Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات > حضرت محمد ؐ کی ولادت، بچپن اور معجزات

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

حضرت محمد ؐ کی ولادت، بچپن اور معجزات
ARI Id

1689956726155_56117718

Access

Open/Free Access

Pages

۹۷

حضرت محمدؐ کی ولادت، بچپن اور معجزات
اعتراض نمبر۲۱
شارٹر انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں سال پیدائش کے موضوع پر حسب ذیل تبصرہ پایا جاتا ہے ۔ ’’سال پیدائش ۵۷۰ ء مشتبہ ہے کیونکہ روایات ان کی پیدائش عام الفیل بتا تی ہیں اور ابرہہ کا مکہ پرحملہ اس سال سے قبل ہوا ہوگا ۔
(۲) ’’ لیمن ‘‘نے تاریخ پیدائش میں بہت سے شبہات اس بناء پر پیدا کرنے کوشش کی ہے کہ مدینہ میں آکر آنحضرت ﷺ نے جس فعالیت کا ثبوت دیا وہ کسی معمر اور پچاس سال سے زیادہ عمر والی شخصیت سے متوقع نہیں ہو سکتی ‘ اس وقت عمر بیس یا تیس سال ہونی چاہیے ۔‘‘ ( اسلام ۔پیغمبر اور مستشرقین مغر ب کا ا نداز فکر ۔۲۸۱)
جواب : انسائیکلوپیڈیا کے مولفین سن ۵۷۰ ء سے قبل اور لیمن فعالیت کی بنیاد پر بوقت ہجرت آپ ﷺ کی عمر بیس یا تیس سال کے لگ بھگ قیاس کرتے ہیں ۔ یہ ان کی پرانی طرز اور انوکھی منطق ہے کہ تاریخی مصادر کو چھوڑ کر طبع زاد اور اختراعی و وضعی مفروضوں پر بنیاد رکھتے ہیں جبکہ مفروضہ کو حقیقت سے کوئی علاقہ نہیں ہوتا ۔
کوئی حیدر سلیم اس سے یہ پوچھے
کہ پھونکوں سے کبھی سورج بجھا ہے
آپ ﷺ کی زندگی دو ادوار پر مشتمل ہے ‘ اول مکی دوم مدنی ۔ مکی زندگی تریپن سال اور مدنی زندگی دس سال پر پھیلی ہوئی ہے ۔ لیمن کے بقول آپ ﷺؑکی عمر بوقت ہجرت بیس یا تیس سال ہونا چاہیے تھی اس حساب سے مکی زندگی کے ۳۳ یا ۲۳ سال کو یہ مستشرق بیک جنبش قلم،قلم زد کر دیتا ہے جبکہ تاریخ نے ان سالوں پر محیط واقعات کو اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے ۔ آگے بڑھنے سے پہلے آپ ﷺ کی ابتدائی زندگی سے مدت العمر واقعات مختصر بیان کرتے ہیں تاکہ مستشرق کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کا شافی جواب دیا جا سکے ۔
۱۔ ولادت مبارک
۲۲ اپریل سن ۵۷۱ء
۱۳۔ ۳ نبوی ۴۳ سال کی عمر
مرد وخواتین کا اسلام لانا
۲۔ ایک ہفتہ بعد
عقیقہ ۔ نام رکھا
۱۴۔ ۵ نبوی ۴۵
ہجرت حبشہ
۳۔چار سال تک رہے
حلیمہ سعدیہ کی گود میں
۱۵۔ ۶ نبوی ۴۶
حضرت حمزہ و عمر کا اسلام لانا
۴۔ ۵ سال کی عمر میں
ماں کی گود میں
۱۶۔۷۔۔ ۴۷
مقا طعہ قریش
۵۔ ۶ ۔۔۔۔
والدہ کا انتقال
۱۷۔ ۱۰۔۔۵۰
ابو طالب وخدیجہ کا انتقال
۶۔ ۸۔۔۔۔۔
دادا کا انتقال
۱۸۔ ۱۱۔۔۵۱
مدینہ کے افراد کا ایمان لانا
۷۔ ۱۲۔۔۔۔۔
شام کا سفر
۱۹۔۔۱۲۔۔۵۲
مدینہ کے بارہ آدمی ایمان لائے
۸۔ ۲۵۔۔۔۔۔
خدیجہ سے شادی
۲۰۔۔۱۳۔۔۵۲۔۔
مدینہ کے ۷۲ آدمی ایمان لائے
۹۔ ۳۰۔۔۔۔
الامین کا خطاب
۲۱ ۔۔۱سن ھ ۔۵۴
ہجرت مدینہ
۱۰۔ ۳۵۔۔۔۔۔
حکم مقرر ہوئے
۲۲۔۔۲۔ ۵۵
غزوہ بدر
۱۱۔ ۳۷۔۔۔۔
غار حرا میں
۲۳۔۳۔۵۶
غزوہ احد
۱۲۔ ۴۰۔۔۔۔
نزول وحی
۲۴۔ ۴۔۔۔ ۵۷
قراء کی شہادت
۲۵۔ ۵ھ ۔۵۸
غزوہ خندق
۲۶۔ ۶۔۔۔۵۹
صلح حدیبیہ
۲۷۔ ۷۔۔۶۰
فتح خیبر
۲۸۔ ۸۔۔۔۶۱
فتح مکہ
۲۹۔ ۹۔۔۶۲
تبوک
۳۰۔ ۱۰۔۔۔۶۳
خطبہ حجۃالوداع
۳۱۔ ۱۱۔۔۶۳
وصال

(نقوش ۔۲۔۴۶۔۴۷)
مذکورہ فہرست سے ہجرت مدینہ سے قبل کے واقعات یعنی مکی زندگی کے تریپن سال کا یکسر انکار کر کے اپنے مقصد کو پورا کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے ۔ لیمن کے مفروضہ پر اسوہ حسنہ کے ہر لمحہ ‘ ہر پل ‘ ہر دن ‘ ہر ہفتہ اور ہر ماہ و سال کے بے نظیر و بے مثال سچے اور سچے واقعات کو چھوڑا نہیں جا سکتا نیز اس کی دلیل کمزور ہے جبکہ وہ کہتا ہے کہ ’’ابرہہ کا حملہ ۵۷۰ ء سے قبل ہوا ہو گا ‘‘ اس شک کی قطعاََ گنجائش نہیں ‘ البتہ بات بنتی جب ابرہہ کے حملے کا سن بتا دیتا حالانکہ وہ کہیں ظاہر نہیں کرتا بلکہ ابرہہ کا مکہ پر حملہ پیدائش سے قبل ہو اہو گا ‘ کہہ کر بات گول کر جاتا ہے ۔ نیز غیر معین سن کو بنیاد بنا کر فرضی سن کے سہارے تمام تاریخی واقعات سے انکار کرتا ہے جو تاریخ سے ناانصافی ہے ۔ ایک اور پہلو سے لیمن کے الزام کا رد کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔

اول

عمر شریف بوقت ہجرت
ہجرت اور بعثت کا درمیانی عرصہ
بوقت بعثت عمر مبارک
تاریخی مآخذ
۵۳سال
۱۳ سال
۴۰سال
لیمن مفروضہ
۲۰۔۳۰سال
۱۳ سال
۷ سال یا ۱۷سال
دوم

بعثت کے وقت عمر مبارک
مدت بعثت اور نکاح اول
عمر مبارک بوقت نکاح
تاریخی مآخذ
۴۰سال
۱۵ سال
۲۵ سال
لیمن مفروضہ
۷ یا ۱۷ سال
۱۵ سال
۸ سال یا ۲ سال
لیمن کے مطابق پہلے جدول سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بعثت نبوی کے وقت آپ کی عمر ۷ سال یا ۱۷ سال تھی دوسرے جدول سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت خدیجہؓ کی آپ ﷺ سے شادی آٹھ سال قبل از ولادت یا دو برس کی عمر میں قرار پائی ۔ ذرا سوچئے ! کوئی ذی شعور اور عقل مند اس جھوٹ کو سچ مان سکتا ہے کہ شادی ولادت سے پہلے ہوئی ہو ۔ سچ تو یہ ہے کہ عقل پر جھاڑو پھر جاتا ہے تو ایسی ہی فضول باتیں زبان سے نکلتی ہیں ۔ سچی بات ہے جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے ‘ نیز ایک جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے ان گنت جھوٹ بولے جائیں پھر بھی جھوٹ ‘ جھوٹ ہی رہتا ہے ۔ حضرت خدیجہ کی عمرشادی کے وقت چالیس برس تھی اور جناب رسول اللہ ﷺ کی عمر پچیس سال تھی ۔ مستشرقین ان دونوں ہستیوں کی عمروں سے اتفاق نہیں کرتے جبکہ تاریخی حقائق ان مستشرقین کے مفروضوں کا بطلان کرتے ہیں جیسا کہ پیچھے جدول سے ظاہر کیا گیا ہے
اعتراض نمبر ۲۱ کا دوسرا جز
آپ ﷺ کی عمر مبارک کے بارے میں لیمن کا ایک اور اعتراض دیکھیے ،کہتا ہے کہ مدینہ آکر آنحضرت (ﷺ) نے جس فعالیت کا ثبوت دیا وہ کسی معمر اور پچاس سال سے زیادہ عمر والی شخصیت سے متوقع نہیں ہو سکتی ‘ اس وقت عمر بیس یا تیس سال ہونی چاہیے ۔ ‘‘
جواب : نظریہ فعالیت سے ذہن میں کئی سوال اٹھتے ہیں کہ کیا پچاس سال کا آدمی فعال نہیں رہتا ؟ کیا اس عمر میں کام کرنے سے بندہ عاجز و بے بس ہو کر رہ جاتا ہے ؟ کیا یہ نظریہ فعالیت کا کلیہ صرف آپ ﷺ کی ذات کے لیے مخصوص ہے ؟ اگر ایسا نہیں تو اس عمر کے اور لوگ بھی فعال رہے یا نہیں ؟ اگر اور لوگ بھی اس عمر میں فعال رہے ہوں تو آپ ﷺ کا اس عمر میں فعال ہونا کیوں محال نظر آتا ہے ؟ آئیے سب سے پہلے تاریخ کے آئینہ میں چند دیگر افراد کی فعالیت کی مثالیں پیش کرتے ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے ۔ سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کے چند وفادار جان نثاروں سے شروع کرتے ہیں ۔
(۱) حضرت صدیق اکبر ؓ سے آپ ﷺ دو سال دو ماہ عمر میں بڑے تھے ۔ ابو بکر نے گیارہ ہجری میں ساٹھ سال نو ماہ بیس دن کی عمر میں خلافت کی باگ ڈور سنبھالی اور تیرہ ہجری تک خلافت کے فرائض سر انجام دیتے رہے ۔ شام ‘ روم ‘ اور عراق سے جنگیں بھی ہوئیں اور ان جنگوں سے متعلق تمام معاملات کو بخوبی نبھایا اور اپنی صلاحیتوں کو بھر پور طریقہ سے بروئے کا ر لاتے رہے ‘ بالآخر تیرہ ہجری میں تریسٹھ سال کی عمر میں رحلت فرما گئے ۔
(۲) حضرت عمر ؓکا دور خلافت ‘ جس کے معتر ف اپنوں کے بجز پرائے بھی ہیں ۔ ایران و روم کی حکومتوں کے نام و نشان مٹ گئے ۔ ہندوستان کی سر حد سے لے کر شمالی افریقہ تک اسلامی پرچم لہرانے لگا ۔ ایرانیوں نے سترہ سالہ یزدگرد کو بادشاہ بنایا اور جنگی تیاریوں میں دن رات ایک کر کے جت گئے ‘ جس کے نتیجہ میں جنگ قادسیہ ہوئی جس میں حضرت عمر ؓ نے شرکت کرنا چاہی لیکن صحابہ کرام کے مشورہ سے جنگ میں حصہ لینے سے باز رہے ‘ اس وقت آپ کی عمر اکیاون سال یا باون سال تھی عیسائیوں نے مطالبہ کیا کہ خلیفہ خود تشریف لا کر معاہدہ کریں ‘ آپ اپنے خادم کے ہمراہ سولہ ہجری کو ۵۴ یا ۵۵ سال کی عمر میں ایک سواری لیے بیت المقدس روانہ ہوتے ہیں۔ اس سواری پر باری باری خادم و مخدوم سوار ہوتے ہیں خلافت کی ذمہ داری سنبھالتے وقت آپ کی عمر ۵۲ سا ل ۵ ماہ اور ۲۶ دن تھی مدت خلافت دس سال چھ ماہ نو دن ہے ۔ آپ نے تریسٹھ سال پانچ دن کی عمر پائی ۔ مدت العمر فرایض انجام دیتے رہے حتی کہ آپ فجر کی نماز پڑھانے آتے ہیںکہ فیروز نامی ایک پارسی غلام جس کی کنیت ابولولو تھی ، چھ وار کرتا ہے ‘ وار بڑے سخت تھے جس سے آپؓ جانبر نہ ہو سکے اور ۲۳ ہجری میں دارالبقا کو سدھار جاتے ہیں۔ ’’ان للہ و انا الیہ راجعون‘‘۔
(۳) حضرت عثمان غنیؓ کی ولادت عام الفیل کے چھ سال بعد ہوئی آپ کی خلافت کا دورانیہ ۲۳ ہجری تا ۳۵ ہجری ہے ۔ آپ کی تاریخ ولادت میں اختلاف ہے ۔ آپ کی عمر میں ۸۰‘۸۲‘۸۹‘ ۹۰ سال تاریخ کے اقوال ہیں بہرحال اس پر اتفاق ہے کہ آپ ؓ کی شہادت ۳۵ ہجری میں ہوئی اور اخیر وقت تک کام میں مصروف رہے ۔ طویل عمر پائی اور فعال رہے ۔
