Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

ملکِ عرب
ARI Id

1689956726155_56117712

Access

Open/Free Access

Pages

۱۳

ملک عرب:
محل وقوع: براعظم ایشیاء کے جنوب مغرب میں واقع ملک عرب کے تین اطراف سمندر اور چوتھی طرف خشکی ہے ۔ مغرب میں بحیرہ قلزم ہے جو مکہ معظمہ سے مغربی جانب تقریباََ ستتر (۷۷) کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے ۔اس کے علاوہ مغرب میں آبنائے سویز اور بحیرہ روم ہے ۔ مشرق میں خلیج فارس اور عمان ‘ جنوب میں بحرہند اور اس کے شمال میں شام و عراق اور شمال سے جنوب تک ایک سلسلہ کوہ پھیلا ہو ا ہے‘ جسے جبل السراۃ کہتے ہیں ‘ شمال میں یہ شام اور فلسطین کے پہاڑوں سے جا ملتا ہے ۔ اس سلسلہ کو جگہ جگہ سے وادیاں قطع کرتی ہیں ۔ سلسلہ جبال السراۃ کو توریت میں سلسلہ کو ہ فاران کا نام دیا گیا ہے ۔ ( سیرت النبی اعلان نبوت سے پہلے ۔ٖص۲۰)جغرافیہ کے ماہرین نے اس ملک کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ جن میں سے ایک حجاز ہے ۔ چونکہ ’’تہامہ ‘‘ اور ’’ نجد ‘‘ کے درمیان حاجز ہے جو تہا مہ اور نجد کو الگ کرتا ہے اس لیے ملک کے اس حصہ کو حجاز کہتے ہیں ۔ حجاز کا زیادہ حصہ بنجر اور بے آب وگیاہ ہے جسے قرآن مجید نے ’’ وادی غیر ذی زرع‘‘ کہا ہے ۔اس میں صدیوں سے موجود (عرب کا قدیم شہر مکہ )یا بکہ ایک تجارتی مرکز تھا ۔ یمن ،شام اور حبشہ کے مابین تجارتی قافلوں کی گزر گاہ پر واقع تھا ۔ یہا ں کے باشندے بھی خوب تجارت کرتے تھے ۔ یمن اور حبشہ کی مصنوعات اور پیداوار خرید لاتے اور انہیں مصر اور شام کے بازاروں میں جا کر فروخت کرتے ۔وہ بصری ٰاور دمشق کے میلوں سے بھی سامان خرید لاتے اوراس کے بدلے میں اپنا سامان فروخت کرتے تھے ۔موسم گرما میں شام و مصر اور موسم سرما میں یمن کو اپنا سامان تجارت لے جاتے تھے ۔
ارشاد ربانی ہے ’’ لاِیِلْٰفِ قُرَیْشٍo اٖلٰفِھِمْ رِحْلۃَ الشِّتَآ ئِ وَ الصَّیْفِ o فَالْیَعْبُدُوْآرَبَّ ھٰذَالبَیْتِo اَلَّذِیْ اَطْعَمَھُمْ مِّن جُوعٍo وَّاٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفِِo ترجمہ : اس لیے کہ قریش کو میل دلایا ‘ ان کے جاڑے اور گرمی دونوںکے کوچ میں میل دلایا تو انہیں چاہیے اس گھر کے رب کی بندگی کریں جس نے انہیں بھوک میں کھانا دیا اور انہیں ایک بڑے خوف سے امان بخشا ‘‘۔(القریش،پارہ ۳۰)
اعتراض نمبر ۱
کئی عیسائی مورخین کا کہنا ہے کہ’’مکہ کی قدامت کا دعویٰ جو مسلمان کرتے ہیں ‘قدیم تاریخوں میں اس کا ذکر نہیں ملتا ۔جدید انسائیکلوپیڈیا میں محمدﷺ کے مضمون جو مستشرق ’’مارگولیس ‘‘ کا ہے وہ اس میں مکہ معظمہ کی نسبت لکھتا ہے کہ ’’ قدیم تاریخوں میں اس شہر کا نام نہیں ملتا ‘ بجزاس کے کہ زبور(۸۴۔۶) میں وادی بکہ کا لفظ ہے لیکن وہ اسے زبور کی ضعیف عبارت سمجھتا ہے۔ عبارت یہ ہے ’’بکہ کی وادی میں گزرتے ہوئے اسے ایک کنواں بتاتے ہیں ‘ برکتوں سے ’’مورہ‘‘ کو ڈھانک لیتے ‘ قوت سے قوت تک ترقی کرتے چلے جاتے ‘‘۔
جواب: قرآن مجید زبور کی عبارت میں دو لفظوں کی تصدیق کرتا ہے ۔ارشاد خدا وندی ہے ’’ اِنَّ اَوَّلَ بَیتِِ وُّ ضِعَ لِلنَّاسِ الَّذِی بِبَکَّۃٍ مُّبَارَکًاََ‘‘ ترجمہ ( بے شک پہلا گھر جو آدمیوں کے لیے بنایا گیا وہ بکہ میں تھا ‘برکت والے سارے جہان کا ‘‘)۔ (آل عمران ۹۶،پارہ ۴)
لفظ بکہ کے بعد مورہ کے بارے ارشاد ربانی ہے ۔’’ اِنَّ الصَّفَا وَالمَروَۃَ مِنْ شَعَائرِ اللّہ ‘‘ ترجمہ ’’بے شک صفا اور مروہ اللہ کے نشانوں میں سے ہیں ‘‘ (البقرہ۱۵۸،پارہ ۲)۔زبور کی عبارت کی تصدیق قرآن مجید نے صراحتاََ کر دی ہے جس سے مسلمانوں کا مکہ کی قدامت کا دعویٰ درست ثابت ہوتا ہے۔
مکہ قدیم زبانوں کے بعض محققین کے نزدیک بابری یا کلدانی لفظ ہے جس کے اصلی معنی گھر کے ہیں اس سے دو حقیقتیں ظاہر ہوتی ہیں ۔ایک تو یہ کہ یہ آبادی اس وقت قائم ہوئی جب بابل اور کلدان کے قافلے ادھر سے گزرتے تھے اور یہ اس کی ابراہیمی نسبت کی ایک اور لغوی دلیل ہے ۔ دوسرا یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس شہر کی آبادی اس گھر کے تعلق سے وجود میں آئی اور یہ خانہ کعبہ کی قدامت اور تقدس اور اہل عرب کی روایات کی صحت پر دلیل قاطع ہے ۔مکہ کا بکہ نام حضرت دائود ؑ کی زبور میں سب سے پہلے نظر آتا ہے ( کتاب زبور ۸۴۔۶میں ہے) بکہ کی وادی سے گزرتے ہوئے ایک کنواں بتاتے ؛ برکتوں سے مورۃ کو ڈھانک لیتے ؛قوت سے قوت تک ترقی کرتے چلے جاتے ۔ ( سیرت النبی ۔ ۱،۱۰۲)اس عبارت میں بکہ کا جو لفظ ہے یہ وہی مکہ معظمہ ہے اور یہ مکہ کا قدیم نام ہے ۔ قرآن کریم میں یہ نام سورۃ آل عمران آیت نمبر ۱۰ میں آیا ہے ارشاد ربانی ہے ۔
’’ اِنَّ اَوَّلَ بَیتِِ وُّ ضِعَ لِلنَّاسِ الَّذِی بِبَکَّۃٍ مُّبَارَکاً‘‘(آل عمران ۹۶،پارہ ۴) ۔حضرت دائود خدا سے کہتے ہیں اے فوجوں کے خدا تیرے مسکن کس قدر شیریں ہیں ۔ میرا نفس خدا کے گھر کا مشتاق ہے بلکہ عاشق ہے ، اے خدا تیرے قربان گاہ میرے مالک اور میرے خدا ہیں ، مبارک ہو ان لوگوں کو جو تیرے گھر میں ہمیشہ رہتے ہیں اور تیری تسبیح پڑھتے ہیں ۔ اب قابل غور بات یہ ہے کہ حضرت دائود ؑ جس مقام کے پہنچنے کا شوق ظاہر کرتے ہیں وہ اس مقام پر صادق آ سکتا ہے جس میں حسب ذیل باتیں پائی جائیں :
۱۔ قربانی گاہ ہو ۔ ۲۔ حضرت دائود ؑ کے وطن سے دور ہو۔
۳۔ وہ وادی مکہ وادی بکہ کہلاتی ہو ۔ ۴۔ وہاں مقام مورۃ بھی ہو۔
یہ تمام باتیں پائی جاتی ہیں اور قطعی طور پر یہ یقینی بات ہے کہ بکہ وہی مکہ معظمہ اور مورۃ وہی مروۃ ہے ، مورۃ کی وضاحت قرآن پاک نے بھی کر دی ہے ’’ اِنَّ الصَّفَا وَالمَروَۃَ مِنْ شَعَائرِ اللّہ ‘‘(البقرہ۱۵۸،پارہ ۲)
دوم: ریاست مکہ کے حکمران :؛ سن ۲۰۷ ء میں بنو خزاعہ نے بنو جرہم کو نکال دیا اور مکہ پر قابض ہو گئے ۔ خزاعہ کا سردار عمرو بن لحی تھا جس نے مکہ میں بت پرستی کو رواج دیا تھا ۔ خزاعہ کا آخری حکمران حُلیل تھا ۔ قصی بن کلاب نے اس سے حکومت حاصل کی تھی ۔ قصی کے مکہ پر قابض ہونے سے قبل مکہ پر قبائلی حکمرانوں کی حکومت تھی ۔ یہ نہ جانے کس نوعیت کی تھی ؟ فرد واحد یا پورے قبیلے کی حکومت تھی؟ کیا سردار کے سامنے قبیلہ کی حیثیت رعایا کی تھی ؟ حکومت کرنے کا کون سا طریقہ تھا ؟ خانۂ خدا کی تولیت کا انتظام کس قسم کا تھا اور کس کے قبضہ میں تھا؟ حجاج کی ضروریات پوری کرنے اور ان کی خد مات کا کیسا انتظام تھا ؟ ان سولات سے قطع نظر کرتے ہوے یہ با ت دلچسپی سے خالی نہیں ہو گی کہ مکہ قدیم شہر ہے جس پر قبل مسیح سے حکومت قائم تھی ۔’’ جیرالڈڈی گاری ‘‘(gevald de gaory )نے قصی سے پہلے مکہ کے حکمرانوں کی ایک فہرست تیار کی ہے ،جس کو درج کرنا ضروری ہے تا کہ اس سے ہمارے موقف کہ ’’مکہ ‘‘ قدیم زمانہ سے نقشہ ارض پر موجود تھا ‘ کو تقویت ملتی ہے اور مستشرقین کے الزامات کا بھانڈا چوراہے میں پھوڑ دیتاہے جو اسے قدیم نہیں مانتے ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔
نام حکمران سن کیفیت
۱۔ جرہم بن جہلا ۷۴ تا ۴۴۔ق۔ م
۲۔ ابوحلیل بن جرہم ۴۴تا ۱۴ ق۔م
۳۔جرہم بن ابویلیل ۱۴ تا۱۶ عیسوی سن
۴۔ عبدالمنان بن جرہم ۱۶ عیسوی تا ۴۲ ء
۵۔ بقیلہ بن عبدالمنان ۴۶ء تا ۷۶ ء
۶۔ عبدالمسیح بن بقیلہ ( اس کا اصل نام عمرو تھا)
۷۔ مواحدہ اکبربن عبدالمسیح ۱۰۶ء تا ۱۳۶ء
۸۔عمرو بن معاذ ۱۳۶ء تا ۱۷۰
۹۔حارث بن مواحدہ
۱۰۔ عمرو بن حارث
۱۱۔ بشر بن حارث ۱۷۰تا ۲۰۶ء
۱۲۔معدالاصغربنعمروبن محد ( نقوش رسول نمبر ۲۔۴۰۹ )
اوپر کی فہرست میں ان حکمرانوں کے علاوہ عرب میں قدیم پانچ حکومتیں تھیں ۔
اول : یمنی یا معینی : تقریباََ ان کے پچیس حکمرانوں کا پتہ چلتا ہے ۔
دوم : حضر موتی سوم : قیتبانی
چہارم : سبائی ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ۱۱۵ سال قبل تک اس حکومت کا پتہ چلتا ہے ۔ اس دور کے بعد حمیر نے قبضہ کر لیا ۔حمیر کے ۲۶ حکمرا ن ہوئے۔
پنجم : نابتی ۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ؑ کے بیٹے نابت کی طرف منسوب ہے ۔
گلازر کا خیال ہے کہ یمنی یا معینی حکومت ۱۵۰۰ ق۔م میں موجود تھی جبکہ ’’ مولر ‘‘ کا کہنا ہے کہ کوئی یمنی کتبہ آٹھ سو سال پہلے کا نہیں ملتا ‘ لیکن پروفیسر نولدیکی ‘ جرمنی کے مستشرق کا کہنا ہے کہ ولادت عیسٰی سے پہلے ہزار سال قبل جنوبی و مغربی عرب یعنی یمن ‘ حمیر اور سبا کا ملک تھا ۔تورات میں سبا کی شان میں کئی عبارتیں ملتی ہیں ۔ (جلد ۱۔ س۔ش۔۸۲۔۸۱) سبا کے ملک کی حکمران شہزادی بلقیس کا ذکر قرآن مجید میں ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کا زمانہ ہے۔ انہوں نے شہزادی مذکور کو خط بھی لکھا تھا ۔ حضرت سلیما ن علیہ السلام کے والد حضرت داود علیہ السلام کی ولادت ۹۴۵ سال قبل مسیح میں ہوئی تھی اس حساب سے نولدیکی کا بیان اور رائے درست لگتی ہے ۔ گویاہزار سال ق۔م مکہ کا شہر قائم ہی نہیں تھا بلکہ شہر اس سے پہلے موجود تھا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو دو ہزار سال ق۔ م مکہ لا کر آباد کیا تھا ۔ ( حیات محمد۔۹۰) اتنے حوالہ جات کی موجودگی میں مستشرقین کا مکہ شہر کی قدامت سے انکار کرنا دشمنی اور تعصب کا نتیجہ ہے بجز اس کے کچھ نہیں ۔
توریت کی شہادت:توریت میں مکہ کو ’’مشاء ‘‘کہا گیا ہے ۔ یہ واضح نہیں کہ مشا ء مکہ یا بکہ کی تحریف شدہ صورت ہے یا توریت کے مطابق اس کا تعلق حضر ت اسمعیٰل علیہ السلام کے بیٹے مشاء سے ہے ۔
سوم: ’’مورہ ‘‘ کے بارے توریت میں تصریح ہے ’’اور مدیانیوں کی فوج شمال کی جانب ’’ مورہ‘ پہاڑی پر وادی میں تھی‘‘۔ (سیرت النبی۔۹۷) مورہ سے مراد مروہ پہاڑی ہے جس کی شہادت بقرہ کی آیت نمبر۱۵۸ میں موجود ہے ۔
چہارم: فرانس کا مشہور عربی دان عالم پروفیسر ڈوزی لکھتا ہے کہ ’’مکہ کی تاریخ کا آغاز حضرت داودؑ کے زمانہ سے ہوتا ہے ۔ (حضرت داود ؑ کی ولادت ۹۴۵ قبل مسیح ہے ۔) ۔اس کا ذکر تورات و انجیل میں ہے ۔ مزید پروفیسر ڈوزی کہتا ہے کہ بکہ وہی مقام ہے جس کو یونانی جغرافیہ دان ’’ماکروبا Macorba لکھتے ہیں ‘‘۔ جس کے معنی لوگوں کو معبدوں کے قریب لانے کے ہیں ۔ بعض اور محققین نے ’’ماکروبا‘‘ کے معنی عبادت گاہ کے لیے ہیں ۔قدیم زمانے سے لوگ یہاں حج کرنے آیا کرتے تھے۔ رومی مورخ پٹالمی ’’ مکاربا ‘‘ کے معنی عبادت خانہ کے کرتا ہے اور بکہ میں خانہ خدا موجود تھا ’ اس مناسبت سے پٹالمی نے اسے مکاربا کہا ہو گا ۔ یہ لفظ ’’ مکاربا ‘‘ دو لفظوں کا مرکب ہے۔ ’’مکہ اور ربہ ‘‘۔ ربہ کے معنی اعظم کے ہوتے ہیں اس طرح ’’پٹالمی‘‘ نے مکہ کی بین الاقوامی شہرت جو تجارتی اور جغرافیائی لحاظ سے تھی ‘ اسے مکہ عظیم شہر کہا ہو ۔ یہی رائے زیادہ قوی لگتی ہے ۔ (ن۔۱۔۴۱۵) پر ہے کہ مکہ کے اندر ’’بکہ‘‘نام کی وادی ہے اور چونکہ وہاں لوگوں کا ہجوم ہوتا تھا ’اس لیے اس کو بکہ کہتے ہیں ابن ہشام نے بھی بحوالہ ابو عبید روایت کی ہے اور جو اشعار پیش کیے ہیں ‘ اس میں بکہ کے معنی ہجوم کے ہوتے ہیں ‘ لیے گئے ہیں ۔ بقول ملک اسلم کے یہی معنی درست ہیں ‘ سر کشی کے درست نہیں ہیں ۔ امام مالکؒ نے فرمایا: خانہ کعبہ کی جگہ کو ’’بکہ ‘‘ اور سارے شہر کو مکہ کہتے ہیں۔ محمدابن شہاب سے مروی ہے کہ صرف خانہ کعبہ کو نہیں بلکہ ساری مسجد حرام کو بکہ کہا جاتا ہے اور باقی دوسرے شہر کو مکہ ۔(ضیا القرآن ۔آل عمران ۔ ۹۶)
مزید (نقوش رسول نمبر۔۲۔۴۱۶ ) پر ہے ’’ نیز قرآن پاک میں بکہ کے نام کا ذکر ہے جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ اس شہر کا نام حضر ت ابراہیم علیہ السلام نے رکھا تھا اور یہی مشہور ہو ا۔ اس کی قدامت اس کے نام سے بھی ظاہر ہے کہ ہزار ہا سال گزرنے کے باوجود اس کا نام وہی ہے جو پہلے تھا ۔ قرآن مجید میں اس شہر کا نام ’’بکہ‘‘ آیا ہے۔ جو بعد ازاں تھوڑے سے فرق کے ساتھ مکہ کے نام سے مشہور ہوا ۔ تا ہم قرین قیاس امر یہ ہے کہ بکہ کا نام رسالت مآب کے زمانہ اقدس میں مستعمل ہو گا ورنہ قرآن مجید اس متروک لفظ کا استعمال کیوں کرتا نیز قرآنی مطالب کو آسان اور سہل بنانے کی بجائے چیستاں بنانے کی کیا ضرورت تھی؟
