Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین |
حسنِ ادب
نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین

ہم ہیں وطن کے پاسباں/ ہم وطن کے محافظ
ARI Id

1689956699836_56117655

Access

Open/Free Access

Pages

99

ہم ہیں وطن کے پاسباں /ہم وطن کے محافظ
وطن اس خطہ زمین کو کہتے ہیں جس سے انسان کو نسبت ہوتی ہے، جس کی فضا سے انس ہوتا ہے، جس کی ہوا سے اسے موانست ہوتی ہے۔ یہ فطر تی بات ہے کہ جس جگہ انسان کی پیدائش ہوتی ہے وہاں کی ذی روح اور غیر ذوی العقول مخلوق سے قلبی لگاؤ ہوتا ہے اور پھر اس تعلق اور لگاؤ کی بنیاد ہر دم واپسیں تک اس کا یہ سلسلہ مؤدت قائم رہتا ہے۔
انسان کے ساتھ اس محبت اور پیار کے اٹوٹ انگ کے طور پر عمر بھر منسلک رہتا ہے اور یوں اس کے شب و روز گزرتے رہتے ہیں ۔بحیثیت مسلمان تو وطن کے ساتھ محبت اور بھی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ ارشاد رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ہے ــ’’ حب الوطن من الایمان‘‘ وطن کی محبت ایمان سے ہے۔ یعنی تکمیل ایمان کے لیے وطن کی محبت انتہائی ضروری ہے۔ اور یہ جس کے ساتھ حقیقی محبت ہو، جس کے ساتھ زندگی کے ایّام بحسن وخوبی گزارے ہوں، اُس کی حفاظت اور اس کی پاسبانی بھی ضروری ہو جاتی ہے۔ اگر اُس کی حفاظت اور پاسبانی کا فریضہ ادا کرنے پرنفس آمادہ نہ ہو اورطبع نازک پر یہ گراں گزرے تو پھر وطن کی محبت کا دعویٰ زبانی کلامی تو ہو سکتا ہے اس کا حقیقت کے ساتھ دور کا بھی واسط نہیں ہوتا۔ ایک شخص حفاظت کا دعویدار ہے لیکن اس کی موجودگی میں عنادل خوش الحان کی بجائے بوم نے شاخہائے وطن پر قبضہ کر رکھا ہے تو اس کی حفاظت اور محبت کا یہ دعویٰ کھوکھلا ہے۔ ایک دہقاں کی زبان کھیت و کھلیان سے محبت کا اظہار کرتی ہے لیکن اس کی خوبصورتی کو خس و خاشاک نے ختم کیا ہوا ہے تو اس کا یہ قول بھی درست اور صائب نہ ہے۔ وطن ہمارا ہے اور ہم اسے جان سے بھی زیادہ عزیزسمجھتے ہیں۔ اس کی فضاؤں کی سرسراہٹ ، اس کی ہواؤں کی آہٹ ، اس کی آبشاروں کی گڑگڑاہٹ ، اس کی بادلوں کی گھن گرج، اس کی بادِنسیم کی اٹھکیلیاں ، اس کی کہکشاؤں کے چمکتے ہوئے رنگ ، اس کے قمر کے روشن نظارے، اس کے آفتاب کے حسین چمکارے، یہ سب ہمارے اپنے ہیں اور ہم ہی اس کے پاسباں ہیں۔
موج بڑھے یا آندھی آئے دیا جلائے رکھنا ہے
گھر کی خاطر ہر دکھ جھیلیں ، گھر تو آخر اپنا ہے
ہم نے وطن کی حفاظت کا اظہار صرف بلند و بالانعرے لگا کر نہیں کرنا ہے، ہم نے وطن کی ہر شے کی حفاظت کرنی ہے۔ اس سرزمین سے منسلک ہر چیز کی حفاظت کی ذمہ داری ہماری ہے ہم اس کی آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں تو یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ اس کی حفاظت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں ، اور اس کے لیے ہمیں اپنے شعور کی شمع کو روشن کرنا ہوگا۔ ہمیں علم و عمل کے زیور سے مرصعّ ہونا ہوگا۔ ہمیں جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے کو آفتاب علم وحکمت کی کرنوں سے ختم کرنا ہو گا۔ ہمیں اس کی طرف اُٹھنے والی ہرمیلی آنکھ کو نکال باہر پھینکنا ہو گا۔ اس کی حفاظت اور پاسبانی سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ اس کی سرحدوں کو دشمنوں کی یلغار سے محفوظ رکھا جائے۔ اس کے گردآنے والی غیرملکی اور ملک دشمن عناصر کی گر د کوختم کیا جائے بلکہ اس کی حفاظت اور پاسبانی کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کے باشندگان کو اور یہاں کے عوام کوآپس میں مل جل کر رہنے کے آداب سکھائے جائیں۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کے ڈھنگ سکھائے جائیں اور ایک دوسرے کی فکری صلاحیتوں کو مثبت انداز میں تعمیری کاموں میں صرف کرنے کے اصول وضوابط بتائے جائیں اصل میں یہی وطن کی محبت بھی ہے اور یہی اس کی حفاظت بھی ہے اور یہ کام تعلیم وتعلم کے میدان سے گزرے بغیر ناممکن ہے۔ کیونکہ علم نور ہے اور یہی روشنی اور نورحقیقی پاسبانی کے سلیقے سے ہمیں آگاہ کرتا ہے۔ ہم نے وطن کی حفاظت کرنی ہے اور اس کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا کیونکہ یہ ہمارا اپناوطن ہے اور ہم ہی اس کے پاسبان ہیں۔
اس کے چشمہ کا پانی ہو یا پھر آب جو
کرتا ہے جو پاسبانی ہے وہ راشدؔ سرخرو

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...