Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین |
حسنِ ادب
نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
ARI Id

1689956699836_56117699

Access

Open/Free Access

Pages

198

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
خود داری حیات نے جُھکنے دیا نہ سر
حسرت سے اُن کا نقشِ قدم دیکھتے رہے
یہ کائنات جو رنگارنگ مظاہر فطرت سے بھری پڑی ہے ، اس میں ہمیں فلک بوس پہاڑ نظر آرہے ہیں، کہیں کشت ِزعفران بنے کھلیان و کھیت نظر آرہے ہیں، کہیں پیچ و بل کھاتی ہوئی ندیاں اور نہریں نظر آرہی ہیں۔ پہاڑوں سے میٹھے اور ٹھنڈے چشمے نکل کر اس کے حسن کو دوبالا کر رہے ہیں ہر ذی روح کے لیے اس کا رزق مقرر ہے جو اس نے متعین مدت تک حاصل کرنا ہے اور پھر داعی اجل کو لبیک کہہ کر اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کرنی ہے۔ مقررہ کردہ رزق جس کا تعین اس خالق حقیقی کی طرف سے کر دیا گیا ہے اور جس کا ذمہ اس رازقِ کائنات نے لے رکھا ہے وہ تو ہر صورت میں ملنا ہے۔ ’’زمین پر کوئی شے ایسی نہیں ہے جس کے رزق کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خودنہ لے رکھا ہو‘‘ (القرآن)
فضاؤں میں محو پرواز طائرِ خوش الحان بھی اپنارزق حاصل کر رہا ہے ،منبر رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمپر بیٹھ کر واعظ شیریں بیان بھی اپنارزق حاصل کر رہا ہے، ظلمات ِشب میں سیاہ پتھر پر رینگنے والے کیڑے مکوڑے بھی اپنارزق حاصل کرتے ہیں، آفتاب کی کرنوں سے خائف چمگادڑ بھی اپنے پیٹ کی آگ بجھا کر سوتی ہے۔ شاہین پرواز کی بلندیوں پراپنا رزق حاصل کرتا ہے اور گدھ مردار کے پاس بیٹھ کر اپنارزق حاصل کرتا ہے، کسان ہل چلا کر، پانی لگا کر اور رات سانپ کے سروں کو مسل کر اپنا رزق حاصل کرتا ہے اور راہزن لوٹ مار اور غارتگری سے اپنا رزق حاصل کرتا ہے، قاضی کرسی منصب پر بیٹھ کر اپنا رزق حاصل کرتا ہے اور مجاہد سرحدوں کی حفاظت کر کے اپنا رزق حاصل کرتا ہے۔ دولت مند انسان اپنے مال کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر کے رزق حاصل کرتا ہے اور گداگر گلیوں، چوراہوں ، اور پارکوں میں بھیک مانگ کر اپنا رزق حاصل کرتے ہیں۔ الغرض ہر ایک رات کو پیٹ بھر کر سوتا ہے۔
احسان ناخدا کا اُٹھائے مِری بلا
ساحل کو چھوڑ دُوں میں کہ لنگر کو توڑ دُوں
قرآنِ پاک میں فرمانِ خداوندی ہے کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔ نباضِ قوم حکیم الامت حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی قوم کو اپنے اس شعر میں حقیقی رزق کے تلاش کرنے کے لیے ترغیب دینے کی مساعی جمیلہ کی ہیں۔ اور اس کے نزدیک حقیقی رزق وہ ہے جو انسان کو ذلت کی پستیوں سے نکال کر عزت و حرمت کی رفعتوں اور بلندیوں پر لے جائے۔ وہ ایسے رزق کا خواہاں اورمتمنی ہے جس سے پیدا ہونے والا صالح خون انسان کی عروق مردہ کو حیات بخشے اور اس کے قوائے مضمحل کوامور صالحہ کی انجام دہی کے لیے مستعد کرے، رزق وہی اچھا ہوتا ہے جس کے استعمال سے ایک طالب علم با مقصد تعلیم کے حصول کے لیے کوشاں رہے اور ایک مسیحاصاحب فراش لوگوں اور بیماری سے تڑپتی ہوئی انسانیت کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہے، رزق وہی اعلیٰ و ارفع ہے جو بھائی کی نظروں میں اگر حیا پیدا کر لے تو ان میں عفت و پاکیزگی جیسی صفات بھی پیدا ہوں، جو لوہار کے ہاتھوں میں سختی پیدا کرے تو سونار کے ہاتھوں میں نرمی کے ساتھ ساتھ نیت اور ارادوں میں فتوربھی پیدا کرنے کا باعث نہ ہو، رزق کے حصول میں مساعی جمیلہ کی جائیں ،تگ و دو کی جائے، جہدمسلسل کی جائے تو ملنے والا رزق صفات محمودہ کی تخلیق کا باعث ہو گا۔ رشوت کی صورت میں،کرپشن کی صورت میں ، لوٹ مار کی صورت میں ، غارتگری کی صورت میں ، راہزنی اور چوری کی صورت میں حاصل کیا جانے والا رزق جہاں معاشرے کے لیے کلنک کا ٹیکہ ثابت ہو گا وہاں وہ ننگِ انسانیت بھی ثابت ہوگا، ایسے رزق کو بھی مستحسن قرارنہیں دیا جا سکتا بلکہ ایسے رزق کے حصول کے لیے تگ و دو اور کاوش کرنے سے تو مر جانا بہتر ہے۔ ’’اور اس سے تو موت کو گلے لگانے میں ہی عافیت ہے۔
اے طائر لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اعلیٰ سے اعلیٰ مقام حاصل کرے، وہ رفعتوں اور بلندیوں پر پہنچے۔ اگر وکیل ہے تو وہ عدالت میں کرسی عدل و انصاف پر بیٹھنے کا متمنی ہے، اگر تا جر ہے تو وہ تھوڑے وقت میں اپنے علاقے کا نامور صنعتکار اور تاجر بننے کی آرزو اپنے قلب میں لیے منتظر بیٹھا ہے، اور اگر وہ واعظ ہے تو وہ اس بات کا آرزو مند ہے کہ لوگ اس کو ہمہ تن گوش ہو کر سنیں اور اس کی نصائح پرعمل پیرا ہوں، ان سب چیزوں کا حصول امکان سے باہرنہیں ہے۔ یہ حاصل کی جاسکتی ہیں لیکن ان سب کے لیے صفات قبیحہ یعنی حسد، غیبت ،نفرت، بغض، جھوٹ ، عصیبت ،اقربا پرورکی چادر کو تار تار کرنا پڑے گا اور صفات محمودہ یعنی صدق وسچائی ، مروّت، اخوت، ہمدردی اور محبت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا ہوگا اور ان سب کا حصول اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی اطاعت میں مضمر ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی اطاعت کے لیے رزق کا حلال ہونا انتہائی ناگزیر ہے، اس سے یہ بات مشروع بھی ہے اور زبان زد عام بھی کہ رزق حلال عین عبادت ہے، جو رزق حلال عین عبادت ہے، جو رزق دینی اور دنیاوی اعتبار سے نقصان دے اور کوتاہی پرواز کا باعث بنے اس سے تو اس فانی زندگی کو خیر آباد کہ کراصلی اور حقیقی زندگی کو گلے لگا نا باعث مسرت بھی ہے نوید جان فزا بھی۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...