(۴) حضرت علی ؓنے ۳۵ ہجری تا ۴۰ ہجری خلافت کے عہدہ پر فائز رہے ۔ تاریخ الخلفاء کے مطابق آپ کی عمر ۵۷ ‘ ۵۸ ‘۶۳‘ اور ۶۴ سال ہے ۔ فرائض کی انجام دہی کا یہ عالم کہ فجر کی نماز پڑھانے جاتے ہیں کہ دشمن نے حملہ کیا ‘ آخر کار معبود حقیقی سے جا ملے ‘ مدت العمر کام نمٹاتے رہے ۔ ذرا یہ بھی سن لیں ۔
۱۔آئن سٹائن ۱۸۷۹ ء میں پیدا ہوا ۔ ۱۹۴۰ ء تک ا پنے کام میں مصروف رہا اور ۱۹۴۳ ء میں ۶۴ سال کی عمر میں چل بسا گویا ۶۱ سال تک فعال رہا
۲۔ کوپر نیکس ۱۴۷۳ ء کو پولینڈ میں پیدا ہوا ۔ ۶۷سا ل کی عمر تک لیکچر ز دیئے اور ۱۵۴۵ ء کو ۷۲سال کی عمر میں فوت ہوئے ۔ ۶۷ سال تک فعال رہا ۔
۳۔ کارل مارکس : جرمنی کے قصبہ ٹرائز میں پیدا ہو ا۔۱۸۳۵ء میں بون اور بون سے برلن یونیورسٹی منتقل ہوا پھر ورجینیا یونیورسٹی سے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ۔۱۸۴۷ ء میں پہلی کتاب ’’ افلاس فلسفہ شائع کی ۔ ۱۸۶۷ ء میں ایک اور کتاب ورس سیٹپال شائع کی اور ۱۸۸۳ ء میں اس دنیا سے کوچ کر گیا۔
۴۔ جارج واشنگٹن ورجینیا میں پیدا ہوا ۔ ۷۷۵ ئ۱ فوج میں رہا ۔ ۱۷۷۴ ء میں براعظمی کانفرنس کا رکن بنا اور ۷۷۵ ۱ء میں دوسری براعظمی کانفرنس کا سپہ سا لار بن گیا ۔ ۱۷۷۵ء سے ۱۷۹۷ ء تک دوسرادور صدارت مکمل کیا آخر ۱۷۹۹ ء میں ۶۷ سال کی عمر پا کر فوت ہو گیا ۔ وہ موت سے پہلے دو سال تک فعال رہا ۔ (سو بڑے آدمی )
طوالت کے پیش نظر چند شخصیات کا ذکر کرنا کافی سمجھا ہے جبکہ تاریخ ایسے افراد سے بھری پڑی ہے جن کی فعالیت سے لیمن کا نظریہ فعالیت چکناچور ہو جاتا ہے ۔ یہ نظریہ لیمن کی اپنی اختراع ہے ۔
عہد حاضر کی دنیا میں سرکاری ملازم کی مدت ملازمت ساٹھ سال ہے اور کئی ممالک میں ججز کی مدت ملازمت ۶۵ سال اور اس سے بھی زیادہ ہے ۔ بعض سرکاری افسران (ریٹائرڈ )کو دوبارہ مختلف عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے جبکہ وہ اپنی مدت ملازمت پوری کر چکے ہوتے ہیں ‘ اگر وہ فعال نہ رہتے تو کیونکر انہیں کلیدی عہدوں پر فائز کیا جاتا؟ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ ملازمین غیر فعال ہوکر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی کے قابل اور فعال نہیں ہیں؟ کیا اس سے قوم و ملک کے پیسے کا ضیاع نہیں ہوتا ؟ کیا ان کی جگہ دوسرے ملازمین کا تقرر نہ ہونے کی صورت میں بے روزگاری کا عفریت قوم و ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرتا ہے ؟ مدت ملازمت مقرر کر کے پھر بھی دوبارہ انہی ریٹائرڈ ملازمین کو تعینات کرکے کوئی ملک یا قوم اپنے نقصان سے کیونکر غافل ہے اور اپنی نا اہلی سے ہونے والے نقصان کا سد باب کرنے کی بجائے ضیاع کا باعث بن رہی ہے ‘ آخر کیوں ؟ کیا فعالیت کی افادیت سے دنیا کے ممالک نا آشنا ہیں اور صرف لیمن ہی کو اس کا احساس اور علم ہے ؟ نہیں نہیں بلکہ اس عمر والاآدمی فعال رہتا ہے اور اپنے کام کو بخوبی انجام دے سکتا ہے ۔ ہمارے ملک پاکستان میں ۲۰۱۳ کے الیکشن کے لیے عارضی وزیراعظم مقرر کیا گیا جس کی عمر ۸۵ سال کے لگ بھگ تھی ۔ تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان پچیس اکتوبر سن ۱۹۵۲ کو پیدا ہوئے اور ۱۸ اگست ۲۰۱۸ء ‘ کو وزیر اعظم پاکستان کا حلف اٹھایا ان کی تیسری شادی سن ۲۰۱۷ء کے آخر میں ہوئی یعنی شادی کے وقت ان کی عمر ۶۵ سال تھی ۔ تاریخی شواہد اور روز مرہ کے مشاہدات و واقعات لیمن کے نظریہ فعالیت کا رد کرتے ہیں ۔ آج کی دنیا میں اس نظریہ کا بطلان نظر آ رہا ہے ‘ عملی طور پر ردہو رہا ہے نیز ملک و قوم کی خوش حالی کے لیے اس عمر کے افراد کی موجودگی مفید اور نہایت کار آمد ہے ۔ ’’جا ن پو رٹ‘‘ کہتا ہے ’’ آپ ﷺ کی شکل شاہانہ تھی ‘ خط و خال باقاعدہ اور دل پسند تھے ‘ آنکھیں سیاہ اور منور تھیں ‘ بینی ذرا اٹھی ہوئی ‘ دہن خوبصورت تھا ‘ دانت موتی کی طرح چمکتے تھے ‘ رخسار سرخ تھے ‘ آپ کی صحت بہت اچھی تھی ‘ آپ کا تبسم دلآویز ‘ شیریں اور دل کش تھا ‘‘ ( ن۔ ۴۔۵۳۰) لیمن کو بھی آپ ﷺ کی صحت و توانائی میں شک نہیں ‘ وہ آپ ﷺ کی آخری عمر جو تاریخ بتاتی ہے کہ فلاں فلاں کام انجام دئیے بلکہ تادم آخر کا م انجام دیتے رہے ۔ اس پر اسے اعتراض ہے کہ اس عمر کے پیٹے میں ایسے کام کرنا ممکن نہیں جو آپﷺ نے کیے کیونکہ اس عمر میں آدمی فعال نہیں رہتا ۔
آخری دس سالوں میں حضور ﷺ نے کفار مکہ کے ہاتھوں جسمانی اور ذہنی اذیتیں اٹھائی تھیں ، ان کا اثر آپ ﷺ کے اعصاب پر ہوا ہو گا کیونکہ انسانی فطرت ہے کہ کچھ عرصہ کی مزاحمت کے بعد قویٰ مضمحل اور کمزور پڑ جاتے ہیں ۔ اعلان نبوت کے وقت آپ ﷺ کے بڑھاپے کا آغاز تھا مگر آپ ﷺ نے مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کیا پھر بھی ان حوادث سے ان کی استقامت میں کوئی فرق نہ پڑا ۔ کیا تبلیغ دین کی سر گرمیوں میں ٹھہرائو یا کمی واقع ہوئی وغیرہ ۔ ان باتوں کا جواب حضرت حباب بن الارت کے ایک واقعہ میں موجود ہے ۔ جب کفار کی ایذا رسانی سے سخت تنگ آ گئے تو انہوں نے بارگاہ نبوی میں عرض کی یا رسول اللہ ! آپ ﷺ کفار مکہ کے خلاف بد دعا کیوں نہیں کرتے کہ ہمیں بھی سکھ کا سانس نصیب ہو۔ سنا تو حضور ﷺ کا چہرہ سرخ ہو گیا ۔ فرمایا: خباب گھبرا گئے ہو ، راہ حق میں ایسی ابتلاوں کا پیش آنا داخل معمول ہے ، تم سے پہلے لوگوں کو جرم حق پرستی کی ایسی ایسی اذیت ناک سزائیںدی گئیں کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے ، کئی ایسے تھے جنہیں آرے سے چیر دیا گیا مگر انہوں نے اف نہ کی ، خدا کارساز ہے وہ دن دور نہیں جب ہم اپنی مساعی میں کامیاب ہونگے اور شتر سوار صنعاء سے حضر موت تک سفر کرے گا اور اسے خدا کے سوا اور کسی کا ڈر نہ ہوگا ۔ آپ ﷺ اپنے آخری ایام زندگی تک صحت مند اور توانا رہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آپ ﷺ نے تیس جنگوں میں حصہ لیا ‘ وفود سے ملاقاتیں کیں‘ بادشاہوں کو مکتوبات لکھے ‘ ریاست مدینہ کو معاشی ‘ معاشرتی ‘ اخلاقی ‘ سیاسی ‘ دینی و مذہبی لحاظ سے مستحکم کیا حتی ٰ کہ نمازوں کی امامت انتقال سے تین دن قبل تک فرمائی ۔ صلوٰ علیہ وآلہ ‘‘ قارئین کرام کے علمی ذوق کے پیش نظر ایک نقشہ پیش خدمت کرتے ہیں ۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ (ربیع الاول ۱۱ھ ۔۔ ۲۲ جمادی الثانی ۱۳ھ )
تاریخ پیدائش
تاریخ وفات
کل عمر
مدت خلافت
عمربوقت خلافت
عام الفیل کے دو سال بعد
۲۲جمادی الثانی ۱۳ھ
۶۳سال
۱۰۔۲۔۲
۲۵۔۹۔۶۰
حضرت عمرؓ (۲۲جمادی الاول ۱۳ ھ۔۔۲۶ ذالحج ۲۳ ھ)
تاریخ پیدائش
تاریخ وفات
کل عمر
مدت خلافت
عمربوقت خلافت
۴۰برس قبل ہجرت نبوی
یکم محرم سن۲۴ھ
۵۔۰۔۶۳
۴۔۷۔۱۰
۲۶۔۵۔۵۲
حضرت عثمان ؓ (۴محرم ۲۴ھ۔۔۱۸ذوالحج ۳۵ھ)
تاریخ پیدائش
تاریخ وفات
کل عمر
مدت خلافت
عمربوقت خلافت
۶برس بعد عام الفیل
۱۸ ذوالحج ۳۵ھ
۰۔۰۔۸۲
۱۴۔۱۱۔۱۱
۱۶۔۰۔۷۰
حضرت علی ؑ (۲۵ ذوالحج ۳۵ھ۔۔۱۷ رمضان۴۰ھ)
تاریخ پیدائش
تاریخ وفات
کل عمر
مدت خلافت
عمربوقت خلافت
۵برس قبل بعثت نبوی
۱۷ رمضان ۴۰ھ
۰۔۰۔۵۷
۲۲۔۸۔۴
۳۔۲۔۵۳
امام حسنؓ (ربیع الاول ۴۱ھ ۔۔۔رمضان ۴۱ھ)
تاریخ پیدائش
تاریخ وفات
کل عمر
مدت خلافت
عمربوقت خلافت
۱۵ رمضان ۳ھ
۵ ربیع الاول ۵۰ ھ
۰۔۰۔۴۸
۱۰۔۶۔۰
۰۔۰ ۔۴۸
کل مدت خلافت۰۔۰۔۳۰سال
نقشہ کی اہمیت ۔۔ یہ حدیث حضرت سفینہ ؓ سے مروی ہے ’’ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ میرے بعد تیس سال تک خلافت منہاج نبوت پر رہے گی ‘ اس کے بعد پھر خلافت نہیں ہو گی بلکہ ملک گیری ہو جائے گی ۔ ‘‘یعنی خلافت صدیقی دو سال رہی اس کے بعد خلافت فاروقی ۱۰سال چھ ماہ رہی ‘ گیارہ سال خلافت عثمانی ‘ چھ سال خلافت علی اور چھ ماہ خلافت حسن کی ۔ یہ خلافت کا دورانیہ تیس سال بنتا ہے جس کو خلافت راشدہ کہا جاتا ہے اس کے بعد پھر ملک گیری مطمح نظر ہو گیا اور رشدو ہدایت کا وہ دور ختم ہوا جس کو خلافت نبوت کہا جا تا ہے ۔حضرت ام حبیبہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ جب سورہ ’’ اذا جاء نصر اللہ و الفتح ‘‘ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حضرت عیسیٰ ؑ بن مریم نے اپنی امت میں چالیس سال گزارے اور میرے بیس سال پورے ہو چکے ہیں اور میں اس سال میں فوت ہو جائوں گا ‘ پس سیدہ فاطمہ ؓ رونے لگی تو آپ ﷺ نے فرمایا میرے اہل بیت میں سے سب سے پہلے تم مجھ سے ملوگی ‘ پھر وہ مسکرانے لگیں ۔ (تبیان القرآن ،۱۲۔۱۰۲۰)
صاحب ترجمان السنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ارداہ کے بغیر خیال اس طرف منتقل ہوا کہ خلافت منہاج النبوۃ کی مدت کل تیس سال ہونے میں شاید حکمت یہ ہے کہ بحکم حدیث چونکہ ہر تاریخی نبی کی عمر پہلے نبی سے نصف ہوتی چلی آئی ہے اور چونکہ حضرت عیسیٰ ؑکی عمر نزول سے پہلے اور بعد کی عمر ملا کر ایک سو بیس سال ہے ۔اس لیے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری عمر ساٹھ سا ل ہو گی چنانچہ بحذف کسر آپﷺ کی عمر یہی ہوئی ‘ اس حساب سے اگر آپ کے بعد نبوت باقی ہوتی اور کوئی نبی آنا مقدر ہوتا تو اس کی عمر آپ کی عمر سے نصف ہونی چاہیے تھی ‘ وہ تیس سال ہی ہے ‘چونکہ یہاں نبوت اب ختم ہو چکی ہے اس لیے خلافت نبوت علی ٰ منہاج النبوۃکی عمر تیس سال مقدر ہوئی ۔ و اللہ الحمد ‘‘ ( ترجمان السنہ ۔۴۔۲۷۶)
