Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

نسب نامہ
ARI Id

1689956726155_56117713

Access

Open/Free Access

Pages

۴۴

نسب نامہ
اعتراض نمبر۶
مارگولیس کے درپردہ دوسرا اعتراض کہ آنحضرت ﷺ آل اسمٰعیل ؑسے نہیں تھے ‘ کے بارے اعلانیہ سر ولیم میور نے کہہ دیا کہ ’’ یہ خواہش کہ مذہب اسلام کے پیغمبر ﷺ کو حضرت اسمعیل ( علیہ السلام) کی اولاد سے خیال کیا جائے اور غالباََ یہ خواہش کہ وہ نسل اسمٰعیل سے ثابت کیے جائیں ‘ ان کی حین حیا ت میں پیدا ہوئی تھی o اور اس طرح محمد ﷺ کے ابراہیمی نسل کے نسب نامہ کے ابتدائی سلسلیگھڑے گئے ہیں o اور اسمعیل ؑ اور بنی اسمعیل کے بے شمار قصے نصف یہودی نصف عربی سانچہ میں ڈھالے گئے ہیں‘‘ o ( ضیاالنبی ۔۷۔۱۷۱)
جواب : ارشاد خدا وندی ہے رَبَّناَ وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاََ مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمْ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزکِّیْھِمْ ط( البقرہ ۱۲۹،پارہ۱) ’’ترجمہ : اے ہمارے رب ان میں ایک برگزیدہ رسول انہیں میں سے بھیج تاکہ پڑ ھ کر سنائے انہیں تیری آیتیں اور سکھائے انہیں یہ کتاب اور دانائی اور پاک صاف کر دے انہیں ‘‘۔ خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھاتے وقت باپ بیٹے ( ابراہیم ؑو اسمعیلؑ ) دونوں نے اپنی اولاد کے لیے دعا مانگنے کے بعد ایک رسول کی بعثت کے لیے التجا کی َ۔ دیکھنا یہ کہ اس دعا کا مصداق کون ہے ۔ ’’ وا بعث فیھم رسولا منھم ‘ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’ ھم ‘‘ کی ضمیر کا مرجع امت مسلمہ ہے یا ذریتنا ہے ۔ ھم کی ضمیر کا مرجع کسی تاویل سے اور قرار نہیں دیا جا سکتا ‘ اب ان دو صورتوں میں پہلی صورت یہ ہے کہ امت مسلمہ میں سے جو ہماری اولاد سے ہو ‘ رسول مبعوث فرما ۔ دوسری صورت میں یہ معنی ہو گا کہ ہماری اولاد میں سے ایک رسول بھیج ۔ ہر دو صورتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ و اسمعیلؑ کی اولاد یعنی نسل سے ہو کیونکہ دعا مانگنے والے یہی دو پیغمبر ہیں اور جو حضرت ابراہیم ؑ کی نسل سے ہو‘ لیکن حضرت اسمٰعیل ؑ کی نسل سے نہیں یعنی ( اولاد اسحق )سے ہو وہ اس دعا کا مصداق نہیں ہو سکتا لہٰذا ،اس دعا کے مصداق آنحضرت ﷺ ہیں جو نسل ابراہیم و اسمعیل ؑ سے ہیں۔
قرآن مجید کا یہ فرمان ’’ ومن ذریتنا امۃ مسلمۃ لک ‘‘ ترجمہ : اور ہماری نسل سے ایک امت بھی پیدا کر جو تیری فرمانبردار ہو ‘‘ خیال کیجیے کہ قید ہماری نسل کی لگائی جا رہی ہے یعنی وہ نسل ابراہیمی جو حضرت اسمٰعیل ؑکے واسطہ سے ہو ‘ اس قید سے بنی اسحق خارج ہو گئے ‘ اور امت مسلمہ بنی اسمعیل سے منسوب ہو کر رہ گئی ۔ اب اس کا رسول کون اور کیسا ہو ؟ پڑھیے ’’ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاََ مِّنُھمْ یَتْلُوْآ عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ ‘‘ ( البقرہ ۱۲۹،پارہ۱)ترجمہ :: ہماری نسل سے ایک رسول پیدا فرما اور اسی امت سے رسول بھیج یا ہماری اولاد ( نسل ) سے رسول بھیج گویا ہر دو صورتوں میں آپ ﷺ جو حضرت اسمعیل ؑ کے واسطہ سے ہیں کا ظہور ہوا ۔
ارشاد نبوی صحیح مسلم میں ہے ’’ واثلہ بن الا سقع سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :؛ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمٰعیل ؑکے فرزندوں میں سے کنانہ کو برگزیدہ کیا اور کنانہ سے قریش کو برگزیدہ کیا اور بنی ہاشم کو قریش سے برگزیدہ کیا اور مجھ کو بنی ہاشم سے برگزیدہ کیا ۔
محمد کرم شاہ الازہری ( ضیاالبنی ۷۔۱۸۰) فرماتے ہیں کہ انسائیکلوپیڈیا آف ریلجن اینڈ ایتھکس مقالہ نگار Chronicle of Sebeos ) کہتا ہے کہ حضرت محمدﷺ ایک اسمعیلی تھے جنہوں نے اپنے ہم وطن لوگوں کو یہ تعلیم دی کہ وہ دین ابراہیمی کی طرف رجوع کریں اور ان خدائی وعدوں سے بہرہ یاب ہوں جو نسل اسمٰعیل سے کیے گئے ہیں ۔
مسٹر فاسٹر : اب اس بات کا دیکھنا بھی ہے کہ قدیمی روایتوں کو عربوں کی روایتوں کے ساتھ مقابلہ کرنے سے کیا ثبوت حاصل ہو سکتا ہے ۔کیونکہ یورپ کے نکتہ چینوں کی رائے میں عرب کی ایسی روایات جن کی تائید اور حمایت میں اور کوئی ثبوت نہ ہو ‘ گو کیسے ہی اعتراض کے قابل ہو مگر روایات کی جانچ پڑتال کے قانون مسلمہ ہیں ۔ ان کے مطابق ان پر غو ر کرنے سے اس بات کا انکار نا ممکن ہے کہ روایت مذہبی یا دنیاوی دونوں طرح کی تاریخ کے مطابق ہے ۔اسی طرح خاص عرب کے لوگوں کی یہ قدیمی روایت ہے کہ قیدار اور اس کی اولاد ابتدا میں حجاز میں آباد ہوئی تھی چنانچہ قوم قریش خصوصاََ مکہ کے بادشاہ اور کعبہ کے متولی ہمیشہ سے اس بزرگ قیدار کی نسل اوراولاد سے ہیں۔( حوالہ بالا ۔ ۷۔۱۸۲)
گبن کی رائے : اسلام کے خلاف گبن نہایت زہر آلود جذبات رکھتا ہے آپ ﷺ کے نسب پر شدت سے تنقید کرتا ہے ‘ وہ کہتا ہے کہ ’’محمد ﷺکی اصل کو حقیر اور عامیانہ ثابت کرنے کی کوشش عیسایئوں کی ایک غیر دانشمندانہ تہمت ہے ‘ جس سے ان کے مخالف کا مقام بجائے گھٹنے کے مزید بڑھا ہے ۔ ‘‘عیسائیوں پر دل کا غبار ہلکا کرتا ہے اور انہیں تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے کہ پیغمبر اسلام کی شان گھٹانے کی بجائے بڑھا رہے ہیں ۔ ان کی تہمت بے کار اور بے سود ہے اگر یہ تہمت ان کے سر منڈھ دینا ہی تھی تو اس سے مخالف کا مقام تو نہ بڑھتا ‘ پھر تو بات وزنی اور درست ہوتی پھر تو بات بن جاتی ‘لیکن ایسا ہوا نہیں۔ وہ صاف پیغمبر ﷺکے نسل اسمٰعیل سے ہونے کا اقرار نہیں کر رہا ہے بلکہ وہ تو جل بھن کر کباب ہوا جا رہا ہے اسے تو دکھ ہے اور یہ دکھ اس کے کلیجہ کو کھائے جا رہا ہے کہ عیسائیوں نے آپ کے مرتبہ کوبڑھا دیا ہے بجائے گھٹانے کے ۔ یہی گبن اپنی کتاب ’’ دی ڈیکلائین اینڈ فال آف رومن ایمپائرکے فٹ نوٹ پر لکھتا ہے کہ تھیوفینز جو پرانے زمانے کے یونانیوں ہی سے ہے ‘ وہ تسلیم کرتا ہے کہ حضرت محمد ﷺحضرت اسمٰعیلؑ کی نسل سے تھے ۔ یہی نہیں بلکہ اپنی کتاب کے فٹ نوٹ میں لکھتا ہے کہ ’’ ابوالفدا ‘‘ اور گیگنیئر نے اپنی اپنی کتابوں میں پیغمبر اسلام کا وہ نسب نامہ درج کیا ہے ‘ جو مستند ہے ۔ ( حوالہ بالا )
سانڈر لکھتا ہے کہ ’’ تاریخ عالم کے وسیع تناظر میں ہم اسمٰعیل ؑ کے بیٹوں میں سے حضرت محمد ﷺ کو عظیم ترین یوں ممیز کر سکتے ہیں کہ طویل عرصہ تک ‘ سکندر اعظم کے تسلط کا شکار مشرق نے جس کو یونانیوں نے ایک ہزار سال سے زیر نگین کر رکھا تھا ‘ وہاں سے اس کی بساط لپیٹ دی گئی ۔ ‘‘ گویا سانڈر بھی آپ ﷺ کو اسمٰعیلی نسل سے تسلیم کرتا ہے ۔ ( امہات المومنین اور مستشرقین ۔ ۳۵)
سر سید کہتا ہے۔’’ یہ قیاس کرنا ایک غلط قیاس ہے کہ یہ خواہش آنحضرت ﷺ کی زندگی میں پیدا ہوئی تھی کہ آپ کو اسمٰعیلؑ کی اولاد سے خیال کیاجائے اور غالباََ یہ خواہش کہ وہ نسل اسمٰعیل ؑسے ثابت کیے جائیں ‘ ان کی حین حیات میں پیدا ہوئی تھی درست نہیں ہے ۔ ہمارے علماء نے جب آنحضرت ؐ کا نسب نامہ لکھنا چاہا تو اس کی تحقیقات کیں اور اس کی نسبت جو ان کی رائے اور تحقیقات ہوئیں ‘ بلا کسی تامل کے بلا کسی تردد ‘ بلا کسی پکڑ دھکڑ نہایت سادگی سے لکھ دیں جس سے یہ بات خود ثابت ہوئی کہ مسلمانو ں کے دل میں کبھی اس امر میں شبہ نہ ہوا ‘ ان کو نہ تردد تھا نہ کبھی ان کو اس بات کی فکر تھی اور نہ کبھی چوری و فریب ان کے دل میں تھا اور نہ کبھی اس کے ثبوت کے در پے تھے جس کا قیاس سر ولیم میور نے اپنی رائے میں کیا ہے ۔ پس ان کا قیاس محض غلط ہے ‘ اور مطلق اعتبار کے لائق نہیں ۔
علامہ شبلی نعمانی ( سیرت النبی ۔۱۔۹۱) کہتے ہیں پیغمبر اسلام ﷺ اور خود اسلام کی تاریخ تما م تر اسی اخیر سلسلہ سے وابستہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نسل اسمٰعیل ؑسے ہیں اور جو شریعت آنحضرت ﷺ کو عنائت ہوئی ‘ وہی ہے جو حضرت ابراہیم ؑ کو عطا ہوئی تھی ۔ قرآن مجید میں ہے ’’ مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلِ وَ فِیْ ھٰذَا ‘‘ ( الحج ۷۸،پارہ ۱۷) ترجمہ : تمہارے باپ ابراہیم کا مذہب ‘ اسی نے اس سے پہلے تمہارا نام مسلم رکھا تھا اور اس میں یعنی ( قرآن میں بھی ) ‘‘ ۔ اس آیت مبارکہ میں تصریح ہے کہ آپ ﷺ کے باپ ابراہیم علیہ السلام ہیں یعنی آپﷺ ابراہیم علیہ السلام کی اولاد اسمعیل علیہ السلام سے ہیں ۔ قرآن مجید کی اس سچی شہادت کے ہوتے ہوئے کسی مستشرق کا بیان کوئی وقعت نہیں رکھتا اور نہ ہی کسی مستشر ق کی بات قابل تسلیم ہو سکتی ہے ۔
نسب نامہ کے ابتدائی سلسلے گھڑے ہوئے ہیں ۔ اب اس کی وضاحت کی جاتی ہے ۔
پہلے یہ بیان کر دینا ضروری ہے کہ عرب کچھ ایسی صفات کے مالک تھے کہ شائد ان خوبیوں اور صفات میں ان کا کوئی ہم سر ہو ۔ ان خوبیوں میں ایک خوبی ان کا حافظہ تھا ۔ وہ حافظہ کی دولت سے مالا مال تھے ‘ لا جواب اور بے مثال تھے ۔ اسی قوی حافظہ کی بنیاد پر قبائل نے نہ صرف اپنا شجرہ نسب یاد رکھا بلکہ دوسرے قبائل کا نسب بھی یاد رکھتے تھے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کسی بھی وقت اور کسی بھی موقع پر کسی سے اگر سامنا ہوتا ‘ بڑائی کی بات چل نکلتی تو وہ اپنے آبائو اجداد کے کار ناموں یا اپنی خو بیوں کو بیان کرتے اور دوسروں کی کمزوریوں کو طشت از بام کر دیتے تھے ۔ اپنی بڑائی ظاہر کر کے دوسروں کو زیر کرنے کایہ ایک اہم اور کارگر ہتھیار تھا ۔ ایسی صورت حال میں کسی فرد واحد کے لیے ممکن نہ تھا کہ کسی روایت کو غلط یا توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی جرات کر سکے ۔ یہ باتیں ان کے حافظہ میں موجود تھیں وہ صرف انسانوں کے نسب سے ہی واقف نہ تھے بلکہ وہ جانوروں مثلاََ گھوڑوں کے نام اور ان کے نسب کو بھی اچھی طرح جانتے تھے ۔ جو گھوڑا میدان جنگ میں غیر معمولی شجاعت اور کار کر دگی کا مظاہرہ کرتا اس کے نسب سے وہ پوری طرح واقفیت رکھتے تھے ۔ نیز ہر شاعر کا ایک راویہ ہو اکرتا تھا جو شاعر کی زبان سے نکلنے والے ہر شعر کو یاد کر لیتا تھا ۔ راویہ کو شاعری کی مختلف اصناف ‘ رجز ‘ قصیدہ وغیرہ کے اشعار اس قدر یاد ہوتے تھے جن کا شمار مشکل تھا ۔ اصمعی کہتا ہے کہ ’’بالغ ہونے سے پہلے مجھے اعراب بادیہ کے بارہ ہزار اشعار یاد تھے ‘‘۔ خلیفہ ولید سے حماد نامی راویہ نے کہا کہ وہ کھڑے کھڑے یہاں ایک سو قصیدہ زبانی سنا سکتا ہے اور ہر قصیدہ بیس سے سو شعر پر مشتمل ہو گا ۔ ( سیرت مصطفی جان رحمت ۔ ۱ ۔۱۴۲۔ ۱۴۳)
ہر ایک قوم نہیں بلکہ ہر قبیلہ کا اپنا جدا جدا نام ہو تا تھا ۔ اس ذریعہ سے ایک شخص اپنی قوم اور قبیلہ کو بخوبی جانتا تھا اور اپنے نسب پر بے انتہا فخر کرتا تھا اور جس طرح کہ پرانی قوموں سکندنیوں اور سسٹک کے ہاں گڑ گیٹ ہو تی تھی ‘ اسی طرح عرب قوموں میں بھی ہوتی تھی جن کا لڑائیوں میں مردانہ اشعار پڑھنا اور لڑنے والوں کو ان کے حسب نسب جتلانا جنگی باجے کا کام دیتا تھا ۔ پھر فاسٹر کے حوالہ سے سر سید لکھتے ہیں کہ عربوں کی قدیمی اوضاع اور رسوم اور یادگاروں کی پابندی کو جو ہمیشہ سے زبان زد خاص وعام ہے ‘ تمام دلائل میں سب سے اول رکھنا مناسب ہے کیونکہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ ان کے قومی خاصوں میں سے یہ خاصہ سب سے مقدم ہے ‘‘۔ اس تمہید کے بعد ثابت کرتے ہیں کہ نسب کے ابتدائی سلسلے گھڑے ہوئے نہیں تھے ۔
مصنف (رحمت اللعالمین۔۲۔۲۸ ) کہتے ہیں کہ ’’ علامہ ابن جریر طبری کا بیان ہے کہ مجھ سے بعض نسب دانوں نے بیان کیا کہ عرب میں ایسے علماء بھی ہیں جو معد بن عدنان سے اسمٰعیل علیہ السلامؑ تک ساٹھ پشتوں کے نام لیتے ہیں اور اس کی شہادت میں عرب کے اشعار پیش کرتے ہیں ‘ اس سلسلے کو اہل کتاب سے ملایا تو پشتوں کی تعداد برابرتھی ‘ نیز شہر قدمہ کے یہودی ابو یعقوب نے کہا کہ ارمیا پیغمبر کے منشی نے عدنان کا نسب نامہ لکھا جو میرے پاس موجود ہے ۔ اس شجرہ کی عدنان سے اسمٰعیل علیہ السلام تک ساٹھ پشتیں بنتی ہیں اور اسی سلسلہ نسب سے حضرت محمد ﷺ تھے ‘‘۔
نسب نامہ سے متعلق آرائ: (۱) حضرت محمد ﷺ سے عدنان تک شجرہ نسب کے بارے حافظ ابو عمر یوسف بن عبداللہ المعروف بابن عبدالبر العمری القرطبی کتاب الاستیعاب میں لکھا ہے کہ اس میں کسی کا اختلاف نہیں ۔ ( ۲) عدنان سے اوپر کے شجرہ نسب کو ابن اسحق ‘ ابن جریر اور امام بخاری جائز سمجھتے ہیں ۔
(۳) عدنان سے اوپر کے شجرہ کو ہم نہیں جانتے ‘ ہمارا انتساب عدنان تک صحیح ہے ۔ ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے )
(۴) عدنان تک سلسلہ ء نسب یقینی ہے تاہم عرب میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس فر وگز اشت ( یعنی درمیانی پشتیں چھوڑنے سے واقف تھے ) (۵) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ عدنان اور حضرت اسمٰعیل ؑ کے درمیان تیس اجداد ہیں جن کو کوئی نہیں جانتا ہے ۔
(۶) عرو ہ ا بن زبیرؓ کی روایت ہے کہ ہمیں کسی ایسے شخص کے بارے معلوم نہیں جو عدنان اور اسمٰعیل علیہ السلام کی درمیانی نسبی کڑیوں کو جانتا ہو ۔
(۷) حضرت محمد ﷺ سے صحت کے ساتھ یہ روایت منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عدنان تک انتساب کیا ہے بلکہ ابن عباسؓ کی سند سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب آپ ﷺعدنان تک پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ علمائے انساب کا بیان جھوٹ سے مبرا نہیں ۔
(۸) امام مالک اور علماء کی ایک جماعت نے اس بات کو نا پسند قرار دیا ہے کہ کوئی شخص اپنا نسب حضرت آدم علیہ السلام تک بیان کرے کیونکہ عدنان کے اوپر کے شجرہ نسب کوئی حتمی چیز نہیں ہے جس پر اعتماد کیا جا سکے بلکہ ظنیات کے قبیل سے ہے ۔۔ مزید املا ء ‘ اسماء میں بھی کثیر اختلاف ہے۔ ( نقوش رسول نمبر ۔۱۱۔۱۰) ۔ ابوالفدا لکھتا ہے کہ ’’ نسب آنحضرت ﷺ کا عدنان تک متفق علیہ ہے بغیر اختلاف کے اور اس میں بھی کہ عدنان اولاد اسمعیل ؑ بن ابراہیم ؑ میں سے ہے ‘‘ کچھ اختلاف نہیں ہے لیکن ان پشتوں کی تعداد میں اختلاف ہے جو عدنان اور حضرت اسمٰعیلؑ کے درمیا ن ہیں۔ بعض نے چالیس پشتوں کے قریب شمار کی ہیں اور بعض نے ساٹھ۔اس اختلاف کو ہم پیچھے بیان کر آئے ہیں جسے ہم ڈعف سمجھنے کی غلطی سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔ ان آراء سے ثابت ہوتا ہے کہ عدنان تک نسب صحیح ہے ۔ اس کے اوپر یعنی عدنان سے حضرت اسمٰعیل ؑ تک ‘ میں اختلاف ہے جو املاء ‘ اسماء اور پشتوں وغیرہ کا ہے ۔ لیکن یہ کہیں ذکر نہیں ملتا کہ عدنان کا نسب حضرت اسمٰعیل ؑسے جا کر نہیں ملتا۔ عدنان حضرت محمد ﷺ سے بائیسویں پشت میں ہیں اور کنانہ سے عدنان تک آٹھ پشتیں ہیں عدنان سے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام تک چالیس پشتیں ہیں ۔ پشتوں میں کمی بیشی ہو سکتی ہے مگر آپ ﷺکا اولاد اسمٰعیلؑ سے ہونا قطعی ثابت ہے نیز یہ حدیث بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے ۔ آپ نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمٰعیل ؑ کے فرزندوں میں سے کنانہ کو برگزیدہ کیا اور کنانہ سے قریش کو برگزیدہ کیا اور بنی ہاشم کو قریش سے برگزیدہ کیااور مجھ کو بنی ہاشم سے برگزیدہ کیا۔‘‘ آپ نے اپنا انتساب مذکور حدیث میں کنانہ تک فرمایا جبکہ اوپر مذکورہ حدیث میں آپ ﷺ نے صرف عدنان تک انتساب فرمایا ۔‘‘ ان روایتوں میں تعارض نہیں ‘ آپ نے ایک موقع پر عدنان تک اور کسی اور موقع پر کنانہ تک انتساب فرمایا ہو گا ۔ لہٰذا آپ کا سلسلہء نسب حضرت اسمٰعیل ؑ سے جا ملتا ہے اور مستشرقین کا الزام محض باطل ہے ۔
