Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

حضرت ابو طالب کی کفالت میں
ARI Id

1689956726155_56117725

Access

Open/Free Access

Pages

۲۲۶

حضرت عبدالمطلب کی کفالت
اعتراض نمبر ۶۴
کفار اسلام نہ قبول کرنے کا بہانہ بناتے تھے کہ وہ دین آباء پر قائم ہیں ۔ آبائی روایات کا علمبردار ہونے اور مذہبی صداقت کا مخالف ہونے کی وجہ سے آباو اجداد پر قرآن حکیم جو حملے کرتا ہے ، ممکن ہے ان حملوں کے پیچھے محمدﷺ کی وہ لا شعوری تلخی کار فرما ہوجو ان کے دل میں اس وجہ سے پیدا ہو گئی تھی کہ ان کے آباء نے بچپن میں انھیں بے یارومددگار چھوڑ دیا تھا‘‘( ضیا النبی۷ــ/۴۱۲)
(۲)بعض حضرات کا کہنا ہے کہ بہت کچھ ہوتے ہوئے عبدالمطلب نے اپنے پوتے کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیا تھا اور حضور ﷺ پر خرچ نہ کرتے تھے ۔(سیرت النبی اعلان نبوت سے پہلے ۔۲۸۸)
۳۔سر ولیم میور کہتا ہے کہ جب ’’آنحضرت(ﷺ) دادا کے جنازہ کے ہمراہ قبرستان حجر کو گئے تو لوگوں نے ان کو روتے دیکھا۔‘‘
۴۔مارگولیس کو دادا (عبدالمطلب) اپنے پوتے (محمدﷺ) پر مہربان نظر نہیں آتا ۔(سیرت النبی )
جواب:’’واٹ‘‘ جانتا ہے کہ آپ ﷺکے والد کا انتقال آپ ﷺکی پیدائش سے چند ہفتے پہلے ہو گیا تھا۔ دادا جان نے نہایت ذمہ داری سے آپ کی نگہداشت کی، مرتے دم تک کسی کمی کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ ان کی وفات کے بعد آپﷺ کے چچا ابو طالب نے کفالت کی ذمہ داری سنبھالی اور کفار کی دشمنی حد سے بڑھی توپہاڑ جیسی مخالفت کا مردانہ وار مقابلہ کیااور آپ کا ساتھ کسی موڑ پر بھی نہ چھوڑا۔ یہی وہ چچا ہیں جس نے نکاح کا خطبہ پڑھا،مقاطعہ قریش میں اڑھائی سال تک مصائب کے طوفان کا مقابلہ کیااور اپنے بھتیجے کی طرف ہر آنے والے دکھ کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ آپ کا چچا زبیر ؓانھیں گود میں لیے لوریاں دیتا نظر آتا ہے۔ آپﷺ کو بچپن میں کسی ایسے تجربہ سے گزرنا نہیں پڑا تھا جس کی وجہ سے آپ کے لا شعور میں آباء کی نفرت جنم لیتی ہو۔آپ وہ دین لائے جس نے والدین کو اُف تک نہ کہو کا درس دیا، بڑوں کی عزت کرنے کی تلقین کی ، بھلا وہ ذات رحمت العالمین اپنے آباء سے کیسے نفرت کر سکتی ہے ؟ ہاں مگر ان کی مخالفت محض مذہبی بنیاد پر تھی کہ وہ بت پرستی چھوڑ دیں کیونکہ بت بیکار ہیں ، نہ سنتے ہیں نہ بولتے، نہ کچھ کرنے کی سکت رکھتے ہیں حتّٰی کہ ناک پر بیٹھی مکھی کو اڑا نہیں سکتے۔ دنیا نے دیکھا کہ جب اللہ کے لیے تلوار لہراتی ہے۔ میدان جنگ میں آمنا سامنا ہوتا ہے تو پھر کوئی قریب سے قریب تر رشتہ دار جو دین کا مخالف ہو ، تلوار کی زد میں آجائے تو بچتا نہیں ہے۔ ایک مرتبہ ابوبکرؓ کے بیٹے نے کہا کہ ابا جی آپ میری تلوار کی زد میں تھے مگر میں نے باپ سمجھ کر تلوار نہ چلائی، ابوبکر نے جواب میں فرمایااگر تو میری تلوار کی زد میں ہوتا تو کبھی نہ بچتا۔ جنگ بدر میں قریبی رشتہ دار آمنے سامنے تھے اور کٹ رہے تھے۔رشتوں کا پاس تک نہ تھا۔ خیال تھا تو اللہ اور اس کے رسول کااوراللہ کے دیے دین کا۔۔آپﷺ کے آباء نے سوائے ابو لہب کے ہر موڑ پر آپ کا ساتھ دیا۔ ساتھ دینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ان کے آباء کا احترام ہمیشہ کیا اور ان کی معاونت کو اعلیٰ الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا جیسے آپ نے اپنے دادا جان کے بارے میں فرمایا’’انا النبی لاکذب انا ابن عبد المطلب‘‘ بھلا دادا آپ کا ساتھ نہ دیتے ۔ چھوڑ دیتے تو کیا کوئی ایسے حالات میں اس کی محبت و معاونت کو اس طرح بیان کرتا؟
آپ نے پیغام توحید کی تبلیغ کی جس سے کفار بھڑک اٹھے۔وہ اپنے گمراہ آباء کے مذہب سے قطعاََ کنارہ کش نہیں ہو سکتے تھے‘ جس پر انھوں نے رسول مقبول ﷺکی مخالفت شروع کردی ۔قرآن کریم اس باطل مذہب کی مذمت کرتا ہے ۔قرآن کریم کی اس برملا تردید پر کفار سیخ پا ہوگئے۔یہ حقیقت ہے کہ طرز کہن پر ڈٹ جانا اور نئی سچی طرزکو اپنا نا نہایت کٹھن اور دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے۔
آئینِ نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
یہی بات ان کے قلوب و اذہان میں سرایت کر چکی تھی اور مستشرق کا یہ کہنا کہ قرآن کریم کے تابڑ توڑ مذمتی حملوں کے پیچھے آپ ﷺ کی سوچ کار فرما ہے۔مستشرق اس بات سے ظاہر کرتا ہے کہ قرآن کریم آپ کی تصنیف ہے( نعوذباللہ) اور ان کے مذہب کی مخالفت آپﷺ کے افکار کی مرہون منت ہے ۔ جب کہ یہ محض باطل ہے ۔وہ اس طرح جیسے حضرت عیسیٰ ؑ پر اللہ تعالیٰ نے کتاب اتاری اسی طرح نبی مکرم پر بھی اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی۔ اگر مسیح ؑ کی کتاب مقدس کو مانتے ہیں تو قرآن کریم کو بھی الہامی کتاب تسلیم کرنے میں کیا مجبوری اور کون سا امر مانع ہے ۔ایک کو مانتے ہو ،دوسری کو کیوں نہیں مانتے؟
دوم:آپ کے ارشادات کا ذخیرہ بطور احادیث محفوظ ہے۔کلام الہٰی اور آپ کے کلام ( ذخیرہ حدیث)میں واضح فرق ہے جب کہ ایک ہی زبان اقدس سے یہ دونوں چشمے ہدایت کے پھوٹتے ہیں ۔ ان ہدایت کے چشموں میں واضح فرق سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم آپ کی تصنیف نہیں ہے ۔ الہامی کتاب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے اور اس کی حفاظت کا ذمہ بھی اپنے ذمہ لیا ہے ۔ ارشاد خدا وندی ہے
’’ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الْذِّکْرَ وَاِنَّ لَہٗ لَحَافِظُوْنَ‘‘(ترجمہ) ’’بے شک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بے شک ہم خود اس کے نگہبان ہیں ‘‘()
اعتراض ۶۴کا دوسرا جز
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ بہت کچھ ہوتے ہوئے عبد المطلب نے اپنے پوتے کو بے یار ومدد گار چھوڑ دیا تھا اور حضور پر خرچ نہ کرتے تھے( سیرت اعلان نبوت سے پہلے۔۲۸۸)
۲ جب آنحضرت ﷺ دادا کے جنازے کے ہمراہ قبر ستان حجر میں گئے تو لوگوں نے ان کو روتے دیکھا ۔ (خطبات احمدیہ ۔۴۳۲)
۳۔ مارگولیس کو آپ ﷺ کے دادا ( عبدالمطلب ) اپنے پوتے محمد ﷺ پر مہربان نظر نہیں آتے ۔ (سیرت النبی ۔ج۔۱۔۱۱۶)
جواب:آپ کے دادا کی امارت کو اوپر کے اعتراض میں تسلیم کیا گیا ہے ۔وہ اس فقرہ’’ کہ بہت کچھ ہوتے ہوئے‘‘سے مترشح ہوتا ہے۔ اور یہ ہے بھی حقیقت اور تاریخ اس کی گواہی میں پیش پیش ہے۔ماخذ اس بات کی پرزور تائید کرتے ہیں ۔آپ نے عقیقہ کیا اور ضیافت کاانتظام نہایت دریا دلی سے کیا ۔مرضعہ کو انعام و اکرام سے نوازا، اپنے بیٹے عبداللہ کے لیے سو اونٹوں کی قربانی دی، آپﷺ کی گم شدگی کے بعد بازیابی پر ہزار ناقہ اور ایک سورطل سونا تصدق کیا اور اس موقعہ پر گائے اور بکریاں ذبح کر کے بڑی دعوت کا انتظام کیا۔کیا یہی باتیں ہیں جو اپنے ننھے منے پیارے پوتے کو بے یار و مدد گار چھورنے کی؟ کیا یہی باتیں ہیں کہ آپ ﷺپر کچھ خرچ نہ کیا ؟ بلکہ مستشرقین کے لیے چیلنج ہے کہ بتائیں کس لمحہ آپ کو بے یار و مددگار چھوڑا؟یہ بھی بتائیں کہ کس وقت دادا جان نے آپ پر خرچ کرنے سے ہاتھ روک لیاتھااور کیوں؟ یہ بھی ان کے لیے چیلنج ہے اور اس کا جواب ان کے ذمہ قرض ہے کہ بتائیں آپ پر خرچ نہ کرتے اور بے یارومددگار چھوڑ دینے سے ددھیال کے ننھیال کے ساتھ تعلقات خوشگوار نہ رہے ہوں اور نزاع پیدا ہوا ہو؟ ان حضرات کی خدمت میںعرض ہے کہ آپﷺ کے دادا کی ننھیال کا مسلح دستہ ہی تھا جو قبا سے مدینہ لے آیا جب آپﷺ ہجرت کرکے قبا میں پہنچے تھے۔وہ باہم شیر و شکر تھے۔ان حضرات کا اعتراض محض باطل ہے۔
عبدالمطلب کی کفالت: سیدہ آمنہ کی وفات کے بعد حضرت عبدالمطلب نے اپنے پوتے کو کفالت میں لیا۔اس وقت آنحضرتﷺ کی عمر چھ سال تین ماہ تھی۔دادا جان نے مرتے وقت اپنے بیٹے ابو طالب کو آپ کی کفالت کا ذمہ دار ٹھہرایا۔آخر حضرت عبد المطلب انتقال کر گئے۔اس وقت آپ کی عمر آٹھ سال تھی۔جنازہ اٹھایا گیا تو آپﷺ جنازہ کے ساتھ روتے جاتے تھے۔ عبدالمطلب آپؐ کے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے۔کھانا آتا تو عبد المطلب فرماتے میرے بیٹے کو لائو۔آپﷺ آتے تو انھیں بٹھاتے اور عمدہ عمدہ کھانے ان کے سامنے رکھتے اور کھانے کے لیے اصرار کرتے۔
اعتراض۶۴ کا تیسرا جز
سر ولیم میور کہتا ہے کہ جب ’’آنحضرت (دادا) کے جنازہ کے ہمراہ قبرستان حجر کو گئے تولوگوں نے ان کو روتے دیکھا‘‘۔
جواب: مستشرق کو آپ کے رونے پر بھی اعتراض ہے۔آپ کے دادا جان آپ سے بہت پیار کرتے تھے حتیٰ کہ آپ کی غیر موجودگی میں کھانا نہیں کھاتے تھے( پیغمبر اسلام ۵۷ بحوالہ ابن سعد) تو ایسے محسن کی وفات پر آنسو بہانے میں تعجب نہیں ، تعجب اس پر ہوتا اگر آپ کی آنکھیں اس صدمہ پر اشکبار نہ ہوتیں۔’’ رنج کے وقت دل کا ملائم ہونا اور محبت آمیز جوش کا اٹھنا اور آنکھوں سے آنسوئوں کاٹپ ٹپ بہنا،خدائے رحیم نے انسان کے دل کی تسلّی اور اس کے رنج کو ہلکا کرنے اور غم کی تسکین کا ذریعہ بنایا ہے۔پس آنحضرت ﷺنے بھی اس فطرت کی پیروی کی تھی جو خدا نے انسان میں رکھی ہے‘‘ ( خطبات احمدیہ۔۴۳۲)
صاحب ترجمان السنہ لکھتے ہیں کہ ’’آپ ﷺنے ہم کو یہ ہدایت کی کہ انسان کو جامع سمجھنا چاہیے جس میں قدرت کی جامعیت کا جلوہ کار فرما نظر آئے۔اس میں اپنے محل پر شدت و قہر بھی ہو اور رحمت و کرم بھی‘‘ اگر آپ اپنے دادا جان کے انتقال پر غمگین نہ ہوتے۔آنکھوں سے آنسو نہ بہتے تو وہ دل پتھر ہے اس میں قدرت کی بے پناہ شفقت و رحمت کا ایک ذرہ بھر اثر نہیں۔یہ فرشتہ کی صفت ہے کہ درد کی بے چینی و بے قراری سے نا آشنا ہو، بشری تقاضا یہ ہے اس کے دل پر غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں اس کی آنکھیں ساون بھادوں کی جھڑی بن جائیں یا بے نور ہو جائیں ’’ وابیضت عیناہ من الحزن ھُو کظیم‘‘(حوالہ بالا۔۲۔۸۲)
مگر وہ ان صبر آزما حالات میں بھی حرف شکایت زبان پر نہ لائے اور اپنے عجز و ضعف کا اس طرح برملا اظہار کرے اور اعتراف کر کے خاموش ہو جائے’’ اے ابراھیم ؑ تمھاری جدائی سے ہمارا دل بے شبہ بہت درد مند ہے‘‘ خوشی و غم کا اظہار انسانی فطرت اور شان رضا و تسلیم کے منافی نہیں ہے۔ حضرت انس ؓبیان کرتے ہیں کہ ہم آنحضرتﷺ کے ساتھ ابو یوسف لوہار کے گھر گئے۔ حضرت ابراھیم بن محمد ﷺ کی دودھ پلائی کے شوہر تھے۔آپ نے ابراھیم کو گود میں لیا اور ان کو خوب پیار کیا، دوبارہ اس کے بعد گھر گئے تو دیکھا کہ حضرت ابراھیم دنیا سے سفر کر رہے ہیں یہ دیکھ کر آپؐ کی چشمان مبارک سے آنسو بہنے لگے۔اس پر عبدالرحمن بن عوف ؓبولے یا رسول اللہ!آپ بھی ر و رہے ہیں، آپ نے فرمایا: ابن عوف ! یہ خدا تعالیٰ کی رحمت کا اثر ہے، یہ کہہ کر آپ پھر آنکھوں میں آنسو بھر لائے اور فرمایا: آنکھیں بے شک بہتی ہیں اور بے شبہ دل بھی غمگین ہے لیکن زبان سے صرف وہ نکلے گا جو اس حالت میں خدا کی خوشنودی کا موجب ہوگا۔ اے ابراھیم ! اس میں شبہ نہیں کہ ہم سب تمھاری جدائی میں درد مند ہیں ‘‘۔
مُطَرّف بن الشِخّیر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کے سینہ مبارک سے گریہ و زاری کی آواز اس طرح گونج رہی تھی جیسے ہانڈی کے جوش مارنے کی آواز۔دوسری روایت میں ہے کہ رونے کی وجہ سے آپ کے سینہ مبارک میں چکی کی سی آواز آ رہی تھی ( ترجمان السنہ۔۳۔۳۵۸)۔ فاطمہ بنت اسد وہ خوش نصیب خاتون ہیں جن کی قبر میں سرور دو جہاں لیٹ گئے اور دعا مانگ کرباہر تشریف لائے تو شدت غم سے آنکھیں نم ناک تھیں ۔انتقال کے وقت ان کے سرہانے کھڑے ہو کر فرمایا: ’’اے میری ماں ! خدا آپ پر رحم کرے، آپ میری ماں کے بعد ماں تھیں ۔آپ خود بھوکی رہیتں مجھے کھلاتیں ، آپ کو خود لباس کی ضرورت ہوتی مگر وہ مجھے پہناتی تھیں ۔ اگر محسن کے احسانات میں آنکھوں سے چار آنسو چھلک پڑیں تو کون سی قیامت آجاتی ہے ۔ہاں یہ تعجب خیز ہے کہ اگر آنسو نہ بہائے جائیں۔ درد سے دل پسیجتا ہے اور بندہ رو پڑتا ہے۔آپ بھی دادا جان کی وفات پر جنازہ کے ہمراہ جاتے وقت روئے تو کوئی حرج نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کا اثر ہے ۔اگر آپ نہ روتے تو کہا جاتا کہ مشفق و شفیق دادا کی وفات پر نہ روئے۔وہ دادا جس نے پوتے کی ناز برداریاں کیں، عقیقہ کیا ، ضیافت کی ،نام نامی رکھنے کی رسم ادا کی، رضاعت کے لیے حلیمہ کے سپرد کیا اور اسے انعام سے نوزا، گم شدگی پر مال تصدق کیا اور گائے اور بکریاں ذبح کر کے ضیافت کی وغیرہ وغیرہ،یعنی ہر طرح کا خیال رکھا اب بتائیں کہ محسن کی جدائی پر نہ روتے تو کیا خوشیاں مناتے؟یا کہیں سرور کی محفل سجاتے اور جنازہ کے ساتھ قبرستان میں تشریف نہ لے جاتے ؟
کیوں جی ولیم صاحب!شائد تم نے دل کو پتھر کا ٹکڑا سمجھ رکھا ہے ، جس پر خوشی و غم کا اثر نہیں ہوتا۔۔نہیں نہیں!
دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
کئی موقعوں پر آپﷺ نے آنسو بہائے جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ،مگر اس مستشرق کو ان مواقع پر الزام لگانے کی نہیں سوجھی، اعتراض نہ کیااور صرف وفات عبد المطلب پر آپ کے آنسو بہانے پر کیوں اعتراض ہے، ؟ حد تو یہ ہے کہ اسے صرف آنحضرتﷺ کے رونے پر اعتراض ہے حالانکہ عبد المطلب نے بڑھاپے میں وفات پائی۔پھر بھی درد و غم کا صدمہ اس قدر زیادہ تھا کہ مکہ کی مارکیٹ کئی روز تک بند رہی( پیغمبر اسلام ۔۴۹)۔خاندان کی خواتین اور دوسری رشتہ دار خواتین نے نہ صرف نوحہ خوانی کی ، مرثیے کہے بلکہ غم و اندوہ میں دوچار ہو کر انھوں نے اپنے بال کاٹ ڈالے۔ آپ ﷺ نے دادا جان کی وفات پر آنسو بہائے ۔ غیر آپ ﷺ کے دادا جان کی وفات سے بے حد غم سے نڈھال ہوں اور آپ ﷺ نہ روتے یہ مناسب نہ تھاحالانکہ ولیم کو زمانہ جہالت کے غم و الم کے اظہار کے طریقہ کو مورد الزام ٹھہرانا چاہیے تھا جب کہ وہ درست ، مناسب اور جائز طریقہ کو نشانہ تنقید بناتاہے جو بالکل باطل ہے ۔
اعتراض۶۴ کا چوتھا جز
مارگولیس کو دادا(عبدالمطلب) اپنے پوتے (محمد ﷺ) پر مہربان نظر نہیں آتا۔( سیرت النبی۔ج اول ۔ص ۱۱۶ حاشیہ)
جواب:دادا جان نے شروع دن سے آپ کی نگہداشت کا بیڑا اٹھارکھا تھا۔اس قدر شفقت و پیار دیا کہ انھیں کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔عقیقہ پر ضیافت کا انتظام ، نام رکھنا، مرضعہ کے حوالے کرنے پر اسے انعام و اکرام سے نوازنا، بنو سعد سے واپسی پر گمشدگی ہوئی۔آپ کے ملنے پر انعام واکرام کی بارش کر دی اور اہل عرب کو دعوت دی۔ اور سنیے ، خانہ کعبہ کے سایہ میں آپؐ کے داداجان کے بیٹھنے کے لیے فرش بچھایا جاتا تھا، کسی کی مجال نہ تھی کہ اس پر عبد المطلب کے سوا کوئی دوسرا بیٹھے مگر آپؐ بلا روک ٹوک آبیٹھتے ، حاضرین ہٹانا بھی چاہتے تو عبد المطلب منع کر دیتے اور فرماتے’’ میرے اس بیٹے کو چھوڑ دو، بخدا اس کی خاص شان ہوگی۔ہمام بن ثعلبہ فرماتے ہیں جب آپﷺ مدینہ تشریف لائے تو ہمام بھی مدینہ آیا،اس نے اونٹ مسجد کے قریب بٹھا دیا اور پوچھا! ’’ایکم این عبدالمطلب‘‘ تم میں سے ابن عبدالمطلب کون ہیں ؟ آپ کی نسبت والد کی بجائے دادا کی طرف کیوں کی گئی کیونکہ لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ عبد المطلب کی اولاد سے ایک ایسا مردظہور کرے گا جو اللہ تعالیٰ کی طرف بلائے گا اور اس کی رحمتوں پر اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو ہدایت فرمائے گا، وہی خاتم النبیین ہوگا( مواہب۴۴۱؍۱)
ولیم نے اعتراض کیا کہ آپ ؐ اپنے دادا کے جنازہ کے ساتھ روتے جاتے تھے، اگر دادا آپ پر مہر بان نہ ہوتے تو نہ روتے یا جنازہ میں شریک نہ ہوتے نیز اور کچھ کرتے جس سے ثابت ہوتا کہ دادا واقعی ان پر مہربان نہ تھا۔
قاضی عبدالدائم دائم (سید الوریٰ جلد اول ۱۳۰) بتاتے ہیں کہ ’’ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ عبدالمطلب ، جان دو عالم ﷺکے بغیر کبھی کھانا نہ کھاتے تھے ۔ جب دستر خوان چن دیا جاتاتو عبد المطلب حکم دیتے ’’ عَلَیَّ بِابنیِ‘‘ ( میرے بیٹے کو میرے پاس لائو)۔ آپ آتے تو کبھی ان کو پہلو میں بٹھا لیتے ، کبھی ران پر۔ عمدہ عمدہ کھانے ان کے سامنے رکھتے اور کھانے پر اصرار کرتے۔یہ سارے پہلو مہر بانیوں کے ہیں ، ناراضیوں ، نا خوشیوں اور نا گواریوں کے نہیں ہیں ۔مہربانی اور نا مہربانی کے فرق کو کوئی نہ سمجھے تو ہماری بلا سے ۔
اعتراض نمبر۶۵
’’سید المرسلین ﷺنے اپنے دادا کے لیے دعائے مغفرت طلب نہ کی اور زید بن عمرو بن نوفل کے حق میںدعائے مغفرت فرمائی‘‘
جواب:زید بن نوفل کے بارے میں سید امیرعلی"The Spirit Of Islam" کے اردو ترجمہ روح اسلام میںبحوالہ ابن ہشام بیان کرتے ہیں کہ ’’ زید کے رشتہ دار کے ایک بھائی نے آنحضرت ﷺسے زید کے حق میں شفاعت کی درخواست کی، اگرچہ آنحضرتﷺ خود اپنے دادا عبدالمطلب کے لیے دعائے مغفرت مانگنے پرراضی نہ تھے کیونکہ انھوں نے موت سے پہلے شرک سے توبہ نہ کی تھی ، پھر بھی زید کے لیے دعائے مغفرت فرمائی‘‘(روح اسلام ۔۹۰۔۸۹)
سیرت النبی کامل مرتبہ ابن ہشام ، ترجمہ از مولانا عبد الجلیل صدیقی اور مولانا غلام رسول مہر کے صفحہ ۲۴۹ پر لکھا ہے کہ ’’ ابن اسحق نے کہا ، مجھ سے بیان کیاگیا ہے کہ ان کا بیٹا سعید بن زید بن عمرو بن نوفل اور عمر بن الخطاب ،جوان کے بھائی تھے۔دونوں نے رسول اللہ سے عرض کیا : زید بن عمرو بن نوفل کے لیے دعائے مغفرت فرمائیے ،آپؐ نے فرمایا ’’ نَعَمْ فَانَِّہٗ یُبْعَثُ اُمَّۃَ وَّاحِدَۃً‘‘ ( ہاں ! اس کے لیے دعا کی جائے گی کیونکہ وہ واحد امت کی شکل میں زندہ کیا جائے گا ،،یعنی وہ اپنے عقائد کا ایک ہی فرد ہوگا)
مذکورہ دو عبارتوں میں فرق واضح ہے اور یہ جملہ ’’ اگرچہ آنحضرتﷺ خود اپنے دادا کے لیے دعائے مغفرت مانگنے کے لیے راضی نہ تھے، ابن ہشام سیرت النبی کامل میں نظر نہیں آیا۔
دوم:آنحضرت ﷺکے دادا جان موحد تھے، آپ کی بعثت سے قبل دین ابراھیمی تھا اگرچہ تحریفات کے سبب اصل دین کی روح مسخ ہو چکی تھی پھر بھی لوگ اسی دین کی پیروی کرتے تھے، وہ نکاح بھی دین ابراھیم پر کرتے اور حق مہر بھی اسی دین پر مقرر کرتے۔ اس دین کی بنیادی تعلیم توحید تھی ۔آپ کے دادا جان توحید پرست تھے۔ایک خدا کو ماننے والے ، برائیوں سے بچنے والے اور دین ابراھیمی پر چلنے والے تھے( سیرت النبی اعلان نبوت سے پہلے)۔ پوتے کی پیدائش ہوئی تو انھیں حصول برکت کے لیے اللہ کے گھر لے آئے اور دعا مانگی،اس دعا میں آپ کی درازی عمر، سردار بننے اور حاسدوں اور دشمنوں سے محفوظ رہنے کی اللہ کے حضور درخواست کی گئی تھی۔یہ اللہ تعالیٰ پر کامل یقین کا اظہار دعا تھی، کسی بت کو نہ پکارااور نہ اس سے التجا کی اورنہ ہی پوتے کے لیے امداد چاہی۔یہ قطعی دلیل ان کے موحد ہونے پر دال ہے۔
سوم:حضرت عیسٰی ؑ کے بعد تقریباََ پونے چھ صدیوں کے بعد آخر الزماں نبیﷺ تشریف لائے۔ان درمیانی صدیوں میں نبی ، اللہ کی طرف سے مبعوث نہیں ہوا تھا۔ حضرت عیسٰی ؑ کا دین تحریف ہو چکا تھا۔اس طرح جب تک کوئی نبی تشریف نہ لائے،اس کی عوام تک تعلیمات نہ پہنچیں تو ان پر مواخذہ نہیں ہوتا۔ اگر کوئی بندہ نبی کے اعلان نبوت سے پہلے یہ دنیا چھوڑ جائے تو اس پر بھی مواخذہ نہیں ہوتا۔نبی کریم کی عمر آٹھ سال کی تھی کہ آپ کے شفیق دادا جان رحلت فرما گئے، اس بارے میں ارشاد ربانی ہے ؛
’’وَمَا کُنَّا مُعذِبِینَ حَتَّی نَبعَثَ رَسُولاََ‘‘(ترجمہ) ’’ اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ ایک رسول بھیج نہ لیں‘‘
اللہ تعالیٰ کے نظام عدالت میں پیغمبر ایک بنیادی اہمیت رکھتا ہے ، پیغمبر اور اس کا لایا ہوا پیغام ہی بندوں پر خدا کی حجت ہے، یہ حجت جب تک قائم نہ ہو تو بندوں کو عذاب دینا خلاف انصاف ہو گا کیونکہ اس صورت میں وہ یہ عذر پیش کر سکیں گے کہ ہمیں آگاہ نہیں کیا گیا تھا پھر اب ہم پر یہ گرفت کیسی؟ مگر جب یہ حجت قائم ہو جائے تو پھروہ یہ عذر پیش نہیں کر سکتے اور انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ان لوگوں کو سزا دی جائے جنھوں نے خدا کے بھیجے ہوئے پیغام سے منہ موڑا ہو، اسے پا کر پھر انحراف کیا ہو۔( تفہیم القرآن۵۰۶؍۲)
چہارم:( سیرت محمدیہ ترجمہ مواہب لدنیہ ص ۱۲۵)۔۔ اہل فطرت کی تین اقسام ہیں۔۔۔ ان میں تیسری قسم میں اہل فطرت وہ لوگ بتاتے ہیں جنھوں نے
۱: نہ شرک کیا اور نہ توحید اختیار کی ،، ۲: نہ کسی نبی کی شر یعت میں داخل ہوئے،، ۳: نہ اپنے نفس کے لیے کوئی شریعت اختراع کی،، ۴: نہ کوئی نیا دین اختراع کیا ۔۔۔۔۔۔ تیسری قسم حقیقتاََ وہی اہل فطرت ہیں جو غیر معذب ہیں ۔یہی سبب ہے کہ آپ نے اپنے دادا جان کے لیے دعا کی درخواست نہ کی ، اسی طرح آپ کے والدین کریمین کا مسئلہ ہے اور جہاں تک زید کے لیے دعا مانگنے کا تعلق ہے تو ہو سکتا ہے کہ آپ نے ان کے بیٹے اور ان کے بھائی کی تالیف قلبی فرمائی ہواور دعا فرمائی۔
پنجم:غیر معصوم کے لیے استغفار یا دعا طلب موہوم معصیت ہوتا ہے ۔اس سے لوگوں میں یہ وہم پیدا ہو سکتا ہے کہ آپﷺ کے دادا جان سے کچھ ایسے کام سر زد ہو ئے ہوں گے جو قابل معافی نہ تھے، نا جائزتھے، اس لیے دعا طلب نہ کی۔ حالانکہ وہ موحد تھے،نیک تھے۔ ان سے اس طرح کے کسی کام کی نسبت نہیں کی جا سکتی ہے اس لیے دعا طلب نہ فرمائی۔
کفالت ابو طالب:حضرت عبد المطلب نے وفات سے پہلے آپﷺ کو ابو طالب کی کفالت میں دے دیا تھااور ابو طالب سے فرمایا: ’’ کمال شفقت اور غایت محبت سے ان کی کفالت و تربیت کرنا‘‘ ابو طالب مکہ میں معزز شخصیت تھے۔اہل مکہ ، مختلف خاندانوں اور قبائل کے لوگ آپ کی عزت کرتے تھے۔طبرانی، عمار سے روایت کرتے ہیں ’’ ابو طالب جب اہل مکہ کے لیے کھانا تیار کرواتے تو اس موقع پر حضورﷺ بھی تشریف لاتے۔آپؐ اس وقت تک تشریف فرما نہ ہوتے جب تک نیچے کوئی چیز رکھ نہ لیتے ،اس پر ابو طالب کہا کرتے تھے’’ میرا بھتیجا بڑا مکرم ہے‘‘،
پرورش و کفالت کی ذمہ داری کس کو ملی؛بعض کے علاوہ تمام اہل سیّراس بات پر متفق ہیں کہ یہ سعادت ابو طالب کو ملی۔آپ ﷺکو ابو طالب کے سپرد کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ دوسرے چچائوں کے مقابلے میں وہ آپ سے زیادہ محبت کرتے تھے۔ یہ بھی روایت ہے ’’ابو طالب اور زبیر کے درمیان قرعہ اندازی ہوئی تھی۔
اور یہ بھی مروی ہے ’’ آپ ﷺکو اختیار دیا گیا تھا، آپ نے ابو طالب کی کفالت کو پسند فرمایا تھا‘‘۔ابن قتیبہ کی کتاب کے حاشیہ میں سلام اللہ صدیقی اور شبلی کی کتاب کے حاشیہ میں محمد احسان الحق اور محفل لاہور کے خیر البشر نمبر میں محمد اسلم لکھتے ہیں ’’ جب تک زبیرؓ زندہ رہے،حضور کی پرورش انھوں نے کی اور ان کی وفات کے بعد یہ ذمہ داری ابو طالب کے حصے میں آئی‘‘ سیرت دھلانیہ کے مطابق محققین کے نزدیک یہ روایت مردود ہے کہ زبیرؓ نے پرورش کی اور ان کے بعد ابو طالب کی باری آئی۔شاہ مصباح الدین شکیل اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں ’’ اپنے باپ کی وصیت کے مطابق ابو طالب نے آپ ﷺکی پرورش کی ذمہ داری سنبھالی، اور حضرت زبیرؓ اور ان کی بیوی نے بھی حضورؐ کی نگہداشت میں برابر کا حصہ لیا‘‘( سیرت النبی اعلان نبوت سے پہلے۔۲۴۱)
حضرت ابو طالب کی کفالت میں
اعتراض نمبر۶۶
ابو طالب کے بارے میںسیرت نگار یہی لکھتے ہیں ۔ ۱: وہ کثیر العیال تھے۔ ۲: قلیل المال تھے اور ان کی مالی حالت اچھی نہ تھی‘‘( سیرت اعلان نبوت سے پہلے)
جواب:مجاہدبن جبرین ابو الحجاج سے مروی ہے کہ حضرت علی ؓ پر اللہ کا یہ انعام تھا کہ ان کے ساتھ خیر کا ارادہ فرمایا یہ کہ قریش کو سخت قحط سالی پہنچی تھی اور ابو طالب زیادہ عیال دار تھے، چنانچہ رسول اللہﷺ نے اپنے چچا عباس ؓ سے کہا اور وہ بنو ہاشم سے زیادہ آسودہ حال تھے۔اے عباس! تیرا بھائی ابو طالب کثیرالعیال ہے اور لوگوں کو جو غربت اور قحط سالی لاحق ہو گئی ہے وہ بھی تیرے سامنے ہے ۔آپ چلیے ہم ان سے ان کے عیال کا کچھ بوجھ ہلکا کریں ۔۔۔ اور حضرت علیؑ کو اپنے ساتھ لے لیا اور جعفرؓ کو عباسؓ نے۔( اردو ترجمہ دلائل النبوت جلد دوم ص ۳۷۴)
کثیر العیالی کا تذکرہ اس ضمن میں کیا جاتا ہے کہ آپ ؐ ان کی سرپرستی میں پرورش پا رہے تھے۔ ایک شیعہ سید اولاد حیدر فوق بلگرامی بھی کثیر العیالی کے قائل ہیں ۔بعض حضرات نے یہ لکھا ’’ کھانا پورا نہ ہوتا تھا‘‘ بعض نے لکھا’’ بچے کھانے پر پل پڑتے تھے اور صرف حضور ؐ اس میں شامل نہ ہوتے تھے‘‘ بعض نے لکھا ’’ ابو طالب کے بچوں کی ناک بہتی رہتی اور آنکھوں میں غلیظ مواد جمع رہتااور اسے صاف کرنے کی باری نہ آتی تھی‘‘ بعض نے کہا ’’ ابو طالب نے اپنے کچھ بچے دوسروں میں بانٹ دیے کیونکہ روٹی پوری نہیں ہوتی تھی‘‘ ۔ جواباََ عرض ہے کہ عرب کی ثقافت کے حوالے سے معلوم ہوتا ہے کہ چھ بچوں کے والدین کو کم بچے ہونے کا طعنہ تو دیا جا سکتا ہے ،کثیر العیالی کا طعنہ نہیں دیا جا سکتا۔ کثیر العیالی کے لیے تو والدین دعائیں مانگتے نظر آتے ہیں ۔آپ ﷺکے دادا نے کثیر العیالی کی خواہش پوری ہونے پر اس منت کو ادا کرنے کے لیے اپنے بیٹے عبداللہ ، جس کے نام قرعہ نکلا تھا، کو قربان کرنے کے لیے چھری اٹھالی تھی اور خاندان کی مزاحمت سے عبداللہؓ کے بدلہ میں سو اونٹ قربان کیے۔
دوم: حضرت عبدالمطلب اور حضرت علی ؓ کثیر العیال تھے۔حضرت عبدالمطلب کی چھ بیویاں تھیں جن سے پندرہ بیٹے اور چھ بیٹیاں ہوئیں اور حضرت علی ؓکے چودہ بیٹے اور سترہ بیٹیاں تھیں اور بعض لکھتے ہیں کہ اٹھارہ بیٹے اور اٹھارہ بیٹیاں تھیں۔حضرت اسمعیل ؑ کے بارہ بیٹے تھے۔ان شخصیات کو کثیر العیال کوئی نہیں گردانتا اور صرف ابو طالب کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔کیوں؟ ہیبرہ بن ابی وہب کے خاندان کے ایک فرد مغیرہ کو کیوں نہیں دیکھتے جو آدھے قاضی قدوہ اور آدھے باوا آدم بنے ہوئے ہیں ( والد خالد بن ولید) تیرہ بھائی تھے اسی ولید کے بھائی ہشام کا بیٹا ابو جہل تھا ،سخی تھا ۔اس کاہر وقت مہمان خانہ کھلا رہتا تھا۔ ہر آنے والے کو کھانے پینے کا اذن عام تھا ۔اس کی وفات سے واقعات کو تعین کرتے تھے( حوالہ بالا۔ ۴۳)۔ وجہ یہ ہے کہ بنو مخزوم کا قبیلہ قریش میں دولت مند ، اثر و رسوخ اور عددی قوت کے لحاظ سے ایک مقتدر گھرانہ سمجھا جاتا تھا ۔ اس گھرانہ کے پاس منصب النسل بھی تھا ،لیاقت و صلا حیت میں بھی یکتا تھا۔ ولید بن المغیرہ کے تیرہ بھائی تھے ۔ ان کے والد کو کسی نے کثیر العیالی پر سخت سست نہیں کہا ۔ انہیں حرف تنقید نہیں بنایا ۔ ابو طالب کے فرزند عقیل کے بارہ بیٹے تھے جن میں سے نو میدان کربلا میں شہید ہوئے ان میں مسلم بن عقیل زیادہ مشہور ہیں ۔ یہ کثیر العیالی سب کو پسند ہے مگر ابو طالب کثیر العیال نہ ہونے کے با وجود بھی لوگوں کی ہرزہ سرائی کا نشانہ بنے ہیں کیوں ؟
سوم:یہ ساری کہانی اس دور کی ہے جب آپؐ ابو طالب کے ہاں پرورش پا رہے تھے۔اس وقت کی صورت حال کو دیکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے۔
