Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

حضرت عبدالمطلب
ARI Id

1689956726155_56117714

Access

Open/Free Access

Pages

۸۴

حضرت عبد المطلب
انکا نام عامر اور لقب شیبہ تھا۔ اپنے والد کے انتقال کے بعد ننھیال کے ہاں مدینہ میں رہے۔ ان کے چچا مطلب انھیں مکہ لائے اور بیٹوں سے بڑھ کر ناز و نعم سے ان کی پرورش کی ۔ اس احسان کے سبب وہ بھی ساری عمر ’’ عبد المطلب‘‘ یعنی مطلب کا غلام کہلاتے رہے۔ یہ وہ عظیم ہستی ہیں جنھوں نے چاہ زمزم کوجسے عمرو بن حرث جرہمی نے بند کر دیا تھا، نکالا۔ وہ شریف النفس اور عبادت گزار تھے ۔ غار حرا میں کھانا پانی ساتھ لے جاتے اور کئی دن تک خدا کی عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ رمضان میں اکثر وہاں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ مکہ والوں پر جب کبھی کوئی آفت آتی تو اہل مکہ عبد المطلب کو لے کر پہاڑ پر چڑھ جاتے اور اللہ تعالیٰ کے حضور ان کے وسیلہ سے دعا مانگتے جو قبول ہو جاتی تھی ۔
عبد المطلب کی عام نصیحت یہ ہوتی تھی ’’ ظلم و بغاوت نہ کرو اور مکارم ا خلاق حاصل کرو‘‘ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے منع کرتے اور چور کا ہاتھ کاٹ ڈالتے تھے ۔ آپ کعبہ کے متولی تھے۔ آپ کے زمانہ میں اصحاب فیل کا واقعہ پیش آیا۔ ۱۲۰ برس کی عمر میں وفات پائی( سیرت المصطفی جان رحمت۔۱۔۳۱)
اصحاب فیل کا قصہ
پیارے رسول ﷺ کی پیدائش سے پچاس رات یا پچپن دن پہلے یمن کا گورنر ابرہہ ہاتھیوں کی فوج لے کر بیت اللہ کو ڈھانے کے لیے حملہ آور ہوا۔اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس نے یمن کے دارالخلافہ صنعاء میں ایک شاندار گرجا گھر بنایا ۔ اگرچہ گرجا کی عمارت کی تزئین میں اپنی صلاحیتیں وقف کر کے نمونہ روزگار بنا دیا لیکن تمام خوبیوں کے باوجود اس میں دعائے خلیل ’’ رَبَّناَ تَقَبَل مِنّاَ ‘‘ شامل نہ ہو سکی اور خالق کائنات کی ضمانت امن ’’ وَمَنْ دَخَلہٗ کَانَ اٰمِناً‘‘ اس گرجا گھر کو حاصل نہ ہو سکی اور حجر اسود جو عطائے الہی تھا اس کی زینت نہ بن سکا ۔
بخال و خط چوں بتاں حسن خود بیارآیند
ولی بناز و کرشمہ بیار مانہ رسند
ہزار سرو بہ بستاں کشد قد موزوں
ولی براہ و روش با نگار ما نہ رسند
اس کی خواہش تھی کہ عرب کے لوگ بجائے خانہ کعبہ کے یمن میں آ کر اس گرجا گھر کا حج کیا کریں ۔ مکہ والوں کو یہ بھنک پڑی تو قبیلہ کنانہ کے ایک شخص نے وہاں جا کر گرجا گھر میں پاخانہ کر دیا۔ابرہہ کو یہ خبر ملی تو جل بھن کر کباب ہوگیا۔ اس نے مکہ پر چڑھائی کر دی ۔ لشکریوں نے مکہ والوں کے اونٹ اور دوسرے مویشی ہتھیالیے، اس میں دو سو یا ایک روایت کے مطابق چار سو اونٹ آپ ﷺکے دادا عبد المطلب کے تھے۔ عبدالمطلب کو ابرہہ کی لشکر کشی کا بڑا دکھ ہوا۔ وہ ابرہہ کے پاس تشریف لے گئے۔ اس نے تخت شاہی سے اتر کر آپ کا استقبال کیا اور اپنے برابر بٹھایااور پوچھا ۔۔ کیسے آئے ہو؟ عبد المطلب نے جواب دیا کہ میرے اونٹ تمھارے لشکری بھگا لائے ہیں۔ وہ مجھے واپس دئیے جائیں۔ ابرہہ نے کہا ! میں تو تمہارے کعبہ کو ڈھانے آیا ہوں اورا س بارے میں تم نے کچھ نہیں کہا۔ عبدالمطلب نے کہا مجھے تو اپنے اونٹوں کی فکر ہے، کعبہ میرا گھر نہیں ہے بلکہ وہ خدا کا گھر ہے ۔وہ خود اپنے گھر کو بچا لے گا، مجھے کعبہ کی ذرا فکر نہیں ہے ۔
اعتراض نمبر ۱۵
بعض کہتے ہیں کہ حضرت عبد المطلب نے ابرہہ سے اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کیا مگر کعبہ کو بچانے کی فکر دامن گیر نہ ہوئی اور تقدیر کے حوالے کر دیا۔ ابرہہ نے پوچھا ! اے حضرت عبد المطلب ! کیا تمہاری نگاہ میں کعبہ کے مقابلہ میں اونٹوں کی اہمیت زیادہ ہے کیونکہ تمہیں اتنا تو ضرور معلوم ہو چکا ہو گا کہ میں کعبہ کو گرانے آیا ہوں ِ اس لیے تمہیںاولاََ اس کے بچائو کی فکر کرنی چاہیے تھی ۔ عبدالمطلب نے جواب دیا’’ میں بلاشبہ اونٹوں کا مالک ہوں اور اس گھر کا بھی ایک مالک ہے جو اس گھر کا بچائو کرے گا، ابرہہ نے جواباََ کہا بیت اللہ کو کوئی نہیں بچا سکتا ، آپؑ کے دادا جان نے جواب دیا اب تم جانو اور تمھارا کام۔ حضرت عبدالمطلب کے اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ تم نے اپنی خیر منائی ، اپنے اونٹ لیے اور کعبہ کو تقدیر کے حوالے کر دیا۔ گویا ابرہہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔
جواب: خانہ کعبہ عربوں کی نگاہ میں دنیا کی عزیز ترین متاع ہے۔ان کی جان جاتی ہے تو جائے لیکن اس پر آنچ نہیں آنے دیتے، وہ زبان سے بھی اور ہاتھ سے بھی دوسروں کو سمجھانا جانتے ہیں۔ جوان کے سامنے آجائے اس سے کنی نہیں کترا تے بلکہ اڑ جاتے ہیں اور لڑ پڑتے ہیں۔آپؑ کے دادا جان نے ابرہہ کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا، وہ یوں کہ ان کے دو جملوں کا مطلب یہ ہے جسے سمجھنے میں بھی اسے غلط فہمی ہوئی ۔ابرہہ میں اونٹوں کا مالک ہوں ، مجھے ان کا اتنا خیال ہے کہ میں بلا جھجک تیرے پاس چلا آیا۔ اس گھر کا بھی ایک مالک ہے ۔ کیا اسے اس کی حرمت کا پاس نہ ہوگا ؟ کعبہ کے بچائو سے انہوںنے دستبرداری نہیں کی بلکہ یہ معاملہ اس گھر کے مالک یعنی خدا کے سپرد کردیا۔ اس بات سے عبدالمطلب کے اللہ تعالیٰ پر یقین اور کامل ایمان کا اظہار ہوتا ہے۔ اس پختہ یقین کا مظہر یہ جملہ ہے کہ اس کا بھی ایک مالک ہے ، اسے اپنے بیت کا پاس ہوگا۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ کعبہ کا کوئی بال بھی بیکا نہ کر پائے گا، اس کا ایک دو دن میں لگ پتا جائے گا ۔ ابرہہ کا کہنا کہ مجھ سے کوئی بچا نہ سکے گا ؟ اس پر عبدالمطلب نے فرمایا اب تو جانے اور تیرا کام ۔یعنی جو تو نے ٹھان رکھی ہے وہ کرکے دیکھ پھر دیکھتے ہیں اس گھر کا مالک تیرے ساتھ کیا کرتا ہے۔ اب تمام معاملہ تمھارے ہاتھ میں ہے کہ حملہ کیے بغیر واپسی کی راہ لیتا ہے یا حملہ کرتا ہے اور اگر حملہ کرنے کا سوچا ہے تو یہ تیرا کام ہے، اس کا انجام تو دیکھ لے گا۔
بعض کہتے ہیں کہ عبدالمطلب نے محسوس کیا کہ عرب ابرہہ کی فوج کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس لیے ابرہہ کے لشکر کے سامنے نہ آیا جائے؟
یہ درست بات نہیں بلکہ آپ نے عربوں کا خون بہانے سے گریز کیا کیونکہ عربوں کا مزاج نہایت تند و تیز ہے، ان کا کچھ بچے نہ بچے وہ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹتے اور لڑنے مرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔اس کی دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ خواجہ عبدالمطلب نے صرف اور صرف خدا کی ذات پر اعتبار کیا اور عربوں کو فوج کا سامنا کرنے سے باز رکھا۔ اس بات کی تائید اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے ’’ جب حضرت عبدالمطلب اپنے اونٹ واپس لے آئے تو چند آدمیوں کے ہمراہ خانہ کعبہ کے دروازہ کا حلقہ پکڑ کر دعا کی’’ اے اللہ! بندہ اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما، ایسا نہ ہو کہ کل کو ان کی صلیب اور ان کی تدبیر تیری تدبیر پر غالب آجائے، مگر ہمارے قبلہ کو ان پر چھوڑنے لگا ہے ، تو حکم کر جو چاہتا ہے‘‘۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ آپ کے دادا جان کی دعا رنگ لائی۔جو کہا جو مانگا سب ملا اور ابرہہ کا لشکر تباہ و برباد ہو گیا اور رہتی دنیا تک کے لیے نشان عبرت بن گیا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھئے کہ پرندوںکے جھنڈکے جھنڈ بھیجے جو منہ اور پنجوں میں کنکر لیے ہوئے تھے ۔ بس کیا تھا ، جس کے وہ کنکر لگتے وہ ڈھیر ہو جاتا۔ جیسے کسی نے کہا ہے۔
اگر محفوظ رکھنا چاہے اپنے گھر کو دشمن سے
ابابیلوں کے لشکر میں وہ کنکر بانٹ دیتا ہے
اہم نکتہ: مولانا موددی کہتے ہیں کہ ساٹھ ہزار کے لشکر کا مقابلہ کرنا اور آس پاس کے عرب قبائل کے بس کا روگ نہ تھا ‘ وہ تو غزوہ احزاب میں بڑی مشکل سے دس بارہ ہزار کے قریب فوج جمع کر سکے تھے ۔ مولانا صاحب کو سہو ہوا ہے ۔ قابل غور بات ہے کہ پہلے غزوہ بدر میں ۳۱۳ کے مقابلہ میں ایک ہزار ‘ غزوہ احد میں ۷۰۰ کے مقابلہ میں تین ہزار سے زائد اور غزوہ خندق میں تین ہزار کے مقابلہ میں دس یا بارہ ہزار فوج تھی ۔ بظاہر کفار کی تعداد اور افرادی قوت کے حساب سے مسلمانوں کا لشکر کفار سے لڑنا بہت مشکل تھا لیکن جب رحمت خدا وندی شامل حال ہو اور ایمانی جذبہ بھی عروج پر ہو تو پھر تعداد آڑے نہیں آتی ۔ اور جو تعداد کا بھروسا رکھتے ہیں انہیں کثیر تعداد کے باوجود فتح نصیب نہیں ہوتی ۔
