Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین > صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے ہے خدا کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم

نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین |
حسنِ ادب
نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین

صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے ہے خدا کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم
ARI Id

1689956699836_56117633

Access

Open/Free Access

Pages

48

’’صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس‘‘
امت کے بہترین افراد کو نبیصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کے نام سے یاد کیا جا تا ہے ، یہ ایسے نفوس قدسیہ ہیں جن کے پیشِ نظر نزول وحی ہوتا ہے۔ جن کی نظر یں جلوۂ نبوت کا طواف کرتی ہیں۔ جن کے کانوں سے زبانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمسے نکلنے والے الفاظ معانقہ کرتے ہیں، جن کی کفِ پانقش نعلینِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکی تلاش میں سر گرداں رہتی ہیں، جن کے شب وروز معجزات نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکی نظر یں جن کی تربیّت کرتی ہیں، جن کی آنکھوں میں نبوت سراپا، قلوب و اذہان میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکی سوچ اور تعمیر میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا کردار پیش نظر ہوتا ہے۔
جس طرح جملہ انبیاء کرام علیہ السلام میں گنبدِخضریٰ کے مکین کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی بھی مثال دیگر انبیاء علیہ السلام کے صحابہ سے نہیں ملتی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے جانثار تھے لیکن جانثاری کی جو مثالیں صدیقِ اکبر ثنے قائم کیں۔ تاریخ کے اوراق ایسی مثال سے قاصر ہیں۔ تاریخِ اسلام کا مؤرخ ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے، تاریخِ عالم رقم کرنے والے جملہ مؤرخین ایک عظیم محبت اور جانثاری کی مثال دینے کیلئے اپنے لبوں کو اور اپنے قلم کوجنبش دینے میں بے بس نظر آتے ہیں۔ سیدنا صدیقِ اکبر ص کا اوڑھنا بچھونا سنت ِمصطفی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم تھی۔ ’’صدیق کیلئے ہے خدا کا رسول بس‘‘ یہ ان کی کتاب زیست کا جلی عنوان تھا اور ان کی پوری شخصیت اسی عنوان کے گرد طواف کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
سیدنا صدیقِ اکبرص علم و دانش اور فضائل حسنہ کا مہر عالم افروز ہیں۔ آپ ص شعور وآگہی کے میدان کے شاہ سوار ہیں۔ آپص کی عظمت و مرتبت کے ناقوس پورے عالم اسلام میں بج رہے ہیں ان کے گلستانِ محبت و مؤدت کی جس گلِ اقدس کی طرف نظر اٹھتی ہے پلکوں پر تازگی و طراوت کے موتی چمکنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اور اس گل حق وصداقت کی عطر بینر خوشبو سے مشامِ جام معطر ہو جا تا ہے۔ ان کے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمعزم و استقامت، انفاق فی سبیل اللہ ، زہد وتقویٰ ،فہم و تدبر ،سخاوت و ایثار، شرافت و نجابت ،حلم، تحمل برد باری، جرأت و بہادری ، اکرام ضعیف، دستگیری ناتواں ، حمایت بے کساں جیسے طرز زندگی اور منفرد اندازِ حیات نے ان کو معاصرین میں یکتائے روزگار بنا دیا ہے۔
آپص۵۷۳ء میں مکہ میں پیدا ہوئے ، قبل از اسلام آپ صکوعبدالکعبہ کے نام سے پکارا جاتا تھا اور جیسے ہی آپص نے غلامیٔ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا پٹہ گلے میں ڈالا، چوکھٹ مصطفوی پے جبین نیاز رکھنے کا موقع ملا اور آفتابِ دینِ اسلام کی مستنیر شعاؤں نے جب آپ صکی شمع کوروشن کیا تو آپ صکاا سمِ گرامی عبدالکعبہ سے عبداللہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ آپ ص قریش کے معزز قبیلے بنوتمیم سے تعلق رکھتے تھے ،شجرۂ نسب دونوں طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے مل جاتا ہے۔ آپص کی کنیت ابو بکرتھی ، ابوبکر کا مفہوم ’’پہل‘‘ کرنا ہے کے معنی ہیں۔ آپ صتمام قابل ستائش اعمال میں سبقت لینے والے اور پہل کرنے والے تھے۔ اس لیے ابوبکر مشہور ہوئے۔ سب سے پہلے جو نابغۂ روزگار ہستی زیورِ اسلام سے مرصعّ ہوئی وُہ سیدنا ابوبکرصکی ذات با برکات تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکاارشاد گرامی قدر ہے کہ میں نے جس کے سامنے اسلام پیش کیا۔ اس میں فکر وتردّد کی جھلک محسوس کی۔ لیکن جب میں نے حضرت ابو بکر صدیقص کے سامنے اسلام پیش کیا تو انہوں نے بلا جھجک اسے قبول کر لیا۔ آزاد اور بالغ مردوں میں سب سے پہلے اس رجل رشید نے ۳۸ سال کی عمر میں ۲۱۰ء ؁میں اسلام کی خلعتِ فاخرہ زیب تن فرمائی۔ آپ ص نے تبلیغِ اسلام اورا نفاق فی سبیل اللہ میں بے مثال کردار ادا کیا۔ آپ صکی مساعی جمیلہ سے اکابرِ صحابہ مشرف بہ اسلام ہوئے اس کے علی الرغم اپنی جیب خاص سے حضرت بلال حبشیص، حضرت عامر بن فہیرہ صاور کئی دوسرے غلام خرید کر آزاد کئے علاوہ ازیں حضرت ہندیہ رضی اللہ عنہا اور دوسری کئی کنیز یں جن کی تعداد تقریباً سات لکھی ہے خرید کر آزادکیں۔
