Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

صرع کے دوروں کا الزام
ARI Id

1689956726155_56117726

Access

Open/Free Access

Pages

۱۵۷

صرع کے دوروں کا الزام
مستشرقین اپنے مذموم عزائم کو برواکار لاتے ہوئے آپ ﷺ کو مصروع ثابت کرنے کے لیے چند واقعات کا سہارا لیتے ہیں جو ان کی ذہنی اختراع اور باطل تاویلات کا نتیجہ ہیں جبکہ ایسے واقعات دیگر مقدس ہستیوں کو بھی پیش آئے لیکن مستشرقین و منکرین سب کو چھوڑ کر صرف حضور ﷺ کے سر الزام دھرتے ہیں اور دوسری برگزیدہ شخصیات کا نام تک نہیں لیتے کیونکہ ایسا کرنے سے ان کی اپنی محبوب ہستیاں بھی زد میں آتی ہیں۔ وہ واقعات جن سے یہ مستشرقین آپ کو مصروع ہونے کی ناکام کوشش کرتے ہیں درج ذیل ہیں ۔
۱۔اسپرنگر حضرت آمنہ کے فرشتوں کو دیکھنے کو مرگی سے تعبیر کیا اور یہی مرض حضور کو ورثہ میں ملا‘ کا الزام دھر دیا ۔ علامہ محمد احسان الحق سیلمانی لکھتے ہیں کہ حضرت آمنہ ؓ ، حضور ﷺ کی والدہ ماجدہ نے اپنے رویا میں فرشتوں کو دیکھا جو انہیں احمد ﷺ کی خوشخبری دینے اور آپ کا نام مبارک تجویز کرنے آئے تھے ۔‘‘ سپرنگر نے کہا کہ فرشتوں نے کیا بشارت دینی تھی ، حقیقت میں حضرت آمنہ کو ضعف دماغ اور صرع کی بیماری تھی ۔ حضرت آمنہ ؓ تو فرشتوں کو دیکھے اور یہی کہے کہ یہ فرشتے ہیں لیکن مستشرقین اسے صرع کہتے ہیں ، عجیب منطق ہے۔ جو ساتھی آپ کے ساتھ مدت العمر رہے انہوں نے کسی موقع پر بھی مصروع نہیں کہا ۔ یہ سب کچھ پیغمبر اسلام اور آپ کے گھرانہ کی شان گھٹاناچاہتے ہیں(۲) دوسرا واقعہ یہ ہے کہ آپ ﷺ اپنے بچپن میں اپنے رضاعی بہن بھائیوں کے ساتھ بکریاں چرانے گئے کہ آپ کا رضاعی بھائی اپنے والدین کے پاس دوڑتا ہوا آیا کہ دو سفید پوش مردوں نے میرے قریشی بھائی کا لٹا کر اس کا سینہ چاک کر دیا ہے ۔ رضاعی والدین دوڑے چلے آئے دیکھا تو آپ کھڑے ہیں اور آپ ﷺ کا رنگ متغیر ہے ۔ پوچھنے پر آپ فرماتے ہیں کہ میرے پاس دو آدمی آئے جنہوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے ، انہوں نے مجھے لٹایا ، اور میرا سینہ چاک کیا اور اس میں سے کوئی چیز تلاش کی جو مجھے خبر نہیں کہ کیا تھی ؟ مستشرقین کہتے ہیں کہ سینہ چاک نہیں ہوا تھا آپ کو صرع کا دورا پڑا تھا ۔ ’’نکلسن ‘‘ اپنی کتاب تاریخ ادب عربی اور ولیم میور نے لائف آف محمد میں شق صدر کے واقعہ کو مرگی کا دورہ قرار دیا ۔ اس واقعہ سے نا صرف صرع کو آپﷺ کے لیے ثابت کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ آپ کے رضاعی ماں باپ بھی مرگی کا دورہ سمجھتے تھے اس کے استدلال میں حدیث کے اس ٹکڑا کو پیش کرتے ہیں ۔قَالَت وَقَالَ لِیاَبُوہٗ یَا حَلِیمۃُ لَقَد خَشِیتُ اَن یَّکُون ھٰذَا الغُلَامُ قَداُصِیبَ فَالحِقِیہِ بِاَ ھلِہ ِ ’’ترجمہ (حضرت حلیمہ )کہتی ہیں اس کے باپ نے مجھ سے کہا: اے حلیمہ ! مجھے خطرہ ہے کہ اس بچے کو کچھ ہو گیا ہے ، بہتر یہی ہے کہ تم اس کو اس کے گھر والوں کے پاس پہنچا دو ۔‘‘
سر سید نے پوکاک کی تاریخ ابو الفداء کے لاطینی ترجمہ کی عبارت کو لکھا ہے ۔ ’’ فقال زوج حلیمہ لھا قد خشیت ان ھذا الغلام قد اصیب بالحقیہ با ھلہ فاحتملۃ حلیمہ و قد مت بہ ِ الیٰ امہ ‘‘ اس عبارت کا ترجمہ لیٹن زبان سے اردو میں اس طرح پر ہوتا ہے ’’ تب حلیمہ کے شوہر نے کہا : مجھ کو بہت خوف ہے کہ اس لڑکے کو کسی اپنے ساتھی سے دماغی مرض کو اخذ کر لیا ہے ، اس واسطے اس کو حلیمہ سے لے کر اس کی ماں آمنہ کے پا س لے گیا ‘‘ ۔ قد اصیب فا لھقیہ با ھلہ اور پوکاک کی عبارت میں قد اصیب با لحقیۃ باھلہ ، ایک تو عربی عبارت غلط لکھی پھر ترجمہ کیسے صحیح ہو گا ’ ’ اس لڑکے نے کسی ساتھی سے دماغی بیماری اخذ کر لی ہے ، یہ ترجمہ عربی عبارت کے کسی جملہ کا ترجمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ اصیب فعل مجہول ہے جس کا ترجمہ کسی صورت میں بھی ’’ اس نے بیماری اخذ کر لی ‘‘ نہیں کیا جا سکتا نیز عربی متن کے کسی لفظ سے جس کا ترجمہ ’’ اپنے ساتھی سے ‘‘ کیا جا سکے ، نہیں بنتا ہے ۔ پھر حلیمہ کا شوہر بچے کو حلیمہ سے لے کر اس کی ماں حضرت آمنہ کے پاس لے گیا ، عربی عبارت کے کسی جملے کا یہ معنی نہیں بنتا ۔ پوکاک کی عربی عبارت کا ترجمہ یہ ہے ’’ کہ حلیمہ نے بچے کو اٹھا یا اور اسے اس کی ماں کے پاس لے گئی ‘‘ یہ ہیں ان کی ہیراپھیری کی باتیں کچھ کا کچھ لکھ کر اور اپنی مرضی کا ترجمہ کر کے اپنا مقصد نکالنا انہی کا کام ہے جو بڑی جسارت ہے ۔ خود گمراہ ہیںاور دوسروں کو گمراہی کے جال میں پھنسانے کے لیے ہمہ دم بسیار کوشش میں سر گرم ہیں ۔ دین اسلام کو نادرست اور اپنے مذہب کو سچا ثابت کرنے کی کاوشیں کی ہیں ۔ یہی نہیں ولیم میور نے تو کمال ہی کر دیا اور اپنی عربی دانی کا ثبوت فراہم کیا ۔ اس نے اپنی کتاب لائف آف محمد میں اصیب کی جگہ امیب لکھ مارا یعنی صا د کی جگہ میم اور اس کے معنی Fit یعنی عارضہ کے لکھے ، یہ اسی طرح کی سازش اور سرقہ ہے جیسے پوکاک نے بالحقیہ کا لفظ گھڑا ، ولیم نے اصیب کے لفظ کو امیب کا لفظ لکھ کر بدل ڈالا یہ ان کی تحریف کے ثبوت ہیں اور یہ ان کا روزمرہ کا کام ہے اور اسے اپنی غلطی نہیں سمجھتے ہیں ۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ولیم میور صاد اور میم کا فرق نہ جانتے ہوں مگر یہ ان کی سیاہ بختی ہے جو انہیں حقیقت کے قریب آنے نہیں دیتی اور حقیقت کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔
۳۔ بادل کا سایہ کناں ہونا : باد ل کے سایہ کرنے کو صرع سے تعبیر کرتے ہیں ۔ حضرت حلیمہ سعدیہ ؓنے دیکھا کہ بادل حضورﷺ پر سایہ کیے ہوئے ہے وہ اس صورت حال سے خوف زدہ ہوئیں ۔ ولیم میور نے اس روایت سے یہ نتیجہ نکالا کہ اگر اس روایت میں کچھ صدق ہو تو غالباََ عارضہ سابق کے یعنی صرع کے آثار کے عود سے مراد ہو گی ۔ بھلا حلیمہ سعدیہؓ کی آنکھیں جو کچھ دیکھتی تھیں انہیں پتہ نہ چلا کہ بادل سایہ کیے ہوئے ہے اور صرع کا وجود تک نہیں دیکھنے والی سعدیہ کو صرع کے آثار نظر نہیں آتے یعنی عینی شاہد اسے بادل ہی کا سایہ سمجھتا ہے جو آپ ﷺ پر گرمی کے سبب سایہ کناں تھا ۔ کوئی ایسا مصروع دکھادیں جس پر کبھی ، ہمیشہ یا صرف ایک بار ہی باد ل نے سایہ کیا ہو، اگر باد ل کا سایہ کسی پر ہو جائے تو اسے بھی صرع زدہ کہیں گے ۔ حضرت خدیجہ ؓ نے دیکھا کہ بادل آپ پر سایہ کیے ہوئے ہے ۔ راہب نے دیکھا کہ بادل آپ پر سایہ کناں ہے اور حلیمہ سعدیہ بھی یہی دیکھتی ہیں۔ باقی چھوڑ کر اپنے ہم مذہب راہب کی بات مان لیں ۔
۴۔ نزول وحی کو صرع سے جوڑتے ہیں ۔ جب آپ پر نزول وحی کے وقت حالت ہوتی تھی اور زبان مبارک سے جو جو الفاظ نکلتے تھے جن کے اثر سے یہود و نصاریٰ اپنے لوگوں کو بچانے کے لیے تاہنوز پریشان و سر گرداں تھے انہوں نے اس حالت کو مرگی کا دورہ کہا ۔
۵۔ کفار مکہ نے آپ پر مجنون کا الزام دھرا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے رد فرمایا ۔ ارشاد ربانی ہے ’’اَنتَ بِنِعمَۃِ رَبِّکَ بِمَجنُون ِ ۔(القلم ۲،پارہ۲۹) ترجمہ ’’ نہیں تو اپنے رب کے فضل سے دیوانہ ‘‘ کفار نے ساحر ، کاہن،سحر زدہ وغیرہ کے الزامات لگائے لیکن اکثریت نے کہا کہ ان میں ایسی کوئی بات نہیں پائی جاتی لیکن مستشرقین اس بات پر بضد ہیں لیکن عینی شاہدوں کے ہوتے ہوئے غیب کی شہادت قابل قبول نہیں ہوتی ۔
اعتراض نمبر۷۲
ولیم میور کہتا ہے ’’ ان دوروں کو جن کو حلیمہؓ صرع کی قسم کے حملے سمجھ کر ڈر گئی تھی ، محمد ﷺ کے مزاج میں ان مضطر حالتوں اور بے ہوش کنندہ غشوں کے صریح آثار نمودار تھے جو نزول وحی کے ہوتے تھے اور شاید جن کے سبب ان کے دل میں نزول وحی کا پیار پیدا ہو گیا تھا اور ان کے متبعین نے ان اضطرابوں اور غشوں کو نزول وحی کا شاہد قرار دیا تھا ‘‘ ۔
جواب: مستشرق یہ کہنا چاہتا ہے کہ بچپن میں اس قسم کے دورے پڑتے تھے جس سے ان دونوں کی وجہ سے ان کے دل میں وحی کے نزول کا خیال پیدا ہوا اور ان کے پیروئوں نے اسے وحی قرار دیا ۔ ولیم کے اعتراض سے چند امور سامنے آتے ہیں ۔ (۱) مضطر حالت ، غشی کا ہونا کے آثار موجود تھے جسے آپ ﷺ نزول وحی کی حالت قرار دیتے تھے (۲) حلیمہ سعدیہؓ صرع کی قسم کے حملے سمجھ کر ڈر گئی تھی ۔ (۳) آپ کے متبعین ان اضطرابوں اور غشوں کو وحی کہتے تھے ۔حقیقت یہ ہے کہ وحی کی آمد پر آپ یکسو ہو کر متوجہ ہو جاتے تھے جسے غشی اور مضطر حالت قرار دیا جاتا ہے ۔ حلیمہ ؓ صرع کے حملے سے ڈر گئی تھی یہ بات بھی درست نہیں وہ اس لحاظ سے کہ صرع کے مریض کو جب دورہ پڑتا ہے تو کیا اسے افراد زمین پر لٹاتے ہیں اور پیٹ چاک کرتے ہیں ۔ کہیں ایسے شخص مصروع کی موجودگی کی نشاندہی ہو سکتی ہے کہ آدمی آئیں ، پیٹ چاک کریں اور پھر وہ شخص ہنستا مسکراتا کھڑا ہو ۔ پھر ضعف و نقاہت کے آثار بھی نہ ہوں اور کسی قسم کا اضطراب اور بے چینی کا نشان تک نہ ہو ۔ یہ وہ علامات ہیں جو مصروع میں مثلاََ بے چینی ، ضعف و نقاہت ، زمین پر گر پڑنا پائی جاتی ہیں ان میں سے ایک بھی آپ ﷺ میں پائی نہیں جاتی آپ کے متبعین مدت العمر اس بیماری سے کیونکر بے خبر رہے ؟اور انہوں نے آپ کی ہر بات پر عمل کیوں کیا؟ نیز انہیں بیماری کی علامات اور وحی کے آثار میں فرق بھی نظر نہیں آتا تھا ۔ حالانکہ مصروع کا حافظہ جاتا رہتا ہے ، دورے پڑنے اور بعد میں ہوش آنے پر اسے کچھ یاد نہیں رہتا جبکہ آپ وحی کی تعلیمات اپنے صحابہ کو پہنچا دیتے تھے اور وہ وحی سمجھ کر ازبر کر لیتے تھے یا ضبط تحریر میں لاتے ۔ صحابہ آپ کی ہر بات کو دین سمجھتے اور اسے یاد رکھتے تھے تو ان مقدس ہستیوں کی شہادت کے ہونے سے طرفدار مستشرق کی بات قابل قبول نہیں ہو سکتی ہے ۔