اعتراض نمبر۲۲
کیا اسلامی نظام صر ف تیس سال قائم رہا ، اتنے مستحکم اور ہمہ گیر تحفظات کی موجودگی میں اسلام کا فقید المثال نظام عدل و مساوات خلافت راشدہ کی تیس سالہ مدت کے بعد برقرار نہ رہے سکا ۔
جواب: یہ محض مغالطہ آرائی ہے البتہ سیاسی نظام کی حد تک ہو سکتا ہے اور وہ بھی جزوی طور پر درست ہو سکتا ہے ۔ اسلام کے نظام کے ایک جز سیاسی میں زوال آنے سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسلام کا پورا نظام برقرار و قائم نہ رہا ۔ وہ کو ن سی بنیاد پر نا قابل عمل ٹھہرا؟ حالانکہ مسلمانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی مسلسل اسلامی تعلیمات کے ماتحت رہی ہے ۔ ان کی اخلاقی ، معاشی ، معاشرتی ، تعلیمی ، ثقافتی اور عدالتی زندگی بھی اسلام کے قانون کے مطابق چلتی رہی ۔ یہ عمل قابل غور ہے کہ ان کی سیاسی زندگی اسلام کے تابع رہی ہے ۔ اسلام کا مذہب اور سیاست دو الگ چیزیں نہیں ہیں کیونکہ سیاست ہو دین سے الگ تو چنگیزی بن جاتی ہے ، سے مسلمان خوب آشنا تھے ۔ یہ امر بھی نہایت قابل غور ہے کہ مذہب اور سیاست کی کبھی بھی اس طرح جدا راہیں نہیں رہی ہیں جیسے یورپ میں چرچ اور سیاست جدا ہوئے ۔ چرچ کی بالادستی ختم ہوئی تو مذہب کو اجتماعی زندگی سے مکمل خارج کر کے اسے انفرادی زندگی تک محدود کردیا گیا ۔ عیسائیت میں سیاست اور مذہب دو جداگانہ میدان ابتدا ہی سے چلے آتے ہیں ۔ یہ جدا گانہ حیثیت اس دور کے حالات کی پیدا وار ہے جب عیسائیت اپنا پرچار رومن ایمپائر میں کر رہی تھی ۔ روم معاشرہ مضبوط و مستحکم تھا۔ عیسائیت میں وہ قوت اور دم خم نہ تھا کہ اس معاشرے کے مد مقابل آتی اور للکارتی جبکہ حکومت کی گرفت مضبوط تھی ، اس سے ٹکر لینے کی بجائے اس کے دبائو سے محفوظ رہنے کے لیے اس نے با حیثیت عقیدہ یہ اعلان کیا کہ سیاست اور معاشرتی قدروں سے اسے کوئی لینا دینا نہیں اور عیسائی دعوت تو محض روحانی تسکین کا ایک نفع بخش ذریعہ ہے ۔ دوسری طرف جب عیسائیت نے مضبوط پنجے گاڑ ھ دیے تو رومن معاشرے کا اقتدار چھین لیا لیکن اسلام اس قسم کی سودا بازی نہیں کرتا ہے اور اس کا کوئی عقیدہ مصلحت کیشی کا دعوے دار نہ تھا ۔ ہم مصلحت وقت کے قائل نہیں ہیں ۔ اپنا معاشرہ خود تشکیل دیا اور اس کی تعمیر و ترقی غیر کی منت کش نہ تھی ۔
نو آبادیاتی جنگ سے قبل اسلامی تاریخ میں ہمیں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جہاں کسی بادشاہ نے اسلامی تعلیمات کو یکسر معطل کر کے خود کوئی اپنا قانون وضع کیا اور نافذ کیا ۔ یہ درست ہے کہ باد شاہوں نے قانون شریعت کی خلاف ورزی کی لیکن اس سے لا تعلقی کبھی نہیں کی ۔ ان کی ریاستوں میں شریعت کا قانون تھا اور تمام شعبہ ہائے زندگی کے امور میں عدالتی فیصلے اس کے مطابق ہوتے تھے ۔ سارے بادشاہ ایسے نہ تھے جبکہ کئی بہت نیک اور پر ہیز گار بھی تھے ۔ وہ بیت المال سے اپنے گزارے کے مطابق لیتے تھے اور بیت المال کو ذاتی خزانہ سمجھتے تھے نہ ہی اپنی شاہ خرچیوں کے لیے خزانہ سے رقم لے کر بے دریغ خرچ کرتے تھے ۔ ان مسلمان حکمرانوں کا موازنہ خلافت راشدہ سے کریں تو ہماری نگاہوں میں یہ جچتے نہیں ہیں لیکن بلا شبہ یہ درست ہے کہ ان مسلمان بادشاہوں کو غیر مسلم بادشاہوں کے معیار پر جانچا جائے تو یہ کہیں بہتر ہیں ۔ ان کا موازنہ ہم عصر بادشاہوں اور ان کے نظام سلطنت سے کیا جائے تو وہ بہت بہتر ہے ۔ البتہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ تیس سال بعد امت مسلمہ اپنے معیار کوخلافت راشدہ کی سطح تک برقرار نہ رکھ سکی جہاں تک امراء و سلاطین کی کار گزاریوں کا تعلق ہے ، ان سے مسلمان اس قدر بے تعلق رہے کہ ان کے نام تک ان کو یا د نہیں ، اگر تھے بھی تو وہ یاداشت سے محو ہو گئے ْ اس کے باوجود مسلمانوں نے خلفائے راشدین ، صحابہ کرام ؓ ، امام اربعہ اور دیگر اکابرین علماء سے واقف ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ ان شخصیات کا تعلق شریعت اسلامی سے تھا اور یہ ورثہ مسلمانوں میں منتقل کرتے رہے جس سے ان کی وابستگی رہی ۔ ان کی بدولت اسلام کے ساتھ مسلمانوں کا رشتہ پکا اور مضبوط رہا اور کبھی بھی ٹوٹنے نہ پایا ، جس سے عصری مسائل اور زندگی کے سارے معاملات میں رہنمائی ملتی رہی اور اسلام آگے بڑھتاہی رہا اور ان شا ء اللہ بڑھتا ہی رہے گا ۔
اعتراض نمبر۲۳
بعض مورخین کو شکایت ہے کہ اگرچہ آنحضرت ﷺ وہ واحد نبی ہیں جو تاریخ کے پورے روشن دور میں تشریف لائے مگر ان کے بارے میں ہم بہت کم جانتے ہیں ۔ ( حطی) ’’مستشرقین مغرب کا انداز فکر ‘‘
جواب : بیرون عرب تاریخی دور کتنا ہی روشن اور تابناک کیوں نہ ہو مگر عرب کو تاریخی اعتبار سے قبل از اسلام تاریکی کے دور سے محو نہیں کیا جا سکتا ۔ اس دورمیں عرب کی کوئی تاریخی کتاب نہیں پائی جاتی بلکہ عرب کا تاریخی دور آنحضرت ﷺ کے طفیل تاریخ میں نمودار ہو انیز تاریخ کے دائرہ کار میں کیا کچھ تھا ؟ صرف بادشاہوں یا بڑے لوگوں کے واقعات کو لکھا جاتا تھا اور آج بھی تاریخ کا یہی مزاج ہے کہ کئی موضوعات میں تو وسعت پیدا ہوئی مگر غیر اہم واقعات کو تاریخ محفوظ نہیں کرتی اور پھر تاریخ لکھنے کا رواج نہ تھا ۔ تو ان حالات میں تاریخی واقعات نایاب ہونے کی شکایت کرنے سے کیا حاصل ۔؟ ایک سوال یہ ہے کہ تاریخ سے کیا مراد ہے ؟ تاریخ کیسے مرتب ہوتی ہے ؟ کن واقعات اور کن لوگوں کا تذکرہ تاریخ کے اوراق کی زینت بنتا ہے ؟
تاریخی واقعات ماضی کی یاداشت ہی ہیں جس میں اس دور کے اہم واقعات درج ہوتے ہیں اور مورخ کے نقطہ نظر کے پابند ہوتے ہیں ۔ ان میں صرف ان افراد کا ذکر ہوتا ہے جن کے بغیر واقعہ نا مکمل رہ جاتا ہو نیز تاریخ اہم افراد کو اپنے دامن میں سمیٹتی ہے اس اعتبار سے کہا جائے کہ آنحضرت ﷺ نے کیا کیا؟ کب کیا ؟ کیسے کیا ؟ تو ان کا کارنامہ اللہ کا دیا ہو ادین اسلام ہے اور کب اور کیسے کی مکمل تاریخ موجود ہے ۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے اور ذہن نشین ہونی چاہیے کہ تاریخ کا ایک قانون یہ بھی ہے کہ جب تک کوئی شخصیت اپنے برگ و بار کے ساتھ قد آور شجر نہ بن جائے تب تک وہ شخصیت تاریخ میں جگہ نہیں پا سکتی ‘ اسی قانون کے پیش نظر اگر کسی ہستی کے پیدائش ‘ بچپن کے حالات اور واقعات واضح نہیں ہوتے لیکن جب وہ تاریخی شخصیت بنتی ہے تو اس عظیم ہستی کے تذکرے کے بغیر مورخ تاریخ مرتب کرنے کی جرات نہیں کرسکتا ۔ اس سلسلہ میں جن جن لوگوں کو اس ہستی کے بارے میں ماضی کے واقعات یاد ہوتے ہیں وہ اپنی یاداشت وحافظہ کی بنیاد پر بیان کرتے ہیں تو یہی واقعات تاریخ کا جز و بنتے ہیں لیکن کوئی ایسی وجہ نہ ہو جو ان کی شہادت کو نا قابل اعتبار اور نا قابل قبول بنا دے۔ یہ ایک ایسا فار مولا ہے جس کے اشارات قرآن مجید سے بھی ملتے ہیں مثلا َ سورہ الفیل میں فرمایا گیا ہے ‘ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا ؟ حالانکہ یہ واقعہ آپ کی بعثت سے چالیس سال پہلے ہوا تھا تو جو واقعہ آپ کی پیدائش سے پہلے رونما ہوا ہو ‘اس کے لیے یہ کہا جائے کہ آپ نے نہیں دیکھا تو اس کے کیا معنی ہوئے ؟ اس کا جواب یہ ہے اور اس واقعہ میں یہ اشارہ ہے کہ پرندوں کے کنکریاں پھنکنے کا واقعہ تواتر سے ثابت تھا اور اس کا علم عرب میں ہرکس وناکس کو ہو چکا تھا اور اس کا علم ایسا ہی یقینی تھا جیسا کہ کسی چیز کو دیکھ کر علم ہوتا ہے پس کیا آپ نے نہیں دیکھا ‘ یہ اس معنی میں ہے ‘ کیا آپ نے نہیں جانا ‘ لیکن چونکہ اس کا علم مشاہدہ کی طرح یقینی تھا اس لیے فرمایا کہ کیا آپ نے نہیں دیکھا؟ ( تبیان القرآن ۔ ۱۲۔۹۸۱) اگر یہ کہا جائے کہ نبی مکرمﷺ کو الم تر کیف کیسے فرمایاحالانکہ یہ واقعہ بعثت سے کافی عرصہ پہلے رونما ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں دیکھنے سے مراد علم اور یاد دلانا ہے۔یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اصحاب الفیل کے قصہ کی خبر متواترہے لہٰذا جو علم اس خبر سے حاصل ہو گا وہ ’’علم ضروری ‘‘ ہو گا اوروہ علم اپنی قوت کے دیکھنے کے مساوی ہو گا ۔ (سیرت محمدیہ ترجمہ مواہب الدنیہ۔ ۷۰) مولانا مودودی بھی الم تر کیف کے متعلق کہتے ہیں کہ دیکھنے کا لفظ استعمال کیا گیا جبکہ مکہ اور مکہ کے اطراف واکناف اور عرب کے وسیع علاقہ میں مکہ سے یمن تک ابھی بہت سارے لوگ زندہ تھے ‘ جنہوں نے یہ واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا جبکہ اس واقعہ کو ۴۰یا ۴۵ سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا اور سارا عرب اس کی متواتر خبریں دیکھنے والوں سے سن چکا تھا۔ یہ واقعہ لوگوں کے لیے آنکھوں دیکھے واقعہ کی طرح یقینی تھا ۔ ‘‘ دنیا کی ہر تاریخ میں اور ہر تاریخ کے اجزائے ترتیبی یہی عوامی شہادتیں اور بیانات ہوتے ہیں ‘ تو پھر آپ کی ذات پر الزام کیسا ۔ ؟