پنجم: ایک اور روایت بحوالہ ا بو عبید ( ن۔ ۲۔۴۱۵) میں بکہ با لخصوص کعبۃاللہ کی جگہ اور مسجد کو ہی کہا گیا ہے ۔ حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیھم السلام نے عبادت گاہ یعنی کعبۃ اللہ کی بنیاد اٹھائی ۔ قرآن مجید میں ہے ’’ وَاِذْ یَرْ فَعُ اِ بْراَھِیْمُ ا لقَوَ عِدَ مِن َالبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ ‘‘(البقرہ۱۲۷، پارہ ۱) ترجمہ ’’ اور جب ابراہیم و اسمعیل علیھم السلام خانہ خدا کی دیواریں اٹھا رہے تھے ۔‘‘ اسی جگہ کے لیے بکہ کا لفظ مخصوص تھا چونکہ بکہ جمع ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ یہ نام ابتدائی طور پر خانہ خدا کے لیے مخصوص تھا ۔ اس سبب سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیرو کار حج اور قربانی کی ادائیگی کے لیے وہاں جمع ہوتے تھے ۔اس حج کے عظیم اجتماع سے جو مرکزیت خانہ خدا کی تعمیر سے حاصل ہوئی ’اس کے لیے بکہ سے بہترکوئی اور نام ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ نام پوری وادی کے لیے استعمال ہونے لگا جو مسجد سے تھوڑی دور قائم ہو گئی تھی۔ حجاج کرام کی آمدورفت میں اضافہ ہوا ۔ تجارتی سر گرمیاں بڑھ گئیں اور عوام کو حج کے لیے اذنِ عام مل گیا۔ ارشاد خدا وندی ہے ۔ ’’ وَاَذّ ِنَ فِی النَّاسِ بِالْحَجَّ یَا تُوْکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَاتِیْنَ فِیْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍoلِّیَشْہَدُوْآ مَنَافِعَ لَھُمْ‘‘ (الحج ۲۷، ۲۸، پارہ ۱۷)ترجمہ ’’ اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو تا کہ وہ تمہارے پاس دور دراز مقامات سے پیدل اور اونٹوں پر آئیں تا کہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں ان کے لیے رکھے گئے ہیں ۔ ‘‘ معبدیا خانہ ٔخدا کا قیام ظاہر کرتا ہے کہ بکہ شہر قدیم تھا ‘ اگر بکہ کا شہر آباد نہیں تھا تو وہاں خانہ ٔخدا کو بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ ۔ کیونکہ جہاں کہیں کوئی مشہور معبد ہوتا ‘ اس کے آس پاس ضرور کوئی نہ کوئی شہریا گائوں آباد ہوتا ہے۔
ششم : دائرۃالمعارف اسلامیہ (ج ۲۱۔۴۹۴) میں ہے کہ ’’ مکہ ۲۱ درجہ ۲۸ دقیقہ عرض بلد شمالی اور ۳۷ درجہ ۵۴ دقیقہ طول بلد مشرقی پر واقع ہے ۔جبکہ مولانا شبلی نعمانی( سیرت النبی ۔۱۔۱۰۴) لکھتے ہیں کہ یاقوت حموی نے معجم البلدان میں لکھا ہے کہ مکہ معظمہ کا عرض بلد اور طول بلد بطلیموس کے جغرافیہ میں حسب ذیل ہے ۔۔۔ طول ۷۸ درجہ ۔ عرض بلد ۱۳ درجہ ۔ بطلیموس نہایت قدیم زمانے کا مصنف ہے ‘ اگر اس نے اپنے جغرافیہ میں مکہ کا ذکر کیا ہے تو اس سے زیادہ قدامت کی اور کون سی سند درکار ہے ‘‘۔ ؟
ہفتم : یہ بات متفق علیہ ہے کہ مکہ شہر کی بنیاد آج سے قریباََ چار ہزا ر سال پیشتر ۲۲۰۰ قبل مسیح میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے رکھی تھی تاہم عرب مورخین کا دعویٰ کہ مکہ شہر اس سے بھی زیاد ہ قدیم ہے۔ اور بہت سے مستشرقین بھی اسے مانتے ہیں ۔ بکری کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ شہر کے عبادت خانہ کو چوتھی مرتبہ تعمیر کیا تھا ۔ ( ن۔۲۔۴۰۲)
اہم نکتہ :’’وَاِذْ یَرْ فَعُ اِ بْراَھِیْمُ ا لقَوَ عِدَ مِن َالبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ ُ ‘‘ (البقرہ۱۲۷، پارہ ۱)اس کی تفسیر میں بعض محققین کہتے ہیں کہ دو پیغمبروں( حضرت ا براہیم ؑو اسمعیل ؑ) نے کعبہ کی بنیاد نہیں رکھی کیونکہ اس کی بنیاد تو کہیں پہلے سے رکھی جا چکی تھی اور ان دو پیغمبروں نے صرف منہدم خانہ خدا کی دیواروں کو اٹھایا تھا یعنی کعبہ پہلے سے موجود تھا اور ان پیغمبروں نے پہلی عمارت کی بنیاد ہی کو دوبارہ اٹھایا تھا ۔ حضرت ابراہیم ؑ سے حضرت محمد ﷺ تک ۶۲ یا ۶۳ پشتیں ہیں ۔ان پشتوں کے امجاد عظام کی عمریں ہزاروں سال پر محیط ہیں گویا اس قدر مدتوں پہلے خانہ خدا کی عمارت کو دوبارہ بلند کرنے والے حضرت ابراہیم ؑو اسمعیل ؑ ؑہیں جنہوں نے مکہ شہر میں اس معبد کی عمارت کو کھڑا کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شہر مکہ قدیم ہے ۔
ہشتم: بخاری شریف میں روایت ہے کہ حضرت ہاجرہؑ نے بنو جرہم کو مکہ میں رہائش رکھنے کے لیے عام اجازت عطا کر دی مگر کہا کہ پانی میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ۔۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ خاندان اسمٰعیل علیہ السلام کو مذہبی تقدس کی بناء پر سیاسی تغلب حاصل ہو گیا تھا ۔۔۔ وہ بلاشرکت غیرے اس کے مالک تھے ۔( ن۔۵۔۴۰۷) معلوم ہوتا ہے کہ شہری آبادی کے لیے اصول جناب حضرت اسمٰعیل ؑ کی زندگی ہی میں طے پا چکے تھے ۔ آباد کاروں کے لیے اس میں بے پناہ کشش تھی صرف مذہبی لحاظ سے نہیں بلکہ آبادی کے لحاظ سے بھی ،تو آباد کاروں کے جمع ہونے کی جگہ بکہ بن گیا ۔ یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ یہ نام حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیھم السلام کا رکھا ہو ا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ دنیا میں سب سے بڑے آباد کار تھے ۔ ہزاروں میل کا سفر طے کر کے قوموں کو پیغام توحید پہنچا تے تھے ‘ اس لیے ان کا نام ابراہیم یعنی قوموں کا باپ پڑ گیا ۔ کئی نو آبادیاں مکہ کی طرح بسائیں ۔ ان آبادیوں میں ’’ رملہ ‘‘ اور ’’ ایلیا ‘‘ کی بستیاں آج بھی صفحہ ہستی پر موجود ہیں ۔
مکہ یا بکہ : قاضی عبدالدائم دائم (بلاوہ۔۶۹) لکھتے ہیں دنیا کی ہر زبان میں اس کو مکہ کہا جاتا ہے ۔ حدیث ‘ تاریخ اور سیرت کی تمام کتابوں میں بھی مکہ لکھا ہوا ہے اور سارا جہان اس کو مکہ کے نام ہی سے جانتا پہچانتا ہے ۔ مگر عجیب بات ہے کہ جس دلدار کی نگری ہے ‘ وہ اس میں پاے جانے والے اپنے گھر کا تذکرہ کرتا ہے تو اس شہر کو مکہ کی بجائے بکہ کہتا ہے ۔ ’’ِنَّ اَوَّلَ بَیتِِ وُّ ضِعَ لِلنَّاسِ الَّذِی بِبَکَّۃٍ مُّبَارَکاً ‘‘ (آل عمران ۹۶،پارہ ۴) ترجمہ ’’ بے شک پہلا گھر جو آدمیوں کے لیے بنایا گیا تھا وہ بکہ میں تھا ‘ برکت والے سارے جہان کا ۔‘‘
مکہ کیا ہے اور بکہ کیا ہے ۔۔۔۔ ؟ کیا ان کے مصداق اور مفہوم میں کوئی فرق ہے یا دونوں ایک ہی ہیں ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ ان کا مصداق مختلف ہے ۔مکہ پورے شہر کو کہا جاتا ہے اور بکہ خاص اس قطعہ زمین کو جہاں کعبہ معظمہ ہے ۔ لیکن اکثر اہل تفسیر دونوں کا مصداق ایک ہی سمجھتے ہیں یعنی پورا شہر۔ بعض تو یہاں تک کہتے ہیں کہ بکہ کوئی جدا لفظ ہی نہیں ہے بلکہ مکہ کی میم کو ’’ با‘ ‘ سے بدل دیا گیا ہے اور عربی زبان میں ایسا ہوتا رہتا ہے ۔ جیسے ’’ لازم ‘‘ کو ’’ لاذب ‘‘ بھی بولتے ہیں جبکہ بعض کے نزدیک یہ دونوں لفظ علیحدہ علیحدہ مفہوم کے حامل ہیں اگرچہ مصداق دونوں کا ایک ہے ۔ ان کی رائے کے مطابق ’’مکہ‘‘ تجلیاتِ جمال کی تلمیح ہے اور’’ بکہ‘‘ جلوہ ریزی ٔ جمال کا مظہر ہے کیونکہ مکہ مک ‘ یمک ‘ مکا سے ماخوذ ہے اور یہ مادہ اس وقت بولا جاتا ہے جب اونٹنی کا بچہ سارا دودھ پی لے اور پوری طرح سیراب ہو جائے ‘ گویا ارض مکہ وہ اونٹنی ہے جو دودھ بھرے تھن لیے کھڑی ہے اور دنیا بھر سے پیاسے لپکے چلے آتے ہیں اور فیوض وبرکات کی دھاریں پی پی کر سیراب وشاداب ہو جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس بکہ ‘ بک ‘ یبک بکا سے مشتق ہے ‘ یعنی دھکا دینا ‘ گردن توڑنا گویا جو بھی بکہ کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھے گا اس کی گردن توڑ دی جائے گی اور اس کا حشر وہی ہو گا جو ابرہہ کے لشکر کا ہوا تھا ۔ فجعلھم کعصف ما کول o چونکہ اس شہر جلیل و جمیل میں قہاری و غفاری پہلو بہ پہلو چلتی ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بکہ کا لفظ استعمال کر کے شان قہاریت کا اظہار کیا ہے اور لوگو ں کو خبر دار کیا ہے کہ اس شہرِ با جبروت کی طرف کبھی گستاخانہ نگاہ اٹھانے کی جرات نہ کرنا ورنہ تباہ و برباد ہو جائو گے کیونکہ یہ بکہ ہے ۔۔۔ سرکشوں اور نا فرمانوں کی گردنیں توڑنے والا ۔ اور اس سے اگلی آیت میں شان غفاریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے زائرین کو مژدہ جانفزا سنا کر سر شار کیا کہ ’’ مَن دَ خَلَہ‘ کَانَ اٰ مِناً‘‘ ( جو اس میں داخل ہو گیا اس کو امان مل گئی) ۔
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی ‘ جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے’’ جیسے ‘‘ خانہ خراب کو ترے ’’ شہر ‘‘ بند ہ نواز میں
اس لحاظ سے یہ بکہ ہے ۔ ۔۔ دوسری طرف وہ ناقہ ٔ مہربان کہ جس کے پاس پہنچتے ہی بچہ آسودہ و سیراب اور محفوظ و مامون ہو جاتا ہے۔
نکتہ: اوپر کی عبارت میں ’’ حدیث ‘ تاریخ اور سیرت کی تمام کتابوں میںمکہ لکھا ہوا ہے ۔‘‘ اس سے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ قرآن کریم میں مکہ کا ذکر نہیں ہے ۔ ایسا نہیں ہے بلکہ مکہ کا ذکر قرآن کریم کی سورت الفتح آیت نمبر ۲۴ میں ہے ۔ وھواالذی کف۔۔۔ بما تعملون بصیرا ‘‘ ترجمہ ’’ اور ( اللہ ) وہی ہے جس نے ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے مکہ کی سرحد پر روک دیا ‘ بعد اس کے اللہ تعالی نے تم کو ان پر قابو بھی دے دیا تھا اور تم نے ان کو گرفتار بھی کر لیا تھا اور اللہ تعالیٰ جو کچھ تم کرتے ہو سب دیکھتا ہے ۔‘‘مجاہد نے کہا کہ بکہ اور مکہ یہ ایک ہی شہر کے دو نام ہیں اور کسی بھی شہر کے دو یا دو سے زیادہ نام ہو سکتے ہیں مثلا َ یثرب اور مدینۃ النبی ؐہے پہلا نام یثرب تھا اور بعد میں آپ کے دم قدم سے مدینۃ النبیؐ کے نا م سے موسوم ہوا ،اور تا حال اسی نام سے مشہور ہے۔ گویا ایک سے زیادہ ناموں میں کئی حکمتیں ہیں ۔ جن میں ایک حکمت قدامت کی ہے ۔
قرآن مجید کے حروف اور الفاظ معجزہ ہیں ۔ قرآن مجید میں حروف کی تعداد کا بھی اعلیٰ طریق سے خیال رکھا گیا ہے ۔ املا میں کہیں تبدیلی واقع ہوتی ہے یعنی حرف کا املاء میں تغیر واقع ہوتا ہے جیسے ’’ص‘‘ کی جگہ’’ س‘‘ یا ’’م‘‘ کی جگہ ’’ب ‘‘کا استعمال ہوتا ہے جبکہ ہر جگہ’’ ص‘‘ اور’’ ب ‘‘کے ساتھ وہ لفظ لکھے گئے ہیں ۔ یہ اعجازِ قرآن ہے مثلاََ پورے قرآن میں لفظ بکہ سورہ آل عمران کے علاوہ اس املا کے ساتھ نہیں ہے اس میں مکہ کے حرف م کی بجائے حرف ب کا استعمال ہے ۔
بکہ کا لفظ سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۹۶ میں ہے ۔ جن سورتوں سے پہلے م کا حرف ہے ان تمام سورتوں میں حرف ’’ م ‘‘ کی تعداد ۸۶۸۳ رکھنا مقصود تھی کہ یہ عدد انیس پر پورا تقسیم ہو جا تا ہے اگر یہاں بھی لفظ مکہ لکھا جاتا تو حروف م کی تعداد ۸۶۸۴ ہو جاتی اور یہ ہندسہ انیس پر تقسیم نہیں ہو سکتا اسی طرح سورت اعراف ، سورۃ مریم اور سورۃ ص میں کل ص کی تعداد ۱۵۲ ہے اگر سورہ بقرہ والا’’ بَسْطَۃً ‘‘ کا املا ایسے نہ ہوتا تو ایک ’’ص‘‘ بڑھ جاتا جس سے وہ انیس پر تقسیم نہ ہو پاتا لہذا معجزانہ طور پر انشاء میں غیر معمولی تبدیلیاں کلام الہیٰ کا معجزانہ نظام ہے اس لیے سورہ بقرہ میں بَصْطَۃً کی بجائیبَسْطَۃً لکھا گیا جہاں یہ قرآن پاک کے حسابی نظام کی معجزاتی کارفرمائی ہے وہاں قرآن مجید کا کلام الہیٰ ہونا بداہتاََ ثابت ہے ۔ نیز قرآن پاک میں ہر جگہ بصطۃ آیا ہے لیکن صرف سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۴۷ میں بسطۃ لکھا گیا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کا عظیم الشان اظہا ر ہے ۔ اسی طرح یہ بیان کرنا دلچسپی سے خالی نہیں جو اللہ تعالی کی شہکار حکمتوں کا اظہار ہے ۔ جوڑوں کے قانون سے کسی چیز کو استثنا حاصل نہیں حیران کن بات یہ ہے کہ قرآ ن کریم کے خاص الفاظ میں بھی یہی قانون پایا جاتا ہے ۔ بے شک وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْ اِمَامٍ مُّبِیْنo (یٰسین،۱۲،پارہ ۲۲)اور ہر چیز کا پورا حساب امام مبین میں رکھا گیا ہے درج ذیل قرآنی الفاظ کی تعداد اور ترتیب کے معجزانہ نظام پرغور کریں(قرآن پاک ایک ابدی معجزہ۔۱۳۱) ۔لفظ یوم جس کا معنی دن ہے کلام پاک میں ۳۶۵ مرتبہ آیا ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک شمسی سال میں ۳۶۵ دن ہوتے ہیں ۔ یوم کی جمع یومین ، یہ ۳۰ مرتبہ آیا ہے جو ایک ماہ کے دنوں کا اظہار ہے لیکن یہ بات یہیں ختم نہیں ہوتی لفظ شھر جس کا مطلب مہینہ ہے وہ بھی پورے قرآن پاک میں ۱۲ مرتبہ ہی آیا ہے جو ایک سال میں مہینوں کی تعداد ہے ۔ الفاظ کی ترتیب اور ان کی تعد اد اور ان کے املا میں ایسا معجزاتی نظام موجود ہے جو قرآن پاک کے ابدی معجزہ ہونے کا ثبوت ہے ۔
