Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین |
حسنِ ادب
نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین

چلے چلو کہ ہے ،منزل ابھی نہیں آئی
ARI Id

1689956699836_56117683

Access

Open/Free Access

Pages

161

چلے چلو کہ منزل ہے ابھی نہیں آئی
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھیرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں
منزل کے حصول کے لیے جدوجہد اور کدوکاوش ہرذی روح کا وتیرہ رہا ہے۔ منزل انہیں ملتی ہے جو جستجوئے منزل میں اپنے شب وروز گزار دیتے ہیں۔ منزل انہی کا استقبال کرتی ہے جو اس کے حصول کے لیے راستے میں آنے والی رکاوٹ کو ختم کر کے اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ منازل کے تعین میں ہی اپنی زندگیاں صرف کر دیتے ہیں۔ لیکن وہ نہیں کر سکتے کہ اپنی منزل مقصود کا انتخاب کر لیں۔ بے معنی اور لایعنی باتوں کی طرف توجہ ان کی عادت ثانیہ بن چکی ہوتی ہے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو منزل کا تعین تو کر لیتے ہیں لیکن عاقبت نا اندیشی کی بدولت ان کا تعین ہی صائب اور درست نہیں ہوتا۔
حشرات الارض سے لے کر انسان تک جو اشرف المخلوقات گردانا جاتا ہے ہر ایک اپنی اپنی منزل کی طرف گامزن ہے۔ مورومگس کی منزل اور ہے، گل و لالہ کی منزل اور ہے، جو ئے نغمہ خواں کی منزل اور ہے۔ حریرو پر نیاں کی منزل اور ہے، زمین پر رینگنے والے کیڑے کی منزل اور ہے، پھول کے گرد بھنبھنانے والی شہد کی مکھی کی منزل اور ہے، غلاظت کے ڈھیر پر چکر لگانے والی مکھی کی منزل اور ہے۔ گلستان سرسبز میں چہچہانے والی بلبل کی منزل اور ہے، برگد کے درخت پر بیٹھے بوم کی منزل اور ہے، آبادی کے مضافات میں شجر بار آور کی منزل اور ہے، ویرانی میں کھڑے خشک تنے والے درخت کی منزل اور ہے، فضاء میں محو پرواز عقاب وشاہین کی منزل اور ہے مردار کے گرد چکر لگانے والی گدھ کی منزل اور ہے۔
اس کا ئنات میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو بے کار پیدا کی گئی ہو، جس مقصد کے لیے وہ پیدا کی گئی ہے اگر وہ اپنے مقصدِ پیدائش میں کامیاب ہے یعنی اس کی تخلیق کا جو مقصد ہے وہ اس پر پورا اتر رہی ہے تو گویا وہ اپنی منزل کے تعین اور حصول میں کامیاب ہو چکی ہے اور اگر وہ اپنے مقصدِ تخلیق میں ناکام و نامراد ہے تو وہ اپنی منزل کے تعین میں اور حصول میں نا کام ہو چکی ہے۔ اگر ہم بنظرِعمیق حشرات الارض کی زندگی کا جائزہ لیں تو اکثر و بیشتر وہ قطار بنائے رزق کے حصول کی خاطر اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں۔ غیر ذوی العقول ہونے کے باوجود اس کی روانگی بڑی منظم ہوتی ہے۔ اور اس وقت ان کی منزل مقصودکسی مقام پر جا کر حصول رزق ہوتا ہے۔ مغرب سے تھوڑا پہلے جب ہماری نظریں آسمان پر موجودمحو پرواز پرندوں کے جھنڈوں کا تعاقب کر رہی ہوتی ہیں تو اس طرف سے پلٹ کرآ نیوالے تصورات دماغ کے در یچوں کو دستک دیتے ہیں اور یہ فکر پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ اب ان کی منزل سارادن دانہ دنکا چگنے کے بعد اپنے آشیانے اور گھونسلے ہیں۔
