Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین |
حسنِ ادب
نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین

جہالت ترقی کی دشمن ہے
ARI Id

1689956699836_56117682

Access

Open/Free Access

Pages

158

جہالت ترقی کی دشمن ہے
جہالت اور اس کے کئی ہم آواز الفاظ جیسے حماقت، عداوت، لعنت ،نفرت ایک سلیم الطبع شخص کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے بلکہ کئی اعتبار سے وہ ان سے بیگانہ رہتا ہے۔ ان میں بالخصوص جہالت ایک ایسا لفظ ہے کہ جو اس سے مانوس ہو جائے، جہالت کے پردے کو چاک نہ کرے، جہالت کے درخت کی آبیاری کرتا رہے جہالت کے نخلِ مضر کو خس وخاشاک سے صاف کرتار ہے، جہالت کے ناسور سے علم وحکمت کے نشتر سے پیپ نہ نکالے، اور اس کی بھینٹ چڑھ جائے تو اس کی جسمانی، روحانی ، اقتصادی، معاشی، معاشرتی ہر قسم کی ترقی رک جاتی ہے اور قعرِ مذلّت میں گر کر سسکیاں لے لے کر اپنی زندگی گزار دیتا ہے۔
تاریخ کی ورق گردانی کریں تو یہ بات مترشحّ ہوتی ہے کہ انسان نے جو بھی ترقی کی وہ جہالت کی چادر کوتار تار کر کے کی ہے۔ علم ، واقفیت، آگاہی سے ہی رفعتوں اور بلندیوں پر اپنی کمندیں ڈالی ہیں۔ اور جس نے جہالت کے بستر استراحت پر آرام کیا، جس نے جہالت کی شراب سے اپنے اعضائے جسمانی کو پرسکون رکھنے کی سعی ٔنا تمام کی اس کوزندگی میں کبھی سکون نہ ملا بلکہ در بدر کے دھکے ملے۔
جہالت کی چکی میں پستا رہا
جہالت کے موذی سے ڈستا رہا
علم سے مربوط اور وابستہ ہونے کی بنا پر انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے۔ جہالت سے دوری اورعلم سے قربت ہی کی بدولت تو انسان کو فرشتوں پر بھی برتری اور فضیلت حاصل ہوئی، اسی کی بدولت انسان منصبِ خلافت پر فائز کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے دل و دماغ کو بہترین صلاحیتوں سے نوازا ہے ان صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ مسلسل ارتقاء کی منزلیں طے کرتا رہتا ہے۔ چنانچہ آج تک انسان نے جس قدر ترقی کی ہے وہ جہالت سے نفرت کر کے اور علم و دانش کو گلے لگا کر کی ہے۔ علم سے لگائو، علم سے محبت، علم سے دوستی، علم سے قربت تقاضائے انسانیت ہے بقول علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ:۔
زندگی ہو میری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب
قرآن پاک میں جاہل لوگوں کی مذمت آئی ہے’’جاہل اور عالم برابرنہیں ہوسکتے۔‘‘(القرآن) اور جب جاہلوں سے بات کرنے یعنی مخاطب ہونے کی کوئی صورت پیدا ہوتو اس بات کے اہل نہیں ہیں کہ تم اپنے دماغ کو ان کے ساتھ گفتگو میں کوفت دو اور تھکائو ان کو بس سلام کہ کر دور ہو جاؤ۔ جاہل کو کیا یہ سزا تھوڑی ہے کہ وہ عالم اور دانا کے برابرنہیں ہوسکتا اور پڑھا لکھا شخص اس کی جہالت پر استحکام کی وجہ سے اس کے ساتھ بات کرنے کو تیارنہیں ، ایسا شخص ترقی تو کیا کرے گا اس کا وجود ہی پڑھا لکھا معاشرہ قبول نہیں کرتا۔ حدیث پاک میں ہے:۔ ’’کہ گود سے لے کر گور تک علم حاصل کرو۔‘‘ ایک اور مقام پر ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے، جہالت سے نفرت اورعلم سے دوستی سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی ایک اور حدیث پاک سے واضح ہورہی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکے پاس ایک صحابی موجود ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اس سے محو گفتگو ہیں کہ دریں اثناء حضرت جبرائیلں حاضر خدمت ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے پاس جو شخص موجود ہے اُس کی موت کا وقت آ گیا ہے اور فلاں لمحہ اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر جائے گی۔ آپ نے اس کی خبر مذکورہ شخص کو دی اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اس وقت میں کیا عمل کروں کہ جو دین و دنیا میں اور اُخروی زندگی میں میرے لیے بہتر ہو آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ نماز ادا کر، نوافل پڑھ لو، ہمسایہ کے ساتھ اچھا سلوک کرو،مساجد تعمیر کرو، آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمنے فرمایا کہ کلماتِ جہالت سے نکل کر دانش وآگہی کے حصار میں آجاؤ یعنی علم حاصل کر ومعلوم یہ ہوا کہ جہالت اگر دنیا میں تنزلی کا باعث ہے تو آخرت میں بھی اُخروی نعمتوں سے محروم کر دیتی ہے۔ جاہل ہر شعبے میں ذلیل و خوار ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمجیسی عظیم ہستی بھی اکثر و بیشتر دعا فرمایا کرتے تھے کہ یارب العالمین میرے علم میں اضافہ فرما۔
اس عالم میں جو بڑے بڑے کام ہوئے وہ کسی جاہل نے نہیں صاحب علم و دانش نے سرانجام دیئے۔ آئے دن نت نئی ایجادیں ، اقتصادی شعبے میں ترقی ، معاشی شعبے میں ارتقائ، صنعتی شعبے میں پیش رفت ،فضائے فلک پر پرواز یں، جبالِ شامخہ کی سینہ شگافی ، متعد د لیل و نہار پرمشتمل سفر کو چند ساعتوں میں طے کرنا، ہزاروں میل دور بیٹھ کر آواز صرف سننا بلکہ تصویربھی دیکھنا یہ سب علم و دانش، واقفیت و آگاہی ہی کی بدولت ہے۔
اگر ہم نے اپنے آپ کو معاشی لحاظ سے ، دینی لحاظ سے ، جسمانی لحاظ سے، روحانی لحاظ سے مستحکم کرنا ہے تو جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے سے نکل کر، جہالت کی خاردار وادی سے نکل کر، جہالت کے بحرِ ظلمات میں ڈبکیاں کھانے کی بجائے میدان علم و دانش میں شاہسواری کرنی ہوگی ، آسمان علم و دانش پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکنا ہوگا۔ گلستانِ آ گہی میں چنبیلی اور گلاب کے پھول بننا ہو گا۔ علم کے حصول میں آنیوالی سختی کو خوشدلی سے برداشت کیا جائے۔جو حصولِ علم میں لمحہ بھر کی سختی و برداشت نہیں کرتا اُس کوعمر بھر جہالت کی سختیاںبرداشت کرنا پڑتی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...