Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین |
حسنِ ادب
نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین

تعلیم میں کمپیوٹر کا کردار
ARI Id

1689956699836_56117674

Access

Open/Free Access

Pages

140

تعلیم میں کمپیوٹر کا کردار
قوموں کی زندگی میں کچھ لمحات ، ان کی تاریخ میں امر ہو کر ہمیشہ کے لیے عزم، ولولے، حوصلے، استقامت اور ترقی وخوشحالی کے سفر پر ان کو آمادہ کرتے ہیں۔ قرآنِ پاک میں ہے کہ انسان کے لیے کائنات کی ہر چیز مسخر کر دی گئی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ کے مطابق کائنات کی ہر چیز انسان کے تابع ہے۔ انسان جب چاہے جہاں چاہے اور جیسے چاہے کائنات کے ذرّے ذرّے پر حکومت کر سکتا ہے۔ قرآن کی اس آیت نے اہل کتب کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا اور کمپیوٹرکو دیکھ کر قرآنِ پاک کی حقیقت تو اور بھی الم نشرح ہو جاتی ہے کہ انسانوں کے لیے کائنات کی ہر چیز مسخر کر دی گئی ہے۔
کمپیوٹر الیکٹرانک کی ایک ایسی ایجاد ہے جو ہمارے لاکھوں مسائل ، ہماری بے شمار مشکلات آناً فا ناًدرست انداز میں حل کر دیتی ہے۔ اس میں معلومات جمع کرنے کے بعد دوبارہ حاصل کی جاسکتی ہیں یہ اعدادوشمار جمع کرنے اور ان کا تقابلی جائزہ لینے کے کام بھی آتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کی (Approach) اور (Data) کاعمل انسانی دماغ سے کئی گنا بہتر اور جلد ہوتا ہے یہ معلومات کو (Print) کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔
کمپیوٹر سوئچ، تاروں، موٹرز، ٹرانسسٹرزاورکئی مر بوط سرکٹوں پرمشتمل فریمز کا مجمود ہوتا ہے۔ یہ فریمزمختلف اجزء مثلاً ٹائپ رائٹر، لائن پرنٹر ،کارڈ اور مرکزی پراسیسنگ یونٹس پر انحصار کرتے ہیں یہ تمام اجزاء ایک (Network) جسے کمپوزنگ کمپیوٹنگ نظام کہتے ہیں کی خاطر کام کرتے ہیں۔
کمپیوٹر کا تاریخی پسِ منظر کچھ یوں ہے کہ 1823ئ؁ میں ایک برطانوی ریاضی دان چارلس جو ہندسوں کے مرحلے کے فرق کے اُصول پر کام کرتی تھی اس نے اپنی اس مشین کو Difference Engine( ڈفرینس انجن (کا نام دیا۔ اس مشین پر کام کے دوران اس نے تخیل سے ایک پہلی ایسی مشین تیار کی جس سے پروگرام کیا جاسکتا تھا اس نے اس ڈیزائن کی ہوئی مشین کا نام اینایٹیکل (Analytical)انجن رکھا۔ بابیج اپنے خوابوں کو حقیقت کا جامہ نہ پہنا سکا کیونکہ ان دنوں انجنئیر نگ اور ٹیکنالوجی ( Engerering & Technology) کا معیار اتنا بلند نہ تھا تاہم بابیج کی مشین نے کمپیوٹر کے میدان میں تحقیق کی نئی راہیں کھول دیں چارلس بابیج کو جدید کمپیوٹر کا باپ کہا جا تا ہے۔