مکہ مکرمہ کے اطراف میں مندرجہ ذیل مشہور مقامات واقع ہیں ۔ خانہ کعبہ ‘ صفا ‘ مروہ ‘ منیٰ ٗ مزدلفہ ‘ عرفات ‘ غار حرا ‘ غار ثور ‘ جبل ،تنعیم اور جعرانہ وغیرہ ۔ کعبہ پہلی بار تعمیر ہوا ‘ تو اس وقت گھر کی چار دیواری تھی مگر نہ چھت نہ دہلیز نہ دروازہ‘ جس کا طول ۳۲ اور عرض ۲۲ اور بلندی ۹ گز تھی کعبہ زمانہ قدیم سے موجود تھا۔ یمن کے حمیری بادشاہ اسد تبع نے سب سے پہلے اس پر غلاف چڑھایا ۔ ہر دور میں اس کی عزت و عظمت برقرار رہی اس کے تقدس کی ایک امتیازی خصوصیت یہ بھی ہے کہ دو پیغمبر وں نے بنیادیں اٹھائیں ۔ سورۃ البقرہ :۱۰ میں ہے ترجمہ ’’ اور جب ابراہیم ؑو اسمعیلؑ خانہ خدا کی دیواریں اٹھا رہے تھے ‘‘ اور سورت آل عمران کی آیت نمبر ۹۶ میں ارشاد ربانی ہے ۔ ’’ ترجمہ ‘‘ ’’ بے شک پہلا گھر جو آدمیوں کے لیے بنایا گیا تھا وہ بکہ میں تھا ‘ برکت والے سارے جہان کا ۔‘‘ ملکی اور مذہبی روایتوں کے سوا غیر مذہب مورخوں کی تحقیقات سے بھی کعبہ کا نہایت قدیم زمانہ سے موجود ہونا ثابت ہوتا ہے مسٹر گبن نے ۔۔۔ اپنی تاریخ میں کعبہ کے ذکر میں بیان کیا ہے کہ کعبہ کی صحیح قدامت سن عیسوی سے پہلے کی ہے ۔ ساحل بحر احمر کے ذکرمیں ڈایوڈورس یونانی مورخ تھیمودیت اور سیبین کے بیان میں ایک مشہور معبد ( یعنی کعبہ )کا ذکر کیا ہے جس کے اعلی درجہ کے تقدس کی تمام اہل عرب تعظیم کرتے ہیں ۔ ‘‘ اگر ڈایوڈورس کے زمانہ میں کعبہ ایک مشہور و معروف معبد تھا جس کے اعلی درجہ کے تقدس کی تمام عرب تعظیم کرتے تھے تو ہم کو اس کی اصلیت کو در حقیقت ایک نہایت قدیمی زمانہ ( ابرہیم علیہ السلام کا زمانہ ) سے منسوب کرنا چاہیے ۔ (خطبات احمدیہ۔۳۱۳)معبد کی قدامت مکہ شہر کے قدیم ہونے پر د ال ہے ۔
اعتراض نمبر ۲
سر ولیم میور مذکورہ عبارت پر اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’ جو کچھ ڈایوڈورس نے لکھا ہے اس سے عرب کے پاس روایت کی صحت پر کہ کعبہ اور اس کے تمام مراسم کی اصلیت ابراہیم ؑو اسمعیل ؑ سے ہے کوئی کیا سوچ سکتا ہے کہ عرب کی یہ روایت مسلمانوں کی بنائی ہوئی نہ تھی بلکہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے بہت مدت پہلے اہل مکہ کی عام رائے تھی ورنہ قرآن میں بطور ایک حقیقت مسلمہ کے اس کا ذکر نہ ہوتا اور نہ بعض مقامات کے نام جو کعبہ کے گردواقع ہیں ‘ ابراہیم ؑواسمٰعیل ؑ سے متعلق کیے جاتے جیسا کہ وہ متعلق کیے گئے ہیں ۔
جواب: سر سید کہتے ہیں کہ سر ولیم میور نے بلا شبہ یہاں غلطی کی ہے جو کچھ ڈایوڈرس نے لکھا ہے اس سے عرب کی اس قدیم روایت کی صحت کا ثبوت ملتا ہے اس بات سے کہ مذہب اسلام سے پیشتر اہل عرب تسلیم کرتے تھے کہ کعبہ کو اور ان تمام مراسم کو جو کعبہ سے علاقہ رکھتی ہیں ‘ ابراہیمؑ سے تعلق ہے ۔ اس کی اصلیت و صحت نہایت مضبوطی سے ثابت ہوتی ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تا تو کیا وجہ تھی کہ اہل عرب نے اور بنی جرہم نے اور تمام مختلف عرب کی قوموں نے اس کو ابراہیم و اسمٰعیل علیھم السلام سے منسوب کیا تھا ۔عرب ایک بت پرست قوم تھی اور ابراہیم علیہ السلام بت شکنی میں ایک مشہور شخص تھا ۔ اس لیے ضرور تھا کہ تمام عرب کی قومیں ابراہیم و اسمٰعیل علیھم السلام سے نفرت کرتیں اور کبھی اپنے معبد کو ان دو سے منسوب نہ کرتیں۔ باوجود اس مغائر یت اور منافرت کے تمام عرب کی قوموں کا اس بات کو تسلیم کرنا کہ کعبہ کو اور اس کے مراسم کو ابراہیم و اسمٰعیل علیھم السلام سے تعلق ہے ‘ اعلانیہ اس کی صحت و اصلیت کی دلیل ہے ‘ نہ اس کے بر خلاف جیسا کہ سرولیم میور نے تصور کیا ہے ‘ اس روایت کا اسلام کے زمانہ سے پیشتر بطور حقیقت مسلمہ کے تسلیم ہو تا چلا آنا ہمارے لیے دلیل ہے نہ کہ ہمارے مخالف کے لیے ۔ ( خطبات احمدیہ ۔۳۱۴)
اعتراض نمبر ۳
مارگولیس کعبہ کو آنحضرت (ﷺ) سے صرف سو برس پہلے کی عمارت تسلیم کرتا ہے ۔ مزید کہتا ہے کہ اگرچہ مذہبی خیال کی وجہ سے مسلمانوں نے اپنے مذہبی مرکز کو نہایت قدیم البناء قرار دیا ہے ‘ لیکن صحیح روایت سے پتہ چلتا ہے کہ مکہ مکرمہ کی سب سے قدیم عمارت محمد (ﷺ) کے صرف چند پشت قبل تعمیر ہوئی تھی اور اس کی دلیل’’ اصابہ‘‘ کی روایت سے دیتا ہے ۔ (س۔ش۔۱۔۱۰۲) ۔
جواب : ڈھاک کے تین پات ، مستشرقین خانہ خدا کی اولیت و قدامت کے منکر ہیں ۔اِنَّ اَوَّلَ بَیْتِِ وُّ ضِعَ لِلنَّاسِ الَّذِی بِبَکَّۃٍ مُّبَارَکًا‘‘ (آل عمران ۹۶،پارہ ۴) کے بارے مفتی احمد یار خان نعیمی تفسیر کبیر کے حوالہ سے لکھتے ہیں ۔ ’’ جس مضمون کا کوئی منکر موجود ہو یا آئند ہ ہونے والا ہو ،اسے ’’ اِ نَّ ‘ ’’ لام ‘‘ تاکید یا ’’ لقد ‘‘ وغیرہ کے تحقیقی الفاظ سے شروع کیا جاتا ہے ‘ چونکہ خانہ کعبہ کی افضلیت و اولیت دونوںکے یہود منکر ہیں ۔ اسی لیے اس آیت کو لفظ ’’ اِ نَّ ‘‘ سے شروع کیا گیا ہے ۔ عربی میں اول وہ ہے جو اپنے ماسوا سے پہلے اور سابق ہو ‘ اس طرح کے کوئی نام اس سے پہلے ہو اور نہ اس کے ساتھ ‘ اس کے بعد کچھ ہو نہ ہو جیسے آخر وہ ہے جس کے ساتھ اور بعد کوئی نہ ہو ‘ پہلے ہو یا نہ ہو ۔ہمارے نبی ﷺ آخری نبی ہیں ‘ کیا معنی ؟ یعنی کہ نہ آپ کے زمانہ میں کوئی نبی ہو نہ آپ کے بعد ۔ آپ کا دین تمام دینوں کا ناسخ ہے ۔ مزید فرماتے ہیں کہ اولیت دو قسم کی ہے ۔ (۱) حقیقی اور (۲) اضافی
حقیقی اول وہ ہے جو سب سے پہلے ہو، اور اضافی اول وہ ہے جو کسی خاص چیز سے پہلے ہو ‘ یہاں گھروں کے لحاظ سے اولیت حقیقی ہے اور تمام عالم کے اعتبار سے اولیت اضافی ہے۔۔۔۔ خیال رہے کہ ایک ہے کعبہ کا تقرر ‘ ایک ہے وہاں عمارت کا موجود ہونا ،اور ایک ہے انسانوں کا وہاں گھر بنانا ‘ کعبہ کا تقرر تو سارے اجسام عالم سے پہلے ہوا، اور وہاں عمارت کا موجود ہونا حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ہوا ۔ پہلے جبکہ زمین و آسمان بلکہ بیت المعمور بھی بن چکے تھے اور انسانوں کا بشکل بیت بنانا سیدنا ابراہیم ؑ سے ہو ا ۔ پہلے معنی سے کعبہ اول حقیقی اور دوسرے معنوں میں اول اضافی ہے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں ’’ وُ ضِعَ ‘‘ فرمایا ’’ بُنِی‘‘ نہ فرمایا ۔ ( مفتی صاحب کا بیان ختم ہوا) ۔
بیت اللہ کو بیت العتیق بھی کہتے ہیں ۔ ارشاد ربانی ہے ۔ ’’ وَ لِیَتَطَوَّ فُوآ بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ‘‘ (ترجمہ) ’ ’ اور وہ بیت العتیق کا طواف کریں ‘‘اس بیت کو بیت العتیق اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ سب سے قدیم ہے اور عتیق کا معنی قدیم ہے۔(تبیان القرآن ۲۔۲۶۵)
علامہ شبلی نعمانی ( سیرت النبی ۔۱۔۱۰۳) کار لائل کا حوالہ دیتا ہے کہ اس نے اپنی کتاب ’’ ہیروز اینڈ ہیرو ورشپ میں لکھا کہ رومن مورخ سیسلس نے کعبہ کا ذکر کرتے ہوے لکھا ہے کہ وہ دنیا کے تمام معبدوں سے قدیم اور اشرف ہے اور یہ ولادت عیسٰی ؑ سے پچاس برس پہلے کا ذکر ہے ۔
علامہ حلبی ؒ نے اپنی سیرت کی کتاب میں لکھا ہے کہ نئے سرے سے کعبہ کی تعمیر جدید صرف تین مرتبہ ہوئی ہے ۔
۱۔ حٖضرت ابراہیم علیہ اسلام کی تعمیر ۔
۲۔ زمانہ جاہلیت میں قریش کی عمارت اور ان دونوں تعمیرات کے درمیان ۲۷۳۵ سال کا فاصلہ ہے ۔
۳۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی تعمیر قریش کی تعمیر کے ۸۲ سال بعد ہوئی ۔ ( لیکن عبدالملک بن مروان اموی کے ظالم گورنر حجاج بن یوسف ثقفی نے حضرت عبداللہ ؓ کو شہیدکر دیا اور ان کے بناے ہوئے کعبہ کو ڈھا دیا اور پھر زمانہ جاہلیت کے نقشہ کے مطابق کعبہ کو بنا دیا جو آج تک موجو د ہے ۔(سیرت مصطفی ۔۱۔۶۸)
دوم: مارگولیس پھر ڈنڈی مارتا ہے اور ہیر پھیر کی باتیں کر کے اور واقعات کو خلط ملط کر کے پیش کرنا اس کا معمول ہے کیونکہ اس کا مقصد محض شکوک وشبہات پیدا کرنا ہو تا ہے ۔ حالانکہ وہ اتنا بھی بے خبر نہیں کہ وہ نہ جانتا ہو کہ جس شے کی بنیاد شک پر ہوتی ہے اس کا حقیقت سے دور تک کا واسطہ نہیں ہو تا یہ بھی ممکن ہے کہ واقعہ کی اچھی طرح جانچ پڑتال نہیں کرتا اور لکھتا چلا جاتا ہے، ایسے عالم کے علم سے اللہ کی پناہ! ۔البتہ اس سے انکار ممکن نہیں کہ یہ مستشرق اسلام اور پیغمبر اسلام کا متعصب نقاد ہے تو پھر کیونکر جانب داری سے کام نہ لے گا ۔ یہاں بھی اس کے شک پیدا کرنے کا ثبوت واضح ہے ‘ وہ اس طرح کہ اپنے اعتراض کو قوی ثابت کرنے کے لیے ’’اصابہ‘‘ کی جس روایت کا حوالہ دیتا ہے وہ عمارت خانہ کعبہ کی عمارت نہیں ہے بلکہ وہ پہلی عمارت ہے جس کو سعد یاسعید بن عمرو نے بنایا تھا ‘ جسے مارگولیس نے خانہ کعبہ کی عمارت کہا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت شہر میں خانہ کعبہ کے آس پاس عمارتیں نہیں تھیں بعد میں تعمیر ہوئیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ اس سے قبل خانہ کعبہ کے آس پاس عمارتیں کیوں نہیں تھیں یا کیونکر نہیں بنائی گئی تھیں ؟۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب یعنی مکہ کے قبائل کعبۃاللہ کے آس پاس عمارت تعمیر کرنا بے ادبی اور عیب سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ حضرت اسمٰعیلؑ کے زمانہ میں شہری آبادی شمال مشرق کی سمت کوہ قیقعان کے نزدیک واقع تھی ۔ کعبہ کے تقدس کی وجہ سے لوگ شامیانوں میں رہا کرتے تھے ۔ اس کے احترام وتقدس کی بنیاد پر لوگ سیاہ رنگ کے شامیانے نصب کرتے تھے اور عمارتیں بنانے سے گریزاں تھے ان خیموں کی وجہ سے مکہ شہر خیموں کا وسیع شہر بن گیا تھا ۔ ۱۱۰۰۔ ق۔م میں بھی قیدار ( آل اسمعیلؑ)کا ذکر خیمہ والے کہہ کر کیا گیا ہے اگرچہ مکہ میں اجالہ ‘ اجیاد اور باقیان جیسے مکانات موجود تھے ۔ ( ن۔۲۔۴۱۹)
سوم : ہیکل ( حیات محمد ۔۹۲)لکھتے ہیں کہ بعض کا خیال ہے کہ قُصَیّ کی تولیت سے قبل خانہ کعبہ کے گرد کوئی بستی نہ تھی ۔ بنو جرہم اور بنو خزاعہ کا اعتقاد تھا کہ حرم کعبہ کے آس پاس بستی کا ہونا ،بیت اللہ کی بے حرمتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سب کے سب لوگ رات کے وقت حدود حرم سے باہر جہاں سے گھاس توڑنا اور جہاں شکار کرنا جائز تھا ‘ وہاں بسیرا کرتے ۔۔۔ قصی نے قریش کو جمع کیا اور حرم کے آس پاس رہائشی مکانات تعمیر کرنے کی تحریک دی ‘ اس پر سب سے پہلے چوپال کھڑی کی گئی جسے بعد میں دارالندوہ کے نام سے موسوم کیا گیا ۔۔۔ اس مشاورتی عمارت کی تعمیر کے بعد قصی کے منصوبہ کے مطابق کعبۃ اللہ کے اردگرد مکانات بنائے گئے تھے ۔قصی نے شہر مکہ فتح کرنے کے بعد شہری تقسیم کی ۔ سن ۴۴۰ میں مکہ میں حکومت قائم کی ‘ اس وقت کعبہ کے ارد گرد مکانات نہ تھے ۔ قصی کی تحریک سے مکانات تعمیر کرنے کا سلسلہ چل نکلا ‘ اس طرح موجودہ شہر کی بنیاد پڑی ۔ آنحضرتﷺ کے ظہور اور قصی کی حکومت کے درمیان ۱۳۰ سا ل کا فاصلہ ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آنحضرت ﷺ کے ظہور سے تقریباََ سوا سو سال قبل مکانات بننے لگے اس سے بھی ہمارے موقف کی پر زور تائید ہوتی ہے اور مارگولیس کے الزام باطلہ کی تردید ہوتی ہے۔ گویا خانہ کعبہ موجود تھا اور رہائشی مکانات نہ تھے ۔ مارگولیس کو دھوکا ہوا ہے یا جان بوجھ کر ہیرپھیر کی باتیں کرتا ہے اور کعبہ کے آس پاس بننے والی پہلی رہائشی عمارت کو کعبۃ اللہ کی عمارت کہہ دیتا ہے ۔
رات کو دن سے ملا بیٹھے بڑے نادان تھے
مارگولیس کا یہ کہنا کہ مذہبی خیال کی وجہ سے مسلمانوں نے اپنے مذہبی مرکز یعنی کعبہ کو قدیم البناء قرار دیا ہے ۔ یہ درست نہیں بلکہ اصابہ کی روایت سے مترشح ہوتا ہے کہ سعید یا سعد بن عمرونے مکہ میں پہلی عمارت بنائی ‘ یہ رہائشی عمارت تھی نہ کہ عبادت خانہ کی عمارت کیونکہ معبد یعنی کعبۃاللہ پہلے ہی سے موجود تھا جس کی تصدیق ماخذ سے ہوتی ہے لہٰذا مذہبی خیال کی وجہ کے بغیر مسلمانوں کا کعبۃاللہ کو قدیم البناء قرار دینا درست ہے جس کے منہدم ہونے کے بعد دو جلیل القدر پیغمبروں حضرت ابراہیم ؑو اسمٰعیل ؑ نے بنیاد اٹھائی تھی ۔ ہزاروں برس سے قائم خانہ خدا کو قدیم کہنے میں مسلمان حق بجانب ہیں ۔ مگر نہ جانے مارگولیس کو اس بات سے چڑ کیوں ہے اور اسے یہ بات ایک آنکھ نہیں بھاتی کیوں؟۔ آئیے !اس کی وجہ کو دریافت کریں اس خفیہ راز سے پردہ اٹھائیںاوراس کے باطنی روگ کا پتہ لگائیں ۔
