاخرین سلف صالحین کسی نہ کسی شکل میں میلادالنبیصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکی محافل سجاتے رہے ہیں۔
میلاد النبیصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی محفل کی ہیئت کذائی میں کوئی چیز ایسی نہیں جس سے کسی ذی شعور کو اعتراض ہو اگر ہوگا تو موجو دہ طور طریقوں سے ہو گا۔ میلادالنبیصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے جلسے کا موازنہ دورِ رسالت مآبصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمیادورِ صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین سے کرتے ہیں تو وہاں اگرچہ یہ انداز نظرنہیں آتا لیکن حضورصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی ولادت کے تذکرے ضرور ہوئے۔ اس کے برعکس ایسی باتیں ہیں جو زمانہ نبوّت میں نہ تھیں لیکن اب ہیں اور سب بسرو چشم اُ ن کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ لیکن سال کے بعد جب حضورصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی ولادت کا مہینہ آتا ہے تو آسمان سر پر اُٹھالیا جا تا ہے کہ یہ حضورصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے دور میں نہیں ہوا اب کیوں ہورہا ہے۔
قرونِ اولیٰ کے برعکس امور جن پر سب متفق ہیں ( اختلاف ہے تو صرف میلادالنبیصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے جلسے پر ) درج ذیل ہیں۔
(1) مسجدوں کا پختہ کرنا (۲) مسجدوں کو مزیّن کرنا
(۳) لا ئوڈسپیکر کا استعمال (۴) قرآن مجید پرز یرز برلگانا
(۵) عیدملن پارٹی کا اہتمام کرنا (۶) یوم خلفائے راشدین منانا
(۷) درس نظامی قائم کرنا
علی ھذالقیاس کئی مروجہ امور ایسے ہیں جو حضور پاکصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے کیے تھے اورنہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے کیے لیکن ہم ببانگ دہل کرتے ہیں۔ تو کیوں نہ ایسا ہو کہ ہم میلادالنبیصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکے جلسوں اور ذکرِ ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکے پروگراموں جن کی برکات سے اپنے تو اپنے غیر بھی محروم نہیں ہوتے سے سمجھوتہ کر یں اور دین و دنیا کی بھلائیاں اپنے دامن میں سمیٹیں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...