Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین |
حسنِ ادب
نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین

سیلاب کی تباہ کاریاں
ARI Id

1689956699836_56117678

Access

Open/Free Access

Pages

149

سیلاب کی تباہ کاریاں
پانی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمتِ عظمیٰ ہے۔ انسان کی زندگی کا دارومدار پانی پر ہے۔ یہ عناصرار بعہ کا ایک اہم جزو ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ نے ہر زندہ شے کو پانی سے پیدا فرمایا ہے‘‘ (القرآن) زمین پراگرکسی شے کی فراوانی ہے تو وہ پانی ہے۔ یہ ہر کس و ناکس کی دسترس میں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر شے کے لیے حدود متعین کر دی ہیں۔ اگر وہ اپنی حدود میں رہیں اور کوئی حد ودشکنی نہ کریں تو وہ اللہ تعالیٰ کا ہمارے لیے عطیہ ہیں۔ اسی طرح پانی اگر اپنی حدود میں رہے تو یہ ایک انعام ہے اور اگر یہ حدود سے تجاوز کر لے اور ندی نالوں ، دریاؤں، نہروں اور راجباہوں کے کناروں سے باہر نکل آئے تو طوفان بن جاتا ہے۔ کبھی کبھی انتہائی نفع بخش چیز بھی نقصان دیتی ہے جیسا کہ پانی بعض دفعہ حلق میں اٹک کر موت کا سبب بن جاتا ہے۔
یہی پانی تھا جو گزشتہ دنوں پاکستانی عوام پر قہر بن کر ٹوٹا، عذاب بن کر نازل ہوا، سیلاب کی صورت اختیار کرتا ہوا کئی نوجوانوں کی جوانی لے گیا۔ کئی عورتوں کو بیوہ کر گیا۔ کئی بچوں کو یتیم کر گیا۔ کئی نئی نویلی دلہنیں شب عروسی سے پہلے اپنے سہاگ لٹا بیٹھیں۔ قمقموں سے روشن گھر قبرستان بن گئے۔ کھیت کھلیان صف ہستی سے مٹ گئے۔ گلستان و نخلستان کا وجودختم ہو گیا ،قصر رفیع کھنڈرات کا نمونہ پیش کرنے لگے۔ کسی نے سر پر سہرا سجانا تھا ،کسی نے ہاتھوں پرمہندی لگانی تھی ، اس ناگہانی آفت نے ہر ایک کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔بقول تائبؔ نظامی:
مفلس یہ خبر سن کے ہی بس ڈوب گیا ہے
سیلاب ابھی اس کے مکاں تک نہیں پہنچا
سیلاب کی تباہی نے پاکستان کو کئی سال پیچھے دھکیل دیا۔ لاکھوں عوام بے گھر ہوئے۔ ہزاروں گھر پانی کی نذر ہو گئے۔ مسجدوں اورممبروں سے آنے والی صدائیں بند ہو گئیں۔ شاہی دستر خوان پر بیٹھ کر تر نوالہ کھانے والے ہاتھ میں کشکول پکڑے بھیک مانگتے ہوئے نظر آئے۔ سیلاب کے خونی تھپیڑوں سے بچ جانے والے افراد، بیماریوں اور فاقوں کی نذر ہوگئے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں عفونت پھیل گئی جو باقی ماندگان پر آسمانی بجلی کی صورت میں آئی اور انہیں موت کے منہ میں دھکیل دیا کہتے ہیں کہ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے لیے یہ قیامت کا منظر ہوتا ہے لیکن اس کا انداز ہ اور احساس وہ مرنے والا ہی کرسکتا ہے جب کہ سیلاب کی شکل میں آئی ہوئی اس آفت کو دیکھ کرہرذی روح کو یہ اندازہ ہور ہا تھا کہ یہ منظر قیامت صغریٰ سے کم نہیں ہے۔
سیلاب نے جہاں مالی جانی نقصان پہنچایا وہاں تعلیمی ادارے بھی متاثر ہوئے۔ متاثرہ علاقوں میں تعلیمی ادارے صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ کئی کئی سالہ ریکارڈ پانی بہا کر لے گیا۔ طلبہ کا مستقبل برباد ہو گیا۔ دینی اداروں میں قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی صدائیں بند ہو گئیں۔ گذشتہ پچاس سال میں اتنی سہولت نہ تھی کہ ہرشخص ایسے ہولناک مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے لیکن اب میڈیا نے یہ سہولت ہم تک پہنچائی کہ ہر کس و ناکس سیلاب زدہ علاقے کو دیکھ سکے اور ان خونی مناظر کا مشاہدہ کر سکے۔
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ اس روحانی رشتے نے اس حالت میں ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے لیے ہر قسم کی مدد کے لیے برانگیختہ کیا بچوں کو بھوک سے بلکتا دیکھ کر، مجروح کو زخموں سے تڑپتا دیکھ کر ،مفلوک الحال کو سردی میںٹھٹھرتا دیکھ کر ، انسانیت کو پانی میں ڈوبتا دیکھ کر کون خاموش بیٹھ سکتا تھا۔ دنیا کے کونے کونے سے امداد آنا شروع ہوگئی۔ اسلامی ممالک نے اس آفت نا گہانی سے متاثر ہونے والوں کے لیے بڑھ چڑھ کر امداد کی ، دیگر ممالک بھی انسانی ہمدردی کی بنا پر معاونت میں کوشاں رہے، دامے، درمے، سخنے مدد کرتے رہے۔ اس وقت وہ لوگ جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر متاثرہ علاقوں میں امداد لے کر پہنچے قابل صد مبارکباد ہیں یہی لوگ ایک صحت مند معاشرے کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں۔ ہمیں بحثیت مسلمان اپنے اعمال پر نظر ثانی کرنی چاہئیے کہ بعض دفعہ ایسی مصیبتیں اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اور اللہ تعالی سے دعا کرنی چاہئیے کہ ہمیں اس قسم کی آزمائش سے محفوظ فرمائے۔ (آمین)
اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...