مکہ شہر کی قدامت کو تسلیم نہ کرنا اور کعبۃاللہ کی عمارت کو سو برس پہلے کی عمارت کہنے میں مستشرق بہت دور کی کوڑی لایا ہے ۔ اس سے اس کا مقصد یہ ہے کہ مکہ شہر کی قدامت سے انکار کریں گے اور بیت اللہ کو صرف سو برس کی عمارت کہیں گے تو حضرت ابراہیم ؑ کا اپنے اہل بیت یعنی بی بی ہاجرہ علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل ؑ کویہاں آباد کرنے کا صدیوں پرانا قصہ حرف مکرر کی طرح مٹ جائے گا ۔ نیز حضرت ابراہیمؑ کی عرب میں آمد اور اپنے اہل بیت کو مکہ میں آباد کرنے کی بات ثابت نہیں ہو گی اور نہ ہی خانہ کعبہ کی عمارت کی بنیاد ان دو پیغمبروں نے اٹھائی ہو گی اور نہ ہی ان پیغمبروں کے مقدس ہاتھ دعا کے لیے اٹھے ہوں گے اور نہ یہ دعا مانگی ہو گی کہ ہماری نسل سے ایک رسول بھیج ۔ اس طرح سے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کا ظہور عرب میں ثابت نہیں ہو گا اور نہ ہی آپ ﷺ اللہ کی طرف سے رسول مبعوث ہوئے ہوں گے ۔
مارگولیس نے درپردہ یہ الزام لگایا مگر سر ولیم میورنے صاف صاف الزام دھر دیا اور کہا۔
اعتراض نمبر ۴
اسرائیلی گفتار سازوں نے ظہور اسلام سے پہلے یہ افسانہ تراشا اور ابراہیمؑ کے فرزندان کو عرب میں آباد کر دیا۔ جس سے یہودیوں کا مقصد اسمعیل ؑکے عربی النسل ہونے کی وجہ سے یہودی خود کواسحاقؑ کی اولاد ہونا ثابت کر سکیں تاکہ عربوں کے ساتھ عم زادگی کے وسیلے سے اس ملک میں اپنی تجارت کو فروغ دے سکیں ۔ ( حیات محمدﷺ۔ ۸۶)
جواب : سر سید(خطبات احمدیہ ۲۵۔۲۶) لکھتے ہیں کہ ’’ اب یہ بات قابل غور ہے کہ حضرت اسمٰعیل ؑ(علیہ السلام ) اور حضرت ہاجرہؑ کی سکونت کے باب میں ملکی و قومی دونوں طرح کی روایتیں نہایت معتبر ذریعہ سے ہمارے زمانوں تک پہنچی ہیں اور وہ ایسی روایتیں ہیں کہ جن کو تمام قوم نے بلا تامل صحیح مان لیا ہے ۔ پھر ہم کس طرح کسی طرف دار عیسائی مصنف ( سر ولیم میور ) کے محض بے دلیل بیانات کو صحیح اور معتبر تصور کر سکتے ہیں جو یہ بھی کہتا ہے کہ یہ روایت ایک کہانی ہے یا تورات سے اخذ کرکے تحریر کر دی گئی ہے ‘ ۔ مگر جس وقت اس عالی مرتبہ مصنف نے یہ بیان کیا ‘ ان کو معلوم نہ ہو گا کہ خود توریت ہی سے حضرت ابرہیم ؑؑ کے نسب کی بابت اس روایت کی تائید ہوتی ہے۔چلتے چلتے موصوف نے کم سن اسمعیل ؑ اور ان کی بے کس والدہ کی سکونت کی اصلیت کی نسبت اس طرح قیاس دوڑایا ہے کہ ’’ بنی اسمعیل اور عمالیق کی قومیں جزیرہ عرب کے شمال اور وسط میں پھیلی ہوئی تھی ‘ غالباََ یہی لوگ مکہ کے اصلی متوطن ہوں گے یا زمانہ سابق میں یمن کے لوگوں کے بشمول وہاں آ بسے ہونگے ‘ اس کے بعد فرقہ بنی اسمعیل ؑ خواہ وہ نباتی خواہ کسی ہم نسل خاندان کا وہاں کے کنووں اور کاروانی تجارت کے دل پسند موقع کے لالچ میں وہاں چلاگیا ہو گا اور بہت ہی ذی اختیار ہو گیا ہو گا ‘ یہ فرقہ اپنی ابراہیمی پرانی روایتوں کو ساتھ لے گیا ہو گا اور مقامی اوہام اور اعتقادات پر خواہ وہ کسی ملک کے ہوں یا یمن سے لائے گئے ہوں ‘ ان کو منقش کر دیا ہو گا۔‘‘ سر سید اس کے جواب میں لکھتے ہیں ’’ ان کے قیاسی باتوں کی غلطی اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت اسمٰعیل ؑکی عمر جبکہ ان کو باپ نے گھر سے نکالا تھا ‘ توریت کے مطابق سولہ برس کی تھی اور یہ عمر ایسی تھی کہ جو روایتیں انہوں نے اپنے والد سے سنی تھیں ‘ ان کے سمجھنے اور تمیز کرنے اور یاد کرنے کے قابل تھے ‘ اس کے سوا وہ ہمیشہ اور متواتر اپنے والد سے ملاقات کرتے رہے اور حضرت ابراہیم ؑ بھی اکثر ان کے پاس آتے جاتے رہتے تھے ‘ انجام کار سب سے بڑھ کر یہ بات کہ حضرت اسمعیل ؑ کی عمر جب نواسی برس کی تھی۔ حضرت ابراہیم ؑ کی وفات کے وقت وہ اپنے والد کے پاس موجود تھے ۔ یہ سب باتیں ہر ذی فہم اور غیر متعصب شخص کے ذہن نشین کرنے کو کافی ہوں گی کہ یہ تمام روایتیں جو مختلف اقوام عرب میں اس قدر شائع ہیں وہ لوگوں کو حضرت ابراہیم ؑ سے اور حضرت اسمٰعیل ؑ سے پہنچی ہیں ۔ اگر پھر کوئی شخص براہ جرت یہ کہے کہ یہ روایتیں یہودیوں کی وساطت سے پہنچی ہیں ‘ تعجب خیز نہیں ‘ مگر تعجب اس بات پر آتا ہے کہ مصنف موصوف نے اپنی قیاس وخیال کو ثابت کرنے کا ادعا کیا ہے اور لکھتا ہے کہ ’’ مگر ان بنی اسرائیل کو جو توریت پڑھتے ہیں صرف نام اور مقام ہی سے اس نسب کا احتمال عائد ہوتا ہے اور یہودی مصنفوں میں الہامی ہوں خواہ غیر الہامی ‘ ہم کا فی ا ظہار اس امر کا پاتے ہیں کہ ایسا خیال در حقیقت کیا گیا تھا ‘ یہ قدرتی استنباط یا خود ان قوموں میں جن سے وہ علاقہ رکھتا تھا قرب وجوار کے یہودیوں کے ذریعہ سے وقتاََ فوقتاََ شائع ہو گیا ہو گا اور ان کی بے جوڑ روایتوں کے غیر مکمل آثار کوجو ہنوز ان کے تخیلات اور ان کی عادات اور ان کی زبان میں موجود تھے ‘ تقویت دے دی ہو گی ‘‘۔ سر سید کہتے ہیں کہ عرب کی قوموں کی عادت پر خیال کرنے سے اس رائے کی اور زیادہ غلطی واضح ہوتی ہے ۔ عرب کے قدیم رہنے والوں نے اپنی جبلی عادت کے موافق اپنی اصلی روایتوں میں کوئی نئی روایت اضافہ نہیں کی تھی اور تمام غیر قوموں سے بالکل الگ رہتے رہے ‘ یہاں تک کہ جب حضرت اسمعیل ؑاور ان کے ہم راہی وہاں آکر آباد ہوئے تو قدیمی عرب ان کو نظر حقارت سے دیکھتے تھے اور ذلیل لقب ’’مستعربہ ‘‘ سے ان کو ملقب کیا تھا ۔ آنحضرت ﷺ کی بعثت سے پہلے بنی اسمعیل اور خصوصاََ اہل عرب بنی اسمعیل کو ہمیشہ دو مختلف قومیں سمجھتے رہے اور قدیم عربوں نے اپنی قدیمی روایتوں کا ان سے تبادلہ نہ کیا اور بنی اسرائیل کے پاس عرب کی قوموں اور عرب کے انبیاء کی نسبت زبانی خواہ تحریری کوئی روایت نہ تھی ۔
دوم : سلمان منصور پوری لکھتے ہیں کہ حضرت اسمٰعیل ؑ کو اللہ تعالیٰ نے عرب ‘ حجاز ‘ یمن و حضر موت کے لیے نبی مبعوث فرمایا تھا اور ان کا وجود مختلف قوموں اور ملکوں کے اتحاد کا ذریعہ تھا غور کریں کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ؑ کے پہلونٹے فرزند ہیں جو عراق میں پیدا ہوئے اور شام میں سکونت فرمائی وہ سیدہ ہاجرہ ؑ کے اکلوتے بیٹے ہیں ‘ جو مصرمیں پیدا ہوئیں اور شوہر کے ساتھ سال ہا سال تک فلسطین اور شام میں رہ کر عرب میں آباد ہوئیں ۔وہ بنو جرہم کے داماد ہیں۔ جو عرب کا حکمران قبیلہ تھا ‘ اسمعیل کا مسکن ایسی جگہ ہے۔ جس کے ایک طرف مصر ہے ‘ جہاں ان کے ننھیال ہیں ‘ ایک طرف عراق ہے جہاں ان کے ددھیال ہیں ۔ ایک طرف شام ہے جہاں ان کے بھائی حضرت اسحق ؑ رونق افروز ہیں ۔ ایک طرف یمن ہے جہاں ان کے بھائی ابنائے قطورا پھیلے ہوئے ہیں ۔ عیسوبن اسحق ان کا داماد ہے جو اٹلی کے کنارے تک اپنی کثیر اولاد کے ساتھ قابض ہے ۔
سر ولیم میور نے یہ بات فرض کر لی ہے کہ مکہ کے قریب حضرت اسمعیلؑ کا آباد ہونا اور یہ بات کہ یقطان اہل عرب کے مورث اعلی تھے ‘ سب بناوٹ اور قصہ ہے اور ہر قسم کی تاریخی سچائی اور احتمال سے مبرا ہے ‘‘
اس کے جواب میں سر سید لکھتے ہیں کہ اس بات سے پہلے سر ولیم میور پر فرض تھا کہ یہ بات کرتے کہ اہل عرب کو اگر وہ نسل میں اور رسومات میں اور مذہب میں یقطان اور اسمعیل سے بالکل مختلف تھے تو اس بناوٹ کی کیا ضرورت پیش آئی تھی اور کیوں تمام ملک اور تمام قبیلے جو آپس میں نہایت دشمن اور سخت عداوت رکھتے تھے اور روز خانہ جنگیاں اور باہمی لڑائیاں کرتے تھے ‘ اس ایک بات پر متفق ہو گئے تھے ۔ عرب کی تمام تاریخوں سے جن کوعیسائی مورخین نے ہی تسلیم کیا ہے ‘ ثابت ہوتا ہے کہ یقطان عرب کا مورث اعلیٰ تھا ۔ ان تمام باتوں کی کس طرح سر ولیم میور تردید کرتے ہیں کیونکہ ایسے موقع پر بمقابل ثبوت صرف انکار کر دینا کافی نہیں ہے ۔۔۔ یونانی مورخ اہل جغرافیہ حجاز میں حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام کی اولاد کی سکونت کا نشان بتاتے ہیں ۔ ان مورخین نے حجاز کی ان بستیوںکا ذکر کیا ہے جو اسمٰعیل ؑکے بیٹوں کے نام سے موسوم تھیں ۔( خطبات احمدیہ ۔۳۱۴)
حضرت اسمٰعیل ؑ کے بارہ فرزند ہوئے جن کے ناموں پر کئی بستیاں آباد اور موجود ہیں اور ان کے ناموں سے مشہور ہیں ۔ آپ کے صاحب زادوں کے نام یہ ہیں ۔
نبیت ‘ قیدار ‘روبیل ( اوبیل ) یسام‘ دومہ ‘ سمعا ‘ مشاء ‘ حدر ‘ تیمہ ‘ وطور‘ نفیس‘ اور قدمہ ۔ تورات سے ثابت ہے کہ حضرت اسمٰعیل ؑکے بارہ فرزند اپنی اپنی امتوں کے بارہ رئیس تھے ‘ یہ بھی ہے کہ ان کی بستیوں اور قلعوں کے نام بھی ان ہی کے نام پر ہیں ۔ہم یقین کرتے ہیںکہ جب تورات میں یہ الفاظ لکھے گئے ہیں ‘ اس وقت ابنائے اسمعیل کی بستیاں اور قلعے ان ہی کے نام سے زیادہ مشہور تھے اور زبان زدعام تھے مگر آج ان کا نشان صحیح طور پر نہیں ملتا ‘ البتہ جن جن کا نشان ملتا ہے وہ سب عرب ہی کے اندر واقع ہیں اور اس طرح سے تورات کے اس بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت اسمٰعیلؑ اور ان کی والدہؑ کو عرب کے شہر مکہ میں بسایا تھا ۔ ان بستیوں اور شہروں کے نام یہ ہیں ۔
نبیت : نیبوع کے متصل ایک آبادی ہے یقیناََ نبیت کی ہی وادی ہے ۔
الحضیر :؛ مذکور آبادی سے تھوڑے فاصلہ پر شہر الحضیر ہے جس کا تلفظ دال کے مشابہ ہے ‘ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اس کا ابتدائی نام القیدار تھا ۔
سام:: ان کے نسباََ نام نجد میں ملتے ہیں ۔
دومہ:: شام اور مدینہ کے درمیان موجود ہے اور عرب کے اندر واقع ہے ۔ آپ کے عہد میں یہ یہودیوں کی ریاست تھی اور دومۃالجندل کے نام سے یہ شہر مشہور تھا۔
موسیٰ:: مشاء غالباََ یمن میں گیا ۔ وہاں موسیٰ نام کی بستیاں ہیں ۔
حدر :: حدر کے نام سے یہ شہر جدیدہ جنوبی عرب میں موجود ہے ۔
تیما:: اس بستی کا نام ہے جو اب تک موجود ہے ۔ یہ مقام فدک کے متصل ہے اور راہ خیبر کے قریب واقع ہے ۔
قدمہ :: غالباَ۔ یہ یمن میں تھا ۔ مسعودی نے قوم قدمان کا ذکر کر کے ان کوبنو اسمٰعیل بتایا ہے ۔ باقی بستیوں کا صحیح پتہ معلوم نہیں ۔
مزید سلمان منصور پوری لکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل ؑ کو جو حضرت ہاجرہ کے بطن سے تھے ‘ مکہ مکرمہ میں لا کر آباد کیا اور عرب کی زمین ان کو عطا کی۔ آپ کے دوسرے فرزند اسحق ؑہیں جو حضرت بی بی سارہ علیہا السلام کے بطن مبارک سے تولد ہوئے تھے ‘ ان کو ملک شام میں آباد کیا ۔ آپ کی تیسری بیوی حضرت قطورا کے پیٹ سے جو اولاد ’’ مدین‘‘ وغیرہ ہوئی ان کو یمن میں آباد کیا۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے بارہ بیٹے ہوئے ان کی اولاد میں اللہ تعالی ٰنے برکت و وسعت فرمائی حتی کہ سارے عرب میں پھیل گئے ‘ یہاں تک کہ مغرب میں مصر تک ان کی آبادیاں جا پہنچیں اور جنوب کی طرف ان کے خیمے یمن تک پہنچے اور شمال کی طرف ان کی بستیاں شام سے جا ملیں ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے جس پر ماخذ شاہد ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اہل بیت ، حضرت اسمعیلؑ و حضرت ہاجرہ ؑ کو مکہ مکرمہ میں لا کر آباد کیا تھا ۔
