Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

اسلامی عقاید اور دیگر مذاہب
ARI Id

1689956726155_56117735

Access

Open/Free Access

Pages

۲۶۹

اسلامی عقاید اور دیگر مذاہب
اعتراض نمبر۷۴
ڈریپر صاحب (معرکہ علم و مذہب) میں لکھتے ہیں ، بحیرہ راہب نے بصریٰ کی خانقاہ میں محمد ﷺ کو نسطوری عقاید کی تعلیم دی۔آپ کے نا تربیت یافتہ لیکن اخاذ دماغ نے نہ صرف اپنے اتالیق کے مذہبی بلکہ فلسفیانہ خیالات کا گہرا اثر قبول کیا۔بعد میں آپ کے طرز عمل سے اس امر کی شہادت ملتی ہے کہ نسطوریوں (عیسائیوں کے ایک مذہبی فرقہ کا نام ہے) کے مذہبی عقاید نے آپ پر کہاں تک قابو پا لیا تھا۔( سیرت النبی۔ج ۱ ص۱۱۸)
جواب:بحیرہ راہب والی روایت پیچھے درج ہوئی ہے جس سے کوئی ادنیٰ سا اشارہ بھی نہیں ملتا جس سے ظاہر ہو کہ آپؐ نے راہب سے تعلیم حاصل کی۔ حجر و شجر کا سجدہ کرنا، بادل کا سایہ کُناں ہونا ، مہر ِ نبوت کا ذکر کرنا اور بوسہ دینا، درخت کی شاخوں کا جھک کر آپ پر سایہ کرناوغیرہ یہ وہ باتیں ہیں جو راہب نے کہیں اور سب سے بڑھ کر ببانگ دہل یہ کہا کہ ’’ تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر مبعوث کرے گا اور یہ تمام عالم کے سردار ہیں‘‘ لیکن یہ نہیں کہتا کہ اس کی تعلیم کی ذمہ داری میری ہے ۔میں اسے تعلیم دوں گا ، مجھے ان کی تعلیم کے لیے حکم دیا گیا ہے۔ اس قسم کی کوئی بات راہب نہیں کہتا ‘مگر ادھر مستشرقین ہیں کہ ان کی جان پر بنی ہوئی ہے وہ یہی رٹ لگائے جاتے ہیں کہ اس راہب سے آپﷺ نے مذہب کے اسرار و رموز سیکھے۔اسے کہتے ہیں مدعی سست گواہ چست۔
دوم:آپ ؐ کی اس وقت عمر مبارک قریباََ ۱۲ سال تھی۔ اس عمر کے لڑکے کو راہب نے مذہب کے تمام حقائق اور اسرار و رموز اور احکام بتا دیئے جو نسطوری عقائد سے متعلق تھے۔تمام عقائد کی تعلیم ایک ہی ملاقات میں اور مختصر وقت میں دے دی ۔آپ ؐ نے اپنے حافظہ میں سب کچھ سمیٹ لیا اور چالیس سال بعد اس کا اظہار کیا اور لوگوں کو اس کی پیروی کرنے کی ترغیب و تلقین کی، یہ سب بعید از قیاس باتیں ہیں ۔
سوم: آپﷺ کی کس کس راہب سے ملاقات ہوئی ، اس نے انصاف یا نا انصافی کی راہ سے آپ کے متعلق کیا کہا کیونکہ توراۃ و انجیل ان پر نازل ہوئی تھیں ، اگر وہ شہادت دیں تو ان کی شہادت بڑی مضبوط ، معتبر اور مستند ہو گی۔ ان کے پاس آپﷺ کے خلاف شہادت موجود نہیں البتہ ان کی مقدس کتب میں آپ کے موافق ذکر موجود ہے اور ان کے علماء با خبر ہیں کہ آپ ؐ حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد تشریف لائیں گے۔ آپ ﷺآخری نبی ہوں گے ان کی علامات و صفات یہ ہوں گی وغیرہ وغیرہ۔ارشاد ِ خدا وندی ہے’’ اولم یکن لھم ان یعلمہ علماء بنی اسرائیل( الشعرائ) [ترجمہ] کیا ان کے لیے یہ بات نشانی نہیں ہے کہ بنی اسرائیل کے علماء اس کی خبر رکھتے ہیں۔
سورہ البقرہ میں ہے ’’ جن کو ہم نے کتاب دی وہ ان کو پہچانتے ہیں جیسے پہچانتے ہیں اپنے بیٹوں کو ‘‘ ۔ توراۃ و انجیل اللہ کی طرف سے نازل ہوئیں اور قرآن کریم بھی۔ نجاشی نے جب سورہ مریم کی آیات حضرت جعفرؓ سے سنیں تو کہا کہ جو کلام موسیٰؑ پر اترا تھا اور یہ ، ایک ہی سر چشمہ سے پھوٹے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ۔نجاشی ، عیسائی تو کلامالہٰی اور صحیفہ آسمانی تسلیم کرے اور آج ،کل اور پرسوں کے عیسائی منکر ہوئے جاتے ہیں ۔نہ اپنوں کی مانتے ہیںنہ دوسروں کی مانتے ہیں ۔اپنے بزرگوں کے عقیدہ کو تو مان لیتے۔ دوسری طرف ورقہ بن نوفل سے آپ ؐ کی ملاقات ہوئی ورقہ نے بھی کہا کہ یہ وہی ناموس اکبر ہے جو موسیٰ پر آیا کرتا تھا۔ وحی اور نبوت کے اقرار کا اظہار کر دیا مگر یہ منکر مستشرقین ہیں کہ اپنے بڑوں کی بات سے بھی متفق نہیں ہیں ۔ان کی سوچ کی پرواز کی انتہا بے تُکی، بے ڈھنگی اور بے بنیاد باتوں کے سوا اور کچھ نہیں۔
ڈاکٹر حمید اللہ (محمد رسول اللہ۔۱۷) بتاتا ہے ’’ اس دعوت میں بحیرا نے شاید ٹوٹی پھوٹی عربی ( زبان ) میں جتنی وہ جانتا تھا اپنے مہمانوں سے خطاب کیا لیکن ایک فرانسیسی مورخ CARRADE VEAUX کی خیالی پرواز کس قدر حیران کن اور مضحکہ خیز ہے کہ اس نے ایک مکمل کتاب ON BAHIRA, THE AUTHOR OF QURAN کے نام سے تحریرکی ہے ۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ایک دس بارہ سال کی عمر کا بچہ محمد ﷺ قرآن کریم کی ۱۱۴ سورتوں کو مختصر وقت میں حفظ کر لے اور ایک نسل بعد لوگوں کو پیش کرے کہ یہ کلام الہی ہے، ایسا ممکن ہی نہیں۔ہاں اگر کوئی اسے خرق عادت کہے تو پھر راہب کے تعلیم دینے کی کیامنطق؟
چہارم:یہودی سمجھتے تھے کہ ایک نبی عنقریب آنے والا ہے وہ بنی اسرائیل سے ہوگا۔ ان کی امیدیں بر نہ آئیں بلکہ خاک میں مل گئیں اور وہ آخر الزماں پیغمبر ﷺبنی اسمعیلٰ کی نسل سے جلوہ افروز ہوئے، اس پر وہ بپھر گئے۔ آپؐ کے جانی دشمن بن گئے اور آپ ؐ کی نبوت و رسالت کا انکار کر بیٹھے۔ جب کہ آپؐ کی آمد سے قبل کافروں پر فتح پانے کے لیے آپؐ کے وسیلہ جلیلہ سے دعائیں طلب کرتے تھے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔ ’’ وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذیِْن َ کَفَرُ وْا فَلَمَّا جَائَ ھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ‘‘
’’ اور یہ لوگ (نبی) کے آنے سے پہلے کافروں پر فتح پانے کے لیے آرزو مند رہا کرتے تھے جب (نبی) ظاہر ہوا اور انھوں نے پہچان بھی لیا، تب اس کے منکر ہو بیٹھے‘‘
اس آیت کریمہ سے بحیرا راہب کے قصہ کی نفی ہوتی ہے اور یہ قصہ سراسر غلط ثابت ہوتا ہے ۔ کیونکہ اگر یہودی آپؐ کو لڑکپن میں پہچان لیتے تو اپنے عقائد کی بنا پر حضورؐ کو اپنی فتح کا دیوتا سمجھ کر خدمت کرتے۔ اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہودی رسول موعود کے انتظار میں رہا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اس کے آنے پر یہودیوں کو کافروں پر فتح و نصرت ہوگی۔ یہ اعتقاد اس وقت تک رہا جب تک حضورؐ کی بعثت نہ ہوئی ،جب بعثت ہوئی تو منکر ہو گئے۔