ولیم میور یہ بھی لکھتا ہے ’’ کچھ مواقع ایسے آتے ہیں جب بے قراری ، وجد یا کشف کی شکل اختیار کر لیتی ہے جس کی تفصیلات سے بہت کم آگاہ ہیں۔ بعض عیسائی مصنفین نے ان کیفیات کو مرگی کے دورے قرار دئیے ہیں اور ان کا تعلق ان علامات سے جوڑا ہے جو آپ کے بچپن میں نظر آتی تھیں ۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کی زندگی کے آخری حصے میں بھی نزول وحی سے پہلے آپ پر اس قسم کی غشی اور بیداری کے سپنے کی کیفیت طاری ہوتی تھی ‘‘۔ ولیم میور مرگی کے دوروں کو دوسرے عیسائیوں کے نام منسوب کرتا ہے یعنی وہ اکیلا نہیں بلکہ اور لوگ بھی اس مرض کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ولیم میور ان سے دو قدم آگے بڑھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ آخری حصہ میں بھی وحی سے پہلے اس قسم کی غشی طاری رہتی تھی ۔قارئین کرام آپ نے اندازہ لگایا کہ یہاں نزول وحی سے پہلے غشی طاری ہوتی ہے ، کہاہے ۔ اگر وہ یہ نہ کہتا تو تسلیم کرنا پڑتا کہ وحی کے نزول کے وقت غشی ہونا وحی کے سبب تھا مگر وہ وحی کو تسلیم نہیں کرتا ۔ ولیم میور مزید کہتا ہے کہ نزول وحی کے وقت بے چینی پیغمبر کو گھیر لیتی ، آپ کے چہرے پر یشانی کے آثار نمودار ہو جاتے ، آپ کی پیشانی سے پسینے کے قطرے ٹپکنے لگتے اور آپ اس طرح زمین پر گر پڑتے جس طرح انسان حالت وجد میںزمین پر گر پڑتا ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نزول وحی کے وقت پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہوتے تھے لیکن آپ زمین پر نہیں گر پڑتے تھے ۔ ولیم نے زمین پر گرنے کا اضافہ کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ بھی حدیث کا حصہ ہے، لیکن وحی کی تفصیلات میں یہ احادیث کا حصہ نہیں ہے ۔ نزول وحی کا مشکل ترین طریق گھنٹی کی آواز کی طرح مسلسل آنے کا تھا لیکن اس طریق وحی میں بھی گر پڑنے کا ذکر نہیں ۔ ولیم میور صرع کی الزام کو ثابت کر نے کے لیے زمین پر گرنے کا مفروضہ اور ڈھونگ رچاتا ہے کیونکہ مصروع حالت دورہ میں زمین پر گر جاتا ہے لیکن من گھڑت قصوں سے حقیقت چھپ نہیں سکتی ۔ حدیث کے ساتھ ایک جملے کا اضافہ کر کے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ یہ حدیث کا حصہ ہے ۔ محدثین نے تو ایک زائد یا کم لفظ پر ایسی بحثیں کی ہیں کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دکھایا ہے ۔ ولیم میور جیسے طرفدار مستشرق کی چالاکی وہوشیاری حدیث میں اضافہ کو دنیا کے علمائے حدیث کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتی ۔ یہ اضافہ اس کے ذہن کی پیداوار ہے ۔
ضمناَ اعتراض
مصری عالم کے حوالے سے محمد حسین ہیکل ( حیات محمد ۔ص۳۶) لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ جن باتوں کو وحی بتا کر اپنے مسلمان پیرووں کی ہدایت کرتے ، وہ ان کے مرض صرع کا کرشمہ تھا جس کے دورے سے وہ لرزنے لگتے اور منہ سے جھاگ اگلنا شروع کر دیتے لیکن ہوش میں آنے کے بعد وحی خدا وندی کے نام سے کلام سنا کر فرماتے کہ اس بے ہوشی میں مجھ پر یہ کلام نازل ہوا ہے ۔‘‘
جواب: آنحضرت ﷺ کے تریسٹھ سال کی زندگی کے افکار ، اعمال ، عادات و خصائل اور کردار نے جو انقلاب برپا کیا اس کی تفصیلات کتابوں میں موجود ہیں ۔ نیز آپ ﷺکی زبان مبارک سے جاری ہونے والی باتوں کا ایک ایک لفظ گواہی دیتا ہے کہ یہ کار ہائے نمایاں اور رشد وہدایت کے چمکتے موتی کسی مصروع کے نہیں ہو سکتے ۔ وہ تما م علامات جو مصروع میں پائی جاتی ہیں ، آپ ان سے مبرا ومنزا ہیں۔ مرگی کی علامات صاحب ضیا النبی بحوالہ محمد فرید واجدی ص ۲۶۴ پر لکھتے ہیں ۔ ’’ مرگی اعصابی بیماری ہے جو مریضوں کے حس اور شعور کو زائل کر دیتی ہے ، انہیں زمین پر گرا دیتی ہے اور وہ بلا مقصد ادھر اُدھر پھرنے لگتے ہیں بیماری کے آغاز میں جسم اکڑ جاتا ہے چہرے کارنگ متغیر ہو جاتا ہے اور پھر جسم شدت سے کانپنے لگتا ہے ۔ جبڑے ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں ، منہ سے خون ملی جھاگ نکلنے لگتی ہے اور ہاتھ ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جاتے ہیں ۔ چند منٹوں کے بعد مریض کی سابقہ حالت لوٹ آتی ہے ، نیند محسوس کرتا ہے اور سو جاتا ہے پھر وہ جاگتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ اسے کوئی عارضہ پیش نہیں آیا ‘‘۔ بحوالہ گرولیر انسائیکلو پیڈیا (Grolier Encyclopidia )،صاحب ضیا النبی ۔ج ۔۷۔ص ۲۶۶ ۔ ۲۶۵ پر لکھتے ہیں ’’ گریڈ مل ( مرگی کی قسم ) کی خصوصیت تشنج کے دورے ہیں ۔بعض حالات میں مریض کو پہلے سے احساس ہو جاتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے ، اس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں مثلاََ اعضاء یا چہرے پر گرمی یا سردی کا محسوس ہونا ، آنکھوں کے سامنے روشنی کا چمکنا ، کانوں میں آوازیں سنائی دینا یا پیٹ میں بے چینی محسوس کرنا ، وقفہ کے بعد ( جس کی مدت مختلف ہوسکتی ہے) مریض اچانک بے ہوش ہو جاتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ زمین پر گر پڑے لیکن وہ اپنے آپ کو گرنے سے بچانے کی کوشش نہیں کرتا ، بعض اوقات دورے سے پہلے مریض بلند آواز سے چیختا ہے ۔ ابتداء میں پٹھے سخت ہو جاتے ہیں ، جبڑے بھنچ جاتے ہیں ، اعضاء پھیل جاتے ہیں اور نظام تنفس کے معطل ہونے سے چہرہ زرد ہو جاتا ہے ، کچھ لمحے کے بعد تشنج کے شدید دورے پڑتے ہیں ، اعضاء کو جھٹکے لگتے ہیں ، چہرے کے پٹھوں میں اضطراکی حرکت پیدا ہوتی ہے اور زبان کے شدید طور پر زخمی ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ایک یا دو منٹ کے بعد مریض غنودگی کے عالم میں چلا جاتا ہے جس کے بعد وہ دیر تک سویا رہتا ہے ۔ شدید بیماری کی شکل میں تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد دورے دوبارہ پڑ سکتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وقفہ کے دوران بھی مریض کو ہوش نہ آئے ۔خفیہ مرگی اس بیماری کی ایک ایسی قسم ہے جس میں دورے کے بعد مریض ہذیان یا جنون آمیز غصہ کی حالت میں مبتلا ہو جاتا ہے جس کے سبب تشدد آمیز جرائم کا ارتکاب بھی کر سکتا ہے اور اپنے آپ کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے ۔ فنک اینڈ ویگنلز انسائیکلو پیڈیا ( Funican and Wagnalls Encyclopedia ) میں مرگی کی علامات یہ بتائی گئی ہیں ۔ ’’ مرگی شدید ذہنی بیماری ہے جس کی خصوصیت بار بار پڑنے والے دورے ہیں ۔ یہ دورے ذہنی خرابی کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ مریض کی حالت مختلف ہونے سے دوروں کی کیفیت بدلتی رہتی ہے اور یہ دورے بے ہوشی ، جسم کے مختلف اعضاء کے جھٹکوں ، جذباتی غل غپاڑے یا ذہنی خلل کے وقفوں پر مشتمل ہو سکتے ہیں ‘‘ مذکورہ علامات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آپ مصروع نہیں تھے ۔ آپ ﷺ کی زبان سے نکلا ہر ہر لفظ محفوظ ہے ، وہ حکمت سے بھر پور ، سچائی میں گوندھا ہوا اور تضاد سے پاک ہے ۔ بھلا کسی مصروع کی مثال پیش کی جا سکتی ہے کہ جس پر نازل ہونے والی کتاب الہٰی موجود ہے اور رہتی دنیا تک موجود رہے گی۔ کیا ایسی کتاب الہٰی کسی مصروع نے پیش کی ہے مختلف زبا نوں میں ترجمے ہوئے اور اس کی صحت کو جانچنے کے لیے جرمنی کی میو نخ یونیورسٹی نے دنیا بھر سے چالیس ہزار قرآن مجید اکھٹے کیے اور پچاس سال تک اس کی جانچ پڑتال کی آخر کار جرمنی کی اس یونیورسٹی نے یہ سر ٹیفکیٹ دیا کہ اس کے متن میں کوئی اختلاف نہیں ۔ جن مستشرقین نے قرآن پاک یا احادیث پر کام کیا ہے وہ ان شاہکار کو مصروع سے منسوب تو کرتے ہیں ، چھوڑ کیوں نہیں دیتے کہ یہ مصروع کا کلام ہے اور اس میں افراط تفریط ہے بلکہ اس مصروع کے لائے ہوئے کلام پر کام کرتے کرتے اپنی زندگیاں بتا چکے ہیں ۔ اگر کسی مصروع نے کوئی نیا دین یا کتاب پیش کی تو وہ تضاد سے خالی نہیں کیونکہ وہ ان کی ذہنی پیداوار ہے نہ کہ انعام الہٰی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہے ۔ کسی بڑے سے بڑے عاقل اور دانشمند انسان نے ایسی تصنیف نہیں کی بلکہ کر بھی نہیں سکتے کیونکہ قرآن پاک کا چیلنج ہے کہ قرآن پاک جیسی ایک ہی آیت لا کر دکھائیں ۔ یہود و نصاریٰ کو علمی میدان میں لا جواب کیا ۔ میدان جنگ میں دشمنوں کو شکست دی ، معاشی ، معاشرتی ، سیاسی مذہبی زندگی کا نمونہ پیش کیا ، امامت کے فرائض انجام دئیے ، حج و عمرہ کی ادائیگی، تبلیغ کا کام کیا ، معاہدات کیے ، فتح مکہ کے دن تمام دشمنوں کو معاف فرمایا ۔ سب کچھ غریبوں یتیموں ، بیوائوں اور محتاجوں میں بانٹ دیتے گھر پر کچھ نہ بچا رکھتے ، علم و عمل میں پیش پیش تھے الغرض ساری زندگی نمونہ انسانیت ہے ’’ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوہ حسنہ‘‘ انہیں مرگی زدہ کہنا محض عیسائیت کی مکروہ اور گھنائونی چال ہے ، اس کے سوا کچھ نہیں ۔ صاحب ضیا النبی ( ضیا النبی ۔۷۔۲۸۶) لکھتے ہیں ’’ حضور کو مرگی کا مریض قرار دینے میں خجالت محسوس نہیں کرتے ۔ مستشرقین کے اس حیران کن رویہ کی وجہ غالباََ یہ ہے کہ آج کل عالم عیسائیت میں جو مذہب عیسائیت کے نام سے مروج ہے ، اس کا بانی سینٹ پال مرگی کا مریض تھا ، ممکن ہے وہ یہ سمجھتے ہوں کہ سینٹ پال جیسا بڑا آدمی مریض ہو سکتا ہے تو پھر کوئی دوسرا عظیم انسان مرگی کا مریض کیوں نہیں ہو سکتا ۔ یاد رہے کہ یہ الزام مرگی کا سینٹ پال پر ہم نہیں لگا رہے بلکہ ان کے سر پر یہ تاج ان کے اپنے پیروکاروں نے سجایا ہے ۔سینٹ پال نے جو مذہب ایجاد کیا تھا اس کی رو سے اس کے پیروکار علماء کو آگ میں جلانے کی سزائیں دیتے رہے اور روزانہ غسل کرنے والوں پر مخالفت دین کی فرد جرم عائد کرتے رہے ۔آج بھی اس دین کے پیروکار لاکھوں انسانوں کا خون بہا کر قہقہے لگاتے ہیں اور چند پرندوں کے مرنے پر آنسو بہاتے ہیں ۔ جس شخص نے ایسا دین ایجاد کیا تھا وہ یقیناََ مرگی کا مریض ہو گا اس نے ان تمام انجیلوں کو طاقت کے زور پر تلف کر دیا جو حضرت عیسی ٰ ؑ کی تعلیمات کے برعکس ہیں اور ان کے بدلے میں ایسی خود ساختہ انجیلوں کو رواج دیا جن میں اس کے مرگی زدہ ذہن کے تخلیق کردہ عقائد اور خیالات تھے ۔ حضرت مسیحؑ کا ایک حواری بر نباس اپنی کتاب میں لکھتا ہے ’’ ۔۔۔ پال بھی ان لوگوں میں سے ہے جو شیطان کے دھوکے میں آ گئے ہیں اور یہ بات بڑے دکھ کے ساتھ کہہ رہا ہوں ان وجوہات کی بناء پر میں وہ حقائق قلم بند کر رہا ہوں جو حضرت عیسی ؑ کے ساتھ رہتے ہوئے میں نے دیکھے یا سنے ہیں تاکہ تم محفوظ رہو اور شیطان کے دھوکے میں آکر اپنی آخرت تباہ نہ کر بیٹھولہٰذا میری اس تحریر کے خلاف جو بھی تمہارے سامنے کسی دوسرے عقیدہ کا پرچار کرے اس سے ہوشیار رہو تاکہ تم ابدی نجات پائو ۔ ‘‘(ضیا ء النبی ۔۷۔۲۸۶)
صرع کے الزام میں مستشرقین کی تردید
’’واٹ ‘‘ (نزول وحی کے وقت) کبھی کبھی کچھ جسمانی عوارض پیش آتے تھے آپ کو شدیددرد کا احساس ہوتا ، کانوں میں گھنٹی کی گونج کی سی آواز سنائی دیتی جب وحی کا نزول ہوتا تو پاس کھڑے ہوئے لوگ شدید سردی کے عالم میں بھی آپ کے چہرے پر پسینے کے موتی دیکھتے ، اس قسم کی چیزوں سے بعض مغربی نقادوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ آپ مرگی کے مریض تھے لیکن اس خیال کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں ہے ۔ مرگی انسان کو ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور کر دیتی ہے لیکن محمد ﷺ میں اس قسم کے کوئی آثار نظر نہیں آتے بلکہ اس کے برعکس آخر تک آپ کے تمام ذہنی اور جسمانی قویٰ واضح طور پر صحیح اور سلامت تھے ۔‘‘
’’ولیم میور‘‘ ۔۔ اگرچہ ولیم میور حضور ﷺ پر مرگی کا الزام لگانے میں پیش پیش ہے لیکن وہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ آپ ساری زندگی صحت مند رہے وہ لکھتا ہے ’’ حلیمہ سعدیہ ؓ نے بچے کا دودھ چھڑایا اور اسے واپس آمنہ ؓبی بی کے پاس لے گئی ، بچے کو صحت مند دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئی اور حلیمہ سعدیہ ؓ سے کہا : تم بچے کو واپس اپنے ساتھ لے جائو کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ مکہ کی غیر صحت بخش فضا میں بچے کی صحت پر اثر نہ پڑے ۔ ولیم میور مذکور لکھتا ہے کہ ’’ حضرت محمدﷺ سوائے ایک بار کے اپنی زندگی میں کبھی کسی سخت بیماری میں مبتلا نہیں ہوئے ‘‘ اپنے الزامات کی خود ہی تردید کر کے دھجیاں اڑا دیں اور ولیم میور کی منطق ہماری سمجھ سے بالا تر ہے کہ اسے حضورﷺ میں بچپن ہی سے مرگی کے آثار نظر آْتے ہیں اور تئیس سال کے عرصہ پر محیط نزول وحی کی کیفیات کو بھی مرگی کے دورے قرار دیتا ہے جبکہ اوپر کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ آخر عمر تک صحت مند رہے سچ ہے کہ دروغ گو را حافظہ نباشد۔ (جھوٹے کا حافظہ نہیں ہو تا )
گبن : تریسٹھ سال کی عمر تک محمد ﷺ کی قوت ان کے فریضہ حیات کی جسمانی اور روحانی مشکلات کا مقابلہ کرنے کے قابل تھی ۔ آپ کی مرگی کے دورے جو یونانیوں کی ایک غیر معقول تہمت ہے وہ ان کے لیے نفرت کے جذبات پیدا کرنے کی بجائے ترحم کے جذبات پیدا کرے گی ۔گبن مزید لکھتا ہے کہ ’’ انتقال سے تین دن پہلے تک آپ باقاعدگی سے نمازوں کی امامت فرماتے رہے‘‘۔
