Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

دودھ پلائی والی پہلی خاتون
ARI Id

1689956726155_56117720

Access

Open/Free Access

Pages

۱۴۲

آپ ﷺ کی ولادت سے سیدہ آمنہ ؓ کا گھر بقعہ نور بن گیا ۔ عثمان بن العاص ؓکی والدہ فاطمہ ؓ کہتی ہیں کہ میں شب ولادت سیدہ آمنہ ؓ کے پاس تھی ‘ میں نے گھر میں جس طرف بھی نظر دوڑائی مجھے نور ہی نور نظر آیا ۔ صاحب سید الوریٰ بحوالہ علامہ زرقانی بیان کرتے ہیں کہ شفاء بنت عوفؓ جو شب ولادت سیدہ آمنہؓ کے پاس تھیں ‘ کہتی ہیں ’’ میرے لیے مشرق و مغرب روشن ہو گئے ۔‘‘ یہ تمام انوار زمین پر دیکھے گئے جب کہ آسمان سے بھی نور کی برسات ہو رہی تھی ۔ اس منظر کو فاطمہ ؓ یوں بیان کرتی ہیں ’’ میں نے ستاروں کو دیکھا کہ وہ جھکے پڑتے تھے اور مجھے یوں لگتا تھا کہ مجھ پر گر پڑیں گے‘‘ ۔ مزید بحوالہ طبقات ابن سعد اور البدایہ و النہایہ لکھتے ہیں کہ خود سیدہ آمنہ ؓ فرماتی ہیں جب وہ مجھ سے منفصل ہوا تو اس کیساتھ ایک ایسا نور ظاہر ہوا ‘ جس سے مشرق و مغرب روشن ہو گئے ۔ ‘‘ پھر با حوالہ زرقانی ‘ سیرت حلبیہ اور سیرت ابن ہشام لکھتے ہیں ’’ میں نے اس ولادت کی رات کو ایسا نور دیکھا جس کی وجہ سے شام کے محلات ر وشن ہو گئے۔ اور میں نے انھیں دیکھ لیا ۔‘‘
یہاںسوال پیدا ہوتا ہے کہ زمین و آسمان منور ہو گئے ۔ انوار کی برسات کا منظر بی بی آمنہؓ ، فاطمہؓ اور شفا ء کے علاوہ کسی اور کو کیوں نظر نہیں آیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے کہ جو چیزیں اللہ تعالی ٰصرف مخصوص لوگوں کو دکھانا چاہے وہ تمام چیزیں حقیقتاََ موجود ہونے کے باوجود عام لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہتی ہیں ۔ قرآن مجید میں ہے کہ غزوہ بدر میں مومنین کی امداد کے لیے فرشتے نازل ہوئے۔ ارشاد ربانی ہے ’’ یمد دکم ربکم بخمستہ الاف من الملائکتہ‘‘ تمھارا رب پانچ ہزار فرشتوں کے ساتھ تمھاری امداد فرمائے گا۔ یہ فرشتے نبی مکرم ﷺ اور چند صحابہ کو نظر آئے، ان کے علاوہ نہ انھیں مشرکین نے دیکھا اور نہ ہی باقی صحابہ کرامؓ نے۔
اعتراض نمبر ۲۸
آپ ﷺکی والدہ ماجدہ نے نور کا مشاہدہ کیا یا اس قسم کی ولادت باسعادت عجائبات کا ظہور ہوا تھا، دیکھا لیکن وہ لوگ جن کا طبعی میلان معتز لہ کی جانب ہے یا ان کے دماغوں پر جدید تحقیقات کی وحشت طاری ہو چکی ہے ، انکار کرتے ہیں اور تاویلات کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ عرباض بن ساریہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺؑنے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین تھا اور آدم ؑ ابھی آب و گل کی حالت میں تھے یعنی ان کا پتلا تیار نہ ہوا تھا اور اے لوگو!میں تم کو اس کی ابتدا بتاتا ہوں ، میں حضرت ابراہیم ؑکی دعا اور عیسٰیؑ کی بشا رت کا مصداق ہوں اور اپنی والدہ کے اس خواب کی تعبیر ہوں جو انھوں نے دیکھا تھا( جب آپ ﷺ پیدا ہوئے تو آپکی والدہ نے ایک نور دیکھا جس کی روشنی سے شام کے محلات جگمگا اٹھے اور اسی طرح دیگر انبیاء کی والدات بھی دیکھا کرتی ہیں )( ترجمان السنہ ۔۴۔۱۱۴۔ ۱۱۵ بحوالہ مسند احمد، طبرانی ، مستدرک) اس کے بارے بدر عالم میرٹھی کہتے ہیں ۔۔۔ ان واقعات کو بیان کرنے والا آپ کی والدہ ماجدہؓ کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے اور چالیس سال تک اس کے ناقل پورے ضبط اور اتقان کے ساتھ کہاں مل سکتے ہیں ، مگر اس پر تعجب آتا ہے کہ اس واقعہ کو بھی محدثین نے ایسی اسانید کے ساتھ پیش کیا جو ان کے نزدیک معتبر تھیں ۔۔۔ حد یث مذکور سے ایک جدید بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ نظارہ نہ صرف آپ ﷺکی والدہؓ کو نظر آیا بلکہ اس میں دیگر انبیاء کی والدات بھی شامل ہیں اور ایسا ہی ہونا چاہیے تھا ۔ ہر نبی کی شخصیت معمولی نہیں ہوتی لہٰذا ان کی والدات پر اگر کچھ عجائبات ظاہر ہوں اور وہ نظارہ کر لیں تو کوئی عجیب بات نہیں بلکہ ان کا نظارہ نہ کرنا عجیب بات ہے آج بھی نیک بخت اور بخت آور بچوں کی ولادت پر اس قسم کے واقعات سنتے ہیں اور ان کا یقین کر لیتے ہیں۔ حالانکہ ان کے مشاہدہ کرنے والا ان کی والدہ یا چند عورتیں ہوتی ہیں اور کوئی نہیں ہوتا اور اس موقع پر سند کا مطالبہ اور وہ بھی بخاری کی شرط کا مطالبہ کرنا غیر معقول تصور کیا جاتا ہے ۔ ۔۔ مزید کہتے ہیں کہ معنوی معجزات پر زوردینے والے ان معجزات کی عقیدت سے نا شناسی کے جرم کے مرتکب ہی نہیں بلکہ غیر شعوری طور پر انکار یا تاویل معجزات کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہم نے بہت سارے معجزات کی حیثیت سے گرا کر ایک طرف مادی عقول کو اسلام کے قریب کر دیا ہے اور دوسری طرف علمی و اخلاقی معجزات کا پایہ نظروں میں بلند کردیا ہے، حالانکہ یہ بات نہیں بلکہ مادی دنیا کے لیے ایسے معجزات چیلنج ہوتے ہیں اور کمزور طبائع اس سے عاجز آکر ہاتھ پیر مارتی ہیں کہ کوئی سہارا مل سکے ۔ کسی رسم کا خاتمہ کرنا، ایک ملک کو برباد کر دینا ، اس طرح کے واقعات کو ماننا مادی عقول کے لیے مشکل نہیں مگر ایسے معجزات کا ماننا اس لیے بھی محل نظر آتا ہے کہ اس کے ساتھ نبوت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ جن عجائبات کا ہر ممتاز شخصیت کی ولادت پر ثابت ہونا مسلمات سے رہا ہے ، اس سر تاج عالم ﷺ کی ولادت میں کون سا ایسا واقعہ تھا جو رونما ہوا؟ کیا الفاظ دیگر اس کا حا صل صرف انکار کرنا ہی نہیں ؟ یہاں طفل تسلی کے لیے یہ کہہ دینا کہ وہ واقعات یہاں بھی ضرور ہوئے ہوں گے مگر ان کا ثبوت ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ۔ یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ مخالفین کے نزدیک ا س کی حیثیت صرف خوش عقیدگی کے سوا اور کیا ہے اور جب وہ میلاد خوانوں کی من گھڑت ہی ٹھہریں تو پھر مسلمانوں کے لیے ان میں جاذبیت کیا ہے؟ ایسے ماننے والوں کی دوغلی پالیسی کا حال سنیئے۔ ایک روایت میں ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے خندق کھودنے کا حکم دیا تو کھودنے والوں کے سامنے ایک سخت چٹان نکل آئی جس کو وہ توڑ نہ سکے وہاں آپ تشریف لے گئے اور کدال خود ہاتھ میں لیا اور اپنی چادر مبارک خندق کے کنارے رکھ کر ایک ضرب لگائی اور یہ کلمات کہے ’’ وتمت کلمہ ربک صدق وعدہ‘‘ آپ کا ضرب لگانا تھا کہ چٹان کا ایک تہائی پتھر ٹوٹ کر گر گیا ، اس وقت سلمان ؓفارسی کھڑے دیکھ رہے تھے ۔ وہ کہتے ہیں کہ آپﷺ کی ضرب کے ساتھ بجلی کی سی چمک نظر آئی جو انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔اس کو پھر دوسری ضرب لگائی اور وہی کلمات پڑھے تو تہائی چٹان اور ٹوٹ گئی اور آپ کی ضرب کے ساتھ پھر ایک چمک پیدا ہوئی جسے سلمانؓ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ تیسری بار وہی کلمات پڑھ کر آپ ﷺ نے ضرب لگائی تو اس کا بقیہ حصہ ٹوٹ گیا ، اس کے بعد آپ ﷺ اپنی چادر لے کر خندق سے باہر تشریف لائے اور بیٹھ گئے ۔ سلمان ؓنے عرض کی کہ یا رسول اللہﷺ میں نے دیکھا تھا جب آپ پتھر پر ضرب لگاتے تھے تو بجلی کی سی ایک چمک نکلتی تھی، آپ نے فرمایا سلمانؓ کیا تم نے یہ دیکھا تھا؟ انھوں نے عرض کی جی ہاں ۔ اس خدا پاک کی قسم !جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا! جب میں نے پہلی ضرب لگائی تھی تو میرے اللہ نے کسریٰ کی سلطنت اور ارد گرد کی سب بستیاں میرے سامنے کردیں ۔ یہاں تک کہ میں نے ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ حاضرین نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ! ان ملکوں کو فتح کرنے والے کون لوگ ہوں گے؟۔ یا رسول اللہﷺ یہ دعا فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہما رے لیے فتح کرا دے اور ان کی بستیاں ہماری غنیمت بنا دے اور ہمارے ہاتھوں ان کو تباہ و برباد کردے ۔ا ٓپ نے اس بات پر دعا فرمادی، پھر جب دوسری ضرب لگائی تھی تو قیصر کی سلطنت اور اس کے ارد گرد کے شہر سامنے کیے گیے ، یہاں تک کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہﷺ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالی ٰان کو ہمارے سامنے فتح کرا دے اور ہماری غنیمت بنا دے اور ہمارے ہاتھوں ان کو برباد کر دے ، آپ ﷺنے اس کے لیے بھی دعا فرمادی ، پھر میں نے تیسری بار ضرب لگائی تو حبشہ کی سلطنت میرے سامنے کی گئی اور جو اس کے ارد گرد بستیاں تھیں ، یہاں تک کہ میں نے ان کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا، اس کے بعد آپ نے فرمایا جب تک اہل حبشہ تم سے کچھ نہ کہیں تو تم بھی ان سے کچھ نہ کہنا اور اسی طرح جب تک وہ خاموش رہیں تم بھی خاموش رہنا ۔ ( ترجمان السنہ ۔۳۔۲۴۵)
بدر عالم کی تقریر: تعجب ہے کہ ایک ایک معجزہ پر عقل کی ترازو لگانے والوں نے اس واقعہ کو بلا چون و چرا تسلیم کر لیا ، یہاں بھی یہ کہنا ممکن نہ تھا کہ صحابہ کی ضربوں سے چٹان کمزور پڑ چکی تھی پھر آپ نے ضرب لگائی تو چٹان ٹوٹ گئی ۔ اور کثیباََ اھیلُ کہنا صرف ایک عرفی مبالغہ ہو مگر صحابہ کرام کے مزاج شناس اور حدیثوں پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس واقعہ کی پوری سر گزشت از اول تا آخر خرق عادت تھی ، یہاں احتمال کے گھوڑے دوڑانا صرف ایک وہمی شخص کا کام ہی ہو سکتا ہے ۔ اب اس کے ساتھ آئندہ واقعہ کی پوری تفصیل ملا کر یہ اندازہ کر لیجیے کہ آپ ﷺکے معجزانہ ا فعال کو کوشش کر کے تمام واقعات میں شامل کرتے رہنا کتنا بڑا ظلم ہے ۔۔۔۔ معجزات کو پھیکا کرنے والے شاعر یہاں یہ لکھ دیں کہ پتھر کے اوپر لوہے کی ضرب سے چمک پیدا ہونا روزمرہ کا معمولی واقعہ ہے ، اس میں اعجاز کیا ہے ؟ لیکن سلمان ؓفارسی کی آنکھوں سے پوچھو جنہوں نے نا معلوم کتنی بار خندقیں دیکھی ہوں گی اور پتھروں سے چنگاریاں بھی نکلتی دیکھی ہوں گی، مگر وہ اس چمک کو دیکھ کر متحیر ہوتے رہے ۔ آخر کار اس عجیب چمک کا راز آنحضرت ﷺ سے پوچھے بغیر نہ رہ سکے اور جب آپ نے وہ تفصیلات جو مسلمانوں کے خواب و خیال میں نہ تھیں، بتائیں تو یہ واضح ہو گیا کہ آپ کی ایک ایک ضرب میں مادی دنیا کے لیے کتنے بڑے بڑے انقلابات پنہاں تھے۔ اگر مسلمان یہاں سوال نہ کرتے تو معجزہ کے شوقین بھی شاید اس کو ایک معجزہ ہی سمجھتے لیکن اب معلوم ہوا کہ آپ کی ضرب ایک چٹان کے تودہ خاک بن جانے کا معجزہ ہی نہ تھا بلکہ قیاس و گمان سے بالاتر واقعات کی عظیم الشان پیش گوئیوںکے علاوہ ان کی آنکھوں سے دیکھ لینے کے معجزات بھی شامل تھے۔ سبحان اللہ! نبی و رسول بھی بشر ہوتے ہیں لیکن قدرت ان کے ساتھ ایسے کرشمے بھی ظاہر کرتی ہے ، جن میں سے ہر کرشمہ مادی دنیا کو شکست دینے کے واسطے کافی ہوتا ہے ، اسی کا نام معجزہ ہے۔ حیرت یہ ہے کہ معجزہ مادی طاقت کی شکست کا ثبوت ہوتا ہے اور معجزہ کی حقیقت سے نا آشنا اسے جرثقل لگا کر مادہ ہی کی سرپرستی میں رکھنا چاہتے ہیں ( تقریر ختم ہوئی۔ ۳۔ ۲۴۷ ۔ ۲۴۵)
آپ ﷺ نے چٹان پر ضرب لگانے سے پیدا ہونے والی چمک سے ان تمام مقامات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو سیدہ آمنہؓ نے اپنے بچے کی پیدائش کے وقت جو نور دیکھا جس کی روشنی میں شام کے محلات روشن ہوگئے اور اپنی آنکھوں سے ان کو دیکھا تھا ، تو اس کو تسلیم کرنے میں کیا حرج ہے اور کون سا امر مانع ہے ؟ ان حسی معجزات کو معنوی معجزات کی بھینٹ چڑھاکر پیش کرنا تاریخ اسلامی میں ایک نئے باب کا اضافہ کرنے کی بہت بڑی جسارت ہے نیز سر ولیم میور نے جس طرح حدیث بیان کی ہے وہ اس طرح نہیں ۔ حافظ ابن حجر نے مذکورہ مواہب لدنیہ کی حدیث ’’ جس وقت آپ ﷺکی والدہ ماجدہ ؓنے آپ کو جنم دیا تھا تو ایسا نور نکلا دیکھا جس سے ملک شام کے محلات روشن ہو گئے اور آپ ﷺکی والدہ ماجدہؓ نے ان کو دیکھا ۔(صاحب سیرت المحمدیہ شرح مواہب الدنیا ۔ ۱۔۸۸ )نے اس کے بارے کہا ہے کہ اس حدیث کو ابن حبان اور حاکم نے صحیح کہا ہے اور اس حدیث کی روایت ابو نعیم عطا بن یسار سے اور انھوں نے ام سلمیٰؓ سے اور انھوں نے حضرت آمنہ ؓسے روایت کی ہے ۔‘‘
