Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین |
حسنِ ادب
نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین

شبِ برات اور آتشبازی کی قبیح رسم
ARI Id

1689956699836_56117651

Access

Open/Free Access

Pages

88

شب برات اور آتش بازی کی قبیح رسم
انسان کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ کام تھوڑ ا کر نا پڑے اور اس کی مزدوری اور اُجرت زیادہ مل جائے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی کچھ اوقات ایسے مقرر کیے ہیں کہ اس میں دین اسلام پر کار بند شخص تھوڑی سی عبادت کر کے ڈھیروں ثواب کما سکتے ہیں۔ ان اوقات میں لیلۃ القدر یعنی شب برات بھی ہے جو پندرہ شعبان المعظم کی رات ہے اور کروڑوں مسلمان اس رات میں شبِ بیدار ی کر کے اپنے پروردگار کے سامنے سر بسجدہ ہوتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی کے طلبگار ہوتے ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے کہ:۔
’’حم قسم ہے کتاب مبین کی بیشک ہم نے اتارا ہے اسے ایک برکت والی رات میں بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں، اس رات ہرحکمت والا کا م بانٹ دیا جا تا ہے۔‘‘
تشریح! یہاں کتاب مبین سے مراد کلام اللہ یعنی قرآنِ مجید فرقانِ حمید ہے اگر چہ بعض مقامات پر اس سے مرادلوح محفوظ بھی ہے۔ نزولِ قرآن کی رات کی عظمت و فضیلت کو ظاہر کرنے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کی قسم ارشاد فرمائی۔ لیلۃ القدر برکتوں والی رات اس رات کے تعین میں مختلف اقوال ہیں لیکن عام طور پرد وقول زیادہ مشہور ہیں ایک تو یہ کہ اس سے مراد لیلۃ القدر ہے جو ماہ ِرمضان شریف میں آتی ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد شب ِبرات ہے جو شعبان المعظم کی پندرھویں رات ہے جیسا کہ تفسیر مظہری میں ہے۔ حضرت عکرمہصنے کہا کہ یہ پندرھویں شعبان کی رات ہے جس میں سال بھر کے امور لکھ دیئے جاتے ہیں جنہیں مرنا ہوتا ہے انہیں زندوں کی فہرست سے نکال دیا جاتا ہے پھر ان میں نہ زیادتی کی جاتی ہے نہ کمی۔
حکیم الامت مفتی احمد یار خاںنعیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ اس رات سے مراد یا شب قدر ہے (ستائیسویں رمضان ) یا شبِ برات ( پندرھویں شعبان) ہے (تفسیر نورالعرفان تحت آیت مذکورہ ) بہرحال جنہوں نے کہا لیلۃ المبارک سے مراد شعبان المعظم کی پندرھویں رات یعنی شب برأت ہے۔ انہوں نے بھی بعض دلائل کی بنا پر کہا ان دلائل کا ذکر دوران تحریر اشارہ ہوگا ’’ نزلناہ‘‘ ہم نے اتارا اگر چہ معنی دونوں کا اتارنا ہے لیکن اس کے باوجود دونوں میں فرق ہے۔ انزلنا کامعنی ہے ہم نے بتدریجاً اتارا، ہم نے وقتا ًفو قتاً نازل کیا تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا۔
