Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

بدھ کی پیشین گوئی
ARI Id

1689956726155_56117721

Access

Open/Free Access

Pages

۱۵۴

بدھ کی پیشین گوئی:
بھکشوـ : گوتم بدھ سے بوقت مرگ ایک بھکشو نے پوچھا؛ تمھارے بعد دنیا میں کون تعلیم دے گا؟
گوتم بدھ : میں پہلا بدھ نہیں جو زمین پر آیاہوں ۔۔۔۔ میری طرح ایک مکمل نظریہ حیات کا پرچار کرنے والا آئے گا۔
بھکشو: اس کو کس طرح پہچانیں گے؟
گوتم بدھ: ’’ مترییا‘‘ کے نام سے موسوم ہوگا۔
مترییا سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی دوستی، خیر خواہی ، رحم والا ، محبت والا، ہمدردی والا ، مخلوق کی خیر خواہی کرنے والا ۔ یہ تمام اوصاف آپ ﷺ ہی کے ہیں ۔ رحمت والے لقب کی گواہی قرآن مجید نے دی’’ وَمَآ اَرسَلْنٰکَ اِلَّا رَحمۃً الِّلْعَالَمِیْنَ‘‘۔ دوسری بات کہ مکمل نظریہ حیات کا پرچار کرے گا ۔ دین اسلام آپ پر مکمل ہوا ۔ آپ کے بعد نہ کوئی نبی اور نہ کوئی دین ۔۔ ارشاد ربانی ہے ’’ الیوم اکملت لکم۔۔۔۔۔
ترجمہ؛ آج ہم نے آپ کے لیے دین مکمل کردیااور اپنی نعمت آپ پر تمام کردی اور آپ کے لیے دین اسلام کو پسند کیا‘‘
آپ ﷺ کے وجود باجود پر نبوت کا خاتمہ کردیا ارشاد ربانی ہے ’’ وَ لَکِنْ رَّ سُوْلَ اللّٰہِ وَخاَتَم َ النَبِیِّیْنَ ‘‘( الاحزاب ۵)
اتھرو وید کی گواہی:’’ اے لوگو!بڑے زور و شور سے سنو ! مہامت لوگوں میں ظاہر ہوگا ۔ہم ہجرت کرنے والوں کو ساٹھ ہزار نوے دشمنوں سے پناہ دیں گے۔ اس نے مامح رشی کو سینکڑوں سونے کے سکے، دس حلقے، تین سو عربی گھوڑے اور دس ہزار گائیں دیں‘‘( نقوش رسول نمبر۱۱ص ۲۷۲)
تشریح : نبی کریم ﷺہجرت فرمائیں گے۔ دس حلقے سے مراد عشرہ مبشرہ اصحاب ۔ دس ہزار گائیں سے مراد دس ہزار صحابہ جو فتح مکہ کے موقعہ پر آنحضرت ﷺکے ساتھ تھے۔ تین سو گھوڑے سے مراد اصحاب بدر ہیں ۔مہامت اور مامح رشی سے مراد نبی محتشم ہیں۔
Dictionary of phrase and fable,, ‘‘کے صفحہ ۵۴ میں مہامٹ کی یوں وضاحت ملتی ہے۔
''Mahmat or Muhammad according to deutch means the predicted Mossiah''
اہم نکتہ: سرسید فرماتے ہیں ’’ اکثر عیسائی خیال کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے اس بشارت کو انجیل برنباس سے اخذ کیا ہے اور جارج سیل صاحب نے بھی ترجمہ قرآن کے دیباچہ میں یہی خیال کیا ہے بلکہ انھوں نے لکھا ہے کہ یہ آیت قرآن مجید کی ’’ یاتی من بعدی اسمہ احمد‘‘ اسی انجیل سے اخذ کی گئی ہے ۔ اور شاید آخیر زمانہ کے ایک آدھ کچے مسلمان اور جاہل مولوی نے کہیں سن سنا کے کہ بربناس کی انجیل میں بھی یہ مطلب آیا ہے شاید اس کا حوالہ دے دیا ہو مگر قدیم عالموں اور بڑے بڑے محققوں نے اس بشارت کی بابت برنباس کی انجیل خواہ وہ صحیح ہو یا غلط نام تک نہیں لیا ، جارج سیل صاحب کی غلطی ہے جو وہ ایسا کہتے ہیں ‘‘ ( خطبات احمدیہ ۳۹۵)
اعتراض نمبر۳۹
مستشرقین نے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے نام نامی پر اعتراض کیا کہ یہ ان کا نام نہیں تھا ( نعوذباللہ) بل کہ ماہو مت(Mahomet) تھا ۔ بعض نے’’ Baphomet‘‘ اور بافم ’’bafum‘‘ کہا ۔ بعض نے دل کی انتہائی کدورتوں اور خباثتوں کے ساتھ ماہوند ’’ Mahound‘‘ یعنی بقول مستشرقین ’’ شہزادہ تاریکی‘‘ ( نعوذ باللہ) کا نام تجویز کیا ( نقوش رسول نمبر ۱۱ص ۵۳۲)
جواب: یہ نام کیا تھے؟ ماہومٹ ایک بت تھا جس کی پرستش ہوتی تھی۔ آرڈیریکس نے ایک مناجات لکھی جس میں فلسطینی خواتین دعا کناں ہیں’’Praise be Mohomet our God‘‘
sound the glad timberls and offer him vietims that our terrible enemies may be over come and perished
ترجمہ: سربلندی ہو ہمارے خداوند ماہومٹ کی ، خوشی کی جھانجریں بجائو اور اس کو قربانی دو تاکہ ہمارے خوفناک دشمن مغلوب اور تباہ ہو جائیں ( مستشرقین مغرب کا انداز فکر ۱۸۸)
مہامت: ایتھرو وید کی پیش گوئی جو پہلے گذر چکی ہے ، میں بیان ہوا ہے ۔ یہ آنحضرت کا نام ہے اور Dictionary of phrase and fable" "کے صفحہ ۵۴ پر مہامت کے معنی یوں بیان کیے گئے ہیں ۔" Mahamat or Muhammad according to deutch, means the predicted Messiah........."
ماہوند: "Mahound" حقارت کا نام مہامت کا ، ایک مسلم اور ایک شمالی افریقہ کے عرب کا جیسا Dictionary of phrase and fable" میں ہے ۔
1; Name of contempt for Mahamet, A Muslim, a moor
2; In scotland it is used to mean devil.
سکاٹ لینڈ میں اس کے معنی شیطان کے ہیں جو استعمال کیے جاتے ہیں ۔ اس حقارت کے نام کو بعض نے تاریکی کا شہزادہ کے معنی پہنائے ہیں ۔
بافم: " Baf or bafum an imagionary idol symbol, which the templars were said to employ in their mystreious rites( Dictionary of phrase and fable)
2: The word is a corruption of Mahomet
ایک تصوراتی بت یا علامت جس کے لیے عیسائی دینی فوج داروں کے لیے کہا گیا تھا کہ اپنے پر اسرار رسومات میں استعمال کریں ‘‘ ماہومٹ کے لیے بد عنوانی کا لفظ ( نعوذباللہ) ۔ جرمنی کے مستشرقین فرماتے ہیں کہ پیغمبر اسلامﷺ کے وصال کے بعد اس کتاب ( قرآن ) میں تحریف و تغیر ہو گیا جن امور میں تصحیف ہوئی، ایک ان میں نبی کا نام بھی ہے جو اصل میں یا قثام تھا جو آخر میں محمدﷺ بن گیا جس کا ثبوت ’’ ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد‘‘ جو محمد کی بجائے اس کا نام ہے جس کا نشان انجیل نے اس مفہوم میں دیا ہے کہ وہ نبی عیسٰیؑ کے بعد آئے گا ( حیات محمد ۳۶) یہ اضافہ آپ کی وفات کے بعد کیا گیا تا کہ آپﷺ کی رسالت پر سابقہ کتب مقدسہ ( تورات و انجیل) سے دلیل لائی جا سکے ۔ بیہقی جوابََا لکھتے ہیں ’’ کاش ! تحقیق کے دعوے دار مستشرقین قرآن پر الزام لگانے سے پہلے یہ غور کر لیتے کہ آپ کی تصدیق رسالت پر ان کے وہ موجود مقدس صحیفے تورات و انجیل بھی گواہی دیتے ہیں ۔ صحائف کو یہ حضرات بھی غیر محرف مانتے ہیں ۔ اگر وہ انصاف سے عاری نہ ہوتے تو قرآن کو بھی تورات و انجیل کی طرح تحریف سے پاک سمجھتے ورنہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگرقرآن اضافات و الحاقات سے ملوث ہے تو تورات و انجیل کا دامن بھی تبدیلیوں سے پاک نہیں ۔ اس لیے مستشرقین کا موجودہ تورات و انجیل کو اس بارے میں قرآن کا مبنٰی قرار دینا یقیناََ جھوٹ ہے کہ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام نے قرآن میں اس آیت کا اضافہ کیا ’’ یاتی من بعدی اسمہ احمد‘‘( حوالہ بالا ۳۸) لہٰذا جب تحریف ثابت نہیں ہوتی ۔ تو پھر یہ کیسے تسلیم کر لیں کہ آپ کا نام محمدﷺبعد میں ’’ یا قثام‘‘ سے محمدﷺ بن گیا ۔ ان کا دعویٰ غلط ہے ۔ وہ اس طرح بھی کہ صحابہ کرام نے عیسائیوں کے ساتھ دوسرے ملکوں کو بھی اپنا مطیع و فرماں بردار بنانے میں وقت کی طنابیں اپنے ہاتھ میں کھینچ لیں ۔ تسلیم کرنا پڑے گا کہ عیسائی ملکوں پر مسلمانوں کا سیاسی اقتدار علمی طور پر مستشرقین کے اس الزام کا بہترین رد ہے ( حوالہ بالا ۳۸)
