Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

رضاعی مائوں پر ایک بحث
ARI Id

1689956726155_56117723

Access

Open/Free Access

Pages

۱۹۶

رضاعی مائوں پر ایک بحث
حضرت برکہ ( ام ایمن) علامہ جلال الدین سیوطی الخصائص الصغری میں ام ایمن کے متعلق لکھتے ہیںکہ انہوں نے حضور کو دودھ پلا یا۔ ( ۲) میاں محمد صدیقی نے سیرت حلبیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ دودھ پلانے والیوں میں ام ایمن کا نام بھی لیا جاتا ہے ۔ (۳) عبدالمصطفی محمد اشرف نے لکھا کہ عبد الحق محدث دہلوی ‘ شبلی نعمانی اور قاضی محمد سلیمان منصور پوری کی کتب اس بارے میں خاموش ہیں آخر میں عجیب بات لکھی ہے کہ بہرحال ہم نے ام ایمن کا نام لکھ دیا ہے کہ اگر وہ واقعی اس شرف کی حامل ہے تو ہم کسی کا حق کیوں ماریں ؟ مخالف آراء اور تحقیق سیرت نگاری کے حوالے سے اہل ایمان کو قلم نہایت محتاط طریقے سے استعمال کرنا چاہیے کیونکہ ذرا سی بے احتیاطی کیا سے کیا کچھ بنا دیتی ہے نیز ایک شخص کی بے احتیاطی ایک راستہ فراہم کرتی ہے اور دیگر حضرات بغیر سوچے سمجھے اور تحقیق و تفتیش کیے بغیر اچک لیتے ہیں اور بغیر کسی سند اور معتبر حوالہ کے لکھتے اور بیان کیے جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اوپر میاں محمد صدیقی نے سیرت حلبیہ کے حوالے سے لکھا کہ دودھ پلانے والیوں میں ام ایمن کا نام بھی لیا جاتا ہے جبکہ حلبی نے تردید والی بات کی ہے جسے میاں صدیقی گول کر گئے ہیں ۔
عمر رضا کہالہ مشہور ماہر انساب نے مستدرک حاکم ‘ الاصابہ ازابن حجر ‘ تہذیب التہذیب از ابن حجر ‘ الاستیعاب از ابن عبدالبر التہذیب ازذہبی اور المجتنبی از ابن جوزی کے حوالہ سے حضرت برکہ بنت ثعلبہ کا ذکر کیا ہے اس ذکر میں انہیں پرورش اور خدمت کرنے والی کہا گیا ہے ۔
عبدالمصطفی محمد اشرف لکھتے ہیں کہ جتنی کتب حدیث اور سیر وتاریخ میری نظروں سے گزری ہیں کسی کتاب میں یہ نہیں ہے کہ ام ایمن نے سید اعظم ﷺکو دودھ پلانے کا شرف حاصل کیا ہو ۔ سید اولاد حیدر فوق بلگرامی اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ ام ایمن آنحضرت ﷺ کی دودھ پلائی تو تھی نہیں لیکن کھلائی ضرور تھی ۔ مفتی مسعود اور منصور احمد ( سیرت النبی اعلان نبوت سے پہلے ۔۱۸۶) لکھتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ برکہ ام ایمن بعد میں بنیں جب حضور ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے یہ لڑکی تھیں جب آپ ﷺ کی عمر چھ سال تھی اور یثرب سے واپسی پر حضرت آمنہؓ راستے میں ابوا ء کے مقام پر وفات پا گئیں تو حضرت برکہ آنحضرت ﷺ کو لے کر مکہ مکرمہ پہنچی اس وقت بھی ام ایمن نہیں تھیں ۔ حضرت خدیجہؓ کی شادی کے موقع پر انہیں آزاد کیا گیا اور ان کانکاح حضرت عبید بن زید سے ہوا ان کے ہاں بچہ ایمن پیدا ہوا اس سے وہ ام ایمن بنیں ۔ ۔۔۔ سیرت نگار جو حضرت برکہ کو نبی کل جہاںﷺ کی رضاعی ماں لکھ رہے ہیں ‘ آپ خود سوچیں کہ جب تک کوئی عورت کسی بچے کی ماں نہ ہووہ اپنے بچے یا کسی اور بچے کو دودھ کیسے پلا سکتی ہے اور سید الصادقین ﷺجس ہستی سے محبت کرتا رہے انہیں ماں کہتا ہے ‘ یہ میری ماں کے بعد میری ماں ہے اس مقدس ہستی کے سلسلے میں اتنی بے احتیاطی سے گفتگو کرنا کسی سیرت نگار کو زیب نہیںدیتا۔ عرب میں ایک رواج تھا کہ عرب خواتین کی جب شادی ہو کر پہلے بچے کی ولادت نہیں ہو جاتی تھی ان کا نام وہی رہتا لیکن بچے کی ولادت کے بعد نام بدل دیا جاتا پھر اکثر ایسا ہوتا کہ تمام عمر پہلے نام کو بھلا دیا جاتا اور پہلے نام کو پکارنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی مثلا پہلے بچے ایمن کی ولادت ہوئی تو ان کے اصل نام برکہ سے ام ایمن ؓہو گئیں اور پھر ساری عمر ام ایمنؓ ہی رہیں ۔
عواتک کا بیان
محمد میاں صدیقی سیرت حلبیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’ عاتکہ نامی تین لڑکیاں بنی سلیم سے تھیں سیرت حلبیہ میں یہ اضافہ کیا گیا ہے کہ وہ تینوں کنواری تھیں ۔