1980ئ؁ میں ایک امریکی ہرمن ہولرتھ (Herman Hollerith) نے پہلا الیکٹرانک کمپیوٹر ایجاد کیا۔ 1946ئ؁ میں جان ڈبلیو مارشلے (John.W.Marshly ) اور جے پی ایگرٹ (J.P Eckert ) نے مل کر الیکٹرانک نیو مریکل انٹیگریٹ اور کلیکو لیٹر (Electrical Numerical Integrate and Calculator)تیار کیا جسے اینیک (Eniac) کہا جاتا تھا۔ 1948ئ؁ میں اس میدان میں اس وقت ایک اور کامیابی ہوئی جب ہارورڈ۔ایچ۔ ایکن Harward .H. Aiken)) نے پہلا الیکٹرومکینیکل کمپیوٹر (Electromechincal Computer) تیار کر لیا اور اس کا نام مارک۔ ون (1-Mark) رکھا۔ 1960ئ؁ کے اوائل میں سٹیٹ ٹیکنالوجی متعارف ہوئی جس کی وجہ سے انٹیگر یٹڈ سرکٹس (Integrated Circuts) یعنی آئی سیز (ICS) وجود میں آئے۔ 1970ئ؁ میں ICSنے اتنی ترقی کی کہ کمپیوٹر کے ایک بڑے حصے کو ایک مختصر چپ پر یکجا کر دیا گیا ہے جسے مائیکرو پروسیسر کہا جاتا ہے۔ مائیکرو پروسیسر کی وجہ سے مائیکرو کمپیوٹر کی تیاری وجود میں آئی۔ مائیکرو کمپیوٹر ہی کی وجہ سے کمپیوٹر بڑے اداروں کے ساتھ ساتھ ایک عام آدمی کے استعمال میں آ گیا۔
تعلیم و تدریس میں کمپیوٹر کا استعمال جس انداز سے ہورہا ہے وہ اظہر من الشمس ہے، آج کے اس دور میں کمپیوٹر نے تعلیمی میدان میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ پاکستان میں کمپیوٹر کا استعمال بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ آج کل یونیورسٹیوں نے اپنے علیحدہ کمپیوٹر کے شعبے کھول رکھے ہیں۔ لوگوں کوتربیت دینے کے ساتھ ساتھ یہ تحقیقی کاموں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ آج کل بورڈ کے امتحانات کے نتائج کمپیوٹر کی مدد سے ہی تیار کیے جاتے ہیں۔ کمپیوٹر نہ صرف معلومات کو سکرین پر دکھاتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کی آوازوں کو بھی اصل حالت میں اس طرح ظاہر کرتا ہے کہ جیسے جیتی جاگتی تصویر یں پیش کی جارہی ہوں۔ کمپیوٹر بنیادی طور پر ان تین حصوں ’’سسٹم یونٹ، مانیٹر ،کی بورڈ اور ماؤس‘‘ پر مشتمل ہے۔
کمپیوٹر اس جدید دور میں طالب علموں کے لیے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے، انٹرنیٹ سسٹم کے ذریعے دنیا بھر کی معلومات،تعلیمی و تحقیقی کام پلک جھپکتے ہی کمپیوٹر کی سکرین پر دیکھی جاسکتی ہیں ، وہ تمام کام جو اس سے قبل پروجیکٹر، ٹیلی ویژن ، ریڈیو اور ٹیپ ریکارڈ وغیرہ سرانجام دیتے تھے وہ من جملہ کام اب صرف ایک کمپیوٹر کی مدد سے کیے جا سکتے ہیں۔ کمپیوٹر کی میموری اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ان کے اندر آسانی سے کتابوں کا ذخیرہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ ڈکشنری کی مدد بھی لی جاسکتی ہے۔ اصطلاحات کا صحیح استعمال، الفاظ کے تلفظ اور ادائیگی سکھائی جاتی ہے۔ کمپیوٹرنے انسانی ذہن کو وسعت دی ہے۔ نئی نئی تحقیقات وتخلیقات کو طالب علموں کے سامنے لاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو کمپیوٹر نے ساری دنیا کو سکیڑ کر رکھ دیاہے۔ کمپیوٹر ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی اداروں میں ہر جگہ موجود ہے۔ اس کا استعمال پاکستان میں بھی تیزی سے عام ہو رہا ہے۔ بدلتے ہوئے سماجی اور معاشی حالات میں کمپیوٹر کا استعمال تعلیم کے معیاری پہلو کی طرف ایک مثبت قدم ہے۔
کمپیوٹر کے ذریعے ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ طالب علموں کو پڑھایا جاسکتا ہے۔