اہم نکتہ: بعض یہ اعتراض کرتے ہیں کہ عدنان سے آگے نو پشتیں گنوا کر شجرہ نسب حضرت اسمٰعیل ؑ تک جا پہنچتا ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خاص خاص مشاہیر کے نام کو ذکر کر دیا گیا ہے اور یہ طریقہ بنی اسرائیل میں بھی رائج تھا ۔ انجیل متی میں ہے کہ یسوع مسیح ابن داود بن ابراہیم ؑ ‘ یہ ظاہر کرتا ہے کہ متی میں یسوع مسیح ؑاور دائود ؑکے درمیان چھبیس پشتیں اور دائود ؑاور ابراہیم ؑ کی بارہ پشتیں دانستہ طور پر اختصار کے لیے چھوڑ دیں اور مشاہیر کو لے لیا ۔ ( رحمۃاللعالمین۔۲۔۲۲ )
شجرہ نسب کے سلسلے گھڑے ہوئے نہیں ہیں ۔ درمیانی پشتوں کی تعداد کم وبیش ہونے یا اسماء کی املاء میں اختلاف سے یہ کہیں ظاہر نہیں ہوتا کہ آپﷺ ان جلیل القدر پیغمبروں ( ابراہیم واسمٰعیل علیھم السلام ) کے خاندان کے چشم وچراغ نہیں تھے ۔ کنانہ سے اور عدنان سے آپ ﷺ نے انتساب فرما کر تمام اعتراضات کی ‘ جو نسب سے متعلق ہیں ‘ جڑ ہی کاٹ کر رکھ دی ‘ وہ اس طرح کہ کنانہ اور عدنان امجاد بنی اسمعیلؑ سے ہیں اور ان دو بزرگوں تک آپ ﷺ نے انتساب فرمایا جس سے ثابت ہو اکہ آپ ﷺ آل اسمٰعیلؑ سے ہیں ۔ اب مستشرقین کے نہ ماننے کے لیے صرف یہ بچا ہے کہ آپ ﷺ کے ا مجاد عظام ’’ کنانہ ‘‘ اور عدنان کو اسمٰعیل ؑ کی اولاد میں شمار نہ کریں اور خارج کر دیں ۔ ( نعوذ باللہ ) اور ان کا شجرہ کسی اور شاخ سے ثابت کریں مگر ایسا مستشرقین کے لیے ثابت کرنا نا ممکن ہے اب سوائے اس کے ان کے پاس اور چارہ کار نہیں کہ اپنی دشمنی اور تعصب کو چھوڑ کر آنحضرت ﷺ کو حضرت اسمٰعیل ؑ کی اولاد سے تسلیم کر لیں اور خواہ مخواہ بات بات پہ جھگڑا اچھا نہیں اور بال کی کھال نہ اتارا کریں ۔
ان کی روش جدا ہے، ہماری روش جدا
ہم سے تو بات بات پہ جھگڑا کیا نہ جائے
اس سے قطع نظر ہماری نہ مانیں مگر اپنوں کی بات تو مان جائیں ۔ گیبن کہتا ہے کہ آپ ﷺ کا اسمٰعیلی النسل ہونا قومی اعزاز تھا یا افسانہ ؟ لیکن اگر ان کے نسب نامہ کی کڑیاں تاریک اور مشکوک ہوں تو بھی وہ اپنے نسب نامہ کی کئی نسلوں سے ایسے عظیم لوگ پیش کر سکتے ہیں جو حقیقی معنوں میں شریف اور عظیم تھے ،۔انہوں نے قریش کا قبیلہ اور خاندان ہاشم میں جنم لیا تھا ۔ وہ معزز ترین عرب تھے ‘ مکہ کے رئیس تھے اور خانہ کعبہ کے موروثی پاسبان تھے ۔ ہاشم جو مال دار اور سخی تھا ‘ انہوں نے قحط کی سختیوں کو اپنے مال تجارت کے ذریعہ کم کیا تھا ۔ اہل مکہ جسے باپ کی کشادہ دلی نے حالات قحط میں کھانا کھلایا تھا ‘ اس مکہ کو اسی باپ کے بیٹے ( عبدالمطلب ) نے ابرہہ بادشاہ سے اللہ کے حضور دعا مانگ کر بچایا تھا ۔( ضیاالنبی ۔۷۔۲۰۲۔۲۰۳)
میتھیو پیرس کی ہرزہ سرائی : مسلمانوں نے شجرہ نسب کو نہیں گھڑا بلکہ وہ کام میتھیو پیرس نے کر دکھایا۔ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کی دشمنی میں زہر چکانی کرتاہے جو مستشرقین کی عام عادت ہے جبکہ ایسی منسوبیات کسی عام فرد کے لیے بھی نہیں کی جاتیں ۔ اس نے ایک لمبا چوڑ ا سلسلہ نسب فراہم کیا ہے جس کی ابتدا حضرت اسمٰعیل ؑ سے کی ہے ۔ اٹھائیسویں پشت میں حضور کے ہم نام کا ذکر کیا ہے اور پھر ان کی اولاد میں ترتیب وار ‘ عبد شمس ‘ ہومنلا ‘ ابیلاز ‘ الکفان ‘ مورکن ‘ عبدالملب ‘ عبدالرحمن ( یہی عبد مینف بھی کہلاتے ہیں ) کا تذکرہ کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ آخر الذ کر حضور کے والد تھے ۔( مستشرقین کا انداز فکر ۔ ۱۹۲) حدیث میں سعد اور ابو بکرہ دونوں سے روایت ہے ’’ہم نے رسول اللہ ﷺ سے سنا اور دل میں یاد رکھا ، آپ فرماتے تھے جو شخص اپنے باپ کے سوا کسی اور کو باپ بنائے تو اس پر جنت حرام ہے۔(مسلم شریف۔۱۔۱۶۳)
مذکور نسب نامہ کو تاریخی شواہد جو دیگر علماء نے مہیا کیے ہیں ‘ اس کے باطل ہونے میں قطعی دلائل ہیں جو اس کا رد کرتے ہیں اس سے اتنا تو ثابت ہوا کہ دیگر مستشرقین جو آپ ﷺ کو اولاد اسمٰعیل سے نہیں مانتے اس سے ان کا رد کیا ہوتا ہے یعنی میتھیو آپ ﷺ کو اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد مانتا ہے ۔ سر سید ( خطبات احمدیہ ۔۳۴۵) کہتے ہیں کہ برخیا کاتب الوحی کے نسب نامہ کے نیچے الجراد کا نسب نامہ جو اس کا تتمہ ہے ‘ لگا دیتے ہیں جس سے آنحضرت ﷺ کا نسب نامہ حضرت اسمعیل ؑ بن ابراہیم علیہ السلام تک پورا ہو جاتا ہے ۔۔۔ اور ان کی صحت کو تسلیم کیا ہے اس کی وجوہات یہ ہیں ۔ اول یہ کہ حضرت اسمٰعیل ؑ ۲۰۹۴ دنیاوی بمطابق ۱۹۱۰ قبل مسیح پیدا ہوئے ۔ محمد ﷺ دنیاوی بمطابق ۵۸۰ بعد از مسیح پیدا ہوئے تھے ۔ ان دونوں ولادتوں میں ۲۴۹۰ برس کا فرق ہے اور حضرت اسمٰعیل ؑ سے آپ تک اس نسب نامہ میں ستر پشتیں گزرتی ہیں جو ازروئے حساب اس سلسلہ نسب کے جو علی العموم علوم طبیعی کی تحقیقات سے اختیار کیا جاتا ہے ‘ بالکل صحیح ہے یعنی قریب تین پشت کے ایک صدی میں ۔
دوم : بخت نصر نے عربوں پر حملہ کیا تو معد بن عدنان کو اس سے بچا کر ارمیا نبی اور برخیا اپنے ساتھ لے گئے ۔۔۔ ارمیا نبی کا زمانہ سال دنیوی کے حساب سے ۴۵۸۴ سال ہے یعنی چھٹی صدی قبل مسیح میں تھا اور جو نسب نامہ ہم نے صحیح کیا ‘ اس میں بھی نسلوں کا عام سلسلہ بموجب معد بن عدنان بھی اسی زمانہ میں ہوتا ہے جو ایک نہایت قوی دلیل ہے ۔ اس کی صحت کے لیے اور برخیا کاتب الوحی کی تاریخانہ تحریر اور عالم عرب کی مشہور روایات سے عجب طرح مطابقت پائی جاتی ہے ۔ ان دلائل سے ثابت ہوا کہ آپ ﷺ کے نسب نامہ کے ابتدائی سلسلے من گھڑت اور افسانے نہیں ہیں بلکہ میتھیو کا فراہم کردہ نسب نامہ لائق اعتبار نہیں بلکہ یہ اس کی خواہش کبیدہ کا اظہار ہے ۔ مزید کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے نسب نامہ کی نسبت کیا بیہودہ گفتگو عیسائیوں نے کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کو پورا ہوناتھا جو اس نے بنی اسرائیل سے مو سیٰ علیہ السلام کی زبانی کیا کہ ’’ میں تمہارے بھائیوں یعنی بنی اسمٰعیل ؑ میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مانند ایک نبی پیدا کروں گا ۔‘‘ کچھ اسی بات پر کہ بنی اسمٰعیل ؑ کی نسلیں محمد ﷺ سے لے کر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام تک ہم کو کامل ترتیب اور پوری تعداد سے یاد ہو ں اور نہ اس بات پر اس کا انحصار تھا کہ وہ کرسی نامہ عرب کی ملکی روایتوں سے یاد کریں یا یہود کی روایتوں سے یا برخیا کاتب الوحی اور ارمیا نبی کی تحریروں سے ۔ وہ تو حضرت اسمٰعیل ؑ کی اولاد میں سے ایک کے لیے ہونا تھا ۔ وہ محمد ﷺکی نسبت پورا ہوا ۔ تمام عرب اور یہود اور عرب کے قرب و جوار کی تمام قومیں اور تمام اگلے پچھلے مورخ خواہ عرب کے رہنے والے ہوں خواہ کسی اور ملک کے ‘ مسلمان ہو ںیا کسی اور مذہب کے ‘ اس بات میں ذرا بھی فرق نہیں رکھتے بلکہ بالکل تسلیم کرتے ہیں کہ محمد ﷺ بنی ہاشم قریش حضرت اسمٰعیل ؑبن ابراہیمؑ کی اولاد میں سے ہیں ۔ محمد ﷺ نے قریش کو پکار کر مخاطب کیا کہ ’’ ابیکم ابراہیم ‘‘ جس کو سب نے تسلیم کیا اور کون ایسا شخص ہے کہ جس میں اس قدر جرا ت ہو کہ وہ سچ بات کو تسلیم نہ کرے ۔‘‘ ( خطبات احمدیہ ۔۳۴۹)
بقیہ اعتراض نمبر ۶کا تیسرا جز ’’ اور بنی اسرائیل کے بے شمار قصے نصف یہودی اور نصف عربی سانچہ میں ڈھالے گئے ہیں ‘ کو زیر بحث لاتے ہیں کیونکہ مستشرقین کو ہر شے من گھڑت یا بنی اسرائیل کے قصے معلوم ہوتے ہیں جو عربی سانچہ میں ڈھالے گئے ہیں ۔
جواب : عرب کے قدیم رہنے والوں نے اپنی جبلی عادت کے موافق اپنی اصلی روایتوں میں کوئی نئی روایت اضافہ نہیں کی تھی اور تمام غیر قوموں سے بالکل علیحدہ رہے تھے ‘ یہاں تک کہ جب حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اور ان کے ہم راہی یہاں آکر آباد ہوئے تھے ‘ تو قدیمی عرب ان کو نظر حقارت سے دیکھتے تھے اور ذلیل لقب ’’ مستعربہ ‘‘ سے ان کو ملقب کیا تھا ۔ آنحضرت ﷺ کی بعثت سے پہلے بنی اسرائیل اور خصوصاََ اہل عرب ‘ بنی اسمٰعیل کو ہمیشہ دو مختلف قومیں سمجھتے تھے اور قدیم عرب نے اپنی قدیمی روایتوں کا ان سے تبادلہ نہیں کیا تھا اور بنی اسرائیل کے پاس عرب قوموں اور عرب انبیاء کی نسبت زبانی خواہ تحریری کوئی روایت نہ تھی ۔ آنحضرت ﷺ نے جب یہ بات فرمائی کہ جمیع انبیاء بنی اسرائیل بر حق ہیں’ ان پر ایمان لانا چاہیے ‘ اس وقت بنی اسرائیل کی اور ان کے نبیوں کی روایتیں اور قصے عرب کی روایتوں اور قصوں میں مخلوط ہو گئے لیکن بنی اسرائیل کے ہاں عرب کی کچھ روایتیں نہیں تھیں ’ اس وجہ سے عرب کی روایتیں بجائے خود بجنسیہ برقرار رہیں ‘ ۔ ( خطبات احمدیہ۔۲۶)
اعتراض نمبر ۷
’’ انساب کے بارے میں ابن سعد کی روایتیں من گھڑت ہیں ‘ افسانے ہیں ۔ اس کا استدلال یوں ہے کہ ہم آپ تو ایک دو پیڑھیوں سے زیادہ اپنے آباواجداد کے نام تک سے واقف نہیں ہوتے ‘ پھر عربوں کو اپنے انساب کی ایسی کیا ضرورت تھی ؟ (واٹ علوم اسلامیہ۔۱۰۲)
جواب : ڈاکٹر محمد ثناء اللہ ندوی ( علوم اسلامیہ اور مستشرقین ۔ ۱۰۲ ) لکھتے ہیں کہ شائد منٹگمری واٹ کو ’’جان وان‘‘ کے اس واقعہ کا علم نہ تھا ‘ اس کی ملاقات ایک ایسے بچے سے ہوئی جس کو پندرہ پشت تک اپنے آباو اجداد کے نام ازبر تھے ۔
دوم : ابن سعد کی روا یتوں کو من گھڑت اور افسانے کہنے والا ایسی دلیل پیش کرتا ہے کہ بایں عقل و دانش ببا ید گریست ‘‘ اگر واٹ صاحب اپنے اسلاف کی ایک دو پشتوں کے نام سے زیادہ یاد رکھنے سے قاصر ہیں تو اس میں کس کا قصور ہے ؟ ہر فرد کا نسب تو ہوتا ہے اگر وہ یاد کرنے میں ناکام رہے ‘ وجہ خواہ کوئی بھی ہو تو اس میں دوسروں کا کیا قصور ؟ اگر وہ اپنے حافظہ کی کمزوری کے باعث یاد نہیں کر سکا تو اسے اپنے حافظہ پر نوحہ کناں ہونا چاہیے نہ کہ دوسروں کے نسب ناموں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی جرات کرنی چاہیے اور نہ ہی انہیں من گھڑت روایتیں اور افسانے کہنا چاہیے ۔ در اصل’’ واٹ‘‘ نے اپنی ایک دو پشتوں کے نام کو یاد رکھنے کا بہانہ بنایا ہے اور حقیقت کو بیان کرنا گول کر گئے ہیں وہ یہ ہے کہ واٹ کے معاشرہ کی زبوں حالی اور اخلاقی گراوٹ جس میں شرم و حیا نام کی کوئی شے نہیں ‘ عزت لٹنے کو عار نہیں سمجھا جاتا تھا اور دن رات جنسی اختلاط کی آزادی کے سبب اکثریت نہیں جانتی کہ اپنے نسب کو کس سے منسوب کرے ۔ بایں سبب وہ اپنے نسب ناموں کو یا د نہیں کر تے حالانکہ اس کے بر عکس زمانہ جہالت میں لوگ اس قدر غیرت مند تھے ‘ اگرچہ یہ ان کا زعم خویش تھا اور وہ اسے بہت بڑا گناہ نہیں سمجھتے تھے اور اپنی لڑکیوں کو قبر میں زندہ دفن کر دیتے تھے کیونکہ کسی کے ہاں جانے سے یا بیاہنے سے اپنے نام کو بٹہ لگنا تصور کرتے تھے ۔ اس کے باوجود وہ اپنی ناموری کو جتانے کے لیے اپنی روایات کو یاد رکھتے تھے جن میں شجرہ کو یاد کرنے کی ایک روایت چلی آ رہی تھی۔ زندہ قومیں اور با غیرت سپوت اپنے نسب کو بیان کرنے سے نہیں کتراتے بلکہ اپنے نسب کے متعلق دریافت کر کے اپنے معاشرہ میں گردن تان کر چلتے ہیں مغربی معاشرہ میں جنسی اختلاط کی آزادی سے ان کے ہاں خاندانی نظام کا تار و پود بکھر چکا ہے ۔ وہ نکاح پر زنا کو ترجیح دیتے ہیں حیوانات کی طرح نسبت پدری سے آزاد بلکہ محروم ہیں۔ اکثریت کو اپنے باپ کا نام ہی معلوم نہیں ، اسی لیے پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات میں صرف ماں کا نام پوچھا جاتا ہے اور ان کا نسب ماں سے چلتا ہے جبکہ پیغمبراسلام ﷺ نے فرمایا ؛ ’’ بے شک تمہیں قیامت کے دن تمہارے اپنے باپوں کے نام سے پکارا جائے گا ‘‘ ۔ ماں ، بہن ، بیوی اور بیٹی کی حیثیت سے نسوانیت کے تقدس کی ردائے عصمت کو تار تار کر کے اسلام مخالفین نے اسے مساوات اور آزادی کے پر فریب نعرے میں ایک کھلونا بنا رکھا ہے ۔ وہ صبح سے شام تک کام میں جوتی رہتی ہے ۔ ایک مصری ادیب ’’ لطفی منفلوطی ‘‘ نے ایک نہایت اخلاق سے معمور معنی خیز جملہ لکھا : مغربی سماج کہتا ہے ، جس سے محبت ہو جائے اسی سے شادی کرو اور اسلام کہتا ہے ، جس سے شادی ہو جائے اسی سے محبت کرو یعنی عورت کی عفت و پاکدامنی اور حیا شوہر کی اور مرد کی محبت عورت کی امانت ہے ۔ جنس نازک کی محبت ، ضمیر اور آزادی کو خرید کر اسے بازاری جنس اور شمع محفل بنا چھوڑا ہے ۔ اس اخلاقی گراوٹ کے باوجود اسلام مخالف پھر بھی عورت کی آزادی کے داعی ہیں جنہوں نے اس کی آزادی ، اس کے مقام اور اس کی قدر و قیمت کو مٹی میں ملا دیا ہے ۔
سوم : کوئی من چلا کہہ دے کہ نسب ناموں کی اتنی پشتوں کے ناموں کو حفظ کرنا محال ہے تو اسے جاننا چاہیے کہ حفظ اور تحریر ایسے دو اہم اور معتبر ذرائع ہیں جن سے ماضی و حال کے ریکارڈ کو محفوظ بنایا جاتا ہے ۔ نسب ناموں سے متعلق دونوں اہم ذریعے موجود ہیں جن سے من گھڑت ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ حفظ پر اعتراض کرنے والوں کے لیے یہ معتبر سند پیش کی جاتی ہے کہ موجودہ زمانے میں بے شمار طلباء دنیا بھر میں موجود ہیں جنہیں پورے کا پورا قرآن مجید یاداور حفظ ہے ۔ تو کیا نسب نامہ کی ساٹھ یا ستر پشتوں کو یاد رکھنا جوئے شیر بہا لانا ہے ؟ جبکہ قرآن مجید جیسی عظیم و ضخیم کتاب کو حفظ کرنے کے مقابلہ میں نسب نامہ کی ساٹھ ستر پشتوں کو یاد کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ عرب اور ہمارے اسلاف حافظہ کی قوت سے مالا مال تھے اور انہوں نے اس سے خوب کام لیا ۔ اس سلسلے میں چندایک مثالیں پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے امام اعظم ؒکی ’’ کتاب الاوسط ‘‘ ایک رات میں حفظ کر لی تھی ۔(اسلام کے محافظ۔۱۶۴) امام بخاری کو چھ لاکھ حدیثیں یاد تھیں ۔ اندلس کے ایک نابینا ادیب کو اغانی کی بیس جلدیں نوک زبان تھیں ۔ امام ابو زرعہ کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل کو دس لاکھ احادیث یاد تھیں ۔ یحیی ٰ بن معین کہتے ہیں کہ میں نے دس لاکھ احادیث اپنے ہاتھ سے لکھی ہیں ۔ امام احمد فرماتے ہیں کہ ابو زرعہ کو سات لاکھ حدیثیں یاد تھیں ۔