اسدالغابہ میں حضرت سبابہ بن عاصم کے حوالے سے ہے ’’ میں عواتک کا بیٹا ہوں سیرت حلبیہ میں لکھا ہے میں بنی سلیم کی عواتک کا بیٹا ہوں ۔ کیا عجیب بات نہیں کہ ایک ہی قبیلہ کی تین عورتوں نے آنحضرت ﷺ کو دودھ پلایا اور سب کا نام عاتکہ تھا ۔ اگر ایسا تھا تو سیرت کی تمام کتب ان کی رضاعت کے ذکر سے خاموش کیوں ہیں؟ اگر ذکر ہے تو ان میں بھی صرف رضاعت کے حوالے سے یہ فقرہ ملتا ہے ’’ انہوں نے دودھ پلایا ‘‘ ۔ حضرت حلیمہؓ کا ذکر تو ہر کتاب میں ملتا ہے ۔ ثویبہ کا بھی کہیں کہیں تذکرہ ملتا ہے لیکن عاتکہ نامی ان تین خواتین کا ذکر نہیں ملتا ۔ (۲) خود سراپا رحمت ﷺنے اپنی رضاعی مائوں کے ذکر میں انہیں کیوں نہ یاد فرمایا اور اگر عاتکہ نامی تین خواتین جو ایک ہی قبیلہ سے تھیں اور تاجدار مدینہ کو دودھ پلایا تھا تو ان کے قبیلہ کا اس حوالے سے بطور خاص ذکر کیوں نہیں ملتا ؟ (۳) عمر رضا کحالہ کی کتاب ’’ اعلام النسا فی عالم العرب و الاسلام ‘‘ میں عرب کی بارہ عاتکہ نامی خواتین کا ذکر موجود ہے جن کے نام یہ ہیں ۔ ۱۔عاتکہ بنت الحسن بن احمد بن احمد العطار ۔۲۔ عاتکہ بنت زید بن عمرو بن نفیل القریشہ ۔۳۔ عاتکہ بنت شہدہ ۔۴۔ عاتکہ بنت عبدالمطلب ۔ ۵۔ عاتکہ بنت عبدالملک بن الحارث المخزو میہ ۔۶۔ عاتکہ العتوبہ ۔ ۷۔ عاتکہ بنت عمرو بن یزید الاسدی ۔۸۔عاتکہ بنت الفرات بن معاویہ البکائی ۔۹۔ عاتکہ بنت مروان۔۱۰۔ عاتکہ بنت معاویہ بنت ابی سفیان ۔۱۱۔ عاتکہ بنت نعیم بن عبداللہ العدویہ ۔۱۲۔ عاتکہ بنت یزید بن یزید
عمر رضا کحالہ کی کتاب میں بعض عواتک کا ذکر نہیں ملا لیکن دیگر کتب میں عاتکائوں کے نام ملے ہیں ۔۱۔ عاتکہ بنت سعید بن زید ۔۲۔عاتکہ بنت عبداللہ بن نضلہ ۔۳۔ عاتکہ بنت امیہ بن حارث بن اسعد ۔۴۔ عاتکہ بنت عبداللہ بن معاویہ ۔۵۔ عاتکہ بنت عوف ۔۶۔ عاتکہ بنت وہب ۔۷۔ عاتکہ بنت ولید بن مغیرہ ۔۸۔ عاتکہ بنت عامر کنانیہ ۔۹۔ عاتکہ بنت احنف بن القمہ ۔۱۰۔ عاتکہ بنت خالد بن منقزبن ربیعہ ۔ ۱۱۔ عاتکہ بنت عبداللہ بن عنکشہ بن عامر ۔۱۲۔ عاتکہ بنت امیہ بن ابی صلت ثقفی ۔ عمر رضا کحالہ کی ایک دوسری کتاب ’’ معجم قبائل العرب القدیمہ و لحدیسہ ‘‘میں بھی بنو سلیم کی خواتین کا ذکر موجود ہے مگر اس میں بھی رضاعی مائوں کا ذکر کہیں نہیں ملتا (۴) (نقوش جلد نمبر ۲۔۵۹۷) میں قبیلہ بنو سلیم کے متعلق کچھ معلومات ہیں بنو سلیم کے مکہ سے قدیمی اور قریبی تعلقات تھے ۔ رسول اللہ ﷺکے اسلاف کی تیسری سے چھٹی نسل تک آپ کی تین دادیاں جن کا ایک ہی نام عاتکہ تھا اور بنو سلیم سے تعلق رکھتی تھیں : ۔۔ یعنی اس قبیلہ کی تین رضاعی مائوں کا کہیں وجود نہ تھا ۔
السیرت النبویہ دھلان ۔ ۵۰ میں ہے کہ بنی سلیم سے عواتک میں پہلی عاتکہ بنت ہلال ( عبدمناف کی والدہ ) ‘ عاتکہ بن الاوقص ( ہاشم کی والدہ ) عاتکہ ( لوی بن غالب کی والدہ ) اور عاتکہ بنت مرہ بن ہلال ( وہب کی والدہ ) ۔ اب یہ بات تو عیاں ہو گئی کہ در اصل عاتکہ نامی خواتین نبی الامی کی دادیاں تھیں ۔ ۔۔۔ صادق الامین کا فرمان ہے انا ابن العواتک میں عاتکہ نامی خواتین کا بیٹا ہوں ۔۔۔ یہی سرور کون و مکان کے اس فرمان سے جدات مراد ہیں ۔۔ وہ جدات یہ ہیں ۔۱۔آنحضرت ﷺ کے جد امجد عبدمناف کی والدہ جو قصی کی بیوی عاتکہ بنت فالج بن ذکوان ۔۲۔ عبدمناف کی بیوی عاتکہ بنت مرہ بن ہلال بن فالج بن ذکوان بن ثعلبہ بن بثہ بن سلیم بن منصور ۔۳۔ حضرت آمنہ کی دادی عاتکہ بنت الاوقص بن مرہ بن ہلال بن بالح بن ذکوان بن سلیم ۔ یہی وہ تین دادیاں ہیں جن کا ذکر آنحضرت ﷺ کی محولہ بالا حدیث پاک میں ہے ۔ ( سیرت النبی اعلان نبوت سے پہلے ۔ ۱۸۷تا ۱۹۰) اس میں تحقیق نہ کرنے کی بجائے لوگ کہانی گھڑ لیتے ہیں جیسے بنو سلیم کی تین خواتین نے آپ کو دودھ پلا یا کسی نے کنواری لڑکیاں لکھ دیا اور کسی نے اسے معجزہ قرار دینے کی کوشش کی وغیرہ ۔ اللہ تعالیٰ صحیح بولنے ، سمجھنے اور لکھنے کی توفیق بخشے آمین ۔! محض بے تحقیق سابقہ کتب سے ایسی باتیں اچک لیں تو بے انتہا خرابیاں پیدا ہوتی ہیں پھر وہ چلتی رہتی پھر اگر کوئی ان پر تحقیق کر کے اصل واقعہ کو بیان کرے تو اسے نہ صرف مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے بلکہ اس کی تحقیق سے انکار کر دیتے ہیں ۔
ام فروہ۔ میاں محمد صدیقی نے اپنی کتاب میں لکھا ’’تین لڑکیاں قبیلہ بنی سلیم کی تھیں جن میں سے ایک کا نام عاتکہ تھا ‘ ایک خاتون کا نام ام فروہ تھا ‘ ام ایمن کا نام بھی لیا جاتا ہے ‘‘ اعلام النساء ‘‘ میں ام فروہ کے نام کی دو خواتین ہیں ۔ ام فروہ قاسم بن غنام کی دادی اور ام فروہ بنت ابو قحافہ ( صدیق اکبر کی بہن ) حضرت جعفر صادق کی والدہ کا نام بھی ام فروہ ہے جو حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پوتے حضرت قاسم کی بیٹی ہیں ۔ ابن سعد نے قاسم بن غنام کی دادی ام فروہ کے بارے میں لکھا ہے کہ اسلام لائیں اور نبی ﷺ کی بیعت کی اور آپ سے روایت کی ۔ ( حوالہ بالا ۔۱۹۲۔۱۹۱) ۔