کامیاب کھلاڑی کی اپنی منزل مخالف کھلاڑی کو شکست دینا ہوتی ہے، کامیاب قانون دان اور وکیل کی اپنی منزل اپنے مخالف قانون دان اور وکیل کے دلائل کو رد کر کے اپنے دلائل کا استحکام ہوتی ہے۔ مجاہد اپنی منزل کا تعین اس طرح کرتا ہے کہ وہ سرحدوں کی حفاظت احسن طریقے سے کرے، صنعتکار کی منزل اپنی صنعت کی ترو یج اور ترقی ہے ،منبر پر بیٹھ کر وعظ و نصیحت کرنے والے واعظ شیریں بیاں کی منزل اس کی تقر یرکی کا میابی ہے، کرسی انصاف پر بیٹھ کر بے لاگ فیصلہ کرنے والے منصف اور جج کی منزل بہترین فیصلہ ہے جو اس نے سنانا ہے، دکھتی اور تڑ پتی ہوئی انسانیت کی خدمت کرنے والے مسیحا کی منزل مریض کی شفایابی ہے۔
ہر ایک نے اپنی اپنی منزل کا تعین کر رکھا ہے لیکن نابغۂ روزگار حضرات بھی ایک مقام پر متمکن ہونے کو کامیابی نہیں سمجھتے وہ بہتر سے بہتر کی تلاش میں سر گرداں رہتے ہیں۔ ایسے لوگ صحت مند معاشرے کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں، ایسے لوگ میدان علم و دانش کے شاہسوار ہوتے ہیں، ایسے لوگ آسمانِ علم وا ٓگہی کے آفتاب و ماہتاب ہوتے ہیں۔ ایسے ذی فہم و فراست لوگوں کے قدم منزلیں خود چوما کرتی ہیں۔ ایسے لوگ ظاہراً عامیانہ حالت میں ہوتے ہیں لیکن زمانہ ان کے پیچھے ہوتا ہے، اُن کا دنیوی اور دینی معیار جداگانہ ہوتا ہے، جس طرح 10 روپے والا نوٹ بھی کاغذ کا ہوتا ہے اور 100 روپے والا نوٹ بھی کاغذ کا ہوتا ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمہے جو منزل کا تعین نہیں کرتے وہ اعلی مقام میں اور منزل کے حصول میں انتھک کوشش کے راستے پر گامزن رہتے ہیں اُن کو نیکیاں عام لوگوں کی نسبت زیادہ حاصل ہوتی ہیں کیونکہ وہ اعلیٰ سے اعلیٰ کی تلاش میں رہتے ہیں۔
منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
دریا اگر ملے تو سمندر تلاش کر
بقولِ اقبال:
تو رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
کشمیر کے ایک گھرانے میں پیدا ہونے والے لڑکے نے اعلیٰ سے اعلیٰ کی تلاش میں وقت گزارا اللہ تعالیٰ نے اسے حکیم الامت بنا دیا، فرید الدین نے اپنے شب وروز روحانی مراتب طے کرنے میں بسر کیے اور اعلیٰ سے اعلیٰ کی تلاش میں اللہ تعالیٰ نے گنج شکر بنادیا، علی ہجویری کو داتا گنج بخش بنادیا، جلال الدین کو صوفی باصفا بنا دیا، بہاؤ الدین زکریا کو ولی ء کامل بنادیا، وہ انسان بڑا خوش نصیب ہوتا ہے جو اعلیٰ سے اعلیٰ اور ارفع سے ارفع کی جستجو میں منہمک رہتا ہے اور کسی ایک مقام پر اکتفا نہیں کرتا اور ہمیشہ اپنے ضمیر سے مخاطب ہونے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ اے ناداں انسان اپنی منزل کے حصول کے لیے سفر کو جاری رکھ تھک ہار کر نہ بیٹھ جاتو اشرف المخلوقات ہے اور تیری منزل بھی بلند و بالا مقام پر ہے۔ اپنے سفر کو جاری رکھ ’’چلے چل کہ منزل ابھی باقی ہے‘‘
چڑیوں کی طرح دانے پہ گرتا ہے کس طرح
پرواز رکھ بلند کہ بن جائے تُو عقاب
٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...