Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

سیدہ آمنہ کی وفات
ARI Id

1689956726155_56117724

Access

Open/Free Access

Pages

۲۰۹

سیدہ آمنہؓ کی وفات
سیدہ آمنہؓ اپنے شوہر کی وفات کے بعد ان کی قبر کی زیارت کے لیے نہیں جا سکی تھی ۔ اب انہیں موقع ہاتھ لگا تو اپنے لخت جگر کو جن کی عمر چھ سال کے لگ بھگ تھی اور ام ایمن کو ساتھ لیے شوہر کے مزار پر حاضری دینے کے لیے سوئے مدینہ روانہ ہوئیں ۔ ایک ماہ قیام کرنے کے بعد واپسی کا راستہ لیا ۔ قدرت خدا کی دیکھیے کہ راستے میں بیمار ہوئیں اور ابواء کے مقام پر پہنچیں تو ان کا آخری وقت قریب آ گیا اور وفات پا گئیں ابواء کے مقام پر دفن کر کے ام ایمن سیدالصادقین ﷺ کو لے کر مکہ آئیں اور عبدالمطلب کو اس واقعہ سے آگاہ کیا آپ کو بہت دکھ ہوا ‘ولادت سے پہلے باپ چل بسا اور اب والدہ بھی اللہ کو پیاری ہوگئیں اس حال میں یتیم پوتے کو سینے سے لگا کر رو پڑے انہوں نے آپ ﷺکو اپنی کفالت میں لے لیا اور والدین کی کمی محسوس نہ ہونے دی ۔
اہم نکتہ: بعض سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ سیدہ آمنہ ؓمدینہ میں اپنے رشتے داروں کو ملنے گئی تھیں یہ بعید از قیاس ہے کیونکہ سیدہ آمنہ کی اپنی ذاتی رشتہ داری نہ تھی ۔ اگر یہ بات کہی جاتی کہ سیدہ آمنہؓ اپنے سسرال کے رشتہ داروں سے اپنے نور نظر کی شناسائی کے لیے تشریف لے گئی تھیں تو بجا ہوتا کیونکہ وہ سسرالی رشتہ دار تھے اور سسرال کی ننھیال بہت دور کی رشتہ داری کی بات ہے اور علامہ شبلی کہتے ہیں کہ میرے نزدیک بعض مورخین کا یہ بیان درست ہے کہ حضرت آمنہ ؓاپنے شوہر کی قبر کی زیارت کے لیے گئی تھیں جو مدینہ میں مدفون تھے بعض مورخین نے لکھا ہے کہ آمنہ بی بیؓ اپنے شوہر کے مزار پر حاضری دینے کی غرض سے مدینہ گئیں۔یہ بات دل کو لگتی ہے اور عقل اس کی تائید کرتی ہے کہ انہیں اپنے شوہر کی وفات کے بعد ان کے مزار پر جانے کا موقع نہیں ملا تھا اور زیارت نہ کر سکی تھیں اس غرض سے آمنہ بی بی ؓ مدینہ گئی تھیں ۔
قدرت کی معجزنمائی: حضرت عبداللہ تجارت کی غرض سے اپنا سامان تجارت لے کر شام گئے راستے میں بیمار ہوئے ‘ مدینہ میں ٹھہر گئے لیکن مرض میںافاقہ نہ ہوا، اور اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ بیماری سے شفایاب نہ ہو سکے اور وفات پا گئے ۔ حضرت عبدالمطلب نے اپنے بیٹے حارث کو بھائی عبداللہ کی خبر گیری کے لیے بھیجا مگر قدرت کو دو بھائیوں کی ملاقات منظور نہ تھی اور حارث اس وقت پہنچے جب عبداللہ اس دار فانی کو چھوڑ چکے تھے ۔ آ پﷺ کی والدہ ؓبھی مدینہ منورہ سے واپسی پر بیمار ہوئیں صحت یاب نہ ہو سکیں اور ابواء کے مقام پر انتقال کر گئیں۔ حضرت عبداللہ بھی راستے میں بیمار ہوئے اور مدینہ میں موت کو گلے لگا لیا ادھر حضرت آمنہ ؓبھی راستے میں بیمار ہوئیں اور چل بسیں ۔
روایات واضح نہیں ہیں : بنو سعد سے آئے ہوئے ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا تھا گویا چھ سال کی عمر میں آپ اپنی والدہ کے ہمرا ہ مدینہ منورہ گئے ۔ یہ بات واضح نہیں کہ اس سفر کا مشورہ حضرت عبدالمطلب کا تھا یا سیدہ آمنہؓ نے اپنے تیئں فیصلہ کیا تھا ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خواجہ عبدالمطلب نے خود ہی سیدہ آمنہ کو بیوگی کا غم ہلکا کرنے کے لیے کہا ہو کہ وہ مدینہ گھوم پھر آئیں اور وہاں ہمارے رشتے داروں سے اپنے گوشہ جگر کو روشناس کرائیں اور اپنے شوہر کے مزار پر حاضری بھی دیں ۔