خولہ بنت المنذرـ: دودھ پلانے والیوں میں ان کا نام بھی لیا جاتا ہے بحوالہ حلبیؒ مفتی مسعود لکھتے ہیں شائد خولہ بنت المنذر دو ہوں ‘ ایک سید کائنات ﷺ کو دودھ پلانے والی اور دوسری حضرت ابراہیم ؑکی رضاعی والدہ ۔ اعلام النساء میں خولہ بنت المنذر کا ذکر تک نہیں ملتا اگرچہ ایک خولہ سیدالصادقین کی خادمہ تھیں ۔ طالب ہاشمی نے خولہ نامی چند خواتین کا ذکر کیا ہے ۔ ( ۱) ایک خولہ تو بنی سلیم کی بھی ہیں ( ۲) حضرت اوس بن صامت کی بیوی کا نام خولہ تھا (۳) حضرت حمزہ ؓکی بیوی کا نام بھی خولہ بنت قیس ہے (۴) ایک خولہ بنت عامر انصاریہ ہیں لیکن ان سب کے والد کا نام المنذر نہیں ہے ۔ طالب ہاشمی ام بردہ خولہ انصاریہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ بعض روایات میں ان کے والد کا نام منذر بن زید انصاری اور بعض میں زید انصاری آیا ہے ۔ ان کا نکاح براء بن اوس انصاری سے ہوا ‘ ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے نخلستان کا ایک قطعہ مرحمت فرمایا تھا لیکن صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ کی روایت کے مطابق حضرت ابراہیم ؓبن محمدﷺ کو دودھ پلانے کی سعادت حضرت ام سیف کو نصیب ہوئی ۔ قاضی عیاض نے لکھا کہ ام سیف اور ام بردہ ایک ہی ہیں لیکن علامہ شبلی نے لکھا کہ قاضی عیاض کی تاویل اگرچہ کچھ مستبعد نہیں مگر ام بردہ کے شوہر براء ابن اوس ابو سیف کی کنیت سے مشہور ہیں ۔ ( حولا بالا ۔۱۹۲)
بنی سعد کی ایک عورت : مخبر صادق ﷺکی رضاعت کے سلسلے میں لکھا جاتا ہے کہ حلیمہ سعدیہؓ کے علاوہ بنی سعد کی ایک عورت نے بھی شفیع امم کو دودھ پلایا تھا ‘ بنی سعد کی اس عورت نے حضرت حمزہ ؓبن عبدالمطلب کو بھی دودھ پلایا تھا ۔ صفی الرحمن مبارک پوری زاد المعاد جلد ۱ ص ۱۹ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ شاہ عرب وعجم کے چچا حضرت حمزہ کو دودھ پلانے کے لیے بنی سعد کی ایک عورت کے سپرد کیا گیا تو اس عورت نے ایک دن جان دو عالم ﷺ کو دودھ پلا دیا ‘ ان دنوں آپ حضرت حلیمہ سعدؓیہ کے پاس تھے اس طرح حضرت حمزہ اور سید عالم ﷺ آپس میں دوہرے رضاعی بھائی بن گئے یعنی ایک ثویبہ اور دوسری بنی سعد کی اس عورت کی نسبت سے ۔ اب کچھ سیرت نگاروں نے اس عورت کا نام بھی تخلیق کیا ’’ اس عورت کا نام سعدیہ تھا ‘‘ ۔ بنی سعد کی اس گمنام خاتون یا سعدیہ نام کی خاتون کے بارے جو معلومات فراہم ہوتی ہیں ان سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اس میں کچھ حقیقت نہیں ۔ اللہ تعالی ٰسے دعا ہے کہ وہ ہمیں مرشد حق کے بارے میں افسانہ طرازیوں سے محفوظ رکھے ۔ ( حوالہ بالا ۔۱۹۳ )
فاطمائوں کا ذکر : ڈاکٹر محمد حمید اللہ‘ امام سہیلی کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’ یہ فرمان رسول اللہ ﷺ سے منسوب ہے کہ میں عاتکا ئوں کا بیٹا ہوں جب کہ ایک دوسری روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں قبیلہ سلیم کی عاتکائوں اور فاطمائوں کا بیٹا ہوں ۔ ( پیغمبر اسلام ۔۴۷۷) عاتکائوں کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے اب رہا فاطمائوں کا ذکر ‘ تو وہ خواتین یہ ہیں ( ۱) عبدالمطلب کی بیوی فاطمہ بنت عمر بن عائذبن عمران بن مخزوم بن یقظہ بن مرہ ( ۲) کلاب کی بیوی فاطمہ بنت سعد بن سہل ( حیر) بن عوف بن عامر (۳) ابو طالب ( والد علی ) کی بیوی فاطمہ بنت اسعد بن ہاشم ۔ ( ان کی لحد میں آنحضرت ﷺ لیٹ گئے تھے ۔ (رحمۃاللعالمین۔ ص ۔۲۶۔۲۵) المختصر بلا تحقیق اور بے احتیاطی سے غلطیاں تاریخ کے اوراق میں در آتی ہیں پھر وہ متاخرین اڑا لیتے ہیں اور نقل در نقل ہوتی چلی جاتی ہیں ۔ ایسی غلطیوں کو مستشرقین جو سید عالم ﷺکے ازلی و ابدی دشمن ہیں خوب نمک مرچ لگاتے ہیں اور بات کا بتنگڑ اور رائی کا پہاڑ بنا دیتے ہیں جبکہ روشن خیال طبقہ ان کی معاونت میں پہلے سے تیا رہوتا ہے لہذا سیرت کے ہر ہر موضو ع کونہایت حزم و احتیاط سے لینا چاہیے ہم اپنوں سے بد گمان نہیں ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے تحقیق پر توجہ نہ دی ہو یا سہو ہو اہو ۔ مواہب لدنیہ میں صاف لکھا ہے کہ آپ ﷺ کو آپ کی والدہ بی بی آمنہ ؓ ، ثویبہ اور حلمیہ سعدیہ ؓ نے دودھ پلایا ۔
صبح کا نور ہے ان آنکھوں میں
کیسے ہم ان سے بدگماں ہوتے
اہم نکتہ : ایک قول کے مطابق آپ ﷺنے اپنے نسب میں موجود فواطم کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ عمومیت کا تذکرہ کیا جن میں فاطمہ ام اسد بن ہاشم ‘ فاطمہ بنت اسد ( والدہ علی )اور ان کی والدہ فاطمہ ‘ یہ ان فواطم کے علاوہ ہیں جن کے متعلق حضور ﷺنے حضرت علی ؓکو ایک ریشم کا ٹکڑا عطا کر کے فرمایا ’’ یہ ان تینوں فواطم میں تقسیم کر دو ‘‘ وہ آپ کی لخت جگر فاطمہؓ، فاطمہ بنت حمزہؓ اور فاطمہؓ بنت اسد تھیں ۔ آپ کی فواطم کی جدات میں ام عمرو بن عائذ ‘ فاطمہ بنت عبداللہ بن رزام ‘ فاطمہ بنت حارث اور فاطمہ بنت نظر بن عوف ‘ عبدمناف کی نانی بھی شامل ہیں ( السیرۃ النبویہ زینی دھلان ۔۱۔۵۱)