پنجم:چالیس سال بعد جو تعلیم آپﷺ نے ظاہر فرمائی وہ اس راہب کی تعلیم تھی یا اس کا اثر تھا۔ اگر آنحضرت ﷺنے تثلیث اور کفار کا رد مسیح کے صلیب پر جان دینے کا بطلان اس راہب کی تعلیم ہی سے کیا تھا تو اب عیسائی اپنے اس بزرگ کی تعلیم کو قبول کیوں نہیں کرتے اور مذکورہ باتوں سے اجتناب کیوں نہیں کرتے؟ آج کے مستشرقین آنحضرت ﷺکی نبوت و رسالت کے منکر تو ہیں ہی مگر اپنے بزرگ بحیرا راہب کو بھی سچا نہیں مانتے کیوں کہ وہ نبوت کا اقرار کرتا ہے، مُہر کو بوسہ دیتا ہے ۔ حجر و شجر کو سجدہ کرتے دیکھتا ہے اور پکار پکار کر بر ملا اعلان کرتا ہے کہ آپ ﷺاللہ کے رسول ہیں ۔ مگر مستشرقین کے پیٹ میں مروڑ اُٹھتے ہیں ، نہ اپنوں کی مانتے ہیں نہ دوسروں کی، اسے کہتے ہیں نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے ۔
ششم:آنحضرت ﷺ کے شریک سفر حضرات سے ایسی کسی قسم کی گواہی یا شہادت نہیں ملتی جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ آپؐ نے راہب سے تعلیم حاصل کی اور نہ یہ ثبوت ملتا ہے کہ آپؐ نے راہب سے تنہا ملاقات کی ہو اور اس گوشہ تنہائی میں تعلیم بھی حاصل کی ہو۔ نیز آپ کے شریک ِ سفر ساتھیوں نے کسی موقعہ پر یہ نہیں کہا کہ یہ وہی تعلیم ہے جو راہب سے حاصل کی تھی اور جس کی پیروی کا ہمیں حکم دیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں تاریخ خاموش ہے جو بحیرا سے منسوب تعلیم کا رد ہے ۔
ہفتم:آپ ؐ کے ساتھ اس سفر میں اور افراد بھی شریک تھے۔ راہب نے ان میں سے کسی اور کو نبی نہیں کہا؟آپ ﷺکو حجر و شجر نے سجدے کیے، بادل سایہ کُناں رہا اور آپؐ ہی کو کہا کہ آپ ﷺ اللہ کی طرف سے تمام عالم کے لیے رسول ہیں ۔ ان باتوں کے علاوہ وہ یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ ان کی تعلیم میرے ذمہ ہے ، میں انھیں تعلیم دوں گا۔ وہ اس اعزاز پر پھولے نہ سماتا لیکن اس نے ایسا کچھ نہیں کہا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ نبی مامور من اللہ ہوتا ہے اور اس کی تعلیم و تربیت بارگاہ رب العزت کی طرف سے بذریعہ وحی ہوتی ہے ۔ قرآن مجیدنے نبی کی تعلیم کے بارہ میں فرمایا۔۔ ’’ اَلرَّ حمٰنُ ۔ عَلَّمَ القُرآنَ ۔ خَلَقَ الاِ نساَنَ ۔عَلَّمَہُ البَیَان‘‘ ’’ رحمن نے اپنے حبیب کو قرآن سکھایا، پیدا فرمایا ہے، انسان ( کامل) کو ( نیز) قرآن کا بیان سکھایا۔ قابل ِ غور بات ہے ’’ متعلم محمد بن عبداللہ روحی و قلبی فداہ ہے اور معلم خود خالق ارض و سما ء ہے۔ متعلم مکہ کا باسی اور معلم لامکان اور علم الغیب و الشھادۃ ہے۔ اور پڑھا یا کیا جا رہا ہے ’’ قرآن مجید‘‘ اور قرآن مجید کا دعویٰ ہے کہ ’’ لَا َرطب وَّلَا یَابِس اِلَّا فِی کِتَابِ مُّبِین‘‘ کو ئی خشک و تر چیز ایسی نہیں جس کا ذکر اس کتاب میں نہ ہو ، اس تعلیم سے جو بحربے پیدا کنار اور اس صدر منشرح میں موجزن ہو، اس کا اندازہ کون کر سکتا ہے ؟ اور علمہ البیان سے مراد بیان ِ حقیقت اور اظہار اسرا کی وہ بے پناہ صلاحیت جو شان ِ نبوت کا خاصہ ہے تو شان ِ رحمانیت کی ضیا باریوں کا عالم کیا ہوگا۔( ضیا القرآن ۵؍۵۵)
ف: اول قرآن کلام ِ الہٰی ہے وہ آپ ؐ یا کسی دوسرے کی تصنیف نہیں ۔ وہ آپؐ پر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا۔ دوم: آپ ﷺکی تعلیم کا منبع و مصدر وحی ِ الہٰی ہے ۔ ’’ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَویٰ اِنْ ھُوَ اِلَّا وَ حْی ٌیُّوْ حٰی‘‘(النجم۳،۴،پارہ۲۷) آپ نے کسی سے تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔ سوم: یہود و نصاریٰ کے لیے چیلنج ہے کہ وہ بتائیں وہ کون سا علم تھا جو راہب سے سیکھا؟ وہ کون سے حقائق و رموز تھے جو اخذ کیے؟ کیا چالیس برس بعد جس علم کا اظہار کیا، یہود و نصاریٰ کے عقائد کے موافق تھا یا مخالف؟ اگر عقائد موافق تھے تو انھیں نبی کیوں نہ مانا؟ اگر مخالف تھے تو راہب سے کیا سیکھا؟ ان سوالات کا جواب کبھی بھی نہ دے پائیں گے۔ بلکہ مذکور آیت سے ان کا بھانڈا چوراہے میں پھو ٹ گیا اور بات نکھر کر سامنے آئی کہ قرآن کریم کلامِ الہٰی ہے اور آپؐ کی تعلیم بارگاہ رب العزت سے بذریعہ وحی ہوئی۔
ہشتم: قرآن کریم میں کفار کے طرح طرح کے اعتراضات کا ذکر ہے جن کا رد خالق حقیقی نے خود فرمایا مثلاََ ’’ یٰاَ یُّھَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْہِ اِنَّکَ لَمَجْنُوْنَََ (الحجر۶، پارہ ۱۴) ’’ اے وہ شخص کہ اُتارا گیا اس پر قرآن تو البتہ دیوانہ ہے‘‘ ۔اللہ نے اس کا رد فرمایا’’مَا اَنْتَ بِنعِمۃِ رَبّکَ بِمَجنُون( القلم۲، پارہ ۲۹) ’’ نہیں ، تو اپنے رب کے فضل سے دیوانہ ‘‘ ۲: اِنَّناَ لِتَارِکُوْا اٰلِھَتِنَا لِشَا عِرٍِ مَّجْنُوْن( الصفات۳۶،پارہ ۲۳) ’’ کیا ہم چھوڑ دینے والے ہیں اپنے معبودوں کو ایک شاعر دیوانہ کے واسطے‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ بَلْ جَاء کُمْ بِالحَقِ وَصَدَّقَ المُرْسَلِیْنَ‘‘ ( الصفات۳۷، پارہ ۲۳)’’ بلکہ وہ لایا حق اور سچا کیا پیغمبروں کو‘‘
۳: اِنَّ تَتَّبِعوُنَ اِلاَّ رَجُلاً مَّسْحُوْراً (بنی اسرائیل ۴۷،پارہ ۱۵) ۔ ’’ نہیں پیروی کرتے تم مگر ایک مرد مسحور کی‘‘
اُنْظُرْ کَیْفَ ضَرَبُوْا لَکَ الاَْمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلاَ یَسْتَطیِْعُوْنَ سَبِیلاََ ‘‘ (بنی اسرائیل ۴۸،پارہ ۱۵)
ترجمہ: دیکھ کیونکر بیان کیں انھوں نے تیرے واسطے مثالیں پس وہ گمراہ ہوگئے ، پس نہیں پا سکتے کوئی راہ (طعن ) کی۔
۴: کیا اللہ نے آدمی کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے ۔ ( بنی اسرائیل ۱۱۶) جواب: کہہ دے اگر زمین پر فرشتے چلا کرتے آرام سے تو البتہ ہم اتارتے ان پر آسمان سے فرشتے کو پیغمبر بنا کر ۔ارشاد خدا وندی ہے ’’ وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلاَّ رِجَالاً نُّوْ حِیْ اَلیْھِمْ ‘‘ ترجمہ ) اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب مرد ہی تھے جنہیں ہم وحی کرتے )( یوسف ۱۰۹،پارہ ۱۳)