آنحضرت ﷺ سے حضرت علی ؓ ۲۹ سال چھوٹے ہیں ۔جب آپ ؐ ابو طالب کی کفالت میں آئے اس وقت آپ ﷺکی عمر آٹھ سال تھی۔حضرت علی ؓ ۲۹ سال اور حضرت عقیل ۹ برس چھوٹے تھے ۔چنانچہ جب حضور ابو طالب کی کفالت میں آئے، صرف طالب تھے اور وہ حضور سے عمر میں ایک سال زیادہ تھے۔ ۲: یہ پتہ نہیں چلتا کہ حضرت ام ہانی اور جمانہ اپنے کس بھائی سے کتنی بڑی یا چھوٹی تھیں ۔ اگر فرض کیا جائے کہ یہ دونوں بہنیں بڑی تھیں تو پھر اس وقت ابو طالب کے تین بچے تھے جب آپ ؐ ان کے ہاں تھے۔۔اس صورت میں کثیر العیالی سے متعلق بیانات درست نہیں ہیں اور کثیر العیالی کی تہمت قابل یقین نہیں ہے۔ بعد ازاں آپ کے ہاں اولاد ہوئی تو سب اولادیں چھ ہیں ۔ یہ صورت بھی کثرت عیال پر دلالت نہیں کرتی ۔ یہ تو ایک عام متوسط درجہ خاندان کے افراد کی تعداد ہے ۔ ایسی روایات محض بغض و عناد کا نتیجہ ہیں ان کا حقیقت سے کوئی واسطہ اور تعلق نہیں ہے ۔ بلکہ مسلمانوں کے درمیان جھگڑا و نزٰع پیدا کرنا مقصود ہے۔
اعتراض نمبر ۶۶کا دوسرا جز
’’ ابو طالب قلیل المال تھے۔ان کی مالی حالت اچھی نہ تھی، بات دل کو نہیں لگتی۔وہ یوں کہ ابو طالب کا پیشہ تجارت تھا۔اپنے آباء کے پیشہ کو ہی اپنایاجیسے حضرت عبداللہ بغرض تجارت شام گئے تھے، واپسی پر بیمار ہوئے۔ چند دن مدینہ میں رہے ،صحت یاب نہ ہو سکے ۔ آخر اس جہان فانی سے جہان باقی کو کوچ کر گئے۔ ان کا سامان تجارت حضرت عبد المطلب کے سپرد کر دیا ہوگا ، چونکہ آپ ؐ ان کی کفالت میں تھے۔ اس کے علاوہ شعب ابی طالب کی جائیداد اگر ان کی تھی تو قلیل المالی اور تنگ دستی خواب و خیال بن کر رہ جاتی ہے ۔دو پہاڑوں کے درمیان جو گھاٹی یا تنگ میدان ہوتا ہے اسے عربی میں شعب کہتے ہیں ۔یہ گھاٹی ابو طالب کو ورثہ میں ملی تھی اور آپ کی ملکیت تھی اور شعب ابی طالب کے نام سے مشہور تھی۔( ضیا النبی ج ۲ص ۳۸۲)۔ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے بقول ابو طالب کی کپڑے کی دکا ن بھی تھی ۔ ابو طالب اپنے دادا اور باپ کی طرح شام اور یمن کے ساتھ بڑے پیمانے پر تجارت کرتے تھے۔ وہ دمشق ، بصریٰ اور شام کے دوسرے شہروں میں فجار اور ہنجر کی کھجوریں اور یمن کے عطر لے جاتے تھے اور ان کے بدلے میں بازنطینی اشیاء لاتے تھے‘‘ ( روح اسلام ۔ ۸۵) ابو طالب نے خطبہ نکاح میں کہا کہ وہ (آنحضرتﷺ) خدیجہ بنت خویلد سے نکاح کرتا ہے اور اپنے مال سے بیس اونٹ مہر مقرر کرتا ہے اور اس کا مستقبل بہت ہی تابناک ، عظیم الشان اور جلیل القدر ہے ‘‘۔( سیرت مصطفی از عبد المصطفیٰ اعظمی ص ۶۴بحوالہ زرقانی مواہب)۔ ابو طالب کے بارے میں من گھڑت کہانیوں کا سلسلہ چل نکلا۔بعض نے کہا کہ ابو طالب نہیں ،حضرت زبیرؓ کو آپ ؐ کا کفیل و نگران بنایا تھا ۔جس کو تاریخ غلط ثابت کرتی ہے ۔ تاریخ و سیرت کی کتب کم از کم اس امر پر متفق ہیں کہ حضرت عبدالمطلب نے اپنے بعد ابو طالب کو حضور ؐ کا نگران بنایا۔نیز محمد احسان الحق نے ابو طالب کی سرپرستی سے انکار کرتے ہوئے لکھاہے ’’ ایسے تجارتی کاروانی سفروں میں جب تک حضور کے چچا زبیر زندہ رہے ، آپ ان کے ساتھ جاتے رہے‘‘ یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ ابو طالب لنگڑے تھے یا پیدائشی معذور تھے، وہ سرپرستی کیا کرتے یا تجارت کیسے کرتے‘‘ ۔اگر آپ معذور تھے تو ابو طالب نے کشتی کیسے لڑی۔یا ان کی بجائے کسی اور نے لڑی تھی؟ ( سیرت النبی اعلانِ نبوت سے پہلے ص۔ ۲۵۹)۔ یہ محض الزام تراشی ہے ، تہمت ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اعتراض نمبر۶۷
’’فرانس کے ایک نامور مورخ نے لکھا ہے کہ ابوطالب چونکہ محمدﷺ کو ذلیل (نعوذباللہ) رکھتے تھے اس لیے ان سے بکریاں چرانے کا کام لیتے تھے‘‘( سیرت النبی۔ شبلی۔۱۔۱۷۷)
۲سیرت و تاریخ کی عام کتب میں حضرت ابو طالب کی جز معاشی تنگ حالی داستان موجود ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو ۸۔۹ یا دس سال کا یتیم بھتیجا بکریاں چرانے پر کیوں مجبور ہوتا ، معلوم ہوتا ہے کہ اس دلیل میں منظر احسن گیلانی حاشیہ پر لکھتا ہے ’’ حضرت ابو طالب نے معاشی مشکلات سے تنگ آکر بالآخر اپنے ایک بیٹے جعفر ؓ کو اپنے بھائی عباس ؓ اور دوسرے بیٹے علی ؓ کو آنحضرت ﷺ کے حوالے کر دیا تھا ،گویا ابو طالب کی معاشی تنگی کی بنیاد پر آپ ﷺ کو بکریاں چرانا پڑیں۔‘‘(النبی الخاتم ۔۲۸)
جواب: نسائی شریف میں نصر بن حزن سے روایت ہے کہ ایک بار اونٹوں والے اور بکریوں والے آپس میں فخر کرنے لگے ۔تو سرکار دو عالم ﷺنے ارشاد فرمایاکہ ’’ موسیٰ ؑنبی بنا کر بھیجے گئے۔ اور وہ بکریوں کو چرانے والے تھے، اور دائودؑ نبی بنا کر بھیجے گئے، وہ بھی بکریاں چراتے تھے اور میں نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں اور میں نے بھی گھر والوں کی بکریاں مقام اجیاد میں چرایا کرتا تھا‘‘( امہات المومنین۔۵۳)
بدر عالم میرٹھی کی تقریر:’’ بکریاں چرانا ایک بہت معمولی چیز ہے لیکن تاریخ نبوت میں چونکہ اس کو بھی ایک اہمیت حاصل ہے اس لیے آنحضرت ﷺ کی حیات مقدس میں اس کا ثبوت بھی ملنا ضروری تھا۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ بکریاں چرانا نبوت کے ایسے لوازم میں سے ہے کہ ہر چرواہا نبوت کا دعویٰ کر سکتا ہے ،بلکہ مقصد یہ ہے کہ جو نبی ہوا اس کی زندگی میں یہ جزئی ضرور پیش آئی ہے۔چنانچہ حضرت موسیٰؑ
کا بکریاں چرانا قرآن کریم کے اشارات سے ثابت ہوتا ہے ۔ارشاد ربانی ہے
’’ قَالَ ھِیَ عَصَایَ اَتَوَکَّئُوْا عَلَیْھَاوَاَھُشُّ بِھَاعَلٰی غَنَمیْ وَ وَلِیَ فِیْھَامَاٰ رِبُ اُخْرٰی( طہ۱۸،پارہ ۱۶)
ترجمہ: حضرت موسیٰ نے کہا کہ یہ میرا عصا ہے ،میں ٹیک لگاتا ہوں اس پر اور میں پتے جھاڑتا ہوں اس سے اپنی بکریوں کے لیے اور میرے لیے اس میں کئی فائدے بھی ہیں۔
اتنا سب جانتے ہیں کہ طبیعت کو غم کا خوگر بنانے کے لیے مشکل سے شاید کوئی ٹریننگ اس سے زیادہ موثر ہو، حتیٰ کہ فارسی زبان میں ایک مثل بھی بن گئی ہے’’ غم نداری بزبخر‘‘’’ غم نہیں رکھتا تو بکری خرید لے‘‘ ۔ پھر انجیل میں ابھی تک حضرت عیسیٰ ؑ کی زبان مبارک سے بنی اسرائیل کو جگہ جگہ بھیڑوں کے لفظ سے خطاب کیا گیا ہے ، گویا ایک گمراہ امت کا نقشہ سمجھنے کے لیے جو کسی ایسے میدان میں نکل گئی ہو ،جہاں کھانے پینے کا کوئی سامان نہ ہو پھر چاروں طرف سے ڈاکوئوں ، قزاقوں میں گِھر گئی ہو، بکریوں کے لیے اس جگہ سے زیادہ کوئی نقشہ نہیں ہو سکتا جو ایک بے آب و گیاہ میدان میں بھیڑیوں کے بیچ جا پھنسا ہو، ظاہر ہے کہ ایک طرف ان کی نا سمجھی ، دوسری طرف بھیڑیوں سے ان کی حفاظت کی ذمہ داری ،اس پر ان کے بقا و حیات کے لیے ایسے محل میں خورو نوش کا انتظام کرنا، کتنی درد سری ہے، کتنی درد مندی ہے اور کتنے نظم و ہوشیاری کا محتاج ہوگا ۔ اس لیے انبیاء کو انسانوں کے حوالے کرنے سے قبل تھوڑی سی ٹریننگ حیوانات سے شروع کی جاتی ہے ‘تاکہ وہ ان ذمہ داریوں کا بار اٹھانے کے لیے پہلے سے خوگر ہو جائیں ۔وہ اپنی امت کو محرمات کی چراگاہوں سے نکال اور بچا بچا کر علایق کے میدانوں میں لے جائیں اور جو ان سے بھاگ کر محرمات میں منہ ڈالنے کا ارادہ رکھتا ہو اس کو پکڑ پکڑ کر کھینچ نکالیں۔( تقریر ختم ہوئی)
انبیاء کا بکریاں چرانا امت کی گلہ بانی کا مقدمہ اور دیباچہ ہوتا ہے۔ بکریوں کو چرانے میں ہر طرف نگاہ ڈالنا ہوتی ہے۔دوڑنے والی بکریوں کو نظم و ضبط میں لانا پھر ان کو درندوں سے بچانا جہاں گلہ باں کے فرائض میں شامل ہے وہاں یہ کام از بس مشکل ہے۔ اسی طرح امت کا گلہ باں امت کی اصلاح و فلاح اور تطہیر سیرت و کردار کرتا ہے ۔ بھیڑ بکریوں کی طرح بھاگنے والے افراد کو شریعت کے نظم میں لاتاہے۔ شیطانی وسوسوں اور نفس کے مہیب درندوں سے بچاتاہے جیسا کہ ایک متفق علیہ حدیث ہے۔’’ حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا ’’ میری مثل اس شخص کی سی ہے جس نے آگ روشن کی ۔جب اس نے ارد گرد خوب روشن کر دیا تو پروانے اور یہ کیڑے جو آگ میں گرا کرتے ہیں اس میں گرنے لگے،وہ ہے کہ انھیں روک رہا ہے، یہ ہیں ایسے عاجز کرکہ اس میں گھسے جا رہے ہیں ۔اس طرح میں بھی ہوں کہ تمھاری کمر پکڑ پکڑ کر تمھیں دوزخ سے بچا رہا ہوں اور تم ہو کہ اس میں گھسے جا رہے ہو ، مسلم نے روایت کی اس کے ہم معنی مگر اس کے آخری الفاظ یہ ہیں ’’ کہ میری اور تمھاری مثل یہ ہے میں تمھاری کمر پکڑ ے ہوئے ( کہہ رہا ) ہوں دوزخ سے بچو، دوزخ سے بچو ، تم مجھے عاجز کر کے اس میں گھسے جا رہے ہو‘‘۔
کہتے ہیں ایک روز ایک لیلا(بھیڑ کا بچہ)ریوڑ سے الگ ہو گیا ، اس کی تلاش میں حضرت موسیٰ ؑدن بھر ادھر اُدھر دوڑتے رہے ،شام کے قریب اسے پکڑ سکے۔ پکڑ کر غصہ میں اسے زود و کوب نہیں کیا ، بلکہ الٹا اسے سینہ سے لگا لیا اور کہنے لگے یہ تو نے کیا کیا؟ مجھے بھی تھکا دیا اور خود بھی تھک گیا۔ یہ حلم و بردباری اور ماتحتوں کے ساتھ شفقت و محبت ہو تب ہی اتنے عظیم فرائض نبوت انجام دئیے جا سکتے ہیں ۔ ( ضیا القرآن۔۳۔۱۱۲)
آپ ؐ کا فرمان ہے’’کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں ‘‘ اس حدیث کے تحت مفتی احمد یار نعیمی لکھتے ہیں ’’بکریاں چرانے سے طبیعت میں حلم و بردباری،محنت کا شوق، ملکی انتظام کی قابلیت اور رعایا پروری کی صفات پیدا ہوتی ہیں ‘‘۔ بکریاں ہر وقت حفاظت کی حاجت مند ہوتی ہیں اور ان میں انتظام نہیں ہوتا ،ہر ایک کا جدھر منہ اٹھا چل دیتی ہیں‘ جو انھیں سنبھال لے گا وہ ان شاء اللہ رعایا کو سنبھال لے گا ۔تبلیغ خوب کرے گا ، عام طور پر رعایا کو بکریوں اور بادشاہ کو چرواہے سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔
دوم: ’’ وَلَکُم فِیھَا جَمَالُ حِیْنَ تُرِ یْحُوْنَ وَحِیْنَ تُسْرِحُونَ‘‘(النحل۶،پارہ ۱۴)ترجمہ؛ اور اس میں تمھارے لیے خوبصورتی ہے جب انھیں شام کو واپس لاتے ہو اور جب چرنے کو چھوڑتے ہو (صبح کے وقت)
صاحب تفسیر روح البیان لکھتے ہیں ’’جانوروں کے چرواہے عموماََ جانوروں سے اپنی اوقات (صبح و شام) میں اپنے گھروں کے صحنوں کو مزین کرتے ہیں ۔ پھر جانوروں کی عادت ہے کہ وہ آتے جاتے وقت شور مچاتے ہیں بالخصوص بھیڑ بکریاں تو بہت شور کرتی ہیں ۔۔ اور قاعدہ ہے کہ مالکوں کو ایسے اوقات میں جانوروں کے شور کرنے سے خوشی ہوتی ہے بلکہ اسے وہ اپنی عظمت سمجھتے ہیں اور عوام کی نظروں میں ایسے لوگ معزز و مکرم سمجھے جاتے ہیں اس لیے انھیں عرف عام میں مالدار کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم کے صریح بیان سے کہ بکریاں چرانے میں تمھارے لیے خوبصورتی ہے، سے مورخ کا الزام پیوند ِخاک ہو جاتا ہے۔ وہ کام جسے مالک حقیقی حسن و جمال کا حامل قرار دے اسے ذلیل کہنا بے علمی ، جہالت اور محض دشمنی ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ مقام مراالظہران میں ہم نبی مکرمؐ کے ساتھ تھے ۔ فاقہ کش صحابہ ایک جنگل میں پہنچ کر بیریاں (پیلو) توڑ کر کھانے لگے آپ ؐ نے فرمایا : سیاہ پھل زیادہ لذیذ اور خوش ذائقہ ہوتا ہے ۔ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ : آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ آپؐ نے فرمایا یہ میرا اس زمانے کا تجربہ ہے جب میں بکریاں چرایا کرتا تھا ، عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپ بھی بکریاں چرایا کرتے تھے؟ فرمایا : ہاں ، کوئی ایسا نبی نہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں‘‘۔
ف:ہر نبی نے بکریاں چرائیں ،۲: آپ نے بکریاں چرانے کا ذکر فرمایا اور عار نہ سمجھی، ۳: صحابی کے پوچھنے پر دوبارہ بکریاں چرانے کی تصدیق فرمائی،۴: کوئی ایسا نبی نہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائیں ہوں ، حضرت موسیٰ ؑ بکریاں چرانا قرآن سے ثابت ہوتا ہے تو مورخ حضرت موسیؑ ٰکے بارے میں کیا کہے گا؟ حضرت موسیٰؑ نے حضرت شعیب ؑ کی بکریاں چرائیں تو کیا مورخ یہاں بھی اس فارمولا کا اطلاق کرے گا کہ حضرت شعیب ؑ ، حضرت موسیٰ ؑ کو ذلیل سمجھتے تھے اس لیے حضرت موسیٰ کو بکریاں چرانا پڑیں۔ (نعوذ باللہ)
سوم: کیا مورخ اس بات سے بے خبر ہے کہ آپ کے چچا ابو طالب نے عربوں کی دشمنی مول لی ، مگر جان دو عالمﷺ کا ساتھ نہ چھوڑا ۔ نقل کفر کفر نباشد۔ اگر وہ ذلیل سمجھتے ہوتے تو ان کی خاطر عربوں کی دشمنی مول لینے کا کوئی تُک نہ تھا۔بلکہ ساتھ چھوڑ دیتے ۔کفار کی دشمنی سے بچ جاتے اور دشمنوں کے خطروں اور سازشوں سے بچے رہتے۔ مگر یہ تو وہ چچا ہے کہ ان کی موجودگی میں دشمنوں کی آنکھوں کے آگے تارے چھوٹتے ہیں ، قریش کے مقابلہ میں سینہ تان کر کھڑا نظر آتا ہے ۔وفود کو کھرے کھرے جواب دیتا ہے مگر آپ ؐ کی رفاقت کا دم بھرتا رہتا ہے ،گریز پا نہیں ہوتا ۔مقاطعہ قریش میں آپؐ کے ساتھ برابر کاشریک ہے ،صرف یہی نہیں بلکہ ہر خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔وہ چچا جس نے آپؐ کا رشتہ مانگا اور یہی وہ چچاہیں جس نے آپؐ کے نکاح کا خطبہ پڑھا ۔ یہ وہی چچا ہیں کہ خطرناک قحط میں سرداران کی بارش کے لیے فرمائش پر اپنے بھیتجے کو لیے خانہ کعبہ جاتے ہیں ۔بھیتجے کی پشت خانہ کعبہ کی دیوار سے لگا کر بٹھا دیتے ہیں اور دعا مانگتے ہیں ۔دوران دعا آپؐ نے انگشت مبارک کو آسمان کی طرف اٹھایا ۔بادل گھر آئے ۔باران رحمت کا نزول ہوا ۔ زمینیں سر سبز و شاداب ہو گئیں ۔قحط ختم ہو گیا ۔کال کٹ گیا اور عرب خوش حال ہو گئے۔ ،ایسے اعلیٰ و ارفع مراتب کی حامل ذات کا انھیں علم ہے تو وہ بھلا کیوں۔۔۔ رکھتے ہوں گے جیسا مورخ کہتا ہے ۔ شاید کوئی منچلا یہ نہ کہہ دے کہ ابو طالب تو نرمی برتتے تھے البتہ چچی سخت رویہ رکھتی تھی، بنا بریں بکریاں چرانا پڑیں ،یہ بات درست نہیں ،وہ خاتون ،آپؐ کی چچی فاطمہ آپ کا ہر طرح خیال رکھتی تھیں ۔ ان کا برتائو نہایت مشفقانہ تھا۔آپ نے فرمایا’’ وہ خود بھوکا رہتیں اور مجھے کھلاتیں ‘‘۔ آپ نے یہ بھی فرمایا’’ یہ میری ماں کے بعد ماں ہے ‘‘ یہی نہیں اس محسنہ کے احسانات کا بدلہ اچھوتے اور انوکھے انداز میں چکایا ،اپنی چچی کی وفات پر ان کی قبر میں لیٹے رہے اور اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے دعائے مغفرت طلب فرمائی
واہ کیا جود و کرم ہے شہہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
آپ بعد از بعثت کئی بار بکریاں چرانے کا واقعہ بیان فرماتے ہیںاس کی نوبت کیوں آئی؟ وہ توجیح تو بالکل غلط ہے جو بعض نام نہاد عالم اور سر پھر ے غیر مسلم مورخین پیش کرتے ہیں کہ چونکہ ابو طالب یتیم بھتیجے کو ذلیل سمجھتے تھے ( نعوذ باللہ )اس لیے آپ سے بکریاں چرانے کا کام لیا ۔جواباََ عرض ہے بات تو سیدھی سی تھی مگر اسے بات کا بنتگڑ بنا دیا ۔ دراصل اس زمانہ میں اونٹ بکریاں چرانا معیود نہ تھا بلکہ یہ مشاغل معمولات حیات تھے ۔ حضرت عمر ؓ کے بارے میں ہے کہ بچپن میں وہ اپنے باپ کے اونٹ چرایا کرتے تھے تو کیا ان پر بھی یہ فتویٰ صادر ہو گا کہ ان کا باپ بھی انہیں ذلیل سمجھتا تھا ؟ ہرگز نہیں کیونکہ آجکل بھی زمیں داروں کے لڑکے اپنے مال و مویشی چراتے نظر آتے ہیں دیگر کاموں مثلا گھاس کاٹنے ، ہل جوتنے ، پانی پلانے اور فصل کی کٹائی میں اپنے گھر والوں کا ہاتھ بٹاتے ہیں ۔ اسی طرح آپ ﷺ ابو طالب کے گھر کے افراد تھے اگر ان کے حصہ میں یہ کام آیا اور بکریاں چرائیں تو کوئی حرج نہیں ہے نہ جانے غیر کو یہ بات کیوں نہیں بھاتی۔