شقِ صدر
دو سال کے بعد حلیمہ سعدؓیہ آنحضرت ﷺ کو مکہ میں آپ کی والدہؓ کے پاس لے آئیں ۔ جی نہیں چاہتا تھا لیکن رضاعت کی مدت ختم ہونے پر بچہ کو رضاعی ماں کے ہاںرہنے کا استحقاق نہیں رہتا ہے‘ اس لیے رنجیدہ خاطر رسول عربی ﷺ کو سیدہ آمنہؓ کے پاس لے آئیں ۔ اتفاق یہ ہے کہ ان دنوں مکہ میں وبا پھوٹی ہوئی تھی اس وجہ سے حلیمہ سعدؓیہ دوبارہ آنحضرت ﷺ کو اپنے صحرائی گھر میں لے آتی ہے اور پھر سے گھر کی سب رونقیں اور خوشیاں لوٹ آتی ہیں ۔ آپ اپنے بہن بھائیوں کے ہمراہ بکریاں چرانے تشریف لے جاتے تھے ایک روز یہ واقعہ پیش آیا کہ دو شخص نہایت خوش لباس اور خوبصورت تھے آئے وہ محمد ﷺ کو اٹھا کر الگ لے گئے اور آپ کا سینہ چاک کر دیا۔ یہ منظر دیکھتے ہی آپ کا رضاعی بھائی دوڑتا ہوا اپنی ماں کے پاس آیا اور کہا کہ دو سفید لباس میں ملبوس آدمی آئے ہیں اور ہمارے قریشی بھائی کو زمین پر لٹا کر اس کا شکم چاک کردیا ہے اور اب کوس رہے ہیں ۔ اس درد ناک واقعہ کوسنتے ہی حلمیہ سعدؓیہ اور اس کا شوہر پریشان خاطر چلے آئے۔ وہاں جا کر دیکھا تو آپ خوش ہیں اور مسکرا رہے ہیں البتہ چہرے پر خوف کے آثار تھے سید ہ حلیمہؓ کا بیان ہے کہ میں نے خود آپﷺ کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا پھر آپ کے رضاعی باپ حارث نے آپ کو سینے سے لگایا اور سر پر ہاتھ رکھ کر کہا ! اے بیٹا کیا ہوا ؟ آپﷺ نے جواباََ فرمایا کہ دو آدمی سفید لباس زیب تن کیے میرے پاس آئے اور مجھ کو لٹا کر میرا شکم چاک کیا اور میرے سینے سے کوئی سیاہ چیز نکال کر پھینک دی پھر میرے شکم کو درست کر کے چلے گئے ‘ نہ جانے انہیں کس چیز کی تلاش تھی لیکن مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی بلکہ ٹھنڈک ہی محسوس ہوئی اور اب تک ہو رہی ہے ۔ابن ہشام (ج۔۱۔ص۔۱۸۶) لکھتے ہیں کہ ابن اسحاق نے کہا کہ ثور بن یزید نے بعض اہل علم سے روایت بیان کی ہے اور میں سمجھتا ہوں یہ روایت خالد بن معدان الکلاعی کی ہے کہ رسول اللہﷺ کے بعض صحابہ ؓنے آپ سے عرض کی ‘ اے اللہ کے رسول! اپنے کچھ حالات بیان فرمائیے ۔ فرمایا : اچھا! میں اپنے باپ ابراہیم ؑکی دعا اور حضرت عیسٰی ؑ کی بشارت ہوں جب میں اپنی ماں کے بطن میں آیا تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے اندر سے ایک نور نکلا جس سے سر زمین شام کے محل ان پر روشن ہو گئے بنو سعد بن بکر کے قبیلے میں دودھ پیا اور پرورش پائی میں اپنے گھروں کے پیچھے اپنے ایک بھا ئی کے ساتھ تھا اور ہم اپنی بکریوں کے بچے چرا رہے تھے کہ دو شخص سفید کپڑے پہنے ہوئے میرے پاس برف کا بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لے کر آئے ۔ انہوں نے مجھے پکڑا اور پیٹ چاک کیا میرا دل نکالا اور اسے بھی چاک کیا اور اس میں سے ایک کالا گوشت کا ٹکڑا نکال کر پھینک دیا پھر انہوں نے میرے دل اور پیٹ کو اس برف سے اتنا دھویا کہ اسے پاک کر دیا ۔ فرمایا پھر ان میں سے ایک ساتھی نے دوسرے سے کہا کہ انہیں ان کی امت کے دس شخصوں کی مقابل تولو اس نے مجھے ان کے ساتھ تولا تو میں ان سے وزن میں بڑھ گیا اور پھر اس نے ان کی امت کے سو شخصوں سے تولا جب اس نے مجھے ان کے ساتھ تولا ‘ ان سے بھی میرا وزن بڑھ گیا پھر اس نے کہا ان کی امت کے ہزار افراد کے ساتھ تولو اس نے مجھے ایک ہزار کے ساتھ تولا تو جب بھی میرا وزن بڑھ گیا ( یہ دیکھ کر) اس نے کہا کہ انہیں چھوڑ دو ‘ اللہ کی قسم !اگر تم انہیں ان کی ( پوری ) امت کے مقابل بھی تولو گے تو یہ بڑھ جائیں گے ۔

اعتراض نمبر۵۳
یہ کہا جاتا ہے کہ شق صدر متعدد بار ثابت ہے لیکن صیحیحن میں دو مرتبہ مذکور ہے اور جمہور محدثین کا یہی مختار قول ہے مگر بعض کی رائے یہ ہے کہ بعض محدثین اس واقعہ کو ایک ہی واقعہ سمجھتے ہیں یعنی وہ صغیر سنی میں جب آپ حلیمہؓ کے ہاں پرورش پا رہے تھے اور معراج کے موقع پر شق صدر کے واقعہ کو راویوں کا سہو سمجھتے ہیں ۔ ( ترجمان السنہ۔ ج ۴۔ص۷۰)
