Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین |
حسنِ ادب
نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین

آمریت سے ہی پاکستان کا مستقبل ہے
ARI Id

1689956699836_56117701

Access

Open/Free Access

Pages

203

آمریت سے ہی پاکستان کا مستقبل ہے
وفوق کل ذی علم علیم کے مصداق ہرعلم والے سے اوپر ایک علم والا ہے، ہر ایک کا قلب ودماغ مختلف ہے۔ جسمانی اختلاف کے ساتھ ساتھ زمینی حقائق دیگربوقلو مونیوں کے بھی معترف ہیں، ہر ایک اپنے اپنے انداز میں گفتگوکا ، تحریر کا، تقر یرکا ملکہ رکھتا ہے۔ کوئی ذی روح مخلوق صرف اشاروں کنایوں سے ہی اپنی منزل کا تعین کر لیتی ہے اور کسی طبقے کو ز جر وتوبیخ کی بدرجہ اتم ضرورت ہوتی ہے۔
جن نابغۂ روزگار ہستیوں اور نفوس قدسیوں کے دل و دماغ حصول منزل کے لیے مضطرب رہتے ہیں۔ وہ شاہراہِ حیات سے خارداروں اور خس و خاشاک کو نظر انداز کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ اپنے مستقبل کی تابندگی انہیں ہر لحاظ سے عزیز ہوتی ہے اور وہ اسی کے حصول کے لیے شب و روز کوشاں رہتے ہیں۔ اور یہی ان کا مقصد ِحیات ہوتا ہے۔
مستقبل کاحسن ملحوظ خاطر رہنا چاہیئے۔ خواہ اس کے لیے حالات کتنے ہی نامساعد کیوں نہ ہوں، بیماری کے بعد صحت کی قدر میں اضافہ ہو جاتا ہے، نمکین چیز کے استعمال کے بعد معمولی مٹھاس کا ستعمال بھی لبوں کو آبِ زلال کا ذائقہ بہم پہنچاتا ہے، تنگی کے بعد آسانی ہوتی ہے، غربت کے بعد آنیوالی امارت کے استمرار کے مواقع وافر مقدار میں میسر آتے ہیں۔ کانٹوں کے درمیان سے کھلنے والے گل سرخ کی مہک مشام ِجاں کو معطر کر دیتی ہے۔
اصل مقصد پاکستان کے استقبال کے گیسوؤں میں مشاطگی ہے، اگر آمرمثبت سوچ کا حامل ہے تو وہ آمرانہ طرزِ حکومت میں بھی پاکستان کو تحفظ دے سکتا ہے، پاکستان کی معیشت میں ایک مثالی کردار ادا کرسکتا ہے۔ پاکستان کی زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں خاطر خواہ راہنمائی کر سکتا ہے، پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تعلیم کے فقدان کو دور کرنے میں مثالی کردار ادا کر سکتا ہے۔
بعض حلقے جمہوری فکر کو پسند کرتے ہیں، یہ ان کی اپنی سوچ ہے۔ آمرانہ طرزِ حکومت میں نظم و ضبط کی پابندی کروائی جاتی ہے، فکر معاش سے بے فکر لوگ اس طرزِحکومت کے کارپرداز ہوتے ہیں، اور وہ بغیر کسی دباؤ کے اپنی حکومت کے استحکام میں محور ہتے ہیں۔ ان کی سوچ کسی ایک طبقے کی طرف مرتکز نہیں ہوتی بلکہ وہ مجموعی طور پر ملک میں امن و عافیت کے متمنی رہتے ہیں۔
جمہوریت میں اگرحکومت( عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے) عوام کی ہی ہوتی ہے لیکن اس میں وہ لوگ برسراقتدار آ جاتے ہیں جن کو منتخب کرنے والے ان کے مزارع اور ملازم ہوتے ہیں، جو ذہنی پستی کا مسلسل شکار رہتے ہیں اور احساسِ کمتری کے درخت کے نیچے ان کا قیلولہ ہوتا ہے۔ ان کے حق رائے دہی سے ایوان میں پہنچنے والے لوگ معاشرے کے لیے قابل قدر خدمات دینے سے قاصر رہتے ہیں۔
عوامی جذ بہ خیر سگالی سے معمور ایک شخص جب تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے ایوان میں پہنچتا ہے تو اس کامطمع نظر ذاتی غرض و غایت نہیں ہوتی ، اچھے اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والا ، اچھی اور معیاری خوراک کا استعمال کرنے والا، عوام کے لئے فلاح و کامرانی کے جذبات رکھنے والاآ مر،گھسی پٹی جمہوریت کا نام لے کر ایوان اقتدار تک پہنچنے والے غیر جمہوری رویوں کے حامل جمہوری افراد سے بدرجہا بہتر ہوتا ہے۔
آمریت ، جمہوریت کی متضاد ہے لیکن مقصود صرف اور صرف استقبالِ پاکستان کی تابندگی ہے، آمریت پسند عناصر اگر مخلص اور صاحب علم ہوں تو وہ ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ، ان کی سوچ ، ان کی سختی، ان کی طرز قلبی، ان کے زجروتوبیخ سب کی سب پاکستان اور ملک کے لیے ہوتی ہے۔ آمرانہ سوچ کے سیلاب کا رخ اگر صحیح سمت ہو جائے تو کھیت و کھلیان میں بہار آ جاتی ہے اور گلستانِ ہستی میں خودرو پودوں کی بجائے شجر سایہ دار کی روئیدگی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔نظریہ آمریت کے حامی افراد کے نزدیک آمریت ہی پاکستان کا مستقبل ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...