اعتراض نمبر ۴ کا دوسرا جز جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ یہودیوں کا مقصد حضرت اسمٰعیل ؑ کے عربی النسل ہونے کی وجہ سے یہودی خود کو حضرت اسحق علیہ السلام کی اولاد ہونا ثابت کر سکیں تا کہ عربوں کے ساتھ عم زادگی کے وسیلے سے اس ملک میں اپنی تجارت کو فروغ دے سکیں ‘‘۔ ( حیات محمد۔۸۶) اس اعتراض کی دلیل بھونڈی اور کمزور ہے وہ یوں کہ اس سے کئی سوالات ذہن میں جنم لیتے ہیں ۔ مثلاََ کیا اس سے پہلے یہود کے عربوں کے ساتھ تعلقات اچھے نہ تھے ؟ کیا ان کے درمیان جنگ ہوئی جس سے فاصلے بڑھ گئے ؟ کیا عربوں نے انہیں اپنے ملک میں تجارت کرنے سے منع کر رکھا تھا ایسے کون سے اختلافات تھے جو ختم نہیں ہو رہے تھے اور تجارت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے ‘ جن کو محض رشتہ داری کی بنیاد پر ختم کیا جا سکتا تھا بجز اس کے ممکن نہ تھاَ ؟کیا تجارت رشتہ داری کی مرہون منت ہے جس سے تجارت فروغ پا سکتی ہے ؟ ایسے ڈھیر سارے سوالات مذکورہ الزام کی تردید کرتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ تجارت کے لیے رشتہ داری لازمی اور ضروری نہیں ہے بلکہ رشتہ داری کے ذریعہ سے تجارت کو فروغ دینا مجذوب کی بڑہے ۔ زمانہ قدیم اور جدید میں تجارتی معاہدے کیے جاتے ہیں ایسا نہیں کہ تجارت کرنے والے ملکوں سے رشتہ داری پہلے قائم کی جاتی ہے اور بعد میں اس رشتہ کے طفیل تجارت کی جاتی ہے ۔آج کے دور پر ہی نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک ملک اپنی وافر اشیاء دوسرے ملکوں کو برآمد کرتے ہیں اور اپنے ملک میں ضرورت کی اشیاء ان ملکوں سے درآمد کرتے ہیں۔ اس تجارتی کاروبار کے لیے ملکوںکے ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی معاہدے ہوتے ہیں جن میں مختلف امور طے کیے جاتے ہیں ۔ اس کے بعد تجارت کا آغاز ہو جاتا ہے ۔ تجارت کرنا اور اسے ترقی اور فروغ دینا تحریری معاہدوں کی بنیاد پر ہوتا ہے نہ کہ تجارت کے فروغ کا دارو مدار رشتہ داری پر موقوف ہوتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر کہیں تجارت کرنے والے ملک سے رشتہ داری نکل آئے تو اچھا ہے ورنہ تجارت کے لیے رشتہ داری ضروری نہیں ہے ۔ یہ رشتہ داری کے بغیر چلتی رہتی ہے نیز ہر ملک سے رشتہ داری نہیں گانٹھی جا سکتی ہے کیونکہ کبھی کسی کی حکومت ہوئی ہے اور کبھی کسی کی۔ البتہ تجارتی معاہدوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کیا یہ مستشرقین اس بات سے انجان ہیں کہ پیغمبرﷺ کے امجاد عظام کے غسان اور روم کے بادشاہوں کے ساتھ تجارتی معاہدے تھے ۔رشتہ داری کو تجارت کے ساتھ جوڑنے والے کی ذہانت اور علمی قابلیت کے لیے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’ بایں عقل و دانش بباید گریست۔‘‘
حضرت ابراہیم ؑ کی مکہ مکرمہ کی طرف ہجرت
حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی زوجہ اور اسمٰعیلؑ کو ہمراہ لیا اور یہاں سے جنوب کی سمت روانہ ہو گئے اور ان کایہ سفر اس درہ کوہ پر جا کر ختم ہوا جہاں آج کل مکہ معظمہ ہے ۔سوال یہ ہے کہ مکہ کی طرف ہی ہجرت کیوں کی ؟۔ شاہ معین الدین ندوی ( تاریخ اسلام جلد اول،ص۱۳) لکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ عراق و شام و مصر کی متمدن دنیا گھوم پھر کردیکھ چکے تھے ۔ یہاں کوئی پیغام توحید سننے والا نہیں تھا اس لیے توحید کی تبلیغ کے لیے ریگستان عرب کا سادہ صفحہ جو اپنی اصل فطرت پر اور تمدن کی نقش آرائیوں سے پاک تھا ‘ کا انتخاب کیا ۔ اس درہ میں کوئی مستقل آبادی نہ تھی ‘ صرف شام اور یمن سے آنے جانے والے قافلے سستانے کے لیے پڑائو کر لیتے اوران کے چلے جانے کے بعد وہی تنہائی اور ویرانی کا بسیرا ہوتا حضرت ابراہیم ؑ نے اہل بیت کو تھوڑابہت کھانے پینے کا سامان دیا جو گھر سے لائے تھے اور خود واپس ہو لیے۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے ایک چھوٹی سی کٹیا بنائی جب کھانے پینے کا سامان ختم ہو گیا چاروں طرف نگاہ دوڑائی کہ خورونوش کا انتظام کریں ۔ اسی تلاش میں انہوں نے صفا اور مروہ پہاڑیوں پر سات چکر لگائے پانی کا نشان تک پایا اور نہ ہی کسی انسان کو دیکھا مایوس ہو کر لوٹیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ کم سن بچہ ز مین پر ایڑیاں رگڑ رہا ہے اور ان کے نیچے سے پانی ابل رہا ہے ۔ خود پیا اور بچے کو پلایا پھر اس چشمہ کے چاروں طرف مینڈ ھ بنا دی ۔ اس کے بعد کھانے پینے کے لیے آنے والے قافلوں اور تاجروں سے کھانے کا سامان خرید لیتیں ‘ جو یہاں پڑائو کرتے ۔ یہ درہ کوہ صدیوں سے مشہور تھا مگر پانی کے چشمہ کے پھوٹ پڑنے کے بعد اور زیادہ مشہور ہو گیا ۔ عرب کے کچھ قبیلے یہاں آکر آباد ہو گئے ان میں سے پہلا قبیلہ جو یہاں آکے آباد ہو ا‘ وہ قبیلہ بنو جرہم کا تھا اور حضرت اسمعیل ؑ بالغ ہوئے تو اسی قبیلہ بنو جرہم کی ایک خاتون سے جو مضاض بن عمرو جرہمی کی بیٹی تھی ‘ عقد کیا ۔ آہستہ آہستہ آبادی بڑھتی گئی اور اطراف سے قبائل آ آکر آباد ہوتے گئے ۔ اس بات پر تمام مورخین متفق ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے فرزند اسمٰعیل علیہ السلام اور اپنی بیوی حضرت ہاجرہ علیہا السلام کو مکہ مکرمہ میں آباد کیا تھا ۔ مگر واقعہ کی جزئیات میں بعض محققین کو اختلاف ہے مثلاََ
( ۱) اس جگہ چشمہ پہلے سے جاری تھا ۔
(۲) بنو جرہم کا قبیلہ حضرت ابراہیم ؑ کی آمد سے پہلے آباد تھا ۔ اور آپ کی آمد پر انہوں نے استقبال کیا ۔
( ۳) حضرت بی بی ہاجرہ علیہا السلام کا کھانے پینے کے لیے صفا اور مروہ کی پہاڑیوں پر چکر لگانے کی نوبت ہی نہ آئی تھی ۔ ہیکل ( حیات محمد۔۸۴) لکھتے ہیں کہ محققین یا تاریخ دان اس واقعہ کے بارے میں چاہے جو بھی اختلاف رکھتے ہو ں ‘ ہم ان سے قطعاََ اتفاق نہیں کرتے ہیں ۔ چونکہ ہمارے پاس قرآن مجید ‘ احادیث اور سلف کی کتب سے واضح دلائل موجود ہیں ۔ نبی پاکﷺ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ اسمعیل علیہ السلام کی والدہ پر رحم کرے اگر وہ چشمہ زم زم کو اسی طرح رہنے دیتیں یا آپ نے فرمایا اگر آپ اس سے جلدی سے چلو نہ بھرتیں تو زم زم جاری چشمہ ہوتا ۔
حضرت ابراہیم ؑ اپنے فرزند اور اس کی والدہ کو وادی غیر ذی زرع میں بسا کر واپس چلے ،ایک گھاٹی کے پاس پہنچے ،جہاں آپ کو اپنا بیٹا اور بیوی نظر نہ آئی۔ اس وقت آپ نے اللہ تعالی سے دعا کی ۔
رَبَّنَآ اِنّیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّ یَّتِیْ بِوَادِِ غَیْرِ ذَیْ ذَرْعٍ عِندَ بَیْتِکَ المُحَرَّمِ رَبَّناَ لِیُقِیمُوُ االْصَّلٰوۃِ فَاجْعَلْ اَفئئِدَۃً مِّنَ الناَّسِ تَھْوِیْ اِلَیْھِمْ وَارْزُقْھُمْ مِّن َ الثَّمَرَ آتِ لَعَلَّھُم یَشْکُرُوْنَ o
ترجمہ : اے ہمارے رب میں نے بسا دیا ہے اپنی کچھ اولاد کو اس وادی میں جس میں کھیتی باڑی نہیں تیرے حرمت والے گھر کے پڑوس میں ‘ اے ہمارے رب !یہ اس لیے تا کہ وہ نماز قائم کریں ۔ پس کردے لوگوں کے دلوں کو کہ وہ محبت سے ان کی طرف مائل ہوں اور انہیں رزق دے پھلوں سے تا کہ وہ ( تیرا) شکر ادا کریں ‘‘۔ (ابراہیم ۳۷،پارہ۱۳)
قرآن مجید میں مکہ کو وادی غیر ذی زرع کہا گیا ہے جس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہاں پانی کا نام و نشان نہیں تھا ۔ اگر پانی میسر ہوتا تو کم ا ز کم پہاڑی علاقوں کے بجز تھوڑے بہت میدانی علاقوں میں کھیتی باڑی ہونا چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں تھا ۔ حضرت ابراہیم ؑ اپنے اہل بیت کے لیے رزق کی فراخی کی دعا کرتے ہیں ۔اس درہ میں کسی قسم کی سہولت میسر نہیں تھی، تبھی لوگ یہاں نہیں بستے تھے اور حضرت ابراہیمؑ کی آمد کے وقت بھی یہاں ویرانی تھی ۔ انہوںنے توحید کا پیغام پہنچانے کے لیے بہت سے ملکوں کا سفر کیا ۔ اس دوران انہوں نے کئی بستیاں بھی بسائیں ۔ اس بستی یعنی مکہ کو بسانے کا سہرا بھی حضرت ابراہیم ؑ کے سر ہے ۔ صحیح بخاری کتاب الانبیاء میں ہے مکہ میں اس وقت نہ کوئی جاندار تھا اور نہ پانی تھا ‘ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام بی بی ہاجرہ علیہا السلام کو یہاں چھوڑ کر جانے لگے تو شوہر اور بیوی میں یوں باتیں ہوئیں۔
ہاجرہ علیہا السلام:: ہم کو کس کے پاس چھوڑ چلے ۔ ؟
ابراہیم ؑ :؛ خدا کے پاس ۔
ہاجرہ علیہا السلام: میں خدا پر راضی ہوں ۔ ( رحمۃ اللعالمین ۔۲۔۴۴)
بعض لوگ کہتے ہیں کہ چشمہ پہلے سے جاری تھا اور بی بی ہاجرہ علیہا السلام نے صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے چکر نہیں لگائے، در اصل وہ لوگ حضرت اسمٰعیل ؑ اور ان کی والدہ کی شان اور عظمت کو گھٹانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ع ’’ وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے کیونکہ عزت وذلت اسی ذات کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ ارشاد ربانی ہے ۔ وَتعز من تشا وتذل من تشاء ۔
جبرائیل کے پر مارنے یا حضرت اسمٰعیل ؑ کی ایڑیاں رگڑنے سے چشمہ پھوٹا ۔ اگر جبرائیل ؑ کے پر مارنے سے بحکم ربی چشمہ ابل پڑا تب بھی یہ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے اہل بیت کے لیے انعام خدا وندی تھا ۔ جس چشمہ سے اب ساری دنیا فیض یاب ہو رہی ہے ۔ یہ پیغمبر کے خاندان کے لیے اللہ تعالی ٰکے ہاں کتنی عزت و عظمت ہے ‘ کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اگر اسمٰعیل ؑ علیہ السلام کی ایڑیاں رگڑنے سے چشمہ جاری ہوا ‘ تب بھی یہ معجزہ اسمٰعیل ؑ کا ہے جو عطایا خدا وندی ہے ۔ ہر دو صورتوں میں یہ عزت و عظمت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے اہل بیت کے لیے ہے ۔ یہی تو مخالفین کو دکھ ہے جو انہیں گھن کی طرح چاٹ رہا ہے اور ان کا کہنا کہ وہاں چشمہ جاری تھا ۔ لوگ آباد تھے ۔ اور بی بی کو کھانے پینے کے سا مان کے لیے پہاڑیوں کے چکر کاٹنے کی ضرورت نہ تھی ۔مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ الہامی کتاب ‘ حدیث اور اسلاف کی کتب میں یہ بات موجود ہے کہ وہاں نہ کوئی جاندار اور نہ پانی تھا تو کس طرح ان ماخذ کے ہوتے ہوئے مخالفین کی رائے کو تسلیم کیا جا سکتا ہے ۔
توریت میں مذکور ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پہلی اولاد حضرت ہاجرہ علیہا السلام کے بطن سے ہوئی جس کانام اسمٰعیلؑ رکھا گیا۔ ان کے بعد بی بی سارہ علیہا السلام کے بطن سے اسحق علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ حضرت اسمٰعیل ؑجب بڑے ہوئے تو حضرت سارہ نے یہ دیکھ کر کہ وہ حضرت اسحق ؑکے ساتھ گستاخی کرتے ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ ہاجرہ اور اس کے بیٹے کو گھر سے نکال دو ۔ ان واقعات کے بعد تورات کے خاص الفاظ یہ ہیں ترجمہ:’’ ابراہیم علیہ السلام ؑنے صبح سویرے اٹھ کر روٹی اور پانی کی ایک مشک لی اور ہاجرہ کے کندھے پر دھر دی اور اس لڑکے ( اسمعیلؑ) کو بھی رخصت کیا وہ روانہ ہوئی اور بئیر سبع کے بیابان میں بھٹکتی پھرتی تھی اور جب مشک کا پانی ختم ہو گیا تب اس نے لڑکے کو ایک جھاڑی کے نیچے ڈال دیا اور وہ اس کے سامنے ایک تیر کے پٹے دور جا کر بیٹھ گئی ‘ کیونکہ اس نے کہا میں لڑکے کا مرنا نہ دیکھوں ‘ سو وہ سامنے بیٹھی اور چلا چلا کر روئی ‘ تب خدا نے اس لڑکے کی آواز سنی اور خدا کے فرشتہ نے آسمان سے ہاجرہ کو پکارا اور کہا ! اے ہاجرہ ! تجھ کو کیا ہوا ‘ مت ڈر کہ اس لڑکے کی آواز جہاں وہ پڑا ہے خدا نے سنی ‘ اٹھ اور لڑکے کو اٹھا اور اسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کہ میں اس کوایک بڑی قوم بنائوں گا ۔ پھر خدا نے اس کی آنکھیں کھولیں اور اس نے پانی کا ایک کنواں دیکھا اور جا کر اپنی مشک کو پانی سے بھر لیا اور لڑکے کو پلایا اور خدا اس لڑکے کے ساتھ تھا ۔ اور وہ بڑھا اور بیابان میں رہا اور تیر انداز ہو گیا ‘ اور وہ فاران کے بیا بان میں رہا اور اس کی ماں نے ملک مصر سے ایک عورت بیاہنے کو لی ۔ (س۔ش۔۱۔۹۲) اگرچہ توریت کی مذکورہ عبارت نہایت دلخراش اور جگر سوز ہے پھر بھی اس عبار ت سے ہمارے موقف کی تائید اور مستشرقین کے الزامات کی تردید ہوتی ہے ۔
سر ولیم میور اپنے موقف یعنی اسرائیلی گفتار سازوں نے ظہور اسلام سے پہلے یہ افسانہ تراشااور ابراہیمؑ کے فرزندوں کو عرب میں آباد کر دیا ‘ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ایک اور الزام لگاتا ہے۔ جو درج ذیل ہے۔
اعتراض نمبر ۵
’’ اہل عرب کو حضرت ابراہیم (علیہ اسلام) کے دین سے کوئی نسبت نہ تھی ۔وہ بت پرستی کرتے تھے اور ابراہیم ؑ خدا پرست موحد تھے ۔ ‘‘ ( حیات محمد۔۸۶)
جواب : سر ولیم میور اس اعتراض میں تنہا ہے جب کہ بیسیوں یہودی مورخین نہ صرف خاندان قریش بلکہ تمام شمالی عرب و حجاز کو ابراہیمی نسل تسلیم کرتے ہیں ۔ بلکہ حضرت ابراہیم ؑ علیہ السلام نے کلدانیہ ‘ اشوریہ ، لبنان ‘ فلسطین اور مصر میں شمع توحید جلائی اس روشنی کی ایک شمع حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کی شکل میں عربوں کو دی ۔ قریش کا صرف یہی دعویٰ ہے کہ وہ اسمٰعیلیٰ ہیں ۔ خود توریت نے بنی اسمعیٰل کے بارہ قبیلے بیان کیے ہیں ۔ قریش کے جدامجد قیدارجو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے صاحب زادے ہیں بنی نابت کے جنوب ( حجاز ) میں مقرر کیا ۔ عہد وسطی ٰکے مورخین نے سرا سین کو اسمٰعیلی قرار دیا ہے ۔ کونسا امر مانع ہے کہ یہ تسلیم نہ کیا جائے کہ عربوں میں جو رسوم رائج تھیں وہ حضرت ابراہیم اور اسٰمٰعیل علیھم السلام نے متعارف کرائیں ۔ ( مستشرقین کا اندازفکر ۔۲۳۶)