’’لامنس‘‘ کے نزدیک آنحضرت ﷺ کی مکی زندگی کے حالات محض افسانہ ہیں۔ مذکورہ بیانات اس مستشرق کے الزام کو رد کرتے ہیں ۔ان مستشرقین کی غرض ایسے الزامات دھرنے سے یہ ہوتی ہے کہ ثابت کیا جائے کہ دیگر انبیاء کے حالات زندگی کی طرح جن پر دبیز پردے پڑے ہیں اور بہت کم حالات کا پتہ چلتا ہے ‘ جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ بھی نہایت مختصر ہوتا ہے بلکہ کہیں کہیں ابہام کی گھٹائیں چھائی ہوتی ہیں‘ ثابت کرنا ہوتا ہے۔ جبکہ پیغمبر اسلام ﷺ کی زندگی کا ہر باب سورج کی طرح تاباں اور روشن نظر آتا ہے ۔ ہر پل ‘ ہر لمحہ ‘ حضر یا سفر ‘ امن یا سکون اور غزوات و سریہ کے واقعات پوری آب وتاب سے روشن ستاروں کی طرح چمکتے نظر آتے ہیں ۔ جو جو اور جس جس لمحے کر دکھا یا ۔
صد یاں بیتیں پھر بھی آپ کی زندگی میں انسانیت کے لیے ہر شعبہ زندگی سے متعلق ہدایات موجود ہیں ۔
اقوام عالم میں آپ ﷺ سے قبل جتنے بھی دین کے پیشوا یا بانیان مذہب و ملت اور انبیاء کرام ؑ گزرے ہیں ان کے تاریخی تعارف کے متعلق ان کی ولادت سے لے کر اب تک یقینی طور پر اس سے زیادہ کچھ بھی معلوم نہیں جو بائبل میں ان کے متعلق مختصر تذکرہ درج ہے اور وہ عدم محفوظیت اور تحریفات کی وجہ سے ان کی عظمت شان کے خلاف ہے مثلا حضرت نوح ؑ کے متعلق کتاب پیدائش باب ۱۹ ، آیت نمبر ۲۱ میں ہے ’’ نوح ؑ نے شراب پی اور ننگا ہو گیا ‘‘ اور حضرت لوط ؑ کے متعلق کتاب پیدائش باب ۱۹ آیت ۳۰ تا اختتام باب میں مذکور ہے ’’ لوط ؑ نے شراب پی اور اپنی صاحبزادیوں سے ہم بستر ہوا ۔ وہ حاملہ ہوئیں اور ان سے اولاد پیدا ہوئی ۔ نعوذ باللہ ۔انجیل متی باب چھبیس میں ہے کہ یہودا حواری نے تیس روپے رشوت لے کر مسیح ؑکو گرفتار کرایا ‘‘ اس کے برخلاف حضور ﷺ کی ذات وہ واحد شخصیت ہے جو تاریخ میں تعارف کے اعتبار سے یکتا ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ تاریخ کی روشنی میں ہم حیات مسیح ؑکے کچھ واقعات دیکھ سکتے ہیں لیکن ان تیس سالوں سے کون پردہ اٹھا سکتا ہے جو انہوں نے نبوت سے پہلے گزارے۔جو کچھ ہم جانتے ہیں ، اس نے اگرچہ دنیا کی معلومات میں کسی حد تک اضافہ کر دیا ہے اور آئندہ مزید انکشافات متوقع ہیں، تاہم ایک مثالی زندگی ، کون جانے ، کتنی قریب ہے اور کتنی دور ، کتنی ممکن ہے کتنی نا ممکن ! ہم ابھی بہت کچھ نہیں جانتے ۔ ہم ان کی والدہ ماجدہ کے بارے میں ان کی گھریلوزندگی کے بارے میں ،ان کے ابتدائی دوست احباب اور ان کے تعلقات باہم کے بارے میں اور اس سلسلہ میں بھلا کیا جانتے ہیں کہ مسند نبوت پر وہ بتدریج فائز ہوئے یا وحی پا کر یک دم خدائی مشن کے حامد بن گئے ؟ بہر حال کتنے ہی سوال ایسے ہیں جو ہم میں اکثر کے ذہنوں سے ٹکراتے ہیں مگر وہ بس سوالات ہیں ، جواب کے بغیر ۱ البتہ محمد ﷺ کے بارے میں صورت یکسا ںمختلف ہے ۔ یہاں ہمارے پاس اندھیروں کی بجائے تاریخ کی روشنی ہے ۔ ہم محمد ﷺ کے بارے میں اتنا ہی جانتے ہیں جتنا لوتھر اور ملٹن کے بارے میں ۔ یہاں واقعات کا دامن ، خیال محض ، قیاس ، تخیم ظنی ، ماورائے فطرت روایات اور افسانوی وضعوں سے آلودہ ہونے کی بجائے حقائق سے آراستہ ہے اور ہم با آسانی معلوم کر سکتے ہیں کہ اصل حقیقت کیا ہے ؟ یہاں کوئی شخص نہ خود اپنے کو دجل و فریب میں مبتلا کر سکتا ہے نہ دوسروں کو ۔ یہاں ہر چیز دن کی پوری روشنی میں جگمگا رہی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ ان کی شخصیت کے بہت پرت ہیں اور ان میں سے ہر ایک تک ہماری رسائی ممکن نہیں ہے تاہم محمدﷺ کی زندگی کے متعلق ہر چیز جانتے ہیں ۔ان کی جوانی ، ان کی اٹھان ، ان کے تعلقات ان کی عادات ابتدائی حالات اور پہلی وحی کے نازل ہونے تک کا لمحہ ، ذہنی سفراء اور ارتقاء وغیرہ ۔ نیز ان کی داخلی باطنی زندگی کے متعلق بھی ، اور یہ کہ جب اعلان نبوت کر چکے تو پھر ہم ایک ایسے مکمل کتاب پاتے ہیں جو اپنی ابتدا ، اپنی حفاظت اور متن وغیرہ کے کئی پہلووں کے لحاظ ممتاز و منفرد ہے اور اب تک ایسی کوئی معقول و مستند وجہ سامنے نہیں آئی جس کی بنیاد پر اس کتاب کے خلاف کوئی شدید اعتراض کیا جاسکے ( با سورتھ اسمتھ ،ن۔۱۱۔۵۴۲)
(۲) جب قرآن نے ایک اصول دے دیا کہ خبر متواتر یقینی ہوتی ہے تو ان واقعات کو افسانہ کہنا دیوانے کا خواب اور مجذوب کی بڑ ہے ۔ نیز قرآن مجید سے ایک اور اشارہ بھی ملتا ہے ۔’’ آپ ﷺکی زندگی میں مومنوں کے لیے بہترین نمونہ ہے ۔ ‘‘ جب آپ ﷺکے اسوہ حسنہ کی پیروی کرنا مقصودٹھہرا تو پھر یہ کس منہ سے کہتے ہیں کہ کم حالات کا پتہ چلتا ہے یا ابتدائی حالات افسانہ ہیں کیونکہ نا مکمل اسوہ کی پیروی نہیں کی جا سکتی اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی زندگی مومنوں کے لیے نمونہ بنا دی ‘ تو اس سے انکار کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اس اسوہ کی پیروی کرنے سے انکاری اور بے زار ہیں ۔ متعصب مستشرقین کا آپ ﷺ کی ابتدائی زندگی کے حالات وواقعات سے لا علمی جہالت اور نا دانی ہے جبکہ مکی دور کے روشن اور درخشاں واقعات جیسے جنگ فجا ر ‘ حلف الفضول حلیمہ سعدیہؓ کے ہاں قیام‘ شام کا تجارتی سفر‘ دادا جان اور ابو طالب کی کفالت ‘ نکاح مبارک ‘ حجر اسود کا نصب کرنے کا معاملہ وغیر ہ تاریخی اوراق کی زینت ہیں جنہیں تاریخ نے اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے ۔ ان واقعات کو تاریخ سے محو نہیں کیا جا سکتا بلکہ مستشرقین اپنے تعصب پر ایسی آراء دیتے دیتے مٹ گئے اور مٹ جائیں گے ۔ لامنس کے الزام کے بارے میں مستشرقین کی رائے پیش کرتے ہیں ۔لامنس کا الزام ’’مکی دور کے حالات محض افسانہ ہیں ‘‘ واٹ کے نزدیک یہ نقطہ نظر بھی انتہا پسند انہ ہے کہ مکی دور کے سارے واقعات مشکوک یا غیر ثابت شدہ ہیں ۔ ‘‘ ایک اور جگہ واٹ ‘ لامنس پر سخت تنقید کرتا ہے کہ وہ ذاتی رجحانات اور مفروضوں پر ساری عمارت کھڑی کر دیتا ہے واٹ نے لامنس کے اس انداز کو ’’ مصادر سے کھلواڑ کرنے ‘‘ سے تعبیر کیا ہے ‘‘ ۔ نولدیکے نے جب لامنس کی تحقیقات پر اپنے خیالات کا اظہار اپنی کتاب Die Tradition Uber Das leben Muhammeds میں کیا تو واٹ نے یہ تبصرہ کیا کہ لامنس کے بہت سے غلو پسند خیالات میں ترمیم ہونی چاہیے ۔‘‘ (علوم اسلامیہ اور مستشرقین۔۱۰۲) ان کے ہمنوا عالموں کا لامنس کے بارے میںجب ایسی آراء ہیں کہ غلو پسند ہے ‘ مفروضوں اور ذاتی رجحانات پر ساری عمارت کھڑی کر دیتا ہے تو ہمیں اس کے مفروضات سے کیا لینا دینا البتہ اس کے غلط الزامات سے پیدا کردہ شکوک کو رفع کرنا ضروری تھا اس لیے بیان کر دیا ورنہ اس کے ساتھی مستشرقین نے اس کی انتہاپسند انہ علمیت کے پرخچے اڑا دیئے ہیں ۔ دوسری طرف خود واٹ بھی ان غلطیوں کا شکار ہو جاتا ہے جیسے اس نے آنحضرت ﷺ کی ولادت اور حضرت خدیجہ سے آپ ﷺ کی شادی کے درمیانی عرصہ میں جو اہم واقعات پیش کرتا ہے ان کا جائزہ یو ں لیتا ہے ۔ ’’ شادی سے پہلے ان واقعات سے محمد ﷺ کی زندگی پوری طرح متاثر رہی ‘ ایک مورخ کے نقطہ نظر سے چند باتیں غور طلب ہیں ‘ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں ایسی روایتیں موجود ہیں جن کی نوعیت فقہی ہے لیکن ایک مورخ کے نزدیک وہ صحیح نہیں ہے کیونکہ ان میں ایسے واقعات بھی شامل ہیں جن کو محمد ﷺ کی زندگی کے مختلف ادوار سے منسوب کیا جا سکتا ہے البتہ اپنے مفہوم کے لحاظ سے پرہیز گار مسلمانوں کے لیے یہ روایتیں محمد ﷺ کے مقصد کو پورا کرتی ہیں ‘ اس طرح ان کو صحیح قرار دیا جا سکتا ہے ‘ وہ نبی کی زندگی کے شایان شان ایک ضمیمہ ہو سکتی ہیں ‘ وہ عقیدت مندی کی پیداوار ہیں ‘ بہر کیف اس جگہ ہم ابن اسحق کی روایت کے مطابق زیادہ مشہور واقعات کو ہی بیان کریں گے۔ ‘‘ واٹ نے ابن اسحق کی روایت کے مطابق دو فرشتوں ( شق صدر )ا ور بحیرہ راہب کے واقعات کو ذکر کیا ہے اور یہ تنقید کی ہے کہ نبی (ﷺ) کی پیدائش اور شادی کے درمیان ایک چوتھائی صدی کے عرصہ میں جو وا قعات پیش آئے ‘ ان کے لیے قاری کو ٹھوس بنیادیں نہیں ملتیں ۔ مگر سوال یہ ہے کہ بحیرا راہب کا واقعہ اگر محل نظر ہے اور تنقید کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا تو دونوں فرشتوں کے ذریعہ شق صدر کے واقعہ کا کیوں انکار کیا ہے ؟ حالانکہ ابن ہشام ‘ ابن سعد اور بلاذری جیسے سیرت نگاروںاور مورخین کے علاوہ امام مسلم اور امام احمد جیسے محدثین نے بھی اس کو نقل کیا ہے ‘ مزید برآں یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ اس واقعہ کا تعلق غیبی سر چشمہ سے ہے جس کے بعد نبی کی ذات تاریخ کے عقلی تجربہ سے بالا تر ہو جاتی ہے ۔ ( علوم اسلامیہ اور مستشرقین ۔۹۱) واٹ نے حضورﷺ کا سال پیدائش ۵۷۰ ء لکھا ہے ‘ وجہ اختلاف نہیں لکھی‘ بغیر وجہ اختلاف اور حوالہ کے یوں ہی لکھ دینا معتبر نہیں ہوتا ۔