(۱) واٹ کا کہنا کہ عربوں کو اپنے انساب کو یاد کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ سر سید کہتے ہیں جس طرح کہ پرانی قوموں سکندنیوں اور سسٹک کے گڑگیٹ ہوتے تھے ‘ اسی طرح عرب کی قوموں میں بھی ہوتی تھی جن کا لڑائیوں میں مردانہ اشعار پڑھنا اور لڑنے والوں کو ان کے نسب کا جتلانا جنگی باجے کا کام دیتا تھا ۔
(۲) اپنی برتری جتانے اور دوسروں کے نسب پر کڑی نظر رکھتے تاکہ کوئی شخص کسی کے نسب میں اپنا شمار نہ کر لے‘ کے لیے نسب کو یاد رکھنا ضروری سمجھتے تھے ۔
(۳) پیغمبر اسلام ﷺ کو اپنا نسب کنانہ اور عدنان تک یاد تھا آپ کے عمل کی پیروی کرتے ہوئے نسب کا یاد کرنا اور محفوظ رکھنا سنت نبوی کی اتباع ہے ۔یہ تو مسلمانوں کے لیے ہے دوسروں کو اس سے کیا غرض ۔
(۴) عدالت میں مدعی اور مدعا علیہ کے کم از کم باپ کا نام لکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ حافظ عینی لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا نسب بھی ایک دو پشت تک یاد رکھنا فرض ہے ۔( ترجمان السنہ۔ ۳۔۵۹۸۔۵۹۹)
اہم نکتہ :سر ولیم میورکہتا ہے کہ یہ روایت معد اور ارمیا نبی کی صحیح معلوم نہیں ہوتی، اس لیے کہ آنحضرت ﷺ اور عدنان میں اٹھارہ پشتیں ہیں اور نسلوں کے صحیح حساب سے عدنان کی پیدائش ۲۳۰ق۔م سے پہلے کی نہیں ہو سکتی حالانکہ بخت نصر کے حملوں کا زمانہ ۵۷۰ ق۔م میں پایا جاتا ہے۔
جواب: سر ولیم میور کو ناموں کے متحد ہونے میں شبہ پڑا ہے۔ عدنان بھی دو ہیں اور معد بھی دو ہیں ’ ایک وہ ہیں جو برخیا کاتب الوحی کے شجرہ میں ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو الجراد کے نسب نامہ میں ہیں۔پس وہ روایت نسبت پہلے معد بن عدنان کی ہے ۔ سر ولیم میور نے دوسرے معد بن عدنان کی نسبت وہ روایت تصور کی ہے ۔ عک بلاشبہ معد کا بھائی تھا مگر اس سے پہلے معد کا ’ نہ کہ دوسرے معد کا ‘ جیسا کہ ولیم میور نے تصور کیا ہے ۔ عرب نے ضلع حضر موت میں جو قلعہ قوم عاد کا از نام حسن الغراب تھا اور جس میں سے ایک کتبہ نکلا ’ جس میں ہود ؑپیغمبر کا ذکر ہے اور اس میں عک کا بھی نام ہے ۔یہ عک اسی پہلے معد کا بھائی معلوم ہوتا ہے۔ ( خطبات احمدیہ۔۳۴۶)
اعتراض نمبر ۸
’’واٹ‘‘ کہتا ہے کہ قرآن مجید کی وہ آیات جو آنحضرت ﷺ کا حضرت ابراہیمؑ سے تعلق ثابت کرتی ہیں وہ مدنی دور کی ہیں ۔ مکہ مکرمہ میں قرآن مجید کا جو حصہ نازل ہوا’ وہ اس سلسلے میں خاموش ہے ۔ اس نے بہت سے مفروضے گھڑے ہیں ۔ درج ذیل عبارت ملاحظہ کیجیے۔
قرآن مجید میں یہودیوں کے خلاف جو باتیں ہیں ’ ان میں دین ابراہیمؑ کے تصور کو خاص اہمیت حاصل ہے ‘یہ ایک ایسا تصور ہے جو مکی قرآن میں نظر نہیں آتا’ اس لیے یہ بات فرض کی جاسکتی ہے کہ یہ تصور عربوں کی قبل از روایات پر مبنی نہیں ہے ۔مکی دور میں پیغمبروں میں سے حضرت موسیٰؑ کو محمدﷺ کو پیش رو کے طور پر حضرت ابراہیمؑ کی نسبت زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ حضرت ابراہیم ؑکی حیثیت صرف یہ ہے کہ وہ بہت سے پیغمبروں میں سے ہیں اور جس قوم میں وہ مبعوث ہوئے تھے اس کا ذکر نہیں ہے ’ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ عربوں کی طرف مبعوث نہیں ہوئے تھے جن کے پاس پہلے کبھی کوئی نبی نہیں آیا تھا۔ اسی طرح حضرت ابراہیم ؑو اسمٰعیل ؑ کے کعبہ کے ساتھ تعلق کا بھی کوئی ذکر نہیں ’ خیال یہ ہے کہ پہلے مسلمانوں کو علم نہ تھا کہ حضرت اسمٰعیلؑ کا حضرت ابراہیمؑ سے کیا تعلق تھا؟ اور وہ اس بات کو بھی نہیں جانتے تھے کہ حضرت اسمٰعیلؑ ؑکا عربوں سے کیا تعلق ہے ؟ مدینہ میں چند یہودیوں کے ساتھ روابط کی وجہ سے ان کو ان چیزوں کا علم ہوا۔ ( ضیا النبی ۔۷۔۱۷۳)
جواب: اس عبارت میں پانچ الزام لگائے گئے ہیں ۔ وہ درج ذیل ہیں ۔
اول: قرآن مجید میں یہود کے خلاف باتوں میں دین ابراہیم ؑکو ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور یہ تصور مکی دور کے قرآن میں نظر نہیں آتا ۔
دومـ: اور یہ تصور عربوں کی قدیم روایات پر مبنی نہیں ہے ۔
سوم: مکی دور میں پیغمبروں میں سے حضرت موسیٰؑ کی حیثیت صرف یہ ہے کہ وہ حضرت محمد ﷺ کے پیش رو تھے اور حضرت ابراہیم ؑ سے زیادہ حیثیت کے حامل تھے۔
چہارم: حضرت ابراہیم ؑ جس قوم میں مبعوث ہوئے اس کا ذکر نہیں ’ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے آپ عربوں کی طرف مبعوث نہیں ہوئے تھے‘ جن کے پاس پہلے کوئی نبی نہیں آیا تھا۔
پنجم: حضرت ابراہیم ؑو اسمٰعیل ؑ کا کعبہ سے تعلق کا کوئی ذکر نہیں ملتا’ نیز مسلمان بھی حضرت ابراہیم ؑ و اسمٰعیل ؑ کے تعلق سے بے خبر تھے اور وہ اس بات سے بھی بے خبر تھے کہ عربوں کا حضرت اسمٰعیل ؑ سے کیا تعلق ہے اور یہ انھیں مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ روابط سے ان چیزوں کا علم ہوا۔
جواب:اول: قرآن مجید کا اسلوب منفرد ہے اور اسے قرآن مجید کا اعجاز کہا جا تاہے اور یہی اعجاز قرآن مجید کو کلام الہٰی اور رسول اللہﷺ پر اللہ کی طرف سے نازل کردہ ثابت کرتا ہے اور یہ دلیل قاطع ہے مثلاََ کام کا اظہار بعد میں ہوتا ہے اور اعلان پہلے کر دیا جاتا ہے ۔ حضرت عیسی ؑ اپنی قوم کو جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ ارشاد خداوندی ہے ۔’’ قاَلَ اِنِّیْ عَبْدُاللّٰہِ اٰتٰآنِیَ الْکِتَابَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّاََ‘‘
ترجمہ ’’ وہ(عیسیٰ ؑ) بولا میں اللہ کا بندہ ہوں مجھے کتاب دی گئی ہے اور مجھے نبی بنایا گیا ہے ‘‘۔
حضرت عیسٰی ؑ پنگھوڑے میں ہیں اور فرماتے ہیں کہ ’’ مجھے کتاب دی گئی ہے ‘‘ حالانکہ اس وقت آپ کو کتاب عطا نہیں کی گئی تھی ۔ چالیس برس بعد آپ کو مقدس کتاب عطا ہوئی وہ ذات بے ہمتا علیم و خبیر ہے اسے علم ہے کہ کس چیز کو پہلے یا بعد بیان کرنا ہے اور کس موقع پر اس کا اظہار کرنا ضروری ہے ۔ حضرت ابراہیمؑ کو جو حیثیت حاصل ہے ، مکی دور کے قرآن میں یہ تصور نظر نہیں آتا تو اس میں کوئی حرج نہیں ‘ مدنی سورتوں میں تو موجود ہے جسے واٹ بھی تسلیم کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مدنی سورتوں میں یہود کی خلاف باتیں مذکور ہیں، ’ تو یہ سو فیصد درست ہے کیونکہ مکہ میں یہودی نہیں تھے۔ مکہ میں مشرکین بستے تھے اور مدینہ یہودیوں کا گڑھ تھا ‘ وہیں پر یہودیوں نے مسلمانوں کی مخالفت کی اور جو جو کیا اس کا اظہار مدنی سورتوں میں ہونا چاہیے تھا اور جو مسلمانوں کو یہودیوں سے برتائو کرنے کا حکم تھا اس کا ذکر بھی مدنی سورتوں میں بیان ہونا چاہیے تھا۔ اگر مکی سورتوں میں یہ تصور نظر نہ آئے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ ان کو مدنی سورتوں میں تفصیل سے بیان کر دیا گیا ہے جس سے سارا نقشہ سامنے آجاتا ہے اور ان کے کرتوتوں سے سب واقف ہوجاتے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ مدنی سورتیں جن میں یہودیوں کے متعلق بیان ہوا’ ان کے رویوں کو مکی اور مدنی سورتوں کی تفریق بیان کرنے سے مانع نہیں ہے ۔ (دوم)حضرت ابراہیمؑ کو حضرت موسیٰؑ سے کم حیثیت دینے کا یہ مطلب ہے کہ واٹ مسلمانوں کو حضرت ابراہیم ؑ سے جو نسبی رشتہ ہے ‘ اس سے عربوں کو لاعلم کہنا چاہتا ہے حالانکہ عرب ان کی اولاد ہیں اور وہ بھلا کیسے ابراہیمؑ کو اہمیت نہ دیتے ہوں گے۔یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ باپ اولاد کے رشتہ کو بیک جنبش قلم قلمزد کرتا ہے ۔ عام آدمی کو اس کے باپ سے رشتہ کے علم نہ ہونے کا نہیں کہہ سکتے مگر یہ صالحین پر گھنا ونا ـ و بے بنیاد اور تاریخی حوالوں سے غلط الزام لگاتا ہے ۔مسلمان تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ پر،فرشتوں پر، کتابوں پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں ۔’’ اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَ مَلَآئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الْیَوْمِ الآْخِرِ وَالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرّٖہٖ مِنَ اللّٰہِ تَعَالیٰ‘‘۔ نیز مسلمان اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی انبیاء کی فضلیت کو بھی مانتے ہیں ارشاد خدا وندی ہے تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَاْ بَعْضُھُمْ عَلٰی بَعْضٍ ( البقرہ ۲۵۳،پارہ ۳) ترجمہ ’’ یہ سب رسول ’ ہم نے فضلیت دی ہے بعض کو بعض پر۔‘‘ مسلمان اس پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ وہ پیغمبروں میں فرق نہیں کرتے ۔ ’’ لَاْ نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ‘‘۔ ( البقرہ ۱۳۶،پارہ۱)ترجمہ ’’ نہیں ہم تفریق کرتے درمیان کسی کے ان میں سے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں ‘‘
دوم:یہ تصور عربوں کی قبل از اسلام روایات پر مبنی نہیں ہے ‘ یہ درست نہیں ہے کیونکہ مسلمانوں کے پاس جو روایات تھیں ‘ وہ عرب روایات تھیں ، وہ یہ بھی جانتے تھے کہ خانہ خدا ان کے آباو اجداد حضرت ابراہیمؑ واسمٰعیل ؑنے تعمیر کیا تھا ۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ قربانی کے لیے حضرت ابراہیم ؑنے اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل ؑکو پیش کیا تھا ۔ وہ اس سے بھی با خبر تھے کہ حج کی تمام عباد تیں ‘ صفا و مروہ کی سعی ہو یا طواف حضرت ابراہیم ؑنے متعارف کروائی تھیں ۔ سر سید کہتے ہیں کہ روایات نہایت معتبر ذریعہ سے ہمارے زمانہ تک پہنچی ہیں ۔ وہ ایسی روایتیں ہیں کہ جن کو تمام قوم نے بلا تامل مان لیا ہے ۔ پھر ہم کس طرح کسی طرف دار عیسائی کے محض بے دلیل بیانات کو صحیح اور معتبر تصور کر سکتے ہیں ۔ ‘‘کعبہ کے اندر دیواروں پر روغنی تصویریں بنائی گئی تھیں ان تصویروں میں حضرت ابراہیم ؑکی تصویر کے علاوہ بی بی مریمؑ کی اپنے بچے عیسیؑ ٰ کے ساتھ تصویر بھی تھی ۔کعبہ میں ابراہیمؑ کی تصویر اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ قبل از اسلام بھی مکہ کے لوگ حضرت ابراہیمؑ کو جانتے تھے اور ان کی تعظیم و تکریم کرتے تھے ۔ ( محمد رسول اللہ ۔ ۲۷۔از ڈاکٹر محمد حمید اللہ ،)
سومــ: ابتدا میں مسلمان حضرت موسیٰ ؑکو حضرت ابراہیم ؑ سے زیادہ اہمیت دیتے تھے ۔ مستشرق دور کی کوڑی لایا ہے یعنی وہ کہنا یہ چاہ رہا ہے کہ مسلمان حضرت موسیٰؑ کو حضرت ابراہیم ؑ کی نسبت زیادہ اہمیت دیتے تھے ۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتا ہے کہ مسلمانوں کو حضرت ابراہیم ؑ سے اپنے نسبی رشتہ کا علم نہ تھا ورنہ وہ فطری طور پر حضرت ابراہیم ؑ کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ یہ غلط ہے کیونکہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے ۔’’ لَاْ نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ‘‘۔‘‘ ترجمہ ’ نہیں ہم تفریق کرتے درمیان کسی کے ان میں سے اور ہم اسی کے فرماںبردار ہیں ۔
چہارم : حضرت ابراہیم ؑ پیغمبروں میں سے تھے اور جس قوم کے لیے مبعوث ہوئے تھے اس کا ذکر نہیں ملتا البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ عربوں کی طرف مبعوث نہیں ہوئے تھے ‘ جن کے پاس کوئی نبی نہیں آیا تھا ۔ ہاں یہ درست ہے کہ وہ پیغمبروں میں سے تھے ۔ یہ بھی درست ہے کہ وہ عرب قوم کے لیے مبعوث نہیں ہوئے تھے ۔البتہ یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ ان کو جس قوم کے لیے بھیجا گیا ‘ اس کا ذکر نہیں ملتا ‘ اس پر تاریخ گوا ہ ہے کہ وہ اپنی قوم جو بابل میں مقیم تھی ‘ کے لیے مبعوث ہوئے تھے ۔ وہ بت پرست قوم تھی ۔ آپ نے اس قوم کو توحید کا پیغام سنایا مگر کوشش بسیار کے با وجود وہ بتوں کی پوجا سے باز نہ آئی ۔ انہوںنے بت پرستی سے منع فرمایا توو ہ برا مان گئے ‘ جس کی پاداش میں ان کو نار نمرود میں کود جانا پڑا آپ توحید کی خاطر آتش نمرودی میں کود پڑے آپ آگ میں صحیح سلامت رہے ۔ آگ آپ کا بال بیکا نہ کر سکی ۔ ان حالات میں آپ نے اپنے ملک کو خیر باد کہا اور توحید کا پیغام دوسری قوموں کو پہنچانے میں مصروف ہو گئے وہ اسی سلسلے میں عرب میں تشریف لائے ۔ واٹ کا یہ کہنا کہ عربوں کے پاس کبھی کوئی نبی نہیں آیا تھا اور اس پر بعض قرآن مجید کی آیات سے استدالال کرتا ہے مثلاََ ’’ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا اُنْذِرَ اٰبَآؤُ ھُمْ فَھُمْ غٰفِلُوْنَ(یسین۶،پارہ ۲۲) ترجمہ ’’ تا کہ آپ ڈرائیں اس قوم کو جن کے باپ دادا کو نہیں ڈرایا گیا ‘ اس لیے وہ غافل ہیں ‘‘۔
سورہ السجدہ میں ہے ترجمہ : بلکہ وہی حق ہے آپ کے رب کی طرف سے تاکہ آپ ڈرائیں اس قوم کو ‘ نہیں آیا جن کے پاس کوئی ڈرانے والا آپ سے پہلے تا کہ وہ ہدایت پائیں ۔اس کا جواب یہ ہے کہ حضر ت اسمٰعیل ؑ کے علاوہ حضرت ہود ؑ ‘ حضرت صالح ؑ اور حضرت شعیبؑ عرب اقوام کی طرف مبعوث ہوئے تھے ۔ ان میں حضرت ہود ؑ قوم عاد کی طرف مبعوث ہوئے جو حضر موت کے شمال میں واقع ہے ۔ ان کی قوم نے کہا ’’ قالوُایا ھود ماجتنا بینہ ومانحن ۔۔۔۔ مومنین ‘‘ (ھود۵۳،پارہ ۱۲ ) ترجمہ ’ بولے اے ہود ! تم کوئی دلیل لے کرہمارے پاس نہیں آئے اور ہم خالی تمہارے کہنے سے اپنے خدائوں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور نہ تیری بات پر یقین لائیں گے ۔ ( حیات محمد ۔۸۸ )
حضرت صالح ؑحجر نامی علاقہ کی قوم کی طرف آئے ‘ یہ علاقہ حجاز اور شام کے درمیان خلیج عقبہ کے اس کنارے پر واقع ہے جو مدین سے ملحق ’’ حجر ‘‘ کنان سے مشہور ہے ۔حضرت صالح ؑکے بعد حضرت شعیب ؑمدین کے پہاڑی علاقوں کے باشندوں کے لیے مبعوث ہوئے ۔ انہوں نے ان لوگوں کو توحید کی تبلیغ کی مگر انہوں نے سنی ان سنی کر دی اور اپنے پیش روئوں عادو ثمودقوموںکی طرح عذاب الہی کا لقمہ بن گئے ۔
کئی انبیائے کرام ؑعرب قوموں کی طرف آئے ‘ان کازمانہ حضرت موسیٰؑ سے پہلے کاہے۔ جب ان پر تورات نازل ہوئی ۔ اس طویل عرصہ میں عربوں کے ہاں کوئی نبی یا رسول مبعوث نہیں ہوا تھا ۔ وہ الہامی روشنی سے محروم ہو چکے تھے جو انہیں حضرت اسمٰعیل ؑ کے طفیل عطا ہوئی تھی ۔ یہ بھی یاد رہے کہ ان آیات سے یہ مطلب نکالنا جن اقوام پر عرب کا لفظ صادق آتا ہے ‘ ان کے پاس آنحضرت ﷺ سے پہلے کوئی نبی یا رسول نہیں آیا تھا جہالت وگمراہی ہے اور تاریخی حقائق سے چشم پوشی ہے ۔ ( ضیاالنبی ۷، ۱۷۸) اس مستشرق نے قرآنی آیات سے استدلال تو کیا مگر وہ قرآنی آیات کیو ں نظر نہ آئیں ‘ جن میں حضرت اسمٰعیل ؑ کی نبوت و رسالت کا ذکر ہے ۔ ارشاد ربانی ہے ’’ وَاذْکُرْ فِیْ الْکِتَابِ اِسْمَاعِیْلَ اِنَّہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَکَانَ رَسُوْلًا النَّبِیًّاo( مریم ۵۴،پارہ۱۶) ترجمہ : اورذکر کر کتاب میں اسمٰعیل ؑ کا ‘ وہ وعدہ کاسچا تھا اوروہ رسول ‘ نبی تھا ‘‘ یہ متفق امرہے کہ حضرت اسمٰعیل ؑعربوں کے لیے مبعوث ہوے تھے ۔