حضور ﷺپر لگائے گئے مرگی کے الزام کی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے گبن مذکور لکھتا ہے ’’محمدﷺکی مرگی کا ذکر تھیوفینز Theophanes، زونارس Zonaras اور دوسرے یونانیوں نے کیا جیسے ہوٹنگر Hottinger پریڈو اور مراقی Maracci کے شدید تعصب نے انتہائی شوق سے نگل لیا ۔ قرآن مجید کی دو سورتوں ’’المزمل ‘‘ اور ’’المدثر‘‘ اس کے عنوانات میں کوئی بات ایسی نہیں جس کی تفسیر مرگی سے کی جا سکے ۔مسلمان مفسرین کی اس مسئلے سے نا واقفیت اور ان کی خاموشی اس الزام کے قطعی انکار سے بھی زیادہ فیصلہ کن تردید ہے ‘‘ جان ڈیون پورٹ: یہ متواتر بیان کہ محمد ﷺ کو عارضہ صرع لاحق تھا ، یونا نیوں کی ایک دلیل اختراع ہے جنہو ں نے اس عارضہ کے طوق کو ایک نئے مذہب کے بانی کی طرف اس غرض سے منسوب کیا ہو گا کہ ان کے اخلاقی چال چلن پر ایک دھبہ ہو جو عیسائیوں کی طعنہ زنی اور تنفر کا مستوجب ہو ‘‘ ۔
ر۔ف۔بودلے : یہ اپنی کتاب حیات محمد میں لکھتا ہے ، اطباء کی تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات نا ممکن ہے کہ مرگی کے مریض کا دورہ ختم ہو اور اس کی عقل روشن افکار سے چمک رہی ہو۔ طب یہ بھی کہتی ہے کہ محمد(ﷺ) نے اپنے انتقال سے ایک ہفتہ قبل تک اپنی زندگی جس قابل رشک صحت مندی سے گزاری ایسی اچھی صحت والے آدمی پر مرگی کا حملہ نہیں ہوتا ۔ یہ ناممکن ہے کہ مرگی کا مرض کسی شخص کو نبی یا واضح قانون دان بنا دے ۔ تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مرگی کا مریض کسی ایسے بلند مقام پر فائز ہوا ہو ۔ پہلے زمانے میں مرگی زدہ شخص کو پاگل یا آسیب زدہ قرار دیا جاتا تھا اور دنیا میں اگر کسی شخص کو صحیح معنوں میں عقل سلیم کا مالک کہا جا سکتا ہے تو وہ محمد ﷺ ہیں۔ یہ حقیقت محمد ﷺ پر لگائے جانے والے اس الزام کی تردید کرتی ہے ۔‘‘
اے ڈرمنگھم : ۔۔۔ اس الزام کی یوں تردید کرتا ہے ’’ محمد(ﷺ) اس اعتبار سے دنیا کے واحد پیغمبر ہیں جن کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے ۔ ان کی زندگی کا کوئی گوشہ چھپا ہوا نہیں بلکہ منور اور روشن ہے ۔ عقل سلیم سے عاری انسان ہی محمد ﷺ پر کسی بیماری کا الزام عائد کر سکتا ہے ۔ یہاں موازنہ نہیں بلکہ واقعہ اور حقیقت کا اظہار مقصود ہے کہ عہد نامہ قدیم کے پیغمبر کتنے جلالی تھے اور مغلوب الغضب اور تو اور عہد جدید میں مسیحؑ جیسے حلیم اور نرم دل کو بھی ہم غصہ اور طیش سے مغلوب ہوتے دیکھتے ہیں اور ایسی زبان بھی بولتے ہیں جو شائستہ قرار نہیں دی جا سکتی ، کیا محمد ﷺ کا بڑے سے بڑا معترض ایسا واقعہ بتا سکتا ہے جب آپﷺ نے اپنے غصے اور طیش کو غالب کر لیا ہو۔ بدوں حکمت کسی ایسے واقعہ کی نشاندہی کی جا سکتی ہے جب آپ نے غیر شائستہ زبان استعمال کی ہو ؟ کوئی معترض اور نقاد بھی محمد ﷺ کی زندگی کا ایک ایسا واقعہ بیان نہیں کر سکتا کہ جب کسی مرض یا تکلیف کی وجہ سے آپ ﷺکسی میدان جنگ یا زمانہ امن میں کسی بیماری کے دورے کے زیر اثر آئے ہوں ، کوئی ایسا واقعہ ان کی زندگی میں نہیں آیا کہ بیماری کی وجہ سے بہک گئے ہوں ، نہیں بلکہ اللہ تعالی ٰکی بارگاہ سے اس دلنواز خطاب سے نوازا جاتا ہے ’’ مَا ضَلَّ صَا حِبُکُمْ وَمَا غَویٰ o (النجم ۲،پارہ۲۷) ترجمہ ’’ تمہار ا صاحب نہ گمراہ ہوا نہ بھٹکا ‘‘ ۔ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت قابل رشک تھی آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں چالیس فوجی مہمیں روانہ کیں جن میں ایک اندازے کے مطابق تیس جنگوں میں آپ نے خود حصہ لیا اور ہر جنگ میں جس فراست ، شجاعت ، جنگی حکمت عملی اور مہارت کا ثبوت آپ نے فراہم کیا ، کیا وہ کسی ایسے شخص کے لیے ممکن ہو سکتا ہے جو کسی بھی نوع کی بیماری میں مبتلا ہو ؟ محمد ﷺ کی صحت مند اور توانا شخصیت کو بیمار کہنے والے در حقیقت خود ذہنی بیماری میں مبتلا ہیں ۔ آنکھیں رکھنے والے ایسے لوگ ہیں جو سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی نہیں دیکھتے اور جان بوجھ کر اندھے بن جاتے ہیں۔ ‘‘ ( ضیا النبی ۔۷۔۲۹۲)
اعتراض نمبر۷۳
اگر آپ ﷺ فاضل شخص ہوتے تو نئے مذہب کی اشاعت نہ کر سکتے کیونکہ ان پڑھ ہی کچھ ان پڑھوں کی ضرورتوں کو زیادہ جانتا ہے اور انہیں راہ پر لا سکتا ہے۔(۲) اگر آپ ﷺ عالم ہوتے تو شاید قرآن مجید میں مضامین کا سلسلہ کسی قدر بہتر ہوتا ۔ (تمدن عرب۔۱۵۷)
جواب: ارشاد ربانی ہے :عَلَّمَکَ ماَ لَم تَکُن تَعلَم ۔۔۔ تجھے علم سکھایا ان چیزوں کا جن کا تجھے علم نہ تھا ۔
