Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین |
حسنِ ادب
نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین

دہشتگردی ایک المیہ ہے
ARI Id

1689956699836_56117695

Access

Open/Free Access

Pages

189

دہشت گردی ایک المیّہ ہے
بھلا بے دخل ہو کیوں کر مکاں اپنے مکینوں سے
وہ دہشت گرد بن جاتے ہیں جن کے گھر نہیں رہتے
دہشت گردی کا لفظ گذشتہ چند سالوں سے ہمارے معاشرے میں اتنا استعمال ہونے لگا ہے کہ اس سے خوف و ہر اس کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ کیونکہ جس لفظ کے ساتھ اس کا لاحقہ اشتراک کرتا ہے وہ زیادہ نقصان دہ ہو جاتا ہے اگر یہ لفظ وکیل کے ساتھ استعمال ہوتو قانونی دہشت گردی، محلے کے ساتھ استعمال ہوتو محلاتی دہشت گردی ، لفظ دہشت گردی خوف و ہراس کی علامت بن چکا ہے۔ دہشت گردی ایک المیّہ ہے وہ معاشرہ، وہ قوم،وہ ملک جو پسماندگی کی کیفیت سے دو چار ہو اور کئی المیے جس کے حسن کو گہنا رہے ہوں ، اس کے استحکام کو متزلزل کر رہے ہوں۔ اس کی فلک بوس عمارتوں کو مسمار کر رہے ہوں تو وہ قابلِ رحم ملک ہے۔ ہمارے ہاں المیوں کا جم غفیر ہے جو ہمارے مسلم معاشرے کو بیخ و بن سے اکھاڑنے کے درپے ہیں۔ ہمارے ہاں عصبیت ایک المیہ ہے، اقربا پروری ایک المیہ ہے، کرپشن ایک المیہ ہے،رشوت ایک المیہ ہے۔ منافقت ایک المیہ ہے، بے جا مخالفت ایک المیہ ہے اور اس وقت جس نے ہماری کمرتوڑ کر رکھ دی ہے وہ مہنگائی کا المیہ ہے۔ ان سب المیوں سے زیادہ خطر ناک ، زیادہ ہیبت ناک ، زیادہ خوفناک ، زیادہ اندوہناک المیہ دہشتگردی کا ہے۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس نے عوام الناس کا آرام و سکون برباد کر رکھا ہے۔ کوئی جان کسی حال میں بھی محفوظ نہیں ہے۔ گھر ، بازار مسجد ،مزار کوئی جگہ بھی محفوظ نہیں ہے۔
اسلام امن پسند مذہب ہے ،مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے۔ امن وسلامتی کا علمبردار ہے، رواداری ، مروت، فرض شناسی ، راست گوئی، عدل و انصاف ، مساوات اور اخوت کا خمیر اس کی سرشت میں شامل ہے اور یہ اپنے پیرو کار میں خصائلِ حمیدہ پیدا کرنے کا شدت سے متمنی ہے۔ اسلام کے ارکان خمسہ اور جملہ عبادات ایک عدل و انصاف پر مبنی اور دہشت وخوف سے معرا ملت وقوم کی تعمیر کی خواہاں ہیں۔
اشرف المخلوقات کے اعزاز سے معزز شخص کبھی دہشت گردی کا مرتکب نہیں ہوسکتا۔ دہشت کا لفظ ہی ایسا ہے کہ اس سے کراہت، نفرت اور گھِن کا تصور ابھرتا ہے اور ایک صحت مند اور سلیم دماغ متعفّن ہو جاتا ہے۔ دہشت گردی کے تصور سے جو بات ایک عام شخص کے ذہن میں آتی ہے وہ یہی ہے کہ چند عاقبت نا اندیش افراد پرمشتمل گروہ گھناؤنی شکل بنائے مختلف النوع اسلحہ سے مسلح ہو کر سادہ لوح لوگوں کو کچلنے کے در پے ہیں۔
اسلام کے زیور سے مرصعّ شخص توایسی گھناؤنی حرکات کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ظلم و استبداد بھی دہشت گردی کی ایک شکل ہے۔ عدل وانصاف کا فقدان دہشت گردی کی ایک قسم ہے، اگر کوئی اسلام کے ابدی اصولوں سے منور چراغ اپنے گھر میں نہیں روشن کرتا تو وہ خانگی دہشت گردی کا شکار ہے۔ اگر کوئی محلہ کے اندر کوئی قابل قدر کام سرانجام نہیں دیتا تو وہ محلاتی دہشت گردی کا شکار ہے۔ ملک وقوم کی خدمت نہ کرنے والا شخص اگر دہشت گردنہیں بھی ہے تو دہشت گردی کے قریب ضرور ہے۔