جواب : ایک ہی نوع کا معجزہ متعدد بار روایات میں موجود ہے تو کسی دلیل کے بغیر اسے ایک ہی واقعہ قرار دینا پھر ایک نوع کے کئی افراد بھی ثابت ہوں تو دلیل کے بغیر دوسرے مقامات میں حزم کے ساتھ حکم نہیں لگایا جا سکتا کہ یہ معجزہ صرف ایک بار ظہور پذیر ہوا نہ کہ متعد د بار ‘ اس کی مثال حافظ ابن حجر کی ہے کہ وہ ایک ہی نوع کے چند معجزات پر یہ حکم نہیں لگاتے کہ سب واقعات در حقیقت ایک ہی واقعہ ہیں۔ ( حوالہ بالا ۔۶۷ ) نیز وہ ان روایات میں تطبیق بھی کرتے ہیں ۔ معترضین کا مدعا و منشاء یہ ہے کہ آپ کے دور میں طفولیت کی روایات کو مسلم شریف میں ہونے کے باوجود اپنی رائے سے مجروح کردیں اور صیححین میں دو بار یہ واقعہ نقل ہوا اسے ایک واقعہ قرار دے دیں اور واقعہ معراج کو بعض محدیثن کے اختلاف سے کمزور بنا دیا جائے اور شق صدر کا واقعہ جو دور طفولیت میں پیش آیا اسے خود مجروح کرنے کی کوشش کی جائے اس حساب سے جو ایک واقعہ بچ جائے وہ بھی زیر بحث آنے سے مشکوک ہو جائے ‘ اس کا پھر جوڑ ایک تاویل سے کیا جائے کہ ہمارے نزدیک صحیح اصطلاح شرح صدر ہے جس کے معنی سینہ کھولنے کے ہیں اور عرب کے کلام میں اس مقصود بات کا سمجھا دینا اور اس کی حقیقت کا واضح کر دینا ہوتا ہے قرآن مجید اور احادیث میں یہ محاورہ بکثرت استعمال ہوا ہے ۔
اپنوں کی بات بھی سن لیںسر سید ( خطبات احمدیہ ۔۲۹۹۔۲۹۸) پر الم نشرح لک صدرک ‘‘ آیت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ یہ آیت شق صدر سے علاقہ رکھتی ہے۔۔۔ اس آیت میں چیر پھاڑ کا کوئی ذکر نہیں اور اس اصلی معنی اور اصطلاحی معنی جیسے اکثر مفسرین نے بھی تسلیم کیا ہے اس کی کشادگی کے ہیں ‘ جو دل اور سینہ میں عقلی اور روحانی وسعت سے عرفان الہٰی اور وحی کے منبع ہونے کے لیے کی تھی ۔حوالہ بالا ۷۰ پر صاحب ترجمان السنہ لکھتے ہیں رب شرح لی صدری ۔۔ انبیاء ؑ جو کچھ جانتے اور جو کچھ سمجھتے ہیں اس کا ماخذ تعلیم الہٰی ‘ القائے ربانی اور فہم ملکوتی ہوتا ہے اسی کا نام علم لدنی ہے جس کا ثبوت سب انبیا ء میں ملتا ہے چونکہ معراج ہجرت کا اعلان اور اسلام کے مستقبل کا عنوان تھا جس کے بعد آنحضرت ﷺ کو حکم کی طاقت عطا کی جانے والی تھی اس لیے شرح صدر کے لیے یہی مناسب واقعہ تھا ۔
اعتراض نمبر۵۴
صیحح مسلم کی روایت میں ایسے معنوی وجود بھی ہیں جن کی تائید کسی دوسرے ذریعے سے نہیں ہوتی مثلا شق صدر کی یہ کفیت کسی طرح بھی ہو مگر اس کا تعلق بہر حال روحانی تھا ۔۔۔ بایں ہمہ اس روایت میں حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ آپ کے سینہ مبارک پر زخم کے ٹانکے کے نشان مجھ کو نظر آتے تھے ۔۔ علاوہ ازیں آنحضرت ﷺکی شکل و شمائیل کا ایک ایک حرف ‘ جسم اطہر کا ایک ایک خط وخال کی کیفیت صحابہؓ نے بیان کی ہے مگر کسی نے سینہ مبارک کے ان ٹانکوں کا ہم تک نام نہیں لیا ایسی حالت واقعے کی یہ صورت کیونکر تسلیم ہو سکتی ہے ؟
جواب : صحیح مسلم کی روایت سے مندرجہ ذیل امور سامنے آتے ہیں ۔ ( ۱) اس روایت سے شق صدر کا واقعہ دور طفولیت کا ثابت ہوتا ہے (۲) شق صدر جسمانی ہے روحانی نہیں (۳) اس واقعہ کا تعلق عالم روحانی سے نہیں ‘ لفظ شق اس کے خلاف ہے (۴) حضرت انسؓ عینی شاہد ہے یہی ثبوت کافی تھا لیکن صحابہ کرامؓ نے بیان نہ کیا اور اس عینی شاہد کو تسلیم نہ کیا گیا حالانکہ ان نشانات کو مجمع عام میں دیکھنے کی نوبت ہی نہیں آتی اور دس سال تک آنحضرت ﷺ کی صحبت میںرہنے والے حضرت انس ؓکو نہ جانے کتنی بار مشاہدہ کی سعادت نصیب ہوئی ہو گی ۔ اس طرح صحابی کے نام جھوٹ کی تہمت مڈھ دینا گھناونی حرکت اور گستاخی ہے اور پھر یہ فرمان رسولﷺ ہے کہ جس نے میرے بارے غلط بات مجھ سے منسوب کی اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائے ،۔( نعوذ باللہ ) صحابی رسول ایسی بات آپﷺ سے منسوب کر سکتا ہے جو امر واقع نہ ہو ۔(۵) اگر حضرت انسؓ کے مساعد کوئی شہادت نہیں تو کیا ان کے واضح بیان کے خلاف کوئی شہادت اس کی تردید یا تشکیک پر موجود ہے اس کا جواب نفی میں ہو تو گویا ایک جانثار صحابی کی تکذیب کی ہمت کیونکر کی جائے (۶) جہاں تک شق کو اصلی کی بجائے اصطلاحی معنوں میں بدل لیا ہے کہ شق صدر ‘ شرح صدر ہے ۔ حدیث میں شرح صدر کا لفظ نہیں ہے ‘ شق صدر کا لفظ ہے پھر عینی شاہد جس نے سینہ مبارک پر سلے ہوئے نشانات کا مشاہدہ کیا ‘ ان اوامر کے ہوتے ہوئے اس واقعہ کو اصطلاحی معنوں اور تاویلات کی بھینٹ چڑھا کر انکار کرنے سے کیا فائدہ ؟ اس حدیث پاک کو بیان کرتے ہیں ۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ جبرائیل رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اس وقت آپ بچوں میں کھیل رہے تھے ‘ انہوں نے آپ کو چت لٹا دیا اور قلب مبارک چیر کر اس میں سے جمے ہوئے خون کا ایک ٹکڑا نکال دیا اور کہا کہ آپ میں یہ تھا شیطان کا حصہ جس کو میں نے نکال کر پھینک دیا ہے ۔ پھر آپﷺ کے قلب مبارک کو زم زم کے پانی سے ایک سونے کے طشت میں ڈال کر دھویا ‘ پھر اس کو سی دیا اور اپنی جگہ رکھ دیا ۔ بچے آپ کی دودھ پلائی ماں کے پاس دوڑتے ہوئے آئے اور اطلاع دی کہ محمد رسول اللہ ﷺ قتل کردیئے گئے ہیں ۔ لوگ آپ کو دیکھنے نکلے تو آپ کا رنگ فق ہوا تھا حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میں ہمیشہ اس سلائی کا نشان آپﷺ کے سینہ مبارک میں دیکھا کرتا تھا ۔‘‘( ترجمان السنہ ۔۴۔۷۴)