اعتراض نمبر ۲۴
ڈاکٹر منظور ممتاز ( انسان کامل ونبی مکمل ۔۸) لکھتا ہے ’’ کہ ہو سکتا ہے ایسا ہی ہوا ہو لیکن ان واقعات کاپایہ ثبوت تک پہنچنا از حد مشکل ہے کہ ایک طرف تو ایوان کسریٰ کے کنگروں کے گرنے کی تاریخ و وقت کسی تحریر سے ثابت ہو اور ( ۲) ادھر اس یتیم بچہ کا اسی تاریخ اور اسی وقت پیدا ہونا بھی تحریراََ ثابت ہو سکے جو ممکنات میں اس لیے نہیں کہ عبد ا لمطلب کے پیدائشی یتیم پوتے کا پیدا ہونا اس وقت ایسا عظیم واقعہ نہ تھا جسے مکہ کے معد ودے چند پڑھے لکھے لوگ تحر یر کرتے ‘ ( ۳) حالانکہ مکہ کے لوگ کاغذ کے استعمال سے آشنا نہ تھے ‘ ( ۴) بادشاہوں کی اولاد کی تاریخ پیدائش کو بھی تحریر سے ثابت کرنا نا ممکن سی بات ہے تو پھر مکہ کے ایک خاندان میں پیدائشی یتیم کی تاریخ ولادت کا تحریری ثبوت کہاں میسر آسکتا ہے ‘‘؟
جواب : آپ کی ولادت با سعادت ۲۱ اپریل ۵۷۰ء بوقت صبح عرب کے شہر مکہ میں ہوئی ۔ روایات سے نبی مکرم ﷺ کی ولادت کے متعلق کچھ عجائبات کا ثبوت ملتا ہے مثلا حضرت آمنہ ؓ کا دیکھنا کہ ان سے ایک نور جدا ہوا ، اس شب میں ایوان کسری ٰ کے کنگرے گر پڑے گویا آپ کی تاریخ ولا دت ایوان کسریٰ کے کنگروں کے گرنے کی تاریخ ہوئی نیز تاریخ اس سلسلہ میں خاموش ہے کہ ایوان کے کنگرے قبل یا بعد از ولادت گرے لہٰذا ثابت ہوا کہ کنگروں کے گرنے کی تاریخ ا ور وقت آپ کی ولادت کی تاریخ ا وروقت ہی ہے ۔ کیونکہ آپ کی تاریخ ولادت کی شہادت ماخذاور مصادر دیتے ہیں اور محل کے کنگروں کا گرنا آپ ﷺ کی ولادت کے موقع پر ہوا لہٰذا آپ کی ولادت کی تاریخ ووقت کنگروں کے گرنے کی تاریخ اور وقت ہے ۔ رہی یہ بات کہ ولادت کی تاریخ تحریری طور پر ثابت کرنا از حد مشکل ہے تو اس بیان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تحریری تاریخ پیدائش ثابت کرنا نا ممکن نہیں اور جس کو ماخذوں سے معلوم کیا جا سکتا ہے جن کا درجہ نہایت قوی ہے ۔ مثال کے طور پر آپ کی ولادت سے قبل کی صدیوں پر محیط تاریخی ریکارڈ پہلی اقوام کے حالات کا پتہ دیتا ہے جس طرح آپ کی ولادت سے قبل نصف صدی سے کم واقعہ اصحاب الفیل لوگوں کے حافظہ میں تھا ۔ عرب کا حافظہ بلا کا تھا بلکہ امام زہری کا بیان لو گ نقل کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ میں ’’ بقیع کی طرف گزرتا ہوں تو اپنے کانوں کو بند کر لیتا ہوں ‘ اس اندیشہ سے کہ ان میں کوئی فحش بات داخل نہ ہو جائے کیونکہ قسم خدا کی میرے کان میں کوئی بات اب تک ایسی داخل نہیں ہوئی جسے میں بھول گیا ہوں ( تدوین حدیث از مناظر احسن گیلانی۔ ۴۳) ۔ کسی چیز کو ریکارڈ اور محفوظ کرنے کے طریقے حافظہ ‘ تحریر اور عمل کے ہوتے ہیں ۔ قرآن مجید کی موجودہ کتابی شکل جو آج ہمارے ہاں موجود ہے کتابت اور حافظہ کے دو طریقوں سے محفوظ کیا گیا ہے عرب حافظہ میں قوی تھے اور بلا کی یاد اشت رکھتے تھے تو وہ لوگ آپ کی پیدائش کو محفوظ کرنے سے کیونکر غافل رہے ہوں گے ؟ اگر تحریری ثبوت میسر نہیں تو ان حفاظ کے واسطہ سے آپ کی تاریخ ولادت محفوظ ہو گئی اور بعد ازاں ضبط تحریر میں لائی گئی تو اس میں کو ن سی اچنبھے کی بات ہے ؟ان حفاظ کے ذریعے خبرمتواتر ملتی ہے جو کسی واقعہ سے یا قصہ سے متعلق ہوتی ہے ا ور اس خبر کا علم حقیقت میں دیکھنے کے برابر ہوتا ہے جیسے قصہ اصحاب الفیل ‘ آپﷺ کی تشریف آوری کی متواتر خبریں یہود و نصاریٰ کے علماء کی زبان زد تھیں۔ آپ کی آمد کی بشارت ’’ وَمبشر بر سول یا تی من بعدی اسمہ احمد ‘‘ ( الصف ۔۲۶۔۶۱) حضرت عیسیٰ ؑ نے دی اور قرآن نے تصدیق فرما دی ۔ آپ ﷺکی پیدائش مبارک سے قبل راہبوں کا عربوں کو مطلع کرنا اور ولادت ہونے پر چیخ اٹھنا کہ وہ آج پیدا ہو گیا جس کی آمد کے وہ منتظر تھے ‘ نیز یہ بھی کہہ اٹھے کہ بنی اسرائیل سے نبوت جاتی رہی ‘ اس قدر شہر ت و مشہوری اور متواتر خبروں سے فرار ممکن نہیں ۔
عبدالمطلب کے پیدائشی یتیم پوتے کا پیدا ہونا اس وقت عظیم واقعہ نہ تھا جسے مکہ کے معدودے چند پڑھے لکھے لوگ تحریر کرتے جبکہ مکہ کے لوگ کاغذ کے استعمال سے آشنا نہ تھے ‘‘۔
جواب: یہ بات درست نہیں کیونکہ قبل از ولادت آپ کے عظیم ہونے کی پیش گوئیاں سابقہ آسمانی کتب میں موجود تھیں ۔ یہود و نصاری کے علما ء ایک نبی کی آمد کے منتظر تھے ‘ انہیں صدیوں سے انتظار تھا اور انہوں نے آپ ﷺکی دنیا میں تشریف لانے کی خبریں خوب پھیلائیں آپ ﷺکی شہرت ولاد ت سے قبل اطرا ف و اکناف میں پھیل چکی تھی بایں سبب آنے والے نبی کے نام پر لوگوں نے اپنے بچوں کے نام رکھے ‘ شائد کہ یہی بچہ وہ الصادق اور الامین ہو مگر اسے ہی بنانا تھا جس کا انتخاب خدائے لم یزل کی طرف سے ہو چکا تھا ۔ آپ ﷺکی ولادت پر یہود و نصاری کے علماء اور راہب پکار اٹھے ‘ وہ آگیا ‘ وہ آگیا جس کاا نتظار تھا ۔ ولادت سے پہلے اور بعد جسے اتنی شہرت ملی لوگوں میں اس کی آمد کے چرچے رہے تو پھر ڈاکٹر صاحب کا کہنا کہ عبدالمطلب کا پیدا ہونا عظیم واقعہ نہ تھا ‘ یہ کہنے میں ڈاکٹر صاحب نے بڑی جسارت کی ہے ۔ دا دا جا ن کا اپنے پوتے کا نام محمد ﷺ رکھنا از خود ایک عظیم واقعہ ہے تبھی تو قریش نے پو چھا تھا کہ اس نومولود کا نام محمد ﷺ کیوں رکھا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں نے یہ نام اس لیے رکھا ہے کہ اللہ آسمان میں اور اللہ کی مخلوق زمین میں اس بچے کی تعریف کے گن گائے ۔صلو اعلیہ وآلہ وسلم
اہم نکتہ: اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت عیسٰیؑ کی پیش گوئی جس کی تصدیق قرآن مجید نے کی اور دیگر کتب آسمانی میں آپ سے متعلق پیش گوئیاں موجود ہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ پہلے کی پیش گوئیاں ہیں اور ولادت کے وقت کسے معلوم کہ ان پیش گوئیاں کا مصداق یہی در یتیم ہے ؟ لیکن اس بات سے انکار کیسے ممکن ہے ’’ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ مکہ میں ایک یہودی تجارت کرتا تھا جس رات آنحضرت ﷺ کی ولادت ہوئی ‘ اس یہودی نے پوچھا ’’ اے گروہ قریش کیا تم لوگوں میں آج کی رات کوئی مولود پیدا ہوا ہے ؟ قریش نے کہا کہ ہمیں اس کا علم نہیں ۔‘‘ اس نے کہا ۔۔ آج کی رات اس آخری امت کا نبی پیدا ہوا ہے ۔ قریش یہ سن کر یہودی کو ساتھ لے کر آپ کی والدہ ماجدہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ کے بیٹے کو دیکھنے آئے ہیں ۔ آپ کی والدہ ماجدہؓ نے انہیں آپﷺ کو دکھا یا۔ قریشیوں نے آپﷺ کی پشت مبارک سے کپڑا ہٹایا تو یہودی اس علامت نبوت کو دیکھ کر بے ہوش ہو کر گر پڑا اس نے کہا اللہ کی قسم آج سے نبوت بنی اسرائیل سے چلی گئی ۔
عبدالمطلب اپنے گھر سے نکلے اور عیصی کے پا س آکر اسے آواز دی ۔ اس نے مکان پر سے عبدالمطب کو دیکھا اور کہنے لگا خدا کرے تم ہی اس مولود کے باپ ہوں میں جس مولود کی تم لوگوں سے باتیں کیا کرتا تھا ‘ وہ آج یعنی دوشنبہ کو پیدا ہو گیا ‘ وہ دو شنبہ کے دن نبی ہو گا اور دو شنبہ کے دن وفات پائے گا ۔ عبدالمطلب نے کہا آج کی رات صبح کے وقت ایک مولود میرے ہاں پیدا ہوا ہے ۔ عیصی نے پوچھا تم نے اس کا کیا نام رکھا ہے ؟ عبدالمطلب نے کہا : محمد ﷺ ۔عیصی نے کہا اے اہل بیت اللہ ۔۔ میں واللہ یہ تمنا کرتا تھا کہ یہ مولود تم لوگوں میں پیدا ہو ۔۔ تین خصلتوں کے باعث کہ وہ خصلتیں اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ وہی مولود ہے جو ان تین خصلتوں پر آیا ہے۔
اول :اس مولود کا ستار ا ا ٓج کی رات طلوع ہوا ۔۔
دوم: وہ آج کے دن پیدا ہوا ہے یعنی سوموار ۔
