Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین |
حسنِ ادب
نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین

ڈینگی مکائو مہم میں معاشرے کا کردار
ARI Id

1689956699836_56117686

Access

Open/Free Access

Pages

168

ڈینگی مکاؤ مہم میں معاشرے کا کردار
ڈینگی بخار ہے جو چند ماہ سے پاکستان کے عوام کے لیے خوف کی علامت بنا ہوا ہے۔ یہ بخار 1775 میں افریقہ، شمالی امریکہ اور ایشیاء میں پراسرار طور پر نمودار ہوا، اس بخار کا سبب مادہ مچھر ہوتی ہے جو کاٹتی ہے تو بخار ہو جاتاہے۔ اس بخار کے پیراسائیٹس کو پلازموڈیم کہتے ہیں۔ یہ مادہ مچھر ایک اعلیٰ ترین نسل سے منسوب کی جاتی ہے جو گندے پانی وغیرہ کو پسندنہیں کرتی بلکہ خوشنما سرسبز پھولوں ، پھلوں والے پودوں اور درختوں پرڈیرہ جماتی ہے۔
ڈینگی بخار ایک مرض ہے، جس طرح دیگر امراض سے انسان کو واسطہ پڑتا ہے اسی طرح یہ مرض بھی اپنے خونخوار پنجوں میں جکڑنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے۔ لیکن کوئی مرض ایسا نہیں ہے کہ جس کا علاج موجود نہ ہو۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمہے کہ کوئی مرض ایسانہیں ہے جس کا علاج نہ ہو، یعنی تمام مرض علاج سے ختم ہوجاتے ہیں۔ جب ایک ذی شعور انسان اس قسم کے حوالہ جات اپنے دماغ کے آنگن میں رکھتا ہے تو وہ ان عوارضات سے کبھی متاثر نہیں ہوتا وہ علاج کرتا ہے اور مسلمان ہونے کے ناطے بالخصوص اور انسان ہونے کے ناطے بالعموم شفاء من جانب اللہ کا تصور چاہتا ہے۔ اپنے اس اعتقاد کی بدولت کہ موت کا ایک دن مقرر ہے وہ اس بخار کے خوف کو اپنے نہاںخانۂ دل میں کوئی جگہ نہیں دیتا۔ اس بخار کے خاتمے میں اس قسم کے اعتقادات اور تصورات بڑی اہمیت کے حامل گردانے جاتے ہیں۔ اور یوں نفسیاتی طور پر اس سے متاثر مریض صحت یاب ہونا شروع ہو جا تا ہے۔
ڈینگی بخار کے خاتمے کے لیے معاشرتی طور پر ایک اہم رول ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ واعظ ممبر رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم پر براجمان ہو کر عوام الناس کو اپنے خطبے کے دوران مرض کے بارے میں بتائے اور انہیں اس کے نفسیاتی اثرات سے چھٹکارا دلائے اور باور کرائے کہ یہ ایک مرض ہے جس طرح دیگر مریض علاج سے صحیح ہو جاتے ہیں یہ مرض بھی ختم ہو جاتا ہے۔ تمام پلیٹ فارموں پر اس کے بارے میں شعور و آ گہی دی جائے۔ اور اس کے اسباب رفع کرنے کی ہرممکن کوشش کی جائے۔
گھر سے لے کر محلوں ، دیہاتوں اور شہروں میں عوام الناس کو مطلع کیا جائے کہ اس مرض کے خاتمے میں وہ حکومت کا ساتھ دیں۔ حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔ ان کی معاونت سے ہی اس سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتاہے۔ ہسپتالوں میں، تعلیمی اداروں میں، کھیل کے میدانوں اور کھلیانوں میں، عدالتوں اور گلیوں بازاروں میں جہاں لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ وہاں صفائی کا خاص خیال رکھا جائے ، متاثرہ مریض دیگر افراد کو محفوظ اور مامون رکھنے کی ہرممکن کوشش کی جائے۔ مساجد، تعلیمی ادارے، معروف چوک، اور دیگر مقامات پر ڈینگی سے بچاؤ کے اشتہارات اور بینرز لگائے جائیں۔ متاثرہ مریض کو فوری طور پر ہسپتال پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا جائے ، مریض کے لیے ادویات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے ، غریب اور نادار مریضوں کے ساتھ خصوصی تعاون کیا جائے۔ مریض سے نہیں بلکہ مرض سے نفرت کی جائے۔
معاشرہ افراد پر مشتمل ماحول ہی کو کہا جا تا ہے۔ اور یہی افراد جب مل کر کسی کا مقابلہ کرنا چاہیں تو اتحاد و اتفاق کی بدولت ان کی قوت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ان کے جملہ قویٰ و اعضاء مضبوط ہو جاتے ہیں۔ اس وقت جس طرح سرکاری سطح پر اس مرض کے خاتمے کے لیے انتھک کوشش بروئے کار لائی جارہی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس ڈینگی مکا ئو مہم میں حکومت کے شانہ بشانہ معاشرتی طور پر شمولیت ہوجائے اور افراد اس کے خاتمے کے لیے کمر بستہ ہو جائیں تو اس کا وجودکلیتاً ختم ہو سکتا ہے۔ اس کی حقیقت کوعملی جامہ پہنانے کی اب اشد ضرورت ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...