اعتراض نمبر ۶۸
’’ سیرت و تاریخ کی عام کتب میں حضرت ابو طالب کی جز معاشی تنگ حالی کی داستان موجود ہے ،اگر ایسانہ ہوتا تو آٹھ نو دس کا یتیم بھیتجا بکریاں چرانے پر کیوں مجبور ہوتا ‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ اس دلیل میں مناظر احسن گیلانی حاشیہ پر لکھتا ہے ’’ حضرت ابو طالب نے معاشی مشکلات سے تنگ آکر بالآخر اپنے ایک بیٹے جعفر طیار کو اپنے بھائی عباس اور دوسرے بیٹے حضرت علی ؓ کو آنحضرتﷺ کے حوالے کر دیا تھا، گویا ابو طالب کی معاشی تنگی کی بنیاد پر آپ ﷺ کو بکریاں چرانا پڑیں ‘‘ ( النبی الخاتم۔۲۸)
جواب :اوپر والے اعتراض سے یہ ملتا جلتا اعتراض ہے فرق صرف یہ ہے کہ اوپر کے اعتراض میں مورخ نے اچھا نہ سمجھنے کی بنیاد پر بکریاں چرانا کہہ دیا مگر مناظرنے معاشی تنگی کی بنیاد پر بکریاں چرانے کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔مولانا شبلی (سیرت النبی۔۱۱۷) بتاتے ہیں کہ ابو طالب آنحضرتﷺ سے اس قدر محبت رکھتے تھے کہ آپ ؐ کے مقابلے میں اپنے بچوں کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ آنحضرت کو ساتھ لے کر سوتے اورباہر ساتھ لے کر جاتے۔ (بکریاں چرانا) یہ عالم کی گلہ بانی کا دیباچہ تھا ۔زمانہ رسالت میں آپؐ اس سادہ اور پر لطیف مشغلہ کا ذکر فرمایا کرتے تھے۔آپؐ کا ارشاد ہے ’’ کوئی نبی ایسانہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں ‘‘ ۔ گویا بکریاں چرانا چچا کی نا پسندی یا معاشی تنگی کے سبب نہیں تھا بلکہ دیگر انبیاء کی طرح یہ جزئی ضرور آپ کو پیش آئی ہے۔پچھلے صفحات میں ابو طالب کی معاشی تنگی اور کثیر العیالی کی مختلف نوع سے تردید کی گئی ہے۔دوبارہ مختصر عرض ہے کہ آپ ؐ جب ابو طالب کے ہاں پرورش پا رہے تھے اس وقت آپؐ کی عمر آٹھ سال تھی حضرت علیؓ آپؐ سے ۲۹ سال اور حضرت عقیل ؓ آپ سے ۹ برس چھوٹے تھے۔ صرف آپ کا چچا زاد طالب عمر میں ایک سال زیادہ تھا۔ابو طالب کی بیٹیاں ام ہانی اور حجانہ عمر کے کس پیٹے میں تھیں ، یہ معلوم نہیں ہو سکا۔اگر یہ وقتی طور پر فرض کر لیں کہ وہ بڑی تھیں تو حضورؐ کی پرورش کے دوران ابو طالب کے تین بچے تھے تب بھی معاشی تنگی بوجہ کثرت العیالی نہ تھی۔۲: ابو طالب کا آبائی پیشہ تجارت تھا۔ آپ نے بھی تجارت کی۔ابو طالب اپنے باپ دادا کی طرح شام اور یمن کے ساتھ بڑے خاصے پیمانے پر تجارت کرتے تھے۔وہ دمشق،بصرہ اور شام کے دوسرے حجاز اور ہنجر کی کھجوریں اور یمن کے عطر لے جاتے تھے اور ان کے بدلہ میں بازنطینی اشیاء لاتے تھے(روح اسلام۔۸۵)۔شعب ابی طالب میںجائیداد تھی، وہاں ایک مکان بھی ابو طالب کا تھا جس میں آپﷺ حضرت خدیجہ کو بیاہ لائے تھے۔بعدازاں خدیجہ ؓ کے مکان میں منتقل ہوگئے تھے(سیرت النبی اعلان سے پہلے۲۶۸)
ڈاکٹر حمید اللہ کے بقول ابو طالب کی ایک کپڑے کی دکان بھی تھی،ایک روایت میں ہے کہ اس دکان کو چلانے کا انتظام آپﷺ کے سپرد تھا ۔حضرت عبداللہ کا تجارتی سامان بھی ابو طالب کو ملا ہوگا کیونکہ ان کے ذمہ پرورش تھی۔ان دلائل و برہان میں معترضین کے اعتراض و الزامات اپنی وقعت کھو دیتے ہیں ان میں رائی برابر بھی سچائی نہیں دکھتی۔مناظر احسن نے بطور دلیل کہا معاشی تنگی کی بنا پر جعفرؓ کو عباسؓ اور علیؓ کو آنحضرت ﷺکے سپرد کیا۔یہ بات تسلیم کرنے میں حرج نہیں کہ انسان پر ایک سا وقت نہیں رہتا ، ایسا وقت بھی آتا ہے کہ معاشی تنگی ہو جاتی ہے ۔لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ معاشی تنگی کا زمانہ آنحضرت ﷺکی پرورش کے بعد کا زمانہ ہے وہ اس طرح کہ عقیلؓ کو حضرت عباسؓ اور علیؓ کو آنحضرتﷺ نے کفالت میں لے لیا۔گویا آپ کے زمانہ پرورش میں ابوطالب کی حالت اچھی تھی ۔معاشی تنگی کا نشان تک نہ تھا۔نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ آپؐ نے چچا کی معاشی تنگی یا نا پسندی کے سبب بکریاں نہیں چرائیں بلکہ دیگر انبیاء کی طرح آپؐ نے بھی بکریاں چرائیں اور اس کا اظہار آپ کی حیات مقدس میں ضروری تھا۔بعض کا یہ کہنا کہ ابو طالب کی مالی حالت ہمیشہ سقیم رہی درست نہیں لگتا جیسا کہ اوپر کے دلائل سے واضح ہوتا ہے۔
ایمان افروز واقعہ:آپؐ ابو طالب کی بکریاں چرا رہے تھے اور ایک نامور پہلوان رکانہ نامی بھی بکریاں چرا رہا تھا۔آپ اور رکانہ کے درمیان کُشتی کی ٹھن گئی۔کُشتی ایک بکری کے عوض قرار پائی یعنی کُشتی ہارنے والا ایک بکری دے گا ۔ تین بارکُشتی کا مقابلہ ہوا،ہر بار رکانہ ہارا۔( حالانکہ وہ پیشہ ور مکہ کا پہلوان تھا۔کہا جاتا ہے کہ وہ اس قدر طاقتور تھا کہ اگر وہ کسی جانور کی کھال پر کھڑا ہو جاتا تو بہت افراد اس کھال کو کھینچ کر اسے وہاں سے ہلا نہیں سکتے تھے حتیٰ کہ کھال پھٹ جاتی تھی۔۔۔ محمد رسول اللہ۸۰) رکانہ حیران ہوا اس کی حیرانی دو سبب سے تھی ایک تو تین بکریاں کھو دیں اور اپنے مالک عبد یزید کو کیا جواب دے گا ۔ دوسری وجہ پریشانی کی یہ تھی کہ میں اتنا بڑا قوی پہلوان ہو کے ہار گیا ۔آپ نے بکریاں نہ لیں اور رکانہ کو واپس دے دیں ۔ وہ کہتا ہے کہ جب آپ ؐ کی نبوت کی شہرت ہوئی تو میں اسلام لایا اس وجہ سے کہ آپ ؐ نے مجھے پچھاڑا ہے وہ کوئی غیبی طاقت تھی۔
بکریاں چرانا کیسا؟ شبلی نعمانی نے فرانس کے نامور مورخ کی اس رائے کو کہہ دو’ابوطالب چونکہ محمدﷺ کو ذلیل رکھتے تھے‘ (نعوذباللہ)اس لیے بکریاں چرانے کا کام لیتے تھے‘‘ کا رد کیا ہے اور بکریاں چرانے کو عالم کی گلہ بانی کا دیباچہ قرار دیا ہے ۔مزید لکھتے ہیں ’’عرب میں بکریاں چرانا معیوب کام نہ تھا۔بڑے بڑے شرفاء اور امراء کے بچے بکریاں چراتے تھے۔ مرتضی احمدخاں میکش کے حوالہ سے مفتی مسعود ( سیرت النبی اعلان نبوت سے پہلے ۔۲۵۱)لکھتے ہیں کہ ’’ قریش کے نونہال بڑے ہو کر تجارت کا پیشہ اختیار کرنے سے پہلے عام طور پر گلہ بانی کرتے تھے۔عبدالمقتدر کے بقول’’ رسول اللہﷺ نے پیغمبران اولوالعزم کی صفت بکریاں چرانے کی یاد تازہ کی ‘‘۔ مولانا تقی محمد خاں کہتے ہیں : ’’ پروردگار نے بکریاں چرانے کی رغبت حضورؐ کے دل میں پیدا کی کہ یہ کام سیاست اور شفقت برضعفا امت اور صبر بر مصیبت وغیرہ ،امور لوازم نبوت سے نہایت مناسبت رکھتا تھا اور تواضع و فروتنی سکھاتا ہے‘‘
علامہ اسلم جیراج پوری کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’ شرفاء کے لڑکے سادہ اخلاق و عادات اپنے گھر ہی کے بزرگوں سے سیکھتے تھے اور دن بھر ان کا مشغلہ بکریاں چرانا تھا۔حضورﷺ بھی اس زمانے میں بکریاں چرایا کرتے تھے ۔سمجھو تو دراصل یہ دنیا کی گلہ بانی کی ابتداء تھی چنانچہ اکثر انبیاء جو گزرے ہیں ،پہلے انھوں نے بکریاں چرائی ہیں ‘‘۔
صفی الرحمن مبار ک پوری کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’ عنفوان شباب میں رسول اللہ ﷺکا کوئی کام معین نہ تھا۔ البتہ یہ خبر متواتر ہے کہ آپ بکریاں چراتے تھے‘‘ یہ امر متفق علیہ ہے کہ آپ بکریاں چرایا کرتے تھے لیکن سوال یہ ہے کہ اجرت پر اہل مکہ کی بکریاں چراتے تھے یا نہیں ؟ ہاں! چراتے تو تھے لیکن وہ کس کی بکریاں چراتے تھے؟ اجرت پر بکریاں چرانے کا ماخذ جو حدیث شریف بخاری میں ہے۔ اس کا معنی یہ ہے ۔رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’ کوئی نبی ایسا نہیں مبعوث ہوا جنھوں نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ ‘‘۔ دریافت کیا گیا: یا رسول اللہﷺ ! کیا آپ نے بھی؟ آپ نے ارشاد فرمایا ؛ ’’ ہاں ، میں بھی اہل مکہ کی بکریاں قراریط پر چراتا تھا ۔اب قراریط کے معنی میں اختلاف کی بنا پر کئی طرح کی آراء سامنے آتی ہیں۔ قراریط سے ’’اجرت پر‘‘ بات جا پہنچی۔ عبد الصمد الازہری نے کہا۔’’ آٹھ سال کی عمر میں پیغمبر اسلام ﷺکو گلہ بانی کرنا پڑی تا کہ وہ نان جویں ،چند کھجوریں ، تن ڈھانپنے کو کپڑا اور پہننے کو جوتا مہیا کر سکیں ‘‘ ابو الجلال نے کہا، ابو طالب تمام عبد المطلب میں کم آمدنی اور زیادہ خرچ والے تھے۔ اگرچہ وہ آپ کو اپنی اولاد سے زیادہ چاہتے تھے، اور آپ سے کوئی مشکل کام نہ لینا چاہتے تھے مگر آٹھ سال کے بچے کی ہمت قابل داد ہے۔ آپﷺ نے اپنے غریب چچا پر اپنا پورا بار ڈالنا پسند نہ کیا ، چچا سے باصرار اجازت لے کر روسائے قریش کی بکریاں اجرت پر چرانا شروع کیں ۔ہر بکری کی اجرت پر آپ کو ایک قیراط چاندی ملا کرتی تھی مگر نہیں معلوم یہ قیراط ماہوار تھی یا سالانہ ‘‘۔
مناظر احسن نے تو کمال ہی کر دیا لکھتے ہیں ’’ ابو طالب بہت غریب تھے ، مدت سے ان کی گذران قیراط (سکے) پر تھی جو بکریاں اور اونٹوں کے چرانے کے صلے میں ان کا بھیتجا مکہ والوں سے مزدوری میں پاتا تھا ۔ڈاکٹر غفاری اور مولانا مودودی تو دونوں آراء دیتے ہیں لیکن آخر میں یہ لکھتے ہیں ’’ اجرت پر بکریاں چرانا کوئی عیب نہیں کہ اس سے حضور ؐ کا دامن صاف کرنے کے لیے تکلف کیا جائے‘‘۔
بخاری میں کتاب الاجارہ میں آنحضرت کا قول ہے کہ ’’ میں قراریط پر مکہ والوں کی بکریاں چرایا کرتا تھا‘‘ اسی بنا پر بخاری نے اس حدیث کو باب الاجارہ میں نقل کیا ہے ۔قراریط کے معنی میں اختلاف ہے ۔ابن ماجہ کے شیخ سوید بن سعید کی رائے ہے کہ قراریط قیراط کی جمع ہے اور قیراط درہم یا دینار کے ٹکڑے کا نام ہے ۔اس بنا پر ان کے نزدیک یہ معنی ہیں کہ آنحضرت ﷺاجرت پر لوگوں کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔لیکن ابراھیم حربی کا قول ہے کہ قراریط ایک مقام کا نام ہے جو اجیاد کے قریب ہے ۔ابن جوزی نے اس قول کو ترجیح دی ہے علامہ عینی نے اس حدیث کی شرح میں یہ بحث تفصیل سے لکھی ہے اور قوی دلائل سے ثابت کیا ہے کہ ابن جوزی کی رائے صحیح ہے‘‘(سیرت النبی۔۱۱۷ حاشیہ) مگر صاحب سید الوریٰ کہتے ہیں ۔۔ ہمارے خیال میں قراریط ، قیراط کی جمع ہے۔کیوں کہ مکہ کے آس پاس قراریط نام کی کوئی جگہ نہیں ،نہ پہلے نہ اب ۔مکہ کے قدیم و جدیدجغرافیے اور تاریخیں اس کے ذکر سے یکسر خالی ہیں تو پھر قراریط نام کی کوئی جگہ اختراع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ مولانا ابراھیم سیالکوٹی یہ رائے دیتے ہیں ’’ اس زمانہ میں مکہ میں اس سکہ کا رواج نہ تھا، بلکہ یہ اس مقام کا نام ہے جو مکہ میں اجیاد کے قریب ہے‘‘ لیکن مصری عالم ابو زہرہ نے لکھا ہے کہ قراریط بکریوں کے دودھ کا وہ حصہ جو حضورﷺ بطور اجرت لیا کرتے تھے۔( خاتم النبیین۔۱۰۰)
طبقات ابن سعد میں ہے آنحضرت ﷺنے فرمایا’’ موسیٰ ؑ مبعوث ہوئے تو وہ بھیڑبکریاں چراتے تھے۔میں مبعوث ہوا تو اجیاد میں اپنے لوگوں کی بکریاں چرایا کرتا تھا‘‘ مگر ہیکل ( حیات محمد۔۱۱۴) لکھتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا’’ اللہ تعالیٰ‘‘ نے جس کسی کو نبوت سے سرفراز فرمایا اس نے بکریاں چرائیں ۔حضرت موسیٰ اور حضرت دائود ؑ نے یہ کام کیا ۔میں بھی اپنے خاندان کی بکریوں کے ریوڑ کی چوپانی مکہ کی اجیاد نامی پہاڑی پر کرتا رہا‘‘۔
مفتی مسعود وغیرہ کہتے ہیں کہ سیرت نگاروں نے اپنی اپنی مرضی کے مطابق کوئی ایک معنی اختیار کر لیا اس لیے بعض نے بکریاں چرانے سے ابو طالب کی تنگ دستی کو ثابت کرنا چاہا ہے ۔ غیر مسلموں نے اسے ابو طالب کا ظلم قرار دیا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ حضور نے بنو سعد کی بکریاں چرائیںتو بھی اور مکہ میں تو بھی ،ملازمت یا معاش کی خاطر نہیں ۔کیونکہ جب حضور نے بکریاں چرانے کی بات کی ہے تو دیگر انبیاء ؑ کا ذکر کیا ہے ۔مزدوری کا ذکر نہیں فرمایا۔اگر حضور نے یہ مزدوری ہی کی ہوتی تو آپؐ اس کومزدور کی عظمت پر محمول فرماتے ،اسے انبیاء اور رُسل کی طرح بکریاں چرانا نہ کہتے ۔جیسا کہ حدیث شریف میں ہے ’’ الکا سب حبیب اللہ ‘‘ (ترجمہ) ہاتھ سے روزی کمانے والا اللہ کا دوست ہوتا ہے۔)نیز بکریاں چرانے کو خوبصورتی سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
دوم:اجرت پر بکریاں چرانے والے کو چرواہا کہا جاتا ہے ۔اپنی بکریاں چرانے والے کو ایسا نہیں کہا جاتا ، اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے اس لفظ کا حضور کے لیے استعمال کرنا ممنوع فرمایا ہے۔یہ خیال بھی درست نہیں چونکہ حدیث اجرت کے بارے میں خاموش ہے ۔ ہو سکتا ہے آپ ﷺ کو اگر اجرت ملتی ہو یا نہ ملتی ہو اور حدیث کا مفہوم متبادر یہی ہے کہ حضور ﷺ کو اجر ملتی تھی تو جناب حربی کی کوشش رائگاں گئی اور اگر آخرت نہیں ملتی تھی تو آپ ﷺ سے بیگار کیوں لی جاتی تھی ؟ کیا اس لیے کہ آپ ﷺ یتیم تھے اور اس اوہام پرست معاشرے میں یتیم کو نحس سمجھا جاتا تھا ۔‘‘جب حدیث بھی اجرت کے بارے میں خاموش ہے تو اپنے قیاس سے اجرت پر محمول کرنا درست نہیں ہے نیز آپ ﷺ کے چچا کی معاشی حالت بھی ہمیشہ کمزور نہیں رہی تھی ۔ ایک وقت ایسا آیا تھا جب وہ معاشی لحاظ سے کمزور تھے اور ان کی یہ حالت ہمیشہ سقیم نہیں رہی تھی۔
’’لَا تَقُولُوا رَاعِناَ وَقُولُوانظُرناَ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا دین ہم سے تقاضا کرتاہے کہ ہم اجرت پر حضور کے بکریاں چرانے کی بات کر کے آپ کو چرواہا نہ کہیں ،اپنی بکریوں کو چرانا ، انھیں گلیوں ، بازاروں میں سے گزار کر ان کی خوراک کا انتظام کرنا گھر کے کاموں میں شمار ہوتا ہے اور آنحضرت ﷺ نے بھی یہی کیا۔( حوالہ بالا۔۲۵۶۔۲۵۵)
یا ایھاالذین امنو ا لا تقولو راعنا و قو لو انظرنا ۔۔عذاب علیمo ( ترجمہ) ’’ اے ایمان والوں مت کہا کرو راعنا بلکہ کہو انظرنا اور غور سے سنا کرو اور کافروں کے لیے درد ناک عذاب ہے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ کو اپنے محبو ب کی عزت و عظمت کا اس قدر پاس ہے کہ ایسے لفظ کاا ستعمال بھی ممنوع فرمایا جس میں آپ ﷺ کی گستاخی کا شائبہ ہو ۔ یہود کی لغت میں یہی لفظ بد دعا کے لیے استعمال ہوتا تھا اور اس کا مطلب تھا ’’ اِسمَع لاَ سَمِعتَ‘‘ یعنی سن خدا کرے تو نہ سنے ۔ انہوں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور کہنے لگے کہ پہلے ہم ان کو تنہائی میں بد دعا دیتے تھے ، اب سر عام دعا دینے کا موقع ہاتھ آیا ۔ وہ آپ ﷺ کو مخاطب کر کے ’’ راعنا ‘‘ کہتے اور آپس میں ہنستے ۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ قبیلہ اوس کے سردار تھے ، کو یہود کی لغت کا علم تھا ، ابہوں نے جب یہود سے یہ لفظ نبی ﷺ کے لیے استعمال کرتے سنا تو کہا ، اللہ کی لعنت ہو، اگر میں نے یہ لفظ آئندہ سن لیا تو گردن اڑا دوں گا ۔