۵: آپ کو ابتر کہا تو قرآن نے فرمایا۔۔۔ اِنَّ شَاْنِئَکَ ھُوَالاَْبْتَرْ۔
۶: ھُوَ اُذُنْ (توبہ ع ۸) قُل اُذُنُ خَیرَ لَّکُم۔۔۔۔ اٰمَنُوا مِنکُم ’’ کہہ دے وہ اچھا جاننے والا ہے تمھارے واسطے ایمان لاتا ہے۔ اللہ پر اور باور کرنے والا ہے مومنوں کی بات اور رحمت ہے واسطے ان (منافقوں) کے جنھوں نے اظہارِ ایمان کیا تم میں سے ‘‘
۷: کفار نے جبیر نامی عیسائی جو کہ کوہ صفا کے قریب رہتا تھا ، کے بارے میں کہا کہ وہ آپ کو قرآن سکھاتا ہے۔ جبیر بنو الحضرمی کا غلام تھا ۔ان غلاموں میں بلعم لوہار ، صفوان بن امیہ نطاس اور صہیب رومی بھی ہیں جنھیں آپ کا معلم قرار دیا۔(نعوذ باللہ) بارگاہ رب العزت سے اس الزام کا رد آتا ہے۔
’’لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُہٗ بَشَرٌo لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْہِ اَعجَمِیٌّ وَھَذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِینٌo( النحل ۱۰۳،پارہ ۱۴) ترجمہ: ’’اور ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ انھیں تو یہ (قرآن) ایک انسان سکھاتا ہے۔ حالانکہ اس شخص کی زبان جس کی طرف یہ قرآن کی نسبت کرتے ہیں عجمی ہے اور قرآن عربی زبان میں ہے‘‘۔
ثابت ہُوا کہ آپؐ نے کسی آدمی سے تعلیم حاصل نہیں کی ۔ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر منکرین اس وقت کسی راہب کی تعلیم کا تذکرہ کرتے تو لازمی طور پر اس کا رد بھی قرآن کریم پیش کرتا گویا یہ الزام بعد کا گھڑا ہوا ہے۔ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے ۔کسی سے سیکھ کر یہ مرتب کیا نہ از خود تصنیف کی اور نہ ہی یہود و نصاریٰ یا دیگر کسی مذہب سے اخذ شدہ ہے ۔ اس قسم کے الزامات سے تمام مستشرقین کا رد ہوتا ہے جو قرآن کریم کو آپؐ کی تصنیف کہتے ہیں جیسے مائیکل ہارٹ (سو بڑے آدمی، ص ۲۹) میں لکھتا ہے کہ قرآن آپؐ کی تصنیف ہے۔ ( نعوذ باللہ)
پروفیسر محمد اکرم طاہر (محمد رسول اللہ ۔۴۰۱۔۔۴۰۰) لکھتے ہیں مستشرقین کی بے بنیاد باتیں سن کر گمان ہوتا ہے کہ ہمارامخاطب افسانوی ادب سے متعلق غالباََ مُلّا نصیر الدین جیسا کوئی مزاحیہ کردار ہے نہ کوئی فاضل محقق ۔ مُلا نصیر کے پاس ایک آدمی آیا۔ کسی کی شکایت کی۔ مُلّا نے جھٹ سے کہا : تم درست کہتے ہو۔ اس کے بعد مخالف فریق آیا اور اس نے اپنا موقف پیش کیا ۔ مُلّا نے اسے بھی کہا: تم درست کہتے ہو۔ مُلّا کی بیوی نے سٹپٹا کر کہا ’’ آخر یہ دونوں شخص بیک وقت کیسے بر حق ہو سکتے ہیں؟ مُلّا نصیر الدین نے فوراََ جواب دیا ‘ بے شک تم بھی درست کہتی ہو۔ اب یہی بات علمی تحقیق کے نام پر’’ فری لینڈ ایبٹ ‘‘ سے سنیے۔ ’’ بعض لوگ کہتے ہیں ! محمد کا ایک یہودی اتالیق تھا جو کہ بات درست ہو سکتی ہے ۔
۲: بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آپؐ عیسائی راہبوں سے واقف بل کہ متاثر تھے۔ یہ خیال بھی درست ہو سکتا ہے۔۳: کچھ اور لوگوں کا کہنا ہے کہ جس تجارتی معاشرے میں آپؐ رہتے تھے اس سے آپؐ نے مختلف مذاہب کا ایک متنوع تصور اخذ کیا ۔یہ بات بھی اپنی جگہ صحیح ہو سکتی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ آپؐ نے خود کسی طبع زاد بات کا دعویٰ نہیں کیا۔ ایبٹ نے اس بحث سے جو نتیجہ اخذ کیا اس سے قطع نظر ،اگر یہ پوچھا جائے کہ یہ تینوں باتیں بیک وقت کیسے صحیح ہیں تو جواب یہی ہونا چاہیئے’’ ہاں یہ بھی درست ہے‘۔‘
مولانا شبلی (سیرت النبی ج ۱ص ۱۱۸) لکھتے ہیں کہ’’ اگر شارح اسلام بالفرض ان عیسائی اساتذہ سے تعلیم حاصل کرتا یا تعلیم یافتہ ہوتا تو نا ممکن تھا کہ توحید کا خالص ولولہ اور تثلیث سے نفرت کا وہ جوش اس کے سینہ میں پیدا ہو سکتاجو قرآن کے ہر صفحہ سے نظر آتا ہے‘‘ ۔
نہم:قرآن پاک کا نزول بعثت سے لے کر خطبہ حجتہ الوداع تک تقریباََ ۲۳ سال کے عرصہ میں نازل ہوتا رہا۔آخری آیت’’ الیوم اکملت لکم۔۔۔۔۔عند اللہ الاسلام‘‘ حجتہ الوداع کے موقعہ پر نازل ہوئی اور قرآن کریم مکمل نازل ہو گیا۔ ادھر مستشرقین کہتے ہیں کہ راہب سے جو تعلیم حاصل کی آپؐ نے چالیس سال بعد ظاہر کیا ‘ درست نہیں کیونکہ چالیس سال سے لے کر آپ ؐ کی حیات مبارک کے آخری ایام تک قرآن نازل ہوتا رہا، ایسا نہیں کہ یک بارگی بِعثت کے بعد تمام قرآن کریم نازل ہوا اور راہب کی تمام کی تمام تعلیم کا اظہار کردیا، وہ کون سی تعلیم تھی جو راہب سے لی اور اس کو چالیس سال بعد ظاہر کیا ۔جب کہ آپؐ پر قرآن بذریعہ وحی نازل ہوتا رہا اور اسی کی تعلیم اپنے پیروئوں کو دیتے رہے۔مسلم شریف( ۱۔۷۳۳) میں ہے ’’حضرت عائشہ ؓ نے مجھے ( مسروق ) کو مخاطب کر کے فرمایا: اے ابو عائشہ(یہ مسروق کی کنیت ہے) تین چیزیں ایسی ہیں کہ اگر کوئی شخص ان تینوں میں سے کسی کو بھی قبول کرے وہ اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھے گا ۔۔۔(ان میں تیسری چیز کے بارے) ام المومنین نے فرمایا : جو شخص یہ کہتا ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے قرآن میں سے کچھ چھپا لیا ، اس نے بھی اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ یا ایھا الرسول ۔۔۔ فما بلغت رسالۃ ( اے رسول جو کچھ قرآن میں آپ ﷺ پر نازل کیا گیا ہے وہ امت تک پہنچا دیجئے ، اگر آپ ﷺ نے بالفرض ایسا نہیں کیا تو ( نعوذ باللہ ) آپ ﷺ نے فریضہ رسالت کو ادا نہیں کیا ‘‘۔ حضرت عائشہ ؓ کے اس قول سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے پورے کا پورا قرآن امت تک پہنچا دیا ۔ اور قرآن مجید کا دعویٰ ہے کہ اس میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی ، اس سے ثابت ہوا کہ امت کے ہاتھوں جو قرآن مجید محفوظ ہے ، یہ وہی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے جبرئیل کی وساطت سے آپ ﷺ پر نازل فرمایا تھا۔ شیعہ حضرات کا یہ کہنا کہ موجودہ قرآن اصل قرآن کا ایک تہائی ہے ، باطل ہے ۔ شیخ کلینی روایت کرتے ہیں ’’حضرت ابو عبداللہ نے فرمایا جس قرآن کو حضرت جبرئیل حضرت سید نا محمدﷺ کے پاس لے کر آے اس کی سترہ ہزار آیتیں تھیں ۔ قرآن کا دعویٰ ہے کہ اس میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی اور جو لوگ کہتے ہیں کہ اس میں اضافہ ہوا ، ان کے لیے بھی اس آیت میں رد ہے ۔ آپ ﷺ نے پورے کا پورا قرآن مجید امت تک پہنچا دیا یعنی جتنا تھا اتنا ہی امت کے ہاتھوں میں دے دیا نہ کم نہ زیادہ۔
