Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین |
حسنِ ادب
نگارشات راشد: سکول ، کالج اور مدارس کے طلبا و طالبات کے لیے انمول مضامین

آزادی ایک نعمت ہے
ARI Id

1689956699836_56117704

Access

Open/Free Access

Pages

209

آزادی ایک نعمت عظیم ہے
صبحِ آزادی کا سورج جسم و جاں پہ قرض ہے
اس کی کِرنوں کی حفاظت اب تمھارا فرض ہے
آزادی خدا کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس نعمت کا شکر ادا کرنا بہت بڑی سعادت ہے۔ شکر در اصل نعمت کی فراوانی کا سبب ہوا کرتا ہے اور کفرانِ نعمت زوال کا باعث بنتا ہے۔ شاکرین کے در پرنعمتیں مسلسل دستک دیتی رہتی ہیں۔
آج ہم اپنے گریبان میں منہ ڈال کر جھانکیں کہ ہم نے آزادی کی نعمت کا کس حد تک شکر ادا کیا ہے اور خدا اورمخلوقِ خدا سے جو وعدے کیے تھے انہیں کہاں تک پورا کیا ہے؟
ہم نے نعرہ لگایا تھا کہ’’ ہم پاکستان میں قرآن کا قانون جاری کریں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی سنت کی روشنی میں زندگی کا سفر طے کریں گے۔ نیکی کا عَلم بلند کریں گے اور بدی کو سرنگوں کر کے چھوڑیں گے ، گناہوں کی اندھیری رات میں نیکی کے دیئے جلائیں گے اور شبِ تیرہ کی تیرگی کا جنازہ نکال کر دم لیں گے۔ جبر و استبدادکی کالی گھٹائیں چھٹ جائیںگی۔ عدل وانصاف کا قاضی محمودو ایاز کو ایک صف میں کھڑا کر دے گا۔ غربت کے مہیب سائے رخصت ہو جائیں گے۔ تنگدستی او محتاجی کے عفریت کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ خوشحالی کا آفتاب طلوع ہوگا اور افلاس زدہ انسان امن و عافیت کے گہوارے میں خوشی کے نغمے گاتے ہوئے زندگی بسر کریں گے۔
یہ تھے وہ مقاصد جن کے حصول کے لیے برصغیر کے لاکھوں بلکہ کروڑوں انسانوں نے ناقابلِ فراموش قربانیاں دیں۔ اسی ارض پاک کے لیے ہمیں آگ اور خون کے دریاؤں سے گزرنا پڑا۔ یہ پاکستان نہ تو حسینوں کی اداؤںسے بنا اور نہ ہی یہ مغنّیہ کی صداؤں سے بنا اور نہ ہی رقص وتبسم کا کرشمہ ہے۔ یہ نہ حنا آلود ہاتھوں کی مہک سے اور نہ ہی مشاطگی کے اندازِ ساحرانہ سے وجود میں آیا۔ اس کی نقش گری نہ تو شبِ ز فاف کی رنگ رلیوں میں ہوئی اور نہ ہی حجلۂ عروسی کی رعنائیوں میں، لاکھوں مسلمانوں کی گردنیں اس کی نذر ہوئیں، جوانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی ، دخترانِ اسلام کے سہاگ اُجڑے، غیرت مند باپ اور غیور بھائیوں کے سامنے ان کی عصمتوں کو تار تار کیا گیا۔ اور کتنی ہی بے گوروکفن لاشیں گنگا جمنا کے آبِ رواں پر تیرتی رہیں۔(ماخوز)
مگر افسوس کہ آج ہم نے آزادی کا مفہوم ہی بدل ڈالا۔ آزادی کا مقصد جو ہم نے سمجھ رکھا ہے وہ یہی ہے کہ ہم لوگ مادر پِدر آزاد ہو گئے ، عدل و انصاف سے آزاد ہو گئے ، زہد وتقویٰ سے آزاد ہو گئے ، امانت ودیانت سے آزاد ہو گئے،حق و صداقت سے آزادہو گئے ، شریعت و طریقت سے آزاد ہو گئے ، شرافت و لیاقت سے آزاد ہو گئے ، فرمانبرداری والدین سے آزاد ہو گئے ، عظمتِ کبائر اور شفقت ِصغائر سے آزاد ہو گئے ، فلاح و بہبود کے کاموں سے آزاد ہو گئے ، یہ بات ہر گز نہیں ہے آزادی کا مقصد یہ تھا کہ ہم انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے آزاد ہوں نہ کہ ہر قسم کی نیکی ، احسان، بھلائی و اچھائی کو خیر آباد کہہ دیں۔