فرشتہ کی آمد ‘ آپ کو چت لٹانا ‘ سینہ چاک کرنا ‘ جما ہوا خون نکالنا اور اسے شیطانی حصہ کہنا ‘ قلب کو آب زم زم سے دھونا ‘ سینہ کو سینا اور قلب مبارک کو اپنی جگہ رکھنا ‘ بچوں کا حلیمہ سعد ؓیہ کو اطلاع دینا ‘ آپ کے قتل کا بتانا ( نعوذ باللہ ) لوگو ں کا دوڑتے ہوئے آنا ‘ آپ کا رنگ فق ہونا ٹانکوں کے نشانات کو دیکھنا ‘ ہر ہر لفظ پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ ’’ شق صدر ‘‘ ہے شق صدر کی گواہی ہر فقرہ دے رہا ہے اس پر علم لدنی کہنے والے یا شق صدر کو شرح صدر بیان کرنے والے ان تفصیلات کے ہوتے ہوئے بھی اپنے موقف پر کیوں مصر ہیں َ؟ اپنے موقف پر ڈٹے رہنے میں علمی نا انصافی اور تاریخ اسلام کے باب میں ایک نئی چیز کو داخل کرنے کی جرات اور زیادتی ہے ۔ علم لدنی میں تو سب انبیاء شریک ہیں حضرت خضر ؑ بھی شریک ہیں جیسا کہ ’’ واعلمنہ من لدنا علما ‘‘ سے ظاہر ہے حالانکہ ان کی نبوت میں اختلاف ہے تو کیا دیگر انبیاء کے ساتھ بھی ایسا واقعہ پیش آیا؟ اس کاجواب نفی میں ہے تو آپ کے اس واقعہ کو کیوں تسلیم نہ کیا جائے ؟ قابل غور بات تو یہی ہے کہ علم لدنی میں سب انبیاء شریک ہیں کہیں دیگر انبیاء کی سیرتوں میں ان واقعات کی اس طرح کی تفصیلات ملتی ہیں جس طرح آپ ﷺکی سیرت کے متعلق پائی جاتی ہیں تو پھر ان تاویلات سے واقعہ ہذاکو چیستان بنانے کی کیا ضرورت ہے؟
اعتراض نمبر۵۵
مذکورہ مسلم شریف کی حدیث پر فن حدیث کے لحاظ سے یہ اعتراض وارد کیا جاتا ہے کہ اس واقعہ کا راوی ’’ حمادبن مسلمہ ‘ ‘ ہے جس کو آخری عمر میں سوء حفظ طاری ہو گیا تھا اور اس کی یہ روایت اسی زمانے کی قرار دیتے ہیں ۔
جواب : مذکور حدیث کو امام مسلم ؒ اپنی کتاب مسلم شریف میں بیان کرتے ہیں لہٰذا یہ مناسب نہیں کہ ایسی تہمت امام مسلمؒ کے سر تھوپ دی جائے وہ تو امام ہیں جبکہ عام محدثین کو بھی اس قسم کے روایوں کی روایت کی خبر ہے کہ وہ روایات جو سوء حفظ سے پہلے کی ہیں اور وہ روایات جو سوء حفظ کے بعد کی ہیں ۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ ان کو یہ علم شیوخ و تلامذہ پر غور کرنے سے حاصل ہوتا ہے کہ کس راوی نے کس شیخ سے اس زمانہ میں شاگردی کی ‘ جس شاگرد نے سوء حفظ سے پہلے کی روایت اخذ کی وہ معتبر سمجھی جاتی ہے جبکہ سوء حفظ کے زمانہ کی روایات محل نظر ہوتی ہیں ۔ امام مسلم کا اس حدیث کو نقل کرنا ثابت کرتا ہے کہ یہ سوء حفظ سے پہلے کی ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ امام فن کی شہادت پیش کی جائے ۔
اما م بیہقی : کہتے ہیں کہ حماد بن مسلمہ مسلمانوں کے آئمہ ہیں لیکن آخر عمر میں ان کا حافظہ جاتا رہا تھا اس لیے امام بخاری نے ان کو بالکل ترک کر دیا لیکن امام مسلم نے وہ حدیثیں اپنی صحیح کے لیے نکال لیں جو انہوں نے ثابت سے اپنے سوء حفظ سے پہلے روایت کی تھیں اور اس کے سوا جو حدیثیں انہوں نے ثابت سے روایت کی ہیں جن کی تعداد بارہ حدیثوں تک نہیں جا پہنچتی ‘ وہ صرف شواہد میں روایت کی ہیں اصول میں نہیں ۔
امام احمد فرماتے ہیں کہ ثابت کے شاگردوں میں سب سے قابل اعتماد شخص حماد بن مسلمہ ہے ،۔
ابن مدینی : کہتے ہیں جو شخص بھی حماد بن مسلمہ میں کلام کرے اس کو دین میں قابل تہمت سمجھو وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اصحاب ثابت میں سب سے زیادہ قابل اعتماد حماد بن مسلمہ سلیمان پھر حماد بن زید اور یہ سب روایات صحیح ہیں ۔ ( ترجمان السنہ ۔۴۔۷۷۔۷۶ ) ۔ حماد بن مسلمہ کی روایت پر سوء حفظ کا حکم لگانا اہل فن کی تصریح کے خلاف ہے وہ ایسے اشخاص کے حافظہ کے اول و آخر کو جانتے سمجھتے ہیں اور امام مسلم جیسا محدث بھلا کب اس بات سے با خبر نہیں ہو گا ؟۔ رہا امام بخاری کا کہ انہوں نے ان سے( حماد) حدیث روایت نہیں کی تو یہ ان کی شان احتیاط ہے ( ۲) شرائط اگر امام بخاری نے اپنی کتاب میں خاص مقرر کر لی ہیں تو اس سے یہ فیصلہ نہیں ہو سکتا کہ اب جو راوی ان کی کتاب میں نہیں آیا ‘ اس میں نقص ہے ۔ نہیں نہیں ایسا نہیں ہے ورنہ تو پھر صحیح مسلم کی ایک حماد بن مسلمہ کی روایت ہی نہیں بلکہ وہ تمام روایات جو امام بخاری کی شرائط پر نہیں ہیں تو ہمیں چھوڑ دینی پڑیں گی۔ لہٰذا آنحضرت ﷺ کی اس ممتاز و منفرد صفت جو حیثیت میں شق صدر کی مذکور ہوئیں‘ سے انکار کرنا جائز و مناسب نہیں ۔ اس سے انکار شق صدر کی تحقیق نہیں بلکہ ایک ثابت شدہ حدیث میں مذکور واقعہ کی تحریف کے مترادف ہے ۔ آپ ﷺ کی شان تو ‘ و رفعنا لک ذکرک ہے ‘ ۔ (حوالہ بالا)
