Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین |
حسنِ ادب
نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین

ڈینگی بخار قابلِ علاج ہے
ARI Id

1689956699836_56117687

Access

Open/Free Access

Pages

170

ڈینگی بخار قابل علاج ہے
انسان جب سے منصہ شہود پر جلوہ گر ہوا ہے نشیب و فراز اور افراط و تفریط اس کا مقدر رہے ہیں۔ کہیں مسرتوں اور خوشیوں نے اس کا ساتھ دیا ہے تو کہیں غم و اندوہ کی بھیا نک وادیاں اس کا مسکن رہی ہیں،کبھی اس کے دل و دماغ خوش و خرم ہوتے ہیں اورکبھی افسردگی اور پژمردگی کی تپش اس کے سہانے خوابوں کو ملیا میٹ کر دیتی ہے، ان متنوع حالات سے انسان کو پالا پڑتا رہتا ہے۔ اور پھر حالات بدلتے رہتے ہیں اور مشکلات آسانیوں کا لباس زیب تن کر لیتی ہیں۔
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پہ کہ آساں ہو گئیں
در دوالم کا ستایا ہوا انسان آج کل پھر ایک بیماری جس کوڈینگی بخار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کی لپیٹ میں ہے۔ یہ بخار 1775 میں افریقہ ،شمالی امریکہ اور ایشیاء میں پراسرار طور پرنمودار ہوا، اس بخار کا سبب مادہ مچھر ہوتی ہے جو کاٹتی ہے تو بخار ہو جاتا ہے۔ اس بخار کے پیراسائیٹس کو پلازموڈیم کہتے ہیں۔ یہ مادہ مچھر طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت عروج و شباب پر ہوتی ہے اور پھر اس کے حملے شدید ہو جاتے ہیں۔ یہ مادہ مچھر ایک اعلیٰ ترین نسل سے منسوب کی جاتی ہے جو گندے پانی وغیرہ کو پسند نہیں کرتی بلکہ خوشنما، سرسبز پھولوں، پھلوں والے پودوں اور درختوں پر ڈیرہ جماتی ہے، اس کی حکومت زیادہ سے زیادہ دو ہفتے ہوتی ہے اور پھر ختم ہوجاتی ہے۔
قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ کہ جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ ( اللہ تعالیٰ) مجھے شفاء دیتا ہے‘‘ (پارہ-19 سورۃ الشعرائ) اسی طرح حدیث پاک میںارشاد رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمہے کہ کوئی مرض ایسا نہیں ہے جس کا علاج نہ ہو۔ قرآن و حدیث کی تصریحات سے یہ بات متبیّن ہورہی ہے کہ موت جو کہ ایک اٹل حقیقت ہے کے سوا ہر مرض کا علاج خالقِ کائنات اور باعث تخلیق کائنات نے ارشاد فر مایا ہے۔
ڈینگی کا بخار قابل علاج ہے۔ لیکن وہم کا مریض لا علاج ہے۔ انسان جب یہ بات اپنے دل و دماغ میں بٹھالیتا ہے کہ موت کا وقت مقرر ہے اور ایک لمحہ بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتا تو پھر اس قسم کی بیماریاں اس کے اعتقاد و یقین کوبھی متزلزل نہیں کرسکتیں۔ لیکن ڈینگی کے لفظ سے خوفزدہ مریض کا ٹمپریچر بتدریج بڑھتا رہتا ہے۔ اس کا سبب صرف اور صرف توہم پرستی اور دین سے دوری ہے۔
اس سائنسی دور میں جہاں دیگر شعبہ ہائے زیست میں ترقی ہوئی ہے وہاں شعبہ ہائے صحت و امراض میں بھی جدید ٹیکنالوجی نے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ آج سے صدیوں پہلے جو امراض نا قابل علاج سمجھے جاتے تھے آج وہ نہ صرف قابل علاج ہیں بلکہ ان امراض سے متاثرین مریض کے حواس بھی صحیح اور صائب تصورات کے حامل ہیں۔ اُن کی شعوری قوت اپنے ادراک کی بدولت ان پر کما حقہ قابو پانے کا ملکہ رکھتی ہے۔آج جملہ امراض ٹی۔ بی ( جس کا مریض چند سال قبل مرض کی شناخت سے ہی اہل وعیال، خویش و اقارب اور دوست احباب سے بیگانہ کر دیا جا تا تھا) ایڈز ، کینسر، شوگر، یرقان اسود جیسے موذی امراض کا مکمل علاج موجود ہے۔ تاہم چند احتیاطوں کی ضرورت ہے۔ دانشمندوں کا قول ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔
ڈینگی کے مرض کا علاج ممکن ہے، ڈینگی بخار کے مریض کی صحت یابی کا امکان ہے، ڈینگی مرض سے متاثرہ افراد میں زندگی کی رمق پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس مرض کے مریض کو صاحب فراش مریضوں کی صفوں سے باہر نکالا جاسکتاہے۔ڈینگی بخار کے مریض کی پیشانی پر آب زلال سے تر پٹی رکھی جاسکتی ہے۔ اور اس کی حرارت کو نہ صرف کم بلکہ بالکل ختم کیا جا سکتا ہے ۔لیکن شرط یہ ہے کہ وہ خود دستِ تعاون دراز کرے۔ وہ نہ صرف ڈینگی بخار کے لیے تگ و دو کرے بلکہ اپنے اندر حسد، جھوٹ، غیبت، نفرت کے ڈینگی کے خلاف بھی صف آرا ہو جائے۔ اس کے اس اقدام سے اس کے اعصاب میں قوت لایموت آجائے گی اور وہ ڈینگی جیسے جملہ امراض کو راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کر دے گا۔ ظاہری ڈینگی کے ساتھ ساتھ اس کو باطنی ڈینگی سے بھی نجات مل جائے گی۔کہتے ہیں تالی دو ہاتھ سے بجتی ہے علاج ہوا اور پرہیز نہ ہو تو علاج کارگر ثابت نہیں ہوسکتا۔ انسان غیر صحتمندانہ اقدام کا بار ہا مرتکب ہوتا رہا ہے تو پھر شفاء ناممکن ہو جاتی ہے کیونکہ’’ خود کردہ را علاجے نیست ‘‘ والی بات ہوتی ہے۔
ڈینگی بالکل قابل علاج ہے۔ اس کے لیے باطنی صفائی ، تو ہم پرستی سے کنارہ کشی ، دینِ اسلام سے بھی وابستگی ، وقت پر تشخیص اور علاج کی ابتداء گھر، محلے میں اس مرض سے بچاؤ کے بارے میں شعوری کوششیں ، اور مرض کا پابندی سے بروقت علاج ضروری ہے۔ علامہ اقبال رحمۃاللہ علیہ نے تصورات کی دنیا میں رہتے ہوئے موت کا علاج بھی تجویز کر دیا ہے یہ تو پھر بھی ڈینگی ہے۔
ہو اگر خود نگر و خود گر و خودگیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
اس شعر کا اگر امعانِ نظر سے مطالعہ کیا جائے تو اس میں ہر ظاہری و باطنی بیماری کا علاج موجود ہے چہ جائیکہ ڈینگی بخار ہے۔ ڈینگی کا علاج موجود ہے۔ ڈینگی کا مرض قابل علاج ہے، اس سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے استقامت کی ضرورت ہے اور وہ دین سے قربت کی بدولت حاصل کی جاسکتی ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...