دہم:اس وقت کے مذاہب عالم کی تعلیمات کا مختصر ذکر کرتے ہیں تاکہ اسلام اور مذاہب عالم کا فرق واضح ہو جس سے ثابت ہو سکے گا کہ دین اسلام عالمی مذاہب کا چربہ یا ان سے اخذ شدہ نہیں ہے اور نہ ہی کسی پادری یا کسی اور شخص سے سیکھا ہُوا ہے۔
زرتشت: زرتشی مذہب میں دو خدائوں ‘یزداں اور اہرمن جانے جاتے ہیں۔ خوید و گداس یعنی تزویج ؍ محرمات ( اس عقیدہ کی رو سے حقیقی ماں ، بہن ، بیٹی سے شادی زیادہ متبرک اور بہتر خیال کی جاتی تھی ( محمد رسول اللہ۴۲)۔ اسلام ماں کے قدموں تلے جنت کی تعلیم دیتا ہے ، بیٹی کو رحمت اور بہن کو نعمت کہتا ہے۔بہن ‘ بیٹی سے شادی کواسلام حرام بتاتا ہے اور رشتے کی دو بہنوں کو اکٹھا حرم میں داخلہ کی ممانعت کرتا ہے۔
برہمینت یا ہندو مت:اگرچہ بر ہمنیت یعنی ہندومت کے پیروکار ایک خدا پر یقین رکھتے تھے، تاہم وہ خدا کے مظاہر کی بھی پرستش کرتے ہیں چاہے وہ خدا کی تخلیق ہو یا خدا کی کسی خاصیت کی نمائندگی کا اظہار ہو‘ یوں برہمنوں کے مطابق ان کے دیوتا کی تعداد ۴۰ کروڑ ہے گویا دیوتائوں کی تعداد پجاریوں سے زیادہ ہے اور گائے دیوتائوں کے اس کثیر اجتماع کی صدر (سردار) ہے ۔ ہندومت کے پیروکار اگر جانوروں مثلاََ ناگ اور ہنو مان (بندر) کی پرستش کرتے ہیں تو وہ درختوں، پتھروں، دریائوں کے سنگم اور منبع،سورج ،چاند اور ان گنت دوسری چیزوں کی بھی پوجا کرتے تھے۔ مزید کہ وہ علم موت اور دولت وغیرہ کو بتوں کی شکل دیتے اور انھیں دیوتا مان کر پوجا کرتے تھے۔ بر ہمنیت ایک خاندان تک محدود تھی یعنی برہمن کے علاوہ کوئی ہندو دوسرا شخص برہمن نہیں بن سکتا ۔ اس مذہب کا عقیدہ تناسخ بھی ہے( ایک روح مختلف اجسام میں کئی جنم لیتی ہے) ۔ ایسا شخص جو عالمگیر مذہب کا متلاشی ہو اور پوری انسانیت کو اپنی برکتوں کی آغوش میں لے لے۔ ایسے مذہب کی طرف کیونکر رجوع کر سکتا ہے ۔نیز وہ تو سوائے خدا ئے واحد کے کسی کی پرستش کی اجازت نہیں دیتا۔(قل ھو اللہ احد اللہ الصمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفو احد) (اخلاص، پارہ ۳۰)
بدھ مت:ریاست کپل وستو کے بادشاہ سُدودھن کا بیٹا بدھ شکی مُنی ہی اس مذہب کا بانی تھا ۔ وہ خدا کے بارے خاموش ہے جب کہ ترکِ دنیا اور نفس کشی پر اصرار کرتا ہے۔ ایک دن اس نے جنازہ دیکھا تو اس سے متاثر ہو کر ،گھر بار چھوڑ کر جنگل کی راہ لی اور رہبانیت اختیار کر لی ۔ جب کہ اسلام لارہبانیت فی الاسلام بتاتا ہے۔نیز اپنے اہل و عیال سے اچھے برتائو کی تلقین کرتا ہے اوراس کے خلاف ہے کہ بیوی بچوں کو بے سہارا چھوڑ کر جنگل میں ٹھکانہ بنا لیا جائے ۔اسلام میں بیوی ،بیٹا اور بیٹی کے حقوق موجود ہیں ان سب کے حقوق کی پاس داری کرنا لازمی ہے۔بدھ کے پیروکاراس کے مجسموں کی پر ستش کرنے لگے،ایسا مذہب جو شخصیت پرستی اور ترک دنیا کو مذہب کا لازمی جز سمجھتا ہو عوام الناس کے لیے باعث کشش نہیں ہو سکتا۔کیوں کہ ترک ِ دنیا تو چند اشخاص کے لیے مرغوب اور مخصوص ہو سکتی ہے سب کے لیے نہیں حالانکہ انسان پر کئی فرائض عائد ہو تے ہیں جنھیں پورا کرنا اس کی اولین ذمہ داری ہے۔انسان اللہ کی عبادت کے ساتھ عائد فرائض انسانیت کو بھی پورا کرتا ہے۔ باقی مخلوقات سے اشرف ہونے کے سبب اسے دین و دنیا کے علایق سے بھی نمٹنا ہے۔بدیں سبب کسی نے خوب کہا ہے۔
فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
اکثر مذاہب میں دین سے محبت اور خدا کی پرستش کا کمال یہ سمجھا جاتا ہے کہ انسان معاشرہ سے الگ تھلگ حتی کہ اپنے بیوی بچوں اور مال و متاع کو چھوڑ کر جنگل میں یا پہاڑ کی کسی غار میں بیٹھ رہے لیکن اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی اسے عبادت صحیح قرار دیتا ہے ۔ عبادت تو اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کی حقوق کو پورا کرنے کا نام ہے ۔ فرد تنہائی اور گوشہ نشینی کر لے تو وہ اپنے بھائی ماں باپ اور رشتہ دار و دوست احباب کے حقوق کی ادائیگی سے قاصر ہوتا ہے لیکن اسلام یہ چاہتا ہے کہ انسان بے شمار علائق کے ہجوم میں گرفتار ہو کر تمام تعلقات اور علائق اور حقوق وفرائض سے کنارہ کشی اختیار نہ کرے بلکہ اپنے حقوق و فرائض کو بخوبی سر انجام دے ۔ دنیا کے سب جھمیلوں اور بکھیڑوں کو راہ سے ہٹاتے ہوئے خدا کی عبادت اور نوع انسانی کے حقوق و فرائض کو پورا کرے ۔ عبادت ترک فرض نہیں بلکہ ادائے فرض ہے ، ترک عمل نہیں بلکہ ادائے عمل ہے ، کچھ نہ کرنا نہیں بلکہ کرنا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اے فلاں ! تم ایسا نہ کرو تم پر تمہاری بیوی بچوں کا بھی حق ہے ، تمہارے مہمان کا بھی حق ، تمہاری جان کا بھی حق ہے ، تمہاری آنکھ کا بھی حق ہے ۔ اس فرمان نبوی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام میں ان حقوق کو بجا لانا عبادت ہے ان کا ترک کرنا جائزنہیں ۔
ایک دفعہ ایک صحابی کو گوشہ نشینی کے لیے ایک مقام پسند آیا جہاں چشمہ تھا اور ساتھ ہی ساتھ کچھ جنگلی بوٹیاں بھی تھیں ۔ آپ ﷺسے درخواست کی کہ ایک غار ہاتھ آ گیا ہے جہاں ضرورت کی سب چیزیں ہیں ۔جی چاہتا ہے کہ وہاں گوشہ نشین ہو کر ترک دنیا کر لوں ۔ آپ نے فرمایا : ’’ میں یہودیت اور نصرانیت لے کر دنیا میں نہیں آیا ہوں ، میں آسان اور سہل اور روشن دین ابراہیمی لے کر آیا ہوں ‘‘۔