یاد رہے کہ ایسے فرضی ناموں کا مروج ہونا حروب صلیبیہ کے بعد کا ہے ۔ مغرب کے شعراء ، افسانہ اور ڈرامہ نویسوں نے برضا و رغبت اور خوشی خوشی مقبول نام کے طور پر اپنایا ہے ۔مایوئن ، ماہوئنڈیا، ماہوند کے الفاظ میں افراط و تفریط کے ذریعے کئی شکلیں دے کر اور کئی نام وضع کر لیے مثلََا " Mahon, Mahmoon, Mahown, Mahovne, Maeon, Mahmet, Mavomet"
وغیرہ اور کئی الفاظ ماہومٹ سے مشتق ہیں جیسے " Mowmery; Mammetry"
ماہومٹ سے مشتق ناموں کی تعداد ۱۸ سے زائد ہے۔ ( دی آکسفورڈ ڈکشنری)۔ ماہوئنڈ سے مشتق کی تعداد ۱۷ ہے ( حوالہ بالا) ۔ چھ الفاظ اور بھی پائے جاتے ہیں یہ سارے کل ملا کر اکتالیس(۴۱) بنتے ہیں ۔ ایسے گھڑے گئے ناموں سے مسلمانوں ،اسلام اور پیغمبرﷺ کی شان گھٹانا مقصود تھا ورنہ ذرا سی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص ان ناموں کی افراط و تفریط سے سمجھ سکتا ہے کہ یہ آنحضرت ﷺکے متعلق نام گھڑے اور وضع کیے گئے ہیں ۔ وہ ذات جو انسانیت کے لیے خیر خواہ ، ہمدرد اور مونس اعظم ہے ، ان سے یہ محض منافرت ہے اور ان کے یہ نام ہو سکتے ہیں ؟
قرون وسطیٰ میں یورپ کا تاریک عہد آتا ہے اس وقت جہالت و بربریت نے وہاں ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ اس دور میں آپﷺ کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا تھا، آپ ﷺکے نام کو مہامٹ Mahamet اور پھر اس کو بگاڑ کر Mamet کیا۔ یورپ میں آپﷺ کے لیے یہ نام استعمال ہوتا تھا۔ فرانس کی قومی نظم رولینڈ اس کی مثال ہے اس لفظ کا رواج عام تھا اس کا اسم صفت محامیٹری یا مامیٹری یعنی بت پرستی استعمال ہونے لگا۔ بت کے علاوہ وہ مامیٹ Mammet گڑیوں کے لیے بھی مستعمل تھا۔ شیکسپیر میں وھننگ ممٹیز" Whming Mammats" کا محاورہ استعمال ہوا ہے یہ لفظ احمق اور گالی کے لیے بولا جاتا تھا اور انگریزی لفظ ٹرمیگنٹ " Termagant" ، فرانسیسی نظم رولینڈ میں یہ ایک ایسے بت کے لیے استعمال ہوا ہے جس کی مسلمان پر ستش کرتے تھے۔ شیکسپیر کے الفاظ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی کیا اہمیت اور استعمال کیسا تھا؟ ۔ وہ لکھتا ہے۔
" I could have fellaivhipt for over doing, it out hered , hered"
’’مسٹر سار‘‘ کہتا ہے کہ ’’ قرون وسطیٰ میں جب کہ تمام یورپ میں جہل کی موجیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں ۔عربستان کے ایک شہر سے نیر تاباں کا ظہور ہوا جس نے اپنی ضیاباریوں سے علم و ہنر اور ہدایت کے چمکتے نوری دریا بہا دیے ۔ اسی کا فیض اور طفیل ہے کہ یورپ کو عربوں کے توسط سے یونانیوں کے علوم اور فلسفے نصیب ہوئے‘‘۔
(ف) قرون وسطیٰ میں جہالت یورپ میں ڈیرے ڈالے ہوئی تھی تو پھر وہاں ایسے نا زیبا نام کے گھڑے جانے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ۲:آپ کے طفیل علم کی روشنی ملی اور یونانی علوم سے یورپ کو آگاہی حاصل ہوئی تو ہم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیںکہ جس کے کرم سے ظلمت و تاریکی کے دبیز سائے چھٹ جائیں، انسانیت سے قتل و غارت ، ظلم و زیادتی، دھوکہ اور فریب، حسد و بغض اور دشمنی و عداوت کے ہولناک اور مہیب سائے ہٹ جائیں اور سب میں برابری و مساوات قائم کرے، امیر و غریب کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کرے اور وہ جو سسکتی ، گرتی پڑتی، بھوکی مرتی اور محروم انسانیت کو سہارا دے، سب کو جینے کا حق عطا کرے وہ جو کمزوروں ، لا چاروں ، بیوائوں ، یتیموں ، بے کسوں اور بے بسوں کو زندگی گزارنے کا حق بخشے اور زبوں حال انسانیت کو تسلی و تشفی کا سامان مہیا کرے اور وہ جس کے فیض سے نہ صرف اپنے بلکہ غیر بھی راہ پائیں اور زمانہ کے امام اور رہنما بن جائیں تو اسے ان مکروہ ناموں سے پکارنا درست ہو سکتا ہے؟ یہ آج کی بات نہیں مدتوں پہلے ان کے آبائو اجداد یعنی کفار نے یہی راگ الاپا تھا یعنی کفار ایسے الفاظ بگاڑ کر پکارتے تھے جن میں سے بے ادبی ہوتی تھی توہین کا پہلو نکلتا تھا تو باری تعالی نے اس لفظ سے پکارنے کی ممانعت فرمادی ۔ قرآن مجید میں ہے ’’ یَایُّھَا الَّذِیْنَ لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوْا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوآ وَ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلیْمٌ۔‘‘( البقرہ۱۰۴، پارہ ۱)
ترجمہ: اے لوگو! راعنا نہ کہو اور یوں کہو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی بغور سنیں اور کافروں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔
حضرت سعد بن معاذؑ نے دشمنان اسلام کی زبان سے یہ کلمہ سناتو انھوں نے فرمایا اے دشمنان خدا تم پر اللہ کی لعنت ہو اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سنا تو اس کی گردن اڑادوں گا ( کنز الایمان سورہ بقرہ ص۲۹۔۱۰۴)
بابو جگل کشور کھنہ ۔۔۔۔ صرف ملک عرب پر ہی آپ(ﷺ) کے احسانات نہیں بلکہ آپ کا فیض تعلیم و ہدایت دنیا کے ہر گوشے میں پہنچا ۔غلامی کے خلاف سب سے پہلی آواز آپ نے بلند کی ۔ سود قطعََا حرام کر کے سرمایہ داری کی جڑ پر کلہاڑا مار کر کاٹ دیا۔۔۔آپ نے غلاموں کے بارے ایسے احکام جاری کیے کہ ان کے حقوق بھائیوں کے برابر کر دیے۔ آپ نے عورتوں اور استریوں کے درجہ کو بلند کیا۔۔۔ آپ ﷺنے پر زور طریقہ سے توہمات کے خلاف جہاد کیا اور نہ صرف اپنے پیروکاروں کے اندر اس کی بیخ کنی کی بلکہ دنیا کو ایک ایسی روشنی عطا کی کہ توہمات کے بھیانک چہرے اور اس کی ہیئت کے خدوخال سب کو نظر آنے لگے‘‘ ( نقوش رسول نمبر جلد۴ ص ۴۵۰)
تعصب کی انتہا:مخالفین کو جب کوئی شے نہ سوجھے اور تعصب کی کالی عینک آنکھوں پر لگی ہو۔ تحقیق کسی اور شے پر نہ ہو سکے تو تعصب کے تیروں کی بوچھاڑ آپ ﷺپر کر دی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں عہد نامہ قدیم کی کتاب دانیال بڑی کام آئی ۔ داعی اسلام سے تعصب و نفرت کا یہ عالم کہ دانیال نے خواب میں چار درندے دیکھے ان میں چوتھا درندہ ہولناک اور زبردست تھا اس کے دس سینگ تھے ۔پھر ایک چھوٹا سینگ نکلا جس نے تین سینگ اکھاڑ پھینکے۔۔۔ چھوٹے سینگ کے بارے تحریر ہوا کہ وہ دس بادشاہوں کے بعد گیارہواں بادشاہ ہوگا جو تین بادشاہوں کو زیر کرے گا ۔ حق تعالی ٰکے مقدسوں کو تنگ کرے گا اور شریعت کو بدلنے کی کوشش کرتا رہے گا ۔ ایک دور ، دو دور اور آدھا دوراس کے حوالے کیے جائیں گے۔ تب عدالت قائم ہوگی اور سلطنت اس سے لے لی جائے گی ، اس خواب کی تعبیر مغرب کو اسلام کی شکل میں نظر آئی ۔چوتھے درندے کے اعداد (۶۶۶) بنتے تھے جو اسم گرامی کا حسب ذیل املاء کر کے پورے کیے گئے۔
MAOMETHS; M=40, A=1, O=70, M=40, E=5, T=300, H=10, S=200= 40+1+70+40+5+300+10+200................666
سینٹ جان کی نظر میں رومی شہنشاہ اللہ سے درندہ بلکہ دانیال کے خواب کا درندہ (The Beast ) بن گیا تھا ۔اس نے لکھا’’ جو سمجھ رکھتا ہے وہ اس درندے کے عدد گن لے وہ آدمی کا عدد ہے اوراس کا عدد (۶۶۶) ہے۔ ( مستشرقین مغرب کا انداز فکر۔ ۲۰۱۔۲۰۰) علمائے مسیحی اس امر پر متفق ہیں کہ اس درندے سے مراد قیصر روم ہے۔ مگر یہ کہ گھوم گھما کر بات اسلام دشمنی پر آکے ختم ہوتی ہے ۔