اہل یہود زبان کو موڑ کر ’’راعنا‘‘ بولتے جس کا معنی ہے ’’اے ہمارے چرواہے‘‘ اس موقع پر آیت مذکورہ نازل ہوئی اور غیر تو غیر مسلمانوں کو بھی حکم ہوا کہ جب کوئی بات سمجھ نہ آئے تو تم ’’ راعنا‘‘ نہ کہو بلکہ ’’انظرنا‘‘ کہو تاکہ غیر کو یہ موقع نہ ملے کہ وہ صحیح لفظ غلط معنی میںاستعمال کرے۔
نبی کو اجرت لینا کیسا:اب سوال یہ ہے کہ نبی اجرت کسی کام کی لے سکتا ہے کہ نہیں ؟ خیال رہے کہ انبیاء دین کے تمام امور کی تعلیم دینے ،سکھانے پر اجرت نہیں لیتے،دوسرے کاموں پر لیتے ہیں لہذا اجرت پر بکریاں چرانے کی حدیث ،قرآن کریم کی اس آیت کے مخالف نہیں’’ یَقَومِ لَا اَسئَلُکُم عَلَیہِاَجراََ‘‘ (ترجمہ) اے قوم میں اس پر تم سے کوئی اجرت نہیں لیتا(کنز الایمان)۔ یہاں علیہ سے مراد دین کی تبلیغ ہے۔اشعتہ میں شیخ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت بادشاہوں ،امیروں میں نہ رکھی بلکہ بکری چرانے اور تواضع پیش کرنے والوں میں رکھی۔چنانچہ ایوب ؑ درزی گری کرتے تھے،حضرت ذکریا ؑ بڑھئی پیشہ تھے۔( مشکوۃ جلد۴۔ص۔۳۶۴)
مراۃ المناجیح شرح المضاییح ج۴ص ۳۶۷بحوالہ احمد ابن ماجہ، روایت ہے کہ حضرت عتبہ بن منذر کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے کہ آپ ﷺ نے سورہ طسم پڑھی حتیٰ کہ حضرت موسیٰ ؑکے قصہ پر پہنچے،فرمایا موسیٰ ؑ اپنے نفس کو اپنی پاکدامنی کی حفاظت اور اپنے پیٹ کی روٹی پر آٹھ ،نو یا دس سال اجرت پر رہے۔اس حدیث کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں ’’ حضرت موسیٰ ؑ کا حضرت شعیبؑ کے ہاں رہنا، آٹھ دس سال بکریاں چرانا، ان کی صاحبزادی صفورا سے ان کا نکاح مذکور ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے محنت مزدوری کرنا اچھا ہے ،سوال برا ہے ،بڑے سے بڑے شخص کو معمولی محنت سے عار نہیں ہونی چاہیے۔آپ کا یہ فرمان عالیشان ہے کہ ’’الکاسب حبیب اللہ‘‘ اپنے ہاتھ سے کمانے والا اللہ کا دوست ہے ۔
نکتہ: یاد رہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کا حضرت شعیب ؑ کی بکریاں چرانا بی بی صفورا کا مہر نہ تھا۔ بلکہ نکاح شرط تھی اس لیے آپ نے فرمایا’’ ھَتَیْنِ عَلیٰ اَنْ تَاجُرَنِیْ ثَمنِیَ حِجَجٍ ‘‘ القصص(۲۷،پارہ۲۰) ’’اس مہر پر کہ تم آٹھ سال میری ملازمت کرو( کنزالایمان)۔ تم میری آٹھ سال مزدوری کرو اگر مہر ہوتا تو عَلیٰ کی بجائے ’’ب‘‘ آتی اور آپ اپنے بجائے صفورا کا ذکر فرماتے۔ قرآن کریم میں ہے ’’ اَنْ تَبْتَغُوْ بِاَمْوَالِِکُمْ‘‘ (النسا۲۴،پارہ ۵)کہ اپنے مالوں کے عوض رزق تلاش کرو، بیویاں اپنے مالوں سے تلاش کرو۔ لہذا مذہب حنفی بالکل حق ہے کہ مہر میں مال دینا پڑے گا ۔خدمت ،زوجہ کے والد کی مہر نہیں بن سکتی۔
امام شافعی کہتے ہیں کہ خدمت پر نکاح درست ہے مگر اس آیت سے ثابت نہیں ہوتا۔خیال رہے کہ حضرت شعیب ؑنے موسیٰ ؑ کوآٹھ دس سال بکریاں چرانے کے لیے رکھا مگر مقصود یہ تھا کہ انھیں اپنے پاس رکھ کر کلیم اللہ بننے کے لائق بنایا جائے۔علامہ اقبال نے بھی ایک شعر میں اس مفہوم کو یوں نظم کیا ہے ۔
دمِ عارف نسیم صبح دم ہے
اسی سے ریشۂ معنی میں نم ہے
اگر کوئی شعیب آئے میسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے
اس رباعی کا مطلب یہ ہے کہ عارفوں کی صحبت انسانوں کے حق میں نسیم صبح کا حکم رکھتی ہے اسی صحبت کی بدولت دنیا والوں پر انکشاف حقائق ہو تا ہے اور ان کی روحانی تربیت اور آبیاری ہوتی ہے اگر صحبت مرشد کا سلسلہ ختم ہو جائے تو ’’ باغ معانی ‘‘ یک دم ویران ہو جائے بلکہ دنیا میں روحانیت کا بھی فقدان ہو جائے اور اس سلسلہ میں اس کی مثال درکار ہو تو حضرت موسیٰ ؑ کی زندگی کا مطالعہ کر لو ، انہوں نے چند سال تک حضرت شعیب ؑ کی بکریاں چرائیں اور اس سلسلہ میں ان کو حضرت موصوف کو صحبت نصیب ہوئی چنانچہ اس فیض صحبت نے ان کو شبانی سے کلیمی کے مرتبہ پر پہنچا دیا ’’ شبانی سے کلیمی دو قدم ہے ‘‘ بلا شبہ بہت بلیغ مصرعہ ہے شبانی کے دو معانی ہو سکتے ہیں ایک تو وہ جو اوپر مذکور ہوئے اور دوسرے معانی میں ادنی ٰ حالت کے بھی ہو سکتے ہیں یعنی صحبت مرشد میں وہ تاثیر ہے کہ اس کی بدولت ایک ادنیٰ درجہ کا آدمی بھی جس کے پاس نہ علم و فضل ہو نہ دنیاوی وجاہت نہ کسی قسم کی لیاقت ، وہ بھی اعلیٰ مرتبہ یعنی شرف مکالمت الہٰیہ حاصل کر سکتا ہے ۔ ( شرح بال جبرائیل۔ ۴۱۷۔۴۱۶۔از پروفیسر یوسف سلیم چشتی )
مفتی صاحب ،علامہ صاحب اور پروفیسر کو سہوہوا ہے ۔یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جب کہ کسی نبی کو ایسی تعلیم بجز وحی کے کسی اور واسطے نہیں دی گئی جس سے وہ نبی بن جائے ۔نبی کے لیے کسی اور نبی کی تعلیم کا ایسا انتظام نہیں کیا گیا کیونکہ نبوت وہبی ہے ،کسبی نہیں ۔اس لیے کسی فرد کی تعلیم و تربیت کی ضرورت نہیں پڑتی ،وہ خالق حقیقی جہاں چاہتا ہے اپنی رسالت و نبوت رکھ دیتا ہے ۔ارشاد خدا وندی ہے ’’ ذٰلِک فَضل اللہ ِ یُوتِیہِ مِن یَّشائُ( جمعہ۱۴،پارہ۲۸)ترجمہ: یہ نبوت خدا کا فضل ہے جس کو وہ چاہے عطا کرے۔ایک اور مقام پر ہے۔
’’اَللہ ُ اَعلم ُ حَیثُ یَجعَلُ رِسَالَۃِ‘‘( الانعام۱۲۴،پارہ۸)ترجمہ: اللہ بہتر جانتا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھے ،، انبیاء ؑ کی تعلیم بذریعہ وحی ہوتی ہے۔نبی مکرم ؐ نے جس معاشرے میں آنکھ کھولی اس میں سوائے برائی کے اور کچھ نہ تھا۔برائی پر فخر کرتے تھے ۔چالیس سال کی زندگی میں ہر عیب ،تہذیب و تمدن سے عاری، اخلاقی گراوٹ ،جوا ، شراب، قتل و غارت، بات بات پہ تلواریں میان سے باہر ، لڑکیاں زندہ درگور کرنے الغرض کوئی برائی بھی آپ ﷺکی پاکدامنی پر ایک ادنیٰ سا دھبا بھی نہ لگا سکی۔ آپﷺ الصادق و الامین کے القابات سے نوازے گئے ،آپ ﷺکے جانی دشمن ،گناہوں میں لتھڑے مگر آپ کے مداح تھے۔اس دوران بھی کسی سے تعلیم حاصل نہ کی ، آپ کی تعلیم کسی شعیب کی مرہون منت نہ تھی کیونکہ الرحمن علم القرآن کا فرمان اس کے رد میں موجود ہے۔لہذا حضرت موسیٰؑ کو کلیم بننے کے لیے کسی شعیب ؑ کی ضروت نہیں تھی ۔
اہم نکتہ :رافضیوں کا گمان ہے کہ ابو طالب کا نام عمران تھا۔(السیرت النبویہ۔۱۰۶)
جواب: صحیح روایت میں ہے کہ ا ن کا نام عبد مناف تھا ، عمران نہیں تھا۔ اس آیت میں وہ عمران سے مراد ان کی ذات ہی کو لیتے ہیں ۔’’ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفیٰٓ اٰدَمَ وَ نُوحًا وَّاٰلَ اِبْرَاْھِیْمَ وَاٰلَ عِمْرَاْنَ عَلَی اْلعٰلَمِیْنِ(آل عمران۲۲،پارہ۳)ترجمہ: بے شک چن لیا اللہ تعالیٰ نے آدم اور نوح اور ابراھیم کے گھرانے کو اور عمران کے گھرانے کو سارے جہاں پر،،
حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ’’ یہ ان کی بہت بڑی خطا ہے ۔انھوں نے یہ قول نقل کرنے سے پہلے قرآن مجید میں غور و فکر نہیں کیا۔ اس فرمان کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
’’ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَافِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّراََ(آل عمران۳۵،پارہ۳)ترجمہ: (میرا رب )میں نذر مانتی ہوں تیرے لیے جو میرے شکم میں ہے(سب کاموں سے) آزاد کرکے۔
قرآن کریم کسی تحریف کرنے والے کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے مفاد کی خاطر اپنی مرضی کے مطابق آیتوں کو معانی کا جامہ پہنائے۔خود قرآن مجید اس بات کی وضاحت کر دیتا ہے۔ اور یہ خاتون جو عمران کی بیوی ہے جو حضرت مریم کی والدہ ہیںاور عمران آپ کے والد کا نام تھانہ کہ حضرت ابو طالب کا۔ ( نذر ماننے والی خاتون حضرت مریم کی والدہ ہیں)
حضرت محمدﷺ کا خاندان
اعتراض نمبر۶۹
مولانا شبلی (سیرت النبی۔۱۔۱۰۹) بتاتے ہیں ، مارگولیس کہتا ہے کہ ’’ یہ بالکل ظاہر ہے کہ محمد ﷺ ایک غریب اور ادنیٰ خاندان سے تھے‘‘ اس الزام کے بعد وہ درج ذیل استدلال پیش کرتا ہے۔
اول: قرآن مجید میں ہے کہ قریش کو حیرت تھی کہ ان میں ایسا پیغمبر کیوں نہ بھیجا گیا جو شریف خاندان سے ہوتا۔(نعوذ باللہ )
دوم: پیغمبر کے عروج کے زمانہ میں قریش نے آنحضرت (ﷺ) کو اس درخت سے تشبیہ دی جو گھورے پر جمتا ہے۔
سوم: فتح مکہ کے دن آپ نے فرمایا کہ آج شرفائے کفار کا خاتمہ ہو گیا ۔قرآن کریم کے الفاظ یوں ہیں ۔ ’’ وَقَالُوا لَولَا نُزِّلَ ھَذَا الْقُرآنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَنَیْنِ عَظِیمِِ‘‘( الزخرف۳۱،پارہ۲۵)۔ترجمہ: اور( کفار) کہتے ہیں کہ یہ قرآن دو شہروں ( مکہ۔طائف) کے کسی آدمی پر کیوں نہ اترا؟۔
چہارم: رسول اللہ ﷺکو جب ایک شخص نے مولیٰ کے لفظ سے خطاب کیا تو آپ ؐ نے اس لقب سے انکار کردیا۔
جواب: یہ استدلال مارگولیس کے اپنے نہیں ہیں اس نے جرمنی کے مستشرق نولدیکے کے نقل کیے ہیں ۔مارگولیس کے مستعار شدہ دلائل و استدلال کا باری باری جائزہ لیتے ہیں ۔سب سے پہلے دیگر مستشرقین کی آراء سے ان کا رد پیش کرتے ہیں ، کیونکہ اپنے گھرکی شہادت قوی اور مضبوط ہوتی ہے ۔جیسا کہ قرآن مجید میں ہے وَشَھِدَ شَاھِدٌمِّنْ اَھْلِھَا(یوسف،پارہ ۱۲) ترجمہ‘‘ اور عورت کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی دی، (۱۲۔۲۶)
استدلال اول: خاندانی شرافت کے بارے میں ڈاکٹر’’ واٹ ‘‘کہتا ہے ’’ محمد ﷺ عرب کے نہایت عمدہ خاندان اور معزز و محترم قوم سے تھے ۔ صورت میں شکیل اور طور میںر سیلے اور بے تکلف تھے (ن۔۴۔۴۴۱) ۔
ڈاکٹر ایسٹن کہتا ہے ’’ اے شہر مکہ کے رہنے والے! اور بزرگوں کی نسل سے پیدا ہونے والے، اے آبائو اجداد کے مجد و شرف کو زندہ کرنے والے،اے سارے جہاں کو غلامی کی ذلت سے نجات دلانے والے، دنیا آپؐ پر فخر کرتی ہے اور خدا کی اس نعمت پرشکر ادا کر رہی ہے ،اے ابراھیم خلیل ؑاللہ کی نسل سے ،اے وہ کہ جس نے عالم کے لیے اسلام کی نعمت بخشی۔(ن۔۴۔۴۹۱)۔
قیصر روم نے ابو سفیان سے سید المرسلین ﷺکے حسب و نسب کے بارے میں پوچھا۔ ابو سفیان نے کہا: حسب و نسب اور خاندانی شرافت میں کوئی رسول اللہ سے بڑھ کر نہیں ۔قیصر روم نے جواباََ کہا :یہ بھی ایک علامت ہے ،پیغمبر ہمیشہ شریف خاندان سے ہوتے ہیں ۔تمھارے جیسا عقیدہ تو ابو سفیان کا بھی نہیں تھا ،حالانکہ قبل از اسلام وہ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺکا بد ترین دشمن تھا، پھر بھی سچی بات کہے بغیر نہ رہ سکا۔کاش مارگولیس اپنے ہم نوائوں کی بات مان لیتا لیکن مستشرق مارگولیس تو ابو سفیان سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گیا ہے ۔
سرولیم میور کہتا ہے ’’ وہ پہلے ہی سے اپنے وطن میں عقل و امانت میں رفیع المرتبہ تھے اور قریش کے بزرگ قبیلہ اور اس کے معزز و ممتاز طبقہ سے تھے‘‘۔
واشنگٹن ارونگ: آپ عرب کے شریف ترین گھرانے کے چشم و چراغ تھے، (ن ۔۴۔ ۵۳۱) حدیث کی گواہی لے لیں ۔صحیح میں واثلہ بن استمع سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمعیل ؑ کے فرزندوں میں سے کنانہ کو برگزیدہ کیا اور بنی ہاشم کو قریش کو برگزیدہ کیا اور مجھ کو بنی ہاشم سے بر گزیدہ کیا‘‘ ( کتاب الفضائل مسلم شریف ج۶ص۹)
مارگولیس نے تمام انبیاء کی شان میں گستاخی کی ہے ۔ آپ برگزیدہ انبیاء کے خاندان سے ہیں ۔ خاندان انبیاء کی اعلیٰ نسبی میں شک و شبہ کی قطعاََ گنجائش نہیں ۔آپ کی اعلیٰ نسبی خاندان انبیاء سے ثابت ہے اور آپ ان امجادانبیاء کے دین کے پیغام بر ہیں ۔ارشاد خداوندی ہے ’’ قُلْ بَلْ مِلَّۃََ اِبرَاھِیْمَ حَنِیْفاًَ(ط) وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ( البقرہ۱۳۵،پارہ ۱) (ترجمہ) اے نبی: فرما دیجئے بلکہ ہم تو ابراھیم کا دین حنیف لیتے ہیں جو ہر باطل سے جدا تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔
استدلال دوم کا رد: میجر آرتھر گلن مورنڈ بتاتا ہے ’’ حضرت محمد ؐ بلا شبہ اپنے عصر مقدس میں ارواح طیبہ میں سے تھے وہ صرف مقتدر اور راہنما ہی نہ تھے۔ بلکہ تخلیق دنیا سے اس وقت تک جتنے صادق سے صادق اور مخلص سے مخلص پیغمبر آئے ان سب سے ممتاز رتبہ کے تھے‘‘۔ ( ن۔۴۔۴۵۰) ایسے عظیم و شریف کو ایسی تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ ذی فہم سمجھتے ہیں کہ ایسی تشبیہ یا اس قسم کے دیگر فضول الزامات جو لکھت پڑھت میں نہیں آتے ،صرف آپ کی شان گھٹانے کی خاطر گھڑے ہیں ،سوائے اس کے کچھ نہیں۔ اس مستشرق کو کیا خبر کہ ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔
استدلال سوم کا رد: وَقَالُوا لَوْ لَانُزِّلَ۔۔۔۔۔۔۔ مِنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ‘‘(الزخرف۳۱، پارہ ۲۵) اس آیت مبارک میںلفظ عظیم ہے ۔دونوں مستشرقین مارگولیس اور نو لدیکی عظیم اور شریف کے فرق سے نا واقف معلوم ہوتے ہیں ۔عظیم اور شریف دو جدا جدا الفاظ ہیں ۔عظیم کا لفظ دولت مند اور اقتدار والے کے لیے آیا ہے ۔ان مستشرقین کو سید الابرار کی شرافت سے نہیں ،مال و دولت سے انکار تھا۔ عرب آپؐ کو صادق و الامین کہتے تھے یہ شرافت کے درجہ کمال کے اوصاف ہیں ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی شرافت پر سوالیہ نشان نہ تھا، بلکہ دولت پر تھا۔مولانا شبلی اس ضمن میں رطب اللسان ہیں، ’’ دوسرا استدلال اگر صحیح ہو تو دشمن کی ہر بات کو صحیح ماننا چاہیئے۔کفار نے آنحضرتﷺ کو دیوانہ ،جادو گر ، شاعر ، کاہن وغیرہ کہاان میں سے کون سی بات صحیح ہے۔یعنی کس کو مانیںکس کو ٹالیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب کو نہیں مانتے کیونکہ تاریخی حقائق سے ان الزامات کا رد ہوتا ہے۔نیز شرفائے کفار کا فتح مکہ کے دن خاتمہ ہو گیا، شرفائے مکہ سے مراد کفار کے بڑے بڑے جبارین و متکبرین ہیں ۔اس سے آنحضرت کی کم نسبی سے کیا تعلق؟ نہایت تعجب کی بات ہے کہ یہ آیت کفار سے مخاطب ہے تو کیسے اس آیت کے حوالہ سے آپ کی کم نسبی کو شمار کیا جائے جس کے بارے ذرا سا بھی اشارہ نہیں ملتا، یہ نا انصافی ہے۔مارگولیس نے اپنے آباء یعنی کفار کے اعتراض کو دہرایا ہے جس کا جواب قرآن کریم نے دیا،’’ اَھُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحمَتَ رَبِّکَ۔۔۔۔لِلْمُتَّقِیْنَ (زخرف۳۲،پارہ ۲۵)۔ترجمہ: کیا وہ بانٹتے ہیں آپ کے رب کی رحمت کو جو ہم نے خود تقسیم کیا ہے ان کے درمیان سامان زیست کو اس دنیوی زندگی میں اور ہم نے ہی بلند کیا بعض کو بعض پر مراتب میں تاکہ ایک دوسرے کے کام آسکیں اور آپ کے رب کی رحمت بہت بہتر ہے اس سے وہ جمع کرتے ہیں، اور اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ سب لوگ ایک امت بن جائیں گے تو ہم بنا دیتے ان کے لیے جو انکار کرتے ہیں رحمن کا ، ان کے مکانوں کے لیے چھتیں چاندی کی اور سیڑھیاں ،جن پر وہ چڑھتے ہیں ،اور ان کے گھروں کے دروازے بھی چاندی کے اور وہ تخت جن پر وہ تکیہ لگاتے ہیں ،وہ بھی چاندی کے اور سونے کے اور یہ سب چیزیں دنیوی زندگی کا سامان ہیںاور آخرت آپ کے رب کے نزدیک پرہیزگاروں کے لیے ہے ‘‘ ۔ اسرائیلیوں نے بھی طالوت کے بادشاہ بننے پر یہی اعتراض اٹھایا تھا ،دولت کے انبار نہیں ہیں ،اللہ تعالیٰ نے ان کے باطل نظریہ کی نفی فرمادی ’’ وَقَالَ لَھُم اِنَّ اللّٰہ َ ۔۔۔۔۔۔۔ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (البقرہ۲۴۷،پارہ۲) ۔ترجمہ: اور کہا انھوں نے بے شک اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا تمھارے لیے جالوت کو ،بولے کیونکر ہو سکتا ہے اسے حکومت کا حق ہم پر ،حالانکہ ہم زیادہ ہیں حق دار حکومت کے ،اس لیے اور نہیں دی گئی اسے فراخی مال و دولت کی ، نبی نے فرمایا: بے شک اللہ نے چن لیا ہے اسے تمھارے مقابلہ میں اور زیادہ دی اسے کشادگی علم میں اور جسم میں اور اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے اپنا ملک جسے چاہتا ہے اور اللہ تعالیٰ وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے ‘‘ ۔اس آیت میں تین باتیں قابل غور ہیں ۔۱: علم ،۲: جسم، ۳: عطائے خداوندی، جسے چاہتا ہے رب عطا کرتا ہے ۔یہی باتیں مستشرقین اور مشرکین کی سمجھ سے بالاتر ہیں اور کانٹے کی طرح کھٹکتی رہتی ہیں ۔’’ منٹگمری واٹ ‘‘ نے یہ اعتراض کرنے والوں کو بنی اسرائیلیوں سے تشبیہ دی ہے جنھوں نے طالوت کے بادشاہ بننے پر اعتراض کیا تھا۔انھوں نے اعتراض کیا تھا کہ طالوت اس لیے بادشاہ نہیں بن سکتا کیونکہ اس کے پاس دولت کے انبار نہیں ہیں ۔اسی طرح کفار نے حضور ﷺکی رسالت و نبوت کا انکار کیا کہ آپ مالدار نہیں ہیں ۔قرآن کریم نے اس باطل نظریہ کی بیخ کنی کردی ۔
استدلال چہارم کا رد: اس بات میں شک نہیں بلکہ شک کی قطعاََ گنجائش نہیں ہے۔ واقعی آپ نے مولیٰ اور سیّد کے لقب سے انکار فرمایا۔احادیث میں تصریح ہے ۔آپ نے فرمایا :’’ مجھ کو سیّد و مولیٰ نہ کہو ، سیّد و مولیٰ اللہ ہے۔ قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ کو مولیٰ کہا گیا ہے۔ارشاد ربانی ہے، ’’نعم المولیٰ و نعم الوکیل‘‘ اس میں عزت و عظمت اور جلال خدا وندی کا اظہار ہے ان القابات کو قبول نہ کرنے سے آپ ﷺکی شرافت نسبی میں فرق نہیں پڑتا البتہ نیک ،عمدہ اوراعلیٰ نسب کی عظمت ہے کہ آپ نے ان القابات کو قبول نہ فرمایاجو ذات خدا وندی کے لیے مختص ہیں ۔ آپ ﷺاللہ تعالیٰ کے بندے ہیں نہ کہ اللہ یا اللہ کے بیٹے۔ہاں یہ بات دل کو لگتی ہے کہ آپؐ کے بجز کوئی اور ہوتا تو وہ ان القابات کو فخر اور پسندیدگی سے اختیار کر لیتا اور پھولے نہ سماتا، آج کل کچھ نام نہاد افراد sir، نواب، مخدوم کا لقب وصول کر کے اپنی بڑائی اور سرمایہ افتخار سمجھتے ہیں ۔اگر کوئی یہ کہہ دے کہ آپ نے اپنے لیے اور دوسرے کے لیے مولا کا لفظ استعمال فرمایا ہے،کیوں؟ تو اس کی وجہ مجاز ہے ۔انھیں مجازی معنوں میں استعمال کیا گیا ہے ، حقیقی معنوں میں نہیں جیسے رب ،حقیقی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے مگر مجازی معنوں میں بھی استعمال ہو تا ہے ۔ارشاد ربانی ہے ۔ ’’ قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِماَّ۔۔۔۔۔مِنَ الْجٰھِلِیْنَ‘‘ (یوسف ۳۳،پارہ۱۲)
ترجمہ: یوسف نے عرض کی اے میرے رب مجھے قید خانہ زیادہ پسند ہے اس کام سے جس کی طرف یہ مجھے بلاتی ہے اور اگر تُو مجھ سے ان کا مکر نہ پھیرے گا ،تو میں اسی طرف مائل ہو جائوں گا اور نادان بنوں گا ۔ تمام استدلال رد کرنے کے بعد مارگولیس کے الزام ’’ یہ بالکل ظاہر ہے کہ محمد ﷺ ایک غریب اور ادنیٰ خاندان سے تعلق رکھتے تھے ، کا جائزہ لیتے ہیں ۔
آپﷺ عمدہ،اعلیٰ اور شریف خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔اپنوں کے بجز غیروں نے بھی آپ کے معزز و محتشم خاندان کے گن گائے ہیں ۔مستشرق ٹارانڈراے کہتا ہے۔آپ ایک معزز مگر غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ٹارانڈراے آپ کا معزز خاندان تسلیم کرتا ہے جو مارگولیس کے اعتراض ’’ ادنیٰ خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘‘ کا رد کرتا ہے۔آپ کے شریف النسب اور اعلیٰ نسبی کا ذکر ہو چکا، اب اس الزام کے دوسرے حصہ کہ ’’ ایک غریب خاندان سے تھے‘‘ کو موضوع ِ بحث بناتے ہیں ۔بحوالہ ابراھیم سیالکوٹی ،مسعود مفتی( سیرت النبی اعلان نبوت سے پہلے۔ص ۲۹) رقم طراز ہیں ’’ حضرت اسمعیلؑ کے بارہ بیٹے تھے،یہ سب اپنی امتوں کے بارہ رئیس تھے،یہ سب عرب کے مختلف علاقوں میں آباد تھے۔عرب کے کئی ایک شہر ان کے نام پر آباد تھے( تفصیل کے لیے حوالہ بالا کا ص ۵۰ ملاحظہ کریں) مختصر آپ کے خاندان کے چند امجاد کا ذکر کرتے ہیں تاکہ گھرانے کی غربت معلوم ہو سکے۔
حضرت کنانہ:آپ جان دو عالم ﷺکے جدِ امجد ہیں ۔یہ انتہائی مہمان نواز تھے،اکیلے کھانا تناول نہ فرماتے، جب کوئی ساتھ نہ ہوتا تو ایک نوالہ خود تناول فرماتے اور دوسرا لقمہ پتھر پر رکھ دیتے(حوالہ بالا۔ ۲۸۰)۔حضرت کنانہ کے پوتے مالک کو مالک اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اس وقت عرب کے حاکم تھے۔
خواجہ قُصّی:علامہ ابن جوزی کے علاوہ کئی حضرات نے لکھا ہے’’ قصی بن کلاب مکہ مکرمہ کے سردار تھے۔علامہ زرقانی کہتے ہیں ’’ قصی بن کلاب کو تمام قبائل قریش پر اقتدار حاصل تھا، حاجیوں کو کھانا کھلانا ،زمزم کا پانی پلانا، مسافروں کی پذیرائی کرنے،مشورہ کرنے کے لیے روساء قریش کو دار الندوہ (دار المشورہ) میں طلب کرنے اور قریش کا پرچم لہرانے کے اہم فرائض ان کے سپرد تھے۔قصی نے مکہ میں حکومت قائم کی ۔اس کے اہم مناصب ان کی اولاد کے پاس تھے۔عرب میں اس قدر عزت پائی کہ جو قصی کہہ دیتا سب مان لیتے، کوئی انکار نہیں کرتا ۔ان کی اولاد خانہ کعبہ کی متولی تھی۔اس سبب سے پورے عرب اور بیرون عرب میں آپ کی عزت تھی۔(حوالہ بالا)
خواجہ عبد مناف:خواجہ عبد مناف کا نام مغیرہ تھا۔ اپنی سرداری کے زمانہ میں قریش کو خدا ترسی اور حق شناسی کی نصیحت فرمایا کرتے تھے۔ایک مرتبہ صدیق اکبر نے رسول اللہ کے حضور کسی شاعر کے شعر پڑھے ۔ان میں سے ایک شعر ،جس کا ترجمہ یہ ہے ،یہ تھا۔ ’’او! گٹھڑی اُٹھا کر لے جانے والے( یعنی مسافر) تُو عبد مناف کے ہاں کیوں نہ جا اترا، اورو ہاں چلا جاتا تو ناداری اور تنگ دستی دور کر دیتے، وہ تو امیر غریب سے یکساں سلوک کرتے ہیں اور فقیر کو مستغنی کر دیتے ہیں ۔ نبی مکرم ؐ نے ان اشعار کو سن کر تبسم فرمایا اور مسرور ہوئے( حوالہ بالا)
خواجہ ہاشم:حضرت ہاشم قبیلہ قریش کے معزز سردار تھے ان کے گھر میں مال و منال بہت تھا۔ان کی عزت وقار کا اندازہ اس سے لگائیے کہ حبشہ کے حکمران اور قیصر روم آپ کا بہت احترام کرتے تھے۔قیصر روم نے حکم نامہ جاری کیا کہ قریش جب اس علاقہ میں بغرض تجارت آئیں تو ان سے ٹیکس نہ لیا جائے ۔حبشہ کے نجاشی سے بھی اس قسم کا حکم نامہ حاصل کیا ۔سیرت دھلانیہ میں ہے ’’ ہاشم اور آپ کے بھائیوں عبد شمس ۔مطلب اور نوفل کے بارے لوگ کہتے ہیں کہ وہ لوگوں کی پناہ گاہ اور ان کے اعزاز و افتخار ہیں اور عرب کے سردار ہیں (حوالہ بالا) ۔
حضرت عبدالمطلب:حج کے موقع پر اونٹنیوں کے دودھ میں پانی ملاکر اور شہد حل کر کے حاجیوں کو پلاتے۔پہاڑوںپر کھانا بکھیر دیتے تا کہ چرند پرند کھائیں ۔بایںسبب آپ کو پرندوں کا میزبان کہا جاتا ہے ۔آپ نے فاطمہ بنت عمرو سے نکاح کیا تو بڑی کوہان والی ایک سو ناقہ اور دس اوقیہ سونا مہر میں دیا۔حضرت عبد اللہ کی قربانی کے بدلے سو اونٹ قربان کیے۔یہی بعد میں مقتول کا خون بہا مقررہُوا۔ ۔صاحب قرآن کے عقیقہ پر عربوں کی ضیافت کی ۔بنی سعد سے حضور ﷺکی واپسی پر گم شدگی ہوئی تو بازیابی پر بقول علامہ قسطلانی بڑے کوہان والے ہزار ناقے اور سو رطل سونا صدقہ دیا ( ایک رطل ـ۔۔ ۲۸ تولہ، ۲؍۱ ۔ ۴ماشہ۔۔ نور اللغات)
حضرت عبداللہ:حضرت آمنہ ؓنے اپنے شوہر کی وفات پر ایک مرثیہ کہا اس کے ایک شعر کا ترجمہ یوں ہے’’ موت نے انھیں بغیر کچھ بتائے اپنی آغوش میں لے لیا اور ان کے جانے کا افسوس کیوں نہ ہو،جب کہ وہ کثرت کے ساتھ عطا کرنے والے اور بہت رحم دل تھے‘‘ کثرت سے عطا کرنے والا سخی ہوتا ہے غریب نہیں ہوتا۔ یہ شعر ان کی سخاوت کے ساتھ امارت کی نشان دہی بھی کرتا ہے ۔آپ نے ورثہ میں چھوڑا۔۱: پانچ اونٹ،۲:بکریوں کا ریوڑ،۳:ایک کنیز(اُم ایمن) ،۴: ایک شقران نامی غلام، جس کے بارے یہ بھی ہے کہ نبی مکرمؐ نے اسے خرید کر آزاد کر دیا تھا۔۵:چاندی،۶: تلوار،۷: مکان (اسی میں آپؐ کی ولادت ہوئی اور بنو سعد سے واپسی پر آپؐ اپنی والدہ ماجدہ کے ہمراہ اس مکان میں رہائش پذیر رہے) فتح مکہ کے بعد آپؐ سے پوچھا گیا کہ آپؐ آبائی گھر میں آرام فرمانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو انتظام کیا جائے؟ آپؐ نے فرمایا : میں گھر میں نہیں اترنا چاہتا اور نہ ہی میرے قدر دانوں نے میرے لیے باقی رہنے دیا ہے۔(خاتم النبیین۔۸۳۰) ، ۸:ایک دکان(جس میں کپڑا فروخت ہوتا اور سلتا تھا) ،۹: سامان تجارت، آپ کے والد ماجد شام کو تجارتی سامان لے گئے ،واپسی پر بیمار ہوئے اور فوت ہوئے،اس سامان تجارت میں نقد، جنس یعنی کھجور ،چمڑا وغیرہ تھا۔( سیرت النبی اعلان نبوت سے پہلے۔۲۸۶)اگرچہ یہ اثاثہ امارت کو ظاہر نہیں کرتا لیکن آپ ﷺ کی غربت کا اظہار بھی نہیں ہوتا۔
آنحضرت ﷺکے چچا صاحبان:آپﷺ کے چچائوں میں حمزہ،عباس اور ابو لہب لکھ پتی ہو چکے تھے۔ دولت کی ریل پیل تھی۔حضرت عباس ؓزمانہ جاہلیت میں بہت بڑے رئیس تھے۔انھوں نے حضرت جعفرؓ کی کفالت کا بیڑا اُٹھایا۔ یہ وہی عباس ہیں جنھوں نے اپنے دو بھائیوں ،ابو طالب اور حارث کے بیٹوں عقیل اور نوفل کا فدیہ اپنے مال سے ادا کیاتھا۔وہ جنگ بدر میں قیدی ہوئے تھے۔ہر فرد کا فدیہ ستر اوقیہ تھا۔
سید المرسلین جناب محمدﷺ:بعض کہتے ہیں کہ آپ ﷺ بظاہر مالی لحاظ کمزور تھے۔مگر ایسا نہ تھا۔ یہ ایمان افروز واقعہ سنیے جس سے حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔ گاہک پہلے آپ ؐ کے پاس آتے تھے۔آپؐ روزانہ تھیلیاں بھر کر لے جاتے ہیں ان تھیلیوں میں کیا ہے؟ اس بات کا کھوج لگانے ایک دن عتبہ آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔آپ ایک مکان کے قریب پہنچے ۔دستک دی۔ایک بڑھیا نکلی۔عتبہ نے دیکھا تو ہکا بکا رہ گیااور بولا یہ تو قیس کا گھر ہے جو حرب فجار میں چل بسا تھا۔اس مکان میں چھوٹے بچے اور بڑھیا رہتی تھی۔پیارے رسول آگے بڑھے ۔گلی میں ایک اپاہج رہتا تھا۔دستک دی۔دروازہ کھلا، بوڑھا باہر آیا۔اس کی حالت اچھی نہ تھی۔آنکھیں دھنسی ہوئی،چہرہ کی ہڈیاں باہر ابھری ہوئیں ، رنگ زرد اور ہاتھوں میں کپکپاہٹ ،آپ نے مصافحہ کیا ۔تھیلی اسے تھمادی ۔بوڑھا دعائیں دیتا رہا۔عتبہ حیران تھا۔ آپ ﷺآگے بڑھے ،بچے کھیل رہے تھے۔وہ دیکھتے ہی آپؐ کی طرف لپکے ۔کسی نے دامن تھاما، کوئی ہاتھوں سے چمٹا ،کوئی ٹانگوں کو لپٹا ،آپؐ نے کسی کے سر پر ہاتھ پھیرا،کسی کے گال تھپتھپتائے،کسی کو چمکارا،کسی کو چوم لیا۔عتبہ کو ایسے بچوں سے نفرت تھی ۔اِدھر آپؐ محبت کے پھول نچھاور کر رہے تھے۔ سارے بچوں میں تھیلیاں بانٹ دیں ۔وہ خوشی خوشی اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔عتبہ نے چپ سادھ لی لیکن پھر بھی بن کہے آگے نہ بڑھ سکا۔’’ آپؐ مال و دولت اور سیم و زر جمع کر کے امیر بننا نہیں چاہتے تھے۔ غریبوں ، حاجت مندوں او ر بے سہارا انسانیت کی مدد اور خیر خواہی کرنا چاہتے تھے‘‘ آپؐ اس فرمان کی عملی تصویر پیش کر رہے تھے۔’’یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْو‘‘ ترجمہ: آپ سے پوچھتے ہیں کہ ہم کیاخرچ کریں ۔کہہ دیجیے جو ان کی ضرورت سے زیادہ ہو ،سب خدا کی راہ میں دے دیں ‘‘ ۔یہ ہے آپ کے خاندان کا حال جسے مستشرقین غریب خاندان سے تھے، کہتے ہیں (نعوذ باللہ) ۔ قارئین کرام خود پڑھ کر اندازہ لگا لیں کہ مستشرقین کس سوچ کے مالک اور کس نفرت و تعصب کے بھرے ہوئے ہیں ۔بلا دلیل اور بے بنیاد اعتراض کر دیتے ہیں ۔
اعتراض نمبر ۷۰
حضور ؐ کی زندگی میں اتنی بات یقینی ہے کہ آپؐ ایک معزز مگر غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے، آغاز حیات میں شفقت پدری سے محروم تھے اور آپ ؐ کی پرورش ایک غریب گھر میں ہوئی لیکن بعد کے ازدواجی ذریعے سے آپؐ نے معاشی خوشی حاصل کر لی تھی۔( ٹارانڈرائے ۔ضیا النبی۲۱۸؍۷)
۲۔ مائیکل ہارٹ کہتا ہے ’’ جب آپ کی شادی ایک اہل ثروت خاتون سے ہوئی جس سے مالی حالت بہتر ہو گئی ۔
جواب:ٹارانڈراے نے یہ تو تسلیم کیا کہ آپ ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔نیز ٹارانڈراے نے مارگولیس کے سابقہ اعتراض ’’آپ ؐ ایک ادنیٰ خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘‘ کا رد کر دیا۔آپ کے اعلیٰ حسب و نسب اور شرافت و بزرگی کا ذکر پچھلے صفحات میں تفصیل سے ہوا اور آپ ؐ کے غریب خاندان سے ہونے کی بھی نفی اور ابطال کیا گیا ہے۔ باقی مذکور اعتراض میں دو کا جواب دینا باقی ہے ۔۱: آپ کی پرورش ایک غریب خاندان میں ہوئی،۲: رشتہ ازدواج کے ذریعے آپ ؐنے معاشی خوشحالی حاصل کرلی تھی۔