پنجم : ابراہیم ؑو اسمٰعیلؑ کا کعبہ سے تعلق کا ذکر نہیں ملتا ۔وہ اس بات سے بھی بے خبر تھے کہ عربوں کا حضرت اسمٰعیل ؑسے کیا تعلق تھا ؟ اور حضرت ابراہیم ؑ و اسمٰعیلؑ کے آپس کے تعلق سے بے خبر تھے اور خانہ کعبہ سے ان دو پیغمبروں کے تعلق کا کوئی حال معلوم نہیں ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ عرب کے تمام باشندے سامی الاصل ہیں، سام بن نوح کی اولاد ہیں ۔ عرب کو مورخین نے تین جماعتوں میں تقسیم کیا ہے ان میں سے ایک جماعت سام بن نوح کے فرزند قحطان کی اولاد ہے ‘ یہ یمن کے رہنے والے تھے۔ وہاں سے نکل کر عرب بائدہ کی بربادی کے بعد عرب میں پھیل گئے۔ اس کی شاخیں بنی جرہم’ بنی یعرب ’ بنی لخم ’ بنی غسان اور بنی کندہ ہیں ۔ حضرت اسمٰعیلؑ نے بنی جرہم کے سردار مضاض کی بیٹی سے شادی کی اور نابط اور قیدار انہی کے بطن سے تھے ’ جنہوں نے خوب شہرت پائی ۔ وہ عربوں کے جد امجد ہیں ۔ مسلمان عرب بھی انہی میں سے تھے انہیں عربوں اور حضرت اسمٰعیلؑ سے تعلق کی پوری پوری معلومات تھیں۔ عرب جو حافظہ میں بے مثال تھے ’ ان کے تعلق کو یاد نہ رکھ سکے بعید از قیاس ہے ۔ایک گھر خدا کے واسطے بنایا اور بیت اللہ اس کا نام رکھا جسے کعبہ کہتے ہیں ۔ اگر ابراہیمؑ کی رسومات سے نہ تصور کیا جائے تو وہ کون تھا ( یعنی موسیٰؑ) جس نے مقام گبون بیابان میں خدا کا گھر بنایا اور وہ کون تھا ( یعنی دائودؑ) جس سے خرمنگاہ ارنان بیوسی کو خدا کا گھر بنانے کو مول لیا تھا اور پتھر اور لکڑی و لوہاا ور پیتل اس کے بنانے کو جمع کیا گیا ۔اور وہ کون تھا ( یعنی سلیمانؑ) جس نے بعد کو خرمنگاہ و ارنان بیوسی نہایت عالیشان مکان بنایا جس کو خدا کا گھر اور بیت المقدس نام دیا۔ پس کعبہ کی بنا کو اور اس کو خدا کا گھر قرار دینے کو ابراہیمؑ کی طرف منسوب نہ کرنا بلکہ عرب کے بت پرستوں کی رسم بتانا’ نہایت تعجب کی بات ہے ۔ یہ لوگ اپنے آبائو اجداد کے تعمیر کردہ خانہ خدا اور حج کی عبادتوں کو بجا لاتے تھے اور جانتے تھے کہ یہ عبادتیں حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے اہل بیت نے متعارف کروائیں اور وہ کرتے چلے آرہے تھے اور حضرت اسمٰعیل ؑعربوں کو بطور نشانی عطا کیا ۔ اس سے بڑھ کر اور تعلق کیا ہو سکتا ہے؟ ۔ یہ سب کچھ مسلمان جانتے تھے۔ رہا خانہ کعبہ سے ان دو پیغمبروں کا تعلق مستشرق واٹ کو اس کا ذکر نہیں ملتا ۔ اتنا بھولا ہے کہ خود تو قرآنی آیات سے استدلال کرتا ہے اور جن آیات میں خانہ کعبہ کا ذکر کیا گیا ہے ان سے نا آشنائی ظاہر کرتا ہے ۔اسے پچھلے صفحات میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ یہاں صرف اس فرمان خدا وندی پر اکتفا کیا جاتا ہے ارشاد ربانی ہے ۔ ’’رَبَّنَآ اِنّی اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّ یَّتِیْ بِوَادِِ غَیْرِ ذَیْ ذَرْعٍ عِندَ بَیْتِکَ المُحَرَّمِ رَبَّناَ لِیُقِیمُوُ االْصَّلٰوۃِ فَاجْعَلْ اَفئئِدَۃً مِّنَ الناَّسِ تَھْوِیْ اِلَیْھِمْ وَارْزُقْھُمْ مِّن َ الثَّمَرَ آتِ لَعَلَّھُم یَشْکُرُوْنَ o(ابراہیم ۳۷ ،پارہ۱۳)
ترجمہ: اے ہمارے رب میں نے بسا دیا ہے اپنی کچھ اولاد کو اس وادی میں جس میں کھیتی باڑی نہیں ’ تیرے حرمت والے گھر کے پڑوس میں ‘ اے ہمارے رب ! یہ اس لیے ہے کہ وہ نماز قائم کریں‘ پس کردے لوگوں کے دلوں میں کہ وہ شوق و محبت سے ان کی طرف مائل ہوں اور انہیں رزق دے پھلوں سے تاکہ وہ (تیرا) شکر ادا کریں ‘‘۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کرنے والے اور حضرت ابراہیم ؑ اپنے اہل بیت کو عرب میں بسانے والے اور لوگوں کو ان کی طرف مائل ہونے کی دعا کرنے والے کاخانہ کعبہ سے تعلق کا اظہار نہیں تو اور کیا ہے؟۔
مذکورہ تمام باتوں کا علم یہودیوں سے رابطہ کے بعد ہوا۔
اول:اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں اور یہود کی تعلیمات مختلف ہیں تو پھر مسلمانوں نے یہودیوں کے رابطہ سے کس قسم کی معلومات حاصل کیں ۔ مستشرق جانتے ہوئے انجان بن جاتا ہے جبکہ اسے خبر ہے کہ یہودیوں نے کہا کہ حضرت ہاجرہ لونڈی تھیں ۔ حضرت اسمٰعیل ؑلونڈی سے پیدا ہوئے ۔( نعوذ باللہ) جبکہ مسلمان اس بیان کا رد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت ہاجرہ شہزادی تھیں اور حضرت اسمٰعیلؑ حضرت ابراہیمؑ کے پہلونٹے فرزند ہیں اور ہمارے محبوب پیغمبر ہیں ۔صاحب ضیا النبی بحوالہ عبد الماجد دریا آبادی لکھتے ہیں ’’ ان ( حضرت اسمٰعیلؑ کی والدہ حضرت ہاجرہ ایک شہزادی تھیں جن کی رگوں میں شاہی خون گردش کرتا تھا ۔ وہ مصر کے اس فرعون کی بیٹی تھیں جو حاکم وقت تھا یہ خاتون نیکی اور پارسائی کا نمونہ تھیں۔
دوم : یہودیوں نے کہا کہ حضرت ابراہیم ؑنے بیوی اور بیٹے کو گھر سے نکال دیا جب کہ مسلمان کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ نے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے انجام دیا تھا۔
سوم: یہودی کہتے ہیں کہ قربانی اسحق ؑکی ہوئی تھی لیکن مسلمان کہتے ہیں کہ قربانی حضرت ابراہیمؑ نے اپنے پہلونٹے بیٹے حضرت اسمٰعیل ؑکی منیٰ کی وادی میں دی جو حضرت اسمٰعیلؑ کا مسکن تھا ۔ تو کیسے مستشرق کی بات کو مان لیا جائے کہ مسلمانوں کو ان تمام چیزوں کا علم یہودیوں کے ساتھ روابط اور ان کے بتانے سے ہوا؟ مسلمانوں اور یہود کی دینی تعلیمات میں بہت بُعد ہے ۔ اگر دونوں کی دینی تعلیمات ایک طرح ہی کی ہوتیں یعنی جو مسلمان کہتے وہی یہودی بھی کرتے اور کہتے ’ تو کہا جا سکتا تھا کہ یہودیوں کے بتانے اور ان کے ساتھ روابط رکھنے کے سبب سب باتوں کا علم ہوا لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے اور معاملہ سرے سے ہی مختلف ہے۔ ان دونوں کی تعلیمات میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ یہ مفروضہ بے بنیاد ہے ۔ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے فرزند اسمٰعیلؑ کو عرب میں آباد کیا۔ ان کے فرزند کے عربوں کے ساتھ تعلق تھے۔ ۔ابراہیم ؑو اسمٰعیل ؑ’ دونوں پیغمبروں نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اور حج کی رسومات متعارف کرائیں ۔ وہ خانہ کعبہ کے متولی اور پاسبان تھے۔ یہود اور مسلمانوں کی تعلیمات میں فرق تھا تو پھر بھلا یہودیوں کے رابطہ سے عربوں کو حضرت ابراہیم ؑکے تعلق کی معلومات ان سے کیسے حاصل ہو سکتی تھیں ۔ برگزیدہ انبیاء جو انسانیت کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوتے ہیں ۔ان کے خلاف زہر چکانی کرنا جہاں بڑی جرات ہے وہاں اپنے مقدر کو خاک میں ملانے کے مترادف ہے۔

اعتراض نمبر ۹
حضرت ابراہیم ؑ سامی النسل نہیں تھے ۔؟
جواب : عرب قوم کو سامی اقوام یا بنو سام کا ایک جز و سمجھا جاتا ہے اور علمائے انساب کا اس معاملہ میں اختلاف ہے کہ یہ نسلی تقسیم(Racial )ہے یا لسانی (Linguistic (( سیرت النبی اعلان نبوت سے پہلے ۔۲۲)۔
نسلی نظریہ قدیم علماء اور مورخین یہ مانتے ہیں کہ عرب سام کی اولاد ہیں ۔ سام حضرت نوح ؑ کے فرزند تھے۔ اس نسلی نظریہ کے مطابق حضرت نوح ؑکے تین فرزندوں سام ‘حام اور یافث سے انسانی نسل چلی ۔
لسانی نظریہ : جدید علماء کہتے ہیں کہ عرب کے لوگوں کو سامی اس لیے کہتے ہیں کہ سامی زبان بولتے تھے ۔ ماہر لسانیات کے مطابق سامی زبانوں کے خاندان میں عربی سب سے جدید اور ترقی یافتہ زبان ہے ۔ اس خاندان کی مشہور زبانیں ، آشوری ،بیبلونی ،آرامی ،عبرانی، عربی، حبشی ۔ عرب جزیرہ نمائے سامی لوگوں کا اصل وطن تھا اور اس میں سب سے پہلے جنوبی عرب کا ساحلی علاقہ ۔ وہ کنعان ِ ‘ بابل‘حبشہ اور مصر کے ملکوں میں گئے جہاں عظیم تمدنوں کی بنیاد ڈالی ۔ ان کی چار ہجرتوں میں پہلی ہجرت اڑھائی ہزار سال قبل مسیح میں ہوئی اور یہ لوگ مصر ‘فینقیا ‘بابل اور سریا تک پھیل گئے۔ حضرت ابراہیم ؑ کا تعلق بھی سامی نسل سے تھا اور جن اقوام میں وہ تبلیغ کرتے تھے ‘ ان سب کا تعلق اسی نسل سے تھا ۔ آپ سیریا ‘ فلسطین ‘ مصر سے ہوتے ہوئے عرب میں پہنچے ۔
امم سامیہ کی قدیم زبان آرامی تھی اور یہی حضرت ابراہیم ؑ کی تھی ۔ بائدہ ‘ ثمود اور دیگر اقوام سامیہ کی زبان بھی آرامی تھی ۔ کتبات بھی اسی زبان میں لکھے ہوئے ملتے ہیں اور ماہر لسانیات اس زبان کو ابتدائی عربی گردانتے ہیں ۔ سامی زبانوں کو سمجھنے کے لیے دئیے گئے خاکہ کو نگاہ میں رکھنا چاہئے ۔
سامی زبانوں کا حلقہ
بابلی شامی سریانی
کلدانی آرامی عبرانی فنیقی
آرامی
آرامی ثمودی مدیانی نبطی عدیانی سبائی حمیری حبشی
امم سامیہ کی زبانیں مذکرہ خاکہ میں دکھائی گئی ہیں ۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عرب قوم سامی قوم ہے جو حضرت نوح ؑ کے بیٹے سام کی اولاد ہے اس نسلی اعتبار سے وہ سامی کہلائے لہٰذا لسانی نظریہ درست نہیں ہے نیز امم سامیہ کی قدیم زبان آرامی ہے سامی نہیں ہے ۔ جبکہ وہ نسلی اعتبار سے سامی کہلاتے ہیں نہ کہ لسانی اعتبار سے ۔
اہم نکتہ : بعض کہتے ہیں کہ ابراہیمؑ کی آمد سے قبل مکہ کی وادی کے نواح میں بنی جرہم کا جو قبیلہ آباد تھا ۔ وہ قبیلہ قحطانی تھا اور اس کا حضرت ابراہیمؑ سے کوئی نسلی تعلق نہیں تھا ۔ مگر یہ قیاس درست نہیں ہے ۔ قبیلہ بنو جرہم اور حضرت ابراہیمؑ دونوں ایک ہی نسل امم سامیہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ دونوں کے نسلی رشتہ کو سمجھنے کے لیے درج ذیل کے شجرہ نسب کا مطالعہ فرمائیں۔

اعتراض نمبر ۱۰
حضرت اسمٰعیلؑ اور حضرت ہاجرہؑ کا مقام و مرتبہ گھٹانے کے لیے آپ کو لونڈی زادہ اور آپ کی والدہ کو لونڈی کہا۔‘‘( نعوذ باللہ)
جن لوگوں کے گھر میں ہو کوئی حوا کی بیٹی
تہمت کسی مریم پہ لگایا نہیں کرتے
یہود و نصاریٰ حضرت اسمٰعیلؑ و حضرت اسحق ؑ کو حضرت ابراہیم ؑکے فرزند جانتے ہیں ۔ جس طرح یہودی حضرت اسحق ؑکی اولاد حضرت ابراہیم ؑکے نسبی رشتہ پر فخر کر سکتی ہے اسی طرح حضرت اسمٰعیل ؑکی اولاد کو بھی حضرت ابراہیمؑ کے نسبی رشتہ پر فخر کرنے کا حق ہے۔ لیکن یہود و نصاری ٰکو اولاد اسمٰعیلؑ کے اس فخر سے چڑ ہے اور عداوت ہے اور خدا واسطے کا بیر ہے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے کہ یہ بیماری یہود و نصاریٰ کو پل بھر چین لینے نہیں دیتی انہیں گھن لگ گیا ہے اور لامتناہی غم کھا رہے ہیں۔ لہذا انہوں نے الزامات کا رخ حضرت اسمٰعیلؑ اور ان کی والدہ کی طرف موڑ دیا ’ حضرت ابراہیمؑ کی ذات پر اعتراض نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ان پر اعتراض کرنے سے ان پر بھی زد پڑ تی تھی ‘ جس سے ان کی خاندانی عزت و عظمت اور وقار خاک بوس ہو جاتا کیونکہ یہودی بھی حضرت ابراہیمؑ کی اولاد تھے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت اسمٰعیلؑ کی والدہ لونڈی ہیں اور اسمٰعیلؑ لونڈی زادہ ہیں ۔ ( نعوذ با للہ) بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ حضرت اسمٰعیلؑ کی طرح حضرت محمد ﷺ کو بھی اس الزام سے منسوب کیا حضرت ہاجرہ اور حضرت سائرہ کی شان تورات کے درج ذیل اقتباس کو غور سے پڑھئے تو معلوم ہو جائے گی۔
خدا نے درد وغم کو سنا ہاجرہ اور سارہ کے ۱۶۔۱۱
کتاب پیدائش ۱۸۔۱۴
خدا نے نام رکھا ہاجرہ ؑاور سارہؑ کے ۱۶۔۱۱
اسمٰعیلؑ اور اسحقؑ کا ۱۹۔۱۷
خدا نے برکت دی ہاجرہ ؑاور سارہ ؑکے بیٹوں کو ۲۰ ۔ ۱۷،۱۹۔۱۷
خدا ساتھ تھا اسمٰعیلؑ اور اسحقؑ کے ۲۶۔۲۴ ،۲۱۔۲۰
قوموں اور بادشاہوں کا باپ ہو گا اسمٰعیلؑ اور اسحقؑ ۱۷۔۱۶،۲۵۔۱۶
کتاب مقدس میں دونوں فرزندوں کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں ۔ دونوں کو عزت و شرف حاصل ہے مگر یہود و نصاری کا آپ کی شان کو گھٹانے سے کچھ نہیں ہوگاکیونکہ ’’ وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کر ے‘‘ نیز ارشاد ربانی ہے ’’ وتعز من تشاء و تذل من تشائ‘‘ عزت و شرف کا مالک وہی ذات بے ہمتا ہے ۔ کسی کے بس میں نہیں کہ کسی کی عزت کم کر سکے اور اس کے کھاتے میں ذلت ڈال دے۔
اس اعتراض کو وزنی اور صحیح ثابت کرنے کے لیے دعویٰ میں کتاب پیدائش ۔۲۱۔ آیات ۔ ۱۰۔۹ پیش کیںان آیات کا ترجمہ یہ ہے
’’ سارہ دیکھ رہی تھی کہ ہاجرہ کا بیٹا جسے اس نے ابراہیمؑ سے جنم دیا تھا ’ ٹھٹھے مارتا ہے ‘ تب اس نے ابراہیمؑ سے کہنا شروع کیا کہ اس لونڈی اور اس کے بیٹے کو گھر سے نکال دو کیونکہ ایک لونڈی کا بیٹا میرے بیٹے اسحق ؑکے ساتھ وارث نہیں بن سکتا۔ ( ضیا النبی ۔۷۔۱۸۴)
اس اعتراض کی کوئی وقعت نہیں ’ کوئی وزنی دلیل موجود نہیں بلکہ آئے روز یہ مشاہدہ میں آتا ہے کہ ایک سوتن دوسری سوتن کو غصہ میں کیا کیا کہہ دیتی ہے اور کیسی کیسی جلی کٹی سناتی ہے۔ جب کہ وہ باتیں اپنی برتری کے لیے کی جاتی ہیں‘ وہ پائی نہیں جاتیں ۔ اس طرح اگر سارہ نے غصہ میں یہ الفاظ اپنی سوتن کو کہے تو اس سے بھلا کب یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اصل میں لونڈی تھی۔
۲: بائبل میں حضرت ہاجرہ کے آزاد خاتون ہونے اور لونڈی نہ ہونے پر بہت بڑا ثبوت یہ ہے کہ اسرائیلی قانون میںلونڈی کی اولاد کبھی جائداد کی وارث نہیں بن پاتی۔ اگر وہ لونڈی ہوتیں تو حضرت سارہ کو یہ خدشہ نہ ہوتا اور یہ بات ذہن میں نہ کھٹکتی کہ ہاجرہ کا بیٹا اپنے باپ کا وارث ہوگا۔
۳:کتاب پیدائش باب ۲۱آیت ۱۰ میں ہے ’’ اس لیے سارہ نے ابراہیم ؑ کو کہنا شروع کر دیا کہ اس کنیز اور اس کے بیٹے کو گھر سے نکال دو کیونکہ اس کنیز کا بیٹا میرے بیٹے اسحق ؑکے ساتھ وراثت کا حصہ دار نہیں ہو سکتا ہے ‘‘۔ نیز بائبل میں خادمہ کے الفاظ بی بی ہاجرہ کے لیے آئے ہیں ’ لونڈی کے نہیں ضیا النبی۔۷۔۱۸۵ پر ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی اہلیہ سارہ کی کوئی اولاد نہ ہوئی لیکن ان کی ایک مصری خادمہ تھی ‘ جس کا نام ہاجرہؑ تھا ۔کتاب پیدائش باب ۵۔ ۱۲ کے الفاظ یہ ہیں ۔ ترجمہ: یہ تاریخ ہے اسمٰعیلؑ بن ابراہیم ؑکی جنھیں ہاجرہ مصریہ ’سارہ کی خادمہ نے جنم دیا تھا ۔
۴:سینٹ پال کے ایک خط جو انہوں نے گلیتون کو لکھا اس کے باب چار آیت نمبر ۲۲ میں بھی اس نے حضرت ہاجرہ کو خادمہ کہا ہے ۔ اس کے الفاظ یہ ہیں ۔’’ For example it is
written that Abraham acquired two sons, one by the
serventand one by the free woman‘‘
ترجمہ:مثال کے طور پر لکھا ہے کہ ابراہیم ؑکو دو بیٹے عطا ہوئے،ایک خادمہ کے بطن سے اور دوسرا آزاد عورت کے بطن سے‘‘۔.