(۲) ابن اسحق نے کہا جب تبع نے یمن کی طرف کوچ کا قصد کیا تو اس نے ارادہ کیا کہ رکن اسود کا پتھر اکھاڑ کر اپنے ساتھ لے جائے ۔ خویلد بنی اسد بن عبدالعزی ٰ بن قصی کے ہاں قریشی اکٹھے ہوئے اور انہوں نے خویلد سے کہا کہ اگر وہ ہمارا پتھر لے گیا تو ہمارے پاس کیا رہ جائے گا ؟ اس نے پوچھا کیا معاملہ ہے ؟ قریش نے کہا : کہ تبع چاہتا ہے کہ حجر اسود کو اپنے علاقہ میں لے جائے ۔ خویلد نے کہا : ہمارے لیے تو اس سے موت بہتر ہے پھر اس نے تلوار نکالی ‘ وہ باہر نکلا اور دیگر قریشی بھی اپنی تلواریں سونت کر اس کے ہمراہ نکل کھڑے ہوئے اور تبع کے پاس گئے اور اس سے پوچھا : اے تبع ! رکن اسود کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ اس نے کہا : میرا ارادہ ہے کہ میں اسے اپنی قوم کے پاس لے جائوں ۔ قریش نے جواب دیا: موت تو اس کے قریب تر ہے پھر وہ وہاں سے چل کر رکن اسود کے پاس کھڑے ہو گئے اور تبع کو اس کے ارداہ سے باز رکھا ۔ ابن اسحق کا بیان ہے ‘ پھر تبع نے اپنے لشکریوں کے ہمراہ یمن کا رخ کیا اور وہاں پہنچ گیا ۔ یہ وہی عرب ہیں جن کے بارے میں مولانا صاحب کہتے ہیں کہ ابرہہ کے لشکر سے جنگ کرنا ان کے بس میں نہیں تھا ۔
اہم نکتہ: سورہ فیل میں طیراََ ابابیل کے الفا ظ استعمال ہوئے ہیں ۔ اردو زبان میں ابابیل ایک پرندے کو کہتے ہیں جس کی چونچ ؎ سیاہ اور سینہ سفید ہوتا ہے ۔ ہمارے ہاں اکثر لوگ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ ابرہہ کی فوج پر ابابیلوں سے پتھر پھینکوائے گئے تھے جنہوں نے ابرہہ کی فوج کا بھر کس نکال دیا جیسا کہ عبدالمصطفیٰ اعظمی(سیرت مصطفیٰ۔۳۳) نے ’’ابابیلوں کا حملہ‘‘ عنوان کے تحت لکھا ہے ’’اس حال میں قہر الہٰی ابا بیلوں کی شکل میں نمودار ہو ا‘‘۔ لیکن عربی زبان کی لغت میں ابابیل کے معنی متفرق گروہ جو پے در پے مختلف سمتوں سے آئیں ۔ عکرمہ اور قتادہ کہتے ہیں کہ یہ جھنڈ کے جھنڈ پرندے بحر احمر کی طرف سے آئے تھے ۔سعید بن جبیر اور عکرمہ کہتے ہیں کہ اس طرح کے پرندے نہ پہلے کبھی دیکھے گئے تھے نہ بعد میں ۔ اس عربی لفظ ابابیل کو اردو کے ابابیل ( پرندے ) سمجھ لیا گیا ہے اور اس قدر عام استعمال ہونے لگا ہے کہ اسے غلطی سمجھا ہی نہیں جاتا میں نے پیچھے جا ن بوجھ کر ایک شعر لکھا ہے ۔ وہ یہ ہے ۔
اگر محفوظ رکھنا چاہے اپنے گھر کو دشمن سے
ابابیلوں کے لشکر میں وہ کنکر بانٹ دیتا ہے
تاکہ اس غلطی کو منظر عام پر لایا جائے اور قاری کو سمجھنے میں آسانی ہو جبکہ اس کا استعما ل قصہ اصحاب فیل سے جوڑنا کہ یہی اردو والا ابابیل ہے بالکل غلط ہے ۔
اعتراض نمبر ۱۶
منٹگمری واٹ کہتا ہے کہ ابرہہ اور اس کے لشکر میں طاعون کی وبا پھیلی جس نے سب کا صفایا کر دیا ۔
(۲)بعض دیگر علماء کہتے ہیں محمد بن اسحق عکرمہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہ چیچک کا مرض تھا جو آناََ فاناََ پھیلا جو ابرہہ سمیت سارا لشکر تباہ ہوگیا۔
(۳)ابن سعد کہتا ہے کہ ابرہہ اور اس کے لشکر میں چیچک پھوٹ پڑی تھی ۔
۴۔ ابرہہ کا لشکر آفات سماوی کی نظر ہو گیا۔
جو لوگ چیچک ،طاعون کا کرشمہ قرار دیتے ہیں ان کے اس خیال کی تائید سورہ فیل سے نہیں ہوتی، اس سورہ میں ایسا کوئی لفط نہیں آیا جس کے معانی چیچک اور طاعون کے لیے جائیں ۔ مستشرقین بات کا بتنگڑ بنانے میں بہت طاق ہیں۔کہیں سے کچھ ملا تو اس میں اپنی طرف سے مرچ مصالحہ لگا کر اس طرح پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا اعتراض سچا ثابت ہو جائے ۔ واٹ کہتا ہے کہ لشکر میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی جس نے لشکر کا صفایا کر دیا۔ یہ اس کی اپنی یا مستعارشدہ اختراع ہے کیونکہ طاعون ایسی بیماری ہے کہ شہروں کے شہر اور بستیوں کی بستیاں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے جس سے شہر اور بستیاں اجاڑ ہو جاتی ہیں کوئی قسمت والا ہی اس سے بچ پاتا ہے پھر یہ وبا پھیلتی ہے ‘ ایک جگہ ڈیرے ڈالے نہیں رہتی جنگل کی آگ کی طرح ادھر اُدھر پھیلتی جاتی ہے ۔ تعجب اس پر ہے کہ یہ وبا پھوٹی اور ابرہہ اور اس کے لشکر کا صفایا کر گئی لیکن مکہ اور اس کے مضافات میں ایک فرد کو اس وبا سے کوئی نقصان نہ ہوا حتّٰی کہ ایک فرد بھی ہلاک نہ ہوا ۔