اعتراض نمبر ۲۹
آنحضرت ﷺکی ولادت کی نسبت عجیب سی روایتیں مشہور ہیں کہ ولادت کی رات کو کسریٰ کے محل میں زلزلہ آیا اور اس سے محل کے چودہ کنگرے گر پڑے ، فارس کا آتش کدہ بجھ گیا جس میںسالہا سال سے برابر آگ جلتی آ رہی تھی وہاں کے موبدوں نے عجیب عجیب خواب دیکھے اور چشمہ ساوہ دفعتاََ خشک ہوگیا مگر ان روایتوں کی معتبری کی قابل اعتماد سندیں نہیں ہیں اور نہ ہی مذہبی روایتیں سمجھی جا سکتی ہیں ۔ آنحضرتﷺ کی ذات بابرکات کے سبب اسلام نے رونق پائی اور مسلمانوں کو فتوحات نمایاں حاصل ہوتی گئیں اور تمام مملکت فارس مسلمانوں کے ہاتھ پر فتح ہوئی اور وہاں کے آتشکدے برباد ہوئے اور کسریٰ کے محلوں میں زلزلہ ڈال دیا ان واقعات کو جو بعد میں وقوع میں آئے شاعروںنے اپنے شاعرانہ خیالات میں آنحضرت ﷺ کی ولادت سے منسوب کیا کہ گویا ان کا پیدا ہونا ہی فارس کے آتش کدوں کا بجھنا اور کسریٰ کے محل میں زلزلہ پڑنا تھا ۔ رفتہ رفتہ شاعرانہ خیال بطور روایت کے مروج ہونے لگے اور عین روز ولادت ہی سے منسوب کر دئے گئے ۔ پس ان روایتوں کو مذہبی روایتیں تصور کرنا ان لوگوں کی غلط فہمی ہے جو مسلمانوںکی مذہبی روایتوں کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں ( خطبات احمدیہ۔ ۲۳۰)
جواب :آنحضرت ﷺکی ولادت پر محیر العقول واقعات رونما ہوئے وہ حسی واقعات تھے ۔ اسنادی لحاظ سے جس کی اسناد تاریخی واقعات کے لیے ہوسکتی ہیں اس سے زیادہ قوی و مضبوط اسانید بہ اعتراف محدثین ان کے لیے بھی موجود ہیں پھر محض ایک غلط بنیاد پر ان کو قبول نہ کرنا درست نہیں بلکہ ان کے متعلق زیادہ تر یہ کہا جا سکتا تھا کہ ان کی اسناد اعلیٰ درجہ کی نہیں ہیں مگر تاویلات سے معنوی پیرایہ میں بیان کرنا زیادتی ہے۔ مثلاََ آپ کے زمانہ میں بت پرستی کا استحصال ہو گیا ، کسری ٰو قیصر کی سلطنتیں تباہ ہو گئیں ، ایران کی آتش پرستی کا خاتمہ ہو گیا ، شام کا ملک فتح ہو گیا ۔ اسی طرح کا اظہار مولانا شبلی نعمانی نے سیرت النبی میں کیاہے کہ ’’ ارباب سیر اپنے محدود پیرایہ میں بیان کرتے ہیں کہ آج کی رات ایوان کسریٰ کے چودہ کنگر ے گر گئے ، آتش کدہ فارس بجھ گیا ، دریا ساوہ خشک ہوگیا لیکن سچ تو یہ ہے کہ ایوان کسرٰی نہیں بلکہ شان عجم ، شوکت روم، اوج چین کے قصر ہائے فلک بوس گر پڑے، آتش فارس نہیں بلکہ جحیم شر، آتش کدہ کفر ، آذر کدہ گمراہی سرد ہو کر رہ گئے ۔ صنم خانوں میں خاک اڑنے لگی ۔ بت کدے خاک میں مل گئے ۔ شیرازہ مجوسیت بکھر گیا، نصرانیت کے اوراق خزاں دیدہ ایک ایک کر کے جھڑ گئے ( سیرت النبی۔۱۱۳) گویا ان واقعات کو معجزہ اس طرح بنایا گیا کہ جب آپ کی ولادت ہوئی تو کعبہ کے تمام بت سرنگوں ہو گئے۔ ایوان کسریٰ کے کنگرے گر پڑے ۔ آتش کدہ فارس بجھ گیا ، نہر ساوہ خشک ہوئی ایک نور چمکا جس سے شام کے محلات روشن نظر آنے لگے ، اب سوچیے! کہ محض زور قلم کے بل بوتے پر صرف اپنی بے معنی قیاس آرائی پر لکھ دینا کہ واقعات تو یہ تھے مگر راویوں نے ان کو خود بخود معجزہ بنا لیا کیا یہ شرعاََ اخلاقاََ درست ہے؟ یہاں راویوں پر صرف وضع کی تہمت نہیں بلکہ ان کے سر اس حماقت کا الزام بھی ہے کہ جو واقعات آپ ﷺکے عہد کے بعد ہوئے تھے انہوں نے ان کو آپ ﷺکے زمانہ ولادت سے بنا ڈالا (ترجمان السنہ ۔۴۔۳۲)
نہ جانے کس وہم میں مبتلا ہو کر حسی معجزات کو معنوی معجزات بنا ڈالتے ہیں ۔ حالانکہ کفار نے آنحضرت ﷺسے معجزات طلب کیے گویا وہ حسی معجزات کو تسلیم کرتے تھے ارشاد ربانی ہے ترجمہ ’’ اہل کتاب تجھ سے درخواست کرتے ہیں کہ تو ان پر لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لا‘‘ سورہ انبیاء میں ہے ’’ اس کو چاہیے کہ ہم کو کوئی ایسا معجزہ دکھائے جیسے پہلے رسولوں نے دکھائے ‘‘ مگر آج کے روشن خیال منکرین حسی معجزات کو مادی عقل پر پرکھ کر اور مادی عقل کے قریب ہونے کے لیے انکار کر دیتے ہیں کاش یہ لوگ کفار کے مطالبات معجزہ سے ہی سبق حاصل کرتے مگر اس سے بھی نہ جانے گریز کیوں؟
یہ شاعروں کے گھڑے ہوئے قصے نہیں ہیں ۔ شوق و محبت کی وارفتگی کے افسانے نہیں ہیں نہ بعد میں ان واقعات کو عید میلاد سے نسبت دے دی گئی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کسریٰ کے ایوان کے چودہ کنگرے گرنے سے کسریٰ پریشان ہو گیا ، اس واقعہ کو چھپانے کی کوشش کی مگر حقیقت چھپائے کب چھپ سکتی ہے؟ پھر اپنے وزیروں مشیروں کی میٹنگ طلب کی اور محل کے متعلق جو پیش آیا کہہ دیا ، اسی اجتماع میں کسریٰ کو یہ خبریں بھی موصول ہوئیں کہ ہزار سالہ روشن آگ بجھ چکی ہے ۔ دریائے ساوہ خشک ہو گیا ہے ۔ اور وادی سماوہ کا پانی رک گیا ہے ۔ اسی مجلس میں موجود بڑے پجاری موبذان نے اپنا رات کا خواب سنا کر سونے پر سہاگہ کا کام کر دیا یعنی رہی سہی کسر نکال دی۔ خواب کی تفصیلات معلوم کرنے کے لیے غسان سے بڑا عالم بلوانے کی سکیم پاس ہوئی ۔ غسان کے حاکم نے عبد المسیح ایک بڑے عالم کو بھیجا، وہ تاویل کرنے میں ناکام رہا ، البتہ رہنمائی کی کہ شام میں میرے ماموں سیطح رہتے ہیں وہ اس کا حل بتائیں گے ۔ لہذا عبد المسیح کو شام بھیجا گیا۔ سطیح نے موبذان کا خواب بتایا ، پھر قیصر و کسری ٰکے چودہ کنگرے گرنے کی توجیہہ بھی بیان کی ان میں چودہ بادشاہ اور ملکائیں ہوں گی اور جو کچھ پیش آنے والا ہے وہ بہر حال ہو کر رہے گا ۔ ہزاروں سالہ آگ کا بجھنا، دریا کا پانی خشک ہونا، صاحب الھِرَاوَۃَ کے ظہور کی علامات ہیں ۔ جب یہ علامات ظاہر ہوں تو سمجھ لینا کہ ایرانی حکومت کا خاتمہ قریب ہے۔

اعتراض نمبر ۳۰
آنحضرت ﷺ کی ولادت کے متعلق معجزات حال کے مسلمانوں کے نزدیک بہت پسندیدہ مضامین ہیں ۔( سرولیم میور ۔خطبات احمدیہ ۔۴۳۳)
جواب: اولاََ تو آنحضرت ﷺ کی زندگی کے متعلق تمام کے تمام مضامین پسندیدہ ہیں اگر ان میں کوئی ناقابل یقین امر واقع نہ ہو۔خواہ وہ مضامین آپ کی معاشی و معاشرتی دینی و روحانی، سیاسی یا اخلاقی ہوں تمام تر پسندیدہ ہیں اور وہ اس قدر پسندیدہ کیوں نہ ہوں کہ رب اللعالمین نے آپ کی زندگی کو انسانیت کے لیے نمونہ قرار دیا ہے۔ ’’ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃً‘‘
دوم: آپ کی ولادت کے متعلق حال کے مسلمانوں کے لیے ہی پسندیدہ مضامین نہیں ہیں بلکہ ماضی کے مسلمانوں کے لیے بھی یہ معجزات پسندیدہ تھے۔ ولیم میور اس کی وجہ نہیں بتاتا کہ حال کے مسلمانوں کے لیے پسندیدہ ہیں اور ماضی کے مسلمانوں کے لیے نہیں تھے کیونکہ اعتراض میں اس نے حال کی قید لگائی ہے؟ اور شاید وہ یہ کہنا چاہتا ہو کہ ماضی کے مسلمانوں کے لیے یہ معجزات اتنے قابل توجہ نہ تھے جتنے حال کے لوگوں کے لیے معتبر ہیں ۔ اس کا سبب بھی نہیں بتاتااور ڈکار لیے بغیر ہضم کر جاتا ہے۔ بغیر تحقیق اور دلیل صرف نا معتبر اور موضوع روایات کو بیان کرنے سے طرف دار عیسائی ولیم میور کی بات قابل قبول نہیں ہو سکتی، محض اس کی خواہش کو روایات کے نا معتبر، موضوع یا غیر معتبر ہونے کو معیار نہیں بنایا جا سکتا، اگر وہ مانتا ہے کہ ماضی کے مسلمانوں کے لیے معجزات قابل التفات نہ تھے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ روایات جو ولیم بیان کرتا ہے وہ درست نہیں ہیں کیونکہ وہ بھی ماضی کے مسلمانوں کی روایت کردہ ہیں ۔ اس مستشرق کو آنحضرت ﷺ کے معجزات سے کیوں چڑ ہے؟ جب کہ وہ جانتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ مادر زاد اندھوں کو بینائی عطا کرتے ہیں ۔ وہ جانتا ہے کہ کوڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہیں تو کوڑھ دور ہو جاتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ مردوں کو باذن اللہ زندہ کرتے ہیں اور نو مولود عیسیٰؑ پنگھوڑے میں بولتے ہیں اور قوم کو اپنی والدہ ماجدہ پر دھرے الزامات کا جواب دیتے ہیں ۔’’ میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اللہ نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے‘‘ یہ حضرت عیسؑیٰ کے معجزات ان کی پیدائش سے متعلق ہیں ان پر ولیم میور اعتراض کیوں نہیں کرتا؟ انھیں ماضی و حال کے لوگوں کے لیے پسندیدگی اور نا پسندیدگی کی قید کیوں نہیں لگاتا؟۔ پس اس سے قطع نظر مسلمانوں کے لیے تمام انبیاء پر ایمان لانا واجب ہے اور مسلمان تمام نبیوں پر ایمان رکھتے ہیں آپ ٓﷺمیںاور ان میں فرق نہیں کرتے۔ ہر نبی کے ہر فعل کو مسلمان پسندیدہ سمجھتے اور مانتے ہیں اور یہی مسلمان کے ایمان کی علامت ہے ۔ پیارے آقا ﷺ کی شان میں ارشاد ربانی ہے وما اتکم۔۔۔ ۔فانتھو ‘‘ یہ فرما کر انبیاء کی ہر شے ، ہر عمل ، ہر فعل کو پسند یدہ بنا دیا ہے تو پھر کیوں یہ مسلمانوں کے نزدیک معجزات ولادت سے متعلق ہوں یا کسی اور واقعہ سے، پسندیدہ مضامین نہ ہوں ؟‘‘
اعتراض نمبر ۳۱
کیا آپ نے معجزہ عطا ہونے کا انکار کیا تھا؟
کیونکہ بعض مستشرقین استدلال میں آیات قرآنی کو لاتے ہیں جن میں کفار نے آنحضرت ﷺ سے معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا، آپ نے وہ معجزات نہ دکھائے جس سے انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آپ ﷺ نے معجزہ عطا ہونے کا دعویٰ ہی نہیں کیا اور جو معجزات آپ کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں صحیح نہیں ہو سکتے۔ سورہ رعد کی آیت وَ یَقُوْلُ الََّذِیْ ۔۔۔ وَ لِکُلِّ قَوْمِ ھَادٍ،، ’’ترجمہ‘‘ اور کافر کہتے ہیں کہ کیوں نہ اتاری گئی کوئی نشانی ان کے رب کی طرف سے ، آپ تو ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم کے لیے ہادی ہیں ‘‘ اس پر آنحضرت ﷺ پر لگائے گئے الزام کا رد فرمایا جا رہا ہے کہ آپﷺ تو انھیں ڈرانے والے ہیں ان کی باتوں پر توجہ کی ضرورت نہیں اس آیت میں معجزہ کی آپﷺ سے نفی نہیں کی گئی ہے ۔
۲: سورہ الانعام آیت ۳۷ میں ارشاد ربانی ہے ’’ وَ قَالُوْا لَوْ لَا نَزَّلَ۔۔۔ ۔اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ‘‘ اور بولے کیوں نہ اتاری ان پر کوئی نشانی ان کے رب کی طرف سے ، آپ فرمائیے بے شک اللہ تعالیٰ قادر ہے اس بات پر کہ اتارے کوئی نشانی لیکن اکثر ان میں کچھ نہیں جانتے‘‘
اس میں بھی مستشرقین کے اعتراض کا جواب ہے کہ معجزات اللہ تعالیٰ کے دست قدرت میں ہیں اس کے لیے مشکل نہیں کہ اپنے حبیب ﷺسے جب چاہے معجزہ رونما فرمادے اور صریحاََ بتا دیا کہ سوائے اللہ تعالی ٰکی اجازت کے کوئی معجزہ دکھا نہیں سکتا ۔ ارشاد خدا وندی ہے’’ وَمَا کَانَ بِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاتِیْ بِاٰ یٰتِہٖ اِلَّابِاِ ذْنِ اللّٰہِ ‘‘ اور کسی رسول کی مجال نہیں کہ وہ لے آتا کوئی نشانی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر۔’’ اِنَّمَا لآْٰیَا تِ عِنْدَ اللّٰہِ ( الانعام ۱۰۹،پارہ۷) ترجمہ آیتیں تو خدا کے پاس ہیں ‘‘۔ تمام رسولوں کے لیے یہ ایک اصول دے دیا ہے آپ ﷺپر بھی اسی اصول کا اطلاق ہوتا ہے ۔آپ ﷺکا سب سے بڑا معجزہ قرآن مجید ہے ۔باقی تمام رسولوں کے معجزات کا ذکر باقی رہ گیا ہے لیکن ان کا دیکھنا ناممکن ہے جب کہ قرآن ماضی ، حال اور مستقبل کا معجزہ ہے جو اپنی تاثیر رکھتا ہے، دکھا چکا ہے‘ دکھا رہا ہے اور دکھاتا رہے گا ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مستقل اور رہتی دنیا تک کے لیے قرآن ایک معجزہ ہے جس کا اپناچیلنج ہے کہ اس جیسی ایک سورہ یا ایک آیت ہی لے آئو ۔ یہ چیلنج آج تک موجود اور برقرار ہے اور کوئی اس کی نظیر نہیں لا سکا ۔ قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعْتِ۔۔۔۔۔ یَاتُوْنَ بِمِثْلِہٖ۔ ’’ کیا وہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اس کو اپنے جی سے بنا دیا ہے تو کہہ دے کہ وہ دس ہی سورتیں لے آئیں اور اپنی مدد کے لیے جس کو چاہیں بلا لیں اگر وہ سچے ہیں ‘‘ سورہ البقرہ میں ہے ’’ اور اگر تم کو اس میں شک ہو جو ہم نے اپنے بندہ پر اتارا ہے تو اس جیسی ایک ہی سورۃ لے آئو اور خدا کے سوا اپنے تمام گواہوں کو بلا لو اگر تم سچے ہو‘‘