مذکورہ دونوں عبارتوں میں خادمہ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس میں کسی قسم کا حرج نہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ فرعون نے اپنی پیاری بیٹی کو حضرت سارہ کے حوالے کرتے ہوئے کہا’’ میری بیٹی کا اس گھر میں خادمہ ہو کر رہنا دوسرے گھر میں ملکہ ہو کر رہنے سے بہتر ہے ۔‘‘ فرعون نے اپنی بیٹی انھیں سپرد کر کے اعزاز اور بڑی سعادت سمجھا۔ یہ اعزاز کسی بخت آور کے نصیبوں میں ہو سکتا ہے کہ شوہر نبی ’ بیٹا نبی اور اپنی سوتن کی کوکھ سے پیدا ہونے والے ان کے فرزند اسمٰعیلؑ کا بھائی اسحقؑ نبی ہو ۔ نبیوں کے گھرانے کی خادمہ کی قسمت پر رشک آتا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ ۔۔۔۔
ایںسعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
۴:صحیح بخاری کتاب الٰہیہ میں ہے ’’ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا! ابراہیمؑ و سارہ ؑ ہجرت کر گئے تھے ۔وہاں سارہؑ کو ہاجرہ ؑہبہ میں ملیں اور سارہؑ نے ابراہیم ؑسے آکر کہا کہ خدا نے کافر کو ذلیل کیا اور ہم کو ایک لڑکی خدمت کے لیے دی‘‘۔(تفہیم البخاری۔۵۔۱۹۹) محمد سلیمان سلمان (رحمت اللعالمین۔ ۲۔۴۵) کہتے ہیں کہ ابن سیرین ’ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں اور اس میں ’’ فاخذہ متھا ہاجر‘‘ کے الفاط بیان کیے ہیں ۔
۵: عبرانی زبان میں لونڈی اور غلام کے لیے جو مختلف الفاظ موجود ہیں ’ کیا ان سے حضرت ہاجرہ کا لونڈی ہونا ثابت ہوتا ہے کہ نہیں؟۔
(الف) شیلوث حرب۔۔وہ لونڈی یا غلام جو جنگ میں بطور غنیمت حاصل ہو۔
(ب) مقنت کسف۔۔ وہ لونڈی یا غلام جو زر خرید ہو۔
(ج) یلیدبایث۔۔ وہ لونڈی یا غلام جو لونڈی اور غلام سے پیدا ہوں۔
اوپر ذکر کیے گیے تینوں الفاظ میں کوئی لفظ بھی حضرت ہاجرہ کے لیے استعمال نہیں ہوا ہے ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ حضرت سارہ نے حضرت ہاجرہ کو ’’ امتی ‘‘ کہا ’’ یہ عبرانی لفظ ہے اور عربی زبان میں اَمَتہَ کا معانی ہے جس کا ترجمہ لونڈی بھی ہو سکتا ہے ‘ اس میں حرج نہیں اگر سارہ نے قدرے رنج کی بنیاد پر کہہ دیا تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ واقعی لونڈی تھیں اور اسے حقیقی معنوں کا جامہ پہنایا جائے ۔ سوتنیں ایسے الفاظ کہہ دیتی ہیں جن کا حقیقت سے دور کا واسطہ تک نہیں ہوتا۔
۶:لونڈی ہونا بھی کوئی جرم نہیں اور نہ ہی گناہ ہے ۔ان سے عظیم لوگ پیدا ہوئے ہیں ۔ حضرت یعقوب ؑکی بیوی مسمات ’’ لیاہ‘‘ کی لونڈی زلفہ تھیں جن کے بطن سے حضرت یعقوبؑ کے ’’ جد ‘‘ اور آشر پیدا ہوئے۔حضرت یعقوبؑ کی بیوی راحیل کی باندی کا نام ’’ بلہہ‘‘ ہے اس سے حضرت یعقوبؑ کے ’’ دان ‘‘ اور ’’تفتالی‘‘ دو فرزند ہوئے۔ یہ چاروں فرزند ان بارہ فرزندوں میں سے ہیں جن کو حضر ت یعقوبؑ’ موسیٰؑ ، دائودؑ اور مسیحؑ نے وقتاََ فوقتاََ برکتیں دیں۔ تورات میں ان چاروں کو باقی آٹھ کے مقابلہ میں کم تر نہیں کہا گیا ۔ نہ ہی لونڈی کی اولاد کہا گیا ہے۔
۷:حضرت یعقوبؑ کی بیویاں ان کے ماموں کی بیٹیاں’’ لیاہ‘‘اور ’’راحیل ‘‘ ہیں۔ ان کا آپس میں یوں مکالمہ ہوتا ہے جس میں اپنے لونڈی ہونے کا اقرار کرتی ہیں ۔راحیل اور لیاہ نے جواب میں کہا کہ ہنوز ہمارے باپ کے گھر میں کچھ ہمارا حصہ ہے یا میراث ہے ۔ کیا ہم اس کے آگے بے گانہ نہیں ٹھہریں کہ اس نے تو ہمیں بیچ ڈالا اور ہمارا مال بھی کھا بیٹھا۔( رحمت اللعالمین۔ ۲۔۴۷)یہ وہی خواتین ہیں جن کے موسیٰؑ اور دائود ؑ فرزندان ہیں۔ یہ دونوں خودکو زر خرید ہونے کا اعتراف کرتی ہیں ۔ اہل کتاب کواپنے گھر کی خبر لینی چاہیے۔اپنی لاٹھی اپنی چارپائی کے نیچے تو پھیر لیں ’ اپنے گھر کی خبر نہیں تو اوروں سے کیا لینا دینا‘ یا برتری کے زعم میں لام کاف بکنا فائدہ مند نہیں ہے۔ نیز حضرت اسمٰعیلؑ اور ان کی والدہ کے بارے میں غلط بیانی کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا نہ ہی الزام دھرنے کا کوئی جواز بنتا ہے ۔ چلو اگر مستشرقین خود کو محققین سمجھتے ہیں تو ماخذ اور تاریخی حقائق سے چشم پوشی کرنا انہیں زیب نہیں دیتا۔یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ ہمارا مقصود انبیاء کے تقابل سے قطعاََ نہیں اور نہ ایک کو دوسرے سے برتر گرداننا ہے ۔ جب کہ ہمارے لیے تمام انبیاء معزز و محترم ہیںاور مسلمانوں کا عقیدہ ہے۔ ’’ لَاْ نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ‘‘۔( البقرہ ۱۳۶،پارہ۱)
۸:حضرت یوسف ؑ جنھیں مدیانیوں نے فوطیفار کے ہاتھ بیچا تھا۔کتاب پیدائش کے باب ۳۹ آیت ۷ میں ہے کہ اس کے بعد میں یوں ہوا کہ اس کے آقا کی جورو کی آنکھ یوسفؑ پر لگی’ پھر باب مذکور کی آیات ۲۰۔۱۹ دیکھیں ’’جب اس کے آقا نے ایسی باتیں جو اس کے جورو نے اس سے کہیں کہ تیرے غلام نے مجھ سے یوں کیا تو اس کا غضب اس پر بھڑکا اور یوسفؑ کے آقا نے اس کو پکڑا‘‘۔ یوسفؑ اور فوطیفار کو غلام کہا گیا ہے ۔ ان الفاظ کے کہنے سے واقعی حضرت یوسف ؑغلام نہیں ٹھہرے۔تو یہ بھی درست ہے کہ حضرت سارہؑ کے ساتھ رہنے والی بی بی ہاجرہ ؑ بھی فی الواقعہ لونڈی نہیں بن گئی تھیں ۔
اہم نکتہ: عربی زبان میں ’’ ولید ‘‘ اور ’’ جاریہ‘‘ اور’’ امَتہَ‘‘ کے الفاظ دختر اور لونڈی دونوں کے لیے بولے اور استعمال کیے جاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام لونڈیوں اور لڑکیوں کو انہی الفاظ سے مخاطب کرتا ہے جو لونڈیوں اور دختروں کے لیے اصل لغت میں وضع ہوئے ہیں۔ اس لیے کسی ایسے لفظ کو اگر حضرت ہاجرہ کے لیے استعمال ہوا دیکھیں تو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ اس سے حضرت ہاجرہ کا فی الواقع لونڈی ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ صحیح بخاری کے الفاظ جو آپ ﷺ کی زبان مبارک سے صادر ہوئے’ انہیں یاد رکھنا چاہیے اور وہ الفاظ فا خذ متھا‘‘ کے ہیں ۔خدمت کرنے سے کوئی کسی کا غلام نہیں بن جاتا ہے ۔غور کیجیے کہ حضرت انس بن مالک ؓنے جناب رسول اللہ ﷺ کی دس سال خدمت کی ۔ لیکن کوئی شخص ان کو غلام نہیں کہتا۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی محبت میں چور ہو اور کہہ دے کہ میں تو آقا کا غلام ہوں۔اور جس کو یہ سعادت یعنی آقاﷺ کی غلامی مل جائے تو پھر اور کیا چاہیے ۔
تیری چوکھٹ پہ جھکی جس کی جبیں
ہو گیا اس کے جہاں زیر نگیں
نبی مکرم ﷺکے دادا جان کا اصل نام شیبہ تھا لیکن وہ ساری عمر اپنے چچا مطلب کی شکر گزاری میں خود کو عبد المطلب ہی کہلاتے رہے ’ حتی کہ لقب ان کے نام پر غالب آگیا اور اسی نام سے شہرت دوام پائی۔ کوئی مورخ اور عالم انھیں مطلب کا غلام نہیں کہتا نہ سمجھتا ہے ۔ ہاں البتہ عربی کے بہت بڑے عالم مارگولیس شائد جن کی عقل پر جھاڑو پھر گئی ہے جو انھیں مطلب کا غلام ہی کہتا اور سمجھتا ہے۔واہ بھئی واہ! یہ اس کی علمیت اور عربی دانی کی عظمت کا نقطہ کمال ہے تو پھر اس کی طرف سے دھرے گئے الزامات بھی ایسے عالمانہ قسم کے ہوں گے ۔
آپ ﷺکے ظہور سے قبل یہودی اپنے کاموں کی مطلب برآری کے لیے آپ ﷺکے واسطہ سے دعائیں مانگتے تھے اور اس نبی کی آمد کے منتظر تھے ۔ جب وہ تشریف لائے تو آپ ﷺ کو پیغمبر ماننے سے انکار کر دیا ‘ جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اولاد اسحق ؑسے نہیں تھے اور وہ حضرت اسمٰعیلؑ کے خاندان سے تھے ۔
اعتراض نمبر ۱۱
بنی اسرائیل یہ سمجھتے تھے کہ نبوت خانوادہ ء اسحق ؑ میں بند ہے اور حضرت اسمٰعیل ؑ (نعوذ باللہ) پیغمبر نہیں ہیں ۔
جواب : یہود کے سر پر دھن سوار ہے کہ وہ کسی کو بزعم خویش اپنے سے برتر تو کجا برابر بھی نہیں سمجھتے اور نہ خاطر میں لاتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی برتر اور چہیتی مخلوق ہیں ۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے علاوہ کسی قوم میں نبوت ہو نہیں سکتی ‘ اس وجہ سے انہوں نے جناب اسمٰعیل ؑ کی نبوت سے انکار کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ جناب اسمٰعیل ؑ کی اولاد سے ہونے والے آخری نبی کو بھی پیغمبر تسلیم نہیں کرتے حالانکہ ان کی مقدس اور الہامی کتب میں آپ ﷺ کی علامات اور ایک عنقریب نبی آنے والے کی پیش گوئیاں موجود ہیں ۔ قرآن مجید نے حضرت اسمٰعیل ؑو حضرت اسحق ؑ دونوں کی نبوت کی گواہی دی ۔ ارشاد ربانی ہے’’ وَبَشَّرْ نٰہُ بِاِ سْحٰقً نَّبِیًّا مِّنَ الصَّالِحِیْنَo ترجمہ: اور ہم نے ( ابراہیم ؑ ) کو اسحق ؑکی بشارت دی جو صالح نبیوں میں سے ہے‘‘ ’’ وَاذْکُرْ فِیْ الْکِتَابِ اِسْمَاعِیْلَ اِنَّہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَکَانَ رَسُوْلًا النَّبِیًّاo ‘‘ ترجمہ: ’’ اور ذکر کیجیے کتاب میں اسمٰعیلؑ کو ‘ بے شک وہ وعدہ کے سچے تھے اور رسول (اور )نبی تھے ‘‘۔ ( مریم ۵۴،پارہ۱۶)
قرآن مجید نے الہامی اور سچی کتاب ہونے کا دعوی ٰکیا ’’ ذَالِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ‘‘ اور آج تک اس دعویٰ کی کوئی تردید نہ کر سکا ۔ اب قرآن مجید کی شہادت ہے کہ حضرت ابراہیم ؑکے فرزندان نبی ہیں بلکہ حضرت اسمٰعیل ؑتو رسول بھی ہیں ۔ اب ایک یعنی حضرت اسحق ؑکو نبی ماننا مذکورہ آیت کے تحت اسی وقت درست ہو سکتا ہے جبکہ حضرت اسمٰٗعیلؑ کو بھی نبی و رسول مانا جائے ۔مسلمان تمام انبیاء کو مانتے اور ان کا احترام کرتے ہیں ۔ حضرت اسمٰعیلؑ واسحق ؑدونوں کو پیغمبر ماننا مسلمانوں کے عقیدہ کا جز لا ینفک ہے۔ وہ دونوں کو پیغمبر مانتے ہیں ۔ اس کے برخلاف مخالف ایک کو پیغمبر مانتے ہیں دوسرے کو نہیں ۔ یہ دوغلا پن ہے اور قرآن مجید کے فرمان کی صریحاََ خلاف ورزی ہے ۔ واذکر فی الکتا ب ۔۔۔ رسولا نبیا ‘‘ کے تحت محمد کرم شاہ (ضیاالقرآن۔۳۔۸۸) لکھتے ہیں بنی اسرائیل یہ سمجھتے تھے کہ نبوت خاندان اسحق ؑ میں بند ہے اور حضرت اسمٰعیلؑ پیغمبر نہیں ہیں ۔ حضرت اسمٰعیلؑ کا مذکور آیت میں ذکر فرما کر ان کے زعم باطل کی تردید کی گئی ہے ۔ حضرت اسحق ؑکو صرف نبی کہا گیا ہے اور حضرت اسمٰعیلؑ کو رسول و نبی دونوں صفتوں سے موصوف کیا گیا ہے جس سے ان کے علو مرتبت کا پتہ چلتا ہے ۔ ان کی صفات کمال میں سے صادق الوعد ہونے کی صفت خصوصی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ خدا اور اس کے بندوں کے ساتھ جو وعدہ بھی کیا انہوں نے پورا کیا ۔ سب سے اہم وعدہ وہ تھا جو انہوں ؑنے اپنے والد ماجد سے کیا تھا ۔ ’’یٰاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرْ سَتَجِدُنِیْ اِنْ شَآ ئَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیْنo ‘‘ یعنی مجھے ذبح کرنے کا جو حکم تمہیں بارگاہ خدا وندی سے ملا ہے ‘ اس کی تعمیل کیجیے ۔ میں اپنے ذبح ہونے پر کسی بے صبری کا مظاہرہ نہیں کروں گا اور دنیا جانتی ہے کہ اس مرد پاک باز نے اس وعدہ کو کس صدق و اسقامت سے پورا کیا‘‘ قرآن مجیدنے مستشرقین کے نظریہ کہ حضرت اسمٰعیلؑ پیغمبر نہیں ‘ کا رد کر کے اس کی چولیں ہلادی ہیں لیکن مستشرقین نہ مانوں ‘‘ کی رٹ لگاتے رہیں تو ہماری بلا سے اور انہیں اس سے کچھ فائدہ نہ ہو گا بلکہ پتھر سے سر ٹکرانے کے مترادف ہے۔ دانشمند جانتے ہیں کہ سر ٹکرانے سے سر کا ہی نقصان ہوتا ہے‘ پتھر کا نہیں ۔
اہم نکتہ: ایک فحش روایت بیان کی جاتی ہے کہ نضر کی والدہ برہ بنت ادبن طابخہ سے ان کے باپ کنانہ نے اپنے والد خزیمہ کی وفات کے بعد اس سے شادی کر لی تھی جس سے نضر پیدا ہوئے تھے جیسا کہ جاہلیت میں اہل عرب کا رواج تھا کہ جب کوئی شخص مر جاتا تو اس کا بڑا بیٹا اس زوجہ کا مالک بن جاتا ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔
وَلاَْ تَنْکِحُ امَاْ نَکَحَ اٰباَئُ وْکُمْ مِنَ النِّسَآ ئِ اِلاَّ مَاْ قَدْ سَلَفْ ( النساء ۲۲،پارہ۴) ترجمہ : اور نہ نکاح کرو جن سے نکاح کر چکے تمہارے باپ دادا مگر جو ہو چکا ( اس سے پہلے سو وہ معاف ہے ) مگر یہ فحش خطا ء ہے ۔ ابو عثمان الجاحظ لکھتے ہیں ’’ خزیمہ کے انتقال کے بعد کنانہ نے اپنے باپ کی بیوہ کو اپنی زوجیت میں لے لیا ۔ مگر وہ جلد ہی مر گئی اس سے نہ بیٹا ہوا اور نہ ہی بیٹی ۔ پھر انہوں نے اس کے بھائی کی بیٹی سے نکاح کر لیا ۔ اس کا نام برہ بنت ُمر بن اد بن طابخہ تھا اس سے نضر پیدا ہوا۔ جب لوگوں نے سنا کہ کنانہ نے اپنے باپ کی بیوہ کو زوجیت میں لے لیا ہے تو بہت سے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہو گئی کیونکہ دونوں بیویوں کے نام ایک جیسے تھے اور نسب بھی قریب تھا۔ اہل علم و نسب میں سے ہمارے مشائخ کا یہی موقف ہے ۔ ہم اللہ تعالیٰ کی اس سے پناہ مانگتے ہیں کہ آپ ﷺ کے نسب پاک میں نا پسندیدہ نکاح کا داغ لگائیں ۔ حضور ﷺ نے فرمایا ’’ ابتدا سے لے کر انتہا تک میں اسلامی نکاح کو مطابق ایک پشت سے دوسری پشت میں منتقل ہوتا رہا ‘‘۔ جس شخص نے اس موقف کے علاوہ اور نقطہ نظر اپنایا ‘ اس نے غلطی کی ہے ۔ اس حدیث پاک میں شک کیا ۔ ساری تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے آپ ﷺ کے نسب پاک کو ہر قسم کے عیوب سے پاک رکھا ۔ علامہ دمیری نے جاحظ کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے ’’ اس کے اس بیان سے مجھے جاحظ کی کامیابی کی امید نظر آتی ہے کہ اس کی خطائوں سے پردہ پوشی کی جائے ۔‘‘ حافظ شامی لکھتے ہیں ’’ یہ حق بیانی ان نفائس میں سے ہے جن کی طرف قصد کیا جاتا ہے ۔ اس سے سینوں کو ٹھنڈک نصیب ہوتی ہے ۔ ان کا غیض و غضب ختم ہوتا ہے ۔ شک ختم ہوجاتا ہے اور اس کا شر بجھ جاتا ہے ‘‘۔
علامہ ماوردی نے اپنی تصنیف لطیف اعلام النبوۃ میں لکھا ہے ’’ جب میں نے حضور ﷺ کے نسب پاک میں غور و فکر کیا تو مجھے اس نسب پاک کی طہارت کا یقین ہو گیا ۔ مجھے یقین کامل ہو گیا کہ آپ ﷺ کے نسب پاک میں ایک شخص بھی ردی نہیں بلکہ سارے قائد اور سردار تھے ۔ نسب پاک کی طہارت اور پاکیزگی نبوت کی شروط میں سے ہے ‘‘ ( السیرۃ النبویہ زینی دھلان۔۱۔ ۲۴۔۲۵)
قصی بن کلاب