اعتراض نمبر۵۹
اس میں شک نہیں کہ آپ کی والدہ اور آپ ﷺکے دادا کی ننھیال کے درمیان محبت کا رشتہ موجود تھا جن کے خاندان میں آپ ان کی ( سیدہ آمنہؓ) وفات تک رہے تھے ۔ اس وقت آپ کی عمر چھ سال کی تھی ۔ ( واٹ) (ضیاالنبی ۔۷۔۲۲۱)
(۲) مدینہ میں قیام کے دوران آپ ﷺ بچوں کے ساتھ کھیل کود میں مصروف رہتے ، مکان کی چھت پر بیٹھے پرندوں کو اڑاتے تھے ۔ حدیبہ سے مدینہ جاتے ہوئے آپ ﷺ والد کی قبر پر رو پڑے ان سب باتوں پر سر ولیم میور کو اعتراض ہے۔
جواب : ’’واٹ ‘‘آپ ﷺ کے بچپن کے واقعات جیسے عقیقہ ‘ نام رکھنا ‘ رضاعت ‘ دو سال بعد حلیمہؓ کا لے آنا اور دوبارہ صحرائی گھر میں لے جانا اور پھر پانچ سال کی عمر میں سیدہ آمنہ ؓکے سپرد کرنا ‘ کو یکسر نظرانداز کر دیتا ہے اور چھ سال تک کا عرصہ اپنی والدہ کے ہمراہ ننھیا ل میں گزارا لکھتا ہے ۔ ایسے تاریخی واقعات جن کی تائیدماخذ کرتے ہیں لیکن واٹ ان کے ماننے سے انکار کرتا ہے ۔ اس سے وہ ایک اور خواہش پوری کرنا چاہ رہا ہے وہ یہ کہ دودھیال کے ہاں بچے کی پرورش نہ ہو سکتی تھی اس لیے والدہ اپنے ننھے منے لعل کو دادا کی ننھیال میں لے آئی‘ جہاں ان کی پرورش ہوئی ددھیال بچے کا خرچہ اٹھا نہ سکتے تھے ۔ مستشرق دور کی کوڑی لایا ہے لیکن وہ جانتا ضرور ہے مگر بے خبر بنا ہوا ہے اسے علم ہے کہ پیدائش ہی سے کفالت کی ذمہ داری آپ کے دادا جان نے لے لی تھی ۔ حلیمہ سعدؓیہ کو رضاعت کا انعام واکرام دیا ‘ عقیقہ کیا ‘ نام رکھا وغیرہ یہ سب کچھ مکہ میں ہوا اور آپ کے دادا جان نے یہ سارے کام سر انجام دئیے ۔ ( ۲) اگر ان کا خرچہ ددھیال نہیں اٹھا سکتے تھے تو آمنہ بی بی ؓاپنے نو مولود کو مکہ واپس نہ لاتیںاور کبھی واپسی کا نہ سوچتیں ۔ آپ ﷺ چار سال اور بعض روایات میں پانچ سال تک اپنی رضاعی ماں حلیمہ سعدیہ ؓکے ہاں رہے لیکن واٹ اس مدت کو بھی ننھیال کی نذر کر دیتا ہے جبکہ ولادت سے لے کر وفات والدہ تک کے تمام واقعات کو نظر انداز کر کے ’’ حطی ‘‘ اور ’’ لامنس‘‘ کا ہمنوا بن جاتا ہے ۔ حطی کہتا ہے کہ حضور ﷺ کے ابتدائی حالات کا پتہ نہیں چلتا اور لامنس لکھتا ہے کہ آپ ﷺ کی مکی زندگی کے حالات افسانہ ہیں ۔ واٹ ان سے دو قدم آگے بڑھ گیا اور چھ سال تک کے واقعات کو اس دلیل سے بیک جنبش قلم قلمزد کر رہا ہے کہ والدہ کی وفات تک دادا کے ننھیال میں رہے۔ یہ سراسر ماخذ کے خلاف ہے اور واٹ کی ہرزہ سرائی ہے حالانکہ اس مستشرق کو یہ بھی خبر ہے کہ آپ کی والدہ آپ ﷺ کی عمر کے چھٹے سال مدینہ گئیں ۔ وہاں ایک ماہ تک قیام کیا ‘ بعد ازاں واپسی پر بیمار ہوئیں اور اس دنیا سے چل بسیں اور ابواء کے مقام پر دفن ہوئیں اور ننھے لعل کو ام ایمن مکہ لائیں اور دادا کے سپرد کیا اور دادا جان نے اپنی وفات تک ان کی کفالت کی اور ان کی وفات کے بعد ابو طالب نے یہ ذمہ داری سنبھال لی ۔ واٹ کی یہ سوچ اور تحقیق کے صدقے جائیے کہ چھ سال تک کے واقعات تسلیم نہیں کرتا گویا اسے چھ سال اور ایک ماہ کے فرق کا پتہ نہیں ۔ ایک ماہ کے قیام کو چھ سال کا قیام بنا ڈالا واہ رے واٹ تیرے علمی تبحر کی لہراں بہراں ‘ ایک کو بہتر( ۷۲)بنا دے اور بہتر کو ایک بنا دے اسے سب توفیق ہے لیکن وہ اتنا بھولا نہیں وہ تو صرف شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے اور دشمنی کی بھڑاس ایسے بے بنیاد الزامات اور مفروضات کے بل بوتے پر نکالتا ہے۔ ع اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں ۔ یعنی ڈاکٹر محمد حمید اللہ ننھیال میں دو سال قیام کا لکھتا ہے شکر ہے کہ وہ مذکور واقعات کو تسلیم کرتا ہے اور وہ صرف یہ کہتا ہے کہ چھ سال کی عمر میں آپ کی والدہ مدینہ گئیں وہاں دو سال قیام کیا گویا آپ ﷺ وہاں آٹھ سال کی عمر تک رہے ۔ یہ درست نہیں کیونکہ چھ سال کی عمر میں اپنے شوہر کی قبر کی زیارت کے لیے اپنے لخت جگر اور ام ایمن کے ہمراہ مدینہ تشریف لے گئیں ‘ ایک ماہ قیام کے بعد واپسی کی راہ لی راستے میں بیمار ہوئیں اور انتقال کر گئیں ۔ ابواء کے مقام پر دفن ہوئیں ۔ ام ایمن ؓآپﷺ کو مکہ لے آئیں اور سرکار دو عالم ﷺ کو دادا کے سپرد کیا انہوں نے اپنی وفات تک اپنے پوتے کی کفالت کی ۔ دادا کی وفات کے وقت آپ کی عمر آٹھ سال تھی گویا ڈاکٹر صاحب جو دو سال کو عرصہ مدینہ میں قیام کا لکھتا ہے وہ دو سال کا عرصہ آپ ﷺ اپنے دادا کی کفالت میں رہے ۔ ڈاکٹر صاحب دادا کی کفالت کے دو سال کو شمار نہیں کرتے ۔ یہ ان کی بھول ہے کیونکہ تاریخی ماخذ اس کے خلاف اور اس کا رد کرتے ہیں ۔
اعتراض نمبر ۵۹کا دوسر اجز
مدینہ میں قیام کے دوران آپ بچیوں کے ساتھ کھیل کود میں مصروف رہتے ‘ مکان کی چھت پر بیٹھے پرندوں کو اڑاتے تھے ۔ حدیبہ سے مدینہ جاتے ہوئے آپ ﷺ والد کی قبر پر رو پڑے ‘ ان سب باتوں پر سر ولیم میور کو اعتراض ہے ۔
جواب: آپ فرمایا کرتے تھے یہاں ایک لڑکی انیسہ رہتی تھی جو ہمارے ساتھ کھیلا کرتی تھی اور بنی عدی بن النجار کی باولی ( کنواں ) میں خوب تیرنا سیکھ لیا تھا ۔ اس قلعہ کے اوپر ایک پرندہ آ کر بیٹھا کرتا تھا اور بچے اسے اڑایا کرتے تھے اور میری ماں اس گھر میں یہاں بیٹھا کرتی تھی ۔بچپن میں بچے بچیوں کے ساتھ مل کر کھیلتے تھے۔ اس سے ایک قوم کی ثقافت کا اظہار ہوتا ہے نیز بچوں کا اس عمر میں کھیل میں شریک ہونے میں کوئی حرج نہیں ۔
(۲) مکان پر بیٹھے پرندہ کو اڑانے میں کوئی مضائقہ نہیں ‘ نہ جانے ولیم کو اس میں کیا خرابی نظر آئی اور اس کی وجہ بھی نہ بتا کر ‘ بات گول کر جاتا ہے جبکہ ڈاکٹر حمید اللہ بحوالہ ابن سعد بتاتا ہے ’’ خاص طور پر انیسہ نامی لڑکی کے ساتھ قلعہ بند مینار کے قرب و جوار میں جو کہ اس خاندان کی ملکیت تھا اور یہ مینار کی چوٹی پر بیٹھنے والے ایک پرندہ کو وہاں سے اڑایا کرتے تھے کیونکہ وہ وہاں بسیرا کرنا چاہتا تھا اور یہ ان کی تفریح کی جگہ تھی ‘‘۔ یہ بات دل کو بھاتی ہے مگر شائد ولیم میور کا خیال ہو کہ عربوں میں پرندوں کو منحوس سمجھا جاتا تھا جیسے اگر پرندہ کسی کے دائیں جانب اڑتا ہے تو وہ اس سے برا شگون لیتا اور سفر تک موقوف کر کے گھر واپس لوٹ آتا۔ اسلام نے اس عمل کو باطل قرار دیا اور کہا کہ ناکامی اور کامیابی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ’’ قل کل من عنداللہ ‘‘ آپ فرما دیجئے کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے ۔نیز ولیم کو ان بچوں پر ایسا الزام لگانے کا جواز نہیں بنتا جو جاہلیت کی تعلیمات سے بے خبر ہیں اور ابھی ان خام تصورات سے آزاد ہیں ۔ اگر پرندوں کو اڑانا بچوں کی تفریح میں حائل ہونے کے سبب نہیں تھا اور انہیں محض ہلاک کرنے کے در پے ہونا تھا یامنحوس سمجھ کر اڑانا مقصود تھا تو یہ کسی صورت جائز نہیں کیونکہ بقول ڈاکٹر حمید اللہ وہ وہاں بسیرا کرنا چاہتے تھے اور یہ بچوں کی تفریح کی جگہ تھی ۔ بچوں کی تفریح میں حائل ہونے کی وجہ سے پرندوں کو اڑایا جاتا تھا اور ان کی ہلاکت مقصود نہ تھی اور اس کے سوا کوئی وجہ نہیں تھی۔