قابل غور: اسلام میں گوشہ نشینی کی اجازت صرف دو موقعوں پر ہے ایک اس شخص کے لیے جس میں فطرتاََ بدی ہے جس کی گھٹی میں دوسروں کو نفع پہنچانا پایا ہی نہیں جاتا بلکہ تکلیف دینا ہے ۔ آپ نے اس کو برائی سے بچنے کے لیے یہ تدبیر بتائی ہے کہ وہ لوگوں سے قطع تعلقی اختیار کرے صحیح بخاری کتاب الرقاقت کی شرح تفہیم البخاری ج ۹۔ ۷۸۶ میں ہے کہ ایک بدونے آکر کہا کہ یا رسول اللہ ! سب سے بہتر شخص کون ہے فرمایا : ایک تو وہ جو اپنی جان و مال کو خدا کی راہ میں قربان کرتا ہے دوسرا وہ جو کسی گھاٹی میں بیٹھ کر اپنے رب کی عبادت کر ے اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھے ۔ اس تعلیم نبوی نے انسانوں کی دو قسمیں کر دیں ایک وہ جن کو خلق اللہ کی ہدایت اور خدمت کی فطری توفیق ملی تو ان پر فرض ہے کہ وہ مجمع اور ہجوم میں رہ کر ان کی بھلائی کا فرض ادا کریں حتی کہ ان کے لیے اپنی گرہ سے دولت بھی خرچ کرنے سے دریغ نہ کرے اور ان کی جان بھی کام آ جائے تو غم نہ کرے ۔ دوسرے وہ لوگ جن کی فطرت انسانوں کو دکھ و تکلیف میں مبتلا کرنا ہے بلکہ دکھوں میں ڈال کر خوشی محسوس کرتے ہیں ان کی اخلاقی قدر اور روحانی اصلاح کے لیے معاشرہ سے الگ تھلگ رہ کر عبادت میں مشغول ہونا فائدہ مند ہے ۔
دوسرا موقع جس میں آپ نے گوش نشینی کی اجازت فرمائی ہے وہ ہے جب مجمع و آبادی یا ملک و قوم میں فتنہ فساد کا بازار گرم ہو ، فساد کا سیل رواں رکنے کا نام نہ لیتا ہو اور وہ انسان کے بس میں نہ ہو کہ اسے روک سکے تو ایسے حالات میں اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ جماعت سے علیحدہ ہو کر گوشہ نشینی اختیار کرے ۔ ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ ایک ایسا زمانہ لوگوں پر آئے گا جس میں ایک مسلمان کی بہترین دولت بکری ہو گی جس کو لے کروہ بارش کی جگہوں اور پہاڑوں کی گھاٹیوں کو تلاش کرے گا تاکہ وہ اپنے دین و ایمان کو فتنوں سے بچا سکے ۔ تفہیم البخاری شرح بخاری کتاب الرقائق باب العزلتہ راحتہ من خلاط السوء ) میں مذکور دو مواقع بھی در حقیقت نہایت احسن اصول پر مبنی ہیں پہلے موقع میں ایسے فرد کا جس کا جماعت اور لوگوں کو نفع و بھلائی کی بجائے نقصان پہچانے کا خدشہ ہو ، الگ رہنا جماعت اور فرد دونوں کے لیے فائدہ مند ہے اور دوسرے موقع میں جب کہ جماعت کا انتظام ابتر ہو جاتا ہے اور کوئی فرد جو خود تو نیکوکار ہے اور پرہیز گار ہے لیکن اپنی کمزوری کی وجہ سے وہ اس جماعت کے ساتھ بھلائی یا اس کی اصلاح نہیں کر سکتا تو اس کے لیے عزلت نشینی اختیار کرنا فائدہ مند ہے اور اپنے آپ کو الگ رکھ کر عبادت میں مشغول رہے اور ثواب دارین حاصل کرنے کا خواہاں رہے ۔ ( سیرت النبی ۔ ۵۔۴۳۔۴۴) گوشہ نشینی کے بہت فائدے ہیں مثلاََ انسان دوسروں کے شر سے دور رہتا ہے ۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : اپنی زندگی میں کچھ وقت گوشہ نشینی اختیار کرو اور فرمایا گوشہ نشینی برے ساتھیوں کی صحبت سے بچاتی ہے ، اس میں راحت ہے ۔
سوال: اگر یہ سوال پوچھا جائے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جو مسلمان لوگوں سے میل جول کرتا ہے اور ان کی اذیت برداشت کرتا ہے وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو لوگوں کی اذیت پر صبر نہیں کرتا اس کا جواب یہ ہے کہ ان حدیثوں میں ایک تو تضاد نہیں ہے کیونکہ دونوں حدیثوں کے محمل جدا جدا ہیں کہ بعض اوقات تنہائی بہتر ہوتی ہے اور بعض اوقات لوگوں سے اختلاط بہتر ہوتا ہے ۔
سوال : اگر یہ سوال کیا جائے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن پڑھے اور پڑھائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اختلاف اوقات ، لوگوں اور ان کے احوال کے اعتبار سے ہے لہٰذاحدیثوں میں تضاد نہیں ہے ۔
یہودیت:یہودی خودکو تمام اقوام ِ عالم سے بہتر و برتر سمجھتے ہیں ۔ وہ حضرت موسیٰ ؑکے لائے ہوئے دین کی مکمل پیروی کرتے تھے۔لیکن آپ ﷺکے دور میں تمام دنیا کے یہودی ذلت کے گڑھے میں گرے ہوئے تھے،کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے قوانین کی مسلسل خلاف ورزی کی تھی۔ توراۃ محفوظ نہ رہی۔ پہلے بخت نصر نے پھر انطوشس ، طیطوس اور دوسروں نے تباہ کیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تورات کا آخری نسخہ بھی نا پید ہو گیا اور صرف یاداشت کے سہارے تورات کو نئے سرے سے مرتب کرنے کی کوشش کی گئی۔موجودہ توراۃ میں ابہام اور آمیزش کے ساتھ مطابقت رکھنے والی بے جوڑ باتیں شامل کی گئیں جس سے اس کی تعلیمات بھی قابلِ تقلید نہ رہیں۔
عیسائیت:حضرت عیسیٰ ؑپر انجیل نازل ہوئی اس میں تحریف ہوئی۔ خرافات در آئیں ۔عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث یعنی باپ( اللہ۔۔ نعوذ باللہ) بیٹا(عیسیٰؑ ۔۔نعوذباللہ) اور روح القدس (جبرائیل) اور مریم پوجا یعنی عیسائی مریم کے بت کی پوجا کرتے تھے۔آپﷺ کو اس مذہب میں بت پرستی نظر آتی ہے۔ قرآن کریم اس بات پر سخت تنقید کرتا ہے کہ عیسائیوں نے اپنے پادریوں کو (خداوند(ارباب) قراردے دیا‘ ارشاد ربانی ہے۔
اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَآنَھُمْ اَرْباَباً مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَالْمَسِیْحَ َابْنَ مَرْیَمَج وَمَآ اُمِرُوْآ اِلاَّ لِیَعْبُدُ وْآ اِلٰھًاَ وَّاحِدًاج لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِ کُوْنَo( التوبہ۳۱،پارہ ۱۰)(ترجمہ) انھوں نے اپنے پادریوں اور جوگیوں کو اللہ کے سوا خدا بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو اور انہیں حکم نہ تھا مگر یہ کہ ایک اللہ کو پوجیں، اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں وہ پاک ہے ان کے شرک سے‘‘ ۔