سوم : اس کا نام محمد ﷺ ۔ ایک ایک پل یہود و نصاری کے علما ء نبی مکرم کی تعریفیں کر رہے ہیں یہودی جسے دیکھ کر بے ہوش ہو کر گر رہا ہے کیا یہ خبر دانگ عالم میں پھیلی نہ ہوگی اور ڈاکٹر صاحب ہیں کہ انہیں یہ واقعہ عظیم ہی نہیں لگتا اور روایات سے اعراض کرتے ہیں ۔ مکہ کے معدودے چند لوگ پڑھے لکھے تھے اور اہل مکہ کاغذ کے استعمال سے نا آشنا تھے ۔ ‘‘ سب سے پہلے زمانہ جاہلیت کو سمجھ لینا ضروری ہے ‘ اس کا ترجمہ و مفہوم کہ عرب کے چند لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے یا لکھنا پڑھنا جانتے ہی نہ تھے ۔ مستشرقین کے یہ دونوں نظریے غلط اور حقیقت سے کوسوں دور ہیں ۔ عربی زبان اور قرآن مجید کے عام محاوروں سے نا آشنائی ہے اور ان کے خلاف ہے ‘ یہ ترجمہ و مفہوم سمجھنا عربی لٹریچر سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے ۔ لکھنے پڑھنے کے سلسلہ میں عرب کا بھی یہی حال تھا جو عموماََ اس زمانہ میں ہے ۔ اگر کامل متمدن ممالک نہیں تو نیم متمدن ممالک کا حال یہی ہے ۔ جس طرح قدیم زمانہ میں تقریباََ ہر ملک اور قوم میں لکھنے پڑھنے والوں کا ایک پیشہ ور طبقہ ہوتا تھا اور عام کو اس سے چنداں تعلق نہ تھا جس طرح ہزار ہاکوششوں کے باوجود ترقی یافتہ دنیا میں آج بھی شرح خواندگی کم ہے ہمارے اپنے ملک پاکستان کی شرح خوندگی ۵۲ فیصد ہے اور باقی نا خواندہ ۔ عربوں کی ایک خاص تعداد یا معدودے چند پڑھے لکھے لوگوں کی تھی ‘ ایسا نہیں کہ گنتی کے چند لوگ پڑھے لکھے تھے جنہیں انگلیوں پر شمار کیا جا سکتا ہے ۔جس طرح کہ ہمارے کچھ کرم فرمائوںنے ان کی تعداد سترہ تک لکھ دی ہے ‘ توجہ فرمایئے ! مدرسوں کے سلسلے میں کسے یقین آسکتا ہے کہ اس زمانہ جاہلیت میں وہاں نہ صرف تعلیمی درس گاہیں بلکہ ایسی درس گاہیں تھیں جن میں مخلوط تعلیم تھی ۔ ابن قتیبہ نے عیون الاخبار میں بیان کیا ہے کہ مکہ کے قریب رہنے والے قبیلہ ہذیل کی ضرب المثل فاحشہ ظلمہ جب بچی تھی ‘ وہ ایک مدرسہ میں جاتی تھی اور اس کا دلچسپ مشغلہ یہ تھا کہ دواتوں میں قلم ڈال اور نکال کر کھیلا کرتی ‘ اس دلچسپ واقعہ سے اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ قبیلہ قریش کے رشتہ دار قبیلہ ہذیل میں ایسے مدرسے تھے جو چاہے کتنی ابتدائی نوعیت کے ہی کیو ں نہ ہوں ‘ ان میں لڑکیاں اور لڑکے اکٹھے تعلیم پاتے تھے( ن۔۴۔۱۱۶)
ف: زمانہ جاہلیت میں مدرسے تھے ۔ (۲) عوام میں اپنے بچے بچیوں کو تعلیم دلوانے کا رواج تھا۔ (۳) مخلوط تعلیم تھی ۔ (۴) سامان نوشت و خواند میسر تھا تو ان مدارس کی موجودگی میں یہ کیسے مان لیا جائے کہ جہاں لڑکیاں لڑکے تعلیم حاصل کرتے ہیں اس وقت مکہ کے معدودے چند لوگ پڑھے لکھے تھے؟ کیا درس گاہیں تو تھیں اور بچے تعلیم حاصل کرنے نہیں جاتے تھے ؟ کیا اساتذہ موجود نہ تھے ؟ یا عوام میں بچوں کو تعلیمی زیور سے آراستہ کرنے کا شوق نہ تھا ؟ یا سامان نوشت و خواند نہ تھا ؟ جب تعلیم کے حصول میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ تھی تو یہ کہہ دینا کہ چند لوگ تعلیم یافتہ تھے ‘ درست نہیں ۔ ڈاکٹر محمد عجان الخطیب کے حوالہ سے (صاحب ضیاالنبی ۔۷۔۱۱۰۔۱۰۹)لکھتے ہیں ’’ علمی تحقیق اس حقیقت کا انکشاف کرتی ہے کہ عرب کے لوگ اسلام سے پہلے لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور وہ اپنی اجتماعی زندگی کے اہم واقعات پتھروں پر لکھ دیتے تھے ۔۔۔ مزید کہتے ہیں کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں مدارس موجود تھے جن میں بچے کتابت ‘ شاعری اور عربی تاریخ سیکھتے تھے اور ان مدارس کے بڑے با اثر معلم ہوتے تھے جیسے ابو سفیان بن امیہ و غیرہ‘‘ اور جو شخص کتابت ‘ تیر اندازی اور تیراکی میں ماہر ہوتا اسے ’’ کامل ‘‘ کا لقب عطا کرتے تھے ‘‘ عکاظ کے میلے میں شاعر ‘ خطیب ‘ مقرر ‘ ادیب شرکت کرتے تھے گویا عرب میں عربی زبان کو ایک تحریری زبان کا درجہ دیا گیاتھا۔
فرض کریں یہ مان لیا جائے کہ عرب کاغذ کے استعمال سے نا آشنا تھے ‘ تو اس سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی تاریخ ولادت کو ضبط تحریر میں نہیں لایا گیا جبکہ اس وقت نوشت کے سامان میں کئی چیزیں میسر تھیں مثلاََ جانوروں کی ہموار ہڈیاں ‘ چمڑے کی باریک جھلیاں اور ہموار پتھروں کی تختیاں (جسے آج کل سلیٹیں کہتے ہیں ) اور ہموار لکڑی کی تختیاں ‘ جو آج کل بھی استعمال میں ہیں یا دھات کے ٹکڑوں پر ‘ اندراج کیا گیا ہو گا یا حفظ کر لیا گیا ہو گا ۔ ہجرت کے موقع پر گرفتار کرنے کے لیے سراقہ بن مالک آنحضرت ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کا تعاقب کرتے ہوئے نزدیک آ پہنچتا ہے ۔ گھوڑا زمین میں دھنس جاتا ہے تین بار اسی طرح ہوا آخر وہ اپنا ارداہ ترک کر دیتا ہے اور بارگاہ نبوی میں درخواست کرتا ہے کہ امان نامہ عطا فرمائیں ۔ امان نامہ لکھ کر دے دیا جاتا ہے ۔ ذرا سوچیں !جس چیز پر یہ امان نامہ لکھا گیا تھا وہ چمڑے کی جھلی تھی اب یہ بات غلط ثابت ہوئی ہے کہ لہذا کاغذ کے نہ ملنے سے تاریخ ولادت کی تحریر سے انکار ممکن نہیں کیونکہ کسی بھی میسر لکھنے والی چیز پر تاریخ پیدائش لکھی جا سکتی تھی ۔ محض کاغذ کی نایابی اور نا آشنائی کے بہانہ سے انکار کرنے کی قطعاََ گنجائش نہیں ہے ۔ کاغذ لکھنے کے لیے میسر نہیں تو نا سہی ‘ کوئی حرج نہیں کیونکہ دوسری چیزیں نوشت کے لیے دستیاب ہیں ۔ حرج تو تب ہوتا کہ لکھنے کے لیے کوئی چیز بھی نہ ملتی ۔ ہر دور میں مختلف اشیاء نوشت موجود تھیں جیسے قدیم زمانہ کے کتبے جو دھات سے بنے ہوتے تھے ‘ آج کل دریافت ہو رہے ہیں اور ان پر لکھی عبارات سے بہت انکشافات ہو رہے ہیں ۔ اہل عرب کے سبع معلقات اور مقاطعہ قریش کعبہ میں آویزاں تھے ‘ غسان اور حبشہ کے شہزادوں سے تجارتی تحریری معاہدات تھے ۔ ورقہ بن نوفل نے توریت کا ترجمہ عربی زبان میں کیا تھا ۔ یہ سب تحریری ثبوت ہیں جو کسی چیز پر آخر کار لکھے گئے تھے ۔آپ کے دادا جان خواجہ عبدالمطلب بن ہاشم نوشت و خواند سے آشنا تھے ‘ ابن الندیم کہتا ہے ‘ مامون الرشید کے کتب خانہ میں خواجہ عبدالمطلب کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک دستاویز تھی ‘ یہ چمڑے پر لکھی ہوئی تھی اس کے الفاظ یہ تھے ‘ میں عبدالمطلب بن ہاشم مکہ کا رہنے والا ہوں ‘ میں نے فلاں بن فلاں ذات حمیری ساکن صنعا کو چاندی کے ایک ہزار درہم قرض دیئے ہیں یہ اس پر واجب الادا ہیں جب طلب کیے جائیں گے وہ ادا کرے گا ‘ اللہ اور اس کے فرشتے اس پر گواہ ہیں ‘‘ ۔ ( سیرت اعلان نبوت سے پہلے ۔ ۲۲۶)
اب جہاں تک کاغذ سے نا آشنائی کا تعلق ہے ۔ اس کے بارے میں عرض ہے کہ تسائی لون نے شہنشاہ ہوتی کو ۱۰۵ ء کے قریب کاغذ کے نمونے پیش کیے تھے ۔ تسائی کی ایجاد سے پہلے مغرب میں چرمی کاغذاستعمال ہوتا تھااور مصری یونانی پیپرس نے چمڑے کے کاغذ کی جگہ لے لی ۔ ۷۵۱ ء میں عربوں نے چینی لوگوں سے کاغذ کا ہنر سیکھا اور تھوڑے عرصہ میں ثمر قند اور بغداد میں کاغذ تیار ہونے لگا گویا ولادت مبارک اور عربوں کا کاغذ کے ہنر کو سیکھنے کی درمیانی مدت میں کاغذ نہ سہی تو کچھ نہ کچھ اور کوئی نہ کوئی سامان نوشت موجود تھا ۔ تسائی کا ۱۰۵ ء میں کاغذکے نمونے ہوتی شہنشاہ کو دکھانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کاغذ ایجاد ہو چکا تھا لیکن شاید پوری دنیا میں ابھی نہ پہنچا ہو اور رفتہ رفتہ کاغذ دنیا میں پہنچنے لگا ۔ عربوں میں کتابت کے رواج کے متعلق ڈاکٹر فواد سز گین اپنی کتاب ’’ مقدمہ تاریخ تدوین حدیث‘‘ میں رقم طراز ہے’’ اسلام سے قبل ایک صدی کے بعض شعراء کی روایت سے ہمیں کم از کم یہ پتہ چلتا ہے کہ دوا وین سے روایت ان کے یہاں ایک رائج طریقہ تھا اور شعراء کو تو لکھنے کی عادت بھی تھی ۔ زہیر بن ابی سلمہ جیسے شعراء خود اپنے قصائد کی تنقیح کیا کرتے تھے ۔ یہ نظریہ کہ جاہلی شاعری کا سا را ذخیرہ زبانی روایت پر مبنی ہے ‘ دور جدید کی ہی تخلیق ہے اس طرح یہ بھی ایک غلط خیال ہے کہ حدیث کی روایت محض زبانی ہوتی رہی بلکہ صدر اسلام میں نصوص مدونہ کو روایت کرنے کا رواج دور جاہلیت کی عادت پر مبنی ہے ۔
ڈاکٹر صاحب کا یہ کہنا کہ بادشاہوں کی اولاد کی تاریخ پیدا ئش کو بھی تحریر سے ثابت کرنا نا ممکن سی بات ہے تو پھر مکہ کی ایک خاندان میں پیدائشی یتیم کی تاریخ ولادت کا تحریری ثبوت کہا ںسے میسر آ سکتا ہے ؟ ۔
جواب : اس عبارت میں آپ پر بادشاہوں کی اولاد کو فوقیت دی گئی ہے ( نعوذ باللہ ) تحریری تاریخ پیدائش کا فارمولا وضعی ہے وہ اس طرح کہ بادشاہوں کی اولاد کی تاریخ ولادت کا تحریری ثبوت نا ممکن ہے تو مکہ کے ایک خاندان کے پیدائشی یتیم کا تحریری ریکارڈ کیسے میسر آ سکتا ہے ؟ خواہ کوئی ہو اگر اس کی تاریخ پیدائش کا تحریری ثبوت نہیں ملتا تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دوسرے شخص کی تاریخ پیدائش بھی تحریری طور پر نہیں مل سکتی ۔ یہ فارمولا سرے سے غلط اور وضعی ہے کاغذ کی ایجاد ۱۰۵ ء میں ہوئی ۔ آپ ﷺ کی ولادت با سعادت ۵۷۱ ء میں ہوئی گویا ۴۶۶سال پہلے کاغذ موجود تھا جسے استعمال میں لایا جاتا ہو گا۔دوسری بات یہ ہے کہ یہ سرداروں اور عظام کا گھرانہ ہے ۔حضرت ابراہیمؑ و اسمٰعیل ؑ کی اولاد ہیں ۔ صحیح مسلم میں ہے ’’ واثلہ بن اسقع سے روایت ہے ۔ آپ نے فرمایا ’’ اللہ تعالی ٰنے حضرت اسمٰعیلؑ کے فرزندوں میں سے کنانہ کو اور کنانہ سے قریش کو اور بنی ہاشم کو قریش سے برگزیدہ کیا اور مجھ کو بنی ہاشم سے برگزیدہ کیا ‘‘۔ آپ ﷺاس خاندان کے چشم و چراغ ہیں اور اسی خاندان سے آپﷺ آخری پیغمبر ہیں ۔ ان کے خاندان کے عظام کے حالات مختصر لکھتے ہیں ۔ مکہ حضرت اسمعیل ؑ کے فرزند نابت کعبہ کے متولی ہوے ‘ ان کے بعد مضاض بن عمرو جرہمی متولی ہوے یہ مضاض نابت بن اسمٰعیل ؑکی اولاد کے نانا ہیں ‘ بقول ڈاکٹر حمیداللہ ‘ کچھ دیر کے لیے حضرت اسمٰعیلؑ کی اولاد اور بنو جرہم میں مشترکہ کنٹرول رہا ہو ‘ بعد ازاں بنو جرہم جلا وطن ہوئے تو غیشان جو بنو خزاعہ میں سے تھے ‘ کعبہ کے متولی ہوے ۔ یہاں تک کہ ان کا آخر ی جانشین حلیل بن حبشہ بن سلول ہوا ۔ قصی نے اس کی بیٹی حبی سے شادی کر لی ‘ ان کے چار فرزند عبد الدار ‘ عبدلمناف ‘ عبدالعزیٰ اور عبداء ہوے۔ قصی کے مال اولاد میں ترقی ہوئی ‘ ادھر ان کے خسر حلیل وفات پا گئے تو انہوں نے کہا کہ کعبہ کی تولیت کے ہم زیادہ مستحق ہیں نہ کہ بنی بکر اور بنی خزاعہ ‘ حتٰی کہ تولیت قصی کو مل گئی ۔ وہ کعبہ کی تولیت اور مکہ کی حکومت پر مسلط ہو گئے ‘ انہوں نے تمام اطراف سے قوم کو بلا کر مکہ میں آباد کیا اور اہل مکہ جن چیزوں کے مالک تھے ‘ انہیں ان کا مالک ہی رکھا قصی نے نظم ونسق حکومت چلانے کے لیے کئی محکمے بنا کر قریش کے دس خاندانوں میں بانٹ دیے لیکن خانہ کعبہ کی کل خدمات مثل حجابہ ‘ سقایہ ‘ رفادہ ‘ ندوہ اور لواء اور قیادہ ان کے تصرف میں رہیں ۔ کیا یہ گھرانہ سرداروں کا گھرانہ نہ تھا ؟ آپ کے داد انے حبشہ اور غسان کے بادشاہوں سے تجارتی معاہدے کیے‘ جس سے عربوں کے مال کو لٹنے کاکسی قسم کا خطرہ باقی نہ رہا۔ کعبہ کی تولیت کے سبب پورے عرب میں ہاشمی گھرانے کی عزت کی جاتی تھی ۔ نہ جانے یہ تاریخی حقائق ڈاکٹر صاحب کی نظر سے کیوں دور رہے ۔ ؟ ولادت سے قبل آپ کی آمدﷺ کی پیش گوئی حضرت عیسٰی ؑ نے کی
(۲)ان سابقہ الہامی کتب میں آپ کی علا مات موجود تھیں
(۳) آپ کے وسیلہ سے ( قبل از ولادت ) یہودی فتح پانے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا طلب کرتے تھے
(۴) یہود ونصاری ٰ کے علماء اور راہبوں نے آپ کی آمد کے چرچے اطراف و اکناف میں کیے ۔ خبریں دیں کہ ایک نبی عنقریب آنے والا ہے ۔
(۵) یہودی پکار اٹھتا ہے اے گرو ہ قریش ! کیا تم لوگوں میں آج کی رات کوئی مولود پیدا ہوا ہے ‘ انہوں نے لا علمی کا اظہار کیا ہے ‘ اس نے کہا اس امت کا آخری نبی پیدا ہوا ہے ‘ اس کے دونوں شانوں کے درمیان ایک علامت ہے۔ قریش یہ سن کر یہودی کو ساتھ لیے بی بی حضرت آمنہؓ کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تیرے فرزند کو دیکھنے آئے ہیں ۔بی بی آمنہ ؓ نے آپ ﷺ کو انہیں دکھایا ‘ قریشیوں نے پشت مبارک سے کپڑا ہٹایا تو یہودی اس نبوت کی علامت کو دیکھ کر بے ہو ش ہو کر زمین پر گر پڑا ۔ اس نے کہا ! اللہ کی قسم آج سے بنی اسرائیل سے نبوت چلی گئی ۔ ( مواہب لدنیہ ۔ ۹۱ ) عیصی نامی یہودی راہب نے بھی آپ کے دادا جان کو آپﷺ کے نبی ہونے کا بتایا نیز علامات بھی بتائیں ۔ قبل از ولادت پیش گوئیاں ‘ پیدا ہونے پر راہبوں کا اعتراف کرنا کہ آج ’’ احمد ﷺ ‘‘ کا وہ ستارہ جس کے ساتھ آج کی رات وہ پیدا ہوئے ہیں ،طلوع ہو گیا ہے ۔‘‘ ایسی باتیں بادشاہوں کی ا ولاد کے متعلق بھی کہیں ملتی ہیں ۔ چہ نسبت خاک را با عالم پاک ۔
بعض کا یہ لکھنا تعجب خیز ہے کہ اس واقعہ کو دروغ گو راویوں نے یہاں تک و سعت دی کہ یہودیوں کو دن سال تاریخ اور وقت ‘ تمام کا حال معلوم تھا حالانکہ ولادت نبوی سے قبل علماء یہود ان سب کا پتہ بتایا کرتے تھے اور عیسائی راہبوں کو تو ایک ایک خط وخال معلوم تھا بلکہ پرانے گھرانوں ‘ دیروں اور کنیسوں میں ایسی مخفی کتب موجود تھیں جن میں آپ کا تمام حلیہ لکھا ہوا تھا اور اگلے لوگ ان کو بہت چھپا چھپا کر رکھا کرتے تھے بلکہ بعض دیروں میں آپ کی تصویر تک موجود تھی ۔ تورات و انجیل میں آنحضرت ﷺ کے متعلق بعض پیش گوئیاں حقیقت میں موجود تھیں اور وہ آج بھی ہیں لیکن وہ استعارات و کنایات اور مجمل عبارتوں میں ہیں ‘ ان کو ضعیف اور موضوع روایتوں میں صاف صاف آپ کے مرتبہ و مقام کی تخصیص و تعین کے ساتھ پھلایا گیا ہے ۔ ( ترجمان السنہ ۔ ۴۔۵۵) اس پر قرآن مجید کی شہادت موجود ہے ۔
اَلَّذِیْنَ ئَ اتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ کَمَا یَعْرِ فُوْنَ َ اَبنَآ ئَ ھُمْ( الا نعام۲۰، پارہ ۷) ترجمہ : جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی وہ جس طرح اپنے بیٹوں کو پہنچانتے ہیں اسی طرح ہمارے اس پیغمبرﷺ کو بھی پہچانتے ہیں ‘‘ ۔ تفاسیر میں منقول ہے کہ ’’ جب کسی نصرانی سے مسلمان ہونے کے بعد یہ سوال کیا گیا کہ کیا تم کو آنحضرت ﷺ سے فی الواقع اولاد کی سی ہی معرفت حاصل تھی ‘ تو اس نے کہا ‘ بلکہ اپنی اولاد سے بھی بڑ ھ کر کیونکہ اپنی اولاد کا تعین تو صرف عورت ( اس کی والدہ ) کے بیان پر ہوتا ہے جس کی دیانت اور صداقت میں شبہ کی گنجا ئش نکل سکتی ہے ‘ لیکن آنحضرت ﷺ کی معرفت تو ہم کو ان صحف سماویہ کے ذریعہ سے حاصل تھی جس میں شک و تردد کی کوئی گنجا ئش نہیں ہو سکتی ۔
آپ کے اس سابق تعارف کی بناء پر کتب سیرت و تاریخ سے اہل کتاب کا آپ کے لیے منتظر رہنا بلکہ پیدائش کے بعد ایک معین وقت پر تلاش کے لیے نکل کھڑا ہونا بھی ثابت ہے اور آپ کے اسی تعارف کی وجہ سے ظہور قدسی سے قبل اہل کتاب میں بڑی گرما گرمی سے آپ کا چرچا تھا بلکہ ایک دوسرے سے مقابلہ کے وقت آپ کے ساتھ مل کر دوسروں کو جنگ کی دھمکیاں دینا ثابت ہیں۔ اگر یہ تعارف غیر معمولی اور اتنا عام نہ تھا تو تمام اہل مدینہ ہمہ وقت آپ کے ظہور کے انتظار میں آسمان کی طرف نظریں کیوں لگائے بیٹھا تھا ۔ ہر اس ہستی کے انتظار میں بے تاب رہنا ‘ اس کی آمد کی بشارتیں دینا اور صحف سماویہ میں درج علامتیں اور صفات اس قدر واضح ہوں تو بھلا وہ لوگ تاریخی ریکارڈ رکھنے میں کیونکر غفلت برت سکتے تھے ۔ وہ تو ایسے محبوب کی ہر ادا کو ہر پل اور ہر گھڑی یاد کر کے سعادت دارین کے مستحق بنتے تھے ۔ مذکور تاریخی حقائق کو تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع نہیں سوائے اس کے کہ آدمی کی اپنی غرض پوری نہ ہو سکے اور وہ ہر شے کو تج دے اور اپنے موقف پر ڈٹا رہے اور اپنی انا کو تسکین باہم پہنچاتا رہے تووہ گویا آنکھیں رکھنے کے باوجود اپنی اغراض میں اندھا ہوتا ہے کسی نے خوب کہا ہے۔
اپنی غرض میں آنکھوں والا
اکثر اندھا ہوتا ہے
آپ ﷺ کے دادا جان آپ کی پیدائش کے وقت طواف کعبہ میں مصروف تھے ۔ سیدہ آمنہ ؓ نے اپنے لخت جگر کی ولادت کی اطلاع بھیجی ۔ یہ خوشخبری سنتے ہی آپ گھر چلے آے ۔۔ خواجہ عبدالمطلب اپنے پوتے کو اٹھائے ‘ سینے سے لگائے ‘ اللہ کے گھر تشریف لائے اور یہ دعامانگی ۔ ’’ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جس نے مجھے یہ پاکیزہ جسم و جان فرزند عطا کیا ۔( ۲) جو جھولے میں بچوں کا سردار ہے اور میں اسے بیت اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں ( ۳) جب تک یہ بولیں ‘ باتیں کریںاور اس کی زبان کھلے ‘ دشمنوں کا کوئی شر اسے ضرر نہ پہنچا سکے اور حاسدوں کی آنکھ سے خداوند دو جہاں اسے محفوظ و مامون رکھے ‘‘ ( خاتم النبیین ۔ حکیم محمود احمد ظفر ۔ ۱۱۰) ۔
اعتراض نمبر ۲۵
آگے بڑھنے سے پہلے اس اعتراض کو لیتے ہیں کہ بعض کہتے ہیں کہ حضرت آمنہ ؓ نے اپنے فرزند عالی مقام کی ولادت کی اطلاع ان کے دادا جان کو کیوں دی ۔
۲۔سر ولیم میور ایک اور الزام دھر دیتا ہے ، وہ کہتا ہے ’’ مگر ہم نہیں سمجھ سکتے کہ حضرت آمنہ ؓ نے حضرت عبدالمطلب سے کہا ہو کہ ایک فرشتہ نے مجھ سے کہا کہ اس لڑکے کا نام ’’احمد ُ‘‘ رکھنا‘‘ خطبات احمدیہ ۔۴۳۸
جواب : خاندان کے بزرگوں کو نو مولود بچے کی ولادت کی اطلاع دینا خوش آئند فعل ہے ۔ خبر دینے میں کوئی حرج نہیں ۔ حرج اور نقص والی بات تو یہ تھی کہ دادا جان کو پوتے کی ولادت کی اطلاع نہ دی جاتی ‘ ولادت کی اطلاع دیکر ثابت کردیا کہ ختمی المرتبت کی والدہ کو سسرال نے تنہا چھوڑ نہیں دیا تھا بلکہ خاندان کے سردار کی نگہداشت میں تھیں اور وہ ہر طرح سے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے معاون و مدد گار تھے۔
(۲) عرب قبائل کی شان اور بلندی کا ایک عنصر افرادی قوت بھی تھی ۔ عرب معاشرہ میں اولاد نرینہ باعث افتخار تھی ۔ قبیلہ کی افرادی قوت سے دوسرے قبائل پر دھاک بیٹھتی تھی ۔ اس خبر کو سنتے ہی دادا جان خوش ہوئے ہوں گے۔
(۳) نیز آپ ﷺ کے دادا جان کو اطلاع دینا اس لیے بھی ضروری تھا کہ آپ کے فرزند حضرت عبداللہ سیدنا محمدﷺ کی ولادت سے قبل دار فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ دادا جان کو اپنے فرزند عبداللہ کی نشانی اس عظیم نومولود بچہ کی صورت میں ملی جس سے آپ کو قلبی اطمینان ہوا ہوگا۔ (۴) آپ کی ولادت کی خبر دینا اس لیے بھی ضروری تھا کہ عبد المطلب قریش اور اپنے قبیلہ کے سردار تھے۔ آپ ہی نومولود کے کفیل تھے جب تک وہ زندہ رہے انہوں نے یہ ذمہ داری سنبھالے رکھی بلکہ نبھانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ برکہ سے مروی ہے’ میں نبی مکرم کی تربیت پر مامور تھی ۔ آپ کا بہت خیال رکھتی تھی ۔ایک روز آپ سے غافل ہو گئی۔ اس اثناء میں عبد المطلب کو اپنے سر پر کھڑے دیکھا اور ان میں یوں باتیں ہوئیں ۔ عبدالمطلب : اے برکہ !