جہاں تک پہلے الزام کا تعلق ہے کہ’’ آپ کی پرورش ایک غریب گھر میں ہوئی‘‘ ٹارانڈرائے اسے ایک غریب گھر میں محدود کر دیتا ہے ۔ یعنی اس کا نشانہ حضرت ابو طالب کا گھر ہے ۔کیونکہ ابو طالب نے آپ ؐ کی پرورش کی ذمہ داری اپنے باپ عبد المطلب کی زندگی ہی میں لے لی تھی ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ٹارانڈرائے چار یا پانچ سال کی بنی سعد میں پرورش کا انکار کر رہا ہے ۔اس کے ساتھ ہی عبد المطلب کی کفالت کی مدت کو بھی ڈکار لیے ہضم کر جاتا ہے۔اس دادا نے آپؐ کی کفالت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ابو طالب نے اپنے باپ کی نصیحت پر آنحضرت کی پرورش کا ذمہ لیا تھا اور آپ ؐ کے کاندھوں پر یہ ذمہ داری عبد المطلب کی وفات کے بعد پڑی تھی ۔اس وقت آپ کی عمر آٹھ سال کے لگ بھگ تھی۔ آپ کے چچا ابو طالب نے نہ صرف اپنے خاندان کے ایک آدھ فرد بلکہ مشرکین مکہ کی مخالفت مول لی تھی جو ہر وقت آپ کو ٹھکانے لگانے کے لیے ادھار کھائے بیٹھے تھے۔غریب گھر اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ آپ قلیل المال تھے۔یہ درست نہیں ہے اس کی تفصیل پیچھے آ چکی ہے۔ غریب گھر اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ آپ قلیل المال کے ساتھ کثیر العیال تھے۔یہ بھی درست نہیں آپ کی پرورش کے زمانہ میں ابو طالب کے تین بچے تھے اسے کثیر العیالی نہیں کہا جا سکتا۔غریب گھر اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ ابو طالب لنگڑے تھے یا پیدائشی معذور تھے۔وہ سرپرستی کیا کرتے یا تجارت کیسے کر سکتے تھے؟
اگر وہ لنگڑے تھے تو تجارت میں اس عذر سے رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی ، کسی کو ایجنٹ یا حصہ دار بنا کر تجارت کی جا سکتی ہے ۔حضرت خدیجہ ؓ کا کاروبار تجارت وسیع تھا ۔وہ صرف نگرانی فرماتی تھیں اور تجارتی سامان دوسروں کے سپرد کر دیتیں ، انھیں معاوضہ دیتیں، یا تجارتی کارواں کے ساتھ اپنا سامان تجارت غلاموں کے ہمراہ بھیج کر تجارت کرتی تھیں ۔ایسا ابو طالب نہیں کر سکتے تھے؟ دور دراز ملکوں میں تجارت اونٹوں کے ذریعہ ہوتی تھی۔سواری کے لیے یہی اونٹ کام آتے تھے تو بجائے پیدل سفر کرنے کے ،جس میں دشواری ہو ،اونٹوں کو سواری کے لیے استعمال کر کے اپنا کام انجام دے سکتے تھے۔عام طور پر روزمرہ مشاہدہ کی بات ہے کہ ایسے لوگ اپنا کام احسن طریقے سے کرتے نظر آتے ہیں ۔۲: آنحضرت کی قریباََ ۹ سال کی عمر میں ابو طالب نے بغرض تجارت شام کا سفر کیا، اس وقت یہ معذوری کیوں پیش نہ آئی؟
قابل غور نکتہ:آنحضرت ﷺ کو رضاعت کے لیے حلیمہ سعدیہؓ گود میں لیتی ہیں۔ اس کی چھاتی میں دودھ اس قدر کم تھا کہ ان کا بیٹا عبد اللہ بھوک سے ساری رات چلاتا اور بلبلاتا رہتا تھا۔دونوں میاں بیوی اس کی تسکین خاطر کے لیے رات جاگ کر گزارتے۔اونٹنی تھی کہ وہ قطرہ دودھ بھی نہ دیتی تھی ۔دراز گوش جس پر سوار ہو کر حلیمہ سعدیہ مکہ آئیں اس قدر کمزور اور نڈھال تھی کہ بنی سعد قبیلہ کی باقی عورتوں سے پیچھے رہ جاتی ۔حتیٰ کہ وہ مکہ میںسب سے آخر میں پہنچی۔وہی سواری جو چل نہ سکتی تھی ،واپسی پر سب سے آگے نکل جاتی ہے ۔حلیمہ سعدیہؓ کی چھاتی میںدودھ کی افزونی ہوئی کہ آنحضرت اور ان کا بیٹاعبد اللہ دودھ سیر ہو کر پیتے تھے۔ اونٹنی کے تھن د ودھ سے بھر گئے۔حلیمہ کے گھر میں برکتوں کا نزول شروع ہُوا۔مال مویشی فربہ ہوگئے۔قحط اور کال کٹ گیا۔وغیرہ وغیرہ۔
مستشرق دور کی کوڑی لاتا ہے اور کہنا یہ چاہتا ہے کہ آپ ؐ کے وجود سے حلیمہ سعدیہ ؓکا گھر بقعہ نور بن گیا۔ کال کٹ گیا۔مویشی فربہ ہو گئے۔دودھ کی فراوانی ہو گئی گویا خوشحالی نے سعدیہ کا گھر دیکھ لیا تو کیوں کر ابو طالب کے گھر کی غربت نہ گئی؟ان کے حالات کیوں نہ بدلے ؟ کیا ایسا تو نہیں کہ مسلمانوں نے حلیمہ سعدیہ کو پیش آنے والے واقعات کو خود گھڑ لیا ہوجن کا حقیقت سے کوئی دور کا تعلق بھی نہ ہو۔یہ مستشرق کی اپنی سوچ اور تعصب اور حقائق کو مسخ کرنے کی ایک ناکام اور نا تمام کوشش ہے۔ جب کہ تاریخ اس کا رد کرتی ہے ۔آپ کی پرورش کے زمانے میں ابو طالب نہ تو کثیر العیال تھے نہ قلیل المال تھے۔اس وقت ابو طالب کے تین بچے تھے۔یعنی طالب اور دو بیٹیاں ام ہانی اور حجانہ۔ ابو طالب آپؐ کے قیام کے زمانہ میںخوشحال تھے۔ان کا اپنا تجارتی کاروبار تھا۔ایک دکان کپڑے کی تھی جس میں کپڑا فروخت ہوتا اور سلتا تھا۔ان کے سگے بھائی عبد اللہ کا سامان تجارت بھی آپ کو ہی ملا ہوگا کیونکہ آنحضرتﷺ کی کفالت کی ذمہ داری ابو طالب کی تھی۔ یہ بات قرین قیاس ہے کہ کفالت کے ذمہ دار شخص کو ہی سامان تجارت سپرد کرنا چاہیے تھا۔ایسے گھر کو غریب نہیں کہا جا سکتا۔البتہ یہ بات درست ہے کہ ایک وقت آیا جب ابو طالب کے حالات کمزور تھے لیکن یہ سید الابرار کی کفالت کے بعد کا زمانہ ہے جب نبی کریمؐ نے حضرت علی ؓ اور حضرت عباسؓ نے جعفرؓ کو اپنی اپنی کفالت میں لیا تھاتا کہ ان کا بوجھ ہلکا ہو سکے۔ یہ امر متفق علیہ ہے کہ آپؐ کی پرورش کے زمانہ میں ابو طالب کی مالی اور معاشی حالت بہتر تھی۔یہ یار لوگوں کی من گھڑت کہانیاں اور رنگین بیانیاں ہیں ۔تاریخی حقائق کو چھپاکر افسانوی رنگ میں ڈھال کر اپنی دشمنی کی بھڑاس نکالنا ان کی عادت دیرینہ ہے جو سراسر نا انصافی ہے۔ اس کا جواب کیا دیں گے کہ ابو طالب نے آپؐ کے خدیجہ سے نکاح پر اپنے مال سے حق مہر بیس اونٹ مقرر کیے تھے۔لیکن اس وقت آپ کے پاس کتنے اونٹ تھے معلوم نہیں ہو سکا پھر بھی حق مہر کے لیے بیس اونٹ مقرر کرنا کافی ہیں چونکہ آپ نے تنہا مہر میں بیس اونٹ دئیے جبکہ تمام اہل مکہ نے ہجر ت کے موقع پر ایک سو اونٹ کا انعام مقرر کیا تھا ۔
دوسرا جز:اس اعتراض کا دوسرا جز ہے’’ ازدواج کے ذریعے سے آپ نے معاشی خوشحالی حاصل کر لی تھی۔(ٹارانڈراے) یہی بات مائیکل ہارٹ کہتا ہے ’’ جب آپ کی شادی ایک اہل ثروت عورت سے ہوئی جس سے مالی حالت میں بہتری ہوئی ‘‘۔
جواب:یہ بات کہنا کہ شادی ایک اہل ثروت خاتون سے ہوئی جس سے آپﷺ کی معاشی اور مالی حالت میں بہتری پیدا ہوئی یا مالی پریشانیوں سے نجات مل گئی،درست نہیں ہے۔ مآخذ سے انکار ہے یا مطالعہ کی کمی ہے۔سنیے! جان دو عالمﷺ تجارت کیا کرتے تھے ۔آپ ؐ بہت اچھے شریک کار تھے۔آپ ؐ نہ مخالفت کرتے تھے اور نہ ہی کسی سے جھگڑا کرتے تھے۔آپ ؐ کا تجارت کرنا ازخود اور اپنے والد کے ترکہ میں سے ملنے والے مال کے ذریعے تھا۔ مفتی مسعود( اعلان نبوت سے پہلے۔۲۹۵) بحوالہ محمد احسان الحق ، مولانا شبلی کی عربی تالیف’بدراسلام‘ کے ترجمہ سیرت طیبہ از میمونہ سلطان شاہ بانو ،کے حاشیہ سے لکھتے ہیں کہ’’ رسول اللہ خدیجہ سے نکاح کے وقت مکہ کے ایک مشہور تاجر تھے۔تجارتی امور میں آپؐ کی مہارت کے ساتھ ساتھ آپؐ کی امانت و دیانت کا ہر کوئی معترف تھا۔
دوم:ڈاکٹر محمد حمید اللہ (پیغمبر اسلام ۔۸۰) بتاتے ہیں ’’ اگر ہم بولنے والی کے لیے کوئی گنجائش رکھیں اور موقع و محل کو بھی مدِنظر رکھیں ‘ پھر بھی یہ باتیں ہمیں واضح بتاتی ہیں کہ پیغمبر اسلام ﷺ اپنی زوجہ کی دولت کو ہاتھ نہ لگاتے تھے ،بلکہ اپنے خاندان کو چلانے کے لیے کافی کچھ کما تے تھے۔آپ ؐ کی اپنی تجارت ،ذریعہ معاش تھا لیکن یقینی طور پر یہ ممکن ہے کہ آپؐ نے اپنی زوجہ کے کاروبار کی دیکھ بھال بھی جاری رکھی ہو، کیوں کہ مکہ والوں کے رواج کے مطابق بیوی کی جائیداد شوہر کو نہیں ملتی تھی بلکہ شادی کے بعد بھی مکمل طور پر بیوی کے پاس رہتی تھی۔ اس پر قاطع دلیل السائب کی حدیث ہے۔ قیس بن السائب مخزومی کہتے ہیں ’’ میں نے زمانہ جاہلیت میں محمد بن عبد اللہ ﷺ سے بہتر ساتھی،اور ساجھی کوئی نہیں پایا۔اگر ہم آپ کا مال تجارت لے کر جاتے تو واپسی پر آپؐ ہمارا استقبال کرتے اور خیر و عافیت پوچھتے اور گھر چلے جاتے۔بعد میں حساب دیتے تو اس میں قطعی تکرار یا بحث نہ کرتے ، ہم جو کہتے اس کو مان لیتے۔ دوسرے شرکاء تجارت پہلے نفع و نقصان کی بات کرتے ،مال و منال پر اصرار کرتے (مستشرقین مغرب کا انداز فکر ۔۵۳) اس کے بر عکس اگر آپؐ تجارتی سفر سے لوٹتے تو جب تک پائی پائی بے باق نہ کر دیتے گھر کی راہ نہ لیتے۔ مال خرید کر لاتے تو ہمارے حوالے کر دیتے، اہل و عیال کی خیر و عافیت پوچھتے‘‘۔ گویا ان تاریخی حقائق سے بات واضح ہوئی کہ آپؐ کی معاشی حالت پہلے ہی سے بہتر تھی نہ کہ اہل ثروت خاتون سے شادی کرنے کے بعد بہتر ہوئی۔یہ مستشرقین کی رنگ آمیزیاں ‘ غلط بیانیاں اور فضول کہانیاں ہیں۔یہ محض باطل ہیں اور ’’ دل کے بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے‘‘ کے سوا اور کچھ نہیں۔
اہم نکتہ:’’جب ابو طالب شام کے سفر کے لیے جانے لگے تو حضور ؐ نے ان کے اونٹ کی مہار پکڑ کر اپنے مہربان چچا سے فرمایا، آپ مجھے کس کے سہارے پر چھوڑے جا رہے ہیں ،میری ماں ہے نہ میرا باپ جو میری دیکھ بھال کرے‘‘ (س۔جلد اول،ص۲۹۳)
جواب:ابو طالب آپ ﷺ کی خواہش کا لحاظ بدرجہ اتم رکھتے تھے اور کسی موقع پر بھی اس کو پورا کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں کرتے تھے ۔ آپ ﷺ مجھے کس کے سہارے پرچھوڑے جا رہے ہیں ، میری ماں نہ میرا باپ یہ بات سن کر ابو طالب کا دل پسیجا اور ہمدردی کرتے ہوئے انھیں ساتھ لے لیا اور شام کو روانہ ہوئے اس بات سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ شاید ابو طالب کی بیوی حضورؐ کا خیال نہ فرماتی ہوگی۔مگر یہ یاد رہے کہ آپؐ نے اپنی چچی کے بارے میں فرمایا: ’ یہ میری ماں ہیں۔مجھے بہت پیار کرتی تھیں ۔خود بھوکی رہتیں لیکن مجھے کھلاتی تھیں۔یہ میری ماں کے بعد میری ماں ہیں‘‘۔
دوم:اتنے دور دراز سفر پر جانا بضد نہ تھا یا پیاری چچی کے گھنے خنک سائے میں رہنے سے انکار نہ تھا۔بلکہ تجارتی اسرار و رموز سے آشنائی اور چچا کا بار ہلکا کرنے کے لیے ان کا ہاتھ بٹانا مقصود تھا اس لیے جانے کا اصرار کیا۔ابو طالب بھی آپؐ کو دانستہ ساتھ لے گئے کہ کل حضورؐ کو خود اپنا کام سنبھالنا ہے اس لیے انھیں کاروبار سے واقفیت ہو جائے۔اس طرح یہاں بھی ابو طالب حضورﷺکو بحیثیت شریکِ کار لے کر گئے تھے۔
سوم:یہ وہی چچی فاطمہ ہیں جن کی وفات ہوئی۔آپؐ ان کی قبر میں لیٹ گئے ۔ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا طلب فرمائی۔ذرا سوچیں اگر وہ آپؐ کا خیال نہ رکھتی ہوتیں ، دکھ دیتی ہوتیں تو آپؐ ان کی قبر میں لیٹتے؟ یہ فاطمہ کے اچھے سلوک اور پیار و محبت کے صلہ میں کِیاکہ ان کی قبر کو یہ شرف بخشا۔
سفرِ شام اور راہب:حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ ابو طالب روسائے قریش کے ہمراہ شام کی طرف( تجارت کے لیے) چلے ۔ان کے ہمراہ رسول اللہﷺ بھی شریکِ سفر تھے۔جب بحیرا راہب(اصل نام :برجیس۔مواہب لدنیہ) کے مکان کے قریب پہنچے تو انھوں نے کجاوے کھولنے شروع کیے۔راہب ان کے پاس آیا۔اس سے پہلے بھی یہ لوگ راہب کے پاس سے گزرتے تھے تو وہ ان کے پاس نہ آتا تھانہ ان کی طرف توجہ کرتا تھا۔( اب کی دفعہ خلافِ معمول چل کر آیا) ۔حضرت موسیٰ اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ لوگ ابھی کجاوے کھول رہے تھے تو وہ ان کے درمیان گھس کر چلنے لگا۔یہاں تک کہ اس نے آکر رسول اللہ کا ہاتھ مبارک پکڑ لیا اور اس نے (لوگوں کومخاطب کرکے)کہا : یہ تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے رسول ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کو تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر مبعوث کرے گا اور یہ تمام عالم کے سردار ہیں ۔روسائے قریش نے پوچھا: یہ آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ پادری نے کہا جس وقت تم لوگ عقبہ سے چلے تو جتنے پتھر اور درخت تھے سب سجدہ میں گر پڑے۔ایک پتھر اور ایک درخت بھی ایسا نہ رہا جس نے سجدہ نہ کِیا ہواور درخت اور پتھر سوائے پیغمبر کے کسی کو سجدہ نہیں کرتے اور میں ان کو مہر نبوت سے بھی پہچانتا ہوں جو آپ ؐ کے مونڈھے (شانہ) کی ہڈی کے نیچے سیب کی مانند ہے پھر وہ پادری واپس چلا گیااور ان لوگوں کے لیے کھانا تیار کرنے لگا ۔جس وقت وہ کھانا لے کر ان کے پاس آیا تو آپؐ اونٹوں کے چرانے میں مصروف تھے۔اس نے آپﷺ کو بلا بھیجاجس وقت حضور وہاں سے چلے تو ایک بدلی آپؐ کے سر پر سایہ کیے ہوئے تھی۔جب آپؐ لوگوں کے پاس پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ مجھ سے پہلے درختوں کے سایہ میں جگہ پا چکے تھے۔جب آپؐ بیٹھے تو درخت کا سایہ آپ ﷺکی طرف جھک گیا۔پادری نے لوگوں سے کہا : دیکھو: اس درخت کا سایہ آپؐ پر جھک گیاہے۔راوی کہتے ہیں کہ وہ پادری ان کے پاس کھڑا قسمیں کھا کھا کر ان کو سمجھا رہا تھا کہ ان کو روم کی طرف نہ لے جائو،کیوں کہ رومی لوگ اگر ان کو دیکھیں گے تو صفت و علامت سے ان کو پہچان لیں گے(کہ یہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی ہیں) اور آپﷺ کو قتل کر ڈالیں گے۔اتنے میں اس نے منہ موڑ کر کیا دیکھا کہ سات آدمی روم کی طرف چلے آ رہے تھے۔پادری نے ان کا استقبال کیا اور ان سے پو چھا کہ تم کیوں آئے ہو؟ انھوں نے کہا ہم اس لیے آئے ہیں کہ وہ نبی اس مہینہ میں نکلنے والے ہیں ۔پس کوئی راستہ ایسا نہیں جہاں چند آدمی نہ بھیجے گئے ہوں اور ہمیں ان کی خبر ملی ہے تو ہمیں اس راستہ کی طرف بھیجا گیا ہے۔پادری نے پوچھا:کیا تم لوگوں کے پیچھے تم سے بہتر آدمی بھی ہے؟ انھوں نے کہا ہمیں تو آپ کے راستہ کی خبر دی گئی ہے (اور کچھ نہیں بتایا گیا)۔ پادری نے کہا: اچھا یہ بتائو کہ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی امر کا ارادہ کیا ہو تو کیا کسی انسان کی طاقت ہے کہ اسے روک دے؟انھوں نے کہا نہیں ۔الغرض انھوں نے آپ سے بیعت کر لی اور آپ کے ساتھ مقیم رہے۔ پادری نے قریش سے کہا : تمھیں خدا کی قسم یہ بتائو کہ تم میںاس کا ولی(سرپرست) کون ہے؟ انھوں نے کہا ابو طالب( آپؐ کے چچا اور سرپرست ہیں)۔پادری نے قسمیں دے کر ابو طالب سے کہا کہ اِنھیں واپس لے جائو۔آخر ابو طالب نے آپؐ کو مکہ واپس بھیج دیااور حضرت ابو بکر صدیق ؓنے آپؐ کے ہمراہ بلالؓ کو بھیجا اور اس پادری نے آپؐ کو زادِ راہ کے لیے روٹیاں اور روغن دیا۔(یہ حدیث حسن غریب ہے) (ترمذی شریف جلد دوم ص ۳۵۴؍۳۵۳ ابواب المناقب)