سینٹ پال نے کہا کہ عیسیٰ ؑکی آمد تورات کی منسوخی ہے( جب کہ عیسیٰ ؑ نے واضح کیا تھا کہ آپ توراۃ اور دوسرے انبیاء کی کتابوں کی منسوخی کے لیے نہیں آئے)۔ رومیوں کے نام ایک خط میں کہا روح القدس (جبرائیل ؑ) اور ہم نے یہ مناسب خیال کیا کہ ان ضروری باتوں کے علاوہ تم پر اور بوجھ نہ ڈالیں وہ یہ کہ تم بتوں کو پیش کی جانے والی قربانیوں سے اور لہو سے اور گلا گھوٹے ہوئے جانوروں سے اور حرام کاری سے پرہیز کرو۔اگر تم ان چیزوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھو گے تو تم یقیناََ بہتر کرو گے۔اس طرح خنزیر کے گوشت اور شراب کو حلال قرار دیا جب کہ سبت (ہفتہ‘ یہودیوں کا متبرک دن) اور ختنہ کی رسم منسوخ کر دی گئی۔۔رب تعالیٰ اور حضرت عیسیٰ ؑکو باپ بیٹا اور ایک ہی مادہ سے تخلیق قرار دیا۔ صلیب کو مذہب کا حصہ بنا دیا گیا۔اور حضرت عیسیٰ ؑو حضرت مریم ؑکی مورتیاں اور تصاویر تمام مذہبی جوش و خروش کے ساتھ متعارف کرائی گئیں وغیرہ وغیرہ۔ایسے باطل مذہب کی تعلیمات کے لیے اسلام کے ہاں کوئی گنجائش اور وقعت نہیں ۔اسلام ایک خدا کی عبادت کا کہتا ہے۔بتوں کی ممانعت کرتا ہے۔ تمام انسانی حقوق کی ادائیگی کی تلقین کرتا ہے۔ دو خدائوں کو ماننا ،حقیقی ماں، بہن، بیٹی سے شادی کرنا ، کہیں حجر و شجر کی پرستش ، کہیں گائے کی پوجا ، مظاہر ِ قدرت کی پوجا، دیوتائوں کی تعداد پجاریوں سے زیادہ ، ناگ اور بندر کی پوجا، کہیں دنیا کو جنجال پورہ سمجھ کر جنگلوں کی راہ لے کر رہبانیت اختیار کرنا، کہیں عیسائیت تین خدائوں کو قائل ہے، کہیں خنزیر، شراب حلال، ختنہ کی رسم منسوخ اور صلیب کو مذہب کا جزو بنانا وغیرہ وغیرہ۔ ایسی چیزیں ہیں جن کا اسلام سختی سے قلع قمع کرتا ہے ۔مذاہبِ عالم کی اس قسم کی تمام مکروہات اور بد ترین عقیدہ کی مخالفت کرتا ہے یعنی اسلام ہر مذہب کی تعلیمات کے خلاف ہے جو ان کے اپنے بنائے ہوئے ہیں فقط اسلام ہی سچا دین ہے۔ نیز کوئی مذہب بھی اپنی اصلی حالت میں سوائے اسلام کے موجود نہیں ۔ تو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ دین اسلام ،زرتشی ، صابی، بدھ مت، ہندو مت، برہمنیت ، یہودیت اور عیسائیت ،مذاہب سے اخذ شدہ ہے۔یہ عالمی مذاہب دین اسلام کے سامنے اپنے باطل عقائد کے ساتھ مخالف کھڑے نظر آتے ہیں ۔ تو کس منہ سے مستشرقین یہ رٹ لگائے رہتے ہیں کہ اسلام عیسائیت ، یہودیت یا فلاں فلاں مذہب کی پیداوار ہے۔ یہ محض باطل ہے اور مذکور مختلف مذاہب اور دین اسلام کی تعلیمات سے ظاہر ہے۔
اعتراض نمبر۷۵
اسلام سے پہلے عربوں میں یہودیت و عیسائیت ، توحیدی بیج بو چکی تھی۔
جواب:اسلام نے خالص توحید کا پیغام انسانیت تک پہنچایا اگرچہ مستشرقین پیغام توحید پھیلانے میں اسلام کے سر سہرا نہیں باندھتے بل کہ کہتے ہیں کہ اسلام سے قبل عربوں میں توحیدی بیج بویا جا چکاتھا۔ یہ اعزاز یہودیت و عیسائیت کے سر منڈھ دینا چاہتے ہیں ۔حالانکہ اسلا م سے قبل یہودیت و عیسائیت توحید کے پھیلانے میں بری طرح ناکام و نامراد ہو چکی تھیں ۔ اسلام سے پہلے خانہ کعبہ بتوں کا گھر بنا ہُو اتھا۔ اس میں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔شاید یہ تعداد سال کے دنوں کے برابر رکھی گئی ہو اور ہر دن ایک نئے بت کی پوجا اور پرستش کی جاتی ہو گی۔ ورنہ اس تعداد یعنی تین سو ساٹھ سے کم اور زیادہ بھی بت ہو سکتے تھے۔ اس کے علاوہ قبائل کے بت الگ الگ مقامات پر نصب تھے۔خانہ کعبہ کا طواف ، مردو زن ننگا دھڑنگا ہو کر کرتے تھے۔ لڑکیاں زندہ درگور کرتے تھے، شراب سرِ عام اور کھلے بندوں پیتے تھے۔جُوا، لوٹ کھسوٹ، چوری چکاری، بات بات پر جھگڑا، زناکاری وغیرہ ،الغرض ایسی کوئی برائی نہ تھی جو اس عرب معاشرہ میں موجود نہ تھی۔ پوجا پاٹ کے لیے شجر و حجر ،جانور، اجرامِ فلکی اور اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے بت تھے۔ اسلام کی کوششیں رنگ لائیں جو یہود و نصاریٰ کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں۔ اس سے اسلامی رنگ چڑھا ۔توحید کا پیغام کُو بہ کُو پہنچا۔ مگر یہودیت و عیسائیت پھر بھی اپنے آپ کو توحید پھیلانے کا عَلم بردار گردانتی ہیں۔ ’’واٹ‘‘ کہتا ہے’’ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مکہ والے یہودیت و عیسائیت کے زیرِ اثر توحید کی طرف گامزن تھے۔ جواباََ عرض ہے کہ اگر عرب توحید کی طرف گامزن تھے تو نبیﷺ نے توحید کا پیغام عربوں کو پہنچایا تو عرب آپ کی جان کے دشمن کیوں بن گئے؟ یہود و نصاریٰ بھی توحید کے پھیلانے والے اور مذہب اسلام کا شارح بھی توحید کا پیغام پہنچانے والا ‘ تو یہود و نصاریٰ کس بنا پر آپ کے مخالف ہوگئے؟ ثابت ہوا کہ اہلِ مکہ تو بتوں کے پجاری تھے آپﷺ نے انھیں کہا کہ یہ مٹی اور پتھر کے بت یا مظاہرِ قدرت یعنی حجر و شجر ،چاند سورج وغیرہ اِلٰہ نہیں ہیں۔ صرف وہ واحد ذات ’’ اللہ‘‘ ہے جو عبادت کے لائق ہے۔ اسلام نے بتوں پر کاری ضرب لگائی۔ آخر بت پرستی کا خاتمہ ہو گیا۔ جب کہ اسلام سے قبل تو صرف خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک نہ کر سکے جو خانہ خدا ہوکر بتوں کا گھر بنا ہُوا تھا ۔ واقعی؛
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم پاسباں ہیں اس کے وہ پاسباں ہمارا
مستشرق کا اسی سفر سے اشارہ بحیرا راہب سے ملاقات والا سفر ہے اور آپ ﷺ نے راہب سے تمام رموز و معارف و معلومات مذہب کی تعلیم حاصل کر کے چالیس سال بعد اس کا اظہار کیا ۔ اس سے ثابت کرنا یہ چاہتا ہے کہ دین اسلام عیسائیت سے اخذ شدہ ہے ۔ ۲۔ آپ ﷺ مامور من اللہ نبی نہیں تھے اور قرآن کریم الہامی کتاب نہیں ہے وغیرہ وغیرہ ۔ان تمام اعتراضات کا جواب پچھلے صفحات پر بتفصیل بیان کر دیا گیا ہے ۔دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔
اعتراض نمبر۷۶
آنحضرتﷺ کو بت پرستی سے جو نفرت پیدا ہوئی اور ایک جدید مذہب کا خاکہ آپ نے قائم کیا وہ سب اسی سفر( سفر شام اور بحیریٰ اور اس کے مختلف تجارب اور مشاہدات کے نتائج تھے‘‘(ولیم میور۔سیرت النبی شبلی۔۱۔۱۱۸)
