Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین |
حسنِ ادب
نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین

زندگی میں عمل کی اہمیت
ARI Id

1689956699836_56117680

Access

Open/Free Access

Pages

153

زندگی میں عمل کی اہمیت
زندگی میں عمل کی اہمیت کی وضاحت کچھ اس طرح ہے عمل کے بغیر تصویر زیست ممکن ہی نہیں۔ زندگی حرکت و عمل کا دوسرا نام ہے اور بے عملی یا جمودکا دوسرا نام موت ہے۔ عمل سے زندگی کا بگاڑ ہے،عمل ہی سے زندگی سنورتی ہے، زندگی جنت بھی عمل سے ہی بنتی ہے اور اس عمل ہی کی وجہ سے جہنم بنتی ہے۔ جام زندگی کے دوام کا راز گر دشِ پیہم میں پوشیدہ ہے، بے عملی نہ صرف انسان کوسست ،کاہل اور کمزور بناتی ہے بلکہ بے یقین اور بزدل بھی بناتی ہے۔ اس کے برعکس عمل انسان کومستعد، معتمد اور معزز بناتا ہے۔ باعمل اور محنتی لوگوں کو اپنی ذات پر اعتماد اور بھروسا ہوتا ہے۔ جب زندگی میں عمل پیہم کی عادت پڑ جاتی ہے تو اس میں اعتماد اور بھروسہ شامل ہو جا تا ہے۔ اور یہی اعتمادان سے بڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دلواتا ہے اور ان کو ترقی اور خوشحالی کے زینے پر چڑھاجاتا ہے بے عمل انسان میں ایک قسم کی بزدلی اور مایوسی پیدا ہو جاتی ہے۔ جو اس کے جسم و جاں کو مزید زنگ لگا دیتی ہے نتیجتاً سست ہو جا تا ہے اور پھر اس کے لیے زندگی میں مشکلات اور پریشانیوں کا درواز ہ و اہوجا تا ہے اور اس کے حوصلے پست اور روح پژمردہ ہو جاتی ہے۔
جو انسان صاحب عمل ہوتا ہے وہ اپنے کسی کام کے لیے دوسرے کا محتاج نہیں ہوتا وہ اپنا کام خود کرتا ہے اور اس سے وہ مسرت و شادمانی حاصل کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ وہ دوسروں کا شرمندہ احسان نہیں ہوتا۔ بلکہ مسرت عمل بھی حاصل کرتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم مجسم عمل تھے اور اپنا کام خود اپنے دستِ اقدس سے کیا کرتے تھے۔ اس سے نہ تو کوئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کو پریشانی ہوتی تھی اور نہ ہی آپ اپنے ہاتھ سے کام کر کے شرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے جوتے ٹوٹ جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اپنے ہاتھ سے گانٹھ لیتے تھے۔ اپنے پھٹے ہوئے کپڑے خودسی لیتے تھے، بکریوں کا دودھ خود دوہ لیتے تھے غرض دوسروں کو تکلیف دینے کی بجائے اپنا کام خود کرنا پسند فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے خادم حضرت انس صکا فرمان ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی خدمت اتنی نہیں کی جتنے آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمنے میرے کام انجام دیئے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمبازار سے سودا سلف خود لے آتے تھے، جھاڑو خود دے لیتے تھے، گھر کے دوسرے کاموں میں بھی گھر والوں کا ساتھ دیتے اور ہاتھ بٹاتے۔ سیرت کی کتابوں کا اگر مطالعہ کریں تو بے شمار ایسی معلومات ملتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ عمل کے سلسلہ میں اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کیا تھا۔
ایک سفر میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو کھانا تیار کرنا پڑ اسب صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایک ایک کام بانٹ لیا۔ جنگل سے ایندھن لانے کا کام حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے اپنے ذمہ لیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ کام بھی ہم آپ کے غلام کریں گے۔ دونوں عالم کے سردار نے فرمایا کہ مجھے یہ پسند نہیں کہ میں خودکو تم سے الگ رکھوں یا اپنے آپ کو بڑاسمجھوں۔ خدا اس بندے کو پسند نہیں کرتا جو اپنے ساتھیوں سے اپنے آپ کو بڑا شمار کرتا ہو۔ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے دیکھا کہ ایک غلام بیماری کی حالت میں اپنے آقا کے ڈر سے آٹا پیس رہا ہے اور روتا جارہا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اس کو ہٹا کر خود آٹا پیسنے بیٹھ گئے جب آٹا پیس کر فارغ ہوئے تو فرمایا’’ آئندہ بھی ضرورت پڑے تو مجھے بلا لینا‘‘ شیخ فرید الدین عطار کاہل، بے عمل اورسست آدمی کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں ’’جو شخص سستی سے بھرا ہوا اور آرام طلب ہے وہ آدمی نہیں گائے اور گدھے سے بھی گھٹیا ہے۔‘‘ جس شخص نے سستی کو اپناوتیرہ بنالیا ذلت کا کلہاڑاُس کے پاؤں پر آکر لگے گا۔
یہ چند مثالیں اور واقعات لکھنے پر اکتفا کیا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی ساری زندگی ، عزم و عمل سعی و جہد اور استقلال و ثابت قدمی کا نمونہ ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے جب دینِ حق کی اشاعت وتبلیغ شروع کی تو ہر طرف سے مخالفت کا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا اور دشمنوں کی ریشہ دوانیوں اور مخالفتوں نے گھر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکو بڑی بڑی مصیبتوں کا سامنا ہوالیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمنے سعی وعمل سے منہ نہ موڑا اور استقامت کے ساتھ اپنا کام کیا۔ یہاں تک کہ مصائب کے تمام بادل چھٹ گئے اور مخالفتوں کے سب پہاڑ راہ سے ہٹ گئے۔ مقصد کی لگن اور اس کے لیے مسلسل عمل اور سعی پیہم انسان کو دیر سویر کامیابی اور شادمانی سے ہمکنار کر دیتی ہے اور مشکلات سے نجات مل جاتی ہے۔ اسی طرح معلم اگر با عمل ہو گا تو اس کا اثر اپنے تلامذہ پر ضرور پڑے گا۔ اور اگر معلم بے عمل ہوگا تو اس کی تیار کی ہوئی فوج بھی عمل سے عاری ہوگی۔ کوئی عمل بد کر کے یہ نہ سمجھے کے اس کے انجام سے وہ بچ جائے گا جس طرح سمندر میں پتھر پھینکا جائے تو وہ پانی کو ضرور متحرک کرتا ہے اسی طرح انسان کاعمل اپنے اثرات و نتائج ضرور چھوڑتا ہے۔ نوائے وقت کے حوالے سے چند الفاظ ضبط تحریر میں لانے کا مقصد وحید یہی ہے کہ علم کے ساتھ ساتھ عمل پر بھی توجہ دی جائے تا کہ دینوی اور اخروی زندگی سنور سکے۔ بقول شاعر:۔
خود عمل تیرا ہے صورت گر تری تقدیر کا
شکوہ کرنا ہو تو اپنا کر ، مقدر کا نہ کر

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...