قس بن ساعدہ ایادی ‘ زید بن عمرو بن نفیل ‘ امیہ بن ابی صلت‘ ابو کرب ‘ سیف ذی یزن اور ورقہ بن نوفل وغیرہ ‘ ایسے لوگوں کو تاریخ حنفا کہتی ہے ۔حنفا حنیف کی جمع ہے اور حنیف حضرت ابراہیمؑکے پیرووں کا لقب ہے تو پھر کیسے مان لیا جائے کہ اہل عرب بت پرست تھے اور انہیں دین ابراہیمی سے کوئی نسبت نہ تھی۔
سوم : عرب خانہ خدا کی عزت واحترام میں بڑھے ہو ئے تھے ‘ بایں سبب کہ ان کے جد امجد حضرت ابراہیم و اسمعٰیل ؑدونوں نے اس کی بنیادیں اٹھائی تھیں ۔ حج کی عبادات جیسے بیت اللہ کا طواف ‘ حجر اسود کا استیلام ‘ صفا مروہ کے درمیان سعی اور عرفات کی عبادتیں سب کی سب ان پیغمبروں نے متعارف کروائیں اور یہ عبادتیں عرب کیا کرتے تھے ۔ مگر یہ بات درست ہے کہ ان عبادات میں ردوبدل ہو چکا تھا اور کئی قسم کی خرافات در آئی تھیں مثلاَ کعبہ کا طواف تو کرتے تھے مگر ننگے دھڑنگے کرتے تھے احترام خانہ کعبہ تو تھا لیکن اسے ۳۶۰ بتوں سے مزین کر رکھا تھا ۔مہینوںکی قدر تو تھی مگر ان کو آگے پیچھے کرنے کی ’’ نسی‘‘ موجود تھی ۔ انکی نمازیں بھی کسی کام کی نہیں تھیں ‘ وہ سیٹیاں بجا کر یا تالیاں بجا کر کرتے تھے ارشاد خدا وندی ہے ’’ وَماَکاَ نَ صَلاَ تُھُمْ عِنْدَ البَیْتِ اِ لاَّ مُکَآ ئً وَّتَصْدِ یَۃََ ً۔‘‘ ( انفال ۳۵،پارہ۹) کعبے میں ان کی نمازیں کیا تھیں ( رائگاں ) سیٹیاں ( اکثر ) بجانی یا بجانی تالیاں ۔ ( ڈاکٹر حمید اللہ محمد رسول اللہ۔۳۲)
گویا عبادتیں اور رسوم تو وہی تھیں لیکن وہ اصلی حالت میں نہیں رہی تھیں ۔ ان میں تحریف کر دی گئی ۔اب تحریف شدہ رسوم ان کی عبادتیں بن چکی تھیں ‘ اس بنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اہل عرب کو دین ابراہیمی سے کوئی نسبت نہ تھی اور وہ بت پرست تھے اور ابراہیمی تعلیمات ان تک پہنچی نہیں تھیں۔
چہارم:؛ عربوں کا بت پرستی کرنے سے ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے اہل عرب کو بت پرستی سے منع نہیں کیا تھا جبکہ اللہ واحدہ لا شریک کو معبود ماننے کی تبلیغ اپنے ہم وطنوں کو کی ‘ جس کی پاداش میں انہیں آگ میں ڈال دیا گیا ۔ اللہ تعالی ٰنے آگ کو حکم فرمایا ’’ یا نار کونی برد و سلام علی ابراہیم ‘‘ آگ حضرت ابراہیمؑ پر ٹھنڈی ہو گئی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنے پیغمبر کو بچا لیا ۔ اس صورت حال میں اور اپنے ہم وطنوں کی ڈھٹائی کے سبب جو بتوں کی پوجا پاٹ پر ڈٹے ہوئے تھے ‘ اس لیے انہوں نے حجاز کی طرف ہجرت فرمائی اور یہاں کے بت پرستوں کو بھی خدا ئے واحد کی عبادت کی تلقین کی لیکن اکثریت اس قبیح رسم یعنی بت پرستی سے نہ ہٹ سکی گویا اکثریت کا بتوں کی پوجا پاٹ کرنے سے سر ولیم میور کا یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ اہل عرب کو دین ابراہیمی سے کوئی نسبت نہ تھی ‘ درست نہیں ہے۔ اس وجہ سے کہ عربوں نے دین ابراہیمی میں ردو بدل کر کے اپنی مرضی کا دین بنا لیا تھا اور اصل دین ابراہیمی کی تعلیمات بھلا چکے تھے یا از خود چھوڑ چکے تھے اور اپنے مرضی کے بنائے ہوئے مذہب پر سختی سے عمل پیرا تھے ۔ یہ کہنا بجا ہے کہ ان کے اپنے تیار کردہ مذہب کو واقعی دین ابراہیمی سے کوئی نسبت نہ تھی ۔ دین ابراہیمی کی تعلیم کردہ عبادات مثلاََ حج ، طواف اور نمازکی عبادت بجا لاتے تھے مگر اس میں اپنی مرضی کی نہایت لغو تبدیلیاں کر لی تھیں ۔لہذا تحریف شدہ مذہب کی پیروی ہوتی تھی ۔ تو یہ کیسے تسلیم کر لیں کہ عربو ں کو دین ابراہیمی سے کوئی نسبت نہ تھی اور وہ بت پرست تھے ۔
اس اعتراض کا دوسرا جز یہ ہے کہ عرب بت پرستی کرتے تھے اور حضرت ابراہیمؑ خدا پرست موحد تھے۔ اس کا جواب : ہیکل( حیات محمد ۔۸۶) لکھتا ہے ’’ لیکن معترض کی یہ کمزور سی دلیل تاریخ کے ایک مسلمہ واقعہ کی تردید کے لیے کافی نہیں ہو سکتی ۔ حضرت ابراہیمؑ اور ان کے فرزند حضرت اسمعیل ؑ کی وفات کے صدیوں بعد بت پرست بن جانا اس بات کی دلیل کیسے بن سکتا ہے کہ جس زمانہ میں حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے اہل بیت کو حجاز میں آباد کیا ‘ اس وقت سے لے کر دونوں باپ اور بیٹے کے ہاتھوں تعمیر ہونے والے بیت اللہ تک عرب کے رہنے والے بت پرست ہی تھے تاریخ گواہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ہم وطنوں کو بت پرستی سے منع کیا انہیں اللہ واحدہ لا شریک کو معبود ماننے کے دلائل کے ساتھ دعوت دی وہ نہیں مانے تو آپ نے حجاز کی طرف ہجرت کر لی ، یہاں بھی انہوں نے بت پرستوں کو اللہ کی عبادت کرنے کی تبلیغ کی مگر یہاں کے لوگوں نے بھی بت پرستی کو نہ چھوڑا لیکن سارے لوگ بت پرست نہیں تھے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو موحد اور عربوں کو بت پرست کہنے سے یہ مستشرق یہ نتیجہ اخذ کرنا چاہ رہا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اور اہل عرب کے عقائد میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ اس بعد کی بناء پر یہ کیسے مان لیا جائے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اہل بیت کو مکہ مکرمہ میں آباد نہیں کیا تھا۔ اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ ابراہیم ؑ کے زمانہ میں یہ لوگ بت پرست تھے ‘ تب بھی سر ولیم میور کے لیے یہ دلیل موید نہیں ہو سکتی ۔آخر اس میں کونسا پہلو نکلتا ہے جس کی بنیاد پر حضرت ابراہیم ؑ کے حجاز آنے سے انکار ضروری سمجھ لیا جائے ‘ خصوصاََ عقل صریح اور نقل صحیح دونوں ہماری تائید اور میور کی تردید میں پیش پیش ہیں ۔
اہم نکتہ :کوہ فاران عرب میں ہے جبکہ عیسائی علماء اسے فلسطین کے جنوب میں واقع ایک صحرا کا نام بتاتے ہیں تورات میں ہے کہ حضرت اسمعیل ؑ’’ فاران ‘‘ میں رہے اور تیر اندازی سیکھی اور اس کی والدہ نے ملک مصر سے ایک عورت بیاہنے کو لی ‘‘
جواباََ عرض ہے کہ عیسائی اہل بیت ابراہیم ؑ کی مکہ آمد اور سکونت کو نہیں مانتے اس سلسلے میں وہ یہ بھی نہیں مانتے کہ کوہ فاران عرب میں واقع ہے بلکہ وہ اس صحرا کا نام لیتے ہیں جو فلسطین کے جنوب میں واقع ہے ۔ گویا عیسائیوں کو اس پر اعتراض ہے کہ فاران عرب میں نہیں اس لیے وہ حضرت اسمعیل ؑ کا عرب میں آنا خلاف واقعہ کہتے ہیں ۔ عرب کے جغرافیہ دان اس بات پر متفق ہیں کہ فاران حجاز کے پہاڑ کا نام ہے ۔ معجم البلدان میں صاف تصریح ہے لیکن عیسائی مصنفین اس سے اتفاق نہیں کرتے ۔ ۔۔ مولانا شبلی (سیرت النبی ۔۱۔۹۳) کہتے ہیں کہ اس قدر بتانا ضروری ہے کہ عرب کی شمالی حد کسی زمانہ میں کس حد تک وسیع تھی ۔ ’’ موسولیبان ‘‘ تمدن عرب میں لکھتا ہے کہ اس جزیرہ کی حد شمالی اس قدر صاف اور آسان نہیں‘ یعنی یہ حد اس طرح پر قائم ہوتی ہے کہ غزہ فلسطین کا ایک شہر ’’اُور‘‘ بحر متوسط پر واقع ہے ‘ ایک خط جنوب میں بحر لوط تک کھینچا جائے اور وہاں سے دمشق اور دمشق سے دریائے فرات تک اور دریائے فرات کے کنارے کنارے لا کر خلیج میں ملا دیا جائے ‘ پس اس خط کو عربستان کی حد شمالی کہہ سکتے ہیں‘‘ ۔اس طرح عرب کے حجازی حصہ میں فاران کا ہونا قرین قیاس ہے ۔ تورات میں جہاں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی جائے سکونت کا بیان ہے وہاں یہ الفاظ ہیں ‘‘ اور وہ ‘‘ حویلہ ‘‘ سے ’’ شور ‘‘ تک اس تحدید میں مصر کے سامنے زمین پڑتی ہے ‘ وہ عرب ہی ہو سکتا ہے ‘‘۔
دوم :: حبقوق نبی نے صدیوں پہلے نعرہ لگایا خدا جنوب سے ‘ اور وہ جو قدوس ہے کوہ فاران سے آیا اور اسکی شوکت سے آسمان چھپ گیا ‘ زمین احمد کی حمد سے بھر گئی ۔‘‘ ( النبی الخاتم۔ ۲۴) مزید لکھتا ہے کہ خدا سینا سے نکلا ‘ سعیر سے چمکا اور فاران ہی کے پہاڑ مورہ سے جلوہ گر ہوا ‘دس ہزار قدسیوں کے ساتھ ‘‘۔ ( حوالہ بالا)
سوم: سر سید لکھتے ہیں کہ ’’ بنی اسمعیلؑ اس وسیع قطعہ میں آباد ہوئے تھے جو شمالی حد یمن سے جنوبی سرحد شام تک منتہیٰ ہوتا ہے ‘ یہ جگہ اب بنام حجاز مشہور ہے اور فاران سے مطابقت رکھتی ہے ۔ ہمارے اس نتیجہ کی اس امر سے بھی تصدیق ہوتی ہے کہ یہی سر زمین ٹھیک مصر کے سامنے واقع ہوتی ہے َ اگر کوئی شخص وہاں سے اسیریا کی جانب عزیمت کرے اور تورات مقدس کی کما حقہ تصدیق ہو تی ہے ‘ جہاں لکھا ہے ’’ جو کہ سامنے مصر کے ہے اگر تو اسیریا کی طرف روانہ ہو ‘ یعنی مصر کے سامنے ہے ‘ اگر تم ایک خط مستقیم وہاں سے اسیریا تک کھینچو‘‘۔
چہارم:: قاضی محمد سلیمان سلمان (رحمتہ اللعالمین ۔۲۔۵۴) لکھتے ہیں کہ تورات میں ہے کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے بارہ فرزند تھے ۔۔۔۔۔وہ اپنی اپنی امتوں کے بارہ رئیس تھے ‘ یہ بھی ہے کہ ان کی بستیوں اور قلعوں کے نام بھی ان ہی کے نام پر ہیں ۔ ہم یہ یقین کرتے ہیں کہ جب یہ الفاظ لکھے گئے تھے اس وقت ابنائے اسمٰعیل ؑکی بستیاں اور قلعے ان ہی کے نام سے زیادہ مشہور اور زبان زد عام تھے ۔۔ وہ سب عرب کے اندر ہی وا قع ہیں اور اس طرح تورات کے اس فقرہ سے کہ ’’ اسمٰعیل علیہ السلام فاران کے بیابان میں رہا ‘ ان کے مقامات کی صحت ہو جاتی ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ فاران عرب میں واقع ہے اور مکہ ہی کے پہاڑ کا نام ہے۔
پنجم: امام بیہقی لکھتے ہیں ’’ رب آیا سینا سے اور اس نے ان کے لیے آگ اٹھائی اور وہ کوہ فاران سے بلند ہوا اور وہ دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے دائیں ہاتھ سے ان کے لیے شریعت کی آگ نکلی ‘‘۔ اور وہ مزیدکہتے ہیں کہ شواہد سب کے سب کوہ فاران کے مکہ میں موجود ہونے کے بارے خبر دیتے ہیں ‘‘۔ ( اردو ترجمہ دلائل النبوت ۔۱۔۶۷)
تورات میں ہے کہ حضرت ہاجرہ علیہاالسلام نے اسمٰعیل ؑکی شادی مصر میں کی تھی ۔ ممکن ہے کہ کسی مصری عورت سے شادی بھی کی ہو مگر یہ بات مسلمہ ہے اور متحقق ہے کہ حضرت اسمعیلؑ کی اولاد جرہمی عرب بیوی سے ہوئی۔ڈاکٹر نصیر احمد ناصر( پیغمبر اعظم و آخر ۔۲۷۲)بحوالہ محمد حمید اللہ لکھتے ہیں کہ غار حر امیں قرآن مجید جو نور و ہدایت ہے آپﷺ پر نازل ہونا شروع ہوا تھا اس لیے وہ جبل النور کے نا م سے مشہور ہے بائبل میں اس کا ترجمہ فاران آیا ہے ۔ جبل نو ر مکہ معظمہ کے شمال مشرق میں منیٰ و عرفات کی شاہراہ کی بائیں جانب چند فرلانگ کے فاصلے پر واقع ہے ۔
تورات میں اتنی تحریف اور تبدیلی کے بعد بھی آپ ﷺ کا ذکر خیر باقی ہے ۔ ابن ظفر اور ابن قتیبہ نے ’’ اعلام النبوۃ ‘‘ میں تحریر کیا ہے ’’اللہ رب العزت سینا سے تجلی فرمائے گا ، ساعیر ( سعیر ) سے چمکے گا ، وہ فاران کے پہاڑوں سے آشکار ہو گا ‘‘ سینا وہ پہاڑ ہے جس پر رب العزت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام فر مایاتھا ، ساعیروہ پہاڑ ہے جس پر رب تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا تھا اس میں ان کی نبوت کو ظاہر کیا تھا ۔ فاران کے پہاڑ مکہ مکرمہ میں بنو ہاشم کے پہاڑ ہیں ۔ ان میں سے ایک پہاڑ میں حضور ﷺ خلوت گزیں ہوئے تھے اسی میں غار حرا ہے جہاں وحی الہٰی کا آغاز ہوا تھا۔ ابن قتیبہ نے کہا ہے ’’ اس عبارت میں کوئی اشکال نہیں ہے کیونکہ سینا میں رب تعالیٰ کی تجلی سے مراد طور سینا پر حضرت موسیٰ کلیم اللہ پر تورات نازل کرنا ہے ، ساعیر سے ان کا چمکنا سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل نازل کر نا ہے ، اور فاران کے پہاڑوں سے عیاں ہو نے سے مراد حضور ﷺ پر قرآن پاک نازل کرنا ہے ۔ فاران مکہ مکرمہ کے پہاڑوں کا نام ہے اس میں اہل کتاب اور مسلمانوں کے مابین کوئی اختلاف نہیں اگر ان میں سے کسی کو اعتراض ہے کہ فاران مکہ کے پہاڑوں میں سے نہیں ہے تو ہم اسے کہیں گے کیاتورات میں یہ عبارت موجود نہیں ’’ اللہ تعالیٰ نے حضرت حاجرہ و اسمٰعیل علیھم السلام کو فاران میں سکونت دی ، ذرا ہمیں اس پہاڑ کے بارے میں بتائو جس سے رب تعالیٰ کی ذات آشکار ہوئی ہو اور اس کا نام فاران ہو ، اور نبی جس پر کتاب نازل ہوئی ہو ، وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ہوں ، کیا تم ایسے دین کو جانتے ہو جو اسلام کی طرح ظاہر ہوا ہو اور پھر وہ زمین کے مشارق و مغارب میں جا پہنچا ہو ۔‘‘ (السیرت النبویہ زینی دھلانی ۔۲۔۵۵۴)