۲۔ چیچک اور طاعون کی وبا پھیلی جس سے لشکر ہلاک ہو ا‘ اس کا رد درج ذیل روایات سے بھی ہوتا ہے ۔ ابن عباس ؓکی روایت ہے کہ جس پر کنکری گرتی اسے سخت کھجلی لاحق ہو جاتی اور کھجاتے ہی جلد پھٹ جاتی اور گوشت جھڑنے لگتا ۔ ابن عباس کی ایک اور روایت میں ہے کہ گوشت اور خون پانی کی طرح بہنے لگتا اور ہڈیا ں نکل آتی تھیں ۔‘‘ چیچک اور نہ ہی طاعون کی وبا پھوٹی بلکہ یہ تو کنکروں کے لگنے سے کھجلی ہوتی ‘ جلد پھٹتی اور گوشت جھڑنا شروع ہو جاتا‘ یا گوشت اور خون کے بہنے سے ہڈیاں نکل آتی تھیں۔ ہو سکتا ہے کہ مسلم مورخین اور مستشرقین کو اس بات سے غلط فہمی ہوئی ہو کہ اس سال پہلی با رعرب میں خسرہ اور چیچک کی وبا پھوٹی اور پہلی مرتبہ کچھ پودے دیکھے گئے ۔ ابن ہشام لکھتا ہے ’’ ابن اسحق نے کہا ‘ مجھ سے یعقوب بن عتبہ نے بیان کیا کہ ان سے کسی نے کہا کہ سر زمین عرب میں خسرہ اور چیچک اسی سال پہلی با ر نظر آئی اور اس سال سے پہلے عرب میںبدمزہ اور نا گوار پودے اسپند ‘ اندر ائن اور آک قسم کے نہیں دیکھے گئے ۔ لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ ابرہہ کے حملہ کے وقت وبا پھوٹی اور پودے دیکھنے میں آئے بلکہ اسی سال کا ذکر ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابرہہ کے لشکر کے بعد اسی سال میں یہ وبا پھوٹی ہو گی ‘ یا رلوگوں نے اسے اصحاب فیل کے قصہ سے جوڑ دیا جبکہ اصحاب فیل کا واقعہ اللہ تعالی ٰ کی قدرت کا اعجاز ہے ۔اور دشمنان خدا کے لیے سخت عذاب ہے ۔
اعتراض نمبر ۱۷
اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَ صْحٰبِ الْفِیْلِ o اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ o وَّ اَرْسَلَ عَلَیْھِمْ طَیْرًا اَبَآبیِْلًا o تَرْمِیْھِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ ہ فَجَعَلَھُمْ کَعَصْفٍ مَّاکُوْلٍ oترجمہ: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا کیا اس نے ان کی تدبیر کو اکارت نہیں کر دیا اور ان پر پرندوں کے جھنڈ در جھنڈ بھیج دئیے ‘ جو ان پر پکی ہو ئی مٹی کے پتھر پھینک رہے تھے پھر ان کا حال یہ کر دیا جیسے جانوروں کا کھایا ہو ا بھس ۔ (القریش، پارہ۳۰)
جواب :اس سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ جن علماء نے پرندوں اور سنگریزوں کا فہ نفسہ انکار کیا گیا وہ غلطی پر ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا مقصد طائر سے فقط تیز ہوا (آندھی) ہے اور حجارہ سے مراد مٹی کے ذرات ہیں جن میں چیچک کے جراثیم تھے لیکن یہ معنی لغت عربی سے مطابقت نہیں رکھتے یعنی لغت میں ابابیل کے معنی ہے ’’ پرندوں کے متفرق گروہ’’۔ مجازی معنوں میں بھی اس کا استعمال بعید از قیاس ہے اور یہ ہر گز درست نہیں کہ ان کو اس طرح کے مجازی معنوں میں لیا جائے جب کہ اللہ تعالیٰ ان کے استعمال پر قدرت رکھتا ہے اسی طرح مٹی کے ذرات کو عربی لغت میں کہیں بھی (( پتھر کے کنکر) پختہ مٹی نہیں کہا گیا ہے ۔ یعنی وہ مٹی جو آگ میں پکائی گئی ہو یعنی پختہ اینٹیں ۔ دوسری طرف جب چیچک کے جراثیم ہو امیں پھیل گئے تو پھر صرف ابرہہ کا لشکر ہی کیونکر ہلاک ہوا ‘ تمام عرب ان جراثیم سے کیوں نہ ہلاک ہوئے؟ ۔
واقعہ فیل رسول اللہ ﷺ کی پیدائش کے ساتھ رونما ہوا پس جب حضور ﷺ پر سورہ فیل نازل ہوئی تو اس وقت ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے اس واقعہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ان میں سے بعض رسول اللہ ﷺ کے دشمن تھے ۔ اگر وہ حقیقی پتھر نہ تھے تو ان لوگوں نے اس سورت کی تکذیب کیوں نہ کی اور علی الاعلان محمد ﷺ کو طعن و تشنیع کا نشانہ کیوں نہ بنایا ؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب سورت فیل نازل ہوئی عربوں نے اسے قبول کیا کیوں کہ بلاشبہ یہ بات مبنی بر حقیقت تھی اور ان میں مشہور و معروف بھی تھی اس لیے کسی ایک نے بھی اس کا انکار نہیں کیا ۔ اس سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ طیراََ در حقیقت طیور ہی تھے جو عرب میں معروف تھے اور یہ فضائی حملہ وقت سے پہلے اس جہان میں واقعہ ہوا ۔ کسی انسان نے اپنے انسان بھائی پر انتقام لینے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ اللہ قہار نے اس کو تیار کیا تھا تاکہ ظلم و عدوان کا سر کچل دے ۔ ( سید المرسلین : ۴۲)
ابرہہ کی مذمت میں شعراء نے شعر کہے ‘ نفیل بن حبیب کہتا ہے ( ترجمہ: اے روبینہ ! ہماری طرف سے سلا م و تحیہ ہو اور صبح دم تم سے آنکھ ٹھنڈی ہو ں ‘ جب میں پرندوں کو دیکھا تو اللہ کی تعریف کی اور پتھروں سے خائف تھا جو ہم پر گرائے جا رہے تھے )۔امیہ بن ابی صلت کہتا ہے
ہمارے پروردگار کی آیات و علامات روشن ہیں اور اس پر کوئی کافر اور نا شکر گزار ہی اعتراض کر سکتا ہے ‘ مغمس مقام پر اس نے ہاتھی کو روک دیا وہ گھٹنوں کے بل گھسٹتا تھا گویا اس کے پائوں کٹے ہوئے ہیں ۔
عبداللہ بن قیس اپنے طویل قصیدے میں واقعہ فیل ‘ پرندوں اور پتھروں کے متعلق کہتا ہے ( ترجمہ : اس نکٹے نے بیت اللہ کے خلاف تدبیر کی بھی جو ہاتھی لایا وہ پلٹ گیا اور اس کا لشکر شکست خوردہ تھا ان پر پرندے پتھر لے کر ظاہر ہوئے گویا کہ وہ (ابرہہ) سنگسار ہوا
