Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین |
حسنِ ادب
نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین

کیا توانائی کے بحران کاحل ہمارے بس میں نہیں
ARI Id

1689956699836_56117694

Access

Open/Free Access

Pages

186

کیا توانائی کے بحران کاحل ہمارے بس میں نہیں
اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل سلیم عطا فرمائی ہے اور اشرف مخلوقات بنایا ہے دیگر تمام مخلوقات سے زیادہ عزت و عظمت انسان ہی کو عطا فرمائی ہے۔ وہ اپنے ظاہری حواسِ خمسہ کے ساتھ ساتھ باطنی حواس کو بھی استعمال میں لا کر قابلِ صد افتخار کارہائے نمایاں سرانجام دینے کی قوت لا یموت کا حامل ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عظیم قوت کے باعث نا قابل یقین امور کی انجام دہی میں سرفہرست رہتا ہے۔ اور بڑے بڑے لا ینحل مسائل اپنا حل خود ہی پیش کر دیتے ہیں لیکن عظمِ صمیم اور استقامت جیسی صفاتِ محمود سے متصف ہونا انتہائی ناگزیر ہے۔ جرأت، استقامت، عزم صمیم، یقین کامل اورعمل پیہم جیسی شمشیروں سے مسلح مجاہد جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت بخوبی سرانجام دے سکتا ہے اور راستے میں آنے والی جملہ رکاوٹیں خس و خاشاک کی طرح ختم ہو جاتی ہیں۔
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیئت سے رائی
توانائی کے بغیر زندگی کی گاڑی کو رواں دواں رکھنا خام خیالی ہے، پلک جھپکنے سے جوئے شیر نکا لنے تک جملہ امور کی انجام دہی کے لیے توانائی جز و لانیفک ہے۔ امور ِخانہ داری سے لے کر امورِمملکت کے نپٹانے تک توانائی کی افادیت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ توانائی کے بحران کا حل ہمارے پاس کیوں نہیں ہے، ہمارے پاس اس کا حل بدرجہ اتم موجود ہے لیکن توجہ کی ضرورت ہے۔ ہمارامعلم اپنے طالب علم کو اچھی تعلیم وتربیت کے ذریعے اس کی صحیح خطوط پر کتر بیونت کے جذ بے ، اس کو معاشرتی اقدار سے آگاہی کے ذریعے ،اس کو معاشی ضروریات کی تکمیل کے پیش نظر ہدایات کے ذریعے توانائی کے جملہ شعبہ ہائے زیست سے آشناء کر سکتا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں اگر توانائی کے بحران کے حل کے مضامین درجہ وار شامل کر دیئے جائیں اور اس کی افادیت سے طلباء کو باخبر کر دیا جائے تو یہ آنے والی نسل کے لیے سود مند ثابت ہوں گے۔ اور دیگر شعبوں کے لیے یہ مہمیز ثابت ہوگی۔ استاذ معمار قوم ہوتا ہے اس کی بھٹی میں گرم ہونے والا حدید اپنے اندر ہرقسم کی تبدیلی کی گنجائش رکھتا ہے۔
ہم جب ذہنی طور پر مستعد اور کمر بستہ ہو جائیں، تو پھر مشکل اور ناممکن کام کوممکن اور آسان بنا دیتے ہیں۔ کسان اگر اپنی کھیتی کو کشت ِزعفران بنانا چاہتا ہے تو وہ اعلیٰ قسم کے بیج استعمال کرتا ہے، جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے اپنی فصل کو معیاری بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ زراعت ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اگر ہماری فصل اچھی ہو جائے تو ہم اپنی درآمدات اور برآمدات کو بڑھا سکتے ہیں۔ اور برآمدات میں اضافے سے بین الاقوامی طور پر ہم ایک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اور توانائی کے بحران پر قابو پانے میں خاصی مددمل سکتی ہے۔
