Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

کارِ سعادت
ARI Id

1689956726155_56117710

Access

Open/Free Access

Pages

۱۰

کارِ سعادت
قیاس ذاتی کسی بھی اعتراض گزار کی بنیادی قوت ہوتی ہے جسے وہ شعور (خود ساختہ شعور جو آرٹ کے درجے میں ہے) کے ذریعے کسی معروضی حقیقتِ مطلق کو اپنے شعور کے مطابق قیاس کر کے مسرور ہوتا ہے تبھی کہا جاتا ہے خود سے یگانگی حقیقت سے بیگانگی کے مترادف ہوتی ہے۔ ہرہیچ مدان و ناتواں کو اپنے عقلِ کل ہونے کا زعم وقوف سے عاری کرتا ہے اس لیے مضحکہ خیز اعتراضات کو فتوحات گردانتا ہے۔ حالاں کہ راست علم ہمیشہ کسی واقعی معروض کی تمیز سے اٹھتا ہے یعنی موجود پر قوتِ امتیاز یا وجدانی ادراک کے ذریعے جوہر کے اسما و شناخت کا سفر طے کیا جاتا ہے۔ ہر چند ہر مذہب موضوعِ علم بننے کی پوری استطاعت رکھتا ہے۔ ہاں مگر ناظر کاصاحبِ وجدان ہونا ازحد ضروری ہوتا ہے۔ چوں کہ ہر قضیہ وجدانی ادراک کے متحرک ہونے سے جنم لیتا ہے۔ ہم زمان و مکان کا ادراک اسی استعداد کی تحریک سے کرتے ہیں۔ اسی لیے ایک طے شدہ امر ہے کہ شعور ِ علمی کی تشکیل میں خارجی معروض کا ہونا بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ اگر خارجی معروض اور اس سے منسوب شعورِ انسانی میں مطابقت نہ ہو تو قضیہ کے بجائے بے بنیاد مناقشات ظہور کرتے ہیں ،جن پہ خارجی واقعیت دلالت نہیں کرتی اور نتیجہ خیز حقانیت کی راہیں بھی برابر مسدود ہوتی جاتی ہیں۔ جب معترضین اپنے خود ساختہ علم کا قابلِ قبول شعور پیدا کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں تو اس کی غلط توجیہات پر قانع ہونے کے شعور سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اکثر یوں ہوتا ہے کہ نظریاتی تسکین جب بھی ضرورت سے زیادہ بڑھ جاتی ہے تو معیاری اور یقینی علم کو محال کر دیتی ہے۔
اعتراض محاذ تب بنتا ہے جب علمی کے بجائے ذاتی تسکین اور ضرورت سر بلند ہو کر دل و دماغ پر چڑھ دوڑتی ہے۔ سوال بنیادی طور پر غذائے علم و جستجو ہے۔ شعور کا عینی ،واقعی اور آزادانہ تحرک نہ ہو تو ہر قسم کے قضایہ دم توڑ دیں۔ سچ یہ ہے کہ علم اور علم کی صورت گری مماثلت و مغائرت سے ہی ممکن ہے۔ تخالف کبھی علم و امکان کے در بند ہونے نہیں دیتا البتہ اس کی نوعیت کا فطری اور حقیقی ہونا لازم ہے۔
اسلام اور پیغمبر اسلام ،حضور ﷺ کی سیرت مبارک پر اعتراضات کی نوعیت عالمانہ اور محققانہ کی بجائے بالعموم متعصبانہ ،مخالفانہ یا عدم واقفیت کی بنا پر رہی ہے۔ موضوعات و محتویات میں تحقیق و تجزیہ کی کار فرمائی نہ ہونے کے مترادف ہے۔اکثر معترضین کا مدعا مخالف کی دل آزاری اور آزردگی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ا س لیے حقائق کو توڑ موڑ کر بیان کرنا قیاسی روایت و درایت پہ ایمان لانا ، تاریخی معلومات اور جغرافیائی اعتبار سے بعض آیاتِ قرآنی کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا ، معترضین کا شیوا رہا ہے۔ ایسی ناانصافیاں صدیوں سے چلی آرہی ہیں۔ بعض معترضین(مذہبِ غیر کے حامل) حقانیت اسلام کی بابت حق گئی اور تسلیمات سے جی خوش ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’جان ڈیون پورٹ‘‘ اور ’’گارڈ فری‘‘ کی کتب معتبر ہیں۔ بے بنیاد اعتراضات ، بے جا طرف داری اور تنگ نظری کی مثال ولیم میور ایسے مورخ بھی ہیں جو حقائق کو مسخ کرنے اور انھیں اپنے مقصد کی بجا آوری میں استعمال کرنے کے ماہر ہیں۔ ولیم میور کی کتاب ’’لائف آف محمد‘‘ جب سر سید کی نظر سے گزری تو ان کی حالت یوں ہوئی کہ ’’ ان دنوں ذرہ قدرے دل کو سوزش ہے ۔ولیم میور صاحب کی کتاب کو میں دیکھ رہا ہوں۔ اس نے دل کو جلا دیا۔ اور اس کی نا انصافیاں اور تعصبات دیکھ کر دل کباب ہو گیا‘‘حقائق کی راست بازیافت میں کوتاہیوں کی داستان صرف غیر مذہب معترضین نے ترتیب نہیں دیں بلکہ ان کے اعتراضات کو ہوا دینے میں اکثر مسلمان مفسرین نے بھی حصہ ڈالا ہے۔ ابتدائی کتب احادیث و سیر میں مفسرین نے بعض روایات کو طبعی جولان سے زیبِ داستان کیا ہے۔ جس پر مخاصمین نے انحصار کر کے اعتراضات کو تقویت دی ہے۔ یعنی غیر تو غیر ہی تھے اپنوں نے بھی ایسے کام انجام دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ سر سید لکھتے ہیں ’’ اپنی تصنیفات کا حجم بڑھانے کی نیت سے مفسرین اور اہلِ سیر نے تمام مہمل اور بے ہودہ افسانوں کو جو عوام الناس میں مشہور تھے بہ کمالِ آرز و جمع کر کے اپنی کتابوں میں درج کر لیا ہے۔ بعض نے اپنی تفسیروں میں واعظین کے لیے دل چسپ اور عجیب و غریب حمکاء کے خوش کرنے کے لیے دور از عقل و قیاس مضامین جو یہودیوں کے ہاں مروج تھے جمع کر دیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سی حدیثیں جناب پیغمبرؐ خدا کے نام سے جھوٹی اور موضوع بنائی گئیں‘‘ (خطباتِ احمدیہ، ص ۸۰،۸۱)حالاں کہ ایسی من گھڑت باتوں کی وہاں کیا ضرورت ہو سکتی ہے جہاں ایک ایسی ذات ہو جو بے شمار خصائل (وحدت، کثرت، اولیت، آخریت، بے مثالیت، خیریت) کی حامل ہو۔ اپنی مثال آپ ہو اور سچ یہ ہے کہ جن کی محبت ایمان کی بنیاد ہو اور صاحبِ ایمان ہونے کا واحد اور حتمی ذریعہ ہو ۔
انہی ضعیف روایات کے سبب بعض سائنسی نکتہ نظر کے حامل افراد اکثر کہتے رہتے ہیں۔ یہ احادیث کی کتب ہیں یا تاریخ کی۔ اس سوال کا جواب جو بھی ہو یہ طے ہے کہ اس منفی پہلو نے معترضین کے اعتراضات کے لیے راہ ہموار کی۔ حقیقت یہ ہے ذرائع علم کے ماخذ کا مضبوط ہونا از حد ضروری ہے۔ جب ذرائع علم ہی بدل جائیں یا ماخذ غیر مستند ہو تو ہر توضیع و تفسیر بلا جواز ہو گی۔ تاریخ شاہد ہے کہ بعض مسلم محققین نے اعلیٰ و ارفع مقاصد کی بجا آوری کے لیے روایت و درایت کے بے مثل تحقیقی اصول و ضوابط کی مضبوط بنیادیں رکھیں۔ اس ضمن میں ان کا حزم و احتیاط کا سلیقہ واقعتاً قابلِ قدر اور قابلِ فخر ہے۔ کسی بھی کم فہم راوی کو ’’مجروح ‘‘ اور اس کی روایت کو بلا تکلف ’’مردود‘‘ قرار دیا ہے۔ ان کے معیارِ تحقیق پر اقسامِ حدیث (مرفوع، موقوف، قولی و فعلی و تقریری، نیز آحاد و متواتر، مشہور و عزیز و غریب، صحیح و حسن ، مقبول و مردود وغیرہ) گواہ ہیں۔ درایت کی بابت منافقین کی افترا پردازی کی قلعی کھولنے کے لیے سکہ و مستند ہونے کے ساتھ منطقی صحت امانت ،دیانت ،صداقت کو معیار بنایا۔ روایت کے ضمن میں راوی کے لیے کوئی رو رعایت نہیں رکھی۔ ہر دو طرح کی چھان بین کو خارجی ،نقد یا نقدِ سند سے گزارا۔ جب کہ متنِ حدیث کی پرکھ کے لیے نقد یا نقدِ متن کے پیمانے وضع کیے۔
تحقیق کی بابت کسی بھی محقق کا فی نفسہٖ معتدل و متوازن و غیر محتسب، حق گو و عالم فاضل ہونے کے ساتھ ساتھ موضوع سے طبعی مناسبت کا ہونا ازحد ضروری ہے۔ اندازِ تحقیق سائنسی ہو یا اطلاقی نتائج کا منطقی پہلو زور دار اور پر وقار ہونا چاہیے۔ جوشِ خطابت میں بے جا طوالت یا پھر زعمِ علمیت میں ہٹ دھرمی دلائل کے بجائے طبعی مناسبت کو ترجیح محقق کے لیے زہرِ قاتل کے مصداق ہے۔ ان معیارات کو اپناتے ہوئے اور حشو و زوائد سے بچتے ہوئے محمد نواز صاحب (جو پیشہ کے اعتبار سے درس و تدریس سے وابستہ رہے ہیں) نے شاندار علمی و تحقیقی کارنامہ ’’ سیرتِ سرورِ عالم پر مستشرقین کے اعتراضات کے جوابات‘‘ کے نام سے ترتیب دیا ہے، جس میں اسلام اور پیغمبر ؐاسلام پر اعتراضات کو حقائق اور دلائل سے بے بنیاد ثابت کرنے کی بہترین کوشش کی ہے۔ میرے نزدیک ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے دستاویزی تحقیق میں سائنسی اور منطقی طریقے کو ترجیح دی ہے۔ حقائق پسندی میں اس قدر دل چسپی مثالی ہے کہ کسی بھی مرحلے پر جذباتی اسلوبِ بیان کی چھاپ نہیں پڑنے دی۔ مسائل کو استخراجی اور استقرائی طریق پر قوتِ استدلال کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں انھیں اخلاقی معیار قوتِ ارتکاز مسلسل توجہ ، استقامت اور با اصول جدو جہد پر داد دیتا ہوں۔ہمارا ایمان ہے کہ ایسے کام کیے نہیں جاتے بلکہ کروائے جاتے ہیں۔یقینا یہ کارِ سعادت انھی کے حصے میں آیا ہے۔ اسی لیے موصوف نے اداروں کا کام تنہا کر دکھایا۔ سیرتِ طیبہ کے اعتراضات کے جواب میں وسیع خزینہ تیار کیا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب اکرمﷺ کے صدقے اس علمی و تحقیقی کاوش کو اپنی بارگاہ میں خاص مقام عطا فرمائے۔سیرت کے باب میں ان کی خدمات قبول فرمائے اور نافع بنائے۔امین
ڈاکٹر غلام شبیر اسد
جھنگ،۲۔رمضان ، ۱۴۴۳ ھجری

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...