اہم نکتہ: مولانا فراحی سورت فیل کی آیت میں ترمیھم کا فاعل اہل مکہ اور دوسرے اہل عرب کو قرار دیتے ہیں جو الم ترکے مخاطب ہیں اور پرندوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ سنگ ریزے نہیں پھینک رہے تھے بلکہ اس لیے آئے تھے کہ اصحاب فیل کی لاشوں کو کھائیں ۔ اس تاویل کے لیے جو دلائل دئیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ عبدالمطلب کا ابر ہہ کے پاس جا کر کعبہ کی بجائے اپنے اونٹوں کا مطالبہ کرنا کسی طرح باور کرنے کے قابل بات نہیں اور یہ بات بھی سمجھ میں آنے والی نہیں کہ قریش کے لوگو ں اور دوسرے عربوں میں جو حج کے لیے آئے ہوئے تھے ‘ حملہ آور فوج کا کوئی مقابلہ نہ کیا ہو اور کعبہ کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ کر پہاڑوں میں جا چھپے ہوں۔ اس لیے صورت واقعہ در اصل یہ ہے کہ عربوں نے ابرہہ کے لشکر کو پتھر مارے اور اللہ تعالیٰ نے پتھراو کرنے والی طوفانی ہوا کو بھیج کر اس لشکر کا بھرکس نکال دیا ‘ پھر پرندے ان لوگوں کی لاشیں کھانے کے لیے بھیجے گئے ۔ مولانا فراحی جیسے بھی تاویل کریں ‘ قرآن پاک سے یہ مفہوم واضح نہیں ہوتا ‘ محض خیال کی شعبدہ بازی ہے نیز تاویل کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ تاویل میں لفظ کا وہی معنیٰ لیا جائے گا جو اس لفظ کے معنی میں سے ایک ہو یا کم از کم وہ لفظ اس معنی میں استعمال ہو ۔ اگر تاویل میںا س لفظ کا ایسا معنی مراد لیا جائے جس کا معنوی طور پر اس لفظ سے کوئی تعلق نہ ہو تو ایسی تاویل باطل ہو گی ۔ مثلاََ فصل لربک والنحر ‘‘ اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی دے ۔ اب نحر کے عربی میں کئی معنی ہیں ‘ قربانی کرنا ‘ ایسے افعال بجا لانا جو نماز سے متعلق ہو ں جیسے تحویل قبلہ وغیرہ ‘ رفاع یدین کرنا ‘ دو سجدوں کے درمیان اس طرح بیٹھنا کہ سینہ ظاہر ہو وغیرہ وغیرہ ‘ امام رازی کہتے ہیں کہ کوئی اس مقام پر کسی اور دلیل کی بناء پر قربانی کرنا نہیں بلکہ دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا یا دعا سے پہلے ہاتھ بلند کرنا ہے تو دیگر مباحث اپنی جگہ ‘ اس کی یہ تاویل اس لحاظ سے بہر حال درست ہو گی کہ اس نے اس لفظ کا مرجوح معنی مراد لیا ہے لیکن اگر وہ یہ معنی مراد لے کہ دشمن کے گھر کو مسمار کر دو تو یہ تاویل باطل ہو گی کیونکہ اس تاویل کا اس لفظ سے معنوی طور پر کوئی تعلق نہیں ہے لہذا چیچک طاعون اور گدھوں کے جھنڈ مراد لینا باطل تاویلات ہیں ۔ ابن عباس ؓکی روایات ایسی تاویلات کا رد کرتی ہیں جو پہلے بیان ہو چکی ہیں۔
(۳) یہ بات بھی محل نظر ہے کہ مولانا فراحی کو اس تاویل کی کیوں ضرورت پیش آئی کہ اصحاب فیل کو گدھ کھانے آئے تھے ؟ یہ بات قرآن کریم کے اسلوب کے خلاف ہے کیونکہ قرآن مجید میں کئی اقوام کا ذکر ہے جن پر عذاب الٰہی نازل ہوا لیکن یہ کہیں ذکر نہیں کہ عذاب نازل ہونے کے بعد افراد کی لاشوں کو گدھ ہڑپ کر گئے یا کوئی اور جانور ۔ اس کے جواب میں مولانا موددی لکھتے ہیں کہ اصحاب فیل بھس بن کر رہ گئے اور اس کے بعد پرندے انہی کی لاشیں کھانے کو آئے تو کلام کی ترتیب یوں ہونی چاہیے تھی ترمیھم بحجارۃ من سجیل فجعلھم کعصف ما کول و ارسل عیلھم طیرََا ابابیل ۔ تم ان کو پکی ہوئی مٹی کے پتھر مار رہے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے کھاے ہوئے بھس جیسا کر دیا اور اللہ نے ان پر جھنڈ کے جھنڈ پرندے بھیج دئیے ۔ لیکن ہم یہاں دیکھتے ہیں کہ پہلے اللہ تعالی ٰ نے پرندوں کے جھنڈ بھیجنے کا ذکر فرمایا پھر اس کے بعد ترمیھم بحجارۃ من سجیل ‘ جو ان کو مٹی کے پکے ہوئے پتھر مار رہے تھے ‘ فرمایا ہے اور آخر میں کہا ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو کھائے ہوئے بھس جیسا کر دیا ۔ ( تفہم القرآن ۔ ۶۔۴۷۲) نہ جانے مولانا فراحی نے پرندوں کے جھنڈوں سے انکار کیوں کیا جنہوں نے دشمن کا صفایا کر دیا؟ ۔ ہر شے خدا کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ ’’ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر ‘‘ لہٰذا وہ پرندوں سے جو چاہے خدمت لے سکتا ہے ‘ اس کے حکم سے پتھر کے پیٹ سے اونٹنی برآمد ہوئی ‘ تنور سے پانی کا طوفان امڈ آیا ‘ عصا اژدھا کا روپ دھار لیتا ہے اور دریا نے حضرت موسیٰؑ اور اس کے لشکر کو راستہ دے دیا اور فرعونیوں کے لیے ہلاکت کا باعث بنا ‘ تو کیا ابرہہ اور اس کے لشکر کا پرندوں سے تباہ کروانا اس کی قدرت کاملہ سے بعید ہے؟ ۔ اس عبرت ناک واقعہ کا اثر کئی سالوں تک رہا اور قریش اس قدر متاثر ہوئے کہ کئی سال انہوں نے معبود حقیقی کے سوا کسی کی عبادت نہ کی ۔ حضرت ام ہانی اور حضرت زبیر ؓبن العوام کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ قریش نے دس سال اور بر وایت بعض سات سال تک اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی ۔ (تفہیم القرآن ۔۶۔۴۶۸) مولانا موددی ‘ مولانا فراحی کے اس بیان کوکہ قریش کے لوگوں اور دوسرے عربوں نے جو حج کے لیے آے ہوئے تھے ‘ حملہ آور فوج کا مقابلہ نہ کیا اور کعبہ کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ کر پہاڑوں میں جا چھپے‘ کہتے ہیں کہ تمام معتبر روایات کی رو سے ابرہہ کا لشکر محرم میں آیا تھا جبکہ حجاج واپس جا چکے تھے ۔ ( تو پھر وہ حملہ آور فوج سے کیسے لڑتے ) مزید مولانا مودودی کہتے ہیں کہ ساٹھ ہزار کے لشکر کا مقابلہ کرنا قریش اور آس پاس کے عرب قبائل کے بس میں نہ تھا وہ تو غزوہ احزاب میں بڑی تیاریوں کے بعد دس ہزار یا بارہ ہزار کے قریب فوج جمع کر سکے تھے۔ پھر بھلا وہ ساٹھ ہزار فوج کا مقابلہ کرنے کی کیسے ہمت کر سکتے تھے ؟
اعتراض نمبر ۱۸
اگر یہ کہا جائے کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ اصحاب فیل سے کعبہ کو محفوظ رکھا گیا ہے حالانکہ اس وقت اسلام کا ظہور نہ ہوا تھا ‘ اور حجاج ‘ قرامطہ اور پتلی ٹانگوں والے حبشی سے کعبہ کی حفاظت نہ ہو سکی
جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ ہا تھیوں کوکعبہ سے روکنے میں حضرت محمد ﷺ کی نبوت و رسالت کا اعلان اور مستحکم برہان مطلوب تھا کہ بصیرت سے معلوم ہونے والے دلائل سے پہلے بصر سے مشاہدہ کیے جانے کے دلائل سے آپ کی حجت کی تاکید ہے ۔ (واللہ اعلم ‘ورسولہ اعلم) اب رہا کہ بے حرمتی کرنے والوں کو فی الفور سزا کیوں نہ ملی تو اس جواب یہ ہے کہ انہوں نے بے حرمتی شرعی احکام اور قواعد کے مقرر ہونے کے بعد کی ہے اور جب سب کو بداہتاََ معلوم ہو چکا تھا کہ اللہ کے دین میں مکہ و کعبہ محترم ہیں اور ہر مومن کو یقین ہے کہ انہوں نے حرم میں بہت الحاد کیا ہے اور یہ بہت بڑے ملحد اور کافر ہیں اس لیے ان کو فوراََ سزا نہیں دی گئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی سزا کو روز قیامت کے لیے موخر کر دیا جیسا نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے حتیٰ کہ جب اس کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے تو پھر اس کو مہلت نہیں دیتا ‘ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی۔ ’’ ولا تحسبن اللہ ۔۔۔۔ فیہ الا بصار ( ابراہیم ۴۲،پارہ۱۳) ’’ظالموں کے کاموں سے اللہ کو ہرگز غافل گمان نہ کرو ‘ وہ انہیں صرف اس دن کے لیے ڈھیل دے رہا ہے جس دن آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی ‘‘ ۔
پیش گوئی : خانہ کعبہ کی چابی عثمان بن طلحہ سے آنحضرت ﷺ نے طلب کی تھی ‘ اس نے انکار کیا ‘ آپﷺ نے فرمایا: ایک دن یہ چابی میرے ہاتھ میں ہوگی اور میں جس کو چاہوں گا ‘ دو ں گا ۔ ‘‘ فتح مکہ کے موقع پر چابی عثمان سے لی گئی اور آپ ﷺ کے دست مبارک میں تھی ۔ یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی عثمان مسلمان ہو گیا تو آپﷺ نے عثمان کو بلایا عثمان قریب گیا تو آپ ﷺنے وہی کلید کعبہ اس کے ہاتھ پر رکھ دی ‘ فرمایا : لے سنبھال اسے ‘ اب یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ چابی تیرے گھرانے میں رہے گی اور کوئی ظالم ہی اس کو تمہارے خاندان سے چھیننے کی کوشش کرے گا ۔‘‘ یزید کے دور میں ایسا ہوا آپ کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی ۔اس لحاظ سے ابرہہ کے لشکر کی تباہی ہونا تھی اور حجاج اور قرامطہ وغیرہ کو ڈھیل دینا تھی ۔
اہم نکتہ :تاریخی کتب میں ہے کہ ابرہہ کا سارالشکر ہلاک ہو گیا مگر حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ میں نے اصحاب الفیل کے ہاتھی بان اور ہاتھی کو سدھانے اور سکھانے والے دونوں شخصوں کو اپنی زندگی میں مکہ میں دیکھا تھا ‘ دونوں اندھے ہو گئے تھے اور چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے تھے ۔ مکہ کی گلیوں میں وہ لوگو ں سے کھانا مانگتے پھرتے تھے ۔ ( اردو ترجمہ دلائل النبوہ ۔ ۱۔۱۸۱)