آج ہمارا حال عجب ہو چکا ہے ہماری زندگی کے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور تہذ یبی بلکہ تمام پہلو چوپٹ ہوچکے ہیں۔ ایک بے ترتیبی اور انار کی ہے جو چہار سو پھیلی ہوئی ہے اور یوں لگتا ہے کہ ہمارا شعور ، ہمارا احساس اپنی موت آپ مر چکا ہے اور جب قوموں کے ذہن مردہ ہو جائیں اور احساس باقی نہ رہے تو قوم کی ذہنی پستی اسے اغیار کی دہلیز پر جھکنے کے لیے مجبور کر دیتی ہے اور جب قومیں خانۂ اغیار کا طواف کرنے لگتی ہیں تو آبا و اجداد کی میراث گم ہو جایا کرتی ہے۔
آزادی ایک انمول نعمت ہے ہماری کامیابی اور کامرانی کی راہیں تب کھلیں گی جب ہم اس کی حقیقی روح تک پہنچیں گے، جب ہم اس کی قدر کرناسیکھیں گے،آزادی کی قد ر پو چھنی ہے تو اس طائرسے پوچھیں جو قفس میں بند ہے اور محو پرواز طیّور کے چہچہانے کی آوازیں اسے ماہی بے آب کی طرح تڑپا رہی ہیں۔ غلامی کی آب و ہوا سے پیدا ہونے والا خون کبھی مردہ رگوں میں جان پیدا نہیں کرسکتا۔ غلامی کے ایندھن سے جلنے والا چولہا بھی مقوی غذا ئیں تیار نہیں کر سکتا۔ غلامی کی فضاء میں لیا جانے والا سانس کبھی پھیپھڑوں کی حرکات میں توازن پیدا نہیں کر سکتا۔ غلامی کی سرزمین پر اُگنے والا پھول کبھی فضائے چمن کو معطر نہیں کرسکتا۔ پھر ہم کیوں نہ کہیں کہ آزادی ایک انمول نعمت ہے۔
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
یہ قانونِ قدرت ہے کہ جس نعمت کی جتنی قدر کی جائے صرف اس میں استحکام پیدا ہوتا ہے بلکہ ’’ لئن شکرتم لازیدنکم‘‘ کے مصداق اس امت میں اضافہ کر دیا جا تا ہے۔ آج ہمیں اس آزادی کے تحفظ اور تعمیر و ترقی کے لیے ایک ہمہ گیر ذہنی انقلاب کی ضرورت ہے۔ صدیوں کی غلامی سے پیدا شدہ ذہنی مرعوبیت ، جاہلانہ طرز فکر، ذہنی جمود، اخلاقی پستی، مادی نقطہ نظر، آرام طلبی ، مغرب کی نقالی ،مشرکانہ رسوم ، غیر اسلامی معاشرت، اسراف و تبذیر ،نمودونمائش اور اس طرح کی دیگر خرابیوں کا تدارک کے بغیر ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا، گلستانِ آزادی میں محبت و مودت ، عدل وانصاف، اخوت و مروت، حق وصداقت، باہمی ہمدردی ، غریب پروری، ایثار وقربانی کے گلہائے رنگارنگ کی پر رونق فضا ء کو برقرار رکھنے کے لیے رشوت خوری ، سمگلنگ ، چور بازاری ، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی ، ناجائز منافع خوری، دھوکہ دہی، فریب کاری ، ڈاکہ زنی ، دروغ گوئی جیسے نو کدار کانٹوں اورخس وخاشاک کو جڑ سے اکھیڑ نا ہوگا، ہمیں آزادی کے استحکام کی راہ میں ہر رکاوٹ کو دور کرنا ہوگا آزادی ایک انمول نعمت ہے کا صرف میں ہی نہیں بلکہ ہر ذی شعور ، ذی فہم و فراست، کو تا ہ قد ، طویل القامت ، لحیم شحیم اسود و احمر، پہاڑوں کا باسی، غاروں کا باسی ، صحراؤں کا باسی ، فضاء میں محو پرواز طائران خوشنواسب کے سب قائل ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ہماری ہر سانس آزاد وطن میں اپنا تسلسل برقرار رکھے اور جب دم واپسیں ہو تو آخری سانس بھی آزادی کی نذر ہو۔
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...