مذکورہ بالا آیت میں بھی چونکہ ’’(انزلنا)‘‘ کا صیغہ بولا گیا تو آیت کا مفہوم یوں ہوگا۔ یقینا ہم نے اس قرآن کو ایک بابرکت رات میں دفعۃً نازل کیا تو اس سے مراد تو آغاز نزول قرآن ہو گا یا نزول اوّل ہوگا جو کہ لوح محفوظ سے پہلے آسمان پر ایک مقام خاص میں جسے بیت المعمور کہا جا تا ہے، یکبارگی نازل ہوا۔ چنانچہ صاحب تفسیر روح المعانی رقم طراز ہیں۔ اس بابرکت رات میں نزولِ قرآن سے مراد قرآن مجید کا لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر یکبارگی اور دفعۃً نازل ہونا ہے، رہا اس کا نزول منجم (تدریجاً) جو کم و بیش تئیس سال تک جاری رہا تو وہ آسمان دنیا سے قلب اطہر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکی طرف تھا یہ قولامام ابن جریر وغیرہ سے مروی ہے اوریہ بھی ہے کہ آسمان دنیا میں اس مقام کا نام بیت معمور ہے جہاں قرآن مجید کا نزول ہوا اور وہ خانہ کعبہ کی چھت کے عین اوپر ہے یہاں تک کہ اگر بیت المعمور سیدھانیچے زمین پر اترے تو خانہ کعبہ کی چھت پر اترے۔(تفسیر روح المعانی)
خیال رہے کہ قرآنِ مجید کی مختلف آیات اور مفسرین کرام کے اقوال کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ ’’انزلنا‘‘ جیسے نزول اوّل پر بولا گیا ہے ایسے ہی نزول ثانی پربھی بولا گیا ہے جیسا کہ سورۃ القدر میں ہے انا انزلنہ فی لیلۃ القدر۔ ہم نے اس قرآن کولیلۃ القدر میں نازل کیا، یعنی نازل کرنا شروع کیا۔ اہل علم پہ یہ بات مخفی نہیں کہ یہاں بھی دفعۃًاور یکبارگی کامعنی پایا گیا اس لیے کہ ہر وحی دفعۃً اور یکبارگی نازل ہوئی۔
’’لیلۃ مبارکہ‘‘’’ایک بابرکت رات ‘‘قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں متعدد چیزوں کو مبارک یعنی با برکت کہا گیا ہے ان میں سے ایک بیت اللہ شریف بھی ہے، جس کے بارے میں رب قدیر فرماتا ہے۔
بیت اللہ شریف بابرکت ہے تمام جہانوں کا راہنما ہے۔ بابرکت ہونے کی وجہ اوّل بیت اللہ شریف اور شبِ برات میں ایک قدر مشترک ہے جس کی وجہ سے دونوں بابرکت ہیں جس طرح اخلاص وللہیت کے جذبے سے سرشار ہو کر بیت اللہ شریف کی زیارت کر نیوالا گناہوں سے پاک ہو جا تا ہے۔ ایسے ہی شب ِبرأت میں کوئی گناہ گار اور سیاہ کار تائب ہو کر اور اخلاص کے جذبے سے سرشار ہو کر قیام کرے تو اللہ اسے گناہوں سے پاک فرمادیتا ہے۔ بابرکت ہونے کی وجہ ثانی! نزولِ قرآن کی نسبت اس رات کی طرف ہے کہ اس رات قرآن نازل ہوا اس لیے یہ رات بابرکت ہوگئی۔ چنانچہ تفسیر روح المعانی میں ہے اس رات کو ’’مبارکہ‘‘ (بابرکت) کہنے کی وجہ یا تو یہ ہے کہ اس میں قرآن نازل کیا گیا جو تمام تر دینی و دنیاوی عزتوں کا باعث ہے۔ یا یہ کہ اس رات فرشتوں اور رحمت ِخداوندی کا نزول ہوتا ہے اور دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ نیز اس رات عبادت کرنے کی بے شمار فضیلت ملتی ہے یا یہ کہ اس رات مخلوق کا رزق لکھا جاتا ہے۔ تقدیریعنی موت وغیرہ کے فیصلے ہوتے ہیں یا یہ کہ اس رات نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے تیرھویں شعبان کی رات کو اپنی امت کے لیے بخشش مانگی تو تہائی امت کے حق میں آپ کی شفاعت قبول ہوگئی پھر چودھویں رات کو بخشش مانگی تو دوتہائی امت کی بخشش ہو گئی پھر آپ پندرھویں شعب (شبِ برأت) کو بخشش مانگی تو ساری امت کی بخشش ہوگئی ، سوائے اس شخص کے جو مالک سے بھاگتے ہوئے شریر اونٹ کی طرح اللہ کانا فرمان ہو کر اس کی رحمتوں سے دور ہو گیا۔ ’’نکتہ کی بات یہ ہے اور قابل غوربھی ہے اس سے پتہ چلا کہ جس رات نزول قرآن ہوا اگر با برکت ہے تو جس رات نزولِ صاحب ِقرآن ہوا وہ کیوں نہ بابرکت ہوگی۔ واقعی یہ رات بابرکت ہے۔