جواب :دین اسلام کوئی جدید اور نیا دین نہیں ہے حضرت آدم ؑ سے لے کر آپ ﷺ تک جتنے سچے مذہب خدا کی طرف سے آئے وہ سب ایک تھے اسلام اسی ایک مذہب کا نام ہے جو آدم ؑ سے محمد ﷺ تک باری باری پیغمبروں کے ذریعے آتا رہا اور انسانوں کو اس کی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کیا جاتا رہا ۔ وحدت دین کے بارے قرآن کریم شہادت دیتا ہے ( ترجمہ) اس نے دین میں تمہارے لیے وہی رہ مقرر کی جو نوح ؑ سے کہی تھی اور ہم نے تیرے پاس جو حکم بھیجا اور جو کہہ دیا ہم نے ابراہیم ؑ سے اور موسیٰؑ و عیسیٰ ؑ سے ُ یہ کہ دین کو قائم کرو اور اس کی طرف رجوع اور یہ تفرقے لوگوں نے وحی کا علم (حقیقی) ملنے کے بعد آپس کی ضداور تعصب سے پیدا کیے ہیں اور اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بار وقت مقرر تک کے لیے نہ ہو چکی ہوتی تو ان کے اختلاف کا فیصلہ کر دیا جاتا اور جن کو ان اگلوں کے بعد کتاب وراثت میں ملی وہ اس امر حق کی طرف سے ایسے شک میں ہیں جو ان کو چین نہیں لینے دیتا ‘ ہو تو سب کو اس حقیقت کی طرف بلا اور اسی پر استواری سے قائم رہ جیسا کہ تجھ کو حکم دیا گیا ہے اور ان تفرقہ بازوں کی غلط خواہشو ں کی پیروی نہ کر اور کہہ دے کہ میں ایمان لایا ہر اس کتاب پر جو خدا نے اتاری اور مجھے حکم ملا ہے کہ میں تمہارے بیچ میں انصاف کروں ‘ ہمارا رب اور تمہارا رب وہی ہے ایک اللہ ‘ ہم کو ہمارے کوموں کا بدلہ ملے گا اور تم کو تمہارے کاموں کا ‘ ہم میں تم میں کچھ جھگڑا نہیں اللہ سب کو اکٹھا کرے گا اور اسی کی طرف پھر جانا ہے ۔ الشوریٰ ۱۵، پارہ ۱۵)
مذکورہ آیات میں واضح کر دیا گیا ہے کہ وہی ایک دین ہے جو نوح ؑ کو ‘ ابراہیم ؑ کو اور تم کو اے محمدﷺ عطا کیا گیا ہے ۔ اگلوں کے بعد پیچھلوں نے جن کو یہ کتا ب ملی اپنی ذہنی تحریفات اور دستی تصرفات سے اس میں فرقے پیدا کیے اور تعصبا ت سے فرقہ واری کی راہیں نکالیں ۔ پھر یہ بھی بتا دیا کہ اہل کتاب کو وحدت دین کی حقیقت سے بے خبری ہے وہ شکوک و شبہات کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ توریکی کے قعر مذلت میں گھرے ہوئے ہیں لہذا ان کو اس حقیقت کی طرف بلا کر اپنی اس دعوت اور دعویٰ پر قائم رہو اور اپنے طریقے سے اگاہ کر دیجئے کہ میرا مذہب یہ ہے کہ خدا کی طرف سے جو کتاب بھی دنیا میں آئی ہے ‘ میں اس کی صداقت کو مانتا ہوں اور اے اہل کتاب تمہارے ساتھ انصاف کروں پھر یہ بھی صراحت کر دی کہ تمہارا اور ہمارا خدا یک ہی ہے دو نہیں اس پر تمہارے اور درمیان اتحاد ہو سکتا ہے ۔ یہ بنیادی نقطہ اتصال ہے البتہ جو اختلاف ما و شما کے ما بین ہے اس کے ذمہ دار ہم اور تم ہیں ہر ایک اپنے کیے کا جواب دہ ہے اب ہمارے تمہارے درمیان جھگڑا نہیں ہے اسی دین کی وحدت کی حقیقت کو ’’ سورہ الانعام ۔۱۶۱‘‘ میں بیان کیا گیا ہے (ترجمہ) ’’ کہہ دے کہ تیرے خدا نے اس سیدھی راہ کی طرف میری راہنمائی کی جو دین مستقیم ہے ‘ ابراہیم ؑ حنیف کا مذہب اور وہ ( ابراہیم ؑ ) مشرکوں میں سے نہ تھا ۔‘‘
سورہ حم السجدہ ۔۴۳‘‘ میں ہے ‘ )اے محمدﷺ) تجھ سے اس کتاب میں وہی کہا گیا ہے جو تجھ سے پہلے پیغمبروں سے کہا گیا ہے ‘‘۔اس اعلان میں یہ ظاہر کردیا گیا ہے کہ محمدﷺ سے وہی کہا گیا جو اگلے پیغمبروں سے کہا جا چکا تھا ،۔ ان معنوں میں قرآن مجید کوئی نئی دعوت لے کر نہیں آیا بلکہ یہ دعوت پہلی دعوت کی تائید مزید ہے ۔اسلام یہ ہے کہ اس پر یقین کیا جائے کہ وحی کے آغاز سے آخر تک ایک ہی پیغام تھا جو آتا رہا ‘ ایک ہی دین تھا جو سکھایا جاتا رہا ‘ ایک ہی حقیقت کی دعوت دی جاتی رہی البتہ انسانوں کی غفلت کیشی ‘ تصرف اور اپنے خیالات کی سچائی کی بدولت تحریفات ہوتی رہیں مگر آخری بار پوری حفاظت کے وعدے کے ساتھ آپ ﷺ کے ذریعہ سے کامل و اکمل ہو کر نازل ہوئی اور قیامت تک محفوظ رہے گی ۔’’ ان نحن نزلنا الذکر و ان لہ لحافظون ‘‘لہذا میور کا اعتراض باطل ہے جو کہتا ہے کہ جدید مذہب کا خاکہ قائم کیا کیونکہ یہ وہ مذہب ہے جو تمام پیغمبروں پر نازل ہوتا رہا اور وہ لے کر آتے رہے اور نوح انسانی کو اس کی تعلیمات سے ہدایت کا راستہ دکھاتے رہے ۔
اس قسم کے تجارتی سفر تو بت پرستوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں نے بھی کیے ہوں گے۔ کفارِ مکہ گرمیوں ،سردیوں میں تجارت کی غرض سے مختلف جگہوں کا سفر کرتے تھے۔ عرب تاجر قبل از اسلام سندھ اور مالابار کی بندر گاہوں پر بکثرت آتے جاتے تھے۔ ہندوستانی تاجر بھی جنوب مشرقی عر ب کی بین الاقوامی بندرگاہ ’’دبا‘‘ کے سالانہ تجارتی میلے میں شرکت کرتے تھے۔ ہندوستانی تاجر یمن بھی جاتے تھے۔ڈاکٹر حمید اللہ ( محمد رسول اللہ۔۱۹۷) بتاتا ہے جہاں تک ’’ دبا‘‘ کا تعلق ہے آنحضرت ﷺخود بھی وہاں تشریف لے جا چکے تھے۔ عبدالقیس کے قبیلے کا وفد آیا۔آپ سے ملاقات ہوئی تو وہ حیران ہوئے ۔ جب انھیں علم ہوا کہ آپ عمان کا طویل اور وسیع دورہ کر چکے ہیں۔( حوالہ بالا۔۱۹۵)آپ مشقر اور بعض دوسرے علاقوں میں بھی جا چکے تھے۔ جب یمن کے قبیلہ بل حارث کا وفد مدینہ پہنچا تو سرکارِ دو عالم نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں جو ہندوستانی دکھائی دیتے ہیں‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ان تاجروں کو ان سفروں کے دوران تجربات و مشاہدات بھی ہاتھ لگے ہوں گے۔ ان سفر نوردوں کے متعلق تاریخ کیا یہ گواہی دیتی ہے کہ محض سفر کے تجربوں اور مشاہدوں کی بنیاد پر وہ بت پرستی سے متنفر اور بے زار ہو گئے اور اپنے آبائو اجداد کے مذہب کو خیر باد کہا۔ کسی عالم کے واعظ و نصیحت سے متاثر ہو کربتوں سے کنارہ کش ہوئے ہوں اور ایک نئے اور جدید مذہب کا تانا بانا بُنا ہو؟ ایسا ہرگز نہیں ہو ا اور نہ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ سب مفروضے کیوں تراشے جا رہے ہیں ؟ بے بنیاد اور من گھڑت الزامات کیوں لگائے جا رہے ہیں ؟ یہ باطل الزامات آپ کی ذات تک کے لیے ہی محدود کیوں؟ حقیقت یہ ہے کہ مستشرق ثابت کرنا یہ چاہتا ہے کہ یہ سب کچھ بحیرا راہب کی تعلیم کی کار فرمائی تھی۔ اس تعلیم کا اثر آنحضرت ﷺپر ہوا۔ یہ محض باطل ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بحیرا راہب ازخود متاثر ہوا۔پہلے کبھی قافلوں کے پاس نہ آتا تھا۔