کفایت شعاری کو اگر ہم حرزِ جاں بنالیں تو اس سے بھی توانائی کے بحران پر قابو پانے میں معاونت حاصل کی جاسکتی ہے۔ کفایت شعاری اور اعتدال اگر برقی رو کے استعمال میں آ جائے تو توانائی کے حصول میں رکاوٹ کھڑی نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے رائے عامہ کوبھی ہموار کرنا ہوگا۔ عوام کو آگاہی اور شعور کی دولت سے مالا مال کرنا ہوگا۔ اگر برقی رو کے استعمال میں اعتدال آجائے تو برقی توانائی کا بحران ختم ہوسکتا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکا فرمان عالیشان ہے ’’ بہترین کام میانہ روی ہے‘‘ میانہ روی کی عادت اگر ختم ہوجائے تو پھر بحرانوں کا درواز ہ و اہوجا تا ہے۔ اور اگر یہ خصلت عادت ِثانیہ بن جائے تو پھر انسان بڑے بڑے اونچے پہاڑوں کے سامنے بھی سینہ تان کر کھڑاہو جا تا ہے۔ اور اگر فضول خرچی جیسی قبیح عادت کا وہ خوگر ہو جائے تو پھر ریت بھی اس کو پتھر نظرآتی ہے۔
توانائی کے بحران کاحل ہمارے بس میں بالکل ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس میں ارباب حل و عقد کو منظر عام پر آنا ہو گا۔ حکومتی سطح پرعوامی آگاہی کے لیے انتظام و انصرام کرنا ہو گا۔ اخبارات کے ذریعے اشتہارات دے کر شعور و آگاہی کے دروازے کو وا کر نا ہو گا۔ صحافی حضرات کو اپنے قلم کو جنبش دینا ہوگی۔ مضمون نگار اپنے مضامین کے ذریعے توانائی کے بحران پر قابو پانے میں اپنے قویٰ صرف کرتے رہیں ۔ قلمکار اچھی اور سستی کتب کی تصنیف کر کے اپنے خیالات کو عوام الناس تک بہم پہنچانے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھیں ۔ توانائی، طاقت، قوت، ہمت کا دوسرا نام ہے۔ جہاں بھی طاقت کی ضرورت ہوگی وہاں گو یا توانائی کی ضرورت ہوگی اور بغیر توانائی کے زندگیوں کی بہاریں ٹوٹنا ناممکن ہے۔ جو چیز ہر شعبے میں درکار ہواس کے حصول کے لیے سرتوڑ کوشش ، شبانہ روز جد و جہد، انتھک محنت اور پیہم کدّوکاوِش کی اشد ضرورت ہے۔
توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے ہمارے جو منصوبے التوا ء کا شکار ہیں وہ پایہ تکمیل تک پہنچائے جائیں، ڈیم بنائے جائیں، شمسی توانائی کو وسعت دی جائے ، پرائیویٹ سیکٹرکو اجازت دی جائے کہ وہ بجلی کے بحران پر قابو پانے میں دستِ تعاون دراز کریں اور اسی طرح جو شخص بجلی کم استعمال کر کے ملک و قوم کے لیے نعمت ِعظمیٰ ثابت ہو، اس کی حوصلہ افزائی کی جائے اس کو انعامات سے نوازا جائے۔ بجلی چوری کر کے زندگی گزارنے والے لوگ جو معاشرے کے لیے ناسور ثابت ہورہے ہیں انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ انرجی سیور کی طرح دیگر ایسے منصوبے سامنے لائے جائیں جو توانائی کے بحران میں ممد و معاون ثابت ہوں ، سادگی کو رواج دیا جائے یہ ایک ایسی عظیم خصلت صالحہ ہے کہ صرف اس خصلتِ کو اپنانے سے %50 فیصد توانائی کے بحر ان کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے، سادگی کے ساتھ اور حصول مقصد کے لیے جذبہ صادق ہو، عمل پیہم ہو، شبانہ روز جد و جہد ہو، انتھک محنت ہو، سعی مسلسل، لگاتار کدو کاوش ہو اور اپنے ہدف کے لیے تمام عوامی و سرکاری ذرائع استعمال میں لائے جائیں تو توانائی کے بحران کے حل پر بحسن وخوبی قابو پایا جاسکتا ہے، عزمِ صمیم اور جہد مسلسل کی ضرورت ہے کیونکہ بارش کے قطرے اگر مسلسل اور لگا تار گرتے رہیں تو ریگستانوں میں بھی سیلاب آجا تاہے۔ آج اگر ہم بھی تہیہ کر لیں کہ توانائی کے بحران پر قابو پانا ہے تو وہ دن دور نہیں کہ قوت اور توانائی کا عقاب فلک کی بلندیوں پرمحو پرواز ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...