Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین |
حسنِ ادب
نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین

تعلیمی اداروں میں کھیلوں کی اہمیت
ARI Id

1689956699836_56117669

Access

Open/Free Access

Pages

129

تعلیمی اداروں میں کھیلوں کی اہمیت
تعلیمی اداروں کا وجود ایک صحت مند معاشرے کے قیام اور اس کو استحکام بخشنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ترقی یافتہ اقوام کی ترقی اور عروج تعلیمی اداروں کا مرہونِ منت ہے۔ جن ممالک کے تعلیمی ادارے فعّال کردارادا کررہے ہوتے ہیں اُن کی افرادی قوت مضبوط ہوتی ہے۔ اُن کے افرادسطحی سوچ کے حامل نہیں ہوتے، اُن کے فکری، نظری، روحانی، جسمانی قویٰ کبھی کسی ضعف اور نقاہت کا شکار نہیں ہوتے، جس طرح تعلیمی اداروں کا وجود اہم ہے اسی طرح اس میں وقوع پذیر ہونے والی جملہ سرگرمیاں بھی اہم ہیں اور بالخصوص کھیلوں کی اہمیّت تو تعلیمی اداروں میں اور بھی زیادہ ہے۔ کیونکہ صحت مند جسم اور صحت مند دماغ کے لیے یہ بڑا واضح کر دار ادا کرتی ہیں۔
تاریخ اقوام عالم پر نظر دوڑائیں تو کاروبار اور محنت و مشقت کے ساتھ ساتھ ایسے لمحات بھی نظر آتے ہیں جن میں تفریح اور کھیل کود کے سوا کچھ نہیں ہوتا، اپنے متعین کردہ اوقات میں وہ صرف اور صرف کھیل کود اورتفریحی پروگراموں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کھیل کود کا تصور جس طرح دیگر مذاہب میں موجود ہے اسی طرح وُہ اسلام میں بھی موجود ہے، محسنِ کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے بھی تیرا کی اور دوڑ کے مقابلوں میں حصہ لیا۔ کھیل اور تفر یحی پروگرام کردار پر بڑا اچھا اثر ڈالتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے نظام تعلیم میں کھیل کا تصور کلیتاً موجود ہے۔ اوقاتِ تعلیم و تدریس میں با قاعدہ ڈرل کے نام سے کھیل کا ایک پیریڈ مقرر کر دیا جا تا ہے۔ جس میں طلباء کو فزیکل انسٹرکٹر مقررہ مشقیں کرواتا ہے۔ طلباء ذہنی آسودگی محسوس کرتے ہیں اور دن بھر کی رطب و یابس سماعتوں سے گزرنے والا دماغ دوبارہ ذہنی مشقت برداشت کرنے کے لیے مستعد ہو جا تا ہے۔ بقول شاعر:
جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
کھیل انسان میں اچھی خصوصیات پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں ، کھلاڑی نظم و ضبط کی پابندی کرتا ہے، ڈسپلن اس کی عادتِ ثانیہ بن جاتا ہے، قوت برداشت کی صفت سے متصف ہو جاتا ہے۔ ذہنی ہم آہنگی ، شائستگی اور جذبۂ مسابقت اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔
مختلف ممالک کے تعلیمی نظام کا مطالعہ کریں اور نظام تعلیم کو صحیح خطوط پر استوار کرنے کے لیے بنائی گئی تعلیمی پالیسیوں کے قر اطیس کا اگر بنظرِغائر مشاہدہ کریں تو یہ بات آفتابِ نصف النہار کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ان میں شرح خواندگی کے اضافہ کا سبب کھیل کے میدان ہیں جو انہوں نے اپنے طالب علم کے لیے بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔
طالب علم کمرۂ امتحان میں پہنچنے کی تیاری کمرۂ جماعت سے ہی شروع کردیتا ہے۔ کبھی اس کو سائنس کی خشک اصطلاحات یاد کروائی جاتی ہیں،کبھی اس کو فزکس، کیمسٹری کے فارمولے یاد کروائے جاتے ہیں ،کبھی اس کو الجبرے کے کلیے اور انگریزی کی فارمیں یاد کروائی جاتی ہیں ، لیکن ان جملہ اصطلاحات کو از بر کرنے، ان جملہ سائنسی قوانین کو حفظ کرنے اور کماحقہٗ نصاب پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے صحت مند دماغ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح دماغ کو خشکی سے محفوظ رکھنے اورطراوت پہنچانے کے لیے مرغن غذاؤں اور مقوی مغزیات کی ضرورت ہوتی ہے بالکل اسی طرح جسم اور دماغ کو صحت مند اور چاک و چوبند رکھنے کے لئے کھیل کود کی افادیت بھی مسلمہ ہے۔مثل مشہور ہے کہ جس ملک کے کھیل کے میدان آباد ہوتے ہیں وہاں کے ہسپتال ویران ہوتے ہیں۔
جہاں تک تعلیمی اداروں میں کھیل کی اہمیت کا تعلق ہے وہ نہ صرف یہ کہ دنیاوی تعلیم میں کھیلیں شامل ہیں بلکہ دینی ادارے اور درسگاہیں بھی اس کی معترف ہیں بلکہ منتظمین اور مہتمم حضرات خودبھی فارغ اوقات میں کھیلتے ہیں اور طلباء کی دماغی توانائیوں میں اضافہ کے لیے انہیں اپنی نگرانی میں کھیلنے کی ترغیب د یتے ہیں نیز کھیل میں حصہ لینے کے لیے ان کا خود شامل ہونا اُن کے طلباء کے لیے مہمیز ثابت ہوتا ہے۔
تعلیمی اداروں میں ہر سال ٹورنامنٹس کروائے جاتے ہیں، مختلف گیمز ہوتی ہیں اور پھر ازاں بعد متعلقہ محکمہ کے افسران انہیں انعامات سے نوازتے ہیں۔ اور شکست خوردہ ٹیمیں گھبرانے اور پریشان ہونے کی بجائے آئندہ سال پروگرام میں شمولیت کے لیے شروع سال سے ہی تیاری شروع کر دیتی ہیں۔ ہر شخص اس بات کا معترف ہے کہ صحت مند فرد، صحت مند معاشرہ اور صحت مند قوم کے لیے کھیل کے میدان ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تندرست وتوانا جسم ہی ہر میدان میں کامیابی اور کامرانی کے جھنڈے لہراتا ہے۔ اسلام میں بھی صحت مند جسم کے حامل افرادعظیم مرتبے والے گردانے جاتے ہیں، عظمت کی معراج پر فائز ہونے کے لیے صحت مند دماغ اور صحت مند جسم ہرمکتب فکر کے لوگوں کی ضرورت رہی ہے۔ آج ہمارے تقریبا 57 مسلم ممالک ہیں۔ اور ان کی سردمہری اس بات کی غمّاز ہے کہ وہ جملہ سرگرمیوں جو عالمی سطح پر وقوع پذیر ہوتی ہیں سے بیگانہ و بے نیاز ہوتے ہیں، یہ ان کے جسمانی اور دماغی نقص کی بیّن دلیل ہے کہ اس اکثریت کے باوجود وُہ اسلام کی کوئی خدمت نہیں کرر ہے اور لادینی طاقتوں کے زیر تسلّط زندگی گزارنے پرمجبور ہیں۔ آج اگر وہ ہمارے حکمرانوں کی طرح چشم بیناوا کر یں اور اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں سپورٹس پروگرام کا اجراء کریں تو ایک العقل السلم فی الجسم السلم والی حدیث کوعملی جامہ پہنایا جا سکے گا اور دوسرا آنے والی نسل مثبت سوچ کی حامل ہوگی جومسلم دنیا کے لیے ایک نعمتِ عظمیٰ سے کم نہ ہوگی۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...