برکہ : لبیک( میں حاضر ہوں) ۔
عبدالمطلب : جانتی ہو میں نے اپنے بچے کو کہاں پایا؟
برکہ: مجھے علم نہیں ہے۔
عبدالمطلب: میں نے اسے بیری کے درخت کے قریب بچوں کے ساتھ پایا ہے ۔ میرے بچے سے غافل نہ رہا کرو ۔کیونکہ اہل کتاب خیال کرتے ہیں کہ یہ اس امت کے نبی ہیں اور میں ان کو اہل کتاب سے مامون نہیں سمجھتا۔( سیرت النبی اعلان نبوت سے پہلے۔۲۷۷)
کعب بن مالک ؓ جب غزوہ تبوک میں شریک نہ ہوئے تو ان سے صحابہ کرام کی بول چال نہ رہی ۔ وہ اکیلا رہ گیا کوئی اس کی طرف توجہ نہیں دیتا تھا حتیٰ کہ بارگاہ نبوی سے اپنی بی بی سے علیحدہ رہنے کا حکم بھی مل گیا ۔ باوجود کشادگی اس پر زمین تنگ ہو گئی اور وہ سمجھا کہ اب کوئی بچائو اور معافی کا راستہ نہیں سوائے بارگاہ الہیٰ سے معافی مانگنے کے ۔ کعب کہتے ہیں ’’ خدا کی قسم ! اللہ نے اس سے بڑھ کر کوئی احسان نہیں کیا بعد اسلام کے جو اتنا بڑا ہو میرے نزدیک کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سچ بو ل دیا ۔ جھوٹ نہیں بولا ورنہ تباہ ہو جاتا جب پچاس دن گزرے تو ایک شخص کی آواز سنی ‘ کہہ رہاتھا اے ! کعب خوش ہو جا یہ سن کر میں سجدہ شکر میں گر گیا پھر آپ ﷺ نے لوگوں کو خبر دی کہ اللہ نے کعب بن مالک ؓ اور ان کے دو ساتھیوں سمیت سب کو معاف کر دیا ۔ یہ ایک طویل احادیث ہے جس کا ایک ٹکڑا متعلقہ اعتراض کے مطابق لکھ دیا ہے جس سے ثابت ہو تا ہے کہ سجدہ شکر کسی خوش خبری پر بجا لانا مستحب ہے ۔ خوش خبری دینا اور مبارک بادی دینا اور خوشی کا اظہار کرنا ایسے موقعوں پر کار ثواب ہے ۔ اور خو شیوں میں دوسروں کو شامل کرنا خوش آئند ہے۔
اعتراض کا دوسرا جز
جواب: سر سید اس کا جواب یوں دیتے ہیں کہ سر ولیم میور نے اس بات پر کیوں تعجب کیا ہے۔ اگر تورات مقدس کی یہ آیات ’’اللہ تعالی ٰکے فرشتے نے اس سے کہا کہ دیکھ تو حمل سے ہے؟ اور تیرے ایک لڑکا پیدا ہوگا اور اس کا نام اسمٰعیلؑ رکھنا‘‘۔ ( بحوالہ کتاب پیدائش ۔۱۱۔۱۶) نیز یہ آیت کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ سارہ تیری بی بی کے بے شک ایک لڑکا پیدا ہوگا اور اس کا نام ا سحٰقؑ رکھنا‘‘ اور نیز انجیل کی یہ آیت ’’ اور اس کے ( یعنی مریم کے ) ایک بیٹا پیدا ہوگا اور تجھ کو ( یوسف کو ) چاہیے کہ اس کا نام عیسیٰؑ رکھے کیونکہ وہ اپنی امت کو گناہوں سے نجات دے گا‘‘ ۔یہ صحیح ہے اور عیسائی اس کو تسلیم کرتے ہیں تو کس بنا پر وہ اس بات سے انکار کر سکتے ہیں کہ حضرت آمنہ کو بھی ایک فرشتے نے کہا کہ جو لڑکا پیدا ہونے والا تھا’’ احمد‘ﷺ: اس کا نام رکھنے کو کہا تھا۔ اس روایت کی صداقت کا ایک نہایت تسکین بخش ثبوت یہ ہے کہ عہد عتیق میں آنحضرت ﷺ کی بشارت محمد ﷺ کے نام سے آئی ہے اور انجیل میں احمد ﷺکے نام سے ہے۔ اس لیے ان بشارات کے پورا ہونے کے لیے ضروری تھا کہ حضرت آمنہؓ کو احمد ﷺکا نام بتا دیا جائے کیونکہ یہ ایک ایسا نام تھا جس کو اہل عرب کبھی نہیں یا شاذ و نادر رکھتے تھے۔ سر ولیم میور کو الزام لگانے کی فکرپڑی ہے اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ اس الزام سے ان کی مقدس کتاب پر حرف آتا ہے اور اگر کوئی یہ کہہ دے کہ وہ(ولیم میور) اپنی مقدس کتاب کو بھی نہیں مانتا تو اس کے پلے کیا رہ جائے گا۔ اسے تو خوش ہونا چاہیے تھا کہ اس نام مقدس نے ان کی کتب مقدسہ کی بشارتوں کی تصدیق کردی۔
اعتراض نمبر ۲۶
حضرت آمنہؓ رویا میں فرشتوں کو دیکھ کر ڈر گیئں اور عرب جاہلیت کے دستور کے مطابق لوہے کے ٹکڑوں کو گلے میں لٹکایایا بازوئوں پر بطور عمل باندھا۔ نیز فرشتوں سے ڈرنے کو اسپرنگر نے بی بی آمنہ کو مصروع قرار دیا۔ (خطبات احمدیہ۔۴۴۰)
جواب: جناب کرم شاہ بھیروی ( ضیاء النبی ۔۷۔۱۸۷) لکھتے ہیں کہ مولانا عبدالماجد دریا آبادی ’’ جیوش انسائکلیوپیڈیا کے حوالے سے حضرت ہاجرہ ؑکے بارے میں یہودی علماء کی آراء نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں ( ترجمہ: ــ’’ یہودیوں نے با دل نخواستہ جو اعتراضات کیے ہیں ان کو ملاحظہ فرمائیے۔ بی بی ہاجرہ کو اس تقوی اور پارسائی کا اعلی نمونہ قرار دیا جاتا ہے جو حضرت ابراہیم ؑکے زمانہ میںمتعارف تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ حضرت ہاجرہؑ مقدس فرشتہ کو دیکھ کر بھی نہیں گھبراتی تھیں۔ ایسی شخصیات کا فرشتوں کو دیکھنا کوئی تعجب خیز بات نہیں اور ان سے ڈرنا بھی ان کے لیے محال ہے۔ فرض کریں کہ آپ کی والدہ ماجدہ ڈر گئیں تو یہ معاملہ تو خواب کا ہے، خواب میں ڈر جانے میں کوئی حرج نہیں اس کے ساتھ یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ مستشرقین نے یہ تو تسلیم کیا کہ بی بی پاک نے فرشتہ کو دیکھا ، انھیں تو چاہیے تھا کہ دشمنی کے سبب سرے سے بی بی کا فرشتہ کو دیکھنے سے بھی انکار کر دیتے۔ مگر دشمن بھی کبھی کبھی سچی بات کہہ دیتا ہے یا بغیر سوچے سمجھے سچی بات زبان پر آ جاتی ہے ۔ اور یہ حقیقت ہے کہ فرشتوں کو دیکھنا انبیاء علیھم السلام کی والدات پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ۔ فرشتوں کو دیکھ کر ڈر جانا اور گلے میں یا بازووں پر بطور عمل تعویذ باندھنا تسلیم کریں تو یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا ہے کہ سیدہ آمنہ ؓ کو صرع کی بیماری تھی ۔ اسپرنگر کا اس واقعہ سے بی بی کو مصروع بنانا اس مستشرق کے تعصب کا نتیجہ ہے ورنہ وہ اس ضمن میں حضرت سارہؑ اور حضرت مریم ؑنے فرشتوں کا دیکھا تھا ‘ انہیں بھی مصروع قرار دیتا مگر انہیں اس بیماری سے محفوظ سمجھتا ہے ۔ واہ رے واہ! مستشرقین کی دوغلا پالیسیاں ! سیدہ آمنہ فرماتی ہیں کہ گلے یا بازووں پر لوہے کے ٹکڑے لٹکانے کے لیے مجھ سے بوڑھی عورتوں نے کہا ‘ میں نے حمل کے دوران ایسا ہی کیا مگر چند روز بعد دیکھا تو لوہے کی چیزیں کہیں گر پڑی تھیں پھر میں نے کچھ نہ باندھا ۔ ( رحمت اللعالمین ۔۲۔۹۴ ) اس وقت کے رواج کے مطابق ایسا کرنا درست ہوتا ہو گا جیسے یہ بھی رواج تھا کہ اگر بچہ رات کو پیدا ہوتا تو اس پر بڑی ہانڈی الٹ دی جاتی تا کہ صبح ہونے سے پہلے بچہ پر کسی کی نظر نہ پڑے ۔۔۔ یہ ٹونا مروج تھا ‘ جان دو عالم ﷺ کی ولادت ہوئی تو آپ پر بھی ہانڈی الٹ یا اوندھی کر دی گئی ۔۔۔ جب دیکھا تو ہانڈی شق ہو کر دو حصوں میں بٹ چکی تھی ۔ جان دو عالمﷺ کی نگاہ آسمان کی طرف اٹھی ہوئی تھی ۔ ( سیدالوریٰ ۔ ۱۔ ۹۴) حضرت آمنہؓ کو جس غیبی ہستی نے حمل کے وقت یہ خوشخبری دی تھی کہ آپ سید الانام کے ساتھ حاملہ ہو گئی ہیں ۔ وہی ہستی ایک بار پھر نمودار ہوئی اور یہ ہدایت دی کہ جب بچے کی ولادت ہو تو آپ یوں کہیے ۔ ’’ میں اسے ہر حاسد کے شر سے خدائے واحد ہ لا شریک کی پناہ میں دیتی ہوں ‘ پھر اس کا نام محمد ﷺ رکھیے ۔ ( حوالہ بالا ۔ ۸۱۔۸۰ )ابن سعد حسن بن جراح زید بن اسلم سے راوی ہیں کہ حضرت آمنہؓ نے حلیمہ ؓسعدیہؓ سے فرمایا ’’ مجھ سے خواب میں کہا گیا کہ عنقریب تمہارے ہا ں لڑکا پیدا ہو گا ‘ ان کا نا م احمد رکھنا وہ تمام عالم کے سردار ہیں ۔‘‘ ( سیرت مصطفیٰ جان رحمت ۔۱۔۴۷۰)۔

اعتراض نمبر ۲۷
آپ ﷺ کو دادا جان خانہ کعبہ لے گئے ‘ وہاں رب العزت کے حضور مناجات کی ۔ پیارے نومولود کی پاکیز ہ جان کے عطایا پر رب کا شکر اداکیا ۔ دشمن سے کسی قسم کا ضرر نہ پہنچے اور حاسدوں کی آنکھ سے خدا وند بچائے رکھے وغیرہ و غیرہ ۔ مستشرق کو ان دعائیہ کلمات پراعتراض ہے ۔ وہ (سر ولیم میور ) کہتا ہے کہ ’’ آنحضرت ﷺکے دادا کی دعا کا مضمون صریحاََ مسلمانی طرز کا ہے ‘ اس سے خیال کیا جاتا ہے کہ کعبہ میں عبدالمطلب نے جو دعا مانگی تھی ‘ صرف مسلمانوں کی بنائی ہوئی بات ہے ‘‘۔
جواب : ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کے دادا جان نے جو دعا مانگی تھی وہ مسلما نی طرز کی دعا ہے ۔ یہ با ت بلا تردید کہی جا سکتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بزرگوں میں خدا پرستی معدوم نہیں ہوئی تھی ‘ وہ خدا پرست تھے ‘ ایک خدا کو ماننے والے اور برائیوں سے بچنے والے تھے اور دین ابراہیمی پر چلتے تھے ۔ اس بات کا ایک اور ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ آپ کے دادا جان نے آنحضرت ﷺ کے والد ماجد کا نام عبداللہ رکھا تھا جو خالص خدا پرستوں کے طریقہ پر رکھا گیا تھا ۔
۲۔ جب یمن کے گورنر ابرہہ نے خانہ کعبہ کو ڈھانے کی ٹھانی وہ چڑ ھ دوڑا اور لشکریوں نے حضرت عبدالمطلب اوردوسرے قریش کے لوگوں کے مویشی ہتھیا لیے جن میں حضرت عبدالمطلب کے دو سو یا تین سو اونٹ بھی تھے ۔ آپ ﷺنے ابرہہ سے اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کیا ‘ تو اس نے کہا : کہ تجھے اونٹوں کی فکر ہے مگر خانہ خدا ‘ جسے میں ڈھانے آیا ہوں ‘ ذرا برابر فکر نہیں ۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں اونٹوں کا مالک ہوں اور اس گھر کا بھی ایک مالک ہے ‘ وہ اسے بچائے گا ۔ خواجہ عبدالمطلب کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل ایمان اور یقین تھا ۔ کعبہ کے دروازہ کا حلقہ پکڑ کر دعا کی ’’ اے اللہ ! بندہ اپنے گھر کو بچایا کرتا ہے ‘ تو بھی اپنا گھر بچا ‘ ایسا نہ ہو کہ کل ان کی صلیب اور ان کی تدبیر تیر ی تدبیر پر غالب آ جائے ‘ اگر قبلہ کو ان پر چھوڑتا ہے تو حکم کر جو تو چاہتا ہے ۔ اے ! اللہ مجھے تیرے سوا کسی سے امید نہیں ۔ ‘‘ اس دعا میں بھی خواجہ عبدالمطلب نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کیا ہے ‘ اسی سے مدد چاہی ہے ‘ اسی سے امید لگائے رہے اور کسی چھوٹے بڑے بت کے سامنے جا کر دعا طلب نہیں کی ‘ بلا شبہ وہ موحد تھے اور ان کی یہ دعا بھی مسلمانی طرز کی ہونی چاہیے تھی ۔ نہ جانے اس پر سر ولیم میور نے کیوں چپ سادھ لی ہے اور اس پر سیخ پا نہیں ہوتا اور نہ ہی الزام لگاتا ہے ‘ گویا اس کی دشمنی کا محور اورمرکز آپ ﷺ کی ذات ہے جس پر ولیم میور کو بہت دکھ ہے ۔ یہ بھی سن لیں : ابن الندیم کہتا ہے ’’ مامون الرشید کے کتب خانہ میں عبدالمطلب کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک دستاویز تھی ۔ یہ چمڑے پر لکھی ہوئی تھی ‘ اس کے الفاظ یہ تھے۔ میں عبدالمطلب بن ہاشم مکہ کا رہنے والا ہوں ‘ میں نے فلاں بن فلاں‘ ذات حمیری ساکن صنعاء کو چاندی کے ایک ہزار دراہم قرض دئیے تھے ‘ یہ اس پر واجب الادا ہیں ‘ جب طلب کئے جائیں گے ‘ وہ ادا کرے گا اللہ اور اس کے فرشتے اس پر گواہ ہیں ‘‘( اعلان نبوت سے پہلے ۔۲۲۶) اس تحریر میں بھی اللہ تعا لی ٰا وراس کے فرشتوں کی گواہی درج ہے ۔ یہ توحید پرستی کا جیتا جاگتا اور منہ بولتا ثبوت ہے ۔ مسلمان اللہ اور اس کے فرشتوں پر ایمان رکھتے ہیں اس تحریر اور دعا کے مضمون سے صریحاََ ثابت ہے کہ آپ خدا پرست تھے جس کی بناء پر ان کی دعائوں اور تحریروں میں توحید پرستی کا عنصر شامل اور غالب ہے۔ خواہ مخواہ ولیم مسلمانوں پر الزام دھر دیتا ہے کہ یہ ان کی بنائی ہوئی بات ہے یہ محض باطل ہے اور تاریخی حقائق کے خلاف ہے ۔
نور کی برسات

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...