اسلامی غزوات کے موقع پر آپ صرسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اس کے گرد پروانہ وار نظر آتے ہیں۔ غزوہ تبوک کے موقع پر گھر کا سارا اثاثہ یہ کہتے ہوئے پیش کرتے ہیں ابقیت لھم اللہ ورسولہ۔ یعنی ان کے واسطے اللہ اور اس کا رسول چھوڑ آیا ہوں۔
پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس
انتہائی برد بارا ورتحمل مزاج انسان تھے۔ کئی مواقع ایسے آئے کہ آپص کی بردباری اور موقع شناسی کی بدولت بڑے بڑے خطرناک قسم کے واقعات رونما ہونے سے رُک گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے ظاہری وصال کے موقع پر مدینہ منورہ میں کہرام مچ جا تا ہے اور لوگوں کی آنکھوں میں اندھیرا چھا جاتا ہے، عجیب بے چینی، پریشانی اور افراتفری کا عالم ہے۔ لوگ اضطرابی کیفیت سے دوچار ہیں۔ حضرت عمر فاروق ص اعلان فرماتے ہیں کہ جو یہ کہے کہ اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم وفات پا گئے ہیں تو میں اس کا سرقلم کر دوں گا لیکن جب حضرت ابوبکرص کو اس بے چینی اور بے کلی کا پتہ چلتا ہے تو فوراً مسجد نبوی میں تشریف لاتے ہیں’’ بعداز انبیاء بزرگ تر‘‘ کے مصداق یہ انسان عظیم فیصلہ کرتا ہے جس سے دنیا کے نہایت زیرک او ر فطین قضاۃ انگشت بدنداں ہیں، کہ ایسے شخص کے سامنے جس کی ہیبت کے سامنے قصرِ کفر و شرک میں سکونت پذیر انسان پرلرزہ طاری ہو جاتا ہے آپ ص پُرشگاف انداز میں اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ’’ لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم وفات پا چکے ہیں۔ لیکن خدائے قدوس قائم و دائم ہے قرآن اور سول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی سنت ہمارے اندر موجود ہے، اس لئے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔‘‘ آپ صکے ان الفاظ سے تمام لوگ سنبھل جاتے ہیں۔ ہر ایک کی ڈھارس بندھ جاتی ہے، افراتفری اور بے چینی کی گھٹائیں چھٹ جاتی ہیں اطمینان و سکون کی قوسِ قزح نمودار ہو جاتی ہے، اور ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ کا مفہوم اپنی رعنائیوں کے ساتھ سمجھ میں آجاتا ہے۔ موت برحق ہے ہر ایک نے مرنا ہے، ہر ایک کی روح نے قفس عنصری سے پرواز کرنا ہے، موت پر تمام مسالک اور فرقے متفق ہیں۔یہاں تک کہ انبیاء علیہ السلام جیسی عظیم ہستیوں نے بھی اس مرحلے سے گزرنا ہے اگرچہ یک آن ہی کے لئے کیوں نہ ہوا۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
ازاں بعد سیدنا عمرفاروق صمقام صدیق ص کو سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ سیدنا صدیق اکبرص بھی بے قراری اور بے چینی کا اظہار کرتے تو خدا جانے کتنے فتنے رونما ہو جاتے۔ حضرت ابو بکر صد یقص نے سفر میں ،حضر میں ہر جگہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا ساتھ دیا اور آج مزار میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے ساتھ آرام فرما ہیں۔ آپ صدوسال اور تقریبا ًچار ماہ خلافت کے عہدے پر فائز رہے۔ آپ صنے ۴۳ سال کی عمر میں ۲۲ جمادی الآ خری ۱۳ ھ کو وفات پائی۔ حضرت عمر فاروق صنے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ (ماخوذکراماتِ صحابہ)
نبی اکر م صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکا ارشاد ِگرامی ہے۔ ’’اصحابی کالنجوم اقتیدتم اھتد تیم‘‘ میرے صحابی ثستاروں کی مانند ہیں ان کی اقتداء کرو ہدایت پا جاؤ گے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ صحابہ کرام ث کی زندگیوں کا نہ صرف مطالعہ کیا جائے بلکہ ان کی حیات مبارکہ کو مشعلِ راہ بنا دیا جائے۔ ان کی زیستِ طیبہ کو اپنا کر ہی اپنی زندگی میں رعنائیاں بکھیری جاسکتی ہیں۔ ان کے افعال و اقوال پر عمل پیرا ہو کر اپنے معاملات میں نکھار پیدا کیا جائے۔ صرف زبانی جمع خرچ سے کام نہیں بنتے۔ حقیقی محبت صحابہ ث کی ضرور رنگ لائے گی ، زبان سے صبح و شام صحابہ ث کا راگ الاپتے رہیں اور ہمارے اعمال ان کے فرامین کے برعکس ہوں تو یہ بات قطعاً محمودومستحسن نہ ہے یہ ظاہری محبت آپ کے اپنے ضمیر کوتو کچھ ایّام کے لئے مطمئن کر سکتی ہے لیکن سلف صالحین سے حقیقی محبت کی چاشنی صرف ان لوگوں کو نصیب ہوگی جن کی زندگیوں میں ان نفوس قدسیہ نے اپنے اعمال کے ذریعے انمٹ نقوش چھوڑے ہوں گے اور یہ خوش نصیب طبقہ ہی دین و دنیا کی خوشیاں سمیٹتا ہے اور دنیاکے ساتھ آخرت میں بھی وافر حصہ وصول کرتا ہے۔ اس لئے کہ اس کی حیات ِمبارکہ میں عملاً صحابہث کی محبت رچ اور بس چکی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سیدنا صدیق اکبرصکے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ سیرتِ صحابہ ث پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم اپنی عظمت ِرفتہ کو دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...