دنیا پر موجود مما لک جو ترقی پذیر ممالک کا استحصال کر رہے ہیں وہ پسماندہ ممالک کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ صرف ان کی ظاہری حیثیت کے خاتمے کے درپے ہیں بلکہ ان کو نظریاتی طور پربھی مفلوج کرنے کے آرزومند ہیں۔ آج ہمارا جو حشر ہورہا ہے اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے۔ تقریبا 57 ممالک اسلام کے تاج کو اپنے سر پرسجا چکے ہیں۔ انہوں نے صرف ظاہری طور پر اسلام کے لیبل کو اپنے اوپر لگایا ہوا ہے۔ وہ اسلام کے عالمگیر نظام ِحیات سے نا آشنا ہیں۔ بنابر یں وہ آئے روز قعر مذلت میں گرتے جارہے ہیں۔
حدیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ہے:۔
’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں‘‘
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکی حدیثِ پاک سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہورہی ہے کہ مسلمان کے ہاتھ اور زبان سے کبھی دوسرے مسلمان کو تکلیف نہیں پہنچ سکتی۔ ہر چیز کی ایک شناخت ہوتی ہے، سورج کی شناخت یہ ہے کہ وہ مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور مغرب میں غروب ہوتا ہے، ستاروں کی شناخت یہ ہے کہ وہ آسمان پر چمکتے ہیں، سبز ہ کی شناخت یہ ہے کی وہ زمین پر سبنرمخمل کی چادر کی صورت میں چشم بینا کی طراوت کا سبب بنتا ہے، درختوں کی شناخت یہ ہے کہ وہ صحراؤں میں لہرا کر گلستانوں میں جھوم کر ، آلودگی کا سد باب کر کے اپنے وجود کا احساس دلاتے ہیں، پھولوں کی شناخت یہ ہے کہ وہ چمن میں باغباں اورگل چیں کے ہاتھوں کی زینت بنتے ہیں۔ اسی طرح مسلمان کی بھی شناخت ہے کہ اس کے ہاتھوں اور زبان سے دوسرے مسلمان مامون ومحفوظ رہتے ہیں۔
دہشت گردی کا سد ِباب صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ اسلام میں بحکمِ خداوندی پورے پورے داخل ہوجائیں اور سرکار ِدو عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی اتباع کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا جائے۔ ایک مسلمان کا معاشی تحفظ ، معاشرتی معیار، اخلاقی بلندی صرف اور صرف احکام ِالٰہی کی پیروی میں مضمر ہے۔ اگر ہم اسلام سے دور ہوتے گئے اور دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتے گئے تو یہ سب ہمارے اعمال ہی کی بدولت ہوگا۔
خود عمل تیرا ہے صورت گر تری تقدیر کا
شکوہ کرنا ہو تو اپنا کر ، مقدر کا نہ کر
دہشت گردی واقعی ایک المیہ ہے لیکن اگر کسی مصیبت کو ،کسی پریشانی کو سر پرسوار کرلیا جائے تو وہ ترقی کی راہ میں سد سکندری ثابت ہوتی ہے اور پھر اس سے راہِ فرار نا ممکن ہو جا تی ہے۔ اس وقت ہماری حکومت کی کاوشیں قابل دیدہ ہیں لیکن اس کی مساعی جمیلہ کو کامیاب بنانے کے لیے ہمارے تعاون کی بھی اشد ضرورت ہے، دہشت گرد کا کوئی مسلک اور مذہب نہیں ہوتا اور اس کی گھناؤنی سازش کا شکار کوئی خاص گروہ یا فرقہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ان کی سازشوں کو ناکام کرنے کے لیے ہمیں سخت جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ملک پاکستان سے تعلق رکھنے والا اس صورت میں سچا پاکستانی ہو سکتا ہے، جب اس کی حفاظت کے لیے ہرقسم کی قربانی اور ایثار اس کی اوّلین خواہش ہو۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...