قرآن مجید کی متعدد آیات سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے ۔ اب ’’علمک‘‘ لفظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی مکرم ﷺ کو خود خدا پاک نے تعلیم دی تھی ۔ دنیا میں شاگرد کو تعلیم حواس خمسہ سے دی جاتی ہے پھر ان حواس میں قائم ہو جاتی تو اس کا نام ’’ تعلیم پانا‘‘ رکھا جاتا ہے ۔ انبیاء کی تعلیم ان کے قلب سے شروع ہوتی ہے ’’نَزَّلہٗ عَلیٰ قَلْبِکَ ‘‘ اللہ کی تعلیم دینا اور بندہ کی تعلیم دینے میں بڑا نمایا فرق ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’سَنُقرِئکَ فَلاَتَنسیٰ ،ہم تجھے پڑھائیں گے اور تو نہ بھولے گا ۔قرآن کریم کا بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں احوال ماضیہ اور مستقبلہ اور عہد حال کے احکام بکثرت ہیں ، تب یقین ہوجا تا ہے کہ نبی الامی کو ٹھیک اللہ تعالیٰ نے تعلیم دی تھی ۔ ارشاد ربانی ہے ’’وما کنت تتلوا من قبلہ ۔۔۔الا رتاب المبطلون‘‘ ترجمہ’’ اے رسول قرآن سے پہلے تو تم نہ کسی کتاب کو پڑھا کرتے تھے اور نہ تمہارے دست راست نے کبھی کوئی خط کھینچا تھا ،تب تو یہ بطلان والے شک بھی کر سکتے تھے ۔‘‘ آپ ﷺ کو اس لقب نبی الامی سے بلایا اور یاد کیا جاتا ہے آپ ﷺ اس طرزخطاب سے خوش ہوتے ہیں لیکن اب زمانہ حال میں بھاری بھر کم القابات سننا اور کہلوانا پسند کیے جاتے ہیں ۔ امی لقب کے حضور میں ہزاروں علماء اور سینکڑوں دانش مند حاضر ہوتے ہیں ، زانوے ادب تہہ کرتے ہیں اورا قرار کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کا علم و فہم ان لوگوں کے علم و فہم کے مقابلہ میں قلزم و قطرہ کی مثال ہے ۔بھول اس سے ہوئی کہ آپ ﷺ بے پڑھے ہو کر محاسن اخلاق ، محامد اعمال ، تدبیر منزل ، سیاست مدن ،اقتصادیات ، عمرانیا ت سیاسیات غرضیکہ ہر شعبہ زندگی کے علوم کا درس دیتے ہیں اور ان کے دل و دماغ کی آبیاری فرماتے ہیں نیز اس بارگاہ اقدس کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے ، وہاں کوئی داخلہ فیس ہے نہ ماہانہ ۔ وہاں سبھی امیر غریب، بدو اور شہری پہلو بہ پہلو تعلیم حاصل کرتے نظر آتے ہیں ۔۔۔۔ در حقیقت آپ ﷺ کی تعلیم کا منبع و محور ذات کبریا ہے ’’تجھے علم سکھایا ان چیزوں کا جن کا تجھے علم نہ تھا ‘‘ حالانکہ آپ ﷺ بارگاہ خدا وندی سے تعلیم یافتہ تھے ارشاد ربانی ہے الرحمن علم القرآن ‘‘ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ رحمن نے آپ ﷺ کو قرآن سکھایا نیز اس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ قرآن منزل من اللہ ہے اور سکھانے والی وہی ذات کبریا ہے جو سب کا خالق ہے اور آپ ﷺ تلمیذ الرحمن ہیں ۔ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے معلم انسانیت بنا کر بھیجا ۔ آپ ﷺ سے بہتر قرآن کے مضامین اور رموز و حقائق کون جانتا ہے ؟ مضامین میں ہمیشہ دو اعتبار ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اول وسعت ، یہ وہ دعویٰ ہے جو خود قرآن نے کیا ہے ’’ لا رطب ولا یابس الا فی کتاب مبین ‘‘ ۔اس دعویٰ پر کل دنیا کو مخاطب کر کے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی ایسا مسئلہ جس کا تعلق تہذیب نفس صفائی قلب اور حصول نجات سے ہو خواہ اس کی بنیاد اعلیٰ فلسفہ پر ہو یا قدیم و جدید اکتشافات و تجربہ پر ہو خواہ وہ الشراقین الہٰیات سے لیا گیا ہو یا الہٰین کے شوار کات کوئی شخص ہمارے پیش کریں ، ان شا ء اللہ اس مسئلہ کو وضو ح تمام اور صحت کاملہ کے ساتھ قرآن مجید میں بیان شدہ دکھلا دیا جائے ’’ ولا یاتو بمثل اللہ جئناک بالحق و احسن تفسیرات (۲۵۔۳۵)۔ یاد رکھو کہ کوئی علمی صداقت قرآن مجید پر مبادرت نہیں کر سکتی ۔ (۲) عمدگی دنیا میں ہستی باری تعالیٰ کا یقین رکھنے والی جس قدر اقوام ہیں وہ علمی طور پر مسئلہ توحید کی ضرور قائل ہے ۔ہا ں قرآن مجید اپنے مضامین کے لحاظ سے علم ہے ’’ انزلنہ بعلمہ ’’وہ شنوائی، بینائی اور دانش کے لیے گنجینہ خرد ہے اور قواے مدرکہ اور حواس جارحہ کا راہبر ہے ۔ پہلی وحی کا آغاز لفظ اقراء سے ہوتا ہے ، اس سے اشراہ ملتا ہے کہ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے پڑھایا ہے آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے معلم اعظم ہیں تو پھر یہ نظریہ کہ ان پڑھو ں کی ضروریات کو بے پڑھا ہی کچھ زیادہ جانتا ہے ، غلط ٹھہرا کیونکہ آپ ﷺ تو بے پڑھے نہیں ہیں ۔ اور دوسرا نظریہ بھی غلط ثابت ہوتا ہے کہ اگر آپ ﷺ عالم ہوتے تو شائد قرآن کے مضامین کا سلسلہ کسی قدر بہتر ہوتا ۔ آپ ﷺ تو عالم ہیں لیکن قرآن کے مضامین کا سلسلہ اسی طرح ہے جیسا کہ تھا آپ ﷺ چونکہ معلم انسانیت ہیں اور آپ ﷺ کے عالم ہونے کے باوجود قرآن مجید کے مضامین کا سلسلہ بہتر نہیں ہوا ، ہوتا کیسے َ؟ کیونکہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے اس میں کسی دوسرے کو آمیزش کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ کر سکتے ہیں ۔ پس ہر وہ مخالف یہ کہنا چا ہ رہا ہے کہ کسی نے آپ ﷺ کو بنا کر یہ کتاب دے دی ۔ چونکہ آپ ﷺ بے پڑھے تھے اس لیے اس کے مضامین بہتر نہ ہوئے ۔ویعلمکم ما لم تکونوا تعلمون ، نبی نے تم کو وہ کچھ سکھایا جو تم نہیں جانتے تھے ۔
آپ ﷺ امی ہوں یا غیر امی آپ ﷺ میں اعلیٰ درجے کی فہم و فراست تھی ۔ آپ ﷺ ہر معاملے کی نزاکت کو سمجھنے اور حل کرنے کا سلیقہ رکھتے تھے ۔ حجر اسود کو خانہ کعبہ کی دیوار میں نصب کرنے کے معاملہ پر تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا ، ہر ایک کی خواہش تھی کہ یہ سعادت اسے نصیب ہو ۔ تنازعہ کو ختم کرنے کے لیے ایک ثالث مقرر کرنے پر رضا مندی ہوئی ۔ بفضل تعالیٰ آپ ﷺ حکم ٹھہرے ۔ آپ ﷺ نے اپنی ردائے مبارک زمین پر بچھا دی اور پتھر کو اپنے دست اقدس سے اٹھا کر چادر میں رکھ دیا پھر معزز قبائل کے سرداروں سے گویا ہوئے کہ چادر کے کونوں کو پکڑ کر اٹھائیے اور حجر اسود کے نصب کرنے کے مقام پر لے جائیے ۔ ایسا ہی کیا گیا ، جب اس مقام نصب پر پہنچے تو دوبارہ آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اٹھا کر کعبہ کی دیوار میں نصب کر دیا۔ آپ ﷺ کی عمر اتنی زیادہ نہ تھی لیکن قریش کے سرداروں کی عمریں زیادہ تھیں ۔ وہ آپ ﷺ کی فہم و فراست پر سب مطمئن ہو گئے اور یہ فیصلہ قبول کیا ۔ عام حالات میں کسی بات پر لوگوں کو تلقین کرنا آسان ہوتا ہے نیز اسے قبول یا رد کرنے میں اتنی کوفت نہیں ہوتی ، جس قدر تمام افراد ماننے سے انکاری ہو جائیں مگر نزاع کی صورت میں تمام کو متفق اور راضی کرنا جوئے شیر لانے کے مترداف ہے ۔ فریقین خواہ پڑھے ہوں یا ان پڑھ ان کو جادہ مستقیم پر گامزن کرنے کے لیے صحیح راہ دکھانا تاکہ لا ینحل مسئلہ طے پا جائے ، یہ ثالث کی اعلیٰ عقل مندی ، صداقت و امانت اور عد ل و انصاف کے اوصاف سے متصف ہونے کا مرہون منت ہیں اور وہ ایسا امی لقب نبی ﷺ ہے جس کے متعلمین میں ہر قسم کے کاملین نظر آتے ہیں جیسے ابو بکر ؓ و عمر ؓ ملک داری و جہاں بانی کی تعلیم ، ابو عبیدہ ؓ و خالد ؓ ہنگامہ آرائی و جہاں کشائی کی ، معاذ ؓ و ابو دردہ ؓ بیان اور دین و دانش کی ، سلمان ؓ و ابوذر ؓ زہد و قناعت کی ، علیؓ و عبداللہ بن مسعود ؓ حقائق علمیہ کی ، عثمان ؓ و ابن عوف ؓ پرورش یتمیٰ و اعانے کی ، زید بن ثابت ؓ و ابی بن کعب انصاری ؓ فرائض الہیہ کی تعلیم کل دنیا کو دے رہے ہیں ۔ یہ چند نام صرف مدعا کے واضح کرنے کے لیے درج کیے ہیں ورنہ اس بارگاہ اقدس کا وہ کونسا تلمیذ ہے جو کشت زار علوم کے لیے باران رحمت ثابت نہیں ہوا ۔ دوم: اگر فاضل شخص ہوتے تو نئے مذہب کی اشاعت نہ کر سکتے کیونکہ ان پڑھ ہی کچھ ان پڑھوں کی ضروریات زیادہ جانتے ہیں اور انہیں راہ پر لا سکتے ہیں ۔ یہ کلیہ اس کا گھڑا ہوا ہے جو کسی طرح بھی درست نہیں ہے کیونکہ ان پڑھ تو آپ ﷺ کی تعلیم و ہدایت سے پوری طرح فائدہ اٹھائیں گے اور راہ راست پر آ جائیں گے اور پڑھے لکھے بے فیض رہیں گے ۔ اس میں ایک اور غلطی یہ بھی ہے وہ یہ کہ ’’ کچھ ‘‘ کا لفظ محل نظر ہے ۔ ان پڑھ ہی کچھ ان پڑھوں کی ضرورتوں کو زیادہ جانتے ہیں ،تمام ان پڑھوں کی ضرورتوں کو نہیں جانتے بلکہ کچھ ان پڑھو ںکی ضرورتوں کو تو سارے ان پڑھ راہ راست پر نہیں آئیں گے ۔ لفظ کچھ سے قطع نظر کرتے ہوئے یہ مان لیں کہ بے پڑھے ان پڑھو ں کی ضرورتوں کو زیادہ جانتے ہیں تو دوسری طرف جو پڑھے ہوئے افراد ہیں ، ان کی ضرورتوں سے یکسر بے خبر رہیں گے جس سے پڑھے افراد تعلیمات اسلام سے محروم رہ جائیں گے جبکہ ہمارا نبی ﷺ لوگوں کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے ’’ ویعلمھم الکتاب و الحکمہ ‘‘ سب لوگوں کو تعلیم دیتا ہے یہاں ان پڑھ اور پڑھے افراد کی قید نہیں ہے نیز قرآن مجید میں ہے ’’وما ارسلنا ک الا کافتہ للناس (۳۴۔۹۸) ہم نے تجھے جملہ نوع انسانی کے لیے بھیجا ہے تو پھر ان پڑھے اور پڑھے کی شرط درست نہیں رہتی کیونکہ سب کو اللہ کا پیغام پہنچانا ہے ہر ایک کو دعوت توحید دینا ہے خواہ امی ہو یا غیر امی۔
٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...