اہم نکتہ :’’مستشرقین بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ہیں، جس طرح کئی جگہوں اور مقامات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں اور ان کو ان کی اصل جگہ اور مقام پر نہیں رکھتے مثال کے طور پر ایک جگہ یا مقام ملک عرب میں ہے مگر وہ اسے عراق میں بتاتے ہیں ۔ جس طرح پیچھے کوہ فاران کا ذکر ہوا کہ وہ عرب میں ہے مگر غیر مسلم اسے عراق میں بتاتے ہیں اور اس سے وہ یہ نتیجہ اخذ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ واقعات جو کوہ فاران سے منسوب ہیں ان کو غلط ثابت کیا جا سکے ۔ اسی طرح بطحا کے متعلق وہ قیاس آرائیاں کرتے ہیں ‘‘۔ سرولیم میور کا خیال ہے کہ’’ موسیو کوسین‘‘ نے بطحاٰ کو کسی جگہ کا نام تصور کرنے میں غلطی کی ہے۔ ان کے خیال میں وہ سنگریزوں والی سر زمین ہے جس پر مسلمانوں کو اذیت دی جاتی تھی ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سید امیر علی خود اپنے بیان اور موسیو کوسین ڈی پرسیوال کے بیان کی تصدیق میں کہتا ہے کہ میرے لیے صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ بطحا کا موجود ہونا ایک ایسا امر ہے جس کے بارے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مسلم مصنفین نے اکثر بطحا کا ذکر ایک ایسے مقام کی حیثیت سے کیا ہے جو مکہ کے قرب و جوار میں واقع ہے ۔
چو علمت ہست خدمت کن ’ چو بے علما ں کہ زشت آید
گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفت در بطحا
( روح اسلام ۔۱۲۳)
رمضا کی پہاڑی اور بطحا یہ دونوں مقام ان بے رحمانہ ایذا رسانیوں کا محمل بن گئے تھے۔ بلال کو ان کا آقا امیہ بن خلف ہر روز انھیں ٹھیک دوپہر کے وقت بطحا لے جاتا ’ وہاں ان کی پیٹھ ننگی کرکے اور ان کا منہ سورج کی طرف کرکے لٹا دیتا اور ان کے سینے پر بھاری چٹان رکھ کر کہتا ’’ تو اسی حال میں رہے گا جب تک تیری جان نہ نکل جائے یا تو اسلام سے توبہ نہ کرے‘‘۔ بطحا کی موجودگی کے بارے میں شاعروں نے خوب شعر کہے ہیں جس طرح عبدالرحمن جامی بطحا کو شعر میں یوں بیان کرتے ہیں ۔
نسیما جانب بطحا گزر کن
ز احوالم محمدؐ را خبر کن
سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہانے اپنے شوہر کی وفات پر جو اشعار کہے ان میں بھی بطحا کا ذکر ہے ۔ ان کا ترجمہ یہ ہے ۔ ’’ ہاشم کا ایک فرزند بطحا کی جانب جا کر چھپ گیا ’ وہ لحد میں بہادروں کی بانگ وخروش کے ساتھ جا سویا ۔ موت نے اسے پکارا اور وہ چلا گیا’ افسوس کہ موت نے اس کا نظیر بھی دنیا میں نہیں چھوڑا۔ اس کے دوست شام کے وقت اس کی لاش اٹھا لے چلے اور ازراہ محبت وہ نوبت بہ نوبت کاندھا بدلتے اور اس کے اوصاف باری باری بیان کرتے تھے خواہ موت نے اسے ہم سے دور ہی کر دیا مگر اس میں تو شک نہیں کہ وہ بہت سخی اور غریبوں کا بہت زیادہ ہمدرد تھا ۔ ( رحمت اللعالمین ۔۲۔۹۵)
بابُ الصلوۃ بذی الحلیفہ( ذوا لحلیفہ میں نماز پڑھنا) کے باب میں ہے کہ بطحا چار ہیں ۔ بطحا مکہ ۲ بطحا ذی قار۳ بطحا ازہر ۴ بطحا ذوالحلیفہ۔ مذکور باب کی حدیث میں بطحا کو ذو الحلیفہ سے مقید کیا ’ بعض غزوات میں آپﷺ نے بطحا ازہر میں آرام فرمایا’ وہاں مسجد بھی ہے۔اور بطحا ذوالحلیفہ کو اہل مدینہ معرّس کہتے ہیں ۔مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف جاتے ہوئے آپ ﷺ آرام فرمایا کرتے تھے اور ظاہر بھی یہی ہے کیونکہ آپ کو خواب میں یہ دکھایا گیا اور کہا گیا کہ بطحا مبارکہ ہے ۔ اس لیے آپ وہاں بطور تبرک نماز پڑھا کرتے تھے اور مکہ سے مدینہ کی طرف جاتے ہوئے یہاں آخر رات کو آرام فرمایا کرتے تھے تاکہ صبح مدینہ منورہ جلدی تشریف لے جائیں ۔( تفہیم البخاری ۔۲۔۵۷۲) تفہیم البخاری کی عبارت اور سیدہ آمنہ کے اشعار سے ثابت ہوتا ہے کہ بطحا مدینہ منورہ کے قریب ہے ۔ وہ اس طرح کہ بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا کے شوہر نامدار کو دارنابغہ میں دفن کیا گیا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ نے موضع ابوا ء جو مدینہ سے ۲۳ میل کی مسافت پر ہے، رحلت فرمائی اور وہیں مدفون ہوئے ۔( خاتم النبین ۔۱۱۳) ۔ گویا جائے مدفون بطحا قرار دیا اس کا مطلب ہے کہ مقام مدفون بطحا ذوالحلیفہ ہے ۔ چونکہ بطحا چار ہیں اس لیے مصنفین نے مکہ کے قریب بطحا کا ذکر بھی کیا ہے اور ان چار جگہوں میں بطحا یا تو مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ کے قریب ہے۔ اور موسیو کوسین پرسیوال نے صحیح کہا ہے اور سر ولیم میور کا خیال محض باطل ہے ۔
ذبیح کون ہے اور قربانی کی جگہ کہاں ہے؟؟ یہ دو امور ایسے ہیں جن میں مسلم اور غیر مسلم فریقین کا اختلاف شدید پایا جاتا ہے ۔ یہ امور جس فریق کے حق میں موافق قرار پا جائیں ’ اس کی جزئیات بھی اسی کے مطابق مان لینی چاہییں ۔( ۱) حضرت ابراہیم علیہ السلام ؑکے اہل بیت ( بی بی ہاجرہ اور حضرت اسمٰعیل علیھم السلام) عرب کے شہر مکہ میں آباد ہوئے یا نہیں ؟
(۲) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزندوں حضرت اسمٰعیل ؑ و حضرت اسحق ؑمیں سے کس کی قربانی دی گئی۔؟ یہود کا دعوی ہے کہ حضرت اسحق علیہ السلام ذبیح ہیں اور قربان گاہ شام میں ہے لیکن اس کے برعکس یہ ثابت ہو جائے کہ حضرت اسمٰعیل ؑذبیح ہیں تو قربان گاہ سے متعلق عرب کی روایتیں تسلیم کرنا پڑیں گی اور ابراہیم ؑ کے اہل بیت کا عرب میں سکونت اختیار کرنا بھی ماننا پڑے گا ’ اس لحاظ سے تاریخی واقعات کے تمام سلسلے باہم مل جائیں گے ۔ مولانا شبلی نعمانی کی تقریر ؛ تورات میں مذکور ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پہلی اولاد حضرت ہاجرہ علیہ السلام کے بطن سے ہوئی جس کا نام اسمٰعیل علیہ السلام رکھا گیا ۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے بعد حضرت سارہ علیہا السلام کے بطن سے حضرت اسحق علیہ السلام پیدا ہوئے۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام جب بڑے ہوئے تو حضرت سارہ نے یہ دیکھ کر کہ وہ حضرت اسحق علیہ السلام کے ساتھ گستاخی کرتے ہیں حضرت ابراہیم سے کہا کہ بی بی ہاجرہ اور اس کے بیٹے کو گھر سے نکال دو۔۔۔۔ تورات یہود کی ذاتی اغراض اور زمانہ کے انقلابات سے سر تا پا مسخ ہو گئی ہے اور خصوصاََ پیغمبر خاتم ﷺکے متعلق جو تصریحات اور تلمیحات تھیں یہود کے دستِ تصرف نے ان کو بالکل برباد کردیا ہے ۔تاہم حقائق کے عناصر اب بھی ہر جگہ موجود ہیں ۔ تورات میں گو تصریحاََـ َـحضرت اسحق علیہ السلام کا ذبیح ہونا لکھا ہے لیکن مطاوی کلام میں اس بات کے قطعی دلائل موجود ہیں کہ وہ ہرگز نہ ذبیح تھے اور نہ ہو سکتے تھے ۔ درج ذیل امور کو پیش ِنظر رکھنا چاہیے۔
۱؛ شریعت سابقہ کی رو سے قربانی صرف اس جانور یا آدمی کی ہو سکتی تھی جو پہلونٹا بچہ ہو ‘ اسی بناء پر ہابیل نے جن مینڈھوں کی قربانی کی تھی ‘ وہ پہلونٹے بچے تھے ۔ خدا نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جہاں لادیوں کے متعلق احکام ہیں ‘ وہاں فرمایا ‘ ترجمہ ’’ کیونکہ بنی اسرائیل میں آدمی اور جانور کا ہر پہلونٹا بچہ میرے لیے ہے ۔
(۲) پہلونٹے بچے کی افضلیت کسی حالت میں زائل نہیں ہو سکتی ۔ تورات میں ہے کہ اگر کسی شخص کی دو بیویاں ہو ں‘ایک محبوبہ دوسری غیر محبوبہ ‘ تو افضلیت اسی اولاد کی ہو گی جو پہلونٹی ہو ‘ گو وہ غیر محبوبہ سے ہو کیونکہ وہ اس کی پہلی قدرت ہے اور اسی کو اولاد اولین ہونے کا حق ہے ۔
(۳) جو اولاد خداکو نذر کر دی جاتی تھی اس کو باپ کا ترکہ نہیں ملتا تھا ‘ تورات میں ہے ’’ تب خدا نے لادی کی اولاد کو اس لیے مخصوص کر لیا کہ خدا کے عہد کا تابوت اٹھائے تاکہ خدا کے آگے کھڑا ہو ، تاکہ وہ خدا کی خدمت کریں اور اس کے نام سے آج تک برکت لیں ۔یہی وجہ ہے کہ لادیوں کو اپنے بھائیوں کے ساتھ کوئی حصہ اور ترکہ نہیں ملا کیونکہ ان کا حصہ خدا ہے ۔‘‘
(۴) جو شخص خدا کی نذر کر دیا جاتا تھا وہ سر کے بال چھوڑ دیتا تھا اور معبد کے پاس جا کر منڈاتا تھا جس طرح آج کل حج کے احرام کھولنے کے وقت بال منڈاتے ہیں ۔تورات میں ہے ’’ اب تو حاملہ ہو گی اور بچہ جنے گی اور اس کے سر پر استرا نہ پھیرا جائے کیونکہ یہ بچہ خدا کی نذر کیا جائے ۔‘‘ (۵)جو شخص خدا کا خادم بنایا جاتا تھا اس کے لیے خدا کے سامنے کا لفظ استعمال کرتے تھے ۔
(۶) حضرت ابراہیم ؑ کو بیٹے کی قربانی کا جو حکم ملا تھا اس میں قید تھی کہ وہ بیٹا قربان کیا جائے جو اکلوتا ہو اور محبوب ہو ۔اب غور کریں ۔۔۔۔
(۱) حضرت اسحق ؑ، حضرت ابراہیم ؑ کے بیٹے حضرت اسمٰعیل ؑکی ولادت کے بعد پیدا ہوئے ‘ اس بناء پر حضرت اسحق ؑ اکلوتے بیٹے نہیں اور چونکہ قربانی کے لیے اکلوتے بیٹے کی شرط ہے اس لیے حضرت اسحق علیہ السلام کی قربانی کا حکم نہیں ہو سکتا تھا۔
(۲) حضرت اسحقؑ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنا تمام ترکہ دیا ‘ بخلاف اس کے حضرت اسٰمٰعیل علیہ السلام اور اس کی والدہ کو پانی کی ایک مشک اور تھوڑا سا کھانے کا سامان دے کر رخصت کیا ۔ یہ اس بات کا قطعی قرینہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑنے حضرت اسحق ؑ علیہ السلام کو قربانی یعنی معبد پر نذر نہیں چڑھایا تھا۔
(۳) حضرت اسمٰعیل ؑ کے خاندان میں مدت تک یہ رسم قائم رہی کہ لوگ سرکے بال نہیں منڈواتے تھے ‘ حج میں احرام کے زمانہ تک جو بال نہیں منڈواتے ‘ یہ اسی سنت اسمٰعیلی کی یادگار ہے ۔
(۴) جو الفاظ قربانی اور نذر کے لیے ملت ابراہیمی میں استعمال کیے جاتے ہیں وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے لیے استعمال کیے نہ کہ حضرت اسحق ؑکے لیے ۔ تورات میں ہے کہ ’’جب خدا نے حضرت ابراہیم ؑکو حضرت اسحق ؑ علیہ السلام کی ولادت کی خوشخبری دی تو حضرت ابراہیمؑ نے کہا ’’ کاش اسمعیل ؑتیرے سامنے زندہ رہتا ‘‘ تورات میں ہے جہاں جہاں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ( سامنے زندہ رہنا ) انہی معنوں میں ہوا ہے ۔ (۵ ) حضرت اسمٰعیلؑ حضرت ابراہیم ؑکی محبوب ترین اولاد تھے۔تورات جو تمام تر حضرت اسحق علیہ السلام کی یک طرفہ داستان ہے ‘ اس میں حضرت اسحق اور حضرت اسمٰعیل علیھم السلام کے جو امتیازی خصائص بیان کیے ہیں ‘ یہ ہیں کہ حضرت اسحق ؑ علیہ السلام خدا کے وعدہ اور عہد کا مظہر ہیں ۔
(ب) حضرت اسمٰعیل ؑ دعوت ابراہیم علیہ السلام ہیں یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور خواہش سے پیدا ہوئے ‘ اس بناء پر خدا نے ان کا نام اسمعیلؑ رکھا کیونکہ اسمٰعیل ؑ دو لفظوں کا مرکب ہے ۔ ’’سمع‘‘ اور ’’ ایل ‘‘ ۔ سمع کے معنی سننے کے ایل کے معنی خدا کے ہیں یعنی خدا نے ان کی دعا سن لی۔ تورات میں ہے کہ خدا نے ابراہیمؑ علیہ السلام سے کہا کہ اسمٰعیل ؑکے بارے میں ’’ میں نے تیری سن لی ‘‘۔ حضرت ابراہیمؑ کو جب خدا نے حضرت اسحق علیہ السلام کی خوشخبری دی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس موقعہ پر حضرت اسمعیل علیہ السلام کو یاد کیا ۔ غرض چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قربانی کا جو حکم ہوا تھا ‘ اس میں قید تھی کہ محبوب ترین بیٹا ہو ‘ اس لیے حضرت اسمعیلؑ ہی ذبیح ہو سکتے ہیں نہ کہ حضرت اسحق ؑ۔( بیٹے سارے محبوب ہوتے ہیں لیکن حضرت اسمعیلؑ کے محبوب ترین ہونے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت ابراہیم ؑ کے ہاں اولاد نہ تھی بارگاہ الہی میں دعا کی ‘ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرما کر حضرت اسمعیلؑ بیٹا عطا فرمایا) ۔ (۶) حضرت اسحق ؑ کی جب خدا نے بشارت دی توساتھ یہ بشارت بھی دی کہ میں اس کی نسل سے ابدی عہد باندھوں گا تورات میں ہے ’’ پھر خدا نے کہا بلکہ تیری بیوی سارہ تیر ے لیے ایک بیٹا جنے گی اور اس کانام اسحقؑ رکھے گا اور میں ابدی عہد اس کی نسل سے قائم کروں گا‘‘۔۔۔۔ حضرت ابراہیمؑ نے بیٹے کو قربان کرنا چاہا تو فرشتے نے ندا دی کہ ہاتھ روک لے ،تو فرشتے نے یہ الفاظ کہے: خدا کہتا ہے کہ چونکہ تو نے ایسا کام کیا ہے اور اپنے اکلوتے بیٹے کو بچا نہیں رکھا ‘ میں تجھ کو برکت دوں گا اور تیری نسل کو آسمان کے ستاروں اور ساحل بحر کی ریتی کی طرح پھیلا دوں گا ‘‘۔ اب غور کیجئے کہ خدا نے جب حضرت اسحق ؑ علیہ السلام کی بشارت کے وقت بھی یہ کہہ دیا کہ میں اس کی نسل قائم رکھوں گا تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ جس وقت تک حضرت اسحق علیہ السلام کی اولاد پیدائش نہیں ہوئی تھی ‘ ان کی قربانی کا حکم ہوتا لیکن حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ذبیح تسلیم کیا جائے تو تمام نصوص منطبق ہو جاتے ہیں ۔حضرت اسمٰعیل ؑ اولاد اکبر تھے ‘ محبوب تر تھے ۔ قربانی کے وقت بالغ یا قریب البلوغ تھے ۔ قربانی سے پہلے ان کی کثرت نسل کی بشارت نہیں دی گئی ۔ تورات میں تصریح ہے کہ چونکہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کرنا چاہا ‘ اس لیے اس بیٹے کی کثرت نسل کی بشارت دی گئی یعنی یہ کثرت نسل اسی قربانی کے صلہ میں تھی۔ اس لیے ذبیح حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہی ہو سکتے ہیں کیونکہ حضرت اسحق ؑ کی تکثیر نسل کا وعدہ تو ان کی ولادت کے وقت ہو چکاتھا جو کسی انعام و صلہ کے معاوضہ میں نہ تھا ۔ ( مولانا شبلی کا بیان ختم ہوا)