ان کا اصل نام زید ہے ۔یہ ابھی ماں کی گود میں تھے کہ باپ کا انتقال ہو گیا ۔ انہوں نے ماں کے ہاں پرورش پائی ۔ ان کی ماں نے اپنے شوہر کی وفات کے بعد دوسرا نکاح ربیعہ بن خرام الخدری سے کر لیا تھا ۔زہرہ ان کے بڑے بھائی تھے ان کی آنکھوں کی بینائی جاتی رہی تھی ۔ قصی کی آواز کو باپ کی آواز کے مشابہ پا کر انہوں نے اسے بھائی تسلیم کر لیا اور جائداد کا حصہ بھی دے دیا ۔ قصی کو قصی اس لیے کہتے ہیں کہ وہ وطن سے دور جا پڑے تھے ۔ انہیں مجمع اس لیے کہتے ہیں کہ انہوں نے قبائل قریش کو پھر مکہ میں جمع کیا اور فراہم کرلیا تھا آپ ﷺ کے آباء کرام میں قصی پانچویں ‘ کنانہ چودھویں اور عدنان اکیسویں پشت میں ہیں ۔
اہم نکتہ: ڈاکٹر ربانی ( سیرت طیبہ ۔۴۲) لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر حمید اللہ نے الوثائق السیاسیہ کے آخر اور زبید احمد نے عدد العرب میں قصی کے تین بیٹوں کا ذکر کیا ہے لیکن طبقات ابن سعدمیں چار لڑکوں اور دو لڑکیوں کا ذکر ہے ۔ لڑکو ں میں عبد الدار ، عبد مناف ، عبد العزیٰ اور عبد قصی اور لڑکیوں میں ایک کا نام تخمر اور دوسری کا برہ تھا ۔ نا معلوم مذکور الصدر حضرات نے ابن سعد کی روایت سے کیوں اختلاف کیا ۔ عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ قصی کہا کرتے تھے کہ میں نے اپنے چاروں لڑکو ں میں سے دو کے نام اپنے معبودوں کے نام پر رکھے باقی دو میں سے ایک کو گھر سے (عبدالدار) اور دوسرے کو اپنے سے (عبد قصی ) منسوب کیا ۔
قصی نے مکہ میں۴۲۰ یا ۴۴۰ عیسوی میں چھوٹی سی ریاست قائم کی ۔اس کے مختلف شعبے تھے جو بعثت نبوی کے وقت چلتے چلتے چودہ شعبے رہ گئے تھے ۔ وہ مختلف قبائل میں تقسیم تھے ۔ عقاب ‘ بنی امیہ ‘ قبہ اور رعنہ بنی مخزوم ‘ سفارت بنی عدی ‘ ندوہ بنی عبدالدار ‘ مشورہ بنی اسد ‘ اشناک بنی تمیم ‘ حکومت بنی سہم ‘سقایہ اور عمارہ بنی ہاشم ‘ رفادہ بنی نوفل ‘ سدانہ بنی عبدالدار ‘ایسار بنی جمع اور موالالمحجرہ بنی سہم کے پاس تھے ( تاریخ اسلام شاہ معین الدین ۔اول ص۔۵) ۔قصی کی چھ اولادیں تھیں ۔ عبدالدار ‘ عبدلمناف ‘ عبدالعزیٰ ‘عبد قصی ‘تخمر ‘مورہ ۔ قصی نے مرتے وقت تمام مناصب عبدالدار کے سپرد کیے ۔ قصی کے بعد قریش کی سیادت عبدالمناف نے حاصل کر لی ۔ عبدالمناف تک تو نزاع پیدا نہ ہوا ۔ ان کی وفات کے بعد ان کے چار بیٹوں ( ہاشم ‘عبدشمس ‘ مطلب اور نوفل) میں سے ہاشم نے اپنے بھائیوں کو عبدالدار سے حرم کے مناصب لینے پر آمادہ کیا ۔ عبدلدار کمزور تھا جبکہ ہاشم ذہانت ‘ سیادت اور مالی لحاظ سے مضبوط تھا۔ عبدالدار نے یہ منصب دینے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے دونوںطرف سے جنگی تیاریاں شروع ہو گئیں ۔ یکا یک دونوں جانب سے صلح کا مطالبہ ہوا ‘ اور شرط یہ ٹھہری کہ بنی عبدالمناف کے ذمہ سقایہ اور رفادہ کر دیا جائے اور حجابہ ‘لواء اور ندوہ بدستور عبدالدار کے پاس رہیں ۔ دونوں فریقین نے اس فیصلہ کو قبول کیا ‘ جنگ ہوتے ہوتے ٹل گئی ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام آ یا تو آپ نے فرمایا ’’ جاہلیت میںجو معاہدہ ہوا تھا ‘ اسلام نے اس کے استحکام ہی کو بڑھایا ہے ‘‘۔
اعتراض نمبر۱۲
غیر مسلم مورخین قُصّی کی کامیابی کو بہت بڑ ھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور لکھا کرتے ہیں کہ قصی نے حکومت کو جمہوریت کے اصول پر قائم کیا تھا ‘‘۔ اور نبی مکرم ﷺ کی تعلیمات اسی اصول کی شرح ہیں
جواب : مکہ میں منظم ترین شہری مملکت تھی جسے حضور ﷺ کے جد امجد قصی بن کلاب نے مکہ پر قبضہ کر کے سن ۴۴۰ء میں قائم کی تھی وہ بہت جلد ایک مقبول حکمران بن گیا انہوں نے اطراف و اکناف میں منتشر اپنی قوم کو بلا کر مکہ مکرمہ میں آباد کیا اور اہل مکہ جن چیزوں کے مالک تھے انہیں ان کا مالک رکھا اور جو خدمتیں ان کے سپرد تھیں ان پر انہیں قائم و برقرار رہنے دیا چنانچہ بنی صفوان , بنی عدوان , بنی مناۃ اور بنی مرہ بن عوف جن خدمات پر فائز تھے , اسی پر قائم رہے اور اس کا سبب یہ تھا کہ قصی ان لوگوں کی خدمتوں پر قائم رہنے کو دین ہی میں شامل سمجھتے تھے اور ان کے نزدیک ان لوگوں کا ان کے عہدوں سے معزول کرنا جائز نہ تھا یہاں تک کہ جب اسلام کا ظہور ہو ا تو اللہ تعالیٰ نے ان سب امور کو باطل اور نیست و نابود کر دیا۔ تمام قوم قصی کی اطاعت کرتی تھی ابن سعد کے بقول ’’ جس طرح مذہب کی پیروی کی جاتی ہے اہل مکہ اسی طرح قصی کے حکم کی پیروی کرتے تھے ۔ خانہ کعبہ کی خدمات مثل حجابہ ‘سقایہ ‘ رفادہ ‘ ندوہ اور قیادہ اور لواء ان کے پاس تھیں انہوں نے مکہ کی بلندی کی جانب اپنی سکونت رکھی اور مکہ کو چار حصوں میں تقسیم کر کے ہر قبیلہ کے لیے سکونت اختیار کرنے کی اجازت دے دی ۔قریش اپنے گھروں میں حرم کے درخت کاٹنے سے ڈرتے تھے ۔ قصی کو معلوم ہوا تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے گھر کے درخت پر کلہاڑا چلایا ان کی دیکھا دیکھی دوسروں نے بھی ایسا ہی کیا ۔ شادی بیاہ میں اپنوں یا غیروںمیں کوئی تنازعہ کھڑا ہوتا تو قصی سے مشورہ لیا جاتا اور جنگ کی صورت میں وہ اپنے ہاتھ سے جھنڈا تیار کر دیتے تھے۔ قریش کی جب کوئی لڑکی بالغ ہوتی تو قصی کے مکا ن میں لا کر اس کی پہلی اوڑھنی پھاڑ دیتے تھے اور نئی اوڑھنی پہنا کر گھر لے جاتے تھے ۔ قصہ مختصر قصی کے اقوال و افعال ان کی حیات اور ممات کے بعد ان کی قوم کے اندر قوانین مذہب کے جاری تھے ۔انہوں نے ایک عالی شان مکان بنایا جس کا نام دار الندوہ رکھا اس کا ایک دروازہ خانہ کعبہ کی طرف تھا ۔ اس مکان میں تمام امور کے فیصلے ہوتے تھے ہجرت کے وقت کفار نے اسی مکان میں حضور ﷺ کو ٹھکانے لگانے کے لیے ایک میٹنگ بلائی تھی ۔ قصی نے مملکت کے نظم و نسق کو بہترین رکھنے کے لیے کئی محکمے قائم کیے اور یہ محکمے دس قبائل میں تقسیم کیے گئے تھے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جب قصی نے اپنے عہدہ اپنے بیٹوں میں تقسیم کیے ۔ قصی پر کہولت و بڑھاپے کے سائے منڈلا رہے تھے اور ان کے قویٰ کمزور اور مضمحل ہو گئے اس وقت اپنے فرزند اکبر عبدالدار سے کہا ’’ اے میرے فرزند! میں تجھ کو قوم کا سردار بناتا ہوں بغیر تیرے دروازے کھولے ‘ کوئی شخص کعبہ میں داخل نہ ہو سکے اور توہی قریش کے لیے ہر جنگ کے لیے علم تیار کرے گا اور مکہ کا ہر شخص تیرے ہی پانی پلانے سے زم زم کا پانی پیے گا اور حاجیوں میں سے ہر ایک تیرا ہی کھانا کھائے گا اور قریش کوئی کام تیرے مشورہ کے بغیر نہیں کرے گا ہر ایک فیصلہ تیرے ہی مکان میں ہوا کرے گا ‘‘۔ پھر قصی نے بیت اللہ شریف کی تمام خدمتیں ( عہدے )حجابہ ‘ لوا ء ندوہ ‘ سقایہ ‘ رفادہ اور قیادہ وغیرہ سب اپنے فرزند عبدالدار کو سونپ دیں اور باقی پانچ فرزندوں کو محروم کر دیا ۔ بعض میں قصی کے دوسرے بیٹے عبدمناف کے فرزندوں میں عبدالدار کے بیٹوں سے لڑ کر دو عہدے حاصل کیے لیکن اس کے برعکس تاریخ مکہ کے ازرقی کا بیان ہے کہ قصی نے اپنے چھ عہدوں میں سے تین عبدالدار کو اور تین عبد مناف کو دئیے اور باقی بیٹے چھوٹے تھے یا نا اہل تھے اس لیے ان کو کچھ نہیں دیا عبدالدار کو حجابہ ‘ لواٗ اور ندوہ جب کہ عبد مناف کو سقایہ ‘ رفادہ اور قیادہ کے عہدے دئیے پھر یہ عہدے قصی کے دونوں فرزندوں کے خاندانوں میں چلتے رہے جیسے کہ دوسرے چلتے رہے ۔ قصی کی تقسیم دونوں صورتوں میں درست نہیں خواہ اس سارے عہدے اپنے بڑے بیٹے عبدالدار کو دئیے یا اپنے دونوں بیٹوں عبدالدار اور عبد مناف نے برابر برابرا تقسیم کیے ہوں ۔ اول صورت میں پانچ بیٹے اور دوسری صورت میں چار بیٹے عہدوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔
عبد ِمناف نے اپنی موت کے وقت سقایہ اور رفادہ کے عہدے اپنے چھوٹے بیٹے ہاشم کو دئیے اور قیادہ کا اہم عہدہ بڑے بیٹے عبد شمس کو ۔عبد شمس نے اپنے بیٹے امیہ کو جانشین بنایا ۔ امیہ کے بعد اس کا بڑا بیٹا حرب اور حرب کے بعد ان کے بڑے بیٹے ابو سفیان کو منتقل ہوا ۔ دوسری طرف رفادہ اور سقایہ کے عہدوں کی منتقلی اتنی سیدھی نہیں رہی تھی ۔ ہاشم کے انتقال کے وقت ان کے تمام بیٹے چھوٹے تھے اس لیے سقایہ ان کے بھا ئی مطلب کو ملا اور رفادہ نوفل کو پھر رفادہ پہلے تو نوفل کے پاس رہا اس کے بعد رفادہ اور ندوہ دونوں بنو اسد کے حکیم بن حزام نے خریدلیے۔
سقایہ مطلب سے ان کے بھتیجے اور ہاشم کے فرزند عبدالمطلب کو ملا ان کے بعد ان کے فرزند زبیر پھر زبیر سے ان کے بھا ئی ابو طالب پھر ان سے ان کے چھوٹے بھائی عباس کو ملا پھر یہ اسی خاندان میں چلتا رہا۔ یہ درست ہے کہ قصی نے مکہ میں حکومت قائم کی اور ریاست کا نظم ونسق چلانے کے لیے سترہ محکمے بنائے جو چلتے چلتے بعثت نبوی کے وقت چودہ محکمے رہ گئے تھے ۔ یہ بھی درست ہے کہ انہوں نے قبائل کو مکہ میں جمع کیا اور خانہ کعبہ کے ارد گرد عمارتیں بنانے کی تجویز پیش کی ۔ لیکن مذکو راعتراض سے غیر مسلم یہ مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ نبی ﷺ کی تعلیمات کو انہی اصول کی شرح ٹھہرائیں جو کسی طرح بھی درست نہیں نیز تاریخی حقائق اس کا رد کرتے ہیں ۔اور یہ دلیل لاتے ہیں کہ قصی نے ترکہ کی تقسیم اپنی اولاد میں نا منصفانہ طریق سے کی اور تمام مناصب عبدالدار کو سونپ دیئے ۔ عبدالدار کی ناز برداری کرتے ہوئے دوسرے فرزندوں کو اس کی غلامی میں چھوڑ دیا تھا ‘ اسی بناء پر اس کی اولاد میں مخالفت بڑھی گویا قصی تاہنوز جمہوریت یا ایثار سے بہت دور تھا ۔ ‘‘ ( رحمت اللعالمین ۔۲۔۶۲۔۶۱)
لیکن نقوش رسول نمبر۲۔ص۱۸۰ پر ہے کہ عبدالدار شہر مکہ کے بانی اول قصی کے فرزند اکبر اور عبدالمناف کے برادر اکبر تھے ہمارے ماٗخذ میں عام طور پر یہ بیان ملتا ہے کہ قصی نے اپنی زندگی میں اپنے سارے مناصب فرزند اکبر عبدالدار کو دے دیئے تھے اور باقی فرزندوں کو محروم کر دیا تھا ۔ قصی کے بعد یہی مناصب بنائے مخاصمت بنے اور عبدمناف اور عبدالدار کے فرزندوں کے درمیان تصادم کی نوبت آ گئی لیکن معاملہ صلح سے سلجھ گیا اور دونوں خاندانوںمیں مناصب کی تقسیم ہو گئی۔ اور اس کے بعدیہ کہنا کہ عبدالدار کی سماجی اور اقتصادی حیثیت نہیں رہی تھی جو پہلے تھی ۔ یہ بیان یک طرفہ ہے اور تاریخ مکہ کے مصنف ازرقی کا بیان صحیح معلوم ہوتا ہے کہ قصی نے اپنے چھ مناصب برابر برابر اپنے دونوں فرزندں عبدالدار اور عبد مناف میں تقسیم کر دئیے تھے جو ان خاندانوں میں چلتے رہے بنو عبدالدار کی سماجی اور مذہبی برتری سے کوئی مورخ انکار نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اب بھی کعبہ کے متولی اور کلید بردار تھے جو مذہبی لحاظ سے سب سے بڑا عہدہ تھا البتہ ان کی عددی طاقت کم ہو جانے اور اقتصادی ثروت نہ ہونے کے سبب وہ عبد مناف کے ہم پلہ نہیں رہے تھے اور قریشی بطون کی دوسری صف میں آ گئے تھے اور’’ واٹ‘‘ کا خیال کہ وہ بعثت نبوی کے وقت مکہ کے معاملات میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے ۔ اس حد تک تو یہ صحیح ہے کہ ان کی پرانی حیثیت برقرار نہیں رہی تھی لیکن اب بھی مکہ کی سیاست و سماج میں نمایاں مقام کے حامل تھے اور واٹ کا کہنا کہ وہ مکہ کے معاملات میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے ،غلط ہے مصنف رحمت اللعالمین نے لکھا کہ مناصب کی نا ہموار تقسیم سے ان خاندانوں میں رقابت اور دشمنی چلتی رہی ۔

درج ذیل عہدے مختلف قبائل میں تقسیم تھے
نمبر شمار
منصب
منصب دار خاندان
دوسرے خاندان میں منتقلی
منصب کی کفیت
۱
حجابہ
عثمان بن طلحہ
بنوعبدالدار
کعبہ کی تولیت اور کلید کعہ ان کے پاس رہتی تھی
۲
ندوہ
حکیم بن حزام
بنو عبدالدار
بنو اسد قومی مجلس دارالندوۃ کی تولیت
۳
لواء
عامر بن ہاشم
بنو عبدالدار
جنگ و امن میں پرچم اٹھائے رکھنے کا عہدہ
۴
رفادہ
حارث بن عامر
بنو نوفل
کعبہ کے حاجیوں و زائرین کا انتظام
۵
سقایہ
عباس بن عبدالمطلب
بنو ہاشم
حاجیوں کے لیے پانی کا انتظام
۶
مشورہ
یزید بن ربیعہ
بنو اسد
قومی مشورہ کا انتظام و مجلسِ صدارت
۷
دیت
ابو بکر بن قحافہ
بنو تمیم
قصاص و دیت و جرمانے کا فیصلہ
۸
قیادہ
ابو سفیان بن حرب
بنو امیہ
قریشی افواج کا قائد
۹
قبہ
ولید بن مغیرہ
بنو مخزوم
جنگ میں شاہسوار، فوج کے خیموں کا انتظام
۱۰
سفارت و منافرہ
عمر بن خطاب
بنو عدی
قبائل سے معاملہ طے کرنا اور سفارت کاری
۱۱
ازلام و ایسارہ
صفوان بن امیہ
بنو جمح
فال کے تیر اور فال نکالنے کے متولی
۱۲
اموال المحجرہ
حارث بن قیس
بنو سہم
کعبہ میں بتوں کے چڑھاوے کے مال کی حفاظت
ان عہدوں کے علاوہ قریش کے اور سردار بھی تھے جن کا سکہ چلتا تھا ان کی مشاورت کے بغیر قومی یا قبائلی کام انجام پذیر نہ ہو سکتا تھا ۔ تاریخ کی کتب میں ان کے نام مع خاندانوں کا ذکر موجود ہے ۔