(۳) آپ نے وہاں تالاب میں تیرنا سیکھ لیا تھا ۔ عرب تین اوصاف کے حامل شخص کو کامل کہتے تھے جن میں ایک وصف تیراکی بھی تھا ۔ ڈاکٹر محمد عجان الخطیب بتاتا ہے ’’ جو شخص کتابت ‘ تیر اندازی اور تیراکی کا ماہر ہوتا عرب اسے کامل کا لقب دیتے تھے ۔ ( ضیاالنبی ۔۷،۱۱۰) ۔ تیراکی کا فن سیکھ جانا بچوں کی فطرت کے عین موافق ہے ۔ نہ جانے ولیم کو یہ فن کانٹے کی طرح کیوں کھٹکتا ہے ۔ ؟
(۴) ولیم میور کہتا ہے کہ آپ ﷺ مدینہ سے حدیبیہ جاتے ہوئے اپنی والدہ کی قبر پر روئے اور اپنی والدہ کے لیے بخشش کی دعا مانگی ۔ والدہ کی قبر انور پر حاضری دی یہ ان کا عمل اپنی والدہ سے محبت کا اظہار ہے ،۔ نیز یہ بھی ایک فطری عمل ہے کہ والدہ مرحومہ کی یاد آئے اور آنسو چھلک پڑیں قبر پر حاضری دینے سے اور آنکھوں کا اشک بار ہو جانے میں کوئی تعجب کی بات نہیں بلکہ قبروں پر حاضری دینے سے موت یاد آتی ہے ۔ خدائے واحد پر یقین کامل ہو جاتا ہے اور اس ذات سے رشتہ مستحکم ہونے کا ذریعہ ہے کہ آخر اسی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اس طرح سے موت ‘ خوف خدا اور آخرت پر ایمان میں پختگی آ جاتی ہے فوت شدگان کے حق میں مغفرت کی دعا مانگنا باعث نجات ہے لیکن وہ معاشرہ جس میں زندوں کو بھی کونے لگا دیا جاتا ہے یعنی جو بوڑھے ہو جاتے ہیں ان کو اولڈ ہائوس بھیج دیتے ہیں ۔ وہ وہیں مر کھپ جاتے ہیں اور ان کی قبر کا بھی کوئی نام و نشان نہیں ملتا انہیں اپنے اسلاف کی قبروں کا اتا پتا نہیں تو وہ حاضری کہا ںدیں اور ان کی آنکھیں کیونکر اشک بار ہوں؟ ۔ انسان کے جسم میں دل ہے وہ پتھر کا ٹکڑا نہیں اورجو رنج و غم میں نہ پسیجے وہ دل نہیں پتھر ہے ۔ غالب نے خوب کہا : دل ہے نہ کہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں۔ رونے سے شدت غم کم ہوتی ہے غم کا بار ہلکا ہوتا ہے ۔
شدتِ غم سے جو روتا ہے اسے رونے دو
اس طرح پہلوئے آرام نکل آتا ہے
اعتراض نمبر۶۰
علم نفسیات ہمیں زندگی کے ابتدائی دور یا تین سالوں کے درد ناک تجربات کی اہمیت بیان کرتا ہے کہ باپ کے نہ ہونے سے محمد ﷺ کے دل میں احساس محرومی نے جنم لیا ہوگا اور لڑکپن کے تجربات نے اس احسا س کو تقویت دی ہو گی ۔ ’’ واٹ ‘‘ ( ضیاالنبی ۔۷۔۲۲۲)
جواب: آپﷺ کی ولادت کی خبر دادا جان کو پہنچی تو وہ گھر آتے ہیں اور ننھے پیارے نومولود کو اٹھا کر حصول برکت کے لیے کعبہ لے جاتے ہیںوہاں عطائے خدا وندی کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے ان کو بیٹے عبداللہ کی نشانی سے نوازا ۔ بڑے طمطراق سے عقیقہ کرتے ہیں اور مرضعہ کو بہت انعام دیتے ہیں ۔ آپ کے چچا زبیرؓ انہیں گودی میں اٹھا ئے پھر تے ہیں ۔ وہی حضرت زبیرؓ ہیں جنہوں نے ابو طالب سے درخواست کی کہ تجارتی سفر میں برکت کے لیے میرے بھتیجے کو میرے ساتھ کر دیں ۔ اس بچے کے سر پرست ‘ خیر خواہ ہیں ‘ غریبوں ‘ حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرتے ہوں تو بھلا آپ سے کیونکر بے اعتنائی برتیں گے ۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تو پھر احساس محرومی کیسا! احساس محرومی تو ان بچوں کو دامن گیر ہوتا ہے جن کے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہ ہو ‘ ادھر یہ حال کہ برکتوں کے لیے آپ ﷺ کواپنے ساتھ تجارتی سفر میں لے جانے کے خواہاں ہیں ۔ یہ درست ہے کہ آ پﷺ کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا ‘ ماں داغ مفارقت دے گئیں ۔ بڑے صدمے ہیں ایک سے ایک بڑھ کر ہے ۔ لیکن سر پر ستوں نے ایسا پیار دیا جس سے احساس محرومی کی ایک پرچھائی بھی آپ تک نہ پہنچ پائی۔ دادا جان ‘ جس کو عزیز رکھتا ہے ‘ چچا گودی میں اٹھائے لوریاں دیتا ہے اور کوئی چچا آپ کی ولادت کی خوشی میں اپنی لونڈی کو آزاد کرتا ہے اور آپ ﷺکی تائیاں اپنے بیٹوں سے زیادہ عزیز رکھتی ہیں ( حضرت زبیر اور حضرت ابو طالب کی ازواج ) آپ ﷺنے فاطمہ بن اسد کو ماں کہا اور یہ فرمایا ’’ وہ خود بھوکا رہتیں مگر مجھے کھانا کھلاتیں ۔ ‘‘ آپ ﷺکی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ نہیں آیا جس سے آپ ﷺمیںاحساس محرومی پیدا ہوا ہو‘ کسی ایک واقعہ کی نشان دہی کی جاتی تا کہ الزام میں جان پڑتی مگر انہیں کیا خبر وہ تو محض الزام دھرتے ہیںانہیں دلیل سے غرض نہیں ۔ کوئی یہ کہہ دے کہ لڑکپن کا زمانہ خوشحالی کا نہ تھا لیکن یہ بھی درست نہیں کیونکہ کہیں بھی کوئی ادنی ٰسا واقعہ ایسا پیش نہیں آیا جس سے یہ ثابت ہو کہ آپ ﷺ کا یہ زمانہ خوشحال نہ تھا ۔ محرومی کے احساسات نہیں بلکہ‘ آپ ﷺمیں خود داری ‘ حریت ‘ شجاعت اور صبر واستقلال کے احساسات کوٹ کوٹ کر بھرے تھے۔ احساس محرومی کا طعنہ دینے والوں کے لیے یہ کھلا چیلنج ہے اور جواب دیں کہ آپ ﷺنے اپنا تعارف دادا جان سے نسبت جوڑ کر کیوں کرایا ؟۔ ’’ اناالنبی لاکذب۔ اناابن عبدالمطلب‘‘ یہ آپ نے سر پرستوں کو اعزاز بخشا حضرت حمزہؓ نے کمان مار کر ابو جہل کا سر پھاڑ دیا اگر ایسا نہ کیا جاتا اور بدلہ نہ لیا جاتا تو بجا طور پر کوئی منچلا طعن کرتا ‘ اگر آج اس کا باپ حضرت عبداللہ زندہ ہوتا تو ابو جہل کو یہ جرات نہ ہوتی ‘ اگر اس سے بدلہ نہ لیا جاتا تو ہو سکتا ہے آپ ﷺ از خود کہتے کہ کاش میرا باپ زندہ ہوتا تو بدلہ لیتا لیکن تاریخ خاموش ہے بلکہ سر پرستوں نے ہر موقعہ پر آپ کا خیال رکھا اور اپنی اولاد سے عزیز رکھا نیز کل کو ہادی عالم ﷺاللہ تعالی ٰکا مژدہ سنانے والے تھے کہ ’’ لاتقنطوامن رحمۃاللہ ‘‘ ( اللہ کی رحمت سے نا امید مت ہوں)تو وہ از خود کیسے اللہ سے نا امید اور احساس امحرومی کا شکار ہو سکتے تھے ۔
اعتراض نمبر۶۱
آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ پر الزام دھرا کہ وہ مومنہ نہ تھیں ۔ (نعوذ باللہ)
جواب: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے مروی حدیث کا ایک ٹکڑا یہ ہے ’’ پھر میں نے ان کے استغفار کی اجازت طلب کی تو مجھے اس کی اجازت نہیں دی اور یہ آیت نازل ہوئی ‘‘۔ ’’ ما کان لنبی و الزین امنو ا ان یستغفر وا للمشرکین و لوکان اولی من بعد ما تبین لھم انھم اصحب الجحیم ( سورۃ توبہ ۔ ۱۱۳) ترجمہ : ’’ نبی اور ایمان والوں کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لیے استغفار کریں خواہ وہ ان کے قرابت دار ہوں جبکہ ان پر ظاہر ہو چکا ہے کہ وہ ( مشرکین)دوزخی ہیں ۔‘‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ نبی ﷺ کی والدہ ماجدہ مشرکہ تھیں ۔ اس آیت کے شان نزول کے متعلق صحیح مسلم و بخاری کی حدیث آگے آ رہی ہے ۔ رہی یہ روایت تو اس کی سند ضعیف ہے اس کی سند میں ابن جریج مدلس ہے اور ابو ایوب بن ہانی ضعیف ہے ۔