اعتراض نمبر ۳۲
نصاریٰ کا اعتراض ہے ’’معجزوں کا اکثر قرآن میں ذکر پایا جاتا ہے مگر کوئی ایسی آیت نظر نہیں آتی جس سے یہ ثابت ہو کہ حضرت محمدﷺ نے معجزے دکھائے ہیں بلکہ بہت سی آیتیں ایسی ہیں جن میں معجزے نہ دکھانے کا سبب درج ہے اور بعض ایسی بھی ہیں جن میں وہ صاف ظاہر ہوتی ہیں جن میں معجزے دکھانے کو نہیں بھیجا گیا ۔ سورہ عنکبوت میں ہے ’’وَ قَالُوْ ا لَوْ لَا اُنْزِلَ عَلَیْہِ ۔۔۔اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ‘‘’’اور کہتے ہیں اگر اس کے خدا کی طرف سے کوئی نشانی ہم پر نازل ہو گی تو ہم ایمان لائیں گے پس (اے محمد ﷺ) آ پ کہہ دیجئے کہ نشانیاں خدا کے پاس ہیں میں تو ایک ڈرانے والا ہوں ‘‘ پھر بنی اسرائیل میں ہے ’’وَمَا مَنَعْنَا اَنْ نُّرْسِلَ ۔۔۔الْاَ وَّلُوْنَ ‘‘( کوئی چیز ہمیں مانع نہیں ہوئی کہ تجھے معجزوں کے ساتھ بھیجیں مگر یہ کہ اگلے پیغمبروں کو جو ہم نے معجزے دے کر بھیجا تھا تو انہی لوگوں نے جھٹلایا ) ۔
عیسائی لوگ مسلمانوں پر اکثر یہ اعتراض کرتے ہیں جنہیں سر پر چھت اٹھانے کی عادت ہے ۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے معجزات کی نسبت جو کچھ اناجیل اربعہ میں آیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے ۔ متی باب ۱۱۔آیت ۳۸۔۳۹ میں ہے کہ بعض فقہیوں اور فریسوں نے مسیح ؑ سے ایک نشان طلب کیا جس کے جواب میں انہوں نے فرمایا’’ اس زمانہ کے بد اور حرام کار لوگ نشان ڈھونڈتے ہیں ، یونس نبی کے نشان کے سوا کوئی نشان انہیں دکھایا نہ جائے کیونکہ جیسا یونس ؑ تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہے ویسا ہی ابن آدم (محمدﷺ) تین دن زمین کے اندر (یعنی غار) میں رہے گا ۔اسی طرح متی باب ۱۶۔آیت ۔۱۔۴ میں ہے کہ فریسوں اور صدوقیوں نے آزمائش کے لیے حضرت مسیح سے آسمانی نشانی طلب کی مگر یہاں بھی انہوں نے وہی جواب دیا کہ یونس نبی ؑ کے نشان کے سوا کوئی اور نشان دکھایا نہیں جائے گا ۔ اگر بنظر غور دیکھیں تو یہ جواب بھی قابل اعتبار نہیں کیونکہ سوال تو آسمانی نشان کا تھا اور جواب میں زمینی نشان کا وعدہ ہوا۔سوال ازآسماں جواب از ریسماں ۔باوجود اس کے انجیل میں مسیح ؑسے بہت سے معجزے منسوب کیے گئے ہیں ۔ چنانچہ پانچ روٹیوں سے چار ہزار کو کھلایا ( باب ۱۴۔آیت۱۵۔۲۱) اور سریا پر اپنے پائوں سے چلے ( باب ۱۴۔آیت ۱۵) پھر اندھوں کوبینا کر دیا (باب ۲۵۔آیت ۳۴۔۳۵) یہاں یونس نبی ؑ کے نشان کا کوئی ذکر نہیں بایں ہمہ اس انجیل میں بھی اندھے کو چنگا کرنا ، چار ہزار کو سات روٹیوں سے سیر کرنا ، کوڑھی کو چنگا کرنا وغیرہ معجزات مسیح ؑ کی طرف منسوب ہیں ۔ یو حنا باب ۴۔آیت ۳۵ میں ہے کہ یہودیوں نے مسیح ؑ سے کہا ’’ پس تو کو ن سا نشان دکھاتا ہے تاکہ ہم دیکھ کر تجھ پر ایمان لائیں ‘‘۔یہاں بھی مسیح ؑنے کوئی معجزہ نہیں دکھایا لیکن انجیل میں بہت سے معجزے حضرت عیسیٰ ؑ سے منسوب ہیں(حیات محمد ۶۳۶) ۔
اللہ تعالیٰ خود اس کی وضاحت فرماتا ہے ’’ ہم کو نہیں روکا نشانیاں بھیجنے سے کسی شے نے مگر یہ کہ جھٹلایا ان کو اگلوں نے اور ہم نے دی ثمود کو اونٹنی سوجھانے کو پھر اس کا حق نہ مانگا اور ہم نہیں بھیجتے نشانیاں مگر ڈرانے کو ۔‘‘اس قسم کی نشانیاں ہم نے پہلی امتوں کو طلب کرنے پر عطا کیں مگر وہ ایمان نہ لائے اور ہلاک ہو گئے ۔ اگر معجزہ دیکھنے پر کوئی قوم ایمان نہ لائے تو اللہ تعالیٰ ضرور ان پر عذاب نازل کرتے ہیں اسی طرح اگر کفار بھی آپ ﷺ سے نشانیاں طلب کریںاور آپ ﷺ کی دعا عطا کی جائیں تو یہ لوگ بھی ا نکار کریں گے ، تکذیب کریں گے تو عذاب الہٰی کے مستحق ٹھہریں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تحت اس امت کو عذاب سے محفوظ فرمایا ، لہٰذا وہ آیات ( نشانیاں ) عطا نہیں کی ہیں ( سورہ عنکبوت ع۵) ’’ اور کہتے ہیں کیوں نہ اتریں اس پر کچھ نشانیاں اس کے رب سے تو کہہ نشانیاں تو ہیں اختیار میں اللہ کے اور میں تو سنا دینے والا ہوں کھول کر کیا ان کو اس نے نہیں اتاری تجھ پر کتاب کہ ان پر پڑھی جاتی ہے ، بے شک اس میں بڑی رحمت ہے اور سمجھانا ان لوگوں کو جو مانتے ہیں ۔ ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ نشانیاں اتریں پہلی امتوں پر ، انہوں نے تکذیب کی اور لقمہ ٔ عذاب بن گئیں اور تمپر اتریں نشانیاں جن میں حکمت یہی ہے ۔ ان آیات میں معجزات کی نفی نہیں پائی جاتی بلکہ ان معجزات کے نہ ملنے کی وجہ بیان ہوئی ہے جو کفار محض عناد کے سبب طلب کرتے تھے ۔ لہٰذا عیسائیوں کا یہ کہنا کہ قرآن میں کوئی آیت نظر نہیں آتی جس سے ثابت ہو کہ آپ ﷺ نے معجزے دکھائے صرف عناد پر مبنی ہے وہ یوں کہ قرآن جو زندہ معجزہ ہے ہر زمان و مکان میں موجود رہے گا اور انسانیت کے ساتھ رہے گا ، یہی کافی ہے ۔لیکن وہ معجزے نہیں دکھائے ، کی رٹ لگا کر بڑا بول بولتے ہیں ’’سورہ کہف۔ع۔۱ میں ہے ’’ کیا بڑی بات ہو کر نکلتی ہے ان کے منہ سے سب جھوٹ ہے جو کہتے ہیں ‘‘۔
معجزہ کیا ہے اور اس سے انکار کیوں: ؟ مستشرقین کو معجزہ سے چڑ ہے وہ اس کے منکر ہیں لیکن مسیح ؑ کے معجزات کو تسلیم کرتے ہیں مگر آنحضرت ﷺسے منسوب معجزات کو نہیں مانتے یہ ان کے تعصب کا نتیجہ ہے ۔
انسان ہمیشہ سے اپنے تجربات و مشاہدات پر یقین کرنے کا عادی اور مشتاق رہا ہے اور صرف عقل کے بل بوتے پر کسی بات پر یقین کرتا رہا ہے جو اس کے مشاہدات کا نتیجہ ہے اس لیے رسولوں کے غیبیات پر یقین کرنے کے لیے وہ کسی حتمی طریقہ کا خواہاں رہتا ہے اور اسے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ اس کے سامنے اس سے قبل کوئی ایسا طریقہ موجود نہیں ہے بایں سبب وہ انبیا ء کی دعوت پر فوری لبیک کہنے میں بیزاری محسوس کرتا ہے اس سے معذوری و بیزاری کے رفع کے لیے ضروری ہے کہ انبیاء ایک ایسے جدید طریقہ استدلال سے آغاز کریں جو عالم غیبیات پر ایمان لانے کے لیے نہایت موثر ہو اور انسانی ذہن اور فطرت اسے آسانی سے سمجھ کر مطمئن ہو سکے اور وہ ان کی فطرت کے مطابق وہ دلائل پیش کریں جن کا تعلق مشاہدات سے ہو انہی کا نام معجزات و خوارق عادات ہے اشیاء کے خواص و تاثیر کا اصول جو انسان نے اپنے ذہن میں بٹھا رکھا ہے اسے سمجھتا ہے کہ وہ باطل تھا تو اب اس کے لیے ایک بالاتر طاقت تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہتا اور مانتا ہے جو خدا مادہ کا خالق ہے اور اس کے خاص کا بھی مالک ہے اور چونکہ ایک مشاہدہ دوسرے مشاہدہ کی تکذیب کر سکتا ہے اس لیے وہ یقین کی اس حالت میں آ جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ جس طرح مادہ کے یہ خواص مادہ کی جانب سے مخفی رکھے گئے ہیں اسی طرح اس کی قدرت سے سلب بھی ہو سکتے ہیں جس سے رفتہ رفتہ غیبیات پر یقین لانے کی طرف میلان پیدا ہونے لگتا ہے ۔
معجزہ کے لیے قرآن مجید میں لفظ آیت آیا ہے آیت کے معنی علامت اور نشانی ہے تو اب آسانی پیدا ہو گئی کہ جس طرح ہر شے کی شناخت کے لیے نشانی یا چند علامات ہوتی ہیں جس سے وہ شے جلد اور آسانی کے ساتھ پہچان لی جاتی ہے اسی طرح انبیاء کے ساتھ بھی کچھ ایسی علامات اور نشانیاں ہوتی ہیں جن کو دیکھ کر ان کی نبوت و رسالت کا یقین حاصل ہوتا ہے لہٰذا ان ہی کا نام آیات نبوت ـو دلائل نبوت ہے ۔ اور یہ علامتیں اللہ کی طرف سے مبعوث ہونے کا ثبوت ہوتی ہیں اس لیے قرآن مجید میں ان کا نام برہان بھی رکھا ہے جس طرح حضرت موسٰی ؑ ٰکے لیے ارشاد ہوتا ہے۔ ’’فذلک برھانن من ربک‘‘۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ علامت و نشانی جس چیز کے لیے مقرر ہے اس کے درمیان (یعنی شے اور علامت ) کوئی خصوصیت ہونی چاہیے تا کہ اس علامت سے فوراَ َدوسری چیز کا یقین حاصل ہو سکے جس طرح شے اور علامت میں ایک محکم ربط موجود ہے کہ ایک کے وجود سے دوسرے پر استدلال کرنا معقول سمجھا جاتا ہے اسی طرح نبوت و رسالت اور ان کی علامات میں ایک خاص ربط ہوتا ہے یہ ایک غیبی حقیقت ہے اس لیے جو چیز اس کی علامت کی حیثیت سے مقرر کی جائے اس کو بھی عالم غیب سے تعلق ہونا چاہیے لہٰذا قدرت انبیاء کے ساتھ کچھ ایسی علامات مقرر کر دیتی ہے جن کو فطرت نظام عادی ( نوامیس طبیعہ) سے خارج دیکھ کر ایک دم چونک اٹھتی ہے اور ان کے اسباب و علل کی جستجو میں پڑ جاتی ہے اور جب ان کو اسباب عادیہ سے خارج دیکھتی ہے تو اس میں کسی غیبی طاقت کے اقرار کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے اسی کو معجزات کہتے ہیں اگر یہ بھی ظاہری اسباب کے مطابق ہوں تو وہ پیغمبر اور خدا کے درمیان رابطہ کی دلیل کیونکر بن سکتے ہیں ؟ کفار ان کو دیکھ کر آج نہیں تو کل یہ کہہ سکتے ہیں یہ تو فلاں سبب سے تھے اس لیے انبیاء سے جس قدر معجزات صادر ہوتے ہیں یہ سب ان کی قدرت سے نہیں بلکہ خدا کی قدرت سے ہیں ۔ ارشاد خدا وندی ہے ۔’’انما الآیات عنداللہ ‘‘ ۔ بے شک نشانیاں اللہ کی طرف سے ہیں ۔
اہم نکتہ : جس قدر اسباب و علل کا پھیلائو ہے وہ سب عالم کے لیے ہے ‘ خالق عالمین کے لیے نہیں کیونکہ خود عالم اسباب اس کی مخلوق ہے اس لیے غلطی یہاں یہ لگی کہ انسان نے دنیا میں آکر اپنے ماحول میں ایسا مقررنظام پایا اور اسے بے تغیر و تبدل پایا تو اس کا نام نظام فطرت رکھ دیا اور یہ حد کر دی کہ خالق کے حق میں بھی اسے بے تغیر وتبدل ٹھہرا دیا جب کہ نظام فطرت نظام قدرت سے بالاتر نہیں بلکہ خود قدرت ہی نے نظام فطرت بنایا ہے یعنی اشیاء کی فطرت میں جو نظام چل رہا ہے ‘ وہی چلا رہا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سارے کا سارا نظام ‘ نظام قدرت کے ماتحت ہے گویا فطرت ہر وقت قدرت کی محتاج ہے جس طرح عالم میں اشیا ء مخلوق ہیں اسی طرح ان کی فطرت بھی خالق کی مخلوق ہے آگ اکثر جلاتی ہے تو بے شک یہ اس کی فطرت ہے مگر اس میں جلانے کی فطرت خالق نے پیدا فرمائی ہے یہ آگ کی فطرت کا کوئی طبعی اقتضا نہ تھا اس لیے جب یہ ہے تو اگر وہ چاہے تو آگ کی خاصیت کو بدل بھی سکتا ہے وہ جلانے والی آگ کو ٹھنڈا بھی کر سکتا ہے یہی نہیں بلکہ سلامتی والی بنا دیتا ہے ۔ ارشاد خدا وندی ہے ’’قُلْنَا یَا نَارُکُوْنِیْ بَرْدًاوَّسَلَامًا عَلٰی اِبْرَآھِیْمَ‘‘