غیر مسلم کہتے ہیں کہ قصی نے حکومت کو جمہوریت کے اصول پر قائم کیا تھا ، اس سے معترضین یہ مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ نبی ﷺ کے تعلیمات کو انہی اصول کی شرح ٹھہرائیں ۔ یہ ان کا باطل نظریہ ہے کیونکہ کفار مکہ اس قسم کے کئی دعوے پہلے بھی کر چکے ہیں جیسے انہوں نے کبھی ورقہ بن نوفل ، قس بن ساعدہ ، نسطوراراہب سے سیکھنے اور تعلیم حاصل کرنے کا کہا ۔ کفار نے ایک عجمی شخص کو بھی استاد کا درجہ دے ڈالاجس کا رد قرآن مجید میں ہے ’’ لِسَانُ الَّذِیْ یَلْحِدُوْنَ َ اِلَیْہِ اَعْجَمِیٌّ وَھٰذَا لِسَانُ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ o (النحل ۱۰۳،پارہ۱۴)‘‘ اور کبھی کہا کہ ان تعلیمات سے اپنے مذہب کی بنیاد رکھی اور کبھی یہ کہتے ہیں کہ دین اسلام یہودیت و عیسائیت اور مانی مذہب سے ماخوذ ہے لیکن آپ ﷺنے لوگوں کو وہی کچھ تعلیم کیا جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے آپ ﷺ پر نازل ہوتا ہے ۔ آپ ﷺ کی تعلیمات سربہ سر منزل من اللہ ہیں وہ نہ کسی سے حاصل شدہ ہیں اور نہ از خود اختراع کی ہوئی ہیں ۔ ارشاد ربانی ہے ’’ وما ینطق ۔۔۔۔ یوحی ٰ ‘‘ اور نبی مکرم کا دین اسلام اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے ارشاد خدا وندی ہے اِ ن الَّدِین َ عِندَاللہ ِ الاِ سلَام ‘‘۔۔۔ (۱۹۔۳) البتہ اگر کسی واقعہ سے متعلق حکم موجود نہیں اور اس کا ذکر دیگر مذاہب کی کتب مقدسہ میں موجود ہو تو آپ اس پر عمل پیرا ہوتے تھے اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ حکم بھی آسمانی کتب سے ملتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ انبیاء پر نازل فرمائی ہیں ارشاد ربانی ہے ’’اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدَا ھُمُ اقْتَدِہْ ط ۔(۶۔۹۰) ’’ترجمہ وہ لوگ (پیغمبر) ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی ہے اس لیے (اے محمدﷺ) آپ بھی ان کی موافقت کریں‘‘ ۔ڈاکٹر حمید اللہ ( خطبات بہاول پور ۔ص۔۹۳) رقم طراز ہیں کہ تاریخی نقطہ نظر سے اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کے زمانے سے لے کر پیغمبر اسلامﷺکے زمانے تک اپنے اقتدا کے معنی اصل لغت میں شخص ثانی کا شخص اول سے موافقت کرنا ہے ۔ آیت بالا پر جو کوئی شخص سرسری نظر ڈالے گا ۔ وہ سمجھے گا کہ حضور ﷺ کو کسی دوسرے شخص کے پیروہونے کا حکم دیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ معنی اہل اسلام کے اس مسلمہ اعتقاد کے خلاف ہیں کہ حضورﷺ امام الانبیاء ہیں ۔ پیغمبروں کے ذریعے جو پیغام بھیجے ہیں وہ بھی خدائی احکام ہیں اور وہ بھی ویسے ہی قابل تعظیم ہیں جیسے پیغمبر اسلام پر نازل شدہ قوانین ۔’’ لاَنُفَرِّ قُ بَیْنَ اَحدٍِِمِّنْ رُّ سُلِہٖ قف(۲۔۲۸۵) سب پیغمبر مساوی رتبہ رکھتے ہیں بحیثیت ( پیغمبر کے ) تو حکم دیا جاتا ہے کہ سابقہ پیغمبروں کے قوانین بھی واجب التعمیل ہیں اور پیغمبر اسلام ﷺکو اس پر عمل کرنا چاہیے لیکن ظاہر ہے کہ اس حکم کے ساتھ کچھ شرطیں ہوں گی ۔ لہٰذا مستشرقین کے ایسے جیسے اعتراضات باطل اور لغو ہیں ۔ ایک شرط یہ ہے کہ انبیاء کی شریعت میں قرآن مجید نے منسوخ یا ترمیم یا تبدیلی نہ کی ہو اور دوسری یہ کہ ان کا ہم تک پہنچنا قابل اعتماد وسائل سے ہوا ہو۔ قرآن مجید نے جب کسی قانون سابقہ کو منسوخ نہیں کیا تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ برقرار ہے ۔ جب وہ برقرار ہے تو ہمارا قانون ہے جو ہمارا بنایا ہوا نہیں ہے ْ خدا کا بنایا ہوا قانون ہے اور ہمارے لیے واجب التعمیل ہے چنانچہ تورات میں شادی شدہ لوگوں کے زنا سے متعلق صراحت سے ذکر ہے کہ ان کو رجم کیا جائے لیکن غیر شادی شدہ لوگوں سے زنا کے متعلق تورات میں حکم ہے کہ ان کو صرف مالی جرمانہ کیا جائے اور کچھ نہیں ۔ اس قانون کو قرآن مجید نے منسوخ کر دیا کیونکہ صرف جرمانے کی سزا پر اکتفا کرنا بد اخلاقی میں اضافہ کرنا ہے اس کو ایک زیادہ روکنے والی چیز کی ضرورت ہے ۔لہٰذا حکم ہوا کہ ایک سو دُرے لگائے جائیں ۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے ایک سابقہ قانون کے ایک جز کو سکوت کے ذریعے برقرار رکھا اور دوسرے حصے کو صراحت کے ساتھ منسوخ کر دیا تو دو اسلامی قانون ہوئے اور دونوں پر عمل واجب ہے ۔ سابقہ انبیاء کی شریعت مسلمانوں پر واجب التعمیل ہے دو شرطوں کے ساتھ جو پیچھے بیان ہوئیں یعنی ایک تو ان میں ترمیم یا تبدیلی یا منسوخی قرآن مجید نے نہ کی ہو اور دوم یہ کہ ان کا ہم تک پہنچنا قابل اعتما دوسائل سے ہو ا ہو ۔ قصی کی جو مخالفین بڑھا چڑھا کر جمہو ریت کی باتیں کرتے ہیں اور ان کو آپ ﷺ کی تعلیمات کے اصول سمجھتے ہیں محض غلط ہے ۔ مثال کے طور پر یہ مشہور ہے کہ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں دیوان قائم ہوا اور دیوان کا کام یہ تھا کہ سرکاری خزانے سے سپاہیوں کو تنخواہ دی جاتی تھی اس شرط پر کہ وہ چوبیس گھنٹے تیار رہیں یعنی جب حکومت بلائے تو وہ اسی وقت تمام مصروفیات بالائے طاق رکھ کر چلے آئیں ۔ یہ نظام حضرت عمر ؓ کی طرف منسوب ہے اور کہتے ہیں کہ یہ دیوان حضرت عمر ؓ نے قائم کیا تھا لیکن حیرت یہ ہے کہ اس کا آغاز عہد نبوی میں ہوچکا تھا ۔ امام محمد ؒ کی ’’ الیسر ا لکبیر‘‘ میں ہے کہ آپﷺ کے عہد میں ایک کاتب کے ذمہ تھا کہ وہ ان بالغ لوگوں کو فہرست میں ڈالیں جو نہ صرف جنگ کے قابل ہیں بلکہ اس پر آمادہ ہیں کہ جب انہیں بلایا جائے فوراََ فوجی مہم پر روانہ ہو جائیں ۔ ایسے لوگوں کو بیت المال سے وظیفہ ملتا تھا یہ حقیقت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے آپﷺ کے قائم کردہ نظام کو ترقی دی ۔ ان کے زمانے میں حکومت کے ہاں روپے پیسے کی ریل پیل تھی لہٰذا وظائف زیادہ دئیے جانے لگے حتی کہ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں غیر مسلموں کو بھی وظائف دئیے جاتے تھے مختصر یہ کہ دیوان خود آپ ﷺ نے قائم فرمایا تھا ۔
مدینہ میں آپ ﷺ نے باقاعدہ اور منظم حکومت کی داغ بیل ڈالی اگرچہ وہ ابتدائیہ تھا مثلا پہلی وحی میں لفظ اقراتھا (یعنی پڑھو) اس کے بعد نبی مکرم ﷺ کی ساری عمر امت کے لکھنے پڑھنے اور دینی واخلاقی تعلیم کو رائج کرنے کی کوشش جاری رکھی ۔ مدینہ میں پہلے مسجد کی تعمیر عمل میں آئی بعد ازاں اس مسجد کے اندر ’’ صفہ ‘‘ ایک حصہ تھا جو تعلیم کے لیے مخصوص تھا ۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ یہ پہلی اقامتی یونیورسٹی تھی جو آپﷺ نے قائم فرمائی یہ دن کے وقت تعلیم گاہ کا کام دیتی اور رات کے وقت بے خانماں لوگوں کے لیے بورڈنگ کاکام دیتی تھی ۔ مقامی لوگ پڑھ کر گھروں کو لوٹ جاتے مگر بے خانماں لوگ وہیں رہائش پذیر رہتے اور ان کے کھانے کا انتظام بھی موجود تھا ۔ ان بے پڑھے لوگوں کے لیے وہاں پڑھانے کے لیے معلم بھی تھے جس طرح ایک صاحب کو اس بات پر مامور کیا گیا کہ وہ لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں کیونکہ وہ بہت خوش نویس تھے ۔ ایک شخص نے بارگاہ نبوی میں عرض کیا ؛ یا رسول اللہ ! میں نے ایک شخص کو قرآ ن کی تعلیم دی ہے اور اس نے اظہار تشکر کے طور پر مجھے ایک کمان دی ہے کہ اللہ کی راہ میں اس سے جہاد کروں , کیا میں اسے لے سکتا ہوں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا’’ دوزخ کی آگ کی کمان ہے ‘‘ چنانچہ وہ دوڑے ہوئے گئے اور کمان شاگرد کو واپس کر دی حالانکہ معلم نے وضاحت کی تھی کہ میرا شاگرد چاہتا ہے کہ اس سے جہاد فی سبیل اللہ کروں مگر آپﷺ نے فرمایا کہ اس میں ایک شبہ یہ ہے کہ تم تعلیم کا معا وضہ لینا چاہتے ہو ۔ ابتدائی انتظام ہے اور آنے والوں کے لیے ترقی اور آگے بڑھانے کی از حد زیادہ گنجائش ہے ۔ گویا ہر قسم کے شعبہ زندگی سے متعلق ہدایات اور آپ ﷺ کا عمل مشعل راہ ہے اور ہر ایک شعبہ میں ترقی کی گنجائش باقی ہے ۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ ﷺ کے عہد ہمایوں میں کسی شعبہ کی بنیاد نہ رکھی گئی ہو۔ بلکہ ایسا کہنا مخالفوں کی الزام تراشی ہے ۔
محمد اسلم ملک کے مضمون مکہ اور مدینہ کی قدیم تاریخ ( ن ۔۲۔۴۰۳) میں ہے کہ کتب تاریخ گواہی دیتی ہیں کہ حکومت کا انتظام چلانے کے لیے ان عہدوں کا قیام اور دیگر انتظامات قصی کے اپنے ذہن رسا کی پیداوار ہیں ۔ قصی کی بے پایاں عسکری اور انتظامی صلاحیتوں سے انکار ممکن نہیں مگر محولا بالا بیان کی صداقت کو تسلیم کرنے سے پہلے مختلف پہلووں پر غور کرنا ضروری ہے ۔ قصی شام سے حجاز آیا اس وقت اس کے خاندان میں قبائلی طرز حکومت تھا ۔ شام ایک تہذیبی لحاظ سے ترقی یافتہ تھا۔ مزید برآں قصی نے مکہ فتح کرنے کے لیے شام سے عسکری امداد بھی دی تھی اور قصی کی تعلیم و تربیت بھی شام کے متمدن ملک میں ہوئی تھی دوسری طرف مکہ کی حکومت کے لیے بہت سی چیزیں شامی طرز حکومت سے اخذ کی گئی ہوں ۔ قصی کے عہد میں شام اور حجاز کے تعلقات سمجھنے کے لیے حدود ملک شام میں ملنے والے اس کتبہ کا ذکر کرنا بجا ہو گا ۔ اس کتبہ پر قصی مالک کا نام درج ہے ۔ یہ نام عدنانی الاصل ہے شام میں یہ نام مروج نہیں رہا جس پر مورخین نے امکان ظاہر کیا ہے کہ یہ قصی رئیس قریش کے نام کا کتبہ ہے ۔ شام سے اکتفا کرنے کے علاوہ مکہ کی روایات سے بھی بہت سی چیزیں قصی نے مستعار لیںمثلا قصی سے قبل مشترکہ قسم کی حکومت مکہ میں قائم تھی اور مختلف خاندانوں کو مختلف عہدے سپرد کیے گئے تھے ۔ حجاز اور شام کے امتزاج سے قصی نے ایسا نظم و نسق قائم کیا کہ بہت جلد اس کے خاندان قریش کو پورے عرب میں ایک اہمیت حاصل ہو گئی اور مکہ کے شہر کو مشرق اوسط میں مرکزیت حاصل ہوئی ۔ اس بحث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قصی نے شام اور مکہ کی حکومتوں کے امتزاج سے عہدے اور دیگر انتظامات کیے اس کی حکومتی اور دوسرے انتظامات مستعار شدہ ہیں تو پھر ان کے اصولوں کو آپ ﷺ کی تعلیمات کی شرح تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔
اعتراض نمبر ۱۳
’’آج ( دشمنان مکہ ) یہ طعنہ دیتے ہیں کہ مکہ کے ان قبائلی با شندوں کے کردار سے بدویت زائل نہ ہو سکی ‘ دوسرے اہل تاریخ یوں نکتہ چینی کرتے ہیں کہ کم از کم قصی بن کلاب کی سیادت و سرداری ۴۴۰ عیسوی تک اپنے بدوی مزاج کو بدل نہ سکی۔‘‘
جواب: ہیکل کہتاہے کہ عقل یہ تسلیم نہیں کرتی کہ روئے زمین پر واقع وہ بستی ‘ وہ آبادی ‘ وہ شہر جسے بیت اللہ کہلانے کا انفرادی اعزاز حاصل ہے ۔ وہ شہر جسے قبیلہ جرہم کا مسکن بننانصیب ہو ا‘ وہ قبیلہ جرہم جسے حضرت اسمٰعیل ؑذبیح اللہ جیسی عظیم الشان ہستی کا سسرال ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔ وہ شہر جو صدیوں سے یمن ‘ حیرہ ‘ شام اور نجد سے آنے والے تاجروں کی مسافری آرام گاہ رہا ہو ‘ ایسا شہر جو ساحل قلزم کے قریب ہو یعنی ایساشہر جو مدتوں سے اپنی متمدن قوموں کا مرجع رہا ہو ‘ کیا وہ مدنیت سے نا آشنا رہ سکتا ہے ؟ ممکن ہے کہ تعمیر کعبہ کے زمانہ میں مکہ کا تمدن جاذب نظر نہ تھا کہ وہ اس دور کے دو معروف قبائل عمالقہ اور جرہم کی توجہ کے قابل ہو سکتا ‘ لیکن حضرت اسمٰعیلؑ نے اس مقام کو اپنی اقامت کا شرف بخشا اور بعد میں جناب ابراہم ؑ و اسمٰعیل ؑ دونوں نے مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر کی تو پھر ان دو صفات کی برکتوں نے اس بستی کو اولاد آدم کے لیے مستقل بسیرا بننے کی انتہائی قابل رشک صلاحیت بخش دی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف سے قبائل قافلہ در قافلہ آتے گئے اور یہاں بستے گئے اور پھر یہ بستی ایک عظیم الشان شہر میں تبدیل ہو گئی۔۔۔۔ یہ دلائل اپنی جگہ ٹھوس ‘بھاری اور وزنی سہی مگر ان میں سب سے زیادہ مضبوط ترین دلیل یہ ہے کہ جس شہر کا نام حضرت ابراہیم ؑ نے خود تجویز کیا ہو اور جس کی فلاح و بہبود کے لیے خدا کے اس برگزیدہ رسول نے اس میں سدا امن اور دوسروں کے لیے مامن ہونے کی دعائیں کی ہوں اور وہ دعائیں شرف قبول سے سرفراز ہو چکی ہوں ‘ تو کس طرح انکار کیا جا سکتا ہے کہ یہ شہر قصی بن کلاب کے دور سن ۴۴۰سے پہلے تمدن کا گہوراہ نہ بن چکا ہو جبکہ اس شہر میں حضرت عیسیٰ ؑ سے دو ہزار سال قبل حضرت ابراہیم ؑنے اپنے گرامی قدر فرزند حضرت اسمٰعیلؑ کو لا کر آباد کیا ۔ ‘‘ ( حیا ت محمد ۔۹۰)
تقریباََ چار ہزار سال پہلے (ق۔م) پرووط نے یمن ملک کو تمام دنیا کے ملکوں سے زیادہ زرخیز لکھا ہے وہ یہ بھی لکھتا ہے کہ مارب ،جو زمانہ قدیم میں سبائے تورات کا قائم مقام تھا بڑے بڑے عالی شان قصر تھے جن کی محرابیں سنہری اور ان کے اندر طلائی اور نقرئی ظروف اور بیش بہا پلنگ سونے اور چاندی کے موجود تھے ۔
السٹر ابو ار تمیددرس کے قول کو نقل کرتا ہے کہ مارب ایک عجیب و غریب شہر تھا ، شاہی قصروں کی چھتیں سونے اور ہاتھی دانت اور بیش بہا موتیوں سے مرصع تھیں اور حجروں کا اسباب نہایت باریک ترشا ہوا اور پاکیزہ تھا ۔ اراقسطین کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکانات مصریوں کے مکانات سے مشابہ تھے اور ان میں لکڑی کا کام بھی مثل مصری مکانوں میں تھا ۔
عرب کے کل مورخین یمن کی تعریف میں یک زبان ہیں۔ حوالی مارب کے بیان میں مسعودی لکھتا ہے کہ ہر طرف خوبصورت عمارتیں ، سایہ دار درخت ، بڑی نہریں اور آبشاریں نظر آتی تھیں ۔ اس ملک کی وسعت اس قدر تھی کہ اس کے طول و عرض کو ایک اچھا سوار ایک ماہ کی مدت میں قطع کرتا تھا ۔۔۔ کثرت سے راستوں کے دو رویہ درخت تھے ان کا سایہ کبھی ختم نہ ہوتا ، رعایا کو ملک سے ہر قسم کا لطف زندگی حاصل تھا ۔زمین سیر حاصل ، ہوا صاف آسمان شفاف، پانی کے چشمے بکثرت ، حکومت عالی شان ، سلطنت مستقیم اور قوی ، ملک میں نہایت ترقی ، یہ وہ نعمتیں تھیں جن سے یمن کا چین و آرام ضرب المثل ہو گیا تھا ۔ یہاں کے باشندوں کی عالی حوصلگی اور ان کا فطرتی اخلاق اور ہر ایک وارد و صادر کے ساتھ ان کی مہمان نوازی مشہور زمانہ تھی ملک کی یہ اقبال مندی اس وقت تک قائم رہی جب تک مرضی باری تعالی تھی جس بادشاہ نے مقابلہ کیا وہ زیر ہوا ، جس ظالم نے خود کشی کی شکست پائی ۔کل اقطلولن زیر حکومت تھے اور کل اقام ان کی طابع فرمان ، غرض یمن کا ملک سرتاج عالم تھا ۔ یمن کی اس وادی کا باعث عرم مارب معلوم ہوتا ہے مورخین عرب کہتے ہیں کہ اس بند کو بلقیس نے بنایا تھا جو حضرت سیلمان ؑ کے سامنے آئی تھی ۔ یہ بند ایک لمبی گھاٹی کے قریب بنا یا گیا تھا ، چاروں طرف سے پہاڑوں کا پانی آ کر اس گھاٹی میں سے ندی کی طرح بہتا تھا اور بند نے اس پانی کو روک کر ایک بڑا تالاب سا بنا دیا تھا جس سے تمام ملک میں آب پاشی کا نظام جاری تھا ۔
قدیم زمانہ میں جغرافیائی اور طبعی اعتبار سے ملک عرب چار حصوں میں منقسم تھا ۔ عرب عراق اور عرب شام اس میں شامل نہیں تھے ۔
۱۔ تہامہ ۲۔ نجد ۳۔ حجاز ۴۔ یمن
عرب کا مغربی حصہ پست اور گرم ہے اس لیے اسے تہامہ کہتے ہیں ۔ مشرقی حصہ کی سطح بلن ہے اس لیے نجد ( بلند) کہلاتا ہے ۔ تہامہ اور نجد کے درمیان میں پہاڑ بھی شامل ہیں ۔ حجاز یعنی درمیانی حصہ ہے ۔
نجد : یہ وسط کا سر سبز شاداب اور عمدہ ترین والا سطح مرتفع ہے تین اطراف سے بے آب و گیاہ صحراوں سے گھرا ہوا تھا ۔ وادیوں اور پہاڑوں کے درمیان زراعت ہو تی ہے۔ چراگاہیں بکثرت ہیں ۔ یہاں کے گھوڑے اونٹ خوبصورت ہیں پھولوں کی بہتات ہے ۔ قدیم عہد میں یا کندہ خاندان کی حکومت تھی جس کا آخر بادشاہ ا لامراء القیس تھا ۔
حجاز : جابجا ریت کے ٹیلے ہیں مگر کہیں یہ سر سبز بھی ہیں ۔ ریگستانی علاقوں میں قدرتی چشمے ہیں جن سے نخلستان آباد ہیں اور ساحلی علاقہ سر سبز اور آباد ہے ۔ باغ کھیتیاں اور کہیں جنگل بھی ہیں حجاز کے بڑے ساحلی شہر پر بندرگاہ جدہ ہے۔