اگر یہ خبر صحیح ہو تو یہ توجیح کریں گے کہ اللہ تعالی نے ان کو لوگوں کی عبرت کے لیے زندہ رکھ چھوڑا ہو گا۔
اعتراض نمبر ۱۹
ایک جدید مصنف کہتا ہے کہ ’’ اگر ابرہہ مکہ فتح کر لیتا تو پورا جزیرہ نمائے عرب مسیحی بازنطینی پرچم تلے آجاتا ‘ صلیب کعبہ کی چھت پر آویزاں ہوتی اور شائد آنحضرت (ﷺ) ایک پادری یا راہب کی زندگی گزار کر چلے جاتے ‘‘ ۔( نقوش رسول نمبر۔۱۱۔۴۹۷۔حاشیہ )
جواب :
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
مذکورہ اعتراض میں جس خواہش کا اظہار کیا گیا ہے ۔ وہ خواہش کبھی پوری ہونے والی نہیں ہے ۔ قصہ اصحاب الفیل ۱۴۳۶ سال قبل وقوع پذیر ہوا تھا اور کہا جاتا ہے کہ گزرا ہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ ‘ اس واقعہ کا بار دیگر واقع ہونا ممکن ہی نہیں ۔ اس واقعہ کو سوا چودہ سو سال بیت گئے اور اب کوئی اس زمانہ میں آس لگا بیٹھے کہ ایسے ہوتا اور ایسے نہ ہوتا ‘ تو یہ ایک مجذوب کی بڑ اور دیوانے کا خواب ہے ۔ سوائے پچھتائے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا بلکہ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت کے مصداق ہے۔ یہ اسلام دشمنی ہے ۔ اور یہ کہنا کہ آنحضرت ﷺ ایک پادری یا راہب کی زندگی گزار کر چلے جاتے ‘ یہ مصنف کی نادانی ہے اور اس کے عقل پر جھاڑو پھر گیا ہے ۔ یہودی کافروں پر فتح حاصل کرنے کے لیے آپ ﷺکے وسیلہ سے دعا طلب کرتے تھے ‘ ارشاد ربانی ’’وَکاْنُوْا مِنْ قَبْلِ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلٰی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ۔۔۔ فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی الْکٰفِرِیْنَ ‘‘ ترجمہ : یہ لوگ نبی کے آنے سے قبل کافروں پر فتح آپ کے ذریعہ سے پانے کی آرزوئیں کرتے ‘ جب نبی ظاہر ہوا اور انہوں نے پہچان لیا تب اس کے منکر ہو گئے ‘ پس اللہ کی لعنت منکروں پر ۔‘‘
وہ عنقریب نبی آنے کے منتظر تھے ۔ حضرت عیسٰی ؑ آپﷺ کی آمد کی بشارت دے چکے تھے بارگاہ خداوندی سے نبی مکرم ﷺکے مبعوث ہونے کا فیصلہ ہو چکا تھا اور آپ ﷺ کی اس دنیا میں آپ کی تشریف آوری ہوئی ‘ اب اگر کوئی کہہ دے کہ وہ پادری کی زندگی بسر کر کے چلے جاتے تو ایسا ممکن ہی نہیں ۔ آج کا مصنف سوا چودہ سال پہلے کے اپنے بزرگوں کی بات نہیں مانتا جن کا عقیدہ تھا کہ عنقریب ایک نبی آنے والا ہے اور اس بات کا ذکر نہیں کرتے تھے کہ وہ راہب کی زندگی گزار کر چلے جائیں گے ۔ تو یہ اپنے بزرگوں کی نا فرمانی کر رہا ہے۔ ابن ہشا م لکھتا ہے کہ جب اللہ تعالی ٰنے نبی مکر م ﷺ کو مبعوث فرمایا تو واقعہ فیل متعدد واقعات میں سے ایک تھا جنہیں اللہ تعالیٰ نے قریش پر اپنے فضل ونعمت میں شمار فرمایا ۔ حبشیوں کی حکومت کو ان پر سے دور فرمایا کہ قریش کے زمانہ کو اقبال اور ان کو بقائے دراز حاصل ہو ۔
(۲) قصہ اصحاب الفیل میں پیارے رسول ﷺ کی دو طرح سے کرامت ظاہر ہے ۔ ایک تو یہ ہے کہ اصحاب الفیل غالب آتے تو وہ آنحضرت ﷺ کی قوم کو قید کر لیتے اور غلام بنا لیتے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اصحاب الفیل کو ہلاک کر دیا تا کہ اس کے سبب پاک حمل و طفولیت میں اسیری و غلامی کی پرچھائی تک نہ پڑے ۔ دوسرے یہ کہ اصحاب الفیل اہل کتاب تھے جن کا دین قریش کے دین سے بہتر تھا کیونکہ وہ بت پرست تھے مگر یہ آنحضرت ﷺ کے وجود باجود کی برکت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی حرمت قائم رکھنے کے لیے قریش کو ‘ باوجود بت پرست ہونے کے اہل کتا ب پر فتح دی ۔ یہ واقعہ آنحضرت ﷺکی نبوت کا پیش خیمہ تھا کیونکہ آپ کے دین میں اسی بیت اللہ کی تعظیم ‘ اس کے حج اور اسی کی طرف نماز کا حکم ہوا۔ ( سیرت رسول عربی ۔۱۹) لہٰذا مصنف کا اعتراض بے بنیاد ہے۔ انہیں تو اللہ کی طرف سے رسول مبعوث ہونا تھا،(اللّٰہ اعلم حیث یجعل رسالۃ) جو منشاء الہی تھا تو وہ کیسے ایک راہب یا پادری کی زندگی گزار کر چلے جاتے ۔ ؟سچ ہے ’’چاند پر خاک نہیں پڑتی‘‘۔
اعتراض نمبر ۲۰
’’اس صدمے نے خواجہ عبدالمطلب پر اور بھی سخت اثر ڈالا کیونکہ عبدالمطلب کے بیٹے اپنے باپ کے وقار کو برقرار نہیں رکھ سکتے تھے اور انہوں نے بعض ان عہدوں سے دست برداری اختیار کر لی تھی جن پر ان کے والد فائز تھے ‘ اس طرح نسبتاَ پست معیار زندگی پر قانع ہو گئے تھے ۔ ‘‘ ( سر ولیم میور ۔ ۷۔۱۹۸)