بر زمیں کہ نشان کف پائے تو بود
سالہا سجدۂ صاحب نظراں خواہد بود
اعتراض نمبر۵۶
شق صدر سے متعلق روایتیں ایسی ہیں کہ ان کی باہمی تطبیق نہیں ہو سکتی اور اس لیے وہ سب کی سب نا معتبر ہیں ۔ ( خطبات احمدیہ ۔ ۴۰۲)
جواب : سر سید کی نظر سے ابن حجر کی تطبیق کی تحقیق نہیں گزری اگر وہ مطالعہ کر لیتے تو امید ہے کہ وہ تطبیق نہ ہونے کو زیر بحث نہ لاتے ۔ معترضین نے اتنا تو تسلیم کیا کہ ’’ چار موقعوں کو ( شق صدر کے ) حافظ ابن حجر نے جو ہر اختلاف روایت ایک نیا واقعہ تسلیم کر کے مختلف روایتوں میں تطبیق کی کوشش کرتے ہیں ‘ تسلیم کیا ہے ۔‘‘ علمائے حق نے اس قسم کی تشکیکات کا صدیوں پہلے رد کر دیا تھا چنانچہ ملا علی قاری نے شرح مشکوۃ میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ حدیث اور اس طرح کی ( مافوق العادۃ) دیگر حدیثوں کو بے چون و چرا تسلیم کر لینا چاہیے اور مجازی معنوں پر محمول کر کے تاویل نہیں کرنی چاہیے ‘ کیونکہ اس تکلف کی کوئی ضرورت نہیں ہے یہ تو قادر مطلق کے کرشمے ہیں جن کے بارے میں ایک تصدیق شدہ سچے نے خبر دی ہے پھر تاویل کی کیا حاجت ؟ ( سید الوری۔ج۱۔ص۱۲۵۔حاشیہ)
اعتراض نمبر۵۷
سید سلیمان ندوی نے ایک اور اعتراض بھی داغ دیا ۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ یہ بات ہر شخص کو کھٹک سکتی ہے کہ سینہ مبارک کا آلودگیوں سے پاک و
صاف ہو کر منور ہو جانا ‘ ایک دفعہ ہو سکتا ہے پھر دوبارہ پاکی و طہارت کا محتاج نہیں ہو سکتا ‘‘۔ (سیرت النبی اعلان نبوت سے پہلے ۔۳۵۰)
جواب : معترضین کے دلوں میں یہ بات سب سے پہلے کھٹکنی چاہیے تھی کہ آلودگی کا یہ حصہ جو شق صدر کے بعد سینہ چاک کر کے الگ کیا گیا اگر شروع ہی سے پیدا نہ کیا جاتا ‘ تو پھر اس شق صدر کی ضرورت ہی نہ پڑتی لیکن قدرت کا منشاء یہی تھا کہ اپنی خصوصی تربیت کا اظہار کرے ‘ یہ پرورش و تربیت تدریج کا متقاضی ہے اس لیے اللہ تعالی ٰقدم قدم پر یہ ظاہر فرما دے کہ محمد ﷺ کی پرورش کسی اور کی نگرانی میں ہو رہی ہے یعنی محمدﷺ کی پرورش اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ دنیا نے دیکھا کہ والد کا سایہ اٹھ گیا ‘ والدہ اللہ تعالی ٰکو پیاری ہو گئیں ‘ دادا جان بھی آٹھ سال کی عمر میں داغ مفارقت دے گئے چچا اور رفیقہ حیات بھی ساتھ چھوڑ گئے۔ یہ تمام رفاقتیں رفتہ رفتہ اٹھ گئیں آخر اس کی ذات کا ساتھ رہ گیا جو رب العالمین ہے۔ وہ انبیاء و رسل کو تنہا نہیں چھوڑتا ۔
(۲) نور محمدی سالہا سال سے ارحام مقدسہ سے گزرتا ہوا آ رہا تھا اب وہ گھڑی آ پہنچی کہ اس نور کا ظہور ہوا ‘ وہ نو ر سیدہ آمنہؓ کے بطن مبارک سے جلوہ گر ہوا ‘ اس لیے یہ ممکن اور مناسب نہیں تھا کہ وہ قالب انسانی کے خواص سے بالکل خالی ہوتا ‘ اس کے باوجود مشیت ایزدی تھی کہ آپ تمام دوسرے ابشار سے علیحدہ و ممتاز رہیں۔ اس کے لیے مقدس فرشتہ جبرائیل آتا ہے اور وہ مقدس پانی لے کر صاف کرتا ہے ‘ آپ کے جسد مبارک میں یہ حصہ بھی نہ رکھا جاتا تو ہو سکتا ہے کہ عالم اسباب کے تحت جب یہ قالب مبارک اسی صورت میں منتقل ہوتا آ رہا تھا جس طرح عام انسانی قالبوں کا انتقال ہوتا ہے تو ان خواص و صفات سے علیحدہ رہنا کیسے ممکن تھا َ؟
(۳) آپ ﷺ کی ولادت نوع انسانی کے دستور کے مطابق ہوئی اس لیے اس شیطانی حصہ کا ہونا ضروری تھا جو عہد طفولیت میں ہوئی جس کو نکال کر پھینک دیا گیااور ایمان و حکمت سے بھرے سونے کا طشت آپ کے قلب مبارک میں ڈال دیا گیا اور وہ بھی آب زم زم سے دھو کر روح القدس جیسے مقدس فرشتے کے ہاتھوں سے ۔
(۴) ہمارے نزدیک قدرت کی یہ حکمت بہت زیادہ قابل غور ہے کہ حضرت عیسؑی ٰاور حضرت محمد ﷺ ‘ دونوں ولادتوں میں جس فرشتہ کا تعلق ہے وہ جبرائیل ؑ ہیں ۔ فرق یہ ہے کہ اسرائیلی سلسلے کے آخری نبی کی تخلیق ہی ملکی تھی اور سب سے آخری نبی کی تخلیق گو بشری تھی مگر تطہیر ملکی تھی ۔ دونوں مقامات میں صبغ اللہ الذی انفس کل شیء کا نظارہ ایک سے ایک بڑھ کر تھا لیکن یہ بحث کہ عالم بشر کی تکمیل کی صورت ان دونوں میں کون سی کامل تر تھی اس کا کچھ فیصلہ ہر دو رسولوں کی بعثت کے آثار کی طرف نظر کرنے سے ہو سکتا ہے نیز حضرت عیسیٰؑ کے دور اول میں گو ملکیت کے عجیب سے عجیب ترنظارے دنیا نے دیکھے اور رسولوں کے لیے بشریت کا مظاہرہ بھی کتنا ضروری ہوتا ہے : اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نزول کے بعد اور ان کی بشریت کے نظارے بھی جب تک دنیا اسی شد ومد کے ساتھ دیکھ نہ لے اس وقت تک مسیحؑ کی وفات نہ ہو گی ۔ آخر وہ بھی اس جگہ آکر مدفون ہوں گے جہاں آنحضرتﷺ ان سے پہلے مدفون ہیں۔۔ پھر ان انبیاء کی عظمت کا حال یہ ہے کہ یہ وہ معصوم ہیں جن کی فطرت کو اور طرح سے معصوم بنایا جا رہا ہے تاکہ گناہ کا صدور تو در کنار اس میں کسی ادنیٰ سی معصومیت کی طرف میلان بھی نہ رہے۔ اس لیے یہ وہ معصوم ہیں جو گناہ کرنا جانتے بھی نہیں اب اندازہ کیجئے کہ تطہیر کی اساس میں اس طرح عصمت کوٹ کوٹ کر بھر دی جائے تو اس تطہیر کی عظمت کا کیا حال ہو گا ۔ ( ترجمان السنہ ۔ج ۳ َ ص۳۶۸۔۳۷۰)