یہاں پر ایک معجزہ اور اس کی تاویلات کو بیان کیا جاتا ہے تاکہ معجزہ کی حقیقت مزید نکھر کر سامنے آ جائے ۔ اگر عمل تنویم کے تجربات میں تھوڑی سی قیاسی وسعت پیدا کر لی جائے تو شق قمر وغیرہ تقریباََ ہر قسم کے خوارق کی توجیح ہو سکتی ہے کیونکہ اس عمل کا دارومدار تمام تر عامل کی قوت اثر آفرینی اور معمول کی اثر پذیری پر ہے ‘‘ یہ درست نہیں کیونکہ عمل سحر کی طرح معجزہ کے مقابل کی چیز نہیں ۔ معجزہ میں صاحب معجزہ کی قوت اثر آفرینی کا ذرہ برابر دخل نہیں ہوتا ۔(۲) چاند کے مختلف اجزا جس کیمیائی جذب و اتصال کی قوت سے آپس میں پیوستہ ہیں اس میں صرف اس حصہ قوت کو جو چاند کے نصفین میں واجب اتصال ہے تھوڑی دیر کے لیے اللہ تعالیٰ حذ ف یا سلب کرے جس سے شق قمر کا معجزہ ظاہر ہو سکتا ہے ‘‘ اس کے جواب کا حاصل یہ رہا کہ شق القمر قدرت خدا وندی سے ظاہر ہوا اب یہاں جذب اتصال اور کیمیائی اصطلاح استعمال کرنے سے اس خرق عادت کا حل نہیں ہوتا یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ انگلی کے اشارہ سے اس قوت اتصال کا سلب ہو جانا کیا عادتاََ ہے اگر نہیں تو پھر یہ خرق عادت ہی تو ہے ۔ (۳) شق القمر اہل مکہ کی طلب پر ایک آیت الہٰی تھی یعنی ان منکروں کو ان کی خواہش کے مطابق ایک نشانی دکھائی گئی ۔احادیث میںہے کہ چاند دو ٹکڑے ہو کر نظر آیا خواہ وہ اصل چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے ہوں یا خدا تعالی ٰنے ان کی آنکھوں میں ایسا تصرف کر دیا کہ ان کو چاند دو ٹکڑے نظر آیا ‘‘۔ جو خدا انسانی آنکھوں میں خلاف عادت تصرف کر سکتا ہے وہ خد اچاند میں بھی خلاف عادت تصرف کر سکتا ہے پھر چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ نشانی اہل مکہ کو دکھانی تھی اور ان کے لیے یہ آیت نبوت تھی اس لیے تمام دنیا میں اس کے ظہور اور روایت کی حاجت نہ تھی ۔‘‘ چاند دو ٹکڑے ہوا نظر آیا خواہ چاند دو ٹکڑے ہوا یا نہیں اسے نظر بندی کہا جا سکتا ہے اور یہ نظر بندی تصرف نہیں ؟ لیکن کیا انبیاء کے معجزات میں اس قسم کی نظر بندی کا احتمال جائز ہے اور اگر جائز ہو تو دین کا نظام درہم برہم ہو جائے گا نیز ان کے لیے ایسا شبہ بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ایسا عمل کر دکھائیں اور خارج میں اس کا وجود بھی نہ ہو۔ ان کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہوتا چہ جائیکہ وہ امور جو قدرت ان کی صداقت کے لیے نشانی قرار دے ۔ اگر اہل مکہ کی آنکھوں پر تصرف ہوا تو اس معجزہ کی صحت کے لیے انہوں نے باہر والوں کی شہادت کو معیار بنایا کیونکہ تصرف حاضرین پر ہو گا غائبین پر نہیں جب قافلے والوں نے شق القمر کی گواہی دی تو اس معجزہ کے صحیح ہونے پر یقین کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہتا ۔ دوسرے معجزات کو بھی برحق ایسی تحقیق سے ثابت کیا جا سکتا ہے ۔ مستشرقین لاکھ ہاتھ پائوں ماریں وہ اسے نا درست ثابت نہیں کر سکتے اور نہ اسے غلط کہہ سکتے ہیں ‘ اگر کہتے ہیں تو یہ محض ان کے تعصب کا نتیجہ ہے یا دوسروں کے لیے شک وشبہ پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے اور بس ۔
شق القمر آثار قیامت سے ہے ۔
حاضرین کے علاوہ غیر حاضرین نے بھی چاند کو دو ٹکڑوں میں بٹا دیکھا ۔ قرآن مجید میں اس معجزہ کا ذکر ہے ۔ بعض نام نہاد مسلمان حضرات قوانین فطرت سے ضرورت سے زیادہ ہی مرعوب ہیں اور اس کو آثار قیامت میں شامل کرتے ہیں ۔ کیونکہ آیت میں ہے’’اِقْتَرَبَتِ السَّآعَتِ وَشَقَّ اْلقَمَرِ ‘‘ (قریب آگئی ساعت اور پھٹ گیا چاند )( القمر۱،پارہ۲۷)
لیکن ان لوگوں نے اس بات پرغور نہیں کیا کفار نے اس کو جادو سمجھا اور آیت میں الفاظ مندرجہ ذیل کے بعد ہی اس چیز کا ذکر فرمایا گیا ہے ۔ ’’ و ان یر و ایتہ لیعر ضوا یقولوا سحر مستمر‘‘ ( القمر۲ ، پارہ۲۷) ( اگر یہ کفار معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو سحر مستمرہے ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ چاند کے دو ٹکڑے ہوئے ‘ اور کونسی چیز تھی جس کو منکرین اسلام نے جادو خیال کیا ۔ سحر مستمر یعنی وہ جادو جو دائمی ہو ۔ کفار حضور ﷺ کے تمام معجزات کو جادو سمجھتے تھے ۔ اگر یہ فقط قیامت کا ذکر ہوتا تو کفار کے لیے سحر اور سحر مستمر کے ذکر کا کیا موقع تھا؟ کفار نے چاند کے دو ٹکڑے ہوئے دیکھے اگر انہوں نے اسے نظر بندی سمجھا تو یہ بات تو حقیقت ہے کہ کسی نے وہ بات کر دکھائی جو کوئی اور شخص نہیں کر سکتا حسین آفندی کے بقول ’’ فرض کر لیجئے کہ محمد ﷺ نے حاضرین کی نظر بندی کر دی یہاں تک کہ انہوں نے اس امر کا مشاہدہ کیا کہ چاند شق ہو گیا ، تو کیا آپ کی قدرت میں یہ بات بھی ہو سکتی ہے کہ آپ ان مسافروں کی بھی نظر بندی کر دیتے ہیں جن میں سے ہر فریق جدا جدا مقام پر تھا نیز کفار کا سوال یہ تھا کہ چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھا دیں ۔ آپ ﷺ نے چاند دو ٹکڑے کر دکھایا ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ چاند دو ٹکڑے کیا نہیں مگر ان کی نظر بندی کر دی جس سے چاند انہیںدو ٹکڑوں میں بٹا ہوا نظر آیا ۔ یہ بات بالکل سوال کے خلاف ہے کیونکہ سوال میں ہے چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھائیں تو اب سوال کے جواب میں چاند کے دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا ہے اگر ایسا نہیں اور سوال کے خلاف جواب ہے تو یہ دھوکہ ہے جو کار نبوت کے بالکل خلاف ہے جبکہ نبوت سرتا پا امانت و دیانت کی حامل ہوتی ہے ۔ لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ سوال گندم جواب چنا دیا جائے ۔
اعتراض ۳۳
َِِْْــَ’’ ولیم میور آنحضرت ﷺکے مختون پیدا ہونے کو اختراعی روایات میں شامل کرکے بعید از قیاس اور خلافِ قانون قرار دیتا ہے‘‘۔ (خطبات احمدیہ ص ۴۳۵)
جواب: روزمرہ کے مشاہدات شاہد ہیں کہ ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں جن میں علامت تذکیر و تانیث دونوں موجود ہوتی ہیں۔ایسے بچے بھی پیدا ہوتے ہیں جو مختون ( ختنہ شدہ) ہوتے ہیں ۔یہ نظامِ قدرت ہے۔ قدرت کی شہ کار صنعت گری میں ایسے واقعات کا وقوع میں آنا کوئی عجیب بات نہیں۔ آنحضرتﷺ کی اسی صفت کو ولیم میور اختراعی روایات کا نام دیتا ہے لیکن دنیا میں دیگر مختون پیدا ہونے والے بچوں کے بارے میں کیا کہے گا؟ بعض نے لکھا ہے کہ آپﷺ کا ختنہ اس وقت کیا گیا جس وقت آپ حلیمہ سعدیہ کے ہاں پرورش پا رہے تھے اور جس وقت جبرائیل نے شقِ صدر کیا اور آپ کا قلب مبارک پاک صاف کیا تھاتو آپﷺ کا ختنہ بھی کیا تھا۔اس کو ابنِ نعیم ،د میاطی ، مغلطائی اور طبرانی سے اوسط میں اور ابو نعیم نے ابوبکرہ کی حدیث سے روایت کیا ہے جب کہ امام ذہبی نے اسے حدیث منکر کہا ہے۔ ابن عساکر کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایسے حال میں پیدا ہوئے کہ آپ ناف بریدہ اور ختنہ کیے ہوئے تھے۔امام حاکم نے مستدرک میں کہا ہے کہ یہ متواتر احادیث وارد ہوئی ہیں کہ رسول اللہﷺ ختنہ کیے ہوئے پیدا ہوئے۔ مگر امام ذہبی نے حاکم کا یہ قول رد کیا ہے کہ یہ حدیث ( شیخین کے بغیر) متواتر نہیں اس لیے اس میں حجت معلوم نہیں ہوتی۔۔ حاکم کی متواتر سے مراد سند کے اس طریق سے نہیں جو آئمہ کے نزدیک اصطلاح حدیث میں ہے ۔ امام حاکم کے نزدیک ان احادیث کے تواتر سے مراد یہ ہے کہ ان روایات کی شہرت بھی ہے اور سیرت کی کتب میں کثرت بھی ۔( حاشیہ سیرت محمدیہ ترجمہ مواہب لدنیہ۔ ۹۳)
صاحب ترجمان السنہ ج ۴ ص ۱۳۲ پر لکھتے ہیں ’’ ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺکی ولادت کے اس واقعہ کے لیے صحیحین کے درجہ کی اسناد کہاں میسر آ سکتی ہیں اس قسم کے واقعات ہمیشہ شہرت کی بنا پر مقبول و منقول ہوا کرتے ہیں ۔ کوئی شبہ نہیں کہ آپ کے پیدائشی مختون ہونے کی شہرت اس درجہ ہے کہ آپﷺ کی امت میں جو بچہ صفت( مختون) پیدا ہوتا ہے اس کو ’’ رسولیہ‘‘ کہا جاتا ہے۔یہ زمانہ جاہلیت کا واقعہ ہے لیکن محدثین کے ہاں کچھ متون احادیث بھی ایسے ہیں کہ جو صرف شہرت کی بنیاد پر نقل ہوتے چلے آرہے ہیں۔مثال کے طور پر ابو الدردؓا صحابی سے روایت ہے کہ ’’جو شخص دین کے معاملات کی چالیس احادیث زبانی یاد کرے گا اللہ تعالیٰ روز محشر اس کو فقیہہ اٹھائے گا اور میں اس کی گواہی دوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا‘‘ ۔ یہ حدیث بیہقی نے روایت کی ہے پھر اس درجہ مشہور ہوئی کہ محدثین نے اس حدیث کے تحت ’’ اربعین ‘‘ یعنی چہل حدیث کے عنوان سے مستقل تالیفات فرمائی ہیں جن میں چالیس چالیس حدیثیں جمع کی گئی ہیںتاکہ اگر کسی کو اس فضلیت کے حاصل کرنے کا شوق ہو تو وہ ان کے ذریعہ سہولت حاصل کرسکے۔اس کے بعد بڑے بڑے علماء نے ان مصنفات کی شروح لکھیںلیکن امام احمد اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں ’’ لوگوں میں اس حدیث کی شہرت تو بہت ہے مگر اس کی کوئی سند صحت کے درجہ کی نہیں ہے ‘‘ ایک ضعیف حدیث علماء نے اس قابل سمجھی کہ اس پر تصانیف اور ان کی شروح لکھی گیئں تو آپ کے مختون ہونے کے واقعہ کو نظر انداز کیوں کیا جاتا ہے؟۔ اور صفت کو کسی نے فضائل میں شمار کیا تو اسے جھوٹ کا مرتکب کیوں جانا جاتا ہے؟حالاں کہ آئے دن اس دنیا میں مختون بچے پیدا ہوتے رہتے ہیں جو ایک تصدیقی امر ہے۔
سیرت محمدیہ مترجم مواہب لدنیہ میں ہے کہ ابن درید کی وشاح میں ابن الکلبی کے حوالے سے روایت ہے کہ حضرت آدم ؑ مختون پیدا ہوئے ان کے بعد بارہ انبیاء مختون پیدا ہوئے۔
۱۔حضرت شیثؑ (۲) حضرت موسیٰؑ (۳) حضرت ادریس ؑ (۴) حضرت سلیمانؑ (۴) حضرت نوح ؑ (۵) حضرت سام ؑ (۶) حضرت یحٰی ؑ (۷) حضرت ہود ؑ (۸) حضرت یوسف ؑ (۹)حضرت شعیب ؑ(۱۰) حضرت لوط ؑ (۱۱) حضرت صالحؑ (۱۲) حضرت محمد ﷺ
’’ آئے دن عام لوگوں میں مختون بچے پیدا ہوتے رہتے ہیں جنھیں ’’ رسولیہ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ انبیاء کی شان تو وریٰ الوریٰ ہے ان کا مختون پیدا ہونا منشائے ایزدی ہے تو اس میں چوں و چراںکیسی اور کیوں؟ حقیقت کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جنھوں نے اس واقعہ کو فضائل کے باب میں شمار کیا ان کی نظر صرف آپ ﷺ کے مختون پیدا ہونے پر نہیں ہے بلکہ اسی کے ساتھ دوسرا لفظ ’’ مسرورا‘‘ بھی موجود ہے ‘‘ یعنی ناف بریدہ ‘‘ غالباََ ان دو صفتوں کا بچہ ابھی تک کوئی سننے میں نہیں آیا۔ مفصل روایات میں موجود ہے کہ اس وقت بھی یہ صورت تعجب سے دیکھی گئی تھی اس واقعہ کو آیات نبوت یعنی فضائل میں شمار کرنے پر اصرار نہیں لیکن بے وجہ اس کو فضائل کی فہرست سے خارج کرنے پر زور دینے سے بھی انکا ر ضرور ہے ‘‘( ترجمان السنہ ج۴ ص ۱۳۴)
مہر نبوت
اعتراض نمبر۳۴
سر ولیم میور کہتا ہے ’’ صفیہ سے نقل ہے کہ آنحضرت(ﷺ) کی مہر نبوت ان کی پشت پر نور کے حرفوں میں مرقوم تھی تمام مستند حدیثیں بالاتفاق بیان کرتی ہیں کہ وہ ایک سیاہ غدود تھا اور اس پر بال تھے ۔ خود آنحضرتﷺ نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ میری رسالت کی مہر ہے اور نہ کبھی اس کو اپنی رسالت کے بر حق ہونے کے ثبوت میں پیش کیا جس طرح حضرت موسیٰ ؑنے اپنے ید بیضاکو ثبوت میں لوگوں کے سامنے پیش کیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺکی ہر چیز کی حرمت و تعظیم کی جاتی تھی اور اسی خیال سے بعض لوگوں نے آنحضرت ﷺکی پشت کے غدود کو عام زبان سے بولنا بے ادبی و گستاخی خیال کرکے استعارتاََاس مہر نبوت کے معزز اور گرامی نام سے موسوم کیا‘‘ ( خطبات احمدیہ ص ۴۳۶)
سر سید کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کے اس خیال کو کہ اس پر حرف لکھے ہوئے تھے اور جمیع علمائے اسلام نے نہایت صراحت کے ساتھ رد کیا ہے پس کیا ایک عیسائی عالم کو یہ بات نازیبا نہیں ہے کہ مسلمانوں پر ان کے نبی کی رسالت کے ثبوت میں ایسے امر کے اعتقاد رکھنے کا الزام لگائے جس سے وہ خود انکار محض کرتے ہیں ۔
جواب:مہر نبوت سے متعلق چند روایات؛۔
رسول اللہ ﷺکے دونوں شانوں کے درمیان خاتم نبوت سے مہر لگائی گئی اور خاتم شریف سے مشک کی بو مہکتی تھی اور خاتم نبوت کبوتر کے انڈے کی طرح تھی۔۔ (بخاری)
مہر نبوت پر بال جمع تھے گویا وہ سیاہ مسّے تھے۔(مسلم شریف) مسَّوں سے تشبیہ صرف رنگ سے ہے نہ کہ مہر نبوت کی صورت میں۔
مہر نبوت دائیں شانہ کی نرم ہڈی یا غضروف کے پاس تھی۔( ابو نعیم)
مہر نبوت شانہ مبارک کے پاس بال جمع تھے۔( صحیح حاکم)
مہر نبوت غدود کی طرح تھی ۔( بیہقی)
مہر نبوت گوشت کا ابھرا ہوا ٹکڑا تھا۔ ( شمائل ترمذی)
مہر نبوت گوشت کی گولی کی طرح تھی۔ ( ابن عساکر)
مہر نبوت چمک دار نور تھا ۔ ( مولد شریف ازابن عائد)
مہر نبوت کبوتر کے غدرہ کی مانند تھی۔ ( سیرت ابن ابی عاصم)
قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ خاتم نبوت سے متعلق روایتیں معانی میں ایک دوسرے کے قریب قریب ہیں۔اور متفرق طور پر متفق ہیں کہ ’’ خاتم (مہر) نبوت رسول کریم کے جسم مبارک پر ابھری ہوئی کبوتر کے انڈے اور حجلہ کی گھنڈی کے برابر تھی‘‘