دشمنی ورثے میں ملی: مستشرقین اپنے اسلاف کی راہ پر گامزن ہیں ۔ اسی مذہب پر عمل پیرا ہیں جو ان کے باپ دادا کا تھا۔ اس سے یعنی مذہب سے کنارہ کشی اتنی محال کہ ر وح کا نکلنا تو آسان ہے لیکن مذہب کا چھوٹنا ازبس مشکل ہے ۔اس راہ کو چھوڑنا کٹھن اور دشوار کام ہے۔ ؎
آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
پرائے تو پرائے سہی مگر اپنوں نے تو حد کر دی یعنی چھوٹے میاں تو چھوٹے ہوں بڑے میاں سبحان اللہ ! بہت کم آیات ہیں جن میں نبی مکرم ﷺ کے معاصرین میں سے کسی کا نام آیا ہو جن میں آیا ہے ان میں سے ایک آیت یہ نازل ہوئی جس میں صراحت ہے کہ ابو لہب اور اس کی بیوی کا مقدر دوزخ ہے ۔ ان آیات کو ام جمیل (ابو لہب کی بیوی) نے سنا تو وہ پتھر کاایک موسل لیے نبی اکرم ﷺ کی تلاش میں مسجد حرام پہنچی ۔ آپ ﷺ وہاں ابو بکر ؓ کے ساتھ تشریف فرما تھے ، وہ ابو بکر ؓ کے پاس آ کھڑی ہوئی اور ان سے بولی ’’ کہاں ہے تمہارا ساتھی؟ وہ جانتے تھے کہ اس کی مراد حضور ﷺ سے ہے ۔ مگر وہ یعنی ابو بکر ؓ ہکا بکا ہو گئے تھے کہ ان کی زبان سے ایک لفظ بھی نہ نکلا ۔ وہ بولی ’’ میں نے سنا ہے کہ اس نے میری ہجو کی ہے اور با خدا ، اگر وہ مجھے مل گیا ہوتا تو میں اس موسل سے اس کے منہ کا بھرکس بنا دیتی ، پھر بولی ’’میں بھی شاعرہ ہوں‘‘۔ اور اس نے ایک نظم آنحضرت ﷺ کے بارے میں سنا دی ۔ (ترجمہ) ہم مذمم کے نا فرمان ہیں ، جو احکام وہ دیتا ہے اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں ، اور اسی کے دین سے نفرت کرتے ہیں ۔جب وہ جا چکی تو ابو بکر ؓ نے نبی مکرم ﷺ سے دریافت کیا ’’ اس نے آپ ﷺ کو نہیں دیکھا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ اس نے مجھ کو نہیں دیکھا ، خدا نے اس کی آنکھوں کی روشنی (عارضی طور پر ) لے لی کہ وہ مجھے دیکھ سکے ‘‘۔ اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کی دشمنی انھیں ورثے میں ملی ہے۔ ان کے لیڈر یعنی کفار کو خیال آیا کہ ہم کہتے تو محمد ﷺ ہیں اور کرتے ان کی برائی ہیں ۔ اس خیال کی انگیخت سے ان بے ہدایت اور بد بخت لوگوں نے آپ کا نام مذمم رکھا اور اس نام سے پکارنے لگے ۔ اہل ایمان کے لیے یہ نہایت دکھ کی بات تھی انھیں بات شاق گزری تو جان کائنات نبی معظم ﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کی۔آپ نے تبسم فرمایا اور کہا کہ جس کو وہ مذمم کہتے ہیں اور جس کی وہ برائی کرتے ہیں وہ کوئی اور ہوگا ۔ مجھے تو میرے رب نے محمد ﷺ بنایا ہے۔رسول اللہ نے فرمایا: کیا آپ لوگ حیرت نہیں کرتے اس بات سے کہ اللہ تعالیٰ قریش سے گالی کو اور لعنت کو کیسے پھیر دیتے ہیں ( میرے مخالف) مذمم کو گالیاں دیتے ہیں اور مذمم کو لعنت کرتے ہیں اور جب کہ میں وہ نہیں ہوں بلکہ میں تو محمد ہوں ‘‘(اردو ترجمہ دلائل نبوت۔ جلد اول ص۱۹۳) سبحان اللہ سبحان اللہ۔ گفتار کے ہر بول میں حکمت کا جہاں آباد ہے۔
خدا کے بعد بزرگی اسی کو شایاں ہے
احد کو چھوڑ کے احمد سے بڑھ کے نام نہیں
(شمیم یزدانی )
ف: مجھے تو میرے رب نے محمدﷺ بنایا ہے اب کوئی لاکھ برا چاہے، کچھ بنانا چاہے بنا نہ سکے گا کیوں کہ۔۔۔
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
اور آپ کو محمد ﷺ بنانے والی ذات ان اللہ علی کل شی قدیر ہے۔
۲؛ صحابہ کرام کو تسلی دی اور ان کے دلوں میں عقیدہ توحید کو اور بھی راسخ کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ تعلیم بھی دی کہ ایسے الزامات سے حقیقت نہیں بدلتی بلکہ حقیقت کے سامنے الزامات اور باطل اعتراضات دم توڑ دیتے ہیں ۔
۳؛ صحابہ کرام کی ڈھارس بندھائی جس قدر بھی امتحان ہو گھبرانا نہیں چاہیے۔ ہمت و جرات سے کام لینا چاہیے کیوں کہ سلطنت دس مرتبہ ہاری جائے تو گیارھویں مرتبہ واپس آسکتی ہے، مگر ہمت ایک بار ہی ہار دی جائے تو اکثر واپس نہیں آتی۔ اس تسلی و تشفی اور ڈھارس بندھانے کا یہ نتیجہ نکلا کہ شدائد و تکالیف میں صحابہ کرام پختہ عزم رہے اور جان کی پروا کیے بغیر ہمیشہ سینہ سپر رہے۔
ماہوما؛ Mahomaکونتزی نے ماہوما کا لفظ استعمال کیا ہے اس لفظ کا استعمال ہسپانوی مصنفین میں عام ہے مگر ظاہر ہے کہ مسلمانوں پر اس کا خاص اثر واقع ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ’’محمد‘‘ ہی کی تحریف شدہ شکل ہے ۔ یہی مصنف ایک اور اصطلاح ریجاتیر(REGATEAR ) بتاتا ہے اس کے معنی بھائوکم کرنے کے ہیں جسے عام طور پر تجارتی معنی میں استعمال کیا جاتا ہے ، مصنف نے یہ اصطلاح ان مواقع کے لیے استعمال کی ہے جب محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے حضور آہ و زاری کرتے تھے اور اس کی دعا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر عبادت اور واجبات کے بار کو کم کردے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض مستشرقین میں ایسی موروثی عصبیت کی روح اب تک باقی ہے۔(علوم اسلامیہ اور مستشرقین ۳۱۲۔۳۱۱)
المختصر ڈاکٹر جواد علی کے الفاظ میں کہ مستشرقین نے سیرت پر اپنے مطالعات میں مبالغہ سے کام لیا ہے اور اس کے واقعات اور حقایق میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی بے پناہ کوشش کی ہے اگر ان کے بس میں ہوتا تو وہ شائد رسول اللہ کی ذات گرامی تک میں شک کر بیٹھتے کیوں کہ آپ کے اسم گرامی میں تو خیر انھوں نے شک کرنے کی کوشش کی ہے۔(حوالہ بالا)
اسم محمد سے مطابقت: اسم محمدﷺ سے ضرب اور ربط کے ساتھ مرسلون کے عدد تین سو تیرہ نکلتے ہیں ۔ ملاحظہ کیجیے؛
محمد: م ح م م د یعنی محمد میں تین میم آتے ہیں ۔ درمیانی میم مشدد ہے جو دو مرتبہ پڑھا جاتا ہے۔ اب ان حروف کو مرکب لفظوں میں لکھا جاتا ہے مثلََا’’ م‘‘ کو میم اور ’’د‘‘ کو دال۔تو اب صورت یوں ہو گی۔
میم ح میم میم دال
م ی م ح م ی م م ی م د ا ل
اعداد:۴۰+۱۰+۴۰+۸+۴۰+۱۰+۴۰+۴۰+۱۰+۴۰+۴+۱+۳۰=۳۱۳
اصحاب بدر کی تعداد ۳۱۳ تھی اور مرسلین کی تعداد بھی ۳۱۳ ہے۔
اب اگر ۳۱۳ کا مجموعہ یعنی ہر عدد کو ایک عدد مان کر جمع کریں یعنی ۳+۱+۳، تو ۷ بنتے ہیں ۔
قرآن کریم کی سورہ فاتحہ کی آیات سات، کائنات کے بالائی حصے میں آسمان سات، آسمان کے طبقات سات، جنتیں سات، زیر فلک زمینیں سات، سمندر، براعظم سات، ہفتے کے ایام سات، عجائبات کائنات سات، جہنم کے دروازے سات ( کائنات در کائنات ص۳۹۔۴۶)