البدایہ والنہایہ میں ہے کہ حضرت ابن مسعودؓ کے سامنے کسی نے فخر سے اپنے باپ دادائوں کا نام لیا تو آپ نے فرمایا ’’ قابل فخر باپ دادا تو حضرت یوسف علیہ السلام کے تھے جو یعقوب بن اسحق ؑذبیح اللہ بن ابراہیمؑ خلیل اللہ تھے ۔ عکرمہ ‘ ابن عباس اور خود عباس ‘ علی ‘ سعید بن جبیر ‘ مجاہد ‘ شعبی ‘ بعید بن عمیر ‘ ابو میسرہ ‘ زید بن اسلم ‘ عبداللہ بن شقیق ‘ زہری‘ قاسم بن ابو برزہ ‘ مکحول ‘ عثمان بن ابی حاضر ‘ سدی ‘ حسن ‘ قتادہ ‘ ابو الہذیل ‘ ابن سابط ‘ کعب احبار اور ابن جریر سب حضرت اسحٰق ؑ کو ذبیح مانتے ہیں مگر ابن کثیر لکھتے ہیں کہ صحیح علم تو اللہ ہی کو ہے مگر بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان سب بزرگوں کے استاد کعب احبار ہیں ‘ یہ خلافت فاروقی میں مسلمان ہو ئے تھے اور کبھی کبھی حضرت عمر کو قدیمی کتابوں کی باتیں بتاتے تھے ۔ لوگوں نے اسے رخصت سمجھ کر پھر ان سے ہر ایک کو بات بیان کرنا شروع کر دیا اور صحیح و غلط کی تمیز اٹھ گئی ‘ حق تو یہ ہے کہ اس امت کو اگلی کتابوں کی ایک بات کی بھی حاجت نہیں ۔ ’’بغوی ‘‘نے کچھ اور صحابہ اور تابعین کے نام بتلائے ہیں جنہوں نے کہا کہ ذبیح اللہ حضرت اسحق ؑ ہیں ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ آیا ہے ‘ اگر وہ حدیث صحیح ہوتی تو جھگڑے کا فیصلہ ہو جانا تھا ۔ مگر وہ حدیث صحیح نہیں ہے ۔ اس میں دو، راوی ضعیف ہیں ۔ حسن بن دینار متروک ہیں اور علی بن زید ابن جدعان منکر الحدیث ہیں اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ یہ ہے بھی موقوف ۔
خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے سامنے جب محمد بن قرظی نے یہ فر مایا اور ساتھ ہی اس کی دلیل بھی دی کہ ذبیحہ کا ذکر کرنے کے بعد قرآن مجید میں خلیل اللہ کو حضرت اسحقؑ کے پیدا ہونے کی بشارت کا ذکر ہے اور ساتھ ہی بیان ہے کہ ان کے ہاں بھی لڑکا ہو گا ‘ یعقوب نامی ۔ جب ان کی اور ان کے ہاں لڑکا ہونے کی بشارت دی گئی تھی پھر باوجود ان کے ہاں لڑکا ہونے سے پیشتر ان کے ذبح کرنے کا حکم کیسے دیا جاتا ہے؟ ۔ تو حضرت عمر نے فرمایا : بہت صاف دلیل ہے ‘ میرا ذہن یہاں نہیں پہنچا تھا کہ میں نہیں جانتاتھا کہ ذبیح حضرت اسمعیلؑ ہیں۔ پھر شاہ اسلام نے ایک یہودی عالم سے پوچھا جو مسلمان ہو گئے تھے کہ تم اس بارے میں کیا علم رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ امیر المسلمین سچ تو یہ ہے کہ جن کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا وہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام تھے۔ لیکن چونکہ عرب ان کی اولاد میں سے ہیں تو یہ بزرگی ان کی طرف لوٹتی ہے ۔ اس حسد کے مارے یہودیوں نے اسے بدل دیا اور حضرت اسحق علیہ السلام کا نام لے دیا۔ حضرت عبداللہ نے اپنے والد امام احمد بن حنبل سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا حضرت اسمعیل ؑذبیح اللہ تھے ۔ حضرت علیؓ ’ ابن عمر ’ ابو الطفیل’ سعید بن مسیب’ سعید بن جبیر’ حسن’ مجاہد’ شعبی’ محمد بن کعب ’ ابو ہریرہ ’ابو جعفر محمد بن علی ’ ابو صالح رضی اللہ تعالی عنہم سے بھی یہی مروی ہے ۔ ( تفسیر ابن کثیر سورہ الصا فات)
سلمان منصور پوری ( رحمت اللعالمین۔۲۔۴۹۔۵۰) لکھتے ہیں بات یہ ہے کہ جمہور مسلمانوں کے نزدیک یہی امر زیادہ صحیح اور زیادہ قوی ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ؑتھے۔ سب سے بڑی اور سب سے زیادہ سچی شہادت قرآن مجید کی ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے ’’ وَقَالَ اِ نِّیْ ذَھِبُ اِ لٰی رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ۔۔۔۔۔وََبَشَّرْنٰہُ بِاِسْحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصَّالِحِیْنِo (الصفّٰت ۹۹،۱۱۲،پارہ ۲۳)
ترجمہ: ابراہیم ؑنے کہا میں اپنے خدا کی طرف جاتا ہوں وہی میری رہنمائی کرے گا۔ اے خدا مجھے نیک بیٹا عطا کر ’ تب ہم نے اسے ایک بردبار لڑکے کی بشارت دی پھر ایسا ہوا کہ ابراہیم اس لڑکے کو لے کر مقام سعی پر پہنچا اور اسے سنایا کہ بیٹا ! میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں تو غور کر تیری اس میں کیا رائے ہے۔ ؟بیٹا بولا اے باپ! کر گزر جو تجھے حکم ملا ہے۔ ان شا اللہ مجھے صابر پائے گا جب دونوں نے حکم کے سامنے گردن جھکا دی اور بیٹے کو پیشانی کے بل گرایا تو ہم نے کہہ دیا کہ اے ابراہیم ! تونے اپنا خواب پورا کر دیا’ ہم اس طرح احسان کرنے والوں کو بدلہ دیا کرتے ہیں ۔ بے شک یہ ایک کھلا کھلا امتحان تھا پھر ہم نے بڑی قربانی کو اس کا فدیہ بنایا اور اس قربانی کو پچھلی نسلوں میں باقی رکھا‘ ابراہیم ؑپر سلام!۔ ہم احسان والوں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں اور ابراہیم ہمارے ان بندوں میں سے ہے جو کامل الا عتقادہیں اور ہم نے ابراہیم کو اسحق کی بشارت دی جو صالح نبیوں میں سے ہے ۔‘‘
ان آیات سے وجہ استدلال یہ ہے کہ ان میں دو فرزندوں کی بشارتوں کا دو دفعہ ذکر کیا گیا ہے ۔ اول ایک بردبار لڑکے کی بشارت کا ذکر فرمایا اور اسی ذکر کے ساتھ قربانی کا تمام قصہ بیان کردیا ۔ اس کے ختم ہو جانے کے بعد پھر حضرت اسحقؑ کی بشارت کا ذکر فرمایا ۔اب اگر غلام علیم وہی اسحق ؑہیں تو بشر ناہ باسحق ؑفرمانا اس سارے قصے کے بعد کسی طرح بھی صحیح نہیں رہ سکتا۔ اس کی تائید سورہ حجر اور سورہ ذاریات کی آیات سے بھی ہوتی ہے جن میں حضرت اسحق علیہ السلام کی صفت ’’بغلام علیم ‘‘فرمائی گئی ہے یعنی اسمٰعیل علیہ السلام غلام حلیم تھے اور اسحق غلام علیم تھے۔ اس استدلال کے خاتمہ سے پہلے یہ بھی کہہ دینا ضروری ہے کہ کتاب پیدائش میں جہاں قربانی فرزند کا حکم ہے ’ وہاں یہ بھی ہے کہ اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کر۔ یہ امر تورات سے ثابت ہے کہ حضرت اسحقؑ کی پیدائش حضرت اسمعیل ؑسے تیرہ سال بعد ہوئی تھی ۔ اس لیے یہ ظاہر ہے کہ حضرت اسحق علیہ السلام کو اکلوتا بیٹا نہیں کہہ سکتے جب کہ ان سے بڑا بھائی موجود تھا۔ قرآن مجید میں واقعہ قربانی کے بعد الفاظ ’’ وَبَشَّرْنَاہُ بِاِسْحٰق‘‘ وارد ہوئے ہیں اور ان سے مستنبط ہوتا ہے کہ یہ واقعہ قربانی قبل از ولادت حضرت اسحق علیہ السلا م وقوع میں آچکا تھا کیونکہ اس وقت اسمٰعیل ؑ ہی واحد پسر اپنے باپ کے تھے ’ اس لیے اکلوتے کی صفت ان ہی پر صادق آتی ہے ۔
دوسری وجہ استدلال یہ ہے کہ والصافات کی آیات بالا نے ایک اندرونی شہادت کو بھی پیش کیا ہے یعنی قربانی عظیم کو پچھلی نسلوں میں ہمیشہ کے لیے جاری رکھا جانا ہے ۔فدیہ ذبیح بنایا گیا تھا۔ اب بنو اسمعیل کی قوموں کے حالات اور بنو اسحق کی قوموں کے حالات دنیا کے سامنے ہیں ۔ ہر ایک شخص دیکھ سکتا ہے کہ کس قوم میںذبیح کی یاد گار پانچ ہزار سال سے زائد عرصہ سے لگاتار چلی آ رہی ہے اور کسی قوم میں اس یاد گار کا کوئی نام و نشان بھی کبھی نہیں پایا گیا ہے ۔ ہم اس کے ثبوت میں تورات ہی کا ایک مقام پیش کرتے ہیں ۔ یسعیاہ نبی کی کتاب میں ہے ۔۔۔ اونٹنیاں کثرت سے تجھے آکے چھپا لیں گی ‘ اور مدیان اور عیفاکے اونٹ ‘ وہ سب جو سبا کے ہیں ‘ آئیں گے ‘ وہ سونا اور لوبان لائیں گے اور خدا وند کی بشارت سنائیں گے ۔
قیدار کی ساری بھیڑیں تیرے پاس جمع ہونگی ‘ نبیت کے مینڈھے تیری خدمت میں حاضر ہونگے ‘ وہ میری منظوری کے واسطے میرے مذبح پر چڑھائے جائیں گے اور میں اپنے شوکت کے گھر کو بزرگی دوں گا ‘‘۔
مقام قربانی : تورات میں قربانی گاہ کا جو موقع بتایا گیا ہے وہ ’’ مریا‘‘ ہے ۔ یہودی کہتے ہیں کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں حضرت سیلمان علیہ السلام کا ہیکل تھا۔ عیسائی کہتے ہیں کہ یہ اس جگہ کا نام ہے جہاں حضرت عیسٰی ؑ کو سولی دی گئی ‘ لیکن یورپ کے محققین نے ان دونوں دعووں کی تغلیط کی ہے ۔ سر اسٹانلی لکھتے ہیں ’’ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) صبح کے وقت اپنے خیمہ سے نکل کر اس مقام پر گئے جہاں ان کو خدا نے حکم دیا تھا لیکن یہ ’’موریا‘‘ کا پہاڑ نہیں جیسا یہود کا دعوی ٰہے نہ عیسائیوں کے خیال کے موافق قبر مقدس کے گرجا کے پاس ہے ‘ یہ قیاس تو یہودیوں کے قیاس سے بھی زیادہ بعید ہے اور اس سے بعید مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ جبل عرفات ہے ‘ غالباََ یہ مقام جریزیم کے پہاڑ پر ہے اور وہی قربانی گاہ سے مشابہ مقام ہے ‘‘ ۔ اس سے اتنا تو ثابت ہو اکہ موریا کے تعین میں یہود و نصاری کا دعویٰ غلط ہے اور جہاں تک مسلمانوں کے دعویٰ غلط ہونے کی بات ہے تو اس کی تحقیق درج ذیل ہے ۔ ۔۔۔۔ مورہ کی نسبت تورات میں تصریح ہے ’’ اور مدیانیوں کی فوج شمال کی جانب مورہ کی پہاڑی پر وادی میں تھی ۔ ( مدیان عرب میں واقع ہے ) تمام واقعات اور قرائن سے یہ ثابت ہو جائے گا یہ لفظ مورہ نہیں بلکہ ’’ مروہ ہے ‘‘ جو کہ مکہ معظمہ کی پہاڑی ہے اور جہاں اب سعی کی رسم ادا کی جاتی ہے ۔ عرب کی روایات ‘ قرآن مجید کی تصریح اور احادیث کے تعین میں تمام ایسی چیزیں اس قیاس سے اس قدر مطابق ہوتی جاتی ہیں کہ اس قسم کا تطابق بغیر صحت واقعہ کے ممکن نہیں ‘تفصیل اس کی یہ ہے ۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مروہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ’’ قربان گاہ یہ ہے اور مکہ کی تمام پہاڑیاں اور گھاٹیاں قربان گاہ ہیں ۔ (حوالہ موطا امام مالک )۔ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں قربانی مروہ میں نہیں ہوتی تھی بلکہ منیٰ میں ہوتی تھی جو مکہ سے تین میل پر ہے تاہم آنحضرت ﷺ نے مروہ ہی کو قربانی گاہ فرمایا۔ یہ اسی بناء پر تھا کہ حضرت ابراہیم ؑنے یہیں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی قربانی کرنی چاہی تھی ۔ قرآن مجید میں ہے ’’ ثُمَّ مَحِلُّھاَ اِلیٰ البَیْتِ العَتِیْقِ‘‘۔(الحج ۳۳،پارہ ۱۷) ترجمہ :’’ پھر قربانی کے جانوورں کی جگہ کعبہ ہے‘‘ ۔ ھَدْیًا بَالِِغَ الْکَعْبَۃِ ‘‘(المائدہ ۹۵، پارہ۷) ترجمہ ’’ قربانی وہ جو کہ کعبہ میں پہنچے ‘‘۔ مروہ بالکل کعبہ کے مقابل اور اس کے قریب ہے ۔ ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ قربانی کی اصلی جگہ کعبہ ہے منٰی نہیں ‘ لیکن جب حجاج کی کثرت ہوئی تو کعبہ کے حدود کو منی ٰتک وسعت دے دی گئی ۔ قربانی کے مقام سے متعلق( شبلی کا بیان ختم ہوا ) ۔ پس ان دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ قربانی حضرت اسمعیل ؑکی دی گئی ا ور قربانی کی جگہ بھی کعبہ ہے ۔ یہود اور عیسائیوں کا دعویٰ غلط ہے ۔ قرآن مجید ‘احادیث مبارکہ اور تورات کی عبارات سے ان کا رد ہوتا ہے ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...