اب ولیم میورکے اعتراض کا جائزہ لیتے ہیں ۔اول آنحضرت ﷺکی مہر ان کی پشت پر نور کے حرفوں میں مرقوم تھی۔ تمام مستند حدیثوں میں بالاتفاق بیان ہے کہ وہ ایک غدود تھا اور اس پربال تھے‘‘سر سید کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کے اس خیا ل کو کہ مہر نبوت پر حرف لکھے ہوئے تھے ، جمیع علمائے اسلام نے نہایت صراحت کے ساتھ رد کیا پس ایک عیسائی عالم کو یہ بات نازیبا نہیں ہے کہ مسلمانوں پر ان کے نبی کی رسالت کے ثبوت میں ایسے امر کے اعتقاد رکھنے کا الزام لگائے جس سے وہ خود انکار محض کرتے ہوں ( خطبات احمدیہ ۔۴۳۶)
اس کا جواب یہ ہے کہ ’’ اگر کمزور روایتوں سے تحریر کا پتہ چلتا ہے تو اس سے انکار کی جرات ممکن نہیں جب خود مہر نبوت کی شکل کے متعلق راویوں کے مختلف بیانات اپنے اپنے مذاق کے لحاظ سے موجود ہیں اور ان میں یہ بھی موجود ہے کہ اس پر کچھ رواں بھی تھے۔ اگر روئیں کے خطوط سے کسی کے ذہن میں کوئی خاص لفظ بنتا نظر آگیا ہے اور اس نے اپنے اس قیمتی مشاہدہ کے مطابق اس طرح اس کو نقل کر دیا ہے تو اس کا کیا قصور ہے؟ آج بھی ہر شخص ریل کے کھٹکوں میں اپنے اپنے خیال کے مطابق مختلف الفاظ پیدا کردیتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی کی نظروں میں ان خطوط سے کوئی خاص لفظ پیدا ہو گیا یا بن گیاتو اس کو احتمال کے درجہ میں کیوں نہ رہنے دیا جائے جب کہ اس کے خلاف بھی ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے‘‘( ترجمان السنہ ۱۳۴)
۲؛ ولیم کا یہ کہنا کہ دو مستند حدیثوں میں بالاتفاق بیان ہے کہ وہ ایک سیاہ غدود تھا اور اس پر بال تھے‘‘ اس کے جواب میں مسلم شریف کی حدیث ملاحظہ کیجیے۔ مسلم شریف میں ہیـــ ’’ مہر نبوت پر خال جمع تھے گویا وہ سیاہ مَسّے تھے‘‘ مَسّوں کی رنگ سے تشبیہ ہے نہ کہ مہر نبوت کی صورت میں۔ نیزبالوں کا رنگ سیاہ تھا نہ کہ مہر نبوت کا رنگ سیاہ تھا۔ ولیم میور کا بیان درست نہیں کہ ایک سیاہ غدود تھا،
۳؛ ولیم میور کہتاہے کہ آنحضرت ﷺنے مہر نبوت کے برحق ہونے کا ثبوت میں پیش نہیں کیاجیسے حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی رسالت کے برحق ہونے کے ثبوت کے طور پر لوگوں کے سامنے ید بیضا پیش کیا تھا۔
ج؛ مہر کو نبوت کے بر حق ہونے کے ثبوت میں پیش نہیں کیاـ؟ کیا کئی صحابہ نے مہر نبوت یا نبوت کے بر حق ہونے کو تسلیم نہیں کیا اور ان کے بیانات کی کہیں آنحضرت ﷺنے نفی فرمائی ؟کہیں نہیں تو میور کو تسلیم کرنا چاہیے کیوں کہ یہ وہ اصحاب ہیں جن سے قرآن ہم تک پہنچا ہے۔ یہ وہی قرآن ہے جو آج بھی وہی ہے اور اس وقت بھی تھا ۔ اور ولیم میور بھی قرآن کی حقانیت کا یقین رکھتا ہے ۔آپ ﷺ امین تھے ۔ انھوں نے جو پہنچایا بر حق تھا ۔ لہٰذا مہر کی حقیقت بتائی وہ بھی بر حق ہوئی۔ نبوت کے بر حق ہونے میں گواہی دی وہ بھی بر حق ثابت ہوئی۔
شام کے تجارتی سفر میں مشہور نصرانی راہب نسطورا کے گرجے کے پاس قافلے نے پڑائو کیا۔ اس قافلہ میں آنحضرت ﷺبھی تھے۔ آپ ایک درخت کے نیچے تشریف فرما ہوئے۔ میسرہ غلام جو اس سفر میں خدیجہ نے آپ کے ساتھ کیا تھا۔اس کی راہب سے آشنائی تھی۔ میسرہ راہب کے پاس گیا تو اس نے پوچھ لیا کہ درخت کے نیچے بیٹھنے والا شخص کون ہے؟
میسرہ؛ خاندان قریش کا ایک فرد ہے۔
راہب: کیا اس کی آنکھوں میں سرخی ہے؟
میسرہ :ہاں ! ہمہ وقت
راہب بولا: دوبلا شبہ وہی ہیں ۔۔۔۔ آخری نبی جس کی خبر مسیح ؑابن مریم نے دی تھی کہ ایک دن اس درخت کے نیچے ایک نبی آکر بیٹھیں گے ۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں جب وہ نبی نبوت سے سرفراز ہوں گے‘‘بعد ازاںنسطورا خود آپ کے پاس آیا قدم بوسی کی اور مہر نبوت کو چوما اور کہا ’’ اَشہَدُ واَنَّکَ رَسُولُ اللہ ِ النبَی الاُمِیَِّ الَّذِی بَشَرَ بہِ عِیسٰی ‘‘‘
’’ ترجمہ: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں وہ نبی امی جس کی بشارت عیسیٰؑ دے کر گئے تھے( سید الوری ج ۱ ص ۱۵۰)
راہب نے مہر کو چوما اور گواہی دی کہ آپ (ﷺ)اللہ کے رسول ہیں۔راہب تو مہر نبوت کو مانتا تھا اور چومتا ہے مگر ولیم میور اپنے تعصبات کی بنیاد پر طرح طرح کے شکوک پیدا کرتا ہے نہ اپنوں کی مانتا ہے نہ دوسروں کی۔
دوم: حضرت علی ؓسے روایت ہے کہ آپ ﷺ کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی کیوں کہ آپ ﷺ خاتم النبیین تھے۔ ( ابواب المناقب جلد دوم ص ۳۵۸ ترمذی شریف)
سوم: صاحب ترجمان السنہ جلد نمبر ۱ص ۳۹۴ پر لکھتے ہیں کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی اس معنوی خصوصیت کو بھی حِسّی شکل میں ظاہر کر دیا گیا تھا ۔ کتب سابقہ میں بھی مہر نبوت آپ کی ایک علامت بتلائی گئی تھی اس لیے طالبان حق نے منجملہ اور علامات کے آپ کی مہر نبوت کو بھی تلاش کیا ہے ۔ اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ خاتم النبیینﷺ آپ کا شاعرانہ لقب نہیں تھا بلکہ مہر نبوت کی وجہ سے کہ آپ آخری نبی ہیں آپ کو اسی لیے خاتم النبیین کہا جاتا ہے۔
چہارم: ولیم میور کا یہ کہناکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ کی ہر چیز کی حرمت و تعظیم کی جاتی تھی اور اسی خیال سے بعض لوگوں نے آنحضرتﷺ کی پشت کے غدود کو عام نام سے بولنا بے ادبی اور گستاخی خیال کرکے استعارتاََ اسی کو مہر نبوت کے معزز اور گرامی نام سے موسوم کیا‘‘۔
الہامی کتب سابقہ میں مہر نبوت کی علامت آخری نبی مکرمﷺ کی بیان ہوئی ہے۔ دوم نسطور ا راہب نے مہر نبوت کو چوما گویا تعظیم کی حد کردی اس کے ساتھ دلیل میں یہ کہا کہ اس نبی کی آمد کی خبر مسیح ؑابن مریم دے کر گئے تھے۔ راہب کا بیان اور عمل مستشرق ولیم میور کے باطل الزامات کا رد کرتا ہے اپنے پادری کی تعظیم کرنے سے سبق سیکھ لیتا تو ایسی باتیں نہ کرتا۔
امام حاکم نے مستدرک میں ابن منیہ سے روایت کی ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کو مبعوث نہیں کیا مگر ایسے حال میں کہ اس کے دائیں ہاتھ میں نبوت کا خال مہر نبوت کی علامتیں ہوتی تھیں ۔ مگر ہمارے نبی کریم مبعوث کیے گئے تو آپ کی نبوت کا خال مہر نبوت آپ کے دونوں شانوں کے درمیان تھی‘‘ اس صورت میں مہر نبوت آپ کے دونوں شانوں کے درمیان دل کے مقابل لگائی جانی اس صفت سے ہو گی جس کے ساتھ آپ کو سارے نبییوں سے اختصاص ہے ( سیرت محمدیہ ترجمہ مواہب لدنیہ ج اول ص ۱۱۴۔۱۱۵)
مستشرق کا یہ کہنا کہ آپ کی ہر چیز کی عزت و تعظیم کی جاتی تھی۔ یہ درست ہے کہ مومن لوگوں کو اپنی کامیابی اور فلاح کے لیے آپ کی عزت و تکریم کے لیے خود خالق حقیقی حکم فرماتا ہے ’’ فَالَّذِیْنَ اٰمِنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَ اتَّبَعُوْالنُّوْرَ اَلَّذِیْ اُنزِلَ مَعَہٗ ُاوَلٰئِکَ ھُمُ المُفْلِحُوْنoَ ( الاعراف ۱۵۷ ،پارہ۹) (ترجمہ) جو لوگ ایمان لائے ان (نبی ﷺ) پر اور جنہوں نے ان کی تعظیم کی اور جذبہ احترام کے ساتھ ان کی مدد کی اور پیروی کی اور جو ‘ان پر نازل ہوا ، وہ بھی فلاح پانے والے ہیں ۔
اعتراض نمبر۳۵
درج ذیل حدیث کے بارے سرسید( خطبات احمدیہ ص ۴۳۷) پر کہتے ہیں کہ اس روایت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جس چیز کو مہر نبوت کہتے تھے وہ کیا چیز تھی اور صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ خود اس زمانہ کے مسلمان جو آنحضرت ﷺکے اصحاب تھے اس کو کیا سمجھتے تھے پس سر ولیم میور صاحب نے اس کو جو عجائبات اسلام کہا ہے محض بے جا ہے‘‘
مہر نبوت کو مرض خیال کرنا کیسا ہے؟
ابو رَمشہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ہمراہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انھوں نے آپ کی پشت پر مہر نبوت دیکھی تو عرض کیا یا رسول اللہﷺ فرمائیے تو میں اس کا علاج کردوں کیوں کہ میں طبیب ہوں ۔ آپ نے فرمایا تم تو رفیق ہو ، طبیب حقیقی تو دراصل اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ دوسری روایت میںہے کہ میں نے آپ کے بازو مبارک کی جانب سیب کی طرح ابھری ہوئی ایک چیز دیکھی( یعنی مہر نبوت) تو میرے والد نے عرض کیا کہ میں طبیب ہوں ارشاد ہو تو میں اس کا علاج کردوں ؟ آپ نے فرمایا اس کا طبیب تو وہی ہے جس نے اس کو پیدا فرمایا ہے( رواہ احمد و اخرجہ صاحب المشکوتہ فی باب القصاص)
جواب؛ سر سید کا بیان درست نہیں ۔وہ یوں کہ لوگوں کے خیال میں ایک شخص کو مرض ہے لیکن وہ بیماری اور مرض اس وقت تک مرض نہیں ہوتاجب کہ خود مرض میں مبتلا شخص نہ کہے۔ وہ مریض اس کی از خود تصدیق نہ کرے کیونکہ مرض سے اسے تکلیف ہوتی ہے اور تکلیف کو دور کرنے کے لیے کسی نہ کسی معالج کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس حدیث سے کہیں ادنیٰ اشارہ بھی اس باب میں نہیں ملتا کہ آپﷺ نے فرمایا ہو کہ مجھے یہ مرض لاحق ہے۔ پھر یہ بھی کہ آپ ﷺنے علاج کا رد فرمایا اور ابی رمشہ کے والد کے کہنے پر علاج کی طرف رغبت نہیں فرمائی نیز مدت العمر کسی موقعہ پر بھی آپﷺ نے اس مرض کے علاج کی خواہش نہیں فرمائی۔ مہر نبوت پر مرض کے اس گمان کرنے والے کے جواب میں کسی ادنیٰ ناگواری کی بجائے آپﷺ نے اس سے ایسے بصیرت افروز کلمات فرمائے کہ خود اس طبیب کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ سمجھ گیا کہ اضافی بہی خواہی کی حد تک بہت سے بہت ظاہری دوری اور رفاقت تک ہو سکتی ہے ۔اس لیے اس کی حیثیت بھی ایک رفیق کی حیثیت سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ شفا و مرض کا اصل رشتہ و تعلق خدا تعالیٰ کے ہی دست قدرت میں ہے ۔اس لیے طبیب کا اصل لقب پانے کے لیے اس کی ذات پاک موزوں اور بر حق ہے۔ وہ بھلا طبیب ہونے کا کیا دعویٰ کر سکتا ہے جس کو مرض و شفا کا منبع کے درمیان تمیز نہ ہو۔
عرفی نظر میں گو کسی انسان کو طبیب کہہ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن آپ ﷺنے تنبیہ فرمائی کہ ایک مومن کے قلب میں توحید کا نقش ایسا گہرا ہونا چاہیے کہ اس کی نظر میں ایک قابل سے قابل طبیب کی حیثیت بھی ایک ضعیف رفیق کی رہ جائے۔ اور طبیب کا لقب صرف اس کی ذات کے ساتھ مخصوص نظر آئے جو شفا و مرض کا سر چشمہ ہے( ترجمان السنہ جلد دوم ۳۸۸۔۳۸۷)
نکتہ: کیا آپ ﷺعلاج کی مخالفت کرتے تھے اور کبھی کسی عارضہ میں مبتلا ہوئے ہوں اور علاج نہیں کرواتے تھے؟
نہیں ، ہر موقعہ پر مرض کے مطابق علاج کرواتے تھے۔ جنگ احد میں عقبہ کے پتھر سے دانت ٹوٹا، ابن قیمہ کے پتھر سے نبی مکرمﷺ کی پیشانی اور ابن ہشام کے پتھر سے آپ کا بازو زخمی ہوا۔ پیشانی کا خون تھمتا نہیں تھا۔ آپ کی لخت جگر بیٹی حضرت فاطمہؓ نے پیشانی کو پانی سے دھویا پھر چٹائی جلا کر راکھ زخموں میں بھردی۔ اسی طرح آپ ﷺنے تکلیف کے پیش نظر پچھنے لگوائے۔ حضرت انس ؓبن مالک سے کسی نے پوچھا ! پچھنے لگانے کی اجرت حلال ہے یا حرام؟ انھوں نے کہا ابو طیبہ (نافع یا میسرہ) نے آنحضرت ﷺکے پچھنی لگائی آپ نے اس کواجرت میں دو صاع کھجور دئیے اور اس کے مالکوں سے( بنو حارثہ) سفارش کی ، انھوں نے اس کا محصول کم کردیا اور آنحضرتﷺ نے فرمایا تمھارے علاجوں میں پچھنی لگانا عمدہ ہے اور عمدہ دوا عود ہندی ہے اور آپ نے فرمایا حلق کی بیماری میں ، بچوں کو ان کا تالو دبا کر تکلیف نہ دو ، قسط لگائو اس سے ورم جاتا رہے گا۔( بخاری۔ ۳۱۴،۳)
لہٰذا مہر نبوت نعوذباللہ کوئی بیماری یا مرض ہوتا تو آپﷺ اس کے علاج کی طرف رجوع فرماتے مگر ایسا نہیں ہواجس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺکو اس کا علم تھا کہ یہ مرض نہیں ، تو دوسرے کا مرض گمان کرنا درست نہیں اگر یہ کہا جائے کہ آپﷺ نے ابی رَمشہ کے والد کو مرض کہنے پر ناگواری ظاہر نہیں فرمائی کیوں جب کہ مرض نہ تھا؟ بتقاضہ رحمت اللعالمینی تھا ، آپ ﷺسے یہی توقع ہو سکتی تھی کہ اس کی دل آزاری نہیں فرمائی نیزطبیب و رفیق کے فرق کو واضح فرماکر توحید کے اسرار و رموز بھی واضح فرمادئیے صَلُّو عَلیَ الحبیِب!