جواب : در اصل واقعہ یہ ہے کہ ابو طالب سقایہ کے منصب پر فائز تھے ۔ انہوں نے حاجیوں کے خرچ کے لیے اپنے بھائی عباس سے دس ہزار روپے لیے ۔ جب اگلا سال آیا تو انہوں نے اپنے بھائی سے چودہ ہزار روپے اس شرط پر لیے کہ ادائیگی نہ کر سکنے کی صورت میں وہ سقایا کا منصب رقم کی ادائیگی نہ کرنے پر اپنے بھائی عباسؓ کو دے دے گا وہ ادھار واپس نہ کر سکے اور اپنا منصب عباس ؓکے سپرد کر دیا وہ منصب ان کے پاس رہا‘ پھر ان کے فرزند عبداللہ کے پاس چلا گیا ۔ ( السیرۃ النبویہ۔ج ۔۱۰۶) سر ولیم میور اپنے اعتراض میں عبدالمطلب کے بیٹوں کے متعلق کہتا ہے کہ وہ اپنے باپ کے وقار کو برقرار نہ رکھ سکے اور بعض عہدوں سے انہوں نے دست برداری اختیار کر لی ۔ بات ایک بیٹے کی تھی یعنی ابو طالب نے رضا مندی سے اپنا منصب اپنے بھائی کے حوالے کیا اور ولیم نے بیٹوں کا نام لے دیا جو کسی طرح بھی درست نہیں ۔ با ت ایک کی تھی مگرلپیٹ میں سب بیٹوں کو لے لیا ‘ عجب لن ترانی کرتا ہے۔
عرب اپنی ناموس و ناموری کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار رہتے تھے اپنے نام کو بٹہ لگانا ان کے مزاج کے شایان شان نہ تھا اگر وہ اپنے عہدے چھوڑتے تو ان کے لیے مکہ میں سر اٹھا کر چلنا ممکن ہی نہ رہتا کیونکہ وہ معمولی معمولی باتوں پر جھگڑ پڑتے اور سال ہا سال تک یہ جنگی سلسلہ شروع ہو کر جاری رہتا تو بھلا کب وہ اپنے عہدوں سے دست برداری کر سکتے تھے ۔ جان تو جا سکتی تھی مگر آن پر آنچ نہیں آسکتی تھی۔ یہ عہدے نہایت اعزاز اور وقار کے حامل تھے ان سے دست برداری کا سوال ہی پید ا نہیں ہوتا تھا ۔ سر ولیم میور پر قرض ہے کہ وہ بتائیں کہ ابو طالب کے سوا آپ کے کون کون سے فرزندوں نے عہدے چھوڑے ‘ ؟ اور کن کن عہدوں سے مستعفی ہوئے ؟ اور یہ دلیل بھی نہایت کمزور ہے کہ باپ کے وقار کو برقرار نہ رکھنے کی وجہ سے ان کے بیٹوں نے عہدے چھوڑ دیئے ‘ بھلا اس عقل مند سے کوئی پوچھے کہ باپ کے ورثہ میں سے ملے مناصب کو چھوڑنے سے باپ کے وقار کو چار چاند لگ رہے ہیںیا باپ کے لیے بدنامی کا باعث بن رہے ہیں اس میں ان کی جگ ہنسا ئی ہے جو عربوں کے مزاج کے بالکل خلاف ہے وہ لڑ کر مر سکتے ہیں مگر اپنے وقار کو ٹھیس لگنے نہیں دیتے ۔ اس کے علاوہ سر ولیم میور نے یہ نہیں بتایا کہ اس بات کا حوالہ کون سی کتاب میں ہے جبکہ حو الہ کے بغیر کوئی بھی بات مستند نہیں مانی جاتی ۔ یہ درست ہے کہ ابو طالب نے اپنے منصبی فرائض پورے نہ کرنے سے اپنا عہدہ اپنے بھا ئی کے حوالے کر دیا اس میں کوئی حرج نہیں ‘ بصورت دیگر اس میں کوئی سنگینی پیدا ہوتی اور پھر یہ عہدہ بنو ہاشم ہی کے پاس رہا کسی اور خاندان میں منتقل نہیں ہوا ۔
تاریخ شاہد ہے کہ حضرت ہاشم نے اپنے بھائیوں ( عبدالشمس ‘ مطلب ‘ نوفل ) کو عبدالدار کو حرم کے مناصب لینے پر آمادہ کیا تھا ‘ چونکہ ہاشم سیاست ‘ ذہانت اور با عتبار مالی ان سے مضبوط تھے ۔ عبدالدار نے مناصب واپس کرنے سے انکار کیا ‘ جس پر دونوں طرف سے جنگی تیاریاں شروع ہوئیں ۔ آخر اس شرط پر صلح قرار پائی کہ بنی عبدمناف کوسقایہ اور رفادہ کے عہدے دے دیئے جائیں اور حجابہ ‘ لواء اور ندوہ بدستور عبدالدار کے پا س رہیں ۔ یہ بات فریقین نے مان لی ‘ جنگ ٹل گئی ‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام آیا تو آپ نے فرمایا ’’ جاہلیت میں جو معاہدہ تھا ‘ اسلام نے اس کے استحکام کو بڑھایا ہے ۔ ‘‘ یہ منصب عبدالمطلب اور ان کی اولاد ہی میں رہے ۔ اگر کسی مجبوری اور ضرورت کے سبب ایسا ہوتا ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ وہ عہدہ بنو ہاشم میں ہی رہتا ہے یا کسی اور قبیلہ کے پاس چلا جاتا ہے وہ عہدہ بنو ہاشم کے خاندان میں ہی رہا دست برداری نہیں کی تھی ۔ عبدالمطلب کے آبائواجداد نے مناصب واپس لینے کے لیے اپنی تلواریں سونت لیں اور ان کی اولاد ان عہدوں سے دست برداری کر لیں، نا ممکن ہے ۔ یہ مستشرق کی بھول ہے اور محض الزام تراشی ہے ۔
صبح سعادت
تاریخ عالم میں وہ دن عظمت والا دن ہے جس دن آپ ﷺ پیدا ہوئے ۔ آپ ﷺ کی ولادت با سعادت ۲۰ اپریل ۵۷۱ ء ہوئی کائنات کے داغ دار چہرے اور بگڑے نظاموں کو سنوارنے والا تشریف لایا ۔
ربیع الاول امیدوں کی دنیا ساتھ لے آیا
دعاؤں کی قبولیت کو ہاتھوں ہاتھ لے آیا
خلیل اللہ نے جس کے لیے حق سے دعائیں کی
ذبیح اللہ نے وقت ذبح جس کی التجائیں کیں
مبارک ہو کہ ختم المرسلین تشریف لے آئے
جناب رحمۃاللعالمینؐ تشریف لے آئے
٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...