قرآن کریم کی عربی زبان کے حروف تہجی میں ۱۴ حروف منقوط اور ۱۴ غیر منقوط بھی سات کی تکرار ہیں ۔ حروف مرکبات سے کچھ سورتوں کی ابتدا ہوتی ہے۔ حروف مرکبات کی حامل سورتوں میں فاتحہ اور ۳۰ویں پارے ، الماعون کی آیات سات سات اور سورہ الحاقہ و انشقاق کی آیات کا حاصل کردہ عدد بھی سات ہے۔ حروف مقطعات والی چھ سورتیں جو ’’ الم‘‘ سے شروع ہوتی ہیں ان میں دو سورتوں کے حروف مقطعات کا عدد سات ہے ۔ اسی طرح ’’الم ‘‘ سے شروع ہونے والی جملہ آیات کا حاصل عدد سات’’ حم‘‘ سے شروع ہونے والی سورتوں کی تعداد سات اور ان کی مجموعی آیات کا مجموعی عدد بھی سات ہے۔ سورہ رعد ، ابراھیم ، قصص، لقمان ، ص اور ن میں سے ہر دو آیات کا حاصل عدد سات اور ان کی مجموعی آیات کا حاصل عدد بھی سات ہے ، جب کہ سورہ یونس اور اعراف کی مجموعی آیات کا عدد۱۴ ہے جو سات کا حسن تکرار ہے ۔ قرآن کی تلاوت کے سجدے سات ، قرآن کی منازل سات اور قرآن مجید نے وہ ستارے جو سورج اور زمین کے نظام شمسی میں پائے جاتے ہیں اس کے لیے قرآن نے ’’ کل فی فلک‘‘ کا سات حرفی جملہ استعمال کیا ہے اور اس جملہ کو الٹی ترتیب سے لکھیں تو پھر بھی کل فی فلک ،رہتا ہے ۔عرف عام میں محمدﷺ کے اعداد ۹۲ بنتے ہیں ۔۹+ ۲=۱۱، گیارہ ستارے یوسف کو سجدہ کرتے ہیں ۔عجب نہیں کہ ان گیارہ سیاروں کا انسان کے ہاتھوں مسخر ہونا طے کردیا ہو ۔کیا خبر کہ اس ’’ احسن القصص ‘‘ میں یہ رمز و کنایہ ہو کہ یہ سیارے حضرت یوسفؑ کی اولاد میں پیدا ہونے والے لوگوں کی کوشش و سعی سے انسان کے لیے مسخر ہوں گے۔( کائنات در کائنات ص۵۰)
بابا گرونانک ایک رباعی میں فرماتے ہیں کہ محمد ﷺ کا جلوہ ہر شے میں نظر آتا ہے ۔ رباعی یہ ہے
ہر عد دکو چوگن کر لو دو کو اس میں دو بڑھائے ۔۔۔پورے جوڑ کو پنج گن کر لو بیس سے اس میں بھاگ لگائے باقی بچے کو نو گن کر لو دو کو اس میں دو بڑھائے ۔۔۔ گرو نانک یوں کہے ہر شے میں محمدؑ کو پائے۔
ظفر: محمدﷺ= م ح م د ظ +ف+ ر ۴۰+۸+۴۰+۴= ۹۲
۹۰۰+ ۸۰ +۲۰۰= ۱۱۸۰ = ۹۲
x ۴ ×۴ ۴۷۲۰ = ۳۶۸+ ۲ + ۲
۴۷۲۲ = ۳۷۰ x ۵× ۵
۲۳۶۱۰ ۱۶۵۰
÷ ۲۰ ÷ ۲۰ = ۱۱۸ باقی ۱۰= ۸۲باقی ۱۰
×۱۱۸ = ۱۱۸۰ ×۹ = ۹۰
× ۹= ۹۰
+ ۰= ۱۱۸۰ + ۲+ ۲= ۲ ۹= ۹۲
مذکورہ دو مثالوں کے چوتھے مقام پر (۱۰) ہی باقی بچتا ہے ۔
۲۔اب (۱۰) کو جس شے کے کل اعداد کے بائیں جانب والے ایک یا دو یاتین وغیرہ ہندسوں سے ضرب دیں اور دائیں جانب والے ہندسہ کو جمع کریں تو اس سے اس شے کے کل اعداد برآمد ہوں گے جس طرح اوپر کی مثالوں سے ہر ایک کے نام کے کل اعدا د ہی برآمد ہوتے ہیں ۔(۳) اگر تمام نام کے اعداد ۹۲ ہی برآمد ہوتے تو درست ہوتا مگر یہاں صورت مختلف ہے لہذا رباعی میں کسی طرح سے غلطی پائی جاتی ہے نہ جانے وہ غلطی کیسے در آئی ۔ اب ہمارے خیال میں رباعی کا تیسرا مصرعہ یو ں ہو ’’ باقی بچے سے اک گھٹائو دو اس میں دو بڑھائے تو نتیجہ درست برآمد ہوتا ہے مثلا زید کے کل عدد ۲۱ ہیں اب ۱۰ میں سے ایک کم کریں باقی ۹ جبکہ ۲ آنا چاہیے ، ۹ کے ساتھ ایک بڑھائیں تو ۹۱ جبکہ ۲۱ آتا ہے اس صورت میں صرف اور صرف آپ ﷺ کی ذات مبارک کا جلوہ ہر شے میں نظر آتا ہے ۔
اعتراض نمبر۴۰
مارگولیس کہتا ہے کہ ’’ محمد ﷺ کا نام ابرہہ کے فیل محمود کی مناسبت سے رکھا گیا‘‘ (نقوش رسول نمبر جلد ۱۱ص ۴۸۹)
اعتراض کا رد کرنے سے پہلے آنحضرت کا نام محمدﷺ رکھنے کے پس منظر کا جاننا ضروری ہے۔ آنحضرت کی ولادت با سعادت کے بعد عرب کے دستور کے مطابق ساتویں دن آپ کے دادا حضرت عبد المطلب نے عقیقہ کی رسم میں قریش کو مدعو کیا ۔ اپنے پوتے کا نام ’’محمد‘‘ ﷺ رکھا ۔ قریش نے پوچھا یہ نام کیوں رکھا ہے؟ اس پر آپ کے دادا جان نے کہا : میں نے یہ نام اس لیے رکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں اور اللہ پاک کی مخلوق زمین میں اس نومولود کی تعریف کے گن گائے۔
آپ ﷺسے قبل محمد نام کے کئی افراد تھے جن کا نام محمد اس امید پر رکھا گیا تھا کہ لوگوں نے سن رکھا تھا کہ اس نام کا ایک نبی عنقریب آنے والا ہے ۔ اس سعادت کے حصول کے لیے اپنے بچوں کے نام رکھے کہ شاید وہ آخری پیغمبر ہوں ۔قاضی عیاضؒ نے کیا خوب کہا کہ ’’ اللہ تعالی ٰنے حفاظت فرمائی کہ ہر شخص جس کا نام محمدہے وہ نبوت کا دعویٰ کرے یا اس کو کوئی اس کے ساتھ پکارے یا اس پر کوئی سبب ظاہر ہو جائے جس سے کوئی آپ کے بارے میں شک کرسکے یہاں تک کہ دونوں نام ( محمدﷺ، احمدﷺ ) آپ کے لیے خوب متحقق ثابت ہو گئے اور کوئی ان دونوں ناموں میں نزاع نہ کر سکا( الشفائ۔ج۱ ص ۲۰۶ )
قاضی عیاض نے مزید کہا کہ سرکار دو عالم وجود میں آئے اور محمد ہونے سے قبل احمد تھے۔ آپ ﷺ کا نام نامی کتب سابقہ میں مذکور تھا ۔چنانچہ مسیح ؑ نے اسی نام سے آپ کو یاد کیا ہے۔( خاتم النبیین ص۔۱۲۱)
یہ بات بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ کئی سیرت نگاروں نے تین ، پانچ اور پندرہ افراد کے نام تحریر کیے ہیں جن کا نام محمد رکھا گیا۔ امام سہیلی نے تین افراد کے نام لکھے ہیں ۔
۱: محمد بن سفیان بن مجاشع( قرزوق شاعر کا دادا) ۲: محمد بن احیحہ بن الجلاح الاوسنی بن الجلاح ۳: محمد بن حمران بن الحجفی۔۔۔۔ قاضی عیاض نے سات نام تحریر کیے ہیں تین مذکورہ نام ہیں باقی کے یہ ہیں ۱: محمد بن مسلمہ انصاری ۲: محمد بن براء البکری ۳: محمد بن خزاعی اسلمی اور ساتواں نام کوئی بتائے، کہا گیا ہے کہ جس کا نام محمد رکھا گیا وہ محمد بن سفیان ہے اور اہل یمن کہتے ہیں کہ محمد بن یحمد قبیلہ ازد) کا ہے۔
اب مارگولیس سے پوچھتے ہیں کہ عرب میں آپ کے نام گرامی سے قبل چند افراد کا نام محمد رکھا گیا، انھوں نے کس نسبت سے یہ نام رکھا ؟ اگر عرب میں آپ ہی کا نام رکھا گیا ہوتا اور اس سے قبل اس نام کا کوئی فرد نہ ہوتا تو تسلیم کیا جاتا کہ فیل کی نسبت سے رکھا گیا ہے لیکن یہاں صورت مختلف ہے۔ تو کیوں کر صرف آنحضرت ﷺکے نام کو فیل کی نسبت سے رکھنے کا مستشرق الزام دھرتا ہے ؟ اس نام کے دوسرے افراد کے بارے میںایسی بات کیوں نہیں کی اور ان کے نام رکھنے کو کسی جانور کے نام سے نسبت دینے کو کیوں نازک طبع نے گوارا نہ کیا ؟ کیا ان سے کوئی خاصی محبت تھی یا ڈر تھا؟
دوم: تاریخ بتاتی ہے کہ جب یمن کے گورنر ابرہہ نے خانہ کعبہ کو گرانے کی غرض سے مکہ پر لشکر کشی کی اس کے ساتھ ہاتھیوں کی ایک عظیم الخلقت نوع تھی جو اب نا پید ہو چکی ہے۔ انگریزی میں اس نسل کا نام "MAMATT" تھا۔عربوں نے معرب کر کے اسے محمود بنا لیا ‘‘ رحمت اللعالمین ج اول ص۱۱۵
غور کیجیے کہ ہاتھیوں کی اس نسل کو مامٹ کہتے ہیں نہ کہ ابرہہ کے صرف ایک ہاتھی کو، مگر مارگولیس ابرہہ کے ہاتھی کا نام بتاتا ہے ۔ یہ تو ہوئی نا وہی بات کہ عقل پر جھاڑو پھر گیا ہے تبھی اس مستشرق کو کل اور جز کے فرق کا بھی پتہ نہیں، اس نوع کے ہاتھیوں کی پوری نسل یعنی کل نسل کو مامٹ کہتے ہیں نہ کہ صرف ایک ہاتھی (جز) کو مامٹ کہتے ہیں ۔ اس سے بھی مارگولیس کی غلطی ظاہر ہوتی ہے جس سے اس کا الزام باطل ٹھہرا۔
اہم نکتہ؛مترجم سیرت ابن ہشام (۱۔۸۰) لکھتا ہے کہ ممکن ہے ابرہہ کے ہاتھی کا نام یہی ہو لیکن عام خیال یہ ہے وہ ہاتھی اس اعلی قسم میں سے تھا جسے عمومََا میمتھ کہتے ہیں ۔ یہ نسل اب مفقود ہو گئی ہے ۔ نہ جانے میمتھ کس زبان کا لفظ ہے مگر میمتھ اور محمد میں چنداں بُعد نہیں‘‘۔ اس رائے میں غلطیاں موجود ہیں ۔۱: ممکن ہے کہ ابرہہ کے ہاتھی کا نام یہی ہو ، یہ فرض کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ مفروضوں سے بات نہیں بنتی اور مفروضوں سے تار یخی حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا ۔۲: مارگولیس کی بات کو دہرایا ہے اور کہتا ہے کہ ابرہہ کے ہاتھی کا نام یہ تھا پھر کہتا ہے کہ وہ ہاتھی اس اعلی قسم سے تھا جسے میمتھ کہتے ہیں ۔ یہ تضاد ہے اور اجتماع ضدین نا ممکن ہے۔ اور مترجم گومگو کی کیفیت سے دوچار ہے۔ یہی کہا جا سکتا ہے کہ شائد اسے سہو ہوا ہے۔ نہ جانے میمتھ کس زبان کا لفظ ہے۔۳: مگر میمتھ اور محمد میں چنداں بُعد نہیں‘‘۔
جب اس لفظ سے متعلق خبر نہیں کہ کس زبان کا لفظ ہے تو اس کے معنی بھی نا معلوم ہوئے۔جب کہ آنحضرت ﷺ کے نام نامی کے معنی موجود ہیں ۔زبان کا علم ہے۔ صرف لفظ کی ادائیگی میں کچھ یکسانیت پائی جاتی ہو تو ’’چنداں بُعد نہیں‘‘ کا فارمولا اپنا کر اسے لاگو نہیں کیا جا سکتا ۔اسی طرح میمتھ اور محمد کا معاملہ ہے۔ نیز آپ سے قبل چند افراد کا نام بھی محمد تھا ان کے لیے یہ فارمولا کا اطلاق کیوں نہ کیا گیا ؟ لفظ موجود ہے زباں نامعلوم ہے ۔ معنی کا بھی علم نہیں تو اس وضع کردہ لفظ کو کسی دوسرے لفظ کے ساتھ ملا کر کہا جائے کہ ’’ چنداں بُعدنہیں‘‘ تو وہ لفظ اصل لفظ سے کسی طرح کاجوڑ نہیں رکھتا۔ایسے گھڑے گئے الفاظ سے ان کی وضعی صورت چھپ نہیں سکتی۔
لفظ زبان معنی نتیجہ
محمدؑ عربی تعریف کیا گیا اصل لفظ با معنی
میمتھ نا معلوم نا معلوم وضع کردہ بے معنی
اصل لفظ کو وضعی لفظ سے کیا نسبت؟ زبان اور معنی نا معلوم ہوں تو لہجہ میں تھوڑا فرق ہی کیوں نہ ہو وہ اصل لفظ کے برابر، کھاتے میں نہیں آتا۔ ’’ چنداں بُعد نہیں‘‘ کے فارمولے کا اطلاق مشروط ہوتا ہے جبکہ یہاں پر وہ شرائط مفقود ہیں۔
اعتراض نمبر۴۱
اسپرنگر کا خیال ہے کہ نبی کا نام قرآن کی چار سورتوں ’’آل عمران‘‘، ’’احزاب‘‘ ،’’محمد‘‘ ، ’’فتح‘‘ میں وارد ہوا ہے۔ یہ ساری سورتیں مدینہ میں نازل ہوئیں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہجرت سے پہلے ’’ محمد‘‘ کا لفظ رسول کے نام کے طور پر مستعمل نہیں تھا ، ۲: انجیل کے مطالعہ کرنے۳: اور مسیحوں سے روابط قائم کرنے کے بعد ہی انھوں نے اپنے لیے اس نام کا انتخاب کیا‘‘ ۔ (علوم اسلامیہ اور مستشرقین ۔۸۰)
جواب:آپ کا نام نامی جن مدنی سورتوں کی آیات میں آیا ہے وہ آیات درج کی جاتی ہیں۔
اول: وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّارَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الُّرسُلْ ( آل عمران۱۴۴،پارہ ۴) ’’اور محمد صرف ایک پیغمبر ہیں۔آپ سے پہلے بھی پیغمبر گزر چکے ہیں‘‘
دوم:مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَم َالنَّبِیِّیْنَ(الاحزاب ۴۰، پارہ ۲۲) ’’ نہیں ہیں محمد باپ تمھارے مردوں میں سے کسی کے اور لیکن اللہ کے رسول و خاتم النبیین ہیں‘‘
سوم: وَالَّذِینَ اٰمنُِوا وَ عَمِلُوا الصَّلِحٰتِ وَ اٰمِنُوا ِبمَانُّزِلَ عَلٰی مُحَّمدٍ وَ ھُوَ الحَقُّ مِن رَّبِّھم ( محمد ۲،پارہ۲۶) ’’ جو لوگ ایمان لائے اس پر جو محمد پر نازل کیا گیا اور وہی حق بھی ہے ان کے رب کی طرف سے‘‘
چہارم: مُحَمَدُ رَّسُولُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِرُحَمَآئُ بَیَِْنھُمْ ( الفتح ۲۹،پارہ ۲۶) ’’ محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو ان کے ساتھ ہیں نہایت سخت ہیں کفار پر اور بہت مہربان آپس میں‘‘
اب آتے ہیں اس پرنگر کے اعتراض کی طرف۔ جان دو عالم ﷺ کی خصوصیات و امتیازات ایسے ہیں جن کا لحاظ بارگاہ رب العزت میں روا رکھا گیا ہے وہ اس طرح کہ قرآن کریم میں جن پیغمبروں کا ذکر آتا ہے ان کو نام سے خطاب کیا گیا ہے۔ جیسے یا آدمؑ، یا ابراھیمؑ، یا موسیٰؑ ، یا دائودؑ، یا عیسیؑ، لیکن آنحضرت کو کسی بھی مقام پر نام لے کر خطاب نہیں کیا گیا بلکہ یایھا النبی، یاایھا الرسول کے الفاظ سے مخاطب فرمایا اور امت کو آپ کی رسالت پر ایمان لانے کی تنبیہ کی کہ ان کو نام سے نہ پکارا جائے جیسا کہ تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ ارشاد ربانی ہے۔’’ لاَ تَجعَلُوا دُعَآ ء َالَّرسُولِ بَینَکُمْ کَدُعَآ ئَ بَعضِکُم بَعضَاً‘‘ (النور۶۳، پارہ۱۸ ) ’’رسول کے پکارے کو ایسا نہ ٹھہرالو جیسا کہ ایک دوسرے کو پکارتے ہو‘‘
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آداب صرف مدنی دور ہی کے لیے تھے اور مکی دور کے لیے نہیں تھے یا مکی اور مدنی دونوں ادوار میں بھی ان کا لحاظ رکھا جاتا تھا اس لیے آپ ﷺ کو نام کی بجائے یا یھا الرسول ، یا یھا النبی کے القابات سے مخاطب کیا جاتا تھا ۔تو نام بطور رسول مستعمل نہیں ہے کیوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جن آیات میں آپ کا نام نامی آیا ہے وہ بطور خطاب نہیں آیا۔ وہ کسی ایسی غرض کے لیے آیا ہے جس کے بغیر اس آیت مبارکہ کے حکم سے وہ غرض و مقصد پورا نہیں ہو سکتا تھا اور اس کے بغیر بات پوری اور مکمل نہیں ہو پاتی تھی۔(نقوش رسول نمبر ج اول ص۱۲)۔ گویا بات کے پورا کرنے اور واضح کرنے کی غرض سے آپ کا نام آتا ہے کیوں کہ بات کے نا مکمل ہونے سے کئی شکوک و شبہات متوقع ہو سکتے ہیں ۔ ان سے بچنے کے لیے شکوک کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کرنا ضروری تھا تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
دوم: اس الزام میں ایک چھپی سازش یہ بھی ہے کہ بعض مستشرقین قرآن کریم کو مطالعہ سیرت کے لیے ایک بنیادی مرجع قرار دیتے ہیں ۔ اس لیے کہ اس سے ان کا مقصد و منشا ء ان تمام واقعات کو رد کرنا ہوتا ہے جن کا ذکر قرآن میں نہیںہے ۔مگر ہے تو سہی لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہ ذکرمکی سورتوں میں ہونا چاہیے تھا نہ کہ مدنی سورتوں میں یا ان کا ذکر مدنی سورتوں میں ہوتا نہ کہ مکی سورتوں میں یا سرے سے وہ واقعات جنھیں قرآن کریم بیان نہیں کرتا اور ان سے رسول کریم ﷺکی عزت و عظمت کی ضوفشانیاں اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہیں انہیں مستشرقین اپنے مطلب و مفاد کی رو میں بہہ کر بے دریغ ان واقعات کا انکار کر دیتے ہیں ، اسی سلسلے کی ایک کڑی اسپرنگر کاا لزام ہے ۔ حالانکہ رئوف و رحیم رب نے انسانیت کے لیے پیغمبرﷺ کی زندگی کو نمونہ قرار دیا ہے، لَقَدکَانَ لَکُم فِی رَسُول ِ اللہ ِ اُسوَۃ حَسَنَہ۔۔۔ ’’ بے شک تمھارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے‘‘اگرچہ اس آیت مبارکہ کا شان نزول غزوہ خندق سے ہے لیکن یہ آیت مبارکہ عموم پر دلالت کرتی ہے ۔ پیر کرم شاہ بھیروی اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ ’’ یہ آیت اپنے الفاظ کے اعتبار سے عام ہے لیکن اسے زندگی کے کسی ایک شعبہ سے وابستہ نہیں کیا جا سکتا لیکن جس موقع پر اس کا نزول ہوا اس نے اس کو چار چاند لگا دئیے‘‘ ( ضیاالقرآن جلد۴ص۳۲)
آپ ﷺکی زندگی نمونہ ہے مکہ میں بھی اور مدینہ میں بھی ، نمونہ ہے آج بھی اور کل بھی اور رہتی دنیا تک کی انسانیت کے لیے نمونہ ہے۔ آپ مکی زندگی میں رسول تھے اور مدنی زندگی میں بھی رسول تھے
سوم:ہجرت سے پہلے محمدﷺ کا لفظ رسول کے لیے مستعمل نہ تھا، سے اسپرنگر کہنا یہ چاہتا ہے کہ مکی زندگی میں آپ منصب رسالت پر فائز نہ تھے۔یہ منصب مدنی دور میں ملا۔وہ کیوں بھول جاتا ہے کہ وحی کا آغاز مکہ میں واقع غار حرا سے ہواجب آپﷺ کا سن چالیس تھا۔ آپﷺ غار حرا میں خلوت نشین تھے کہ دفعتََا ایک وجود اس غار میں نمودار ہوا اور آپ کو سلام کیا( خاتم النبیین ص ۴۔۶)۔ اس وجود نے تین بار پکڑ کر دبایا اور تیسری مرتبہ یہ کہا کہ پڑھو! اِقرَاء بِاِسمِ رَبّکَ الَّذِی خَلَق، خَلَقَ الاِنسَانَ مِن عَلَق، اِقرَاء وَرَبِکَ الاَکرَمَ الَّذِی عَلَّمُہ بِالقَلَم، عِلم الاِنسَانَ مَالَم یَعلَم۔(العلق۱۔۵،پارہ ۳۰)
روایات کے مطابق تین سال تک خفیہ پرچار کرتے رہے۔ اس کے بعد حکم ملا کہ اب علی الاعلان اسلام کی دعوت دیں ’’ فاصدع بما تؤمر واعرض عن المشرکین واندر عشیرتک الاقربین واخفض جناحک لمن تبعک من المومنین وقل انی انا النذیر المبین‘‘ آپ کو جس بات کا حکم دیا گیا ہے اس کا صاف صاف اعلان کر دیجیے اور مشرکین کی پروا نہ کیجیے اور سب سے پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں کو (کفر و شرک سے) ڈرائیے اور جو ایمان لا کر آپ کا اتباع کریں ان کے ساتھ شفقت اور نرمی کا معاملہ کیجیے اور آپ یہ اعلان کر دیجیے کہ واضح طور پر ڈرانے والا ہوں۔
اس حکم کی تعمیل میں آپ کوہ صفا پر چڑھ گئے اور عرب کے قبائل کے نام لے لے کر پکارا۔ جب لوگ پہاڑی کے دامن میں جمع میں ہوگئے تو آپ نے یہ سوال کیا’’ اگر میں یہ کہوں کہ یہ وادی جو اس پہاڑ کے عقب میں ہے، یہاں دشمن کی فوج ہے اور وہ عنقریب تم پر حملہ آور ہونے والی ہے تو کیا تم سب لوگ میری اس بات کی تصدیق کرو گے ‘‘ سب نے بیک زبان کہا’’ بے شک !کیوں کہ ہمارا تجربہ ہے کہ آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں ۔ جب اپنی سچائی کی تصدیق کر والی تو پھر فرمایا’’ عذاب خداوندی کا لشکر تم پر حملہ آور ہونے والا ہے۔ قبل اس کے عذاب خداوندی کا یہ لشکر تم پر حملہ آور ہو، میں تمھیں آگاہ کر رہا ہوں‘‘ پھر آپ نے اپنی نبوت اور توحید خداوندی کو موضوع بنایاگویا مکی زندگی میں کا رہائے نبوت و رسالت انجام دیتے رہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ ﷺ نے پہلے خفیہ او رپھر علی الاعلان دعوت توحید دی اور اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو کیا آپ کا نام اس وقت محمد ہی تھا نا۔ وہی محمد جس کے نام کے ساتھ رسول کا لفظ مستعمل مدینہ میں مانتے ہو ۔وہی تو ہے جس نے مکہ میں اور اس کے اطراف و اکناف میں اپنی رسالت کا ڈنکا بجایا۔ ہاں مدینہ میں لفظ رسول کو محمد کے ساتھ مستعمل اس لیے مانتے ہو کہ قرآن مجید کی مدنی سورتوں میں موجود ہے اور مکی دور میں اس بات سے اس لیے منکر ہو کہ مکی سورتوں میں محمدﷺ کے ساتھ رسول کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے ۔ تمھارے باپ دادا (کفار) بھی اعلان نبوت کو برا بھلا کہتے گھروں کو لوٹ نہیں گئے تھے۔وہ بھی آپ کو رسول ماننے سے انکاری تھے اور آج کے مستشرقین بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں ۔حالانکہ کوہ صفا جو مکہ میں واقع ہے، اس پر رسول اللہﷺ نے توحید کا اعلان ہی تو کیا تھا ۔اب اگر مکی سورتوں میں یا ہجرت سے پہلے محمد ﷺکا لفظ رسول کے نام کے طور پرمکی سورتوں میں مستعمل نہیں تھا تو کوئی عجیب بات نہیں ۔کیوں کہ آپ ﷺنے اپنی زبان اقدس سے کوہ صفا پر رسالت کا اعلان فرمادیا ۔ قرآن کی آیات مکی میں محمدﷺ کے لفظ کے ساتھ رسول کا لفظ ہو یا اپنی زبان اقدس سے رسالت کا اعلان فرمائیں ایک ہی بات ہے۔ کیونکہ رسالت کا اعلان کرنے والے محمدﷺ ہی تو تھے یہی اعلان تھا جس پر کفار برہم ہو کر اپنے گھروں کو لوٹے تھے اس کے دو سبب ہیں ۔ ۱: قرآن پاک کا نزول آپ کے قلب اطہر پر ہوا اور قرآن مومنین کو آپ ﷺکی زبان اقدس سے ملا ۔۲: نفسانی خواہشات سے نہیں بلکہ زبان سے وہی نکلتا ہے جس کی وحی کی جاتی ہے ’’ وَمَا یَنطِقُ عَنِ الہَویٰ اِلَّا وَحیِ یُّوحیٰ‘‘ تو ہر دو طریق سے آپ ختم الرسل ہیں ۔آپ مکی زندگی میں بھی رسول تھے اور مدنی زندگی میں بھی۔ یہ مستشرقین بے چارے تو مکی اور مدنی ادوار کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیںجب کہ آپ ﷺازل سے نبی ہیں ۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺآپ کے لیے نبوت کب واجب ہوئی؟آپ ﷺنے فرمایا: اس وقت جب آدم ؑ روح اور جسم کے درمیان تھے یعنی جیسے ہر کام کا فیصلہ ہو چکا ہے اس طرح میری نبوت کا فیصلہ بھی ازل سے ہو چکا تھا جب کہ آدمؑ کے جسم میں روح نہیں پھونکی گئی تھی،، ( ترمذی ابواب المناقب حدیث ۱۴۶۷ج دوم ص۳۵۰)
واقعہ یوں ہے کہ رشتہ داروں کو دعوت توحید دینے کے بعد باقی ماندہ قریشی افراد کو دعوت حق دینے کے لیے صفا کی پہاڑی پر چڑ ھ گیا اور بلند آواز سے پکارا ’’ یا معشر قریش ‘ یا معشر قریش ! لوگوں کی سماعتوں سے یہ آواز ٹکرائی تو سب آپ ﷺ کی جانب دوڑے چلے آئے اور بولے ’’ ماَ لَکَ یا محمد‘‘ ( اے محمدﷺ! کیا بات ہے ؟) آپ ﷺ نے فرمایا ۔۔۔۔ اگر میں تم لوگوں سے یہ کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے سے ایک لشکر تم پر حملہ آور ہو نے والا ہے تو کیا تم یقین کرو گے ؟‘‘ ہاں کیوں نہیں ؟ سب نے بیک آواز کہا ’’ ہم نے آپ کو بار بار آزمایا ہے اور ہمیشہ سچا پایا ‘‘ہے ۔ آپ ﷺ قریش کی تمام شاخوں کے لوگوں کو نام بانام مخاطب کرنے لگے پھر فرمایا ’’ میں اللہ کے شدید عذاب سے ڈرانے والا ہوں ‘ اے قوم قریش ! اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے خاندان والوں کو اس عذاب سے ڈرائوں‘ یا د رکھو ! جب تک تم لا الہ الا اللہ نہ پڑھو گے میں تمہارے لیے نہ دنیا کے کسی فائدے کا مالک ہوں نہ آخرت کا ۔‘‘ ابو لہب بول اٹھا ! تو ہلاک ہو جا ئے کیا یہی کچھ سنانے کے لیے بلایا تھا ۔ اوپر کی عبارت میں مالک یا محمد ؟ نہایت قابل غور الفاظ ہیں کفار نے محمد ﷺ کا نام لیا ہے وہ جانتے تھے کہ یہی رسول ہے جن کا نام محمد ﷺ اور آپ نے ہی دعوت توحید اور مژدہ رسالت کا اپنی مقدس زبان سے اعلان فرمایا جس پر کفار ناراض ہو کر گھروں کو لوٹ گئے۔
الزام کا دوسرا جز: اس الزام کے دوسرے جز کہ ’’ انجیل کے مطالعہ کے بعد انھوں نے اپنے لیے اس نام کا انتخاب کیا ، کا جائزہ لیتے ہیں ۔ اسپرنگر اور اس کے ہم نوائوں کے لیے چیلنج ہے کہ وہ اس بات کا جواب دیں ، اس سوال کا مدلل جواب دیں کہ نبی مکرمﷺ نے اگر انجیل کی پیش گوئی پڑھنے کے بعد اپنے لیے محمد (ﷺ) کا نام منتخب فرمایاتھا تو کیا انجیل میں صراحت کے ساتھ محمد رسول اللہ ﷺکا نام موجود ہے ۔جب آپ کا نام انجیل میں پایا ہی نہیں جاتا تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسپرنگر انجیل مقدس کا حوالہ دے کر غلط بیانی کر رہا ہے ، اور اپنی مقدس کتاب کی تکذیب کر رہا ہے اور انجیل مقدس کی تحریف کا مرتکب ہو رہا ہے ۔جب انھیں اپنی مقدس کتاب کا پاس نہیں تو پھر دوسری کتب سماویہ کی عزت و تکریم کیونکر کر سکتے ہیں؟ ۔ان کے ایک اورعالم کی ہرزہ سرائی سنیئے۔ برٹرینڈرسل جب عیسائیت کی بڑی شد و مد سے مخالفت کر رہے تھے تو کسی مسلمان نے اسے خط لکھا کہ اے دانشورزمانہ ! آخر تم نے قرآن نہیں پڑھا جو اتنی بائبل پر تنقید کی ہے ۔ اس نے جواب دیا۔
" ALL GOSPEL TRUTH IS A LIKE, WHY SHOULD I?"
گویا اپنی دشمنی کی بنیاد پر اپنے دین کی بیخ کنی کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ساتھ ہی ساتھ سچے دین اسلام کو بھی نشانہ تنقیدبناتے ہیں۔
دوم: ارشاد ربانی ہے ۔ ’’ وَمَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ کِتَابٍ وًّلَا تَخُطُّـہٗ بِیَمیِْنِکَ اِذًا لَّا رْتاَبَ المُبْطِلُوْنَ‘‘
’’ اے رسول قرآن سے پہلے تو تم نہ کسی کتاب کو پڑھا کرتے تھے اور نہ تمھارے دست راست نے کبھی کوئی خط کھینچا تھا تب تو یہ بطلان والے شک بھی کر سکتے ‘‘
لفظ امی سے ثابت ہو تا ہے کہ نبی ﷺ طرز و طریق خواندگی میںاہل دنیا سے بالاتر تھے۔ نیز مذکورہ آیت نے صراحت کردی کہ قرآن سے پہلے کسی کتاب کو نہ پڑھا اور نہ ہاتھ سے خط کھینچا یعنی لکھنا پڑھنا آپ نہیں جانتے تھے۔ اُمی ہونا حضورﷺ کا معجزہ ہے ۔ اب آپ ﷺکے متعلق کہنا کہ انجیل سے پڑھ کر آپ نے اپنا نام انتخاب کیا محض باطل ہے۔ کیوں کہ وہ لکھنا پڑھنا جانتے ہی نہیں تو انجیل کو کیسے پڑھ لیا ، اسے کہتے ہیں مجذوب کی بڑاور دیوانے کا خواب!
الزام کا تیسرا جز
کہ مسیحوں کے ساتھ روابط قائم ہونے کے بعد ہی انھوں نے اپنے نام کا انتخاب کیا ،یہ سراسر غلط ہے کیونکہ عیسائی خود گمراہ اور گم کردہ راہ ہیں ۔ انھوں نے دین مسیح میں تحریف کی، اب وہ دین اپنی اصل حالت میں نہیں ہے بلکہ وہ انسانی ذہن کی پیداوار ہے ۔اس صورت میں مسیحوں سے رابطہ قائم کرنا فضول اور بے بنیاد ہے ۔کیوں کہ اسلام اور عیسائیت کی تعلیمات مختلف ہیں ( تحریف شدہ عیسائیت دین مراد ہے )۔ اسلام میں پیشہ ور مذہبی طبقہ اور چرچ کا کوئی وجود نہیں ہے۔ رہبانیت اور چرچ دونوں کا تقاضا ئے سلامتی یہ ہے کہ اسلام کے مذہبی اثر و رسوخ کا سدباب ہو۔ اسلام توحید کا علمبردار ہے اور اسلام میں تثلیث کی حیثیت پرکاہ کی بھی نہیں ۔ اسلام نے پیغام توحید دے کر مسیحؑ کو انسان اور اللہ تعالیٰ کا پیغمبر کہا ۔ تین صدی قبل مسیح افلاطون نے یہ نظریہ پیش کیا کہ الوہیت کے تین اجزا ہیں ۔علت اولیٰ دوم حکمت کلام سوم روح کائنات۔اس افلاطونی نظریہ کے دوسرے جز کلام یالوگس کو مسیح ؑسے متصف کیا گیا ۔ یوحنا انجیل کی ابتداء اسی کلام سے ہوتی ہے اور یسوع کو کلام قرار دیتی ہے لیکن اگر یسوع اور روح القدس کی الوہیت سے انکار کریں تو عیسائی نہیں رہتے اور اگراقرار کرتے ہیں تو موحد نہیں رہتے( مستشرقین کا انداز فکر۲۲۶)
توحید فی التثلیث اور تثلیث فی التوحیدسے وہ ثابت یہ کرتے ہیں کہ یسوع اور روح القدس ایک ہی ذات کے مظہر ہیں اور اسی کے جز ہیں ، اسی ایک سے تین ہوئے اوران تینوں سے ایک ہوئے ۔
عیسائی مسیح کی وفات کو مانتے ہیں جب کہ اسلام اس کا رد کرتا ہے ۔ رہبانیت کے قائل ہیں لیکن اسلام میں لا رہبانیت فی الاسلام کی ہدایت ہے ۔ عبادات بھی مختلف ہیں تو ان کے ساتھ روابط قائم کرنے سے بھلا اس نام کاانتخاب کیونکر ممکن ہے؟انھیں اپنے دین سے کچھ غرض نہیں۔ اپنے مفاد اور غرض کی اجارہ داری ہے ۔اپنے اغراض کی خاطر دین بھی بدل دیتے ہیں ۔ حد تو یہ کہ جنھیں ایک اور تین کے فرق کا علم نہیں تو دوسروں کے لیے وہ کیسے راہبر و راہنما بن سکتے ہیں اور دوسرے بھی انھیں کب راہنماتسلیم کرسکتے ہیں۔
سوم: جناب ختمی المرتبت کی دنیا میں تشریف آوری سے ۵۷۱ سال قبل اور آپ ﷺکی بعثت سے ۶۱۱ سال قبل مسیح ؑنے بشارت دی جس کا ذکر قرآن کریم کی سورت ’’الصف ‘‘ میں ان الفاظ کے ساتھ ہے ’’ یاتی من بعدی اسمہ احمد‘‘ جو میرے بعد آئیں گے ان کا نام احمد ہے۔ اب ہجرت سے پہلے محمد کا لفظ رسول کے نام کے طور پر مستعمل نہیں تھا یا مسیحوں سے روابط قائم کرنے پر اس نام کا انتخاب کیا گیا، مذکورہ آیت کی روشنی میں باطل ٹھہرا کیوں کہ صدیوں پہلے مسیح ؑ نے آپ کا نام نامی ’’ احمد‘‘ کی بشارت دی۔ نیز آپ کے نام نامی کا ذکر مدنی سورتوں میں ہو یا مکی سورتوں میں فرق ندارداور مسیح ؑاسلام کے بعد آنے والے نبی آپ ﷺ ہی ہیں۔
نکتہ: اب اگر کوئی کہہ دے کہ حضرت عیسی ؑ کی بشارت جو قرآن میں موجود ہے، میں پیغمبر کا نام ’’ احمدﷺ‘‘ ہے جو حضرت مسیح ؑ کے بعد آئیں گے تو کیا ’’ احمد ﷺ‘‘ و ’’ محمدﷺ ‘‘اسی پیغمبر آخر الزماں کے دو نام ہیں یا یہ الگ الگ دو پیغمبر ہیں جن میں ایک نام ’’ احمدﷺ‘‘ اور دوسرے کا ’’محمدﷺ‘‘۔ اس کاجواب یہ ہے کہ مذکورہ آیت مبارکہ میں لفظ ’’بعدی‘‘ آیا ہے ۔یعنی حضرت مسیح ؑکے بعد وہ پیغمبر جس کا نام احمدﷺ ہے وہ آئے گا ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ حضرت عیسٰیؑ کے بعد کون نبی آیا ؟ اس کا نام کیا تھا ؟ وہ کس علاقہ سے تھا وغیرہ وغیرہ۔۔ روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے اور تاریخ اس پر شاہد ہے کہ مسیح ؑکے بعد سوائے آپﷺ کے کوئی اور نبی دنیا میں تشریف نہیں لایا۔ ثابت ہوا وہ نبی آیا جس کا نام ’’احمدﷺ‘‘ اور محمد ﷺہے ۔ اس بات کی تصدیق یوں بھی ہوتی ہے کہ آپ ﷺ کے دادا نے رسم عقیقہ میں قریش کی دعوت کی اور اپنے محبوب بیٹے کا نام محمد ﷺ رکھا ۔ اسی نا م کے بارے میں قریش پوچھ بیٹھے کہ یہ نام آپ نے کیونکر رکھا ہے ۔ اس بات کی تصدیق یوں بھی ہوتی ہے کہ مکہ کی پہاڑی کوہ صفا پر چڑھ کر قریش کے قبائل کو بلا کر توحید کا پیغام سنایا اور اپنی رسالت کا اعلان کیا ۔ اعلان کرنے والا وہی احمدﷺ تھا جس کا نام نامی ’’محمدﷺ‘‘ بھی ہے ۔ یہ دونوں نام آپ ہی کے ہیں ۔دو الگ الگ پیغمبروں کے نام نہیں ہیں ۔ اعلان رسالت سن کر کفار چیں بجبیںہو کر گھروں کو لوٹ گئے وہ آپﷺ کی رسالت کے منکر تھے۔آج بھی مستشرقین کسی نہ کسی طرح آپ کی رسالت میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی سر توڑ کوشش میں مصروف ہیں۔ یہ بھی کفار کی طرح منکر رسالت ہیں۔ یہ محض ان کی دشمنی اسلام کا نتیجہ ہے۔ ہم مسلمان یہ کہتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں ۔
خلاف پیغمبر کسے راہ گزید
ترجمہ: پیغمبر کے خلاف جس نے کوئی راستہ اختیار کیا
کہ ہرگز بمنزل نخواہد رسید
وہ منزل تک ہر گز نہیں پہنچ سکے گا
محالست سعدیؔ کہ راہ صفا
اے سعدی ! راہ صفا پر پہنچنا
تو آں رفت جز پئے مصطفی
اتباع رسول کے بغیر محال ہے
اسم مبارک آسمان پر : روزنامہ زمیندار ’’لاہور‘‘ اور دیگر اسلامی اخباروں میں پڑھا تھا کہ ۵ شعبان سن ۱۳۲۵ھ بمطابق۸ فروری ۱۹۲۷ء کو مغرب کے بعد آسمان پر ستارے اس طرح اکٹھے ہو گئے کہ حضور انور ﷺ کا مبارک نام لکھا ہوا نظر آیا ۔ سینکڑوں آدمیوں نے مختلف مقامات پر ‘ الہ آباد ‘ جبل پور ‘ سکھر وغیرہ میں یہ نظارہ آدھ گھنٹے تک دیکھا اور نامہ نگاروں کی تحریریں نہایت آب و تاب کے ساتھ اسلامی اخباروں میں شائع ہوئیں ۔
اسم اقدس کے اس اعجاز کا چرچا مدت تک ہمارے ملک میں رہا ۔ مولانا ظفر علی خاں نے ایک نظم میں مندرجہ ذیل شعر کا یہ مصرع کہا تھا ۔
ستارا کو وہ قلم مستعار دیتے ہیں
مولوی اشرف علی تھانوی کی کتاب ’’ اسلام اور عقلیات ‘‘ میں یہ الفاظ درج ہیں ’’ راقم نے بعض مقامات سے اس کی تصدیق کرائی اور چھیالیس آدمیوں کے نام ‘ ولدیت ‘ سکونت ‘ دستخط و نشان انگوٹھا راقم کے پاس موجود ہیں جن میں بہت سے ہندو بھی ہیں ( ن ۔۹۔۳۶۵)
نام نامی اسم گرامی کے بارے مستشرقین کے الزامات
الف: پیٹرسن ایک سیاح تھا اس کے شرم ناک الزامات جنھیں ضبط تحریرمیں لانے کو جی نہیں چاہتا لیکن حقیقت کے اظہار کے لیے ضروری ہے ۔سینے پر پتھر رکھ کر اور دل و دماغ کو قابو میں لا کر بیان کرنا پڑا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ
اعتراض نمبر ۴۲
یہ اطرارپ( ITRARIP) میں ۵۷۲ ء میں پیدا ہوا اس کا باپ کٹڑ اور والدہ توہم پرست یہودن تھی ، ایسے جوڑے سے ایسا ہی خدا پرست شیطا ن پیدا ہو سکتا تھا جیسا کہ ۔۔۔ نعوذ باللہ۔
ب: مولد:پیٹرسن نے اطرارپ کو مولد قرار دیا تو راجرز ونڈوسور نے صوبہ خراسان کا باشندہ بتلایا۔ ’’ رومن دی ماہو مت کے مصنف نے انھیں ایدوم کے ایک کسان کا فرزند تحریر کیا۔
ج؛ پیٹرسن کہتا ہے ’’ پستہ قد ، گنجے سر، بد ہیئت تھے، بد کرداروں میں پائی جانے والی تمام شیطانی صفات کے حامل ، چور پن اور بے حد عیاش ( نعوذباللہ) (م۔م۔ک۔ا۔ف۔ص۔۱۹۳)
جواب؛الف: آپ ﷺ کی جائے ولادت اطرارپ ( غالبََا یثرب) نہیں تھی اور نہ ہی آپ خراسان کے باشندے تھے۔ حضرت کعبؓ نے ذکر کیا ہے کہ پہلی کتب میں مذکور ہے ۔ محمد ﷺاللہ کے رسول ہیں ۔ان کی جائے پیدائش مکہ میں ہوگی۔مقام ہجرت ( یثرب) مدینہ ہو گا اور دارالحکومت ملک شام ہو گا ۔ اور آپ کے شام میں بیت المقدس کی طرف اسراء میں بھی یہی حکمت کار فرما ہے ۔ جیسا کہ ابراھیمؑ نے بھی اس سے پہلے شام کی طرف ہجرت کی اور حضرت عیسٰیؑ بھی یہیں اتریں گے اور محشر کا میدان بھی یہی سرزمین ہو گی (ا۔ن۔پ۔۱۵۰)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒکہتے ہیں کہ کعب نے قدیم زمانہ کی کتابوں کے حوالے سے تحریر کیا ہے۔ محمد ﷺکی ولادت مکہ میں اور ہجرت مدینہ کو ہوئی شام کی طرف آپ کا ملک ہے۔اسی نسبت معراج کی شب آپ کو مملکت شام کی جانب بیت المقدس تک لے جایا گیا(حوالہ بالا۔۱۶۲۔۱۶۱)کتب سیّرمیں مکہ جائے ولادت ہے ۔
آپ کے والد ماجد ایک شریف زادہ کی طرح امانت و دیانت ، صداقت و شرافت جیسی خوبیوں کے مالک تھے ۔ خوبصورت اتنے کہ لوگ دیکھتے رہ جاتے۔، خوب سیرت اتنے کہ بڑے بڑے خاندان حضرت عبداللہ ؓکو اپنا داماد بنانا چاہتے تھے ۔پا کیزگی اخلاق کی بلندی ایسی کہ کافروں نے بھی آپ کی شان کو تسلیم کیا (ا۔ن۔پ۔ص۱۱۴)۔ان صفات کا مالک کٹڑ ہو سکتا ہے ؟وہ وہمی نہیںتھے ۔یہی نہیں ذرا سنیے کہ آپ کے والد اپنے والد عبدالمطلب کے ہمراہ جا رہے تھے ورقہ بن نوفل کی بہن نے کہا’’ جس قدر اونٹ تمھاری طرف سے ذبح کیے گئے ہیں ،اسی قدر تمھاری نذر کرتی ہوں ، تم مجھ سے شادی کر لو۔ انہوںنے جواب دیا میں اپنے والد کا مطیع اور فرماں بردار ہوں ۔ان کی خواہش کے خلاف کوئی کام نہیں کر سکتا(حوالہ بالا۔ ۱۲۰۔۱۲۱) ۔ وہمی ہوتے تو یوں دو ٹوک فیصلہ نہ کرتے ۔ آپ نہ وہمی نہ کٹڑ نہ حرص والے بلکہ فرماں بردار تھے(س) آپ کی والدہ ماجدہ قریش کی سب عورتوں میں نسبت اور فضیلت میں افضل تھیں ۔آپ کی والدہ برہ بنت عبدالعزی بن عثمان بن عبدالداربن قصی تھیں اور آمنہ کی نانی ام حبیب بنت اسد بنت عبدالعزی بن قصی تھیں اور ام حبیب کی والدہ برہ بنت عوف بن عدی بن کعب بن غالب بن فھر تھیں ۔ پیٹر کو اتنی خبر نہیں کہ حضرت آمنہؓ عصمت و عفت اور پاکبازی میں یکتا تھیں ۔جنھیں غیبی فرشتہ نے بیٹے کی بشارت دی تھی ۔اس دور میںکسی نے وہم پرست نہیںکہاتو اب کیسے مان لیں کہ وہ وہم پرست تھے۔ بلکہ ان کی شان میں جن لوگوں نے توہین آمیز باتیں کہیں تو خود اللہ تعالیٰ نے ان شائنک ھو الابتر کہہ کر محبوب کی شان کو اجاگر کر دیا ۔
پیٹر کو اتنی بھی خبر نہیں کہ نبی محتشم ﷺکا مولد مکہ میں ہے وہ اطرارپ بتاتا ہے اسی بنا پر اس نے ختمی المرتبت کی والدہ کو یہودن کہہ دیا اس لیے کہ یہود مدینہ میں آباد تھے ۔ آپ کا شجرہ نسب تو قریش کے معزز خاندان سے تھا ۔ ایسا نہ تھا جیسے پیٹر کہتا ہے ۔۔۔۔ دوسرا مستشرق ایدوم کے ایک کسان کا فرزند بتاتا ہے ۔ پیغمبر کی دشمنی اور عداوت میں بائولاہو ا جاتا ہے ان کے باپ کا آبائی پیشہ تجارت تھا ۔زراعت نہیں کرتے تھے نیز نہ آپ کسان تھے اور نہ کسان کے بیٹے ۔حضرت عبداللہؓ تجارت کے لیے شام گئے ۔واپسی پر بیمار ہوئے اور راہی ملک عدم ہوئے ۔سارے الزامات بے بنیاد ہیں ۔پیٹر نے جو حلیہ بیان کیا ہے نہایت دل خراش اور جگر سوز ہے نیز تاریخی حقائق کے خلاف ہے جس سے اس کی کوئی وقعت اور حیثیت نہیںرہتی ،تمام حلیہ باطل بیان کیا گیا ہے اس کی تردید میںایک مستشرق کی رائے بیان کرتے ہیں جان ڈیون پورٹ کہتا ہے ’’ آپ کی شکل شاہانہ تھی،خط و خال باقاعدہ و دل پسند تھے آنکھیں سیاہ اور منور تھیں بینی ذرا اٹھی ہوئی تھی ۔دہن خوبصورت تھا۔دانت موتی کی طرح چمکتے تھے رخسار سرخ تھے۔آپ کی صحت نہایت اچھی تھی آپ کا تبسم دل آویز ،شیریں و دلکش آواز تھی (ایڈورڈگبن کی رائے) آنحضرتﷺ حسن میں شہرہ آفاق تھے اور یہ نعمت صرف انھیں بری معلوم ہوتی ہے ۔جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا نہیں ہوئی ۔لوگ آنحضرتﷺ کی شاہانہ شکل ، نورانی آنکھیں ، خوش نما تبسم، بکھری زلفیں دیکھ دیکھ کر تعریف کرتے تھے (ن۔۔۵۳۰) اب ایک صحابی کی زبانی سنئے وہ سب سے بڑا حلیہ بتانے والے ہند بن ابی ہالہ کہتے ہیں ۔۔۔ان کا منہ یاقوتوں سے بھرا ہوا صندوقچہ تھا ۔ ان کا چہرہ چودھویں کے چاند سے زیادہ حسین تھا ۔آپ کے حلیہ نگار چھ اشخاص تھے ۔پانچ ہاشم قبیلہ کے اور ایک نا معلوم غیر ہاشمی تھے( ن۔ا ۶۔۵۸)اس نے یہ حلیہ کسی اور شخص سے لیا ہے یا ازخود گھڑا ہے ،مذکورہ حلیہ نگار اشخاص سے نہیں لیا ہے جبکہ مذکور حلیہ نگار معتبر ہیں لہٰذا پیٹر کا بیان کردہ حلیہ و نسب بالکل باطل ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...