یہی نہیں بلکہ دوسروں کو بھی بیماری لاحق ہونے پر علاج کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔حضرت سعد بن ابی وقاص ؓبیمار ہوئے تو آپ نے ان سے کہا کہ انھیں مکی ڈاکٹر الحارث بن کلاوہ کو بلانا چاہیے۔
دودھ پلائی والی پہلی خاتون: صاحب مدارج النبوت( مدارج نبوہ۔۳۳) رقم طراز ہیں کہ ’’ سب سے پہلے جس نے حضور کو دودھ پلایا وہ ابو لہب کی باندی ثویبہ تھی۔ جس شب حضور کی ولادت ہوئی ثویبہ نے ابو لہب (آپ کے چچا) کو بشارت پہنچائی کہ تمھارے بھائی حضرت عبداللہ کے گھر فرزند پیدا ہوا ہے۔ ابو لہب نے اس مثردہ پر اس کو آزاد کرکے حکم دیا کہ جائو دودھ پلائو‘‘
اہم نکتہ؛ جن سیرت نگاروں نے صاحب مدارج النبوت کے حوالے سے واقعہ لکھا ہے تو وہ اسی طرح لکھا ہے جس طرح اوپر بیان ہوا ہے جیسے سیرت مصطفی از عبد المصطفے اعظمی نے ص ۴۷پر ’’ دودھ پینے کا زمانہ ‘‘ عنوان کے تحت لکھا ہے۔مگر میری نظر میں اور جتنی سیرت کی کتب آئیں میں نے یہی پڑھا کہ سب سے پہلے جس کا آپﷺ نے دودھ نوش فرمایا وہ آپ کی والدہ ماجدہ تھیں ۔ مثال کے طور پر حکیم محمود احمد ظفر ( سیرت خاتم النبیین۔۱۲۳) لکھتے ہیں بحوالہ طبقات ابن سعد، زرقانی، عیون الاثر، نہایہ الادب اور تاریخ اسلام ذہبی’’ کہ ابتدا میں چار روز ( اور بعض روایات میں سات روز) آپ کی والدہ سیدہ آمنہ ؓنے آپ کو دودھ پلایا۔ اس کے بعد ثویبہ نے جو ابو لہب کی آزاد کردہ لونڈی تھی نے دودھ پلایا۔ آپ کے چچا ابو لہب کو جب ثویبہ نے آپ کی ولادت کی خوش خبری سنائی اور بتایا کہ تمھارے مرحوم بھائی عبداللہ کے گھر خدا نے فرزند عطا فرمایا ہے تو اسے اتنی خوشی ہوئی کہ وہ پھولے نہ سمایا اور اسی وقت لونڈی کو آزاد کر دیا۔ دراصل بات یوں ہے کہ آپ ؐ کو والدہ ماجدہ کے بعد سب سے پہلے جس نے دُودھ پلایا وہ ثویبہ تھی۔
اہم نکتہ : صاحب اصح السیر نے ص ۶ پر لکھا ہے کہ ابو لہب نے ہجرت کے بعد آزاد کر دیا تھایہ درست نہیں ہے کیونکہ مذکور واقعہ سے اس کا رد ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ اوپر کے واقعہ کی تصدیق حضرت عباسؓ کے خواب سے بھی ہوتی ہے۔ایک اور روایت میں عباس کے خواب کے حوالہ سے پتہ چلتا ہے کہ ابو لہب نے آپ ﷺکی ولادت کی خوش خبری سن کر ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔ لہٰذا صاحب اصح السیر کو بھی سہو ہواہے۔ یوں بھی بیان کیا جاتا ہے کہ ثویبہ کو جو محمد ﷺ کی ولادت کا مثردہ سن کر آزاد کیا تھا، اس کی وجہ سے دو شنبہ (پیر) کو عذاب میں تخفیف ہو جاتی ہے۔( خاتم النبیین ص ۱۲۳ بحوالہ فتح الباری، البدایہ و النہایہ، جامع الاصل تاریخ اسلام ذہبی)لہٰذا ثویبہ کو ابو لہب نے اپنے بھتیجے حضرت محمد ﷺ کی ولادت پر آزاد کیا تھا نہ کہ ہجرت کے بعد ۔
رسم عقیقہ اورنام رکھنا:بچہ پیدا ہونے کے شکریہ میں جو جانور ذبح کیا جاتا ہے اس کو عقیقہ کہتے ہیں ۔ آنحضرت کے دادا نے ساتویں دن اونٹ ذبح کرکے قریش کو دعوت پر بلایا۔ قریش دعوت میں چلے آئے۔ اس موقع پر اور باتوں کے علاوہ چند غیر معمولی چیزیں دیکھنے میں آتی ہیں ۔ دعوت پر کسی نے پوچھ ہی لیا کہ کیا آج شراب نہیں چلے گی ؟ آپ کے دادا جان نے نفی میں جواب دیاکہ آج یہاں شراب نہیں چلے گی کیوں کہ ابن عبداللہ کی ولادت سے شراب ہم پر حرام ہو گئی ہے ( اعلان نبوت۳۳۳) اس کے بعد پھر یہ مطالبہ کرنے کی کسی میں ہمت نہ رہی۔ دوسری یہ چیز کہ رسم عقیقہ اور اسم گرامی رکھنے کے وقت آپ کے والد ماجد موجود نہ تھے۔ وہ پہلے ہی اس دنیا سے کوچ کر گئے تھے اور آپ ﷺکے دادا نے یہ رسمیں بخوبی سرانجام دیں ۔ سوم۔ دادا نے نام محمد ﷺ رکھا۔ یہ سن کر قریش سے رہا نہ گیا اور پوچھ بیٹھے کہ اس نام نامی میں کیا خوبی ہے کہ آپ نے تمام اپنے بزرگوں کے نام نامی نظر اندازکر دیئے ہیں ؟ فرمایا ’’ اس توقع پر کہ ارض و سما دونوں جگہوں میں میرے فرزند کی تعریف کی جائے‘‘۔
تاریک حرف کوئی نہیں اس کے نام میں
یہ وہ نام ہے جس کا ستارہ بھی روشنی
اہم نکتہ: آپ سے پہلے اس نام کے اور بچے بھی تھے جن کے والدین نے اپنے بچوں کے نام اس آس وامید پر رکھے کہ انھوں نے سن رکھا تھا کہ عنقریب نبی آنے والا ہے جس کا نام ’’ محمد‘‘ ہے ، شاید وہ یہی ہوں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے حفاظت فرمائی کہ ہر شخص جس کا نام محمد ہے وہ نبوت کا دعوی ٰکرے یا اس کو کوئی اس کے ساتھ پکارے یا اس پر کوئی سبب ظاہر ہوجائے جس سے کوئی آپ ﷺ کے بارے میں شک کرسکے یہاں تک کہ یہ دونوں نام آپ ﷺ کے خوب تحقیق والے ثابت ہوگئے اور کوئی ان دونوں ناموں میں نزاع نہ کر سکا ‘‘ ( الشفاء بتعریف حقوق المصطفی۔۲۰۶) آنحضرت کے وہ دونوں نام ’’ محمد اور احمد ‘‘ ﷺ ہیں۔
بعض کہتے ہیں کہ جسمانی اعضاء میں کمی یا بیشی ہو تو اسے عیب سمجھا جاتا ہے ۔ شق صدر میں آپ ﷺ کے جسم اطہر سے خون کا لوتھڑا نکال کر باہر پھینک دیا تھا اور ختنہ کے ٹکڑے کا نہ ہونا بھی عیب ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے کامل انسان پیدا فرمایا اور یہ لوتھڑا بھی منجملہ اجزائے انسان میں سے تھا اسے پیدا کر کے تخلیق انسان کی تکمیل ہوئی اس کے بعد نکال لیا گیا اس میں آپ ﷺ کی تعظیم و تکریم ہوئی اگر آپ ﷺ میں وہ لوتھڑا نہ ہوتا تو ایک طرف آپ ﷺ کے اجزائے انسانی میں کمی ہوتی اور یہ نقص ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ کو آپ ﷺ میں کوئی نقص و عیب گوارا نہیں اور اسے پھر نکالا نہ جاتا تو آپ ﷺ کی تکریم و عظمت شان کا اظہار نہ ہوتا ۔ مشہور روایات میں ہے کہ حضور ﷺ مختون پیدا ہوئے اور ختنہ کے ٹکڑے کا نہ ہونا بھی تو اجزائے انسانی کی کمی کا موجب ہے لیکن وہ تو عظمت شان سمجھا گیا اور اس کے نہ ہونے میں بھی یہی عظمت و کرامت کا ظہور ہوتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ختنہ کے ٹکڑے کے ہونے میں کاٹتے وقت ستر کھولنا ضروری تھا اور یہ عیب دیگر کے علاوہ تنزہات نبوت کے خلاف تھا اور آپ ﷺ کو بھی ستر کا کھلنا سخت نا گوار تھا ( جیسے کعبہ کی تعمیر کے قصہ سے عیاں ہے ) اور سب کو معلوم ہے کہ ختنہ کا ٹکڑا کا نہ ہونا عظمت شان سمجھا جاتا ہے ( اور شیطانی ٹکڑا پیدا کرنا اضافہ حسن و کمال ہے جیسے ناخنوں کا ہونا پھر انہیں کاٹنا حسن میں اضافہ کا موجب ہے اگر وہ پیدائشی نہ ہو تو عیب ہے ۔
اعتراض نمبر۳۶
(!)دادا کو القاء اور حضرت بی بی آمنہؓ کو خواب میں بتایا گیا کہ اس بچے کا نام محمد ﷺرکھنا، ایسا کیوں کیا گیا؟ جب کہ اس نام کے اور بھی افرادپیدا ہوئے نہ القاء ہوا نہ خواب میں مطلع کیا گیا؟
(۲)کوئی یہ کہے کہ دادا جان کو القاء ہی کافی تھا بی بی کو خواب میں فرشتہ کو نام بتانے کی کیا ضرورت تھی یا اگر بی بی نے خبر دی تھی تو داد ا کو القاء کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔
۳۔ کوئی یہ کہے کہ ایک روایت میں ہے کہ دادا کو نام رکھنے کے بارے القاء کیا گیا اور ایک روایت میں ہے کہ والدہ کو خواب میں فرشتہ نے بتایا اور حضرت عبدالمطلب نے اعلان کیا کہ میں نے اس بچے کا نام محمدﷺرکھا ہے اس موقعہ پر اپنے القاء اور بی بی کے خواب کا تذکرہ نہیں کیا صرف یہ قریش کے سامنے کہا کہ میں نے محمد ﷺ نام رکھا ہے ‘ کیوں ؟
جواب؛ القاء اور خواب کی حکمت یہ تھی کہ آپ سے پہلے والدین نے اپنے بچوں کے نام خود رکھے اس امید پر کہ انھیں شوق ِ حصولِ نبوت تھا۔ یہاں باری تعالیٰ خود آپ ﷺکے دادا جان کو القاء اور ماں کو خواب میں فرشتہ سے خبر دے رہا ہے جس سے اشارہ ملتا ہے کہ یہ نومولود کوئی عام بچہ نہیںیہ وہی ہے جس کی دنیامنتظر تھی ۔یہ وہی ہے جس کے وسیلہ سے یہود دعائیں مانگتے تھے اور اپنی مرادیں بر لاتے تھے ۔
پہلا فرق آپ کا نام اللہ تعالی ٰکی طرف سے ہے جب کہ پہلوں کا نام ان کے والدین کی طرف سے تھا دوم؛ القاء اور خواب سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ یہ بچہ ہے جس کے لیے تخلیق کائنات ہوئی وہ یہی ہیں۔یہ وہی ہیں جس کی خاطر دوسرے لوگوں نے نام رکھے۔
سوم؛ آنحضرت ﷺکے دادا نے القاء ہونے کے سبب آپ کا نام محمدﷺ رکھا اور بی بی حضرت آمنہؓ نے خواب میں فرشتہ کو دیکھا جس نے کہا کہ اس نو مولود کا نام احمد رکھنا، اس بات میں صداقت کا ایک نہایت تسلی بخش ثبوت یہ ہے کہ عہد عتیق میں آنحضرت ﷺ کی بشارت محمدﷺ کے نام سے آئی ہے اور انجیل مقدس میں ’’ احمد ‘‘ ﷺکے نام سے، اس لیے ان کی بشارت کو پورا ہونے کے لیے ضروری تھا کہ حضرت آمنہ کو بذریعہ فرشتہ ’’احمد ‘‘ کا نام اور دادا کو بذریعہ القاء ’’محمد‘‘ﷺ کا نام بتا دیا جائے، یہ دونوں نام نامی اور اسم گرامی آپ ہی کے ہیں۔ حضورنور ہیں ،محمود ہیں ، محمد ہیں اور یہی آخر الزماں نبی ہیں جس کی خبر زمانہ قدیم سے متواتر چلی آرہی تھی کہ عنقریب ایک نبی آنے والا ہے۔
ان روایات میں تعارض نظر نہیں آتاہے اور یہ شوشہ چھوڑا کہ صرف ایک ہستی کو ہی نام رکھنے کی اطلاع دے دی جاتی، کافی تھا ۔ان ہستیوں کو پیدائش سے قبل آگاہ کردیا گیا تھا جب کہ آپ کی آمد کی خبریں زبان زدعام تھیں کہ ایک نبی عنقریب تشریف لانے والے ہیں ۔ ان ہستیوں کو بتانا آپ کے مرتبہ و مقام کی بلندی سے آگاہ کرنا تھا جس کی سربلندی اور سرفرازی کی تعریف آپ کے دادا نے یوں بیان فرمائی’’ میں نے یہ نام اس لیے رکھا ہے کہ اللہ آسمان میں اور اللہ کی مخلوق زمین میں اس بچے کی تعریف کے گن گائے‘‘ ( زرقانی شرح موطاء جلد۴ص۷۱)۔ اللہ تعالیٰ خود اپنے محبوب کی شان میں عنقریب فرمانے والا تھا ’’ ورفعنا لک ذکرک‘‘ لہٰذا ان بزرگ ہستیوں کو القاء اور خواب میں خبر دیناآپ کی بلند و بالا شان کا اظہار ہے کہ خاندان کی دو مقتدر شخصیات کو بتایا گیا یہ تاکیدی پہلوتھا۔
دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ داد انے اپنے القاء اور بی بی کے خواب کا تذکرہ بھری محفل میں نام کا اعلان کرتے وقت نہیں کیا۔ یہ بھی دادا کی تعریف کے الفاظ سے اشارہ ملتا ہے کہ آپ نے بات وہ کہہ دی یعنی فرشتے نے کہا کہ بچے کا نام محمد ﷺ رکھنا، یعنی جس کی تعریف کی جائے اور دادا جان بھی یہی اعلان کر رہے ہیں کہ میں نے یہ نام محمد اس لیے رکھا ہے کہ ارض و سما ء دونوں جگہوں پر میرے فرزند کی تعریف کریں ۔ گویا آپ کا نام محمد رکھنا القاء اور خواب کا نتیجہ ہی ہوا ۔
ایک نکتہ؛ اس نام کے اور بچے بھی موجود تھے مگر قریش نے آپ ﷺکا یہ نام رکھنے پر پوچھا کہ اس کی وجہ کیا ہے کہ آپﷺ نے تمام اپنے بزرگوں کے نام نظرانداز کر دیے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس نام کے بچے عرب میں موجود تھے لیکن آنحضرت ﷺکے خاندان میں آپ ﷺسے پہلے یہ کسی کا نام نہ تھا۔ اسی وجہ سے قریش نے استفسار کیا۔ ورنہ دوسرے بچوں کے ناموں پر کوئی اعتراض نہیں کیا تو قریش یہ نام رکھنے کے بارے میں نہ پوچھتے؟ صرف اس لیے پوچھا کہ یہ نام خاندان بنو ہاشم کی روایات سے ہٹ کر رکھا گیا تھا۔

اعتراض نمبر۳۷
’’ کتب قدیم میں آپ کا نام مذکور نہ تھا‘‘۔
جواب: پہلی آسمانی کتب بالعموم اور توریت و انجیل میں بالخصوص آپ کا نام نامی اسم گرامی مع اوصاف کے مذکور تھا۔ توریت و انجیل میں آپ کے صفاتی نام کے ذکر کی تصدیق قرآن مجید نے کردی، ارشاد ربانی ہے۔