کمپیوٹر کے استعمال سے طالب علموں کی زندگی پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ معلومات کو جلد ہی ذہن نشین کر لیتے ہیں۔
طالب علموں کے نفسیاتی تقاضوں کی ضرورت ہوتی ہے جس وجہ سے تدریس میں دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔
کمپیوٹر کے استعمال سے دنیا بھر کی معلومات چندلمحوں میں حاصل کی جاسکتی ہیں، دوسری تہذیبوں کا مطالعہ بآسانی کیا جاسکتا ہے۔
کمپیوٹر کے ذریعے طالب علموں کی تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما ہوتی ہے۔
کمپیوٹر کی بدولت طالب علموں کی قوت مشاہدہ اور تجربات میں اضافہ ہوتا ہے۔
کمپیوٹر کے استعمال کے جہاں فوائد ہیں وہاں نقصانات بھی ہیں۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ کثرت استعمال سے قوت بصارت کمزورہو جاتی ہے۔ زیادہ توجہ مبذول کرنے کی وجہ سے دماغ بوجھل اور تھکن کا شکار ہو جاتا ہے۔ استاد محض تماشائی بن کر رہ جاتا ہے، ایک رہنما کے علاوہ اس کا کوئی کام نہیں ہوتا ہے۔ تشنہ طلب معلومات سے متعلق وضاحت بروقت نہیں ہوسکتی ہے۔ کمپیوٹر کے غلط استعمال سے طالب علم بری عادت کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کی تعلیم پر بھی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا و مافیھا کے اندر کوئی چیز ایسی نہیں پیدا کی جوحکمت سے خالی ہو اور اس کی تخلیق بے مقصد ہو، اس طرح کوئی چیز فی نفسہٖ بری نہیں ہوتی اس کا استعمال اسے برا یا اچھا بناتا ہے۔ چھری سبنری بنانے یا پھل کاٹنے کے لیے ہے اگر اس سے کوئی کسی کو زخمی کر دیتا ہے تو وہ اس کے استعمال پرمنحصر ہے۔رسی جانور کو باندھنے یا چار پایوں میں استعمال کرنے کے لیے ہے اگر اس سے کوئی کسی کو پھانسی دے کر لٹکا ر ہا ہے تو وہ اس کا استعمال غلط کر رہا ہے۔
کمپیوٹر کی ایجاد ایک عظیم نفع بخش ایجاد ہے۔ اگر کوئی اس نعمت غیر مترقبہ سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے غلط استعمال کرتا ہے تو وہ اس کا اپنا قصور ہے نا کہ اس عظیم شاہکار کا! اللہ تعالیٰ کی اس دی ہوئی نعمت کا شکر اس طرح ادا کیا جاسکتاہے کہ اس کا استعمال درست کریں۔ اس پر اسلامی لائبریریوں کو دیکھیں۔ اس پر مظاہر فطرت کا مشاہدہ کریں، اس پرنفوسِ قدسیہ کے کارہائے نمایاں کو بنظرِعمیق دیکھیں۔ اس پر دیگر ممالک کی ترقی کے عوامل ملاحظہ کریں ،کمپیوٹرکامثبت استعمال ہمہ جہت ترقی کا ضامن ہے۔ اگر اس کا استعمال مثبت نہ ہو اور اس پرمخرب اخلاق مناظر دیکھے جائیں، تو پھر یہ کفرانِ نعمت ہو گا۔ اور کفرانِ نعمت کی مرتکب اقوام بھی ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتیں۔ اگر ہمت کریں تو ہم اور بھی اس میں ترقی کر سکتے ہیں۔ اس کے ذریعے نئے نئے پروگرام بنائے جا سکتے ہیں، نئے نئے کھیل وضع کیے جا سکتے ہیں۔ نئے نئے نقشے تشکیل دیئے جاسکتے ہیں۔ اس کے لیے شرط صرف یہ ہے کہ ہمارے اندر کچھ کرنے کا جذ بہ ہو۔ تسخیرِکائنات کی روح کارفرما ہو اور ہمارے دل میں خدمت کا جذبہ موجود ہو۔
٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...