حدیث کے بارے میں شبلی نعمانی کی تقریر:وہ کہتے ہیں کہ یہ روایت نا قابل اعتبار ہے اور اس روایت کا زیادہ مستند طریقہ جو ترمذی شریف میں ہے اس کے متعلق تین باتیں قابلِ غور ہیں ۔۱: ترمذی نے اس روایت کے متعلق حسن ِغریب لکھا ہے اور ہم اس حدیث کو اس طریقہ کے سوا کسی اور طریقہ سے نہیں جانتے۔حسن کا مرتبہ صحیح سے کم ہوتا ہے۔اور جب غریب ہو تو اس کا رتبہ اس سے بھی گھٹ جاتا ہے ۔۲:اس حدیث کا ایک راوی عبد الرحمن بن غزوان ہے ۔اس کو بہت سے لوگوں نے اگرچہ ثقہ بھی کہا ہے لیکن اکثر اہلِ فن نے اس کی نسبت بے اعتباری ظاہر کی ہے۔علامہ ذہبی،میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں کہ عبد الرحمن منکر حدیثیں بیان کرتا ہے جن میں سب سے بڑھ کر وہ روایت ہے جس میں بحیرا راہب کا ذکر ہے۔۳:حاکم نے المستدرک میں اس روایت کی نسبت لکھا کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط کے مطابق ہے ۔علامہ ذہبی نے تلخیص المستدرک میں حاکم کایہ قول نقل کرکے لکھا کہ میں اس حدیث کے بعض واقعات کو موضوع ،جھوٹا اور بنایا ہوا خیال کرتا ہوں۔۴: اس روایت میں مذکور ہے کہ حضرت بلالؓ اور حضرت ابو بکر ؓ بھی اس سفر میں شریک تھے۔حالانکہ اُس وقت بلالؓ کا وجود بھی نہ تھا اور حضرت ابوبکرؓ کم سن تھے۔۵:اس حدیث کے آخری راوی ابو موسیٰ اشعریؓ شریک ِ واقعہ نہیں تھے اور اوپر کے راوی کا نام نہیں بتاتے ۔اس کے علاوہ طبقات ابن سعد میں جو سلسلہ سند مذکور ہے،وہ مرسل یا محضل ہے یعنی جو روایت مرسل ہے اس میں تابعی جو ظاہر ہے ،شریک واقعہ نہیں ہے۔کسی صحابی کا نام نہیں لیتااور جو روایت محضل ہے اس میں راوی اپنے اوپر کے دو راوی جو تابعی اور صحابی ہیں ، دونوں کا نام نہیں لیتا۔۔۔
۶۔ حافظ ابن حجر روایت پرست کی بناء پر اس حدیث کو تسلیم کرتے ہیں لیکن چونکہ حضرت ابو بکر ؓاور حضرت بلال ؓ کی شرکت بداہتاََ غلط ہے اس لیے مجبوراََ اقرار کرتے ہیں کہ اس قدر غلطی سے روایت میں شامل کیا گیا ہے لیکن حافظ ابن حجر کا ادعا بھی درست نہیں کہ اس روایت کے تما م روای قابل سند ہیں ، ثقہ ہیں ۔ عبدالرحمن بن غزوان کی نسبت خود ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں لکھا ’’وہ خطا کرتا تھا ‘‘ اس کی طرف سے اس وجہ سے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نے ممالیک کی روایت نقل کی ہے ۔ ممالیک کی ایک روایت جس کو محدثین جھوٹ اور موضوع خیال کرتے ہیں ۔ (تقریر ختم ہوئی ) امام ترمذی، بیہقی اور حافظ ابن حجر جیسے محد ثین نے جب اس حدیث کو مستند مان لیا ہے اور حافظ ابن تیمیہ نے نصاریٰ کے رد میں بطور حجت پیش کیا ہے ۔ صرف اسماء الرجال کی کتب سے مخالفین کے اقوال نقل کرنا اور موافقین سے پہلو تہی کرنا درست نہیں ۔ اہل علم سے یہ بات مخفی نہیں کہ اوہام سے صحیعین کی حدیثں بھی خالی نہیں ہیں ۔ صاحب اصح السیرّ کہتے ہیں ’’ سب سے بہتر وہ روایت ہے جو ترمذی میں ابو موسی اشعری سے مروی ہے ۔ ابن حجر نے اصابہ میں لکھا ہے کہ اس روایت کے رجال ثقہ ہیں لیکن اس کے آخر میں ایک جملہ ہے جو بالکل لغو ہے ۔ وہ یہ کہ ابو طالب نے حضور کو واپس کر دیا اور ابو بکر ؓ نے بلال کو حضور کے ساتھ کر دیا ۔ یہ لغو اس واسطہ ہے کہ اس وقت ابو بکر کم سن تھے اور بلال حبشی ان کے پاس نہ تھے ۔ ابن حجر لکھتے ہیں کہ احتمال ہے کہ روای نے کسی اور روایت کا جملہ غلطی سے اس میں شامل کر دیا ہے ، روایت درست ہے اور اس جملہ کے سوا اور کوئی بات اس میں قابل انکار نہیں ہے مگرمیری سمجھ میں نہ آیا کہ بلال سے مراد بلال حبشی ؓہے ، ممکن ہے کہ اور بلال ؓبھی ابو بکرؓ کے غلام ہوں اور باوجود کم سنی کے ابو بکر بھی ابو طالب کے ساتھ گئے ہوں ۔۔۔ مزید لکھتے ہیں کہ مولانا شبلی نے اس روایت پر دو اعتراض کیے ہیں ۔ اول یہ کہ عبدالرحمن بن غزوان اس کے ایک روای ہیں جو مجروح ہیں حالانکہ عبدالرحمن صحیح بخاری کے رواۃ میں سے ہیں ۔ دوم یہ کہ ابو موسی اشعری ؓکے آخری ایک روای ہیں ، وہ واقعہ کے وقت موجود نہ تھے اور انہوں نے یہ بتایا نہیں کہ کس سے سنا؟ نہ بتایا مگر بلا تحقیق غلط بیانی کا تو ان سے قرینہ نہیں ہے ۔ خود رسول اللہ ﷺ سے سنا ہو گا ۔ صحابہ کا بیان حجت ہے ۔ واللہ اعلم ( الصح السیرّ۔ج۱۔۱۷) مارگولیس ، ولیم میور اور ڈریپر وغیرہ اس واقعہ کو عیسائیت کی فتح عظیم خیال کرتے ہیں اور اس بات کے پرچارک ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مذہب کے حقائق اور اسرار و رموز بحیرا راہب سے سیکھے ، انہی پر آپ ﷺ نے عقائد اسلام کی بنیا د رکھی ۔ جس وقت وہ (راہب ) کھانا لے کر واپس آیا تو آپؐ اونٹوں کو چرا نے میں مصروف تھے۔اس نے آپﷺ کو بلا بھیجا۔جس وقت حضورؐ وہاں سے چلے تو ایک بادل آپؐ کے سر پر سایہ کیے ہوئے تھا۔
اہم نکتہ : علامہ دھلانی لکھتے ہیں کہ ہجرت کے موقع پر حضرت ابو بکر ؓ اٹھ کھڑے ہوئے ۔ ان کے بال سفید تھے اگرچہ حضور ﷺ کی عمر مبارک ابو بکر ؓ سے زیادہ تھی (آپ ﷺ کے سر اور ریش مبارک کے بالوں میں گنتی کے چند موے مبارک سفید تھے ) بعض نے سترہ موے مبارک سفید لکھے ہیں ۔ جن حضرات نے پہلے حضور ﷺ کی زیارت نہیں کی تھی ، وہ ابوبکر ؓ کی طرف لپکے ۔ ابو بکر ؓ صدیق آپ ﷺ کے متعلق بتانا چاہتے تھے ۔ جب حضور ﷺ پر دھوپ آگئی تو حضرت ابو بکر ؓ اٹھے اور اپنی چادر سے حضور ﷺ کو سایہ کرنے لگے ۔ اس طرح صحابہ کرام ؓ کو علم ہو گیا کہ مخدوم کون ہے اور خادم کو ن ہے ۔یہ روایت ان روایات کے منافی نہیں ہے جس میں یہ تذکرہ ہے کہ حضور ﷺ پر بادل سایہ فگن رہتا تھا کیونکہ بعثت سے پہلے بادل آپ ﷺ پر سایہ کناں رہتا تھا ۔ یہ حضور ﷺ کی نبوت کے لیے بطور ارہاص تھا ۔ بعثت کے بعد آپ ﷺ کے متعلق کسی صحابی سے ایسی کوئی روایت منقول نہیں ہے ۔ آخری جملہ محل نظر ہے وہ یوں کہ خود علامہ مذکور نے سفر طائف کے ضمن میں ایک حدیث امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے ، انہوں نے حضور ﷺ سے عرض کی ’’ کیا آپ ﷺ پر غزوہ احد کے دن سے بھی زیادہ شدید دن گزرا ہے ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ میں نے تمہاری قوم سے بڑی اذیتیں برداشت کی ہیں مگر عقبہ کا روز مجھ پر سب سے زیادہ شدید گزرا ۔‘‘ عقبہ سے مراد وہ مخصوص مقام ہے جس جگہ آپ ﷺ نے عبد یا لیل سے ملاقات کی تھی ۔ اس سے مراد عقبہ منیٰ نہیں جہاں آپ ﷺ نے انصار سے ملاقات کی تھی ۔ آپ ﷺ نے تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا’’ میں نے عبد یا لیل کو دعوت حق دی مگر اس نے لبیک نہ کہا ۔ میں واپسی عازم ہوا ۔ میں انتہائی غم زدہ اور مغموم تھا ، میں قرن الثعالب پہنچا تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو مجھے بادل کو ٹکڑا نظر آیا ، جو مجھ پر سایہ فگن تھا ۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو مجھے اس میں جبرئیل امین نظر آئے ، انہوں نے مجھے آواز دی ’’ اللہ تعالیٰ نے بنو ثقیف کے تلخ جوابات اور انکار حق سن لیا ہے ، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے پاس پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے تاکہ آپ ﷺ اسے جو چاہیں حکم دیں ‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ مجھے پہاڑوں کے فرشتوں نے آواز دی ، اس نے مجھے سلام کیا پھر کہا ، محمد عربی ! اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی قوم کے اذیت ناک جوابات اور پیغام حق کی ترغیب سن لی ہے ۔ میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں ، اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ ﷺ کی بارگاہ میں بھیجا ہے اگر آپ ﷺ مجھے حکم دیں تو میں ان دو پہاڑوں کے مابین پیس کر رکھ دوں ‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ نہیں ! بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اس وحدہ لا شریک ذات کی عبادت کریں گے ۔ (السیرۃ النبویہ ۔۱۔۴۰۵)
اعتراض نمبر ۷۱
مستشرقین آنحضرت ﷺ پر بادل کا سایہ کرنے کے انکاری ہیں۔
۲۔حلیمہ سعدیہ ؓ نے دیکھا کہ بادل آنحضرت ﷺ پر سایہ کناں ہے ۔ ولیم میور نے اس سے نتیجہ یہ نکالا کہ اگر اس روایت میں کچھ صدق ہے تو غالباََ عارضہ سابقہ ( مرگی ) یعنی صرع کے عود سے مراد ہو گی ۔ ( نعوذ باللہ)
جواب:بدر عالم (ترجمان السنہ۔۱۹۱۔۳) لکھتے ہیں ’’ درختوں اور پتھروں کا سجدہ کرنا ‘ ظاہر ہے کہ جس نبی کے معجزات میں حیوانات کا سجدہ ‘ پتھروں کا سلام کرنا‘ اس کے دست مبارک میں کنکریوں کا تسبیح پڑھنا‘ اور جس کے حکم سے کھجور کے درخت کا خوشہ آجانا‘ اور جس کے حکم سے دو درختوں کا آکر باہم مل جانا اور پھر اس کے حکم سے جُدا جُدا اپنی جگہ جا کر کھڑے ہو جانا‘ مستند طریقوں سے ثابت ہووہاں اتنی بات پر کیا تعجب کیا جا سکتا ہے۔ظاہر ہے کہ درختوں کی شاخوں کا جھک جانااور بادل کا سایہ کرناامر ایزدی کے ماتحت صرف ایک واقعہ میں آپ ﷺ کے ساتھ حرکت کرنا‘ ان امور میں سے نہیں جو انبیاء ؑ کے معاملوں میں موجبِ حیرت ہوں ۔آخر اس نبی اولوالعزم کے صدقہ میں ابو طالب نے بارش مانگی تو کیا بادل نہ آگئے اور نہ برسے تھے؟ پھر کیا اسی رسول کی دعا پر بارہا بادلوں نے اپنی بارش کے دہانے نہیں کھول دیئے اور کیا پھر اسی رسول کی انگشت مبارک کے اشارہ پر بادلوں نے مدینہ طیبہ کی بستی چھوڑ کر ٹیلوں اور پہاڑوں کا رُخ نہیں کر لیا تھا؟ آپﷺکے اشارہ پر بادلوں کی اتنی حرکت کیا عجب نہ تھی۔ پھر جب کہ میدانِ تیہ میں بنی اسرائیل پر بادلوں کا سایہ فگن رہنا قرآن کریم میں موجود ہے۔اس کے بعد بادل کے ایک ٹکڑے کا آپؐ پر سایہ کر لینا کون سی بعید از قیاس بات ہے۔ اب رہا اس حدیث کا اسنادی پایہ تو ہمارے نزدیک امام ترمذی، بیہقی اور آخر میں حافظ ابن حجر جیسے متفق علیہ محدثین نے جب اس حدیث کو مستند مان لیا ہے اور حافظ ابن تیمیہ جیسے شخص نے نصاریٰ کے مقابلہ پر اس کو بطور حجت پیش کیا ہے تو اس میں کوئی شبہ کی گنجائش نکالنا بہت ناموزوں ہے۔صرف کتب رجال سے اُٹھا اُٹھا کر مخالفین کے اقوال نقل کرنا اور موافقین کا ذکر نہ کرنا انصاف نہیں ہے۔کون نہیں جانتا کہ اوہام سے صحیحین کی حدیثیں بھی خالی نہیں ہیں۔ان کے رجال پر کہیں کہیں کلام کیا گیا ہے‘‘۔(ترجمان السنہ ۔۳۔۱۹۱)
حضرت عائشہ سے مروی ہے (حدیث کا ایک ٹکڑا ہے) انہوں نے فرمایا کہ’’ ایک بادل کا ٹکڑا مجھ پر سایہ کیے ہوئے تھا۔ اس کی طرف نظر کی تو دیکھا! اس میں جبرائیل موجود ہیں اور فرماتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی قوم کا جواب سن لیا اور آپ ؐ کی خدمت میں پہاڑوں پر مو کل فرشتہ کو بھیجا ہے آپؐ جو چاہیںاس کو حکم دیں (ترجمان السنہ۔۱۵۶۔۴)۔ اس روایت میں اور راہب والی روایت میں بادل کے سایہ کا ذکر ہے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ۔صاحب ترجمان السنہ نے (۱۵۸۔۴) کیا خوب لکھا ہے ’’ جس پر رحمت باری سایہ فگن رہتی ہو اس پر اگر سو بار بادل سایہ کرے تو تعجب کیا ہے‘‘؟ محدثین اور سیرت نگاروں نے بحیرا راہب کے واقعہ میں بادل کے سایہ کرنے کو تسلیم کیا ہے ۔ تو اس واقعہ کو کیوں تسلیم نہیں کرتے؟ حالانکہ یہ واقعہ صحیح بخاری میں صاف الفاظ میں مذکور ہے ۔اس حدیث میں طائف کے مصائب کا ذکر ہے ۔بادل قصداََ قدرت کی طرف سے آپؐ پر سایہ کرنے پر مامور تھا تا کہ اگر ایک طرف لوگوں نے ساتھ چھوڑ دیا ہو تو دوسری طرف رحمت الہیٰ آپ کے ساتھ ہو (حوالہ بالا)۔
ضمناََاعتراض :سر ولیم میور کی فکری پرواز کا جواب نہیں وہ کہتے ہیں کہ حلیمہ سعدیہؓ نے دیکھا کہ بادل آنحضرت پرسایہ کُناں ہے‘ سے نتیجہ یہ نکالا اگر اس روایت میں کچھ صدق ہے تو غالباََ عارضہ سابقہ (مرگی) یعنی صرع کے عود سے مراد ہوگی۔‘‘ ولیم میور
جواب:دیکھنے والوں کو بادل نظر آیا اور ولیم میور اسے عارضہ سے تعبیر کرتا ہے ، کیونکر قابلِ یقین ہو سکتا ہے ۔ایک بات یقینی ہے اور دوسری ظنّی۔اور ظنّی قابل یقین نہیں ہوتی۔برسات کے موسم میں بادل کئی لوگوں پر سایہ کیے ہوتے ہیں ۔انھیں تو کبھی کسی نے مصروع( مرگی زدہ) نہیں کہا ۔نہ جانے ولیم میور نے طب کی کون سی کتاب پڑھی ہے جس سے یہ بات کہہ دی۔حضورﷺ کا یہ معجزہ ہے قدرت آپؐ کو گرمی سے محفوظ رکھنے کے لیے بادل کا سایہ فراہم کرتی ہے اور یہ لوگ اس معجزہ کا انکار کرنے کی تاویلات کرنے میں مگن ہیں جو سر تا پا جھوٹ ہے ۔اپنوں نے بھی معرفت کا لبادہ اوڑھ کر تاویلات کا سہارا لیا۔جیسے شیخ بدر الدین زرکشی نے بعض اہل معرفت سے روایت کی ہے نبی مکرم معتدل الحرارت اور برودت تھے ۔آپ کو نہ گرمی اور نہ سردی لگتی تھی۔آپؐ اپنے اعتدال کے سایہ میں تھے۔( مواہب لدنیہ۔۱۳۱۔۱)
پیچھے بخاری کی ایک حدیث کا ٹکڑا‘ ترجمان السنہ جلد۴ ص ۱۵۶ سے نقل کیا گیا ہے ۔سیرت نگاروں نے بڑی مشکل سے بحیرا راہب کے قصہ میں آپؐ کے اوپر بادل کے سایہ کو تسلیم کیا ہے اور اس کے سوا کسی دوسرے واقعہ میں نقل نہیں کیا۔بعض سیرت نگاروں نے میسرہ اور آپؐ کے تجارتی سفراور حضرت خدیجہ نے کاروان کی واپسی پر فرشتوں کا سایہ کرنا بھی دیکھا۔۔ اگر معجزات سے منحرف طبائع پرگراں ہو ں تو ان کو اختیار ہے کہ وہ اس کی تاویل بھی کر ڈالیں ۔اس کے لیے تظلیل صحابہ سے زیادہ اور کوئی صریح لفظ نہیں ہو سکتا مگر تاویل کا قلم کہیں روکا نہیں جا سکتا۔یہ بات بھی یاد رہے کہ آپؐ نے سر مبارک اُٹھایا تو اس میں جبرائیلؑ کو دیکھا ،اس کی آواز سنی،اس لیے اس کو اتفا قیات پر محمول کرناغیر معقول ہے ۔در حقیقت یہ بادل قصداََ قدرت کی طرف سے آپؐ پر سایہ کرنے پر مامور تھا ۔جب آپؐ رضاعت کے لیے بنی سعد میں تھے۔ دودھ چھڑانے کے بعد آپؐ کی رضاعی بہن شیما بنت حلیمہ ؓنے دوپہر کے وقت آپؐ کو دیکھا کہ ایک بادل آپؐ پر سایہ کرتا ہے جس وقت آپ ٹھہر جاتے وہ ٹھہر جاتاآپ کے سر اقدس پر۔اور جس وقت قدم بڑھاتے وہ ابر قدم بہ قدم آپؐ پر سایہ کیے جاتا( مواہب لدنیہ ۔ ج اوّل ۔۱۳۱)
جس طرح محدثین اور سیرت نگاروں نے بحیرا راہب کے قصہ میں بادل کے سایہ کو تسلیم کیا ہے تو یہاں پر تسلیم کرنے میں کون سی شے مانع ہے ۔ایک ہی ذات جس پر بادل سایہ کرتا ہے وہ متعدد بار قدرت کاملہ اپنی رحمت سے بادل کو سایہ کرنے کا حکم دے تو کوئی حرج نہیں ۔یہ اس کی قدرت کا معجزہ ہے اور حضور ؐ پر اپنی رحمت کا سایہ۔یہ حضور ؐ کی ذات کے مرتبہ و رتبہ کا معجزہ ہے کہ نبی مکرم اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کس قدر مقبول و محبوب ہیں ۔
ولیم میورجو اسے صرع سے تعبیر کرتا ہے اس میں کوئی تعجب نہیں کہ ولیم میور اولاََ تو اس واقعہ کا قائل نہیں ہے ، اگر مانتا ہے تو اس قدر کہ یہ واقعہ عارضہ ہے یعنی اس نے تسلیم نہیں کرنا تھا اس لیے اس کی تاویل سابقہ عارضہ سے جوڑ دی ہے۔عینی شاہد بادل کا ذکر کرتے ہیں ،دیکھتے ہیں ۔شیما ؓگواہی دیتی ہے کہ بادل آپؐ پر سایہ کُناں رہتا ہے۔چونکہ ولیم میور نے اس سے انکار کرنا تھا اس لیے ضروری تھا کہ تاویل کرتا، وہ تاویل اس نے کر ڈالی۔عمر بھر اس عارضہ کا تعلق آپؐ سے کسی نے نہیں جوڑا ۔نیز مصروع کی علامتیں واضح ہوتی ہیں جن میں سے ایک بھی آپؐ میں موجود نہ تھی۔ جس کی گواہی بڑے بڑے دشمنوں نے بھی نہ دی بلکہ انھوں نے تسلیم کیا کہ آپؐ اس مرض میں مبتلا نہ تھے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...