’’اَلَّذِ یْن َیَتَّبِعُوْنَ الرَّسُولَ النَّبِیّ ِالاُمّیِ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْ باًعِنْدَھُمْ فیِْ التَّوْرٰۃِ وَ الاِْنْجِیْلِِ‘‘(اعراف ۱۵۷،پارہ ۹)‘‘
ترجمہ؛ وہ لوگ جو نبی کی پیروی کرتے ہیں وہ توریت و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔
سورہ الانعام میں ہے’’ اَلَّذِیْنَ اٰتَیْناَ ھُمُ الْکِتٰبَ یَعرِفُونَ اَبناَء ُھمْ ‘‘ترجمہ؛ جن لوگوں کو کتاب دی ہم نے وہ آپ کو پہچانتے ہیں جس طرح پہچانتے ہیں اپنی اولاد کو‘‘
تفاسیر میں منقول ہے کہ ’’ جب کسی نصرانی سے مسلمان ہونے کے بعد سوال کیا گیا کہ کیا آنحضرتﷺ کی معرفت فی الواقع اولاد کی سی معرفت ہے تو انھوں نے کہا بلکہ اپنی اولاد سے بھی بڑھ کر کیوں کہ اپنی اولاد کا یقین تو ہم کو صرف ایک عورت سے یعنی اس کی والدہ کے بیان پر ہوتا ہے جس کی دیانت و صداقت میں شبہ کی گنجائش نکل سکتی ہے لیکن آنحضرتﷺ کی معرفت تو ہم کو ان صحف سماویہ کے ذریعہ حاصل تھی جس میں شک و شبہ اور تردید کی کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی‘‘ ( ترجمان السنہ۵۴۔۴)
تورات کی گواہی: سر سید [ خطبات احمدیہ ۳۸۴۔۳۸۳] پیش گوئی لکھتے ہیں ’’ میرا دوست نورانی ، گندم گوں ، ہزاروں میں سردار ،اس کا سر ہیرے سا چمک دار ، اس کی زلفیں مثل زاغ کے کالی ہیں ، اس کی آنکھیں جیسے پانی کے کنڈل پر کبوتر، دودھ میں دھلی ہوئی نگینہ کی مانند جڑی ہیں ، اس کے رخسار ایسے ہیں جیسے ٹٹی پرخوشبودار بیل چھائی ہوئی اور چکلے پر خوشبو رگڑی ہوئی، اس کے ہونٹ پھول کی پنکھڑیاں جن سے خوشبو ٹپکتی ہے اس کی پنڈلیاں ہیں جیسے سنگ مرمر کے ستون ، سونے کی بیٹھکی پر جڑے ہوئے، اس کے ہاتھ سونے سے ڈھلے ہوئے اور جواہر سے جڑے ہوئے، اس کا پیٹ جیسے ہاتھی دانت کی تختی جواہر سے لپٹی ہوئی، اس کا چہرہ مانند مہتاب کے، جوان مانند صنوبر کے، اس کا گلا نہایت شیریں اور وہ بالکل محمد ﷺ ہیں ۔ یہ ہے میرا دوست اور میرا محبوب اے بیٹیو! یروشلم کی ( یہی پیش گوئی کچھ کم الفاظ میں نقوش رسول نمبر ج۴ ص۴۷۲بحوالہ غزل الغزلات باب۱۵اور ۱۰ تا ۱۶ درج ہے)۔ اس پیش گوئی میں آنحضرت ﷺ کا ذاتی نام نامی کا تذکرہ ہے۔ اگر محمد کے معنی لیں تو وہ بھی تعریف کیے گئے ،کے ہیں ورنہ وہ صاف صاف نام تو ہے ہی، گویا اولاََ اس نام میں معنوی تعریف کی گئی اور محمد کے معانی ’’ستودہ‘‘ کے کیے گئے نیز نت نئے تراجم میں اس مقام کی ترمیم ، تحریف و تغیر مختلف انداز میں جاری ہے۔ جب کہ اصل عبرانی اور قدیم ترجموں میں اصل نام نامی موجود ہے۔ نت نئی تبدیلیوں کی بجائے ان حضرات نے یہ غنیمت جانا کہ اس لفظ کو حرف مکرر کی طرح مٹا دیا جائے( نعوذ باللہ)بشارت عہد عتیق مطبوعہ ۱۸۷۰ میں ہے’’مرا محبوب سرخ و سفید ہے، دس ہزار آدمیوں کے درمیان وہ جھنڈا کی طرح کھڑاہے، وہ خوبی میں رشک سرو ہے، اس کا منہ شیریں ہے ، ہاں وہ سراپا عشق انگیز ہے۔اے یروشلم کے بیٹیو! یہ میرا پیارا ، میرا جانی ہے۔( نقوش رسول نمبرج۴۔ص۴۴۲)
اس عبارت میں جا بہ جا تغیر و تبدیلی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ آپ کے نام مبارک کو حذف کرکے اس جگہ سراپا عشق انگیز ترجمہ کیا جاتا ہے لیکن یہ سچ ہے کہ حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے۔ یہ ترجمہ بھی آپ کے صادق ہونے کی گواہی دے رہا ہے ۔دس ہزار آدمیوں میں جھنڈے کی طرح کھڑے ہونا حضور کی ذات اقدس پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔ تاریخ نے اس حقیقت کو اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے اور بتاتی ہے کہ فتح مکہ کے دن دس ہزاراسلامی فوج آپ ﷺکے ساتھ تھی۔
اہم نکتہ؛ پیش گوئی جو سر سید نے خطبات احمدیہ میں تحریر کی جو اوپر بیان کی گئی ہے وہ لکھتے ہیں کہ اس کے عربی ترجمہ میں لفظ’’ محمدیم‘‘ آتا ہے ۔ یہ نام محمدﷺ کی جگہ محمدیم کیوں آیا؟ سر سید جواب دیتے ہیں کہ ’’ عبرانی زبان میں ’’ے‘‘ اور ’’م‘‘ علامت جمع کی ہے اور جب کوئی بڑی قدر کا شخص اور عظیم الشان ہوتا ہے تو اس کے اسم کو بھی جمع بنا لیتے ہیں ۔جیسا کہ خدا کا نام ’’الوہ‘‘ ہے اس کی جمع الوہیم بنا لی ہے اور اسی طرح بعل جو ایک بت کا نام ہے جس کو کفار بہت عظیم الشان سمجھتے تھے اس کی جمع بعلیم بنالی تھی۔۔۔ اس طرح اس مقام پر بھی حضرت سلیمان ؑنے بہ سبب ذی قدر الشان ہونے کے اپنے محبوب کے اس نام کو بھی صیغہ جمع کی صورت بیان کیا ہے اور سچ ہے کہ محمد ﷺسے زیادہ مستحق کون شخص محمدیم کہلانے کا ہو سکتا ہے ‘‘۔
انجیل مقدس کی بشارت؛ اول: لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ مرا جانا تمھارے لیے فائدہ مند ہے کیوں کہ اگر میں نہ جائوں گا تو وہ مددگار ( تسلی دینے والا) تمھارے پاس نہ آ سکے گا لیکن اگر جائوں تو تمھارے پاس بھیج دوں گا اور وہ آکر دنیا کو گناہ اور سچائی اور عدالت کے بارے قصور وار ٹھہرائے گا ‘‘( نقوش رسول نمبر جلد ۴ ص ۴۴۴ بحوالہ انجیل یوحنا)
دوم؛ حضرت مسیح ؑفرماتے ہیں ’’ اگر تم مجھے پیار کرتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو اور اپنے باپ سے درخواست کروں گا وہ تمھیں تسلی دینے والا ( فار قلیط کا ترجمہ) بخشے گا کہ ہمیشہ تمھارے ساتھ ر ہے( حوالہ بالا)
سوم: اور اب میں نے تم سے اس کے ہونے سے پہلے کہہ دیا ہے تاکہ چپ ہو جائے ، تو تم یقین کرو ، اس کے بعد میں تم سے باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے ‘‘۔
چہارم؛’’ لیکن جب وہ سچائی کی روح آئے گا تو تم کو سچائی کی راہ دکھائے گا اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا ، لیکن جو کچھ سنے گا ، وہی کچھ کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا ۔‘‘
زبور مقدس کی بشارت؛ ۱:حضرت سیدنا دائود ؑ ایک آنے والے نبی کا مشتاقانہ ذکر کرتے ہیں اور اس کی توصیف فرماتے ہیں ۲: تو حسن میں بنی آدم میں کہیں زیادہ ہے ۔ تیرے ہونٹوں میں لطف بٹایا گیا ہے۔ اس لیے تجھے ابد تک مبارک رکھا گیا ‘‘۳: ’’ اے پہلوان اپنی تلوار کو ، جو تیری حشمت اور بزرگواری ہے ، حمائل کرکے اپنی ران پر لٹکا‘‘۔۴: ’’ اور اپنی بزرگواری سے سوار ہو، اور ملائمت و صداقت کے واسطے اقبال مندی سے آگے بڑھ ۔ ترا داہنا ہاتھ تجھ کو مہیب کام سکھلا دے گا‘‘۵:’’ تیرے تیر تیز ہیں ۔لوگ تیرے نیچے گرے پڑتے ہیں ، تیرے بادشاہ کے دشمنوں کے دل سلگ جاتے ہیں ‘‘۶: تو صداقت کا دوست اور شرارت کا دشمن ہے‘‘۷: تیرے سارے لباس سے مراد عود کی خوشبو آتی ہے‘‘۔۸: بادشاہوں کی بیٹیاں تیری عزت والیوں میں ہیں‘‘۹:’’ تیرے بیٹے تیرے باپ دادوں کے قائم مقام ہوں گے تو انھیں تمام زمین کے سردار مقرر کرے گا‘‘۱۰’’ میں ساری پشتوں کو ترا نام یاد دلائوں گا۔ پس سارے لوگ ابد الآباد تیری ستائش کریں گے‘‘
یہ بشارت کس قدر صاف اور حرفاََ حرفاََ سرور عالم ﷺ پر صادق ہے۔ حضرت دائود ؑکے بعد ایسا کون نبی دنیا میں آیا جو باطنی فضل و کمال کے ساتھ ظاہری حسن و جمال میں بھی یکتائے زمانہ و یگانہ عالم ہواور حشمت و شوکت ، حکومت و سلطنت اور تیر و تلوار کا بھی مالک ہو ا ہوبجز محمد عربیﷺ اورکوئی نہیں ۔
سبحان اللہ! کس خلوص اور جوش و محبت کے ساتھ حضرت دائودؑ نے حضور انور کے حسن و جمال ، جاہ و جلال، غزوات و فتوحات اور عظمت و جلالت کو بیان فرمایا ہے جس منہ سے حضرت دائودؑ نے اس محبو ب کی یہ تعریف کی اس دہن مبارک کے قربان اور مبارک لب و ددہن سے یہ مدح و ثنا فرمائی اس لب و دہن کے صدقے!
نہ من برآں گل و عارض غزل سرایم و بس
کہ عندلیب تو از ہر طرف ہزار انند
اب ان سے پو چھتے ہیں :
۱: کیا یہ قدیم آسمانی کتب کی بشارتیں نہیں ہیں ۔ جن میں کہیں تو آپ کا ذاتی نام نامی اور کہیں آپ کے صفاتی نام مذکور ہیں۔
۲: پیش گوئیوں میں آپ کا نام نامی کو ترجمہ لکھ کر تحریف کی اور کہیںآپ کے اسم گرامی کو حرف مکرر کی طرح مٹادیا ( نعوذ باللہ) ایسا کیوں کیا؟
۳: کیا تبدیلی و تغیر اور تحریف معنوی وغیرہ اس بات کی علامت نہیں کہ آپ کا نام نامی تو کتب سماویہ میں تھا جسے بدلنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی؟
۴: جب اس سے بھی جی نہ بھرا تو آپ کے نام نامی کو حذف کردیا گیا کہ مسلمان اس بشارت کے حوالے سے ثابت نہ کر سکیں کہ صحف آسمانی میں آپ کا نام مذکور ہے بتائیں نا ایسا ہی ہے نا؟ با ر بار تبدیلیوں سے کیا غرض ہے؟
۵: سچ ہے کہ جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے ان لوگوں نے جتنی بار اس طرح کی تبدیلیاں کیں اس تبدیل شدہ عبارت سے پھر بھی آپ کی ذات مبارک مراد ہوتی ہے لیکن کج فہم باز نہیں آتے اور ٹیڑھے ہی رہتے ہیں ۔
رہا ٹیڑھا مثالِ نیش کثردم
کبھی کج فہم کو سیدھا نہ پایا
ہندومت کی کتب؛عقیدہ اوتار ہندومت کے ان مشہور اصولوں میں شامل ہے جو دین اسلام کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہے اس تصور کے مطابق ذات الہٰی زمانی وقفوں کے بعد لباس بشری اختیار کر کے انسانوں کی اصلاح کے لیے روئے زمین پر جلوہ گر ہوتی ہے۔ اس عقیدے کو عیسائیوں کے عقیدہ انبیت مسیح اور الوہیت مسیح کی طرح ایک طرف رکھ دیا جائے تو آخری اوتار ۔۔۔ کلکی اوتار۔۔۔۔ سے متعلق ان کی بیان کردہ تمام علامات کا مصداق صرف اور صرف پیغمبر اسلامﷺ ہیں۔ ڈاکٹر وید پرکاش نے اپنی کتاب ’’ کلکی اوتار اور نبی کریم‘‘ میں اس دعوے کو ٹھوس دلائل سے ثابت کیا ہے ۔ سنسکرت زبان اور ویدوںکے ماہرین ڈاکٹر گوندکوی راج ، پروفیسر ڈاکٹر گوپال چند، کشور شرما، شری رام بھون مشرا، شری اندر شکلا اور ڈاکٹر رام سہائے مصرا شاستری نے اس تحقیق کی تو ثیق کی ہے ۔ بقول مصنف مندرجہ ذیل حقائق نا قابل انکار ہیں ۔
۱: کلکی اوتار کے والد کا نام وشنو بھگت ( خدا کا غلام) اور والدہ کا نام ’’ سومتی‘‘ ( امن ، سکون و قرار) ہر دو الفاظ کا ترجمہ بالترتیب ’’ عبداللہ اور آمنہ ‘‘ بنتا ہے جو کہ پیغمبر اسلام کے والدین ہیں۔
۲ـ: کلکی اوتار کی بنیادی خوراک کھجور اور زیتون پر مشتمل ہو گی اور وہ انتہائی دیانتدار اور سچے انسان کی حیثیت سے شہرت حاصل کرے گا گویا یہ سیرت النبی کی مبادیات ہیں ۔
۳: کلکی اوتار کی پیدائش ایک جزیرے میں ہو گی۔ اس سے مراد جزیرہ نمائے عرب ہے۔
۴: ویدوں اور مقدس کتابوں کے مطابق کلکی اوتار کو خدا اپنے پیغام رساں ( فرشتے) کے ذریعے تعلیم دے گا اور یہ عمل ایک گھپا ( غار) میں انجام پائے گا ۔ اشارہ جبریل امین اور غار حرا کی طرف ہے۔
۵:خدا اس اوتار کو انتہائی برق رفتار گھوڑا سواری کے لیے دے گا جس پر وہ دنیا کا سفر کرے گا۔ اشارہ سفر معراج کی سواری براق کی طرف ہے۔
۶: خدا اپنے اوتار کو غیب سے معجزاتی طور پر امداد پہنچائے گا۔ جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی امداد کی جانب اشارہ ہے۔
۷: یہ اوتار زبردست شہسوار اور ماہر شمشیر زن ہوگا ۔غزوات نبوی میں پیغمبر اسلام ﷺنے جو بہادری اور شجاعت کے جوہر دکھائے ایک زمانہ اس کا گواہ ہے۔پروفیسر محمد اکرم طاہر( محمد رسولﷺ۔ ۲۷) لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر پنڈت وید پرکاش نے بجا طور پر کہا ہے ۔ اب جب کہ گھوڑوں اور تلواروں کا زمانہ ختم ہو چکا ہے اور ان کی جگہ گولہ بارود اور میزائلوں نے لے لی ہے تو ہندو اپنے گھوڑا سوار اور شمشیر زن اوتار کا انتظار کیسے کر رہے ہیں اس لیے انھیں پیغمبر اسلام کو اپنااوتار تسلیم کر لینا چاہیے( حوالہ بالا۔ص ۴۷)بر سبیل تذکرہ یہا ں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ غیر سامی اور سامی مذہب کا بہ نظر عمیق مطالعہ کیا جائے تو صرف توحید ہی نہیں بلکہ سب سے آخری نبی و ہادی ﷺ کے بارے میں ایسی بشارتیں اور نشانیاں ملیں گی جو صرف اور صرف پیغمبر اسلا م حضرت محمد ﷺ پر ہی صادق آتی ہیں ۔ گویا بجلیاں برسے ہوئے بادل میں خوابیدہ ہیں ۔(محمد رسول اللہ ۔۲۷)
اعتراض نمبر۳۸
سر ولیم میور کہتا ہے کہ لفظ ’’ احمد ‘‘ انجیل یوحنا کے کسی قدیم عربی ترجمہ میں بجائے لفظ ’’ تسلی دہندہ‘‘ کے براہ غلطی واقع ہوا ہو گا یا آنحضرت ﷺ کے وقت کسی جاہل یا خود غرض راہب کی جعلسازی سے ، بجائے یونانی لفظ پر یکلیطوس کر دیا گیا ‘‘ ( خطبات احمدیہ۔۴۳۹)
جواب: سر سید کہتے ہیں کہ سر ولیم میور صاحب نے یہ بات اس لیے بیان کی ہے کہ پہلے یونانی لفظ پریکلیو ٹوس کا تر جمہ احمد’’ تسلی دہندہ‘‘ ہے اور دوسرے یونانی لفظ پر یکلیوٹوس کا ترجمہ ’’ احمد‘‘ تسلی دہندہ ہے مگر مسلمانوں نے ان یونانی لفظوں کو معرب کرکے فار قلیط بنا لیا ہے ۔ اور اس سبب سے کہ مسلمان فا رقلیط کا ترجمہ ’’ احمد ‘‘ کرتے ہیں ، ثابت ہوتا ہے کہ انھوں نے یونانی لفظ پر یکلیو ٹوس کو معرب کر کے فار قلیط کیا ہے۔
انجیل یوحنا ( باب ۱۷۔۱۶) میںیہ بشارت ہے ’’ تاہم میں تم سے سچ کہتا ہوں یہ بھلا ہے تمھارے لیے کہ یہاں سے چلا جائوں گا کیوں کہ اگر میں نہ جائوں گا تو پریکلیطاس تمھارے پاس نہ آوے گا‘‘ بالفعل جو انجیل کے نسخے موجود ہیں ان میں لفظ پر یکلیطاس اسی املا سے لکھا ہوا ہے جس طرح کہ ہم نے لکھا ہے مگر ہم مسلمان یہ یقین نہیں کرتے کہ حضرت عیٰسیؑ نے یہ یونانی لفظ بولا تھا کیوں کہ ان کی زبان عبرانی تھی جس میں کالڈیہ یعنی خالدیہ کی زبان کے لفظ ملے ہوئے تھے ۔ عبرانی و خالدی زبانیں ایک ہیں پس ہم مسلمانوں کا یقین ہے کہ حضرت عیسی نے اس مقام پر۔۔۔۔ فار قلیط کا لفظ فرمایا تھا جیسا کہ بشپ مارش صاحب کی بھی رائے ہے مگر جب انجیلیں یونانی زبان میں لکھی گئیں تب اس جگہ یونانی لفظ لکھا گیا بایں ہمہ ابتدا میں اس لفظ کا ترجمہ پریکلیطاس نہیں کیا گیا جس کے معنی تسلی دینے والے کے بیان کیے جاتے ہیں بلکہ اس کا ترجمہ پریکلیوطاس کیا گیا جو ٹھیک فارقلیط کے لفظ کا ترجمہ ہے اور جس کا ترجمہ عربی زبان میں ٹھیک ٹھیک لفظ ’’ احمد‘‘ ہوا ہے ۔ بلا شبہ اس بات کا ثبوت کہ یہ لفظ پریکلیوطاس ترجمہ ہوا تھا اور پریکلیطاس نہیں تھا۔۔۔مزید سر سید لکھتے ہیں ’’ اول تو مسلمانوں کو انجیل کے کسی ایسے ترجمہ کی عربی کی جو آنحضرتﷺ کے وقت سے پہلے یا آنحضرت ﷺکے زمانہ میں موجود ہو مطلق اطلاع نہیں دیتے نہ ہمارے اگلے بزرگوں نے اس کا کچھ ذکر کیا ہے اور نہ ایسے تراجم کا کچھ ثبوت پیش کیا گیا ہے ۔ عرب میں حضرت متی کی اصلی انجیل جو عبرانی زبان میں تھی اور اب معدوم ہے البتہ پائی جاتی تھی اور اس کا ذکر ہمارے ہاں کی قدیم کتابوں میں پایا جاتا ہے مگر یوحنا کی انجیل کا کچھ ذکر نہیں ہے ۔باقی رہی بات کہ کسی خود غرض راہب نے جعلسازی کی ہو اس پر ہم یقین نہیں کر سکتے‘ کیوں کہ اگر کسی خود غرض راہب کے اس لفظ میں جعل کرنے کا ہم یقین کریں گے جیسا کہ سر ولیم میور نے فرمایا ہے توہمیں مجبوراََ اس بات کا یقین کرنا پڑے گا کہ بعض دین دار راہبوں نے آنحضرت ﷺ کی بشارتیں چھپانے کو بھی انجیل مقدس میں تحریفیں کی ہیں جیسا کہ عمومََا مسلمان یقین کرتے ہیں مگر ہم کو ایسی بد گمانیوں پر تحقیق سے باز رہنا چاہیے بلکہ استقلال سے تفتیش کرنی چاہیے کہ اگلے عالموں نے اس پر کیا بحث کی ہے اور فیلا لجی یعنی علم مطابقت لسان جو اس زمانہ میں نہایت ترقی پر ہے اس سے کیا ثابت ہوتا ہے( خطبات احمدیہ ص۳۸۸)
مزید اس کی تحقیق میں ہیگنس گاڈ فر ی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’ مسلمان بیان کر تے آئے ہیں اور اب بھی بیان کرتے ہیں کہ یہ بشارت حضرت عیسٰیؑ نے محمد رسول اللہﷺ کی دی ہے جس طرح اشعیا نے کیخسرو کی پیش گوئی کی تھی اور دونوں پیش گوئیوں میں دونوں کا نام بتا دیا گیا تھا‘‘۔۔۔۔ مسلمان کہتے ہیں کہ حضرت عیسٰیؑ نے آنحضرت ﷺکا نام لیا تھا وہ اس لفظ سے نہیں لیا جو لفظ اب انجیل میں موجو د ہے بلکہ وہ لفظ پریکلیوطاس تھا جس کے معنی بزبان عربی ’’ احمد ‘‘ کے ہیں اور ابتدا ء انجیل میں بھی یہی لفظ تھا مگر سچ کوچھپانے کے لیے اس کی تحریف کر دی گئی تھی اور عیسائی اس بات سے انکار کر نہیں کر سکتے کہ ان کی کتب موجودہ میں بہت سی تحریفیں یا اختلافات قرات ہیں اور مسلمان یہ بھی کہتے ہیں کہ اس عبارت کے چھپانے کے لیے تمام قلمی نسخے غارت کر دیے گئے۔ قلمی نسخوں کے غارت ہو جانے کا انکار نہیں ہو سکتا اور یہ وہ بات ہے جس کی نسبت جواب با صواب دینا مشکل ہے اور قدیمی نسخوں کی نسبت تو یہ ہے کہ چھٹی صدی کے قبل کا کوئی بھی قلمی نسخہ موجود نہیں ہے۔ مسلمانوں کا بیان ہے کہ یہ بات بخوبی ظاہر ہے کہ عیسائی اگر مناسب سمجھتے تو نہایت عمدہ قلمی نسخوں کو محفوظ رکھ سکتے تھے جس طرح کہ انھوں نے بہت سے ولیوں کی لاشوں کو نہایت آسانی سے محفوظ رکھا ہے چنانچہ یوحنا اور مریم اور پطرس اور پولس وغیرہ کی لاشیں ہر روز اٹلی میں نظر آتی ہیں ۔ پس مسلمان ضرور با لضرور عیسائیوں سے کہیں گے کہ اس غلط ترجمہ کو چھپانے کے لیے کل قلمی نسخے غارت کر دیے یا ان میں جھوٹ ملا دیا گیا اور اگر ایسا نہ تھا تو وہ غارت کیوں کر دیے گئے ؟اور عیسائیوں کو ان کا جواب با صواب دینے میں بہت کچھ دقت ہو گی کیوں کہ قلمی نسخوں کے غارت ہونے سے انکار نہیں ہو سکتا اس لیے کہ وہ موجود نہیں ہیں‘‘۔
مزید سر سید خطبات احمدیہ صفحہ ۳۹۴ پر رقم طراز ہیں کہ’’ ہم مسلمانوں کی بحث پر یکلیطاس پر جواب یونانی انجیل میں ہے یا لفظ پر یکلیلوطاس پر جو اصلی نسخوں میں تھا، منحصر نہیں ہے کیوں کہ یہ انجیلیں یونانی زبان میں لکھی گئی ہیں جو حضرت عیسٰیؑ کی زبان نہیں تھی پس انھوں نے جو لفظ فرمایا تھا وہ عبرانی یا خالدی زبان کا تھاجو دونوں زبانیں ایک ہیں پس ہم مسلمان کہتے ہیں کہ لفظ فارقلیط تھا ۔یونانی انجیلیوں میں اس کی بجائے جو لفظ ہے فار قلیط کا ترجمہ ہے ہم مسلمان کہتے ہیں کہ اس کا ترجمہ یونانی میں پر یکلیوطاس کیا گیا تھا جو در حقیقت صحیح ترجمہ ہے ۔۔۔۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ نہیں ، پر یکلیلطاس نہیں ہے بلکہ پریکلیوطاس ہے اور اس کا ہمیشہ ترجمہ رہا ہے یا چلا آتا ہے تو مسلمان کہتے ہیں کہ یہ ترجمہ غلط ہے کیوں کہ فار قلیط کا ترجمہ پر یکلیطاس نہیں ہے بلکہ پریکلیوطاس ہے اور اس کا فیصلہ عبرانی و خالدی زبان کی لغت کی تحقیق پر ہر وقت ہو سکتاہے۔ اصل میں وہ پریکلیوطاس ہے بمعنی ’’احمد‘‘ نہ کہ پریکلیطاس بمعنی ’’ تسلی دہندہ‘‘
مسیح کی پیشین گوئی:لیکن وہ فارقلیط روح القدس ہے جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا ۔ وہی تمھیں سب چیزیں سکھائے گا اور سب باتیں جو کچھ میں نے تمھیں کہی ہیں ، تمھیں یاد دلائے گا ۔ ایک عالم نے اس موضوع پر بصیرت افروز نکات اٹھائے ہیں ۔ ان کے نزدیک
۱: اصل بشارت میں لفظ احمد(ﷺ) موجود تھا جیسا کہ انجیل برنباس میں اب بھی موجود ہے۔
۲: جب انجیل کا ترجمہ عبرانی زبان سے عربی زبان میں ہوا تو یونانیوں نے اپنی عادت کی بنا پر کہ وہ ترجمہ کرتے وقت ناموں کا ترجمہ بھی کردیا کرتے تھے، آنحضرت ﷺکے نام مبارک (احمد) کا ترجمہ بھی پریکلیو طاس سے کر دیا۔
۳: جب یونانی نسخہ کا ترجمہ عربی زبان میں ہوا تو پریکلیوطاس کا معرب فار قلیط کر لیا گیا۔
۴:ایک عرصہ تک اردو، فارسی اور عربی نسخوں میں فارقلیط کا لفظ رہا ۔ اس کے بعد اس کا ترجمہ روح القدس سے کیا گیا اور مسحیین روح القدس کے لفظ کو بطور تفسیر خطوط وحدانی میں لکھتے رہے ۔ رفتہ رفتہ فار قلیط کا لفظ حذف کر دیا گیا۔پھر کسی نے فارقلیط کی جگہ’’ روح القدس‘‘ اور کسی نے’’ روحِ حق‘‘ اور کسی نے’’ مددگار اور تسلی دہندہ‘‘ کا لفظ رکھ دیا اور فارقلیط نسخوں سے بالکل حذف کر دیا۔
۵: ان تحریفات و تغیرات کے باوجود پھر بھی مدعا حاصل ہے اس لیے کہ بشارت میں فار قلیط کے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں وہ محمد رسول اللہ ﷺپر پوری طرح منطبق ہوتے ہیں ( محمد رسول اللہ ص ۴۷ حاشیہ)
گاڈ فری ہیگنس کے حوالہ سے سرسید خطبات احمدیہ میںلکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی دلیل کو بابت ترجمہ لفظ پریکلیوطاس کی بجائے پریکلیطاس کے اس طرز تحریر سے بہت مدد ملتی ہے جو سینٹ جیروم نے انجیل کے لیٹن ترجمہ میں اختیار کی ہے یعنی اس ترجمہ میں لیٹن زبان میں پریکلیوطاس لکھا تھاپریکلیوطاس کی جگہ، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جس کتاب سے سینٹ جیروم نے لیٹن میں ترجمہ کیا اس میں لفظ پریکلیطاس تھا نہ کہ پریکلیطاس۔
معانی پر اعتراض: لفظ پریکلیطاس کے معنی پر پادریوں میں بہت اختلاف ہے ۔ چنانچہ مشہور عالم ’’ مائی کیلس ‘‘ کہتا ہے کہ ارنسٹائی نے بہت مناسب کہا ہے کہ اس کے معنی حامی کے ہیں نہ کہ تشفی دہندہ کے اور یہ بھی کہتا ہے کہ میں تحقیق خیال کرتا ہوں کہ پریکلیطاس یا تو روح القدس کو کہتے ہیں یا معلم یا مالک کو یعنی بتانے والا خدا کی سچائی اور میں اسی کی رائے سے درباب صحیح نہ ہونے ترجمہ کی مطابقت کرتا ہوں گو میں اس کو ڈاکٹر یعنی عالم متجر کا لقب نہیں دیتا بلکہ مانیٹر یعنی معلم کا لقب دیتا ہوں اس لیے کہ وہ جو بمعنی اس نے لفظ مذکور کے لکھے ہیں بہتیروں نے اختیار کیے ہیں البتہ اس کے اثبات کا جو طرز اس نے اختیار کیا ہے وہ عجیب ہے۔۔۔ اس رائے کے بارے گاڈ فری ہیگنز کہتا ہے کہ ’’ اگر تسلیم کیا جائے کہ یہ لفظ وہی ہے جو اس زمانہ کے عیسائی کہتے ہیں اور اصل کے معنی بھی روح القدس ہی کے ہوں تو مسلمان عیسائیوں کو کہیں گے کہ تم کہتے ہو کہ انجیل میں بشارت ہے کہ روح القدس آئے گی یہ درست ہے کہ روح القدس آئی مگر محمد رسول اللہ میں آئی جن کو روح القدس سے الہام ہوتا تھا ، پس تمھاری پیچیدہ عبارت کے یہی صحیح معنی ہیں اور یہی معنی درستی کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔ ‘‘
لفظ کی املاء سے غلطی ہو تی ہے: ’’ پر یکلیوطاس ‘‘ بمعنی عربی زبان ’’ احمد‘‘ اور پریکلیطاس بمعنی تسلی دہندہ۔ اول الذکر لفظ کے دس حروف ہیں اور موخرالذکر کے نو ہیں ۔ گویا پہلے لفظ میں ’’ و‘‘ زیادہ ہے جو دوسرے لفظ میں نہیں ہے صرف ’’ و‘‘ کے اضافہ سے جہاں املاء بدل گئی اسی طرح معنی بھی بدل گئے۔ مثلاََ اسم بمعنی نام ’’اثم ‘‘ بمعنی گناہ ہے وغیرہ۔ گویا حروف تہجی کی کمی بیشی یا حروف کی شکل بدلنے سے املاء اور معنی بدل جاتے ہیں ۔ ترجمہ کرتے وقت یہ مرحلہ نہایت چھان پھٹک کرکے طے کرنا ہوتا ہے ۔ اگر بے احتیاطی برتی جائے تو بُعد پیدا ہوتا ہے جو خطرناک ثابت ہوتا ہے جیسے
ہم دُعا لکھتے رہے اور وہ دَغا پڑھتے رہے
ایک نکتے نے ہمیں محرم سے مجرم کر دیا

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...