اعتراض نمبر ۵۸
واٹ نے ابن اسحق کی روایات کے مطابق دو فرشتوں ( شق صدر ) اور بحیرہ را ہب کے واقعات کا ذکر کیا ہے اور یہ تنقید کی ہے کہ نبی کی پیدائش اور شادی کے درمیان ایک چوتھائی صدی کے عرصہ میں جو واقعات پیش آئے ان کے لیے ایک قاری کو ٹھوس بنیادیں نہیں ملتیں ۔
جواب: پیدائش اور شادی کے درمیان عرصہ میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے انکار کر رہا ہے جس میں یہ ایک محیر العقول واقعہ شق صدر بھی ہے ۔ اگر راہب کا واقعہ محل نظر ہے اور تنقید کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا تو دونوں فرشتوں کے ذریعے شق صدر کے واقعہ کو کیوں نہیں مانا جاتا حالانکہ ابن ہشام ‘ ابن سعد اور بلاذری جیسے سیرت نگاروں اور مورخین کے علاوہ امام مسلم اور امام احمد جیسے محدثین نے بھی اس کو نقل کیا ہے ۔ مزید برآں یہ حقیقت پیش نظر ر ہنی چاہیے کہ اس واقعہ کا تعلق غیبی سر چشمہ سے ہے‘ جس کے بعد نبی کی ذات تاریخ کے عقلی تجزیہ سے بالا تر ہو جاتی ہے ۔ رہایہ اعتراض کہ پیدائش اور شادی کے درمیان ایک چوتھائی صدی کے واقعات پیش آئے ان کے لیے ایک قاری کو ٹھوس بنیادیں نہیں ملتیں ۔ اس کا جواب اعتراض نمبر ۲۰ میں ملاحظہ فرمائیں ۔
اعتراضات :معتزلہ نے شق صدر کی احادیث پر اعتراضات کیے ہیں ان کا کہنا ہے کہ شق صدر کی روایات کا تعلق آپ کے بچپن سے ہے اور معجزات ہیں ‘ اس وقت آپ نے اعلان نبوت نہیں فرمایا تھا تو اعلان نبوت سے پہلے معجزات کیسے ؟
جواب : اعلان نبوت سے پہلے جو خلاف عادت امور ظاہر ہوں ‘ ان کو ارہاص کہتے ہیں یہ بکثرت انبیاء سے ثابت ہیں ۔
(۲) قلب کو دھونے سے لازم آتا ہے کہ اس میں گناہ ہے یا میل ہو ‘ نیز دھویا جسم کو جاتا ہے جبکہ گناہ اور میل از قبیل معانی ہیں ۔جواب : دھونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ کے گناہ ہیں بلکہ زم زم کے پانی کو برکت پہچانے کے لیے آپ کے قلب اطہر کو دھویا گیا ۔
(۳) آپ کے قلب سے جماہوا خون نکالا گیا اس کے متعلق حدیث میں ہے کہ آپ کے قلب میں شیطان کا حصہ ہے یہ آپ کی شان کے لائق نہیں ۔ ؟ ۔۔جواب: اس جمے ہوئے خون سے مراد وہ چیز ہے جو ہر انسان کے قلب میں ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے انسان گناہوں کی طرف مائل ہوتا ہے اور عبادات ترک کر دیتا ہے ۔ جب آپﷺ کے قلب سے اس چیز کو زائل کردیا تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ ہمیشہ اطاعت اور عبادت کرتے رہیں گے اور گناہوں سے مجتنب رہیں گے اور اس سے آپﷺ کے قلب میں فرشتوں کے لیے یہ علامت ہو جائے گی کہ آپ گناہوں سے معصوم ہیں اور اللہ تعالی ٰمالک ہے ‘ وہ اپنی مخلوق پر جو چاہتا ہے ‘ وہ کرتا ہے اور جو چاہتا ہے ‘ وہ حکم کر دیتا ہے ۔
(۴) : حافظ بدر الدین عینی اور حافظ شہاب الدین عسقلانی لکھتے ہیں ’’ اس حدیث میں مذکور ہے کہ اس طشت میں ایمان اور حکمت تھے اس پر اعتراض ہے کہ ایمان اور حکمت از قبیل معانی ہیں وہ طشت میں کیسے ہو سکتے ہیں ؟ جواب : ایمان اور حکمت کے معانی کو جسم کی شکل دے دی گئی تھی ‘ جس طرح اعمال کا وزن بروز محشر کیا جائے گا ۔
(۵) اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ سونے کا استعمال مردوں کے لیے حرام ہے تو سونے کے طشت چہ معنی دارد؟ اس کاجواب یہ ہے کہ سونے کی تحریم سے پہلے کا واقعہ ہے اور یہ تحریم دنیا کے احوال کے ساتھ مخصوص ہے اور معراج کے غالب احوال کا تعلق آخرت سے ہے کیونکہ اکثر احوال کا تعلق غیب سے ہے ۔ (تبیان القرآن ۔ ج۱۲۔ص۸۵۳)
شق صدر کے واقعہ سے حضرت حلیمہ ؓکے شوہر کو اندیشہ ہوا کہ واقعی کوئی بچے کو گزند نہ پہنچ جائے چنانچہ اپنی بی بی سے کہا کہ اس بچے کے سبب برکات بے انداز سمیٹی ہیں اور فلاں گھرانہ ہم سے حسد رکھتا ہے اور بچے کے ساتھ جو کچھ ہوا ان کا ہی کیا ہوا لگتا ہے تو بہتر ہے یہ امانت ان کے ورثاء کے حوالے کر دی جائے ۔ عرصہ پانچ سال کا بیت چکا تھا آخر کار حلیمہ سعدیہؓ اپنے سوہنے من موہنے کو بادل نخواستہ سیدہ آمنہؓ کے پاس لے آئیں ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...