یمن میں صنعاء ’ عدن ’ جرش‘ حضر موت‘ بلاد الاحقاف اور حجاز میں مدینہ ‘ مکہ ‘ طائف اور ینبوع اور نجد میں یمامہ ‘ فید شمالی عر ب میں دومۃ الجند ل ‘ وادی خیبر وادی القریٰ مذکورہ شہروں کے علاوہ دیگر شہروں میں لوگ متمدن زندگی بسر کرتے تھے ۔ جھونپڑیوں کی بجائے محلوں میں رہتے تھے ۔ اس زمانہ میں کئی محل ضرب المثل تھے مثلا خوانق اور سدیر ۔ عورتیں فرش زمین پر نہیں چلتی تھیں بلکہ قالینوں پر چلتی تھیں ۔ گھر اچھے اور ان کی آرائش اعلیٰ اور عمدہ تھی ۔ مخملی گدے ‘ تکیے ‘ پھولدار پردے مسہریاں اور دروازوں پر نقش ونگار اگرچہ عرب میں کافی خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتے تھے اور ایک کثیر تعداد تہذیب کے حامل ہی نہ تھے بلکہ دیگر ممالک کے مہذب اور متمدن لوگوں کی ہم سری اور برتری کے دعویدار تھے ۔ ( خاتم النبین : ۳۳)
یمن کی ترقی کا یہ حال تھا کہ وہاں کے حکمرانوں نے تمام ایران کو فتح کر لیا ۔ عظیم الشان قلعوں اور عمارتوں کے آثا ر کی موجودگی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس ملک میں کبھی اعلیٰ درجہ کا تمدن تھا ۔ مولانا شبلی تھیاچر کے آرٹیکل کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جنوبی عربستان میں جہاں حضرت موسیٰ ؑ سے صدیوں پہلے ایک ترقی یافتہ تمدن موجود تھا اورقلعوں اور پناہ گاہوں کے آثا ر موجود ہیں ۔ صناعا کے قریب ایک قلعہ تھا جس کو قزوینی نے آثار البلاد میں دنیا کے عجائب ہفت گانہ میں سے ایک قرار دیا ہے ۔ لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ بلحاظ مجموعی عرب تہذیب و تمدن سے خالی نہیں تھا ۔ آجکل بھی دیکھیں تو وہ ممالک جو تہذیب و تمدن کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں وہاں کی دیہی آبادی میں وہ سہولتیں میسر نہیں ہوتیں جو شہری علاقوں کو دستیاب ہو تی ہیں ۔ لہٰذا دیہی آبادی یا دور کی رہائش گاہوں میں چند چیزوں کے نہ ہونے سے کسی ملک کو تہذیب و تمدن سے خالی اور عاری سمجھنا درست نہیں ہے ۔
اعتراض نمبر ۱۴
بنو ہاشم کا قبیلہ دوسرے قریش قبائل کے ہم پلہ نہ تھا ۔’’ واٹ‘‘ قریش کے مختلف قبائل کی عسکری اور سماجی حیثیت کے لیے ایک پیمانہ وضع کرتا ہے جو بہت عجیب ہے ۔ جنگ احد میں شریک عورتیں کفار کے ساتھ میدان جنگ میں گئیں اس سے اندازہ لگاتا ہے کہ قریش کا کونسا قبیلہ زیادہ طاقت ور تھا اور اس قبیلے کا سردار کون تھا؟ مستشرق واٹ کے الفاظ کا ترجمہ یہ ہے واقدی نے ان عورتوںکی جو فہرست دی ہے جن کو قریش مکہ احد کی مہم میں لشکر کے ساتھ لے گئے تھے ۔ دو کے علاوہ یہ سب عورتیں قبائل کے سرداروں کی بیویاں تھیں ۔ یہ درست ہے کہ ابو سفیان اور صفوان بن امیہ دونوں دو دو بیویاں ساتھ لے گئے تھے ‘ اس کا ثبوت یہ ہے کہ دونوں اپنے اپنے دھڑوں کے سردار تھے ‘ بظاہر عکرمہ بن ابو جہل ابھی صفوان کا ہم پلہ نہ تھا ۔
۲۔ مزیدواٹ بنو ہاشم کے افراد کو غریب اور دوسرے درجہ کا شہری ثابت کرنے کے لیے حضرت عباس ؓبن عبدالمطلب کے بارے میں یوں کہتا ہے ۔ اس کے الفاظ کا ترجمہ یہ ہے ’’ ایک چھوٹے پیمانے کا بنک کار ہونے اور حاجیوں کو پانی پلانے کے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود اس میں شک نہیں کہ مکہ کے معاملات میں عباس کی اہمیت نہ ہونے کے برابر تھی اور یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ وہاں پر سکون زندگی بسر کر رہے ہوں گے۔‘‘ ( ضیا ء النبی۔۷۔۱۹۹)
جواب : بنو ہاشم عربوں کی قابل فخر چیزوں میں کسی سے کم نہ تھے ۔ وہ سرمایہ دار ہی نہ تھے بلکہ سخاوت میں دھنی تھے ۔ جرات و بہادری کا یہ عالم کہ بنو ہاشم کے بہادر جوان حضرت حمزہؓ کی کمان ابو جہل کاسر پھاڑ دیتی ہے ‘ اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں نے اٹھنے کی کوشش کی مگر ابو جہل نے روک دیا ۔
عربوں میں رواج تھا کہ جنگ میں بھی حفظ مراتب کا خیال رکھتے تھے جنگ میں مبارزت طلبی کرتے تھے اس جوان سے جنگ کرتے جو ان کا ہم پلہ ہوتا ۔ عبیدہؓ ‘ حمزہؓ اور علیؓ جب شیبہ ‘ عتبہ اور ولید کے مقابل آئے تو عتبہ نے پوچھا کہ تم کون کون ہو کیونکہ انہوں نے چہرے ڈھاپنے ہوئے تھے ۔ جب انہوں نے اپنا تعارف کرایا تو عتبہ بولا ! تم واقعی ہمارے مد مقابل آنے کے قابل ہو ۔ عتبہ ‘ شیبہ اور ولید تو بنو ہاشم کو اپنا ہم پلہ سمجھتے ہیں مگر ’’واٹ‘‘ جن کا پلہ بھاری سمجھتا ہے وہ تو بنو ہاشم کو اپنا ہم پلہ سمجھتے ہیں لیکن نہ جانے واٹ کو بنو ہاشم کا دوسرے قبائل کا ہم پلہ ہونا نظر کیوں نہیں آتا؟
ہجرت کے موقع پر کسی ایک قبیلہ کو جرات نہ ہوئی کہ پیغمبر کے مقابلہ میں آتا پھر انہوں نے قبائل کے ایک ایک جوان کو شرکت کے لیے لیا اور در نبوت پر نبی مکرم ﷺ کے باہر آنے کے منتظر رہے ۔ تمام قبائل کا یہ متفقہ فیصلہ تھا اس لیے کہ کوئی بھی قبیلہ تنہا و یکہ بنو ہاشم قبیلہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا پھر بھی مستشرق واٹ بنو ہاشم کو دیگر قبائل کے ہم پلہ نہ سمجھیں تو ان کی ہٹ دھرمی اور نفرت کا نتیجہ ہے ۔
ابو سفیان نے قیصر روم کے دربار میں بنی مکرم ﷺ کے خاندان کی سیادت و قیادت کی تعریف کی تھی وہ تو ابو جہل بھی اقرار کرتا ہے ۔ مشرکین مکہ چھپ چھپ کر قرآن مجید کی آیات کی تلاوت سنتے تھے جن میں ابو جہل بھی ہوتا تھا ۔ اخنس بن شریک نے ابو جہل سے پوچھا : اے ابو الحکم ! تم نے محمد ﷺکی زبان سے جو کچھ سنا اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ ابو جہل نے کہا ‘ میں نے خاک سنا ۔ ہمارا اور عبد المناف کا جھگڑا اس بات پر تھا کہ سردار کون ہے ؟ اس شرف کے حصول کے لیے انہوں نے اپنا دستر خوان وسیع کیا اور ہر غریب مسکین کو کھانا کھلایا اور ہم نے بھی ان سے بازی لے جانے میں دسترخوان کو بڑھایا اور ہر غریب مسکین کی ضیا فت کا انتظام کیا ۔ انہوں نے لوگوں کے بوجھ اٹھاے ‘ ہم نے بھی بوجھ اٹھاے ‘ انہوں نے فیاضی سے مانگنے والوں کی جھولیاں بھر دیں اور ہم نے بھی ان سے سبقت لے جانے میں اپنی سخاوت کا بھر پور مظاہرہ کیا اور جب ہم مقابلے کے دو گھوڑوں کی مانند ہو گئے تو انہوں نے اچانک اعلان کر دیا کہ ہم میں سے ایک شخص کو نبوت ملی ہے اور اس کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے ‘ ہم یہ دعویٰ کیسے کر سکتے تھے ؟ بخدا ہم تو اس پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے اور نہ اس کی تصدیق کریں گے ۔ ( ضیا ء النبی ۔۷۔۲۰۶)
ابو جہل کی رائے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مکہ میں شرف وعزت کا معیار سخاوت جرات غریبوں کی مدد اور مسکینوں کی جھولیاں بھرنا وغیرہ تھا۔ ( ۲) بنو ہاشم کسی بھی میدان میں دیگر قبائل سے پیچھے نہ تھے بلکہ ابو جہل تو بنو ہاشم کے ہم پلہ بننے کی کوشش میں سر گردان نظر آتا ہے اور وہی کرتا رہا جو بنی ہاشم کرتے تھے حتیّٰ کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت بنو ہاشم کے قبیلہ کو عطا کی تو دیگر قبائل کی برابری نہ رہی اور ان تمام قبائل سے یہ قبیلہ اللہ تعالی ٰکی عطا سے بازی لے گیا ۔ مستشرق نے یہ فرض کر کے کیوں تسلیم کر لیا ہے کہ بنو ہاشم ایک کمزور قبیلہ تھا اور اس کے مقابل میں بنو مخزوم وغیرہ طاقت ور تھے ۔ ؟ سچ تو یہ ہے کہ بنو ہاشم تمام قبائل پر فوقیت رکھتا تھا ۔ قصی کے بعد قریش میں کوئی سردار نہیں ہو ا جسے ہاشم اور عبد المطلب کا ہم پلہ ٹھہرایا جائے۔ واٹ کی بوکھلاہٹ کا عالم یہ ہے کہ اپنے بیان کی خود تردید کرتا ہے ۔’’ اعلیٰ طبقہ کی اصطلاحیں مکی معاشرہ پر منطبق نہیں ہو سکتیں یا کم از کم اس معاشرہ کے ان عناصر کے لیے موزوں نہیں جو زیادہ تر ہمارا موضوع بحث ہیں ۔ مرکز کے قریش اور مضافات کے قریش میں نمایا ں فرق تھا لیکن وہ تمام لوگ جن کا مصادر میں ذکر ہے تقریباََ وہ تمام مرکز کے قریش سے تعلق رکھتے تھے خواہ ان کا تعلق محمد ﷺ کے دوستوں سے ہو یا دشمنوں سے ‘ وہاں غریب وامیر‘ اعلیٰ و ادنیٰ کا کوئی امتیاز نہ تھا جس کو اس امتیاز کے قرار دیا جا سکے جو ‘ ایک مسلم اور ایک کافر میں تھا ۔ مرکز قریش کے تمام قبائل ایک نسل سے تھے ۔ ( ضیاء النبی ۔۷۔۲۰۷ )
حضرت ہاشم بڑے رتبہ و مقام کے حامل تھے ۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے قیصر ‘ غسان کے شہزادوں اور نجاشی کے حدود سلطنت میںقریش کے تجارتی مال کو ٹیکس سے مستثنیٰ کرایا تھا ۔ عرب میں راستے غیر محفوظ تھے جس وجہ سے انہوں نے قبائل کا دورہ کر کے تجارتی قافلوں سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے کا معاہدہ کیا ۔ یہ وہی ہیں جو حجاج کرام کی بڑی فیاضی اور دریا دلی سے خدمت کرتے تھے ۔ چرمی حوضوں میں پانی بھر کر سبیل لگواتے ۔ یہ وہی ہیں جن کے ہاں عبدالمطلب پیدا ہوئے ‘ ان کا اصل نام شیبہ تھا ۔ کعبہ کے متولی ہونے کے سبب ہاشم کی پورا عرب عزت کرتا تھا ۔ واٹ کو ہم پلہ ہونے کا کونسا معیار درکار ہے اس کے ہمنوا مشرکین مکہ ہم پلہ تو کیا بنو ہاشم کی برابری کے مقابل پورا نہ اترنے کو تسلیم کرتے ہیں ۔ مگرنہ جانے واٹ کو یہ تسلیم کرنے میں کیاامر مانع ہے ۔
اعتراض نمبر۱۴ کا دوسرا جز
مزیدواٹ بنو ہاشم کے افراد کو غریب اور دوسرے درجہ کا شہری ثابت کرنے کے لیے حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب کے بارے میں یوں کہتا ہے ۔( اس کے الفاظ کا ترجمہ یہ ہے )’’ ایک چھوٹے پیمانے کا بنک کار ہونے اور حاجیوں کو پانی پلانے کے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود اس میں شک نہیں کہ مکہ کے معاملات میں عباس کی اہمیت نہ ہونے کے برابر تھی اور یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ وہاں پر سکون زندگی بسر کر رہے ہوں گے۔‘‘ ( ضیاالنبی۔۷۔۱۹۹)
اول تو یہ ہے کہ کسی ایک فرد کی کمزوری سارے قبیلہ کی کمزوری سمجھنا عقلمندی نہیں ۔ جس طرح ابو طالب کی مالی حالت قدرے کمزور تھی پھر بھی اس کو سنبھالا دینے کے لیے قبیلہ کے لوگ چپ سادھ کے بیٹھے نہیں تھے بلکہ ایک دن محسن انسانیت ﷺ اپنے چچا عباس کے پاس تشریف لے گئے اور کہا کہ ابو طالب کے بچوں کی کفالت کا ذمہ ہم اٹھائیں ۔آپ کے چچا نے اس بات پر اتفاق کیا اور ابو طالب کے ہاں گئے’ انھیں اپنا مقصد بتایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ تمہارے بچوں کا بوجھ آپ سے کچھ ہلکا کریں۔ ابو طالب نے جواب دیا کہ عقیل میرے پاس رہنے دو، باقی جو چاہو کر لو ۔آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کی اور عباسؓ نے جعفرؓ کی کفالت کا بیڑا اٹھایا۔ حضرت علی ؓاعلان نبوت تک زیر کفالت رہے جب کہ حضرت جعفر ؓاس وقت تک کفالت میں رہے جب تک ان کو کفالت کی حاجت نہ رہی۔ ( امیر المومنین حضرت علی۔۵۰)
آپ ﷺ نے ابو طالب کی مالی کمزور ی کے باعث ان کی اعانت فرمائی بلکہ کفالت کا وہ قرض اتار دیا جو آپ ﷺ کے چچا نے آپ ﷺ کی کفالت کی تھی ۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے ’’ میں نے ہر ایک کا احسان اتار دیا ہے سوائے ابو بکر صدیق ؓ کے احسان کے ‘ ان کا احسان میرے ذمہ باقی ہے ‘‘۔ ( تاریخ الخلفاء )
۲: حضرت عباسؓ زمانہ جاہلیت میں بھی بہت بڑے رئیس تھے۔ سعد بن ابی وقاص سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عباسؓ بن عبد المطلب تمام قریش سے زیادہ سخی ہیں اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں ۔ یہ وہی عباس ہیں جنھوں نے اپنے دو بھائیوں ابو طالب اور حارث کے بیٹوں عقیل اور نوفل کا فدیہ اپنے مال سے ادا کرکے آزاد کروایا تھا جو جنگ بدر میں قیدی ہوئے تھے۔ ہر فرد کا فدیہ ستر اوقیہ تھا ، ایک اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہے، اس طرح رقم ۵۶۰۰ درہم بنتی ہے ۔ابو طالب کے بعد حضرت عباس آب زمزم کے متولی مقرر ہوئے اور مسجد حرام کی تعمیر بھی آپ کے ذمہ تھی۔ نشیلہ بنت خباب بن کلاب وہ پہلی خاتون ہیں جنھوں نے کعبتہ اللہ پر ریشمی پردے لٹکائے اور مختلف اقسام کے قیمتی کپڑوں سے پردے بنا کر بیت اللہ کو مزین کیا، وہ سیدنا عباس کی والدہ ماجدہ تھیں( تفہیم البخاری۔ ۵ ۔ ۶۵۶)
۳: مستشرقین کو تو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ عباس زمانہ جاہلیت میں سودی کاروبار کرتے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا ’’ جاہلیت کے تمام سود باطل کر دئیے گئے ہیں اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کے فرد عباس بن عبد المطلب کا سود باطل کرتا ہوں‘‘۔قابل غور بات یہ ہے کہ کیا سود رقم ادھار دئیے بغیر حاصل ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب منفی میں ہے ۔ اگر رقم دے کر سود لیا جاتا ہے توا ن کے پاس اتنی وافر رقم موجود تھی جو اپنے اخراجات نکال کے باقی رقم افراد کو سود پر دیتے تھے ۔
۴: عکاظ کے بازار میں لاکھوں کا کاروبار ہوتا تھا، جس میں قریش کے نامور اپنا کاروبار کرتے تھے۔ بنی مخزوم والوں میں ولید بن مغیرہ اور ہشام بڑے سرمایہ کار بن چکے تھے۔ بنو امیہ کے ابو سفیان بن حرب اور عفان بن ابو العاص کے ہاں دولت کی خوب ریل پیل تھی۔ عبد شمس کے عتبہ و شیبہ لکھ پتی تھے۔بنی تیم کے ابو قحافہ اور ان کے بیٹے ابو بکر کا کاروبار بھی کسی سے کم نہ تھا، اسی بازار میں حکیم بن حزام کی دکان بھی تھی ۔چچائوں میں حمزہؓ، عباسؓ اور ابو لہب بھی لکھ پتی بن چکے تھے۔ دولت ان پر ہُن کی طرح برس رہی تھی۔ ( اعلان نبوت سے پہلے۔۵۰۰)
نہ جانے واٹ کس بنیاد پر عباس کو چھوٹا بنک کار کہتے ہیں؟ نیز یہ کہا کہ مکہ کے معاملات میں ان کی اہمیت نہ ہونے کے برابر تھی اگرچہ وہ حاجیوں کو پانی پلانے کے منصب پر فائز تھے۔ کیا اسے یہ خبر نہیں کہ دور و نزدیک سے آنے والے حاجیوں سے جان پہچان اور عزت تھی ۔حرم کی سیادت کے سبب مشہور تھے ۔ حرم کے متولی ہونے کا اعزاز انہی کو حاصل تھا اسی وجہ سے پورے عرب میں ان کی عزت و شہرت کا سکہ بیٹھاہوا تھا۔ واٹ کا یہ کہنا کہ وہ پرسکون زندگی بسر نہیں کر رہے تھے تو واٹ کو بتانا چاہیے کہ کون سے عوامل ان کی زندگی کو بے سکون بنائے ہوئے تھے؟ مالی بد حالی تھی یا مکہ اور اس کے مضافات میں مخالفوں نے ان کا جینا حرام کر رکھا تھا یا ان کے اپنے خاندان والوں سے عہدوں پر یادیگر کچھ سماجی اختلاف تھے، جس کی وجہ سے ان کی زندگی اجیرن بنی ہوئی تھی۔ ایسی کوئی وجہ نظر نہیں آتی اور واٹ مفروضوں کی آڑ میں الزامات دھرے جاتا ہے جن کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...