(1) اس رات دریائے رحمت میں طغیانی آتی ہے جو گنہگاروں کے گناہوں کو خس و خاشاک کی طرح بہالے جاتی ہے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ارشادفرمایا کہ جبریل امینں میرے پاس آئے اور فرمایا آج نصف شعبان کی رات ہے، اس رات اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد میں بندوں کو دوزخ سے آزاد کرتا ہے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ مشرک کی طرف نظر رحمت نہیں فرماتا اور نہ ہی ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والے والدین کے نافرمان اور شراب پینے والے کی طرف نظر رحمت فرماتا ہے۔
(۲) حضرت ابو موسیٰ اشعری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ارشاد فر مایا کہ اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں رات کو تجلی فرماتا ہے اور سوائے مشرک اور دل میں کینہ ر کھنے والے کے ساری مخلوق کو بخش دیتا ہے۔ (مشکوۃ شریف بجوالہ ابن ماجہ) حضرت علی صراوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمنے ارشادفرمایا : مسلمانو! جب شعبان کی پندرھویں رات (شب ِبرأت) ہوتو رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو بے شک اللہ تعالیٰ (چودھویں کا سورج غروب ہوتے ہی آسمان دنیا پر تجلی فرماتا ہے اور اس کی رحمتیں پکار پکار کر بندوں سے کہتی ہیں سنو!سنو! ہے کو ئی تم میں سے بخشش طلب کرنیوالا کہ میں اس کو بخش دوں، ہے کوئی تم میں سے رزق کی فراوانی مانگنے والا کہ میں اس پر رزق کے درازے کھول دوں، ہے کوئی پریشانیوں میں گھرا ہوا کہ میں اس کی پریشانیاں دور کر کے اسے سکون و عافیت عطا کر دوں۔ طلوع فجر تک رحمتیں بندوں کی تلاش میں رہتی ہیں۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے ، راہروِ منزل ہی نہیں
اللہ تعالیٰ نے اس رات کی صورت میں جو انعامات کی بارش ہم پر کی ہے وہ اظہر من الشمس ہے لیکن ہم ہیں کہ اس عظیم نعمت کی قدر نہیں کرتے ۔ اس رات کو پاک صاف ہو کر نوافل ادا کئے جائیں، تلاوت کلام پاک کی جائے ، حقوق اللہ پورے کرنے کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی طرف توجہ دی جائے۔ ہمسائے میں اگر کوئی غریب اور مفلوک الحال گھرانہ موجود ہے تو اس کی مدد کی جائے ، یتیم اور مسکین کو تلاش کر کے اس کی طرف دست تعاون دراز کیا جائے ، بیوہ اور غربت کی چکی میں پسنے والی خاتون کی غربت اوربے کسی کا خیال رکھا جائے۔آتش بازی سے پرہیز کیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی دولت کا اسراف بھی ہے اور اس سے کئی ناخوشگوار واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں ۔ آتش بازی کے کاروبار سے وابستہ لوگوں کو متنبہ کیا جائے کہ اس غلط حرکت سے اجتناب کریں۔ اور نونہالانِ چمن کو اس قبیح عادت سے جو اس عظمت والی رات کے درخشندہ ماہتاب کو گہنانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے محفوظ رکھیں۔ آتش بازی کے بے دریغ استعمال سے کئی جانیں ضائع ہوتی ہیں، کئی گھر تباہ و برباد ہوتے ہیں اور کئی بچے ہاتھ پاؤں سے معذور ہو کر اپنی زندگی بھیک مانگ کر گزارتے ہیں۔ اس لیے اس رات کی نورانیت سے اپنے دلوں کو منور کیا جائے نہ کہ آتش بازی سے گھر کے گھر ویران اور برباد کیے جائیں۔ اسلام مال کے ضیاع کی نفی کرتا ہے اور فضول خرچوں کو شیطان کا بھائی قرار دیتا ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...