اس قافلے کی طرف خود چلا آیا، کھانے کا انتظام کیا اور اعلانیہ آپ ﷺکے نبی ہونے کی گواہی دی۔ بحیرا راہب نے لات و عزیٰ کی قسم دے کر پوچھاتو آپ نے فرمایا ان کی قسم دے کر نہ پوچھو: خدا کی قسم! میں ان سے بڑھ کر کسی چیز سے بغض نہیں رکھتا۔آپ تو راہب کے عقیدہ کے خلاف ہیں تو پھر راہب سے تعلیم منسوب کرنا چہ معنی دارد؟ حد تو یہ ہے کہ یورپین مورخین نے کہا آپ کے تمام معارف و معلومات سیر وسفر سے ماخوذ ہیں، قیاسات کے ذریعہ سے اس دائرہ کو وسعت دی ہے‘‘ ایک اور مورخ لکھتا ہے کہ آپ نے بحری سفر کیا تھا جس کی دلیل قرآن مجید میں جہازوں کی رفتار اور طوفانوں کی کیفیت کی ایسی تصویر ہے جس سے ( نعوذ باللہ) ذاتی تجربہ کی بُو آتی ہے۔( مارگولیس یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ ’آپ مصر تشریف لے گئے اور بحر مردار(Dead sea )کا معائنہ بھی کیا مولانا شبلی(سیرت النبی ۔۱۲۴) بتاتے ہیں ’’ یورپین مورخین کے خیال کی بنیاد صرف قیاس و رائے پر ہوتی ہے اگر اس قسم کے واقعات بیان کریں تو کوئی تعجب نہیں ہے لیکن آنحضرتﷺ کا مصر جانا در حقیقت یورپ کے عہدِ مظلم کی مضحکہ خیز روایت ہے۔ بحری سفر آپ نے یقیناََ نہیں کیا لیکن اگر آپ کے بِحرین تشریف لے جانے کی روایت صحیح ہے تو خلیج فارس آپ نے دیکھا ہو گا ۔ بحرِ مردار کا مشاہدہ بھی ممکن ہے کیونکہ اس کا موقع عرب و شام کے درمیان میں ہے جہاں سے آپ کئی بار وفدِ تجارت کے ساتھ گزرے ہوں گے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ ( محمد رسول اللہ۔۱۹۱) لکھتے ہیں کہ بحران یا بحیرین( یہ موجودہ بحیرین نہیں ) بلکہ وہ علاقہ ہے جو آج کل سعودی عرب کے مشرقی سرحدی صوبہ الحمساء پر مشتمل ہے ۔ یہ بھی لکھتا ہے ’’ جدید جزیرہ بحیرین جو کہ خلیج عرب و فارس میں جزیرہ نمائے عرب کے مشرق میں واقع ہے ان دنوں ’’اُول ‘‘ کہلاتا تھا (حوالہ بالا۔۱۹۶) ۔پر ہے بحیرین سعودی عرب کا موجودہ ضلع الحمساء ہے۔شاید اس وقت قطر بھی اس علاقے میں شامل تھا۔ قطر خاص طور پر خلیج کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے اور دو سمندر وجود میں آتے ہیں ۔ اگر موجودہ بحیرین نہیں اور سعودی عرب کو صوبہ الحمساء ہے تو پھر آپ بِحیرین موجودہ نہیں گئے، شاید اس بِحیرین جو سعودی عرب کا صوبہ ہے وہاں تشریف لے گئے ہوں گے۔ نیز تجارتی غرض کی وجہ سے سفر کیے ہوں تو کوئی حرج نہیں ۔ البتہ اپنی رائے و قیاس سے ان سفروں کو جدید مذہب کے خاکہ میں معاون سمجھنا کسی طور درست نہیں ہے۔ کئی ایسے سیاح گزرے ہیں جنھوں نے دنیا کے دُور دراز علاقوں اور ملکوں کے سفر کیے، نئے ملکوں کو دریافت کیا جیسے کولمبس نے امریکہ دریافت کیا ۔وہ آنحضرت کے ایک ہزار برس بعد پیدا ہُوا تھا ۔واسکوڈی گاما ایک پُرتگالی کپتان افریقہ کا چکر لگا کر بحر ہند میں داخل ہوا اور کوئی دس مہینے میں نو دس ہزار میل کی دریا نوردی کرکے ۹۰۴ ھ میں جنوبی ہند کی بندرگاہ کالی کٹ پہنچ گیا(مغلوں کا زوال۔۲۱۲‘ ہاشم فرید آبادی) ۔بیسویں صدی میں انگریز آنے لگے۔ انگریز ملاحوں نے شمال مغرب کی طرف سمندر کا چکر کاٹنے کی کوشش کی ۔اس تلاش میں "New Found Land" یعنی جزیرہ نَو دریافت کیا۔ ایک بہادر ملاح بحرِمنجمد شمالی کے راستے چلا اور خود تو ہلاک ہوگیا مگر اس کے ساتھی شمالی روس کے ساحل بحرِ سفید تک جا پہنچے، گویا سیدھا راستہ ایشیاء تک پہنچنے کا پھر بھی نہ ملا(حوالہ بالا۔۲۲۲) ۔ سیاحوں ، ملاحوں نے سفر ترتیب تو بہت دئیے۔ نئے علاقے بھی دریافت کیے، سمندروں کے چکر بھی کاٹے لیکن انسانیت کو نیا مذہب نہ دے پائے۔ کوئی ضابطہ نہ دیا، کوئی نیا مذہبی خاکہ دنیا کو دے نہ پائے اور کسی نے ان ملاحوں کے تجربات و مشاہدات سے یہ اخذنہ کیا کہ طوفانوں کی کیفیت ،جہازوں کا سمندروں میں گھومنا پھرنا وغیرہ الہامی کتاب میں ان کے تجربات اور مشاہدات کا نتیجہ ہے ، نیز ان سفروں سے عجیب و غریب معارف کے خزانے توہاتھ لگے مگر انھوں نے اپنے آباء کا دین نہ چھوڑا۔ اندھا کیا جانے بسنت کی بہار، انھیں کیا خبر کہ نبوت عطائے ربی ہے ۔کسبی نہیں اورنہ ہی سفری تجارب اور معارف کی بنیاد پر حاصل ہوتی ہے ارشاد خدا وندی ہے ’’ اللہ اعلم حیث یجعل رسالۃ ( الانعام ۱۲۴،پارہ ۸) اللہ جانتا ہے کہ کہاں اپنی رسالت رکھے ‘‘۔ دینِ اسلام ایک مکمل دین ہے جس نے رہتی دنیا تک کے انسانوںکی رہنمائی کرنی ہے(ان شاء اللہ) اور نظام ِ حیات کو برقرار رکھنے کے لیے تمام لوازمات عطا کرنے ہیں ،تو یہ رہنمائی اللہ کی عطا سے اس کے بھیجے ہوئے رسول دیتے ہیں ۔یہ ان سفروں کا نتیجہ نہیں ہوتاہے بلکہ عطائے الہٰی اور انعام خدا وندی ہوتا ہے ۔سورہ الرحمن میں ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’ دو دریائوں، ایک گرم پانی کا اور دوسرا ٹھنڈے پانی کا ہے‘ کے درمیان ایک آڑ ہے وہ تجاوز نہیں کر تے ،ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ قرآن کریم نے جو یہ بیان کیا تو کیا آپؐ نے وہاں کا سفرکیا تھا؟ کیا وہاں جانے پر معارف و معلومات حاصل ہوئی تھیں جن کی بازِ گشت قرآن مجید میں ہے۔(ن۴ص) یہ سفر بقول سر ولیم میور مستشرق کے مختلف تجارب و معارف کا نتیجہ تھے حالانکہ یہ سفر مابعد جدیدمذہب کا باعث بنا ، یا ما بعد نبوت کا سبب بنا غیر منطقی استدلال ہے ایسے سفروں کے تجارب جہانگیری و جہانبانی کی بنیاد قرار نہیں دیے جا سکتے۔ نبوت و رسالت وہبی ہے کسبی نہیں ۔نبوت و رسالت خالص اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ اکمل و کامل دین جس نے قیامت تک کے لیے درست نظام ِ حیات کا مقام قائم رکھنا ہے وہ ان تجارتی سفروں کا نتیجہ نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ یہ فرائض اور ان کی انجام دہی صبر و استقلال ، تدبر و فہم،امانت و دیانت کی عادت کے موجب بن سکتے ہیں مگر ایک مکمل دین کے جزئیات کا حل اور امت کی زندگی کے ہر شعبہ میں ہدایت و رہنمائی سفروں کی بدولت نہیں ہو سکتی ۔
اعتراض نمبر۷۷
یہ بات واضح ہے کہ اسