Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

رضاعت
ARI Id

1689956726155_56117722

Access

Open/Free Access

Pages

۱۷۴

رضاعت
ابتداء میں چار روز اور بعض روایات میں سات روز آتا ہے کہ آپ ﷺکی والدہ سیدہ آمنہؓ نے آپ ﷺکو سب سے پہلے دودھ پلایا بعد ازاں ابو لہب کی لونڈی ثویبہ نے دودھ پلایا وہ اس طرح کہ ثویبہ نے ابو لہب کو آنحضرت ﷺ کی ولادت کی خوشخبری سنائی اور یہ بھی کہا کہ مرحوم بھائی عبداللہ کے گھر خدا نے فرزند ارجمند عطا فرمایا ہے اس خوشی میں ابو لہب نے اسے آزاد کر دیا ۔ایک روایت میں ہے کہ آٹھ دن آپ ﷺ اپنی والدہ ماجدہ کے پاس رہے ، اس دوران دو تین دن ثویبہ اور چار پانچ دن آپ ﷺ کی والدہ نے دودھ پلایا ۔
عربوں میں یہ رسم چلی آتی تھی کہ اپنے نومولود بچوں کو آٹھویں روز ایک صحرائی عورت کے سپرد کر دیا جاتا تھا جو اسے دودھ پلاتی ‘ہر طرح سے خیال رکھتی اور نہایت اچھے طریقے سے پرورش کا فرض انجام دیتی تھی ۔ صحرائی ماں کے آغوش میں دے دینے کی کئی اسباب ہیں چند ایک یہ ہیں ۔ (۱) عربوں کو اور خصوصی طور پر قریش کو اپنی زبان سے والہانہ محبت تھی وہ شخص قوم کا سردار نہیں مانا جا سکتا تھا جو فصیح نہ ہوتا ۔ اس فصاحت کی غرض سے صحرائی ماحول نہایت احسن تھا کیونکہ شہر کی زبان میں کئی زبانوں کے الفاظ کی آمیزش ہو جاتی ہے ۔ مکہ شہر کا بھی یہی حال تھا کہ دور دراز سے لوگ یہاں خانہ کعبہ کی زیارت کو آتے جاتے تھے ۔ کئی روز یہاں قیام کرتے اسی طرح کچھ لوگ تجارتی مقاصد کے لیے آتے تھے اور یہاں کے لوگوں سے بات چیت ہوتی تھی جس سے شہری زبان خالص نہ تھی بلکہ مخلوط عربی زبان تھی ۔ اس سبب سے قریش نے کچھ دیہاتی قبائل کا انتخاب کر رکھا تھا جن کی زبان خالص ‘ ٹکسالی فصیح زبان مانی جاتی تھی ان کے ہاں اپنے نو مولود بچوں کو بھیجتے تھے جس سے ان بچوں کے اذہان پر شروع ہی سے ٹکسالی عربی زبان کے الفاظ نقش ہوتے جاتے تھے اس طرح سے گویا فصاحت ان کی گھٹی میں پڑ جاتی ‘ اس بات کی تصدیق آپ ﷺ کے اس قول سے ہوتی ہے۔ امام سہیلی نے بھی یہ حدیث نقل کی ہے کہ آنحضرتﷺ فرماتے تھے کہ میں اس لیے فصیح ہوں کہ قبیلہ بنی سعد میں پلا ہوں (سیرت النبی ۔۱۱۴)ایک موقعہ پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا ’’ میں تم میں سب سے زیادہ شستہ اور صحیح زبان بولنے والا ہوں ‘ میں قریشی ہوں اور قبیلہ سعد بن بکر میں، میں نے دودھ پیا ہے ۔ (جو فصاحت زبان میں ایک اعلی مقام رکھتا ہے ۔)
(۲) عرب اپنے شیر خوار بچوں کو دیہات میں بھیجتے تاکہ بچوں کو صاف شفاف آب وہوا میسر آئے اور ان کی خوب نشوونماہو اور اصل عربی تمدن سے واقف ہو کر تہذیب و تمدن کا پیکر بنیں ۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں ’’ معد بن عدنان کی ہیئت کو اختیار کرو اور شدائد و مصائب پر صبر کرو اور موٹا پہنو یعنی عیش وعشرت میں نہ پڑو‘‘۔
(۳) قریش میں خوشحالی تھی اس خوشحالی اور برتری کے سبب ایک تکلف یہ تھا کہ خواتین (بیگمات) اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلاتی تھیں بلکہ دوسری خاندانی عورتوں یا باندیوں سے دودھ پلواتی تھیں ۔
اعتراض نمبر۴۳
بعض کہتے ہیں کہ قریش اور دیگر عرب کے امراء کے ہاں رواج تھا کہ وہ اپنے بچوں کو دودھ پلانے والیوں کے سپرد کرتے تھے تا کہ ان کی بیویاں ان کی خدمت کے لیے فراغت پا سکیں ۔ !!نیز بچوں کو صحرائی زندگی کی مشقتوں کا خوگر بنایا جائے ۔
اس پر علماء کی طرف سے پہلا اعتراض یہ وارد ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ ؓ کی وفات کے بعد سیدہ آمنہ ؓ کو یہ حاجت نہ رہی کہ بچے سے فراغت پا کر اپنے شوہر نامدار کی خدمت کریں اور یہ بدیہی امر ہے دراصل بات یہ ہے کہ قریش میں خوشحالی تھی ا س خوشحالی اور برتری کے زعم کا ایک تکلف یہ تھا کہ بیگمات اپنے بچوں کو خود دودھ نہیں پلاتی تھیں بلکہ دوسری خاندانی عورتوں یا باندیوں سے دودھ پلوایا کرتی تھیں اس جدید دور میں بھی امراء اور روساء کی بیگمات اپنے بچوں کی دودھ پلائی اور ان کی پرورش اور تربیت کے لیے انائوں کے سپرد کرتی ہیں دایہ کے نہ آنے تک کنیزیں دودھ پلایا کرتی تھیں۔
باندیوں کا بلند مقام : عرب لونڈیوں سے دودھ پلانا عار سمجھتے تھے ابتداء میں ایسا ہو سکتا ہے کہ عرب عورتوں سے دودھ پلانا نا پسند خیال کرتے ہوں تا کہ بچے پر نا خوشگوار اثرات مرتب نہ ہوں غلامی کی پرچھائیاں نہ پڑیں اور ان کی سوچ آزاد ہو آنحضرت ﷺ نے غیر عورت کا دودھ پی کر عربوں پر واضح کر دیا کہ لونڈیوں کا بھی ایک مقام ہے اور ان کا دودھ پینا کسی طرح معیوب نہیں ہے حدیث شریف میں آتا ہے ’’ زہری نے کہا مجھے عروہ نے خبر دی کہ ابو سلمہ کی بیٹی زینب نے انہیں خبر دی کہ ام المومنین ام حبیبہؓ بنت ابو سفیان نے بیان کیا کہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! ﷺآپ میری بہن ‘ ابو سفیان کی بیٹی سے نکاح کرلیں ‘ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیا تم یہ چاہتی ہو ؟ میں نے عرض کی جی ہاں ! اب بھی تو میں آپ کی اکیلی بیوی نہیں ہوں ‘ میں چاہتی ہوں کہ جو کوئی خیر اور بھلائی میں میرے ساتھ شریک ہو وہ میری بہن ہو ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا وہ میرے لیے حلال نہیں ہے ۔ میں نے کہا مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ ابو سلمہ کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کیا ام سلمہ کی بیٹی زینب سے ؟ جی ہاں ! سید عالم ﷺ نے فرمایا اگر وہ میری ربیبہ نہ ہوتی جب بھی میرے لیے حلال نہ تھی کیونکہ وہ میرے رضائی بھائی کی بیٹی ہے مجھے اور ابو سلمہ کو ثویبہ نے دودھ پلایا ہے مجھ پر اپنی بیٹیاں اور بہنیں پیش نہ کرو ۔‘‘ ( تفہم البخاری ۔ ج ۔۸ ۔۴۵۶۔۴۵۷) غلاموں اور باندیوں کو بلند مقام عطا کیا ۔ ثویبہ کا دودھ پی کر اس رشتہ کا ہمیشہ پاس رکھا اور رہتی دنیا کے لیے اپنے اس عمل کو نمونہ کے طور پر پیش کیا نیز ثابت کردیا کہ باندیوں سے دودھ پلانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
اعتراض نمبر۴۴
بعض کہتے ہیں کہ آٹھ دن کے بچے کو مشقتوں کا عادی بنانے کے لیے یہ عمر موزوں نہیں ہے۔
جواب : عربوں میں یہ دستور تھا کہ وہ اپنے بچوں کودیہاتی عورتوں کے پاس رضاعت و پرورش و تربیت کے لیے بھیجتے تھے تا کہ ان کی جسمانی ہڈیوں اور اعصاب میں پختگی آئے اور کھلی ہوا اور صاف فضاء میں تندرست و توانا ہونے کا موقع ملے صحرا میں مشقتوں کا خوگر بنے تاکہ حوادثات زمانہ اور زمانہ کی سختیوں اور مصیبتوں میں کمال صبرو اسقامت سے کام لے اور کبھی ہمت ہارنے کی نوبت نہ آئے۔ ماہرین حیاتیات کہتے ہیں کہ بچہ پر توارث کے اثرات حمل کے زمانہ سے مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں تو پھر آٹھ روز کی عمر کے بچے پر مختلف قسم کے اثرات کیونکر مرتب نہیں ہو سکتے ؟ آپﷺ نے تو نہ صرف رضاعت کا زمانہ گزارا بلکہ چار سال یا اس سے زیادہ عرصہ تک صحرائی گرم جھلستی ہواوں کو اپنے جسم مبارک سے چھونے کا اعزاز بخشا اور سردی کی شدت کو برداشت کیاحضرت عمر ؓ فرمایا کرتے تھے اے مسلمانو!معد کا تن وتوش پیدا کرو مشقت طلبی کو اپنا شعار اور اپنے جسم و اعصاب کو سخت بنائو ۔
سرولیم میور رطب اللسان ہے کہ ’’ محمد ﷺ کی جسمانی حالت بہت اچھی تھی اور ان کے اخلاق آزاد اور مستغنی عن الغیر تھے جن کی وجہ سے ان کا پانچ سال تک بنی سعد میں بسر کرنا تھا اور اس وجہ سے ان کی تقریر جزیرہ نمائے عرب کے خالص نمونہ کے موافق تھی ۔‘‘ ( سیرت النبی ۔ ۱۱۴)
مارٹن لنگس کہتے ہیں ‘‘ ریگزار میں آدمی کو احساس ہوتا ہے کہ پہنائی فضا کا وہ مالک و مختار ہے اور چونکہ وہ مالک و مختار ہے اس لیے ایک معنی میں زمانے کے تسلط سے اس کو مفر حاصل ہے پہنائی فضا اس کے زیر نگین ہے اور وہ بندہ شب و روز سے آزاد ہے ۔ خیمہ برہم کر کے اپنے جتنے گزرے ہوئے کل تھے سب کو وہ مرگ آشنا حقیقت بنا دیتا ہے ۔۔۔ اور آنے والا کل اگر اس کے کب اور کہاں کو ابھی باقی لانا ہے تو اس کی ہلاکت آفرینی کم ہی لگتی ہے ۔ اس کے بر خلاف شہر کا باشندہ ایک قیدی ہوتا ہے اور ایک جگہ پابہ گل ہو کر رہنا ۔۔۔ امروز فردا۔۔۔ زمانے کا ہدف بننا ہے زمانہ سب چیزوں کو تبا ہ کر دیتا ہے ۔۔۔ شہر بد اطواری کا اڈا ہوتے ہیں ‘ کاہلی اور سستی اور ان کی دیواروں کے سائے میں دبک کر بیٹھی رہتی ہے ۔ اس تاک میں کہ انسان کی چستی اور پھرتی ‘ حزم اور احتیاط اور بیدار مغزی دھار کو کند کر دے ۔ وہاں ہر شے روبہ زوال رہتی ہے حتیٰ کہ انسان کی متاع گراں بہا اس کی زبان بھی ۔ کم ہی عرب خواندگی کی استعداد رکھتے تھے لیکن حسن کلام ایک ایسی خوبی تھی جس کو سب عرب والدین اپنے بچوں میں دیکھنے کے خواہش مند تھے کسی آدمی کی قدر و قیمت کا پیمانہ اس کی فصاحت اور طاقت لسان ہوتی تھی اور فصاحت کا تاج شاعری تھی ۔ خاندان میں کسی شاعر کا پایا جانا فی الواقع سرمایہ افتخارسمجھا جاتا تھا ۔(حیات سرور کائنات۔۶۹)
حلیمہ سعدیہ ؓکی آغوش میں :دستور کے مطابق بنی سعد کی عورتیں شیر خوار بچوں کو رضاعت پر لینے کے لیے مکہ مکرمہ میں ہر سال آیا کرتی تھیں اس سال بھی سعد قبیلہ کی دس عورتیں مکہ آئیں ۔ حلیمہ سعدیہ اپنی سواری کی کمزوری اور لاغری کی وجہ سے دیر سے پہنچی سب کو ایک ایک بچہ مل گیا صرف آپ رہ گیئں دوسری طرف سرکار دو وعالمﷺ بچ گئے جنہیں کسی دایہ نے نہ لیا کیونکہ وہ یتیم تھا اور انہیں یتیم بچے کے خاندان سے زیادہ انعام و اکرام ملنے کی امید نہ تھی بالآخر سید المر سلین ﷺکو حلیمہ سعدیہؓ نے گود میں لے لیا ۔
رضاعت کی کہانی حلیمہ سعدیہؓ کی زبانی : حضرت حلیمہ ؓ فرماتی ہیں میں بنی سعد کی عورتوں کے ہمراہ دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں مکہ کو چلی ۔ اس سال عرب میں بہت سخت قحط پڑا ہوا تھا ‘ میری گود میں ایک بچہ تھا مگر فقرو فاقہ کی وجہ سے میری چھاتیوں میں اتنا دودھ نہ تھا جو اس کو کافی ہو سکے ۔ رات بھر وہ بچہ بھوک سے روتا بلبلاتااور تڑپتا رہتا تھا اور ہم اس کی دل جوئی اور دلداری کے لیے تمام رات جاگ کر گزارتے تھے ۔ ایک اونٹنی بھی ہمارے پاس تھی مگر اس کے تھنوں میں بھی دودھ نہ تھا ۔ مکہ مکرمہ کے سفر میں جس دراز گوش پر سوار تھی ‘ وہ بھی اس قدر لاغر کہ قافلہ والوں کے ساتھ چل نہیں سکتا تھا ۔ میرے ہمراہی بھی اس سے تنگ آ چکے تھے ۔ بڑی مشکلوں سے یہ سفر طے ہوا۔ جب یہ قافلہ مکہ مکرمہ پہنچا تو جو عورت رسول اللہ ﷺ کو دیکھتی اور یہ سنتی کہ یہ بچہ یتیم ہے تو کوئی عورت آپ کو لینے کے لیے تیار نہیں ہوتی تھی کیونکہ بچے کے یتیم ہونے کے سبب زیادہ انعام ملنے کی امید نہیں تھی ۔۔۔ حضرت حلیمہ سعدیہؓ کو کوئی بچہ نہ ملا ‘ہو سکتا ہے دودھ کی کمی کے باعث کسی نے انہیں اپنا بچہ دینا گوارا نہ کیا ۔ تب حلیمہ سعدیہؓ نے اپنے شوہر حارث بن عبدالعزی سے کہا کہ یہ تو اچھا نہیں کہ میں خالی ہاتھ لوٹ جائوں ‘ اس سے بہتر یہی ہے کہ میں اس یتیم ہی کو لے لوں ‘ شوہر نے ہاں کردی اور حلیمہ سعدیہ ؓاس در یتیم کو لے آئیں ۔ آپﷺ کو دودھ پلانے بیٹھیں تو حلیمہ کے پستان مبارک میں دودھ اس قدر اترا کہ آپ ﷺ اور ان کے رضاعی بھائی عبداللہ نے سیر ہو کر پیا ۔ حارث اونٹنی کے پاس گئے ‘ اس کے تھن بھی دودھ سے بھرے تھے حالانکہ اس سے قبل تھنوں میںدودھ کا ایک قطرہ بھی نہ تھا ۔ انہوں نے اسے دوہا اور انہوں نے بھی نوش کیا اور میں نے بھی پیا اور ہم خوب سیر ہو گئے اور خیر وبرکت کے ساتھ اس رات چین کی نیند سوئے چونکہ اس سے پہلے بھوک و پریشانی میں نیند نہیں آتی تھی ۔۔ حلیمہؓ فرماتی ہیں کہ تین راتیں ہم مکہ میں ٹھہرے رہے ۔۔ اس کے بعد لوگوں نے ایک دوسرے کو رخصت کیا اور مجھے بھی سیدہ آمنہؓ نے رخصت کیا ۔ میں اپنی دراز گوش پر حضور ﷺ کو اپنی گود میں لے کر سوار ہوئی ۔ میری دراز گوش خوب چست ہو گئی اور اپنی گردن اوپر تان کر چلنے لگی ۔ ۔۔ پھر قبیلہ کے جانوروں کے آگے آگے دوڑنے لگی لوگ اس کی تیز رفتاری پر تعجب کرنے لگے ۔ عورتوں نے مجھ سے کہا اے بنت ذوئب ۔۔ کیا یہ وہی جانور ہے جس پر سوار ہو کر ہمارے ساتھ آئی تھی اور جو تمھارا بوجھ اٹھا نہیں سکتا تھا اور سیدھا چل نہیں سکتا تھا ؟ میں نے جواب دیا: خدا کی قسم! یہ وہی جانور ہے لیکن خدا تعالیٰ نے اس فرزند کی برکت سے اسے قوی و توانا کر دیا ہے‘ اس پر انہوں نے کہا خدا کی قسم ! اس کی بڑی شان ہے ۔۔۔ آخر بنی سعد کی بستی میں پہنچ گئے۔ الغرض دو سال کا عرصہ ہو گیا اور میں نے ( حلیمہ ) نے آپ کا دودھ چھڑا دیا ۔۔۔ اور دستور کے مطابق ہم آپ ﷺ کو ان کی والدہ ماجدہ کے پاس لائے انہوں نے ہمیں انعام سے نوازا ۔
دستور کے مطابق اب ہمیں آپ ﷺ کو اپنے پاس رکھنے کا حق نہیں تھا کیا حسن اتفاق ہے کہ کبھی آپ ﷺ کو لینے کے لیے تیار نہیں تھی لیکن آپ کی جدائی بھی گوارا نہ تھی ۔ عجیب اتفاق ہے کہ اس سال مکہ معظمہ میں وبا کی بیماری پھیلی ہوئی تھی ہم نے اس بیماری کا ذکر کر کے سیدہ آمنہ ؓ کو رضا مند کر لیا اور پھر ایک بار آپ ﷺ کو اپنے گھر لے آئی ۔ آپ یہاں دو یا تین سال تک رہے ۔ یہ عرصہ پہلے دو سال سے الگ ہے ۔۔۔
نکتہ ـ: حلیمہ سعدیہ ؓکی چھاتیوں میں دودھ کی اس قدر کمی تھی کہ ان کے شیر خوار بچہ عبداللہ کے لیے بھی دودھ نا کافی تھا وہ روتا تڑپتا رہتا اور باپ اور والدہ بچے کی دل جوئی کے لیے رات بھر سو نہ سکتے تھے ۔ جگ رتوں میں کٹ رہی تھی ان حالات میں کسی خاتون نے حلیمہ کو اپنا بچہ رضاعت کے لیے دینا گوارا نہ کیا ہو گاسوال یہ ہے کہ حلیمہ سعدیہ ؓجانتی تھی کہ اس کی چھاتیوں میں دودھ کی کمی ہے اور اس کے اپنے بچے کا گزارا نہیں ہو پاتا تو پھر کون اسے بچہ رضاعت کے لیے دے گا پھر بھی مکہ کو دوسری عورتوںکے ہمرا چلی آئی ۔ کیا شے اسے کشاں کشاں لائی ؟ یہ قدرت کاملہ کی معجز نمائی تھی کہ حلیمہ کے خیال میں انگیخت ہوئی کہ جائے تو سہی ‘ قسمت آزمائے تو سہی ‘ شائد کوئی بچہ مل جائے ۔ ادھر ایک بچہ حلیمہ کی قسمت جگانے اور سنوارنے کا منتظر ہے غالب خیال یہی ہے کہ بایں سبب اس بچہ نے کسی دائی کو قبول نہ فرمایا ایسا نہیں کہ دایئوں نے یہ کہہ کر کہ اس گھر سے ملنے کی کوئی امید نہیں ‘ گود میں لینے سے انکار کردیا، حلیمہ ؓکے مقدر کا ستارہ روشن ہوا اور دو جہاں کے مختار ﷺان کی آغوش میں آ گئے۔ صاحب سیرت سید الوریٰ (۱۔۱۰۸) لکھتے ہیں کہ چند دنوں کے جگر گوشہ کو ایک دور دراز بسنے والی اجنبی عورت کے حوالے کر دینا اور سالوں تک اس کی جدائی برداشت کرنا ماں باپ کے لیے کتنا کٹھن اور صبر آزما کام ہے ۔ حیرت ہوتی ہے کہ محض زبان کو اپنی اصلی اور فطری حالت پر برقرار رکھنے کے لیے اتنی بڑی قربانی دیتے تھے ۔‘‘ جی ہاں وہ شخص قوم کا سردار مانا جاتا تھا جو فصیح ہوتا لہٰذا اس ڈگری کے حصول کے لیے جدائی برداشت کرنا عربوں کا معمول بن چکا تھا اس کے علاوہ دوسرے اسباب بھی کچھ کم نہ تھے جن کی بنیاد پر عرب اپنے بچوں کو صحرائی عورتوں کی آغوش میں دے دیتے تھے لیکن ان میں سے زبان کا عنصرنہایت اہمیت کا حامل ہے آج کل بھی لوگ اپنے بچوں کا سمندر پار کے ملکوں میں تعلیم کے حصول کے لیے بھیجتے ہیں ‘ فرق صرف صغیر سنی اور کبیر سنی کا ہے لیکن کم سنی ہو یا کبیر سنی ہر دو صورتوں میں جدائی کا مسئلہ تو موجود ہے ۔ اسے تو برداشت کرنا ہی پڑتا ہے ۔
عربوں میں یہ رسم مدتوں جاری رہی یہاں تک کہ ولی عہد شہزادہ بہرام گور، کو بچپن میں مدائن کے شاہی دار الخلافہ میں رکھنے کی بجائے اس کی تربیت و پرورش کے لیے حیرہ بھیج دیا تھا ۔ ( محمد رسول اللہ ۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ ۔ ص ۱۸۹)و لید بن عبدالملک حرم شاہی میں پلا اور صحرائی تربیت سے محروم رہا ‘ اس کا اثر یہ ہوا کہ ولید ہی بنو امیہ خاندان کا ایک فرد تھا جو عربی صحیح نہیں بول سکتا تھا ۔ ( سیرت النبی ۔ ۱۱۴) یہ جدائی کے لمحات والدین کے لیے ضرورکٹھن اور صبر آزما تھے مگر اسی کا نتیجہ ہے کہ عربوں نے اپنی زبان کو خالص رکھا اور محفوظ بنایا ۔ ۱۵۳۵ سال گزر چکے ہیں اس کے باوجود پہلے کی عربی نثر ہو یا شاعری ‘ آج کی شاعری و نثر سے مختلف نہیں ہے ۔ چاہے وہ ذخیرہ الفاظ ہوں ‘ گرائمر ہو یا الفاظ کی ساخت و بناوٹ یا صوتی آہنگ ہو ۔
معجزہ یا اتفاق: ’’ مصنف سیرت النبی( اعلان نبوت سے پہلے ۔۱۷۹) پر رقم طراز ہیں ابن سعد ،یحیٰ بن یزید سعدی کہتے ہیں کہ بنو سعد کی دس عورتیں شیر خوار بچوں کی تلاش میں مکہ مکرمہ آئیں ۔ سب دائیوں کو بچے مل گئے صرف حلیمہ سعدیہؓ رہ گئیں جو دیر سے مکہ پہنچیں دوسری طرف تمام دائیوں نے سیدہ آمنہؓ کے در یتیم کو نہ لیا اور یہ نو مولود بچہ بچ گیا ۔ ایک طرف ایک دایہ اور دوسری طرف ایک بچہ بچ رہا ہے ۔ دس عورتیں تھیں اور دس بچے نہ ایک کم نہ ایک زیادہ ۔ آپ ﷺ کا وہ سخی گھرانہ ہے جس کے در سے کوئی خالی نہیں لوٹتا لہٰذا آپ کے در سے حلیمہ سعدیہؓ کا خالی لوٹنا اللہ تعالیٰ کو گوارہ نہ ہوا اور آپﷺ کی شان کے شایاں نہ سمجھا گویا آپﷺ حلیمہ ؓ کے منتظر تھے اور ان کو ایسی رضاعی ماں کا شرف بخشا ۔اس طرح سب کی جھولی میں ایک ایک بچہ آیا اور کوئی بھی محروم نہ رہی اسے اتفاق کہیے یا معجزہ ! لیکن میرے خیال میں یہ برابر حساب معجزہ سے کم نہیں کہ دائیوں کی تعداد بھی دس اور بچوں کی تعداد بھی دس ۔ ظہور اسلام سے پہلے لوگ تاریکی کی اتھاہ گہرائیوں کے قعر مذلت میں ڈوبے ہوئے تھے گردش ایام کے گزرتے ادوار میں سائنسی تحقیقات نے سر بستہ راز ہائے کائنات سے پردہ اٹھا یا تب لوگوں کو کئی دیگر معلومات کے علاوہ علت تحریم سے آگاہی اور آشنائی ہوئی ۔خون میں یورک ایسڈ ہوتا ہے یہ تیزابی مادہ خطر ناک حد تک زہریلا اثر رکھتا ہے خون مختلف قسم کے جراثیم ‘ بیکٹیریا اور زہریلے مادہ کی منتقلی کا باعث بنتا ہے ۔ گوشت سے جس حد تک خون کا اخراج ہو جائے اتنا ہی وہ صحت کے لیے کار آمد اور مفید ہوتا ہے ۔ یہ وجہ ہے کہ اسلامی ذبیحہ کا طریقہ بہتر ہے جس سے صحت انسانی مضر اثرات سے بچ پاتی ہے کیونکہ زہریلا مادہ خون کے بہنے سے خارج ہو جاتا ہے اور خون نالیوں میں جم نہیں پاتا ۔ نیز یہ بات بھی بعید از قیاس نہیں ہے کہ غذائوں کا انسانی جسم اور انسانی اخلاق پر گہرا اثر پڑتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے بچے کو احمق اور فاحشہ عورتوں سے دودھ نہ پلوائو کیونکہ دودھ بچے کے جسم اور اخلاق پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ اس رہنما اصول اور عالی شان فرمان کے تحت علماء کرام کہتے ہیں کہ جیسے منشیات کے عادی ایڈز اور ٹی بی جیسے موذی امراض کے مریض کا خون کسی دوسرے مریض کو منتقل نہیں کیا جاتا اسی طرح انتقال خون کرتے ہوئے حتی المقدور فاسق و فاجر کے خون سے پرہیز لازم ہے ۔ ( ۲) حلیمہ سعدیہ ؓکی گود کو کسی اور بچے سے محفوظ رکھا ‘ میں اسے اتفاق نہیں کہتا بلکہ یہ منشاء خدا وندی تھا اور اپنے محبوب کے لیے حلیمہ سعدیہ ؓکی آغوش کا انتخاب فرمایا : اما م سہیلی لکھتے ہیں کہ سیدہ حلمیہ ؓ اپنے قبیلے میں عالی حوصلہ مند اور صاحب کرم مانی جاتی تھیں ان کی بلندی فطرت کا ایک بدیہی ثبوت یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے انہیں اپنے رسول ﷺ کی رضاعت کے لیے اس طرح منتخب فرمایا جس طرح آپ ﷺ کی ولدات کے لیے شریف ترین اصلاب اور پاکیزہ ترین ارحام کو منتخب فرمایا تھا اور دودھ پلانا بھی نسب ہی کا حکم رکھتا ہے کیونکہ یہ طبائع میں تبدیلی پیدا کرنے کا موجب ہے ۔آخر وہ پھر پھرا کر اسی در پر لوٹ آتی ہے جس در سے کبھی کوئی منگتا خالی نہیں جاتا ۔
واہ کیا جود و کرم ہے شہہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
اعتراض نمبر۴۵
اتفاق سے ان ( حلیمہ سعدیہ ؓ) کو کوئی بچہ ہاتھ نہ آیا ‘ آنحضرت ﷺ کی والدہ ؓنے ان کو مقرر کرنا چاہا تو ان کو خیال آیا کہ یتیم بچے کو لے کر کیا کروں گی لیکن خالی ہاتھ بھی نہیں جا سکتی تھی اس لیے سیدہ آمنہؓ کی درخواست قبول کر لی ۔ ( سیرت النبی ۔ ۱۔۱۱۵)
بعض سیرت نگار کہتے ہیں کہ حضرت حلیمہ سعدیہؓ آنحضرت ﷺ کو اس لیے دودھ پلانے کے لیے نہیں لے جانا چاہتی تھی کہ یہاں سے مجھے کیا ملے گا ۔ ( سیرت اعلان نبوت سے پہلے ۔ص ۲۸۶)
جواب : اس میں شک نہیں کہ آپ کے والد ماجد کا انتقال ہو چکا تھا آپ ان کی وفات کے بعد پیدا ہوے لیکن آنحضرت ﷺ کے کفیل مشفق دادا جان جو قریش کے سردار تھے ‘ زندہ تھے اور آپ ﷺ کے کفیل تھے۔ جب انہوں نے آنحضرت ﷺ کی دادی حضرت فاطمہ بنت عمرو سے نکاح کیا تو بڑی کوہان والی ایک سو ناقہ اور دس اوقیہ سونا مہر میں دیا ۔ ( اوقیہ ۔ ایک سو تولہ بنتا ہے ) ۔ کوئی اسے پہلے کا واقعہ کہے تو قریب کی بات یہ ہے کہ حضرت عبدالمطلب نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ کو اپنی منت پورا کرنے کے لیے قربان کرنا چاہا تو خاندان آڑے آیا اور عبداللہ کو قربان کرنے میں دخیل ہوئے ۔ کرتے کراتے سو اونٹوں کے فدیہ پر قرعہ نکلا ‘ آپ نے سو اونٹ خدا کے نام پر قربان کیے ۔ آپ کی ولادت کے پچاس یا پچپن روز پہلے ابرہہ نے کعبہ کو ڈھانے کی غرض سے مکہ پر لشکر کشی کی ۔ اسودبن مقصود حبشی ان چوپایوں کو ہنکا کر لے گیا جو میدان تہامہ میں چر رہے تھے ان میں حضرت عبدالمطلب کے ایک سو اور بعض روایات میں دو سو اونٹ تھے اور بعض کتب میں چار سو اونٹ کا ذکر بھی ملتا ہے اگر سو اونٹ ہی ہوں تو آپ کی امارت کا منہ بولتا ثبوت ہے اس کی دلیل یہ دی جا سکتی ہے کہ ہجرت کے موقع پر آنحضرت ﷺ کی تلاش میں سو اونٹوں کا انعام مقرر کیا گیا تھا اور یہ انعام قریش نے مل کر مقرر کر رکھا تھا جب کہ دوسری طرف فرد واحد آپ کے دادا جان کے پاس کئی سو اونٹ تھے آپ کی گم شدگی ہوئی تو جب مل گئے تو پھر آپ کے دادا نے ایک ہزار ناقہ اور ایک سو رطل تصدق کیا یتیم بچے کو باقی انائوں نے نہ لیا اور حلیمہ بھی یتیم بچے کو لینے کے لیے تیار نہ تھی کہ ایسے بچے کی رضاعت سے کیا ملے گا ؟ یہ سب یار لوگوں کی رنگین بیانیاں اور وضع کردہ کہانیاں ہیں آپ کا داد اکفیل ہو اور اتنا امیر ہو تو پھر بھلا کوئی دائی اس بچے کو آغوش میں لینے کو تیار نہ ہو کیوں ؟ نیز اس بے بنیاد الزام کی قلعی اس مکالمہ سے کھل جاتی ہے جو سیدہ آمنہ ؓاور حلیمہ سعدیہؓ کے درمیان ہوا ۔
سیدہ آمنہ ؓ: یہ ٹھیک ہے بچے کی شرافت و نجابت میں کوئی شبہ نہیں لیکن شائد تم نے سن لیا ہو محمد ﷺ یتیم پیدا ہوئے ہیں۔
حلیمہ سعدیہ : میں سن چکی ہوں شہر بھر میں اس کا چرچا ہے کہ محمد ﷺ یتیم پیدا ہوئے ہیں لیکن ان کے دادا جان قریش کے سردار اور ان کے چچا مکہ کے امیر ترین شخص ہیں اور میںنے لونڈی کی خبر سن لی ہے جو ننھے بچے کی ولادت کی خوشی میں ان کے چچا ابو لہب نے آزاد کر دی ہے۔
سیدہ آمنہ ؓ: تم نے غلط نہیں سنا سردار عبدالمطلب کو اپنے پوتے سے بڑی محبت ہے اور ان کے بیٹے حارث نے بھی میری دل جوئی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔ سب ہی مہربان ہیں سب نے میرا غم بانٹا ہے لیکن سعدیہ میں چاہتی ہوں کہ میرا بچہ اپنی زندگی کا پہلا قدم صرف اپنے باپ کے سہارے پر اٹھائے جب کہ اس کا باپ اس دنیا میں موجود نہیں ہے ۔ حلیمہ کی آنکھیں کھل گئیں اور یہ کہ یتیم بچے کی رضاعت سے کچھ نہ ملے گا لیکن معاملہ اس کے الٹ پایا ۔ دادا جان نے اپنے پوتے کی دایہ کو بہت کچھ دیا ۔ ان کے چچا نے درہم دئیے اور سیدہ آمنہ ؓنے بہترین پارچات کے جوڑے عطا کیے حتیٰ کہ اپنی انگوٹھی بھی اپنے پیارے لخت جگر کے صدقے میں سعدیہؓ کو بخش دی ۔ اتنے انعام و اکرام سے حلیمہ سعدیہ ؓ حیران رہ گئی کہ سوچتی کچھ تھی دیکھا کچھ اور ہے ۔سنا کچھ اور تھا ،ہوا کچھ اور ہے ۔
تمام کھوکھلی باتوں سے اٹھ گیا پردہ
ذرا سی دیر لگی آئینہ دکھانے میں
ذراآپ کے والد ماجد کے ورثہ کا ذکر بھی ہو جائے تا کہ مفلوک الحالی اور غربت (جو ان کی طرف منسوب کی جاتی ہے) کا علم ہو جائے ۔
( ۱) مکان : یہ محلہ زقاق المولد میں واقع تھا ۔ شعب بنی ہاشم میں تھا اس مکان میں آپ کی ولادت مبارک ہوئی یہ مکہ میں سرائے ابو یوسف کے نام سے مشہور تھا ۔ جب آنحضرت ﷺ بنی سعد سے واپس آئے تو اسی مکان میں اپنی والدہ ماجدہؓ کے ہمراہ رہنے لگے ۔
( ۲) ترکہ میں چاندی اور تلوار کا ذکر بھی ملتا ہے۔
(۳) ایک دوکان خیاطی کی تھی جس میں کپڑا بکتا اور سلتا تھا ۔
(۴) آپ ﷺکے والد ماجد تجارتی سامان لے گئے واپسی پر بیمار ہوئے اور وفات پائی اور ابواء کے مقام پر دفن ہوئے اس سامان میں نقد و جنس وغیرہ چھوڑی ۔
(۵) حضرت عبداللہؓ نے ترکہ میں پانچ اونٹ، بکریوں کا ریوڑ اور برکہ یعنی حضرت ام ایمن بطور کنیز چھوڑا تھا ۔ بعض سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ شقران عبدالرحمن بن عوفؓ کے غلام تھے آپ نے ان سے خرید کر آزاد کر دیا تھا ۔ اسی سلسلے میں ابن شیبہ لکھتے ہیں کہ مجھ سے زید بن اخزم نے کہا کہ انہوں نے عبداللہ بن دائود سے سنا تھا کہ شقران آنحضرت ﷺ کو اپنے والد ماجد کی میراث میں ملے تھے ۔ ( سیرت النبی اعلان نبوت سے پہلے ۔ ۲۹۰ ) حضرت عبداللہ کی وفات کے بعد سیدہ آمنہؓ نے مرثیہ لکھا جس کے ایک شعر کا ترجمہ یہ ہے ’’ اب اگرچہ انہیں موت اور حوادث نے ہم سے چھین لیا ہے تاہم زندگی بھر وہ بے حد سخی اور انتہائی رحمدل تھے اس سے آپ کی مالی حالت کا پتہ چلتا ہے اور آپ کے والد کی عسرت کے متعلق بتائی جانے والی کہانیاں درست نہیں ہیں ۔
مختصر یہ کہ ابراہیم سیالکوٹی امام سہیلی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ حضرت حلیمہ سعدیہؓ بنی سعد کی شریف اور اپنی قوم کی با عزت خواتین میں سے تھیں حضرت حلیمہ ؓکی ذاتی خصوصیات بہت سی تھیں مثلا غریب ہونے کے باوجود ان میں حرص و طمع نہ تھا اور قناعت پسند اور محبت کرنے والی خاتون تھیں ۔‘‘ ایسی صفات کی حامل خاتون سے تو قع نہیں کی جاسکتی کہ انہوں نے کہا ہو کہ یہاں سے مجھے کیا ملے گا اس لیے دودھ پلائی کے لیے لے جانانہیں چاہتی تھیں ۔ نیز مکہ کے قریب قبیلہ ہوازن کے لوگ آباد تھے تو کیا انہوں نے ہاشمی گھرانے کی امارت کی شہرت نہیں سن رکھی تھی ؟ ان کی مہمان نوازی کے چرچے نہیں سنے تھے ؟ ان کے روم و غسان کے شہزادوں سے تعلق تھے اور ان کے ساتھ تجارتی معاہدے کیے تھے جس سے ان کے مال تجارت کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا تھا، سے بے خبر تھے؟ نیز خانہ خدا کے متولی ہونے کے سبب پورے عرب میں ان کی عزت کی جاتی تھی بڑے نازک مواقع پر ان کے مشوروں پر عمل کیا جاتا تھا جیسے ابرہہ کی مکہ پر لشکر کشی کے وقت آپ کے دادا جان نے اہل مکہ سے کہا کہ پہاڑوں پر چڑھ جائیں اور ابرہہ سے لڑنا نہیں چاہیے تواہل مکہ نے من وعن اس بات کو تسلیم کیا ‘ تو کیا اس قبیلہ کے لوگوں کو آنحضرت ﷺ کی پیدائش کے بعد ساتویں روز اہل مکہ کو بلا کر دعوت دی تو کیا اس کی خبر نہ ہوئی تھی ؟ حقیقت یہ ہے کہ دودھ پلانے کے لیے بچوں کو لینے والی خواتین میں سے کوئی خالی ہاتھ نہ جائے ۔ قدرت خدا کی دیکھئے! کہ حلیمہ سعدؓیہ کو کوئی بچہ نہ ملا صرف حضور ہی بچ گئے بلکہ ایک روایت میں ہے کہ حلیمہ سعدؓیہ کو کسی نے بچہ اس کے دودھ کی کمی کی وجہ سے دینا گوارا نہ کیا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ باقی دائیوں نے کہا ہو کہ یتیم بچے کے گھر سے کیا ملے گا ؟ یہاں سے ہمیں کیا ملے گا ؟ آپ کو لینے کے لیے تیار نہ ہوئیں جبکہ یہ بات نہیں ایک دائی جس کا نام حلیمہ ہے اسے کسی نے بچہ نہ دیا تو اب اس محروم دائی کی محرومی دور کرنے کے لیے اور خالی ہاتھ نہ لوٹنے کی وجہ سے آپ ﷺ بچ رہے اور باقی دائیوں سے اللہ تعالیٰ نے یہ کہلوا دیا تا کہ وہ سخی جس کے آبائو اجداد کے دروازہ سے کو ئی سائل خالی نہیں لوٹتا ‘ کیسے ہو سکتا ہے کہ حلیمہ سعدیہؓ آغوش میں بچہ لیے بغیر گھر چلی جاتی ۔ یہی آپ کی رحمت اللعالمینی کا تقاضا ہے کہ آپ کے شہر سے کوئی بھی دایہ خالی نہ لوٹی یہ اعجاز بھی دیکھیے کہ دودھ کی کمی رحمت کی زیادتی کا باعث بن گئی اور سعدیہ کی قسمت کا ستارا ثریا سے زیادہ بلند اور چاند سے زیادہ روشن ہو گیا ۔
میرا محبوب نبیؐ ایسا کشادہ دل ہے
ذرّہ مانگے جو اسے شمس و قمر دیتا ہے
حلیمہؓ فرماتی ہیں کہ شیر خوار بچوں کے لیے مکہ آنے والی عورتوں میں سوائے میرے ہر ایک نے محمد ﷺ کو لینے سے انکار کر دیا کہ آپﷺ کے والد فوت ہو چکے ہیں اور آپﷺ یتیم ہیں۔ صحرائی پرندوں اور وحشی جانوروں میں رضاعت کی ذمہ داری سنبھالنے کی بات ہو رہی تھی کہ غیب سے یہ ندا آئی ‘ اے جمیع مخلوقات ! اللہ تعالی ٰنے اپنی سابق حکمت قدیمہ میں یہ لکھ دیا کہ اللہ تعالیٰ کا نبی حلیمہ حلیم کا شیر خوار ہو ‘‘ (سیرت محمدیہ ترجمہ مواہب لدنیہ ۔ج ۱۔ ۱۰۳) ایک بدیہی ثبوت ہے کہ حق تعالی ٰنے اسے اپنے رسول کی رضاعت کے لیے اس طرح منتخب فرمایا تھا جس طرح آپﷺ کی ولادت کے شریف ترین اصلاب اور پاکیزہ ترین ارحام کو منتخب فرمایا تھا ۔(خاتم النبین ۔ ص ۱۲۶ )
اعتراض نمبر ۴۶
the fact that muhammad was a posthumous child may of course have been part of reason for sending to a wet nurse (watt)
ترجمہ : ’’ یہ حقیقت ہے کہ محمد ﷺ یتیم پیدا ہوئے آپ کو مرضعہ کے سپرد کرنے کے مختلف اسباب میں ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے ۔( واٹ)
جواب : یہ درست ہے کہ آپ ﷺاپنے باپ کے انتقال کے بعد یتیم پیدا ہوئے ۔ عرب کے دستور کے مطابق اس در یتیم کو حلیمہ سعدیہ ؓنامی دایہ کے سپرد کیا گیا ۔ عرب کے دستور اور رسم و رواج کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ’’ واٹ‘‘ نے یہ الزام لگایا کہ مرضعہ کے سپرد کرنا بچے کی یتیمی اور غربت کا سبب تھا حالانکہ غریب لوگ مرضعات کی اجرت ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے اپنے بچوں کو ان کے سپرد نہیں کر سکتے تھے بلکہ وہی لوگ اپنے بچوں کو رضاعی مائوں کے حوالے کرتے تھے جو رضاعت کے ا خراجات کو برداشت کرنے کی استطاعت رکھتے تھے اور رضاعی مائیں بھی ان بچوں کو گودی لینے میں ترجیح دیتی تھیں جن کے خاندان سے کافی داد و دہش کی توقع ہوتی تھی اگر یتیمی اور خراب مالی و معاشی حالات کے سبب بچہ دایہ کے سپرد کیا جاتا تھا تو اس دشواری سے بچنے کے لیے بچے کو اس کا خاندان اپنے ہاں رکھ کر پرورش اچھے طریقے سے کر سکتا تھا ۔ اگر وہ خاندان اپنے بچے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا تھا تو دایہ کی اجرت کو کیسے ادا کر سکتا تھا جب کہ اجرت دایہ کی ادا نہ کر سکنے کی صورت میں خودخاندان بچے کی پرورش بخوبی کر سکتا ہے یا کیا مرضعہ اجرت کے بغیر دودھ پلاتی تھی ؟ ایسا بھی نہیں ہے جب کہ وہ تو اپنی کمزور مالی و معاشی حالت کو سنبھالا دینے کے لیے دودھ پلاتی تھی کیا اس مستشرق کو آپ کی یتیمی تو نظر آئی مگر در یتیم کے کفیل ‘ قریش کے سردار اور رئیس خواجہ عبدالمطلب کی امارت کی بھنک کانوں میں نہ پڑی جس نے عقیقہ پر اونٹ ذبح کر کے قریش کی ضیافت کی ۔ یہ وہی کفیل ہیں جس نے آنحضرت ﷺ کے والد ماجد کی وفات کے بعد کفالت کا ذمہ لیا تھا تو کیا وہ رضاعت کی اجرت ادا کرنے سے قاصر تھا ؟ وہ مہربان دادا جو آپ کے پل پل کی خبر رکھتے اور اس کی دیکھ بھال میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر تے ‘ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا سب کچھ ہو اور کفیل بھی آپ ہوں تو کیسے مان لیں کہ یتیمی کی وجہ سے مرضعہ کے سپرد کیا تھا یہ واٹ کی خام خیالی ‘ دیوانے کا خواب اور مجذوب کی بڑ ہے ۔
اعتراض نمبر۴۷
قبیلہ ابو ذوئیب کی ایک عورت دودھ پلائے گی ‘ اس کے شوہر کا نام حارث ہو گا ‘ سیدہ آمنہ ؓ کو خواب میں بتا دیا تھا جب وہ بچے کو لے کر چلی تو دفعتاََاس کی اونٹنی اور خود حلیمہ ؓکے دودھ میں اضافہ ہو گیا تھا اس کاسفید گدھا تیز رفتار ہو گیا ‘ اس کے مویشی فربہ ہو گئے اور کثرت سے دودھ دینے لگے یہ باتیں بجز حلیمہ ؓسعدیہ کے کسی اور کا بیان نہیں ‘ اس لیے یہ معتبر روایتیں نہیں ہیں ۔
جواب : ایسے واقعات کا وقوع نا ممکن نہیں ۔ کتاب پیدائش میں ہے ’’ لابان نے اس سے کہا کہ میں التجا کرتا ہوں کہ اگر تجھ کو میرا خیال ہے تو ٹھہر جا کیونکہ مجھ کو تجربہ سے ثابت ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تیری وجہ سے مجھ کو برکت دی ہے ۔ یہ بھی کتاب پیدائش باب ۳۰‘ آیت ۳۰ میں ہے ’’ یعقوبؑ نے کہا کہ میرے پاس تیرے آنے سے پہلے بہت تھوڑا سا پانی تھا اور اب وہ کثیر ہو گیا ہے اور جب سے میں آیا ہوں اللہ نے تجھ کو برکت دی ہے ‘ اسی طرح کتاب پیدائش با ب ۳۰ ورس ۳۶۔ ۴۲ کے مضمون میں ہے کہ لابان کے مویشی کو حضرت یعقوبؑ کے مویشی سے کمزور پیدا کیا تھا تو اگر حلیمہؓ کے مویشیوںمیں برکت دی پھر اس کے اپنے دودھ میں اور مویشیوں کے دودھ میں اللہ تعالیٰ نے برکت دے دی تو کونسی انہونی بات ہو گئی ۔ ( ۲) برگزیدہ ہستیوں کو سچے خواب آتے ہیں ‘ ان خوابوں کی حقیقت وہی نکلتی ہے جیسے خواب میں دیکھا ہوتا ہے ۔ آپ نے سعدیہ اور اس خاوند کے متعلق بتا دیا یہ اس رویا صادق کی وجہ سے تھا اس میں بھی کوئی غیر یقینی کیفیت نہیں ہے ۔ یہ الزام بھی تعجب خیز ہے کہ سوائے حلیمہ کے ان باتوں کا کسی کو علم نہ تھا۔ یہ بھی درست نہیں کیونکہ بنو سعد کی دائیوں کا واپسی پر پوچھنا کہ یہ وہی سواری ہے تو حلیمہ ؓ نے وا شگاف الفاظ میں کہا کہ یہ سب کچھ اس سوار کی برکت سے ہے ۔حلیمہ کو ‘ ان کے شوہر کو پھر قحط میں ان کے مویشیوں کی بہتر حالت سے پورے قبیلہ کو پتہ چل گیا تھا ۔ ہاں سب جان گئے تھے بلکہ رضاعی ماں نے آپ کی آمد سے برکت کا مژدہ سب کو سنا دیا یہاں تک کہ حلیمہؓ کے مویشیوں کی دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی اپنے مویشیوں کو اسی جگہ بھیجتے تھے جہاں حلیمہؓ کے مویشی چرتے تھے ( خطبات احمدیہ ۔ ۴۴۰) حلیمہؓ کے مویشی لوٹتے تو سیر ہو کر آتے جبکہ دوسروں کے حسب سابق بھوکے واپس آتے کیا اس با ت کی دھوم پورے قبیلہ میں نہیں تھی ؟ سب قبیلہ والے جان گئے تھے کہ یہ ساری برکتیں اس نومولود کے دم قدم سے ہیں ۔
رزق یوں قاسمِ اشیاء کے کرم سے پایا
مجھ کو کھنچنا نہ پڑا خون پسینے کے لیے
( عباس تابش)
اعتراض نمبر۴۸
منٹگمری واٹ کہتا ہے کہ بچوں کو مرضعات کے حوالے کرنے کے عمل پر معاشرہ کے بعض حلقوں کی طرف سے تنقید بھی کی جاتی تھی اور سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۳۳ کے ایک ٹکڑا کو دلیل بناتا ہے اور کہتا ہے کہ آیت کا یہ حصہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ اگر تم اپنے بچوں کو مرضعہ کے حوالے کرنا چاہتے ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ’’ لاجناح علیکم ‘‘ سے اشارہ ملتا ہے کہ بعض حلقوں کی طرف سے رضاعت کے عمل پر تنقید کی جاتی تھی اور محمد ﷺ کو اس بات کا احساس تھا ۔ اس کے اپنے الفاظ یہ ہیں ۔
Apart of the verse mentioned (2.233) asserts that if you want to give your children out to the nurse (la junaha alaykum) and this suggests that the practice have been exercise in some quarters and that muhammad may have been sensitive about it .
جواب : عربوں میں رضاعت کی رسم قدیم زمانہ سے چلی آ رہی تھی عرب کے معزز گھرانے اپنے بچوں کو رضاعت کے لیے دیہاتی قبائل کی دائیوںکے پاس بھیج دیتے تھے جس کے مختلف اسباب تھے جو پیچھے ذکر کیے گئے ہیں ۔ چونکہ اسلام سے قبل رضاعت کی رسم جاری تھی اسلام کے ظہور سے یہ مسئلہ سامنے آیا کہ زمانہ جاہلیت سے جاری رسم کو جائز قرار دے کر جاری رکھا جائے یا ختم کر دیا جائے اس پر بحث و تنقید ہوتی ہو گی اور اس بحث و تنقید میں کوئی حرج نہیں ہے اوریہ بھی حقیقت ہے کہ زمانہ قبل از اسلام کی کسی رسم کو برقرار رکھنے یا رد کرنے کے لیے بحث ہونی چاہیے تھی اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اب اسلام نے اس کے متعلق دو ٹوک فیصلہ دے دیا تا کہ کوئی شبہ نہ رہے ۔ قرآن مجید میں ہے ۔’’ و ان اردتم ان تستر ضعو آ اولاد کم فلا جناح علیکم اذا سلمتم ما اتیتم باالمعر و ف‘‘( ترجمہ )’’ اگر تم چاہو کہ دودھ پلواو (دایہ ) سے اپنی اولاد کو پھر کوئی گناہ نہیں تم پر جبکہ تم ادا کردو جو دینا ٹھہرایا تھا تم نے مناسب طریقہ سے ۔ ‘‘
اب ’’واٹ ‘‘کے علمی تبحر کی حد ہے کہ اس نے غور نہیں کیا کہ جس آیت سے استدلال کر رہا ہے اسی میں اس کے اعتراض کا رد موجود ہے ۔ اس آیت مبارکہ میں وضاحت کی گئی ہے کہ رضاعت میں کوئی گناہ نہیں ہے تو مستشرق کو الزام لگانے کا کوئی حق نہیں اس کے باوجود الزام دھرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قرآن پر ایمان نہیں رکھتا اگر ایمان نہیں رکھتا تو قرآن کریم کی آیات سے استدلال کا جواز نہیں بنتا کیونکہ اپنے مفاد کی خاطر استدلال تو قرآن کریم سے کرے مگر اس کا رد اگر قرآن سے بتایا جائے تو نہ مانے یہ ہٹ دھرمی تعصب اور دوغلا پالیسی ہے جو ایک غیر جانب دار مورخ کو زیب نہیں دیتی اس سے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ محض مسلمانوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی سوچی سمجھی سازش ہے اور ادھر ادُھر کی بے دلیل باتیں ہیں شائد وہ سمجھتا ہے کہ ادھر اُدھر کی باتیں کر کے مسلمانوں کو پھسلا دوں گا لیکن توجانتا نہیں مرے مالک مکان کو ۔۔۔ اے دوست ! کوئی چیز ادھر کی اُدھر نہ ہو
اعتراض نمبر۴۹
عربوں کے نزدیک یہ فعل (رضاعت کا) نا پسندیدہ تھایہ ایک مجبوری تھی ( واٹ )۔
۲۔ بعض کہتے ہیں کہ مرضعات دودھ پلائی کا معاوضہ نہیں لیتی تھیں ‘ اس اجرت کو عار سمجھتی تھیں ۔ مختلف قبائ؛ کی خواتین خاص خاص موسموں میں آ یا کرتی تھیں تاکہ متمول لوگوں کے بچوں کو لے جائیں ان کو دودھ پلائیں اور جب مدت رضاعت ختم ہو تو ان کے والدین انہیں گراں قدر عطیات و انعامات دے کر شاد کام کریں وہ اس وقت بھی مقررہ اجرت پر دودھ پلانا عار سمجھتی تھیں ان کے ہاں مقولہ تھا ’’ الحرہ لا تا کل من ثریھا ‘‘ ( آزاد عورت اپنے پستانوں کے ذریعے نہیں کماتی ) نبی اکرم کا گھرانہ ۔ ۳۷۵
امام سہلی بھی کہتے ہیں کہ عرب میں دودھ پلانا اور اس کی اجرت لینا شریفانہ کام خیال نہیں کیا جاتا تھا اس بناء پر عرب میں مثل ہے ’’ الحرۃ لا تاکل ثریھا ‘‘ اس بناء پر امام سہلی نے اس کی یہ توجیح کی ہے کہ اس سال قحط پڑا تھا اور مجبوراََ حضرت حلیمہ ؓ اور ان کے قبیلہ میں یہ خدمت گوار ا کی تھی ۔
جواب:’’ واٹ ‘‘کا اس فعل کو مجبوری سے تعبیر کرنے کا اشارہ غربت کی طرف ہے یعنی یہ مستشرق ثابت کرنا چاہتا ہے کہ غربت کی مجبوری آڑے تھی جس وجہ سے عرب اپنے بچوں کو مرضعات کے سپرد کرتے تھے عقل پر جھاڑو پھر جائے تو کچھ سجھائی نہیں دیتا اسے یہ خبر نہیں کہ خواہ بچہ غریب خاندان ہی کاکیوں نہ ہو اور اس کی ماں زندہ ہو وہ کبھی اور کسی صورت میں بھی یا بوجہ غربت وغیرہ رضاعی ماں کے سپرد نہیں کرتی وہ اپنے لعل کو اپنے سینے سے لگا کر بلائیں لیتی ہے اسے پال پوس کر اپنی ذمہ داری نبھاتی ہے ۔ اگر غربت کے سبب بچے کو دایہ کے سپرد کیا جائے تو دایہ کو دودھ پلائی کی بھی اجرت ادا کرنا پڑتی ہے جس سے غریب خاندان کی غربت بجائے کم ہونے کے رضاعت کے اضافی خرچہ سے بڑھتی ہے نہ جانے واٹ کو اس عہد کی روایات سے خوف اور چڑ کیوں ہے ؟ اور آپ کے متعلق یہ رائے قائم کرنا سرے سے غلط ہے کیونکہ آپ ﷺ کی امارت بدیہی ثبوت ہے نیز اس دور کے رسم ورواج کے مطابق دیگر امراء کے بچوں کی طرح آپ کو بھی دیہاتی مرضعہ کے حوالے کیا گیا ۔ واٹ کہیںایسا تو نہیں سمجھ بیٹھا کہ مرضعہ کے سپرد کرنے سے اس خاندان کی غربت ختم ہو سکے گی کیونکہ دایہ نہ صرف بچے کی رضاعت کا بوجھ اٹھائے گی بلکہ بچے کے خاندان کی مالی اعانت کر کے ان کی مفلوک الحالی دور کرے گی عقل کے اندھو! وہ مرضعہ تو رضاعت پر اجرت لیتی ہے ‘ انعام و اکرام وصول کرتی ہے اسے کیا پڑی کہ بجائے لینے کی دینے پڑ جائیں ‘ پر عمل کرے قبل از اسلام کہیں کوئی اس فعل کو نا پسند کرتا ہو تو اس کی بلا سے لیکن دین اسلام نے رضاعت کے عمل کی اجازت دے کر اس نظریہ کو ہمیشہ کے لیے خاک بوس کر دیا ۔ عربوں کے نزدیک یہ فعل نا پسندیدہ ہوتا تو کبھی دیہاتی عورتیں ہر سال مکہ مکرمہ نہ آتیں اور نہ ہی عرب اپنے بچوں کو مرضعات کے حوالے کرتے بلکہ یہاں تو معاملہ بھی الٹ ہے کہ عرب تو انہیں اجرت کے علاوہ انعام و اکرام بھی دیتے تھے اب آپ خود فیصلہ کرلیں ۔
آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
۲ : اوپر کی عبارت میں مختلف قبائل کی خواتین خاص خاص موسموں میں مکہ آیا کرتی تھیں اور امام سہیلیؒ کہتے ہیں کہ اس سال قحط پڑا جس کی مجبوری تھی اور قبیلہ کی عورتوںنے یہ خدمت گوارا کر لی یہ بیان ایک دوسرے کی ضد ہیں نیز تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ مکہ میں ہر سال صحرائی عورتیں رضاعت کے لیے آیا کرتی تھیں ۔ مولانا شبلی فرماتے ہیں کہ ہمارا خیال ہے کہ اس کام کو معیوب سمجھنا عرب کا عام خیال نہ تھا بلکہ یہ خیال اہل شہر کے امرا کے ساتھ مخصوص تھا ۔ جیسے لونڈیوں سے دودھ پلانے کو نا پسند خیال کیا جاتا تھا اسی طرح امرا بھی دودھ پلائی کو عیب سمجھتے ہوں اور یہ مقولہ ان کے غرور و تکبر کا آئینہ دار ہو اور عہد جاہلیت کی باقیات میں سے ہو جس کو اسلام نے رد کر دیا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرف مکرر کی طرح مٹا دیا ۔ ارشاد ربانی ہے ’’ و ان ار دتم ان تستر ضعوااولاد کم فلاح جناح علیکم ازا سلمتم ما اتیتم بالمعروف ‘‘(البقرہ۲۳۳،پارہ۲) ترجمہ : اگر تم چاہو کہ دودھ پلواو ( دایہ سے ) اپنی اولاد کو پھر کوئی گناہ نہیں تم پر جبکہ تم ادا کرو جو دینا ٹھہرایا تھا تم نے مناسب طریقہ سے ۔ ‘‘
جہاں تک مقررہ اجرت پر دودھ پلانے کو عار سمجھا جاتا تھا جس کا رد قرآن پاک نے کردیا اور اس کی وضاحت بھی قرآن کریم کی مذکور آیت میں ہے ۔ ’’ جب کہ تم ادا کرو جو دینا ٹھہرایا تھا تم نے مناسب طریقے سے ۔‘‘ دودھ پلائی کو عار سمجھنے کا نظریہ پیوند خاک ہو گیا ۔ زمانہ جاہلیت میں اگر عورتیں اجرت کی بجائے عطیات اور انعامات وصول کرتی تھیں اور مقرر ہ و متعین اجرت نہیں لیتی تھیں تو قابل غور بات یہ ہے کہ ایک تو قرآن کریم کی آیت کے خلاف ہے دوسرا یہ کہ اگر مرضعات بچوں کو دودھ پلائی کے لیے نہ لے جاتیں تو کیا بچوں کے والدین انہیں انعام واکرام سے نوازتے ؟ ہرگز نہیں ! مذکور عبارت سے ثابت ہے کہ خواتین ۔۔ متمول لوگوں کے بچوں کو لے جاتیں اور ان کو دودھ پلاتیں اور جب مدت رضاعت ختم ہوتی تو ان کے والدین کے ہاں لے آتیںوہ انہیں گراں قدر انعامات دے کر شاد کام کرتے گویا رضاعت کے بدلے میں انعامات ملتے تھے ۔ وہ انہی انعامات کی خاطر بچوں کی رضاعت کا بیڑا اٹھاتی تھیں گویا یہ انعامات بھی اجرت کی ایک شکل ہیں ۔ مثلاََ کوئی حکومت کسی کو ٹیکس وصول کرنے پر لگا دے اور ٹیکس وصولی کے افسر کو ٹیکس کے ساتھ لوگ تحفے بھی دیں تو یہ تحائف اس افسر کے نہیں ہیں بلکہ وہ بھی حکومت کی ملکیت ہیں ٹیکس افسر کو مقرر کرنے کے بغیر ملتے تو تحائف جائز تھے اور اس کے وہ اپنے تھے لیکن یہ تو ٹیکس کی وصولی کی صورت میں مل رہے ہیں جو کہ جائز نہیں اسی طرح انعامات دودھ پلائی کے بغیر ملتے تو اجرت نہ کہتے جبکہ یہ دودھ پلائی کا معاوضہ ہے البتہ اگر اجرت کے ساتھ تحفے تحائف اور انعامات والدین دے دیتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ انہوں نے اجرت بھی دی اور اس کے علاوہ اپنے لخت جگر کی خوشی میں تحفے بھی دئیے ، چاہیے تو یہ تھا کہ وہ خواتین گراں قدر عطیات بھی قبول نہ کرتیں اور بچوں کو خوشی خوشی اور برضاورغبت بغیر اجرت کے دودھ پلاتیں جبکہ ایسا نہیں ہے لہٰذا رضاعت کے بدلے میں عطیات ہاتھ لگے تو عطیات بدلہ ہیں رضاعت کی اجرت کا اس طرح سے عطیات اور اجرت لینے میں کیا فرق رہ جاتا ہے ۔ ؟اگر اجرت کے علاوہ والدین بخوشی اپنے لاڈلے کی خاطر تحائف دے دیتے ہیں تو یہ احسن اقدام ہے۔
اعتراض نمبر۵۰
بعض علماء کا کہنا ہے کہ دنیا کی کسی تاریخ میں یہ نہیں لکھا ہو ا ہے کہ کسی نبی کو اس کی ماں کے علاوہ دودھ کسی اور نے پلایا ہو ۔ حضرت نوحؑ سے عیسیٰؑ تک کے حالات دیکھ لیں تو ایک مثال بھی ایسی نہیں ملے گی جس سے آنحضرت ﷺ کو حلیمہ سعدیہؓ کے دودھ پلانے کی تائید کے طور پر پیش کیا جا سکے اور ایسا نظر آتا ہے کہ جیسے مشیت ایزدی کو اس امر پر اصرار تھا کہ وہ نبی کو اس کی ماں ہی کا دودھ پلائے ۔۔ حضرت موسیٰؑ کو نہایت کٹھن حالات میں بھی اپنی ماں کا دودھ پلایا گیا تو سابق انبیاء کے طریقے سے ہٹ کر آنحضرت ﷺ کو ان کی اپنی ماں کے علاوہ دوسری مائوں کا دودھ پلوایا گیا ‘ یہ کیونکر تسلیم کیا جائے؟ خصوصاََ اس صورت میں کہ مفردات امام راغب میں یہ روایت موجود ہے کہ دودھ پینے سے وہ رشتہ ناجائز ہو جاتا ہے جو نسب سے جائز ہوتا ہے ایسی صورت میں جبکہ ماں موجود تھی ‘ صحت مند تھی اور رضاعت کے بعد تک زندہ رہیں تو یہی بات حقیقت کے قریب ہے کہ حضرت آمنہ ؓنے دودھ پلایا اور ثویبہ و حلیمہؓ نے آنحضرت ﷺ کی پرورش کی ‘ اس نقطہ نظر کے حامی علماء اپنے موقف کی تائید میں بیسویں پارے کے چوتھے رکوع کی یہ آیت پیش کرتے ہیں ۔
وَ حَرَّ مْنَا عَلَیْہِ الْمَرَ ا ضِعِ مِنْ قَبْلِ فَقَالَتْ ھَلْ اَدُ لُّکُمْ عَلٰی اَھْلِ بَیْتِ یَکْفُلُوْ نَہٗ لَکُمْ وَ ھُمْ لَہٗ نٰصِحُوْنَ o(القصص۱۲پارہ۲۰ )
جب قرآن پاک سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑکو ان کی اپنی ماں کے علاوہ کسی کے بھی دودھ پلانے سے بچانے کا اتنا اہتمام کیا تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس ہستی کا موسیٰؑ بھی رشک کریں انہیں بعض ایسی عورتیں مثلا ثویبہ دودھ پلائیں جن کا اسلام بھی واضح نہیں ‘‘ ۔ ( نبی اکرم کا گھرانہ ۔ ۳۸۵۔ ۳۸۴)
جواب : یہ ضروری نہیں کہ ایک پیغمبر کے لیے اتنا اہتمام ہو کہ غیر عورت سے دودھ نہ پلوایا جائے اور یہ سب پیغمبروں کے لیے قانون بن جائے ۔ اس کا انحصار مشیت ایزدی اور قدرت کی کاری گری پر ہے مثلا حضرت آدم ؑ کو بن ماں باپ پیدا فرمایا ‘ حضرت عیسیٰؑ کوبن باپ کے پیدا فرمایا اور باقی مخلوق کو مرد و زن کے جوڑے سے پیدا فرمایا تو یہ کہا جائے کہ آدم ؑبن ماں باپ اور عیسٰیؑ بن باپ کے پیدا ہوئے تو دوسرے پیغمبروں کے لیے ایسا اہتمام کیو ں نہ کیا گیا ؟ نہیں نہیں ‘ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہتا ہے کرتا ہے وہ ان اللہ علی کل شی قدیر ہے ۔ علماء کرام اور عام آدمی بھی اس بات سے باخبر ہے کہ آگ کا کام جلانا ہے اور جو شے اس کی زد میں آ جائے جلا کے راکھ کر ڈالتی ہے اس کا کام ٹھنڈک پہنچانا یا گلزار ہو جانا نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے لیے نار گلزار بن گئی ۔ ارشاد ربانی ہے ’’ قُلْنَا یَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْد اًوَّ سَلَاْمٌ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ ‘‘۔ جب آتش نمرود پیغمبر پر گلزار بن گئی ٹھنڈ ک اور سلامتی والی بن گئی ۔ اس سے ثابت ہوا کہ خالق حقیقی جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے یہ مالک حقیقی کی مرضی و منشاء ہے کہ وہ اپنے پیغمبر حضرت موسیٰؑ کو اپنی والدہ سے دودھ پلوائے اور اپنے حبیب ﷺ کو اپنی والدہ کے علاوہ دوسری عورتوں کا دودھ پلوائے ۔
( ۲) دودھ پینے سے وہ رشتہ ناجائز ہو جاتا ہے جو نسب سے جائز ہوتا ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حرمت کی تین قسمیں ہیں اول حرمت نسب دوم حرمت رضاعت سوم حرمت مصاہرت ۔ اول حرمت نسب میں جن عورتوں سے نکاح حرام ہے وہ یہ ہیں
(۱) ماں ( اس میں دادی ‘ نانی اور اس کے اوپر کے سب شامل ہیں ) (۲) بیٹی : ( اس کی پوتی ‘ نواسی اور اس کے نیچے تک سب داخل ہیں )
(۳) : بہن ( سگی دو بہنیں یاسوتیلی ) (۴) : پھوپھی (۵) خالہ (۶) بھتیجی (۷) بھانجی وغیرہ ۔
دوم : حرمت رضاعت جو رضاعت کے سبب رشتے حرام ہیں وہ سارے رشتے رضاعت سے حرام ہیں جو نسب سے حرام ہیں ۔ ارشاد نبوی ہے ’’یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب ‘‘
سوم : حرمت مصاہرت : حرمت مصاہرت سے بعض رشتے ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتے ہیں اور بعض وہ ہیں جن کے ساتھ اس وقت تک نکاح حرام ہے جب تک بیوی نکاح میں ہے۔
پہلی قسم : بیوی کی ماں یعنی ساس دو م اس بیوی کی بیٹی ( بیوی جس سے صحبت ہو چکی ہو ) اگر صحبت سے پہلے بیوی کو طلاق دے دے تو اس کی بیٹی سے نکاح جائز ہے اور بیٹوں کی بیویاں ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہیں ۔ یہی حکم نواسوں اور پوتو ں کی بیویوں کا ہے ۔
دوسری قسم : بیوی کی بہن یعنی دو بہنوں کو اکٹھا کرنا حرام ہے ارشاد ربانی ہے ’’ وَاِنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَف ‘‘(النسا۲۳،پارہ۴) ( اور دو بہنوں کو جمع کرنا حرام ہے مگر جو گزر چکا سو وہ معاف ہے )۔ پھوپھی خالہ اور بھتیجی بھانجی میں ( جب تک بیوی نکاح میں ہے اس وقت تک ان سے نکاح درست نہیں بصورت دیگر درست ہے متبنیٰ کی بیوی سے نکاح کرنا درست ہے کیونکہ وہ ہماری پشت سے نہیں ارشاد ربانی ہے ’’ و حلائل ابنا ئِ لکم الذین من اصلابکم ‘‘ اب سوال یہ ہے کہ حرمت مصاہرت سے کچھ رشتے حرام ہو جاتے ہیں ( کچھ وقتی طور پر اور کچھ ہمیشہ کے لیے ) ان رشتوں کی حرمت سے بچنے کے لیے کیا مصاہرت کو ترک کر دیا جائے جب کہ یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے یعنی چند رشتوں کی حرمت کی بناء پر مصاہرت قائم کرنے کو ترک نہیں کیا جا سکتا اسی طرح رضاعت کی بنیاد پر حرام ہو نے والے رشتوں کی آڑ میں رضاعت کو ناجائز سمجھنا دین اسلام کے خلاف ہے اور فرمان خدا وندی کی خلاف ورزی ہے ۔ ارشاد ربانی ہے ۔ ’’ وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْ ضِعُوْا اَوْلَادَ کُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَا اٰ تَیْتُمْ بِا لْمَعْرُوْفِ‘‘۔(البقرہ۲۳۳،پارہ۲)(۱۴) اور اگر تم چاہو کہ دودھ پلوائو اپنی اولاد کو پھر کوئی گناہ نہیں تم پر جب تم ادا کرو جو دینا ٹھہرایا تھا تم نے معروف طریقے سے۔ ‘‘
تحریم کی وضاحت : ارشاد ربانی ہے یا یھا النبی لم تحرم ما احل لک ’’ ترجمہ : اے نبی تم اپنے لیے کیوں ممنوع قرار دیتے ہواس چیز کو جو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے حلال کی ہے ۔‘‘ آپ نے ایک ماہ کے لیے ایلا فرمایا اور اپنے آپ کو ایک ماہ کے لیے اپنی بیویوں کے پاس جا نے سے روک لیا تھا اس امتناع کو تحریم کہا گیا ہے ۔ خود حضرت عائشہ ؓبیان فرماتی ہیں ’’ الی رسول اللہ ﷺ و حرم فا مر فی الایلاء بکفا رۃ وقیل لہ فی التحر یم لم تحرم ‘‘ (ترجمہ) رسول اللہ نے ایلا کیا تھا اور تحریم کی تھی تو ایلا کے بارے میں آپ کو کفارے کے لیے کہا گیا اور تحریم کے سلسلے میں کہا گیا ’’ لم تحرم ‘‘ اسی طرح قرآن کریم میں حضرت موسیٰ ؑکی رضاعت کے لیے تحریم کا لفظ استعمال ہوا ہے ’’ و حرمنا علیہ المر اضع‘‘ اور حرام کردی ہم نے موسیٰؑ پر دودھ پلانے والیاں ) یہاں حرمنا کا یہ مطلب نہیں کہ ہم نے موسیٰؑ کے لیے دودھ پلانے والیوں کا دودھ شر عی طور پر حرام کر دیا تھا بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کی والدہ کے آنے تک باقی عورتوں کا دودھ پینے سے حضرت موسیٰؑ کو روک دیا تھا ۔ ایلا میں بھی یہی صورت تھی اور اسی صورت امتناع کو تحریم سے تعبیر کیا گیا ۔ تحریم کا مطلب واضح ہونے کے بعد اب اعتراض کرنے والوں کے اعتراض جس کا القصص کی آیت نمبر۱۲ سے استدلال کیا ہے ’ کو لیتے ہیں آیت کا ترجمہ یہ ہے ’’ اور ہم نے پہلے ہی سب دائیاں اس پر حرام کر دی تھیں تو بولی کیا میں تمہیں بتا دوں ایسے گھر والے کہ تمھارے اس بچہ کو پال دیں اور وہ اس کے خیر خواہ ہیں ۔‘‘ اس آیت میں اس اعتراض کا جواب مضمر ہے کہ حضرت موسیٰ ؑکی والدہ کی آمد تک سب دائیوں سے دودھ پینے کو روک دیا تھا اور وہ کوئی شرعی عذرنہیں تھا اور یہ حکم نہیں ہے کہ سب پیغمبروں کے لیے دوسری دودھ پلانے والیوں کے دودھ کو حرام کردیا جائے اور جب یہ حکم حضرت موسیٰؑ کے لیے ہے تو باقی پیغمبروں پر اس کا اطلاق درست نہیں ۔ ہاں اگر کوئی یہ کہہ دے کہ جس طرح حضرت موسیٰ ؑ کو دوسری عورتوں کے دودھ پلانے سے روک دیا تھا تو آپ کے لیے ایسا کیوں نہ کیا گیا ؟ اس کاجواب معترضین کی خدمت میں یہ ہے کہ ایک تو خاص حکم کو عام بنانا زیادتی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات میں تضاد نہیں ہے ۔ لیکن اس آیت مبارکہ کو جو معترضین بطور دعویٰ پیش کر رہے ہیں ‘ قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ کے متضاد ہے ۔ ’’ وَاِن تَستر ضعوا اولاد کُم فلا جناح علیکم اَذاسعمتم ما اتیتم بالمعروف‘‘ (البقرہ۲۳۳،پارہ۲) ’’ اور اگر تم چاہو کہ دودھ پلوائو (دایہ سے) اپنا اولاد کو پھر کوئی گناہ نہیں تم پر جبکہ تم ادا کردو جو دینا ٹھہرایا تھا تم نے مناسب طریقے سے ‘‘ ۔ اس سے بدیہی ثابت ہوا کہ رضاعت جائز ہے نیز آیات میں تضاد باقی نہ رہا ۔
تیسری بات یہ ہے کہ ارشاد خدا وندی ہے ہے وما اتکم۔۔۔(۱۵)اس آیت کی روشنی میں کہ اور رسول جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں رک جائو ۔ اس کے ساتھ ملاکر یہ حدیث پڑھیے ’’ میں تم میں سب سے زیادہ صحیح بولنے والا ہوں ‘ میں قریشی ہوں اور قبیلہ بنو سعد بن بکر میں ‘ میں نے دودھ پیا ہے ‘‘ ۔ نبی مکرم ﷺنے فرمایا کہ میں نے بنو سعد میں دودھ پیا ہے ۔ اس کو مان لینا چاہیے اسے تسلیم کرنا چاہیے اگر ایسا نہیں کرتے تو اس فرمان نبوی اور مذکور آیت مبارکہ کا خلاف ہوتا ہے ۔ آیت مبارکہ اور حدیث پاک میں تضاد نہیں ہے ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ رضاعت جائز ہے ۔
نکتہ: : حضرت موسی ؑ کو تما م دائیوں کے دودھ پینے سے روک دیا تھا ۔ یہ صرف آپ کی والدہ کی آمد تک روکا گیا تھا اور نہ ہی یہ کوئی شرعی عذر تھا بلکہ والدہ موسیٰ ؑکے ساتھ کیے گئے وعدہ کی تکمیل تھی کہ بچہ اسے واپس لٹا دیا جائے گا ۔ قدرت خداکی دیکھئے کہ دوبارہ بچہ اس کی اپنی ماں کی گود میں دے دیا گیا ۔ یہ قدرت کی معجز نمائیاں ہیں ۔
المختصر رضاعت پر اٹھائے گئے اعتراضات بے بنیاد ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اور ان اعتراضات کی کوئی وقعت نہیں ہے ۔
اعتراض نمبر۵۱
۱۔ خانہ بدوش رضاعی والدہ کے ساتھ زندگی نہایت سادہ ہوتی تھی قبیلہ مختلف موسم مختلف مقامات پر گزارتا تھا ( پیغمبر اسلام ۔ ۵۲)
۲۔حلیمہ سعدؓیہ کا قبیلہ خانہ بدوش تھا جو سال کے مختلف حصوں میں مختلف مقام پر خیمہ زنی کرتا تھا۔ ( ڈاکٹر محمد حمید اللہ )
۳۔ باڈلے اس موقع پر یوں لکھتا ہے۔کہ ’’رسول اللہﷺ بنو سعد کی چراگاہوں کی طرف لے جائے گئے اوراوائل عمر میں ہی صحرا نورد ہو گئے ‘ ‘ پانچ سال تک ان ہی بدووں کے سیاہ خیمے میں رہے ‘ آپ ﷺ صحرا نشینوں کے ساتھ سر سبز وشاداب چراگاہوں کی تلاش میں دن رات گھومتے تھے اس عرصہ میں شاید ہی چند روز سے زیادہ آپ نے کہیں قیام کیا ہو ۔ آندھی بگولے اور جھلستی ہوا میں آپ اپنے چہرہ کو ایک کپڑے سے ڈھانپ لیتے‘‘ ۔ (۱۶)
جواب: رحیم دہلوی لکھتے ہیں ’’ حضرت حلیمہ سعدیہ ؓکے خانہ بدوش ہونے کی بات غلط ہے کیونکہ مکہ کے سردار اور روساء اپنے بچوں کو موسم کی سختیاں جھیلنے کے لیے خانہ بدوشوں کے حوالے تو نہیں کرتے ہوں گے جن کا کسی ایک جگہ ٹھکانہ ہی نہ ہو ۔ دراصل حضرت حلیمہ سعدیہؓ کی نگری جس علاقہ میں ہے اسے ضیبات کہتے ہیں اور ان کی خاص بستی کا نام شحط ہے ‘ شحط ایک چھوٹی مگر سرسبزو شاداب بستی ہے جو بہت خوبصورت ‘ سادہ اور پر کشش ہے ‘ ابھی تک یہا ں اس قبیلے کے لوگ رہتے ہیں ‘ یہ سارا قبیلہ بنی سعد کہلاتا ہے ‘‘ رحیم دہلوی پروفیسر فلپ ہٹی کی کتاب ’’ تاریخ عرب‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’ اس میں کہیں کہیں نخلستان بھی ہیں‘ یہاں بعض اوقات سردیوں میں اس قدر مینہ برستا ہے کہ زمین پر سبزے کی چادر بچھ جاتی ہے ۔‘ اور بدوئوں کے اونٹوں ‘بھیڑ ‘ بکریوں کو حقیقت کا مزہ آجاتا ہے ‘ ‘۔
باڈلے اور ڈاکٹر محمد حمیداللہ کا یہ کہنا ہے ’’ حضرت حلیمہ سعدؓیہ کا خاندان خانہ بدوش تھا اور حضور ان کے ساتھ پھرتے رہے‘‘ ۔ ان حضرات کی تصوراتی کہانی سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا ۔ ( سیرت النبی اعلان نبوت سے پہلے ۔۱۷۹۔۱۸۰۔۱۸۱)
مستشرقین کی دشمنی تو پرانی ہے وہ ایسی کہانیاں گھڑتے رہتے ہیں ۔ بعض دفعہ اپنے ( مسلمان ) بھی ایسی باتیں لکھ دیتے ہیں جو بے سروپا ہوتی ہیں ’ گویا
وہ جن میں پھول ہونا چاہیے تھا
انہیں ہاتھوں میں پتھر آگیا ہے
شاید ڈاکٹر صاحب کی یہی تحقیق ہو جس کا مذکورہ اعتراض میں ذکر کیا گیا ہے اور یہ ممکن ہے کہ ان کو سہو ہوا ہو ۔( واللہ ا علم)
برکات کا نزول : عرب اپنے بچوں کو خانہ بدوشوں کے ہاں ایک جگہ سے دوسری جگہ ڈیرے لگانے کے لیے نہیں بھیجا کرتے تھے بلکہ وہ تو اپنے بچوں کو ماہر لسان ، فصیح دیکھنا چاہتے تھے اس کی تصدیق ماخذ کرتے ہیں ۔ حضرت حلیمہ سعدیہ ؓنے نومولود بچے کو گود میں لیا ۔ برکات کا نزول شروع ہوگیاہے ۔ خود سعدیہؓ کے دودھ میں اضافہ ہوا جوایک اس کے بچہ کو نا کافی تھا اور رو رو کر رات آنکھوں میں کاٹتا تھا ۔ جانوروں کے دودھ میں زیادتی ہو ئی ‘ رزق میں کمی نہ رہی ‘ اونٹ بکریوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی ۔ ہر چیز میں برکتیں آ گئیںہوںحتی کہ ان کی ساتھی عورتوں نے ’’ ( حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا) تمہیں بہت مبارک بچہ ملا ہے ‘ کہنا شروع کردیا ۔سعدیہؓ اپنے قبیلہ میں رفیع الشان ہو گئیں ۔ حلیمہ سعدیہ ؓسید لولاک کی حیثیت کو جان گئیں کہ وہ کو ئی معمولی بچہ نہیں ہے ۔
حضرت حلیمہ ؓ کی لوری: حضرت حلیمہ سعدیہؓ ننھے لاڈلے ‘ پیارے ‘ من موہنے سوہنے کو لوریاں دیتیںوہ لوری جو سنا کر دل بہلایا اور کھیلا یا کرتی تھیں اس کا مفہوم یہ ہے ۔
اے میرے رب جب تو نے محمدﷺ کو ہمیں دیا ہے تو آ پﷺ کوباقی رکھ یعنی زندگی دے اور عمر کو پہنچا اور آپ کے مراتب اعلیٰ کر اور آپ ﷺ کے دشمن جو باطل باتیں اور باطل خیال کریں ‘ ان کو مٹادے ۔
آپ کی رضاعی بہن: حضرت شیماؓکا اصل نام حذافہؓ تھا اور شیماؓ کے نام سے مشہور تھیں ۔ وہ حلیمہ سعدیہ کی بڑی بیٹی تھیں ۔ جب سے حلیمہ سعدیہ ؓہادی عالم ﷺکو اپنے گھر لے گئیں تب سے اللہ تعالیٰ نے نعمتوں اور برکتوں سے آ پ کے گھر کو بھر دیا ۔ پرورش میں حلیمہؓ کی بڑی بیٹی شیمابھی برابر کی شریک تھی وہ انہیں کھلایا اور کھیلایا کر تی تھیں ۔ اور لوریاں دیا کرتی تھیں ۔ اس لوری کا ذکر مسعود مفتی ‘ منصور احمد بٹ محمد بن المجل الازدی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس لوری کا ذکر کتاب الترقیص میں کیا گیاہے ۔ ترجمہ یہ ہے ’’ ہمارے پروردگا ! ہمارے بھائی محمد ﷺ کو تو سلامت رکھ ‘ یہاں تک کہ ہم ان کو جوان اور بالغ دیکھ لیں ‘ اور پھر ان کو سید وسردار قوم پائیں ‘ ان کے ساتھ دشمنی و حسد رکھنے والوں کو ذلیل کر ‘ اور ان کو ایسی عزت دے جو ابد الآباد تک قائم رہے لیکن اس لوری پر ڈاکٹر حمید اللہ کو اعتراض ہے ۔ (سیرت النبی اعلان نبوت سے پہلے ۔ ۲۱۸)
اعتراض نمبر۵۲
وہ کہتا ہے کہ اس لوری کے مندرجات عام بچوں پر صادق نہیں ہوتے ،خاص محمد ﷺ سے مخصوص معلوم ہوتے ہیں اور ایک جاہل بدوی نو عمر لڑکی سے ایسی توقع نہیں کی جا سکتی ‘ وہ اپنے گھر میں مروجہ لوریاں ہی سنا سکتی تھی ۔
جواب : ڈاکٹر صاحب کی یہ تاویل کہ لوری آنحضرتﷺ سے مخصوص لگتی ہے درست نہیں حالانکہ وہ کیوں بھول گئے کہ ہر بہن کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بھائی پلے بڑھے اور جوان ہو کر اپنی جوانی کی بہاریں دیکھے اور دشمنوں کے حسد سے بچا رہے اور بڑا آدمی بنے وغیرہ۔ اور یہ بھی ڈاکٹر صاحب کا کہنا درست نہیں ہے کہ ایک جاہل بدوی نو عمر لڑکی سے گھر کی مروجہ لوریوںکے علاوہ توقع نہیں کی جا سکتی ۔جواباََ عرض ہے کہ نہ تو یہ بچہ معمولی تھا اور نہ ہی بچے کی پرورش اور خدمت کرنے والے عام لوگ تھے ۔ جنہیں ڈاکٹر صاحب جاہل بدوی قرار دے دیتا ہے کیونکہ دوسری طرف ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ بنو ہوازن شاہد عالم کے ساتھ بنو قیس عیلان ‘ مضر میں جمع ہوتا ہے در اصل الیاس مضر کے بیٹے ہیں اور الیاس کے ایک بیٹے قیس عیلان تک حضرت حلیمہ سعدؓیہ کا شجرہ جا ملتا ہے لہٰذا اس شجرہ سے نسبت ایک بیش بہا اعزاز و اکرام ہے ۔(سیرت النبی اعلان نبوت سے پہلے ۔۱۷۸)بنو سعد قبیلہ زبان کی فصاحت اور بلاغت میں یکتا تھا اس لحاظ سے شیماؓ کی لوری مروجہ لوریوں سے ہٹ کر بھی ہو تب بھی یہ ممکن ہے کہ بچے سے متعلق ایسی ہی لوری ہونا چاہیے تھی ۔
حضرت شیما ؓحضور ﷺ کو لوریاں دیتے ہوئے یہ بھی کہا کرتی تھیں ’’ میرے اس بھائی کو میری ماں نے نہیں جنا ‘ اور نہ ہی میرے باپ اور چچا کے نسب سے ہیں ‘ اے اللہ ! انہیں نیند آجائے جو میری نیند ہے ‘‘ یہ حضرت شیما ؓکی انتہائے محبت ہے کہ وہ کہتی ہیں وہ میری نیند لے لے اور سو جائے اور سکھ کی نیند سے شاد کام ہو ۔ ہر بہن کا خواب اور ارمان ہوتا ہے کہ اس کا بھائی جوانی کا سکھ دیکھیں ‘ عمر دراز ہو ‘ بڑی عزت والا ہو ‘ قوم کا سردار ہو اور دشمنوں کے شراور مفسدوں کے حسد سے بچا رہے بلکہ اس کے دشمن ذلیل و خوار ہوں لوری کا یہی مفہوم ہے تو اس میں ایسی کوئی بات نہیں جس پر اعتراض کیا جائے کہ ایک جاہل بدوی لڑکی سے ایسی لوری کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ ابو عروہ الازدی جب یہ لوری پڑھتے تو کہتے ’’ اللہ تعالی ٰنے حضرت شیماؓ کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازا ‘‘ ۔ وہ شیما ؓجس کے دہن مبارک سے نکلے دعا ئیہ کلمات کواللہ تعالیٰ ٰنے قبولیت کا شرف بخشا ،ان پر ایسا اعتراض لگانا درست نہیں۔ حلیمہ سعدیہؓ کی لوری کا مفہوم بھی تقریبا اس لوری کا سا ہے تو ڈاکٹر صاحب نے حلیمہ سعدیہؓ کی لوری پر الزام نہ دھرا کیوں ؟ کھلانے کھیلانے اور دیگر خدمات کے صلے میں حضور ﷺنے وہ عزت و رتبہ عطا کیا جس پر دل سے قربان ہونے کو جی چاہتا ہے ۔ واہ رے! حضرت شیما ؓتیرے مقدر کے صدقے کہ تجھے آنحضرت ﷺ نے ’’ماں ‘‘کہہ کر فرمایا کیونکہ حضرت شیما ؓنے آپ کو گود میں لیا تھا‘‘ ( حولہ بالا ۔۲۱۹) اور یہ بھی اعزاز بخشا کہ غزوہ حنین میں قیدی بن کر آئی تو آپ اپنی رضاعی بہن کے لیے کھڑے ہو گئے ‘ ان کے لیے چادر مبارک بچھا دی اور نہایت توقیر و عزت سے انہیں چادر پر بٹھایا نیز اس غزوہ حنین میں چھ ہزار قیدی بھی رہا کردیئے اور مال بھی واپس کر دیا جس کی قیمت پچاس کروڑ درہم تھی ۔آج کے دور میں بہن بھائیوں بلکہ والدین اور اولاد کی محبتیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں ، اللہ تعالیٰ اپنے نبی مکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہو کر تعظیم کرنے کی توفیق دے اور اپنے ہر رشتہ سے پیار و محبت رکھیں ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...