امام ذہبی نے بھی اس پر تعجب کیا ہے اور کہا ہے کہ ایوب ہانی ضعیف ہے اور ابن حجر نے کہا کہ ابن معین نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے ۔ صحیح حدیث یہ ہے ’’ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی پھر آپ روئے اور جو لوگ آپ کے گرد تھے ‘ وہ بھی روئے ‘ پھر آپ نے فرمایا میں نے اپنے رب سے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی اجازت چاہی تو میرے رب نے مجھے اجازت دے دی ‘ پھر میں نے اپنی والدہ کے لیے استغفار کی اجازت طلب کی تو مجھے اجازت نہ دی ‘ پس تم قبروں کی زیارت کرو ‘ یہ تمہیں آخرت کی یاد دلاتی ہیں ‘‘۔ اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو سیدہ آمنہؓ کی قبر پر کھڑے ہونے کی اجازت دی گئی ہے ۔ اگر آپ مشرکہ ( نعوذ باللہ ) ہوتیں تو یہ اجازت نہ دی جاتی کیونکہ ارشاد ربانی ہے ۔ ’’ ولا تصل علی احد منھم مات ابدا وَ لاَتَقُم َعلی ٰ قبر ہ ‘‘ (ترجمہ) آپ ﷺکفار میں سے کسی کی نماز جنازہ پڑھیں نہ ان میں سے کسی کی قبر پر کھڑے ہوں ‘‘ ( التوبہ۸۴،پارہ۱۰) اب سوال یہ ہے کہ استغفار کی اجازت کیوں نہ ملی ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ غیر معصوم کے لیے استغفار کرنا موہم معصیت ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا تھا کہ آپ ﷺکی والدہ ماجدہ کے لیے استغفار کیا جائے کیونکہ اس سے لوگوں میں یہ وہم پیدا ہوتا کہ آپ ﷺکی والدہ نے ناجائز کام کیے تھے ‘ اس لیے ان کے لیے مغفرت طلب کرنے کی ضرورت تھی ( تبیان القرآن ۔ج۵۔۲۷۳)
دوم: آپ کے والدین کریمین نے بعثت سے پہلے زمانہ فترت میں وفات پائی ‘ فترت کے زمانہ میں فوت شدگان پر عذاب نہیں ہے ۔ارشاد خداوندی ہے ’’ و ماکنا معذبین حتی نبعث رسولا ‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷۔۱۵) ترجمہ : اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ ایک رسول بھیج نہ لیں۔ ‘‘اہل کلام اور اہل اصول سے اشاعرہ نے اور شافعیہ سے فقہا نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ’’ جو شخص ایسے حال میں فوت ہو گیا کہ اس کو نبوت کی دعوت نہیں پہنچی ‘ تو وہ ناجی فوت ہوا ‘‘ ۔ ( سیرت محمدیہ اردو ترجمہ مواہب لدینہ ۔ج۔۱ص۱۲۱)
یہ سوال نہ کیا جائے کہ ہو سکتا ہے کہ آپ ﷺ کی والدہ شرک پر فوت ہوئی ہوں اور آپ ﷺ اس کے لیے استغفار کی اجازت چاہتے ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے ہی آپ ﷺ کو مشرکین کے لیے استفغار سے منع کر دیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ ما کان لنبی والذین امنوا ان یستغفر و اللمشرکین ۔(التوبہ ۱۱۳،پارہ ۱۰)( نبی اور مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے استفغار کریں)یہ آیت ہجرت سے پہلے نازل ہوئی تھی اور والدہ کی قبر کی زیارت آپ ﷺ نے صلح حدیبیہ یا فتح مکہ کے بعد کی ہے ۔ علامہ سیوطی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کے والدین کریمین اہل ِفترت میں سے تھے اور اہل فترت نجات یافتہ ہیں ارشاد ربانی ہے ’’و ما کنا معذبین حتی نبعث رسولا ‘‘(بنی اسرائیل۱۵،پارہ ۱۵)ترجمہ: ہم اس وقت تک عذاب نہیں دینے والے جب تک کہ رسول کو نہ بھیج دیں ) سورہ طہ میں ہے (ترجمہ) ’’ اور اگر ہم ان کو اس سے پہلے عذاب سے ہلاک کر دیتے تو وہ ضرور کہتے کہ اے ہمارے رب تو نے ہماری طرف رسول کیوں نہیں بھیجا تاکہ ہم ذلیل و رسوا ہونے سے پہلے تیری بات کی پیروی کر لیتے ۔‘‘ سورہ شعراء (۲۰۹۔۲۰۸) میں ہے ۔وما اھلکنا من قریہ الا لھا منذرون ہ ذکری وما کنا ظالمین ہ(ترجمہ)ہم نے جس بستی کو ہلاک کیا تو پہلے اس بستی میں اپنے عذاب سے ڈرانے والوں کو بھیجا اور ہم ظالم نہیں ہیں (کے بغیر بتائے کے عذاب نال کر دیں) علامہ صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے سلسلہ نسب میں تمام آباء اور امہات مومن ہیں اور ان میں سے کسی کا خاتمہ کفر اور شرک پر ہوا ۔نہ ان میں سے کوئی کسی بدکاری میں ملوث رہا اور رسول کا نور ہمیشہ اصلاب طاہرین سے ارحام طاہرات میں منتقل ہوتا رہا ۔ حدیث شریف میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا’’ میں ہمیشہ پاک پشتوں سے پاک رحموں کی طرف منتقل ہوتا رہا ہوں خلاصہ یہ کہ آپ ﷺ کے تمام آباء و امہات طیب و طاہر اور مومن تھے ۔
امام مسلم نے اپنی صحیح میں اور امام ترمذی ؒ نے اپنی جامع میں واثلہ بن اسقع سے روایت کیا کہ رسول اللہ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ نے اولاد ابراہیم ؑ سے حضرت اسماعیل ؑ کو پسند فرما لیا اور اولاد اسماعیل ؑ سے بنو کنانہ کو پسند فرما لیا اور بنو کنانہ سے قریش کو پسند فرما لیا اور بنوقریش سے بنو ہاشم کو اور بنو ہاشم سے مجھے پسند فرما لیا۔‘‘ آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ ؓ طاہرہ اور مومنہ تھیں ۔ آپ پر لگایا گیا الزام باطل ہے ۔
اعتراض نمبر۶۲
سر ولیم میور کہتا ہے یہ بات یعنی ان لوگوں کی مغفرت کی دعا مانگنے کی ممانعت کرنا جو حالت کفر میں مرے ہوں ‘ پیغمبر صاحب ﷺکے احکامات کی سختی اور شدت کی ‘ ان لوگوں کے حق میں جو دین سے جہالت کی حالت میں مرے ہوں ‘ ایک عجیب مثال ہے ۔ ‘‘ ( ولیم میور ۔خطبات احمدیہ ۔ ۴۴۵۔۴۴۶)
جواب: سر ولیم میور نے اپنی کتاب میںآنحضرت ﷺ کا اپنی والدہ کی قبر پر تشریف لے جانے اور بخشش کی دعا مانگنے کا ذکر کیا ہے پھر مذکورہ بالا اعتراض کر دیا اس کے جواب میں سر سید لکھتے ہیں ’’ ہم اس روایت کی صحت اور غیر صحت کی بحث کو چھوڑ کر یہ کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک ان لوگوں کے حق میں دعائے مغفرت نہ کرنے میں جو خدائے واحد پر ایمان نہ رکھتے ہوں اور انبیاء سابقین کے دین کو بھی نہ مانتے ہوں بلکہ محض بے ایمانی کی حالت میں مر گئے ہوں کسی طرح کی سختی اور شدت نہیں ہے ‘ بلکہ زندہ آدمیوں کے لیے بت پرستی کے چھوڑنے اور اللہ تعالی ٰکی واحدنیت کے اقرار کی ترغیب دینے کے لیے ایک نہایت کار ٓمد اور عمدہ ذریعہ ہے ۔ پس وہ شخص ایسا کرئے ‘ اس پر سختی کا الزام نہیں ہو سکتا ۔ مگر ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اگر مذکورہ بالا امر کے سبب آنحضرت ﷺکے احکامات پر سختی اور شدت کا الزام لگایا گیا ہے تو رحیم عیسائی مذہب میں ان لوگوں کے واسطے جو گو اللہ تعالیٰ کو مانتے ہوں مگر حضرت عیسٰؑی کے ابن اللہ ہونے کا انکار کرتے ہوں ‘ کون سا نرم فیاضانہ اور ترحم آمیز سلوک کیا گیا ہے مگر افسوس ہے کہ ہماری یہ امید پوری نہیں ہوئی ‘ ہمارے خلاف توقع رحیم مذہب عیسائی میں غیر معتقدین کے لیے اس سے بھی زیادہ سخت احکامات معلوم ہوئے ۔ اس کا ایک نمونہ یہ ہے کہ ایتھسنین خطبہ کو جو انگلستان کے تمام پرو ٹسٹنٹ گر جائوں میں بروز ہائے معین پڑھا جاتا ہے اور تمام اہل کلیسا کی منظوری سے منظور ہوا ‘ ان سب عقائد کے بیان کرنے کے بعدا ن کا ماننا ہر شخص پر خواہ نخواہ فرض ہے بالتصر یح لکھا گیا ہے کہ یہ عیسوی عقیدہ ہے‘ جس پر بدوں اعتقاد رکھنے کے کوئی آدمی نجات نہیں پا سکتا ‘ پس جبکہ رحیم عیسائی مذہب کے بموجب ایسا شخص نجات کا مستحق نہیں ہے اور اس لیے لکھی گئی دعائے مغفرت بھی اس کے حق میں مفید نہیں ہے تو عیسوی مذہب کو اس باب میں مذہب اسلام پر کیا فوقیت ہے ‘‘۔ ؟
اعتراض نمبر۶۳
’’ آنحضرت ﷺ نے اپنی رضاعی بہن الشیماکے کندھے پر دانت گاڑھ دیے تھے اس پر ولیم میورکو اعتراض ہے ۔ ‘‘
جواب : ایک روز آپ ﷺکی بڑی رضاعی بہن الشیماؓاٹھا کر آپ کو جا رہی تھی ۔ راستہ میں آپ ﷺکو اتنا گد گدایا جس سے آپ کو کوفت ہوئی اور اپنی رضاعی بہن کے کندھے پر دانت گاڑ دیے جس سے ان مٹ نشان پڑ گئے ۔ اس واقعہ کے ۵۵ سال بعد بوڑھی شیماکو اسلامی فوج کے دستے نے پکڑ کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کیا کیونکہ بنی سعد قبیلہ نے بنو ہوازن و ثقیف کی جنگ میں مدد کی اور شانہ بشانہ لڑے ۔ دانتوں کے گاڑنے والا حضرت شیماؓ نے یاد دلایا اور آپ کو وہ واقعہ یاد آگیا اور فطرت کے عین مطابق آپ نے رضاعی بہن سے وہی سلوک کیا جو ایک مشفق بھائی کو بہن سے کرنا چاہیے تھا ۔ ( ن ۔۲۔۵۱۸)
آپ نے ان کے قبیلہ کے کم از کم چھ ہزار قیدی بھی رہا کر دئیے اور اپنی رضاعی بہن کو اونٹ ‘ بکریاں ‘ تین غلام اور ایک لونڈی عطا کر کے رخصت کیا ۔ بڑے بڑے اور گہرے زخم مندمل ہو جاتے ہیں اور اپنا نشان تک نہیں چھوڑتے لیکن ننھے آنحضرت ﷺ نے دانت اپنی بہن کے کندھے میں گاڑ دئیے اور ان سے پڑنے والے نشانات مدت العمر باقی رہے ۔ یہ نشانات آپ کی شناخت کا باعث بنے ‘ قبیلے کے قیدیوں کی رہائی کا سبب بنے بلکہ پورے قبیلہ کے لوگ رہائی پا گئے ۔ آپ بھی اسلام لائیں اور پورا قبیلہ بھی مسلمان ہو گیا ۔
نیشنلا ئزیشن کا خاتمہ: آپﷺ نے فرمایا سچی بات بہت پیاری ہوتی ہے اور مجھے سچی بات بہت محبوب ہے میں آپ لوگوں کا انتطار کرتا رہا ہوں ‘ آپ کی طرف سے مایوس ہو کر میں نے مال غنیمت تقسیم کر دیا اور قیدی بھی تقسیم کر دئیے اب یہ میرے پاس ہیں اور نہ میرے اختیار میں ‘ کہ حکم کر کے سب کو واپس کردوں اب آپ دو میں سے ایک بات منظور کر لیجئے ۔ تم مال واپس لینا چاہتے ہو یا قیدی جو غلام بن چکے ہیں ان کو واپس لینا چاہتے ہو؟ ہوازن کے وفد نے جواب دیا کہ ہمارے نزد یک خاندانی شرف کے برابرکوئی چیز نہیں ‘ ہم اپنے قیدیوں کو واپس لینا چاہتے ہیں آپ ﷺنے فرمایا :؛ ’’جب ظہر کی نماز پڑھ لوں تو تم لوگ اٹھ کر کہنا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کو مومنین کی جانب سے سفارشی بناتے ہیں اور مومنین کو رسول اللہﷺ کی جانب سے سفارشی بناتے ہیں کہ ٓاپ ہمارے قیدی ہمیں واپس کر دیں ۔ چنانچہ آپ ﷺظہر کی نماز پڑھ چکے تو ان لوگوں نے یہی کیا ۔ جواب میں آپﷺ نے مسلمانوں سے یوں فرمایا تمہارے یہ بھائی اہل ہوازن تائب ہو کر آئے ہیں ‘ میں نے ان سے طے کیا ہے کہ ان کو صرف ان کے قیدی واپس مل سکیں گے۔ اب جو صاحب خوشی سے واپس کر دے تو بہت بہتر ہے لیکن جو اس کا عوض لینا چاہیں ‘ تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ جیسے ہی آئندہ ایسا موقع ہو گا کہ ہمارے پاس قبضہ میں غلام آئیں تو ان کا عوض چکا دوں گا ۔ چنانچہ میں اپنا اور بنو عبدالمطلب کا حصہ تمہیں دیتا ہوں ۔‘‘ آپ ﷺکی اس رائے پر مجمع سے آواز بلند ہوئی ’’ ہم اس کے لیے بڑی خوشی سے تیار ہیں یعنی بلا شرط ان قیدیوں کو جو اب ہمارے غلام ہیں ‘ آزاد کر تے ہیں تا کہ وہ اپنے رشتہ داروں میں چلے جائیں ‘‘ ۔ اس سے اسلام میں انفرادی ملکیت کا احترام بھی ثابت ہوتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کسی امیر یا خلیفہ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کوئی ایسا آرڈینینس جاری کرئے جس سے انفرادی ملکیت ختم ہوتی ہے ۔ نیشنلائزیشن کا اسلام میں کوئی جواز نہیں ۔ بنو ہوازن کے چھ ہزار قیدی لو ٹا دئیے اور آنحضرت ﷺ نے سارے قیدیوں کو ایک ایک قبطی چادر بھی مرحمت فرمائی ۔ ( خاتم النبین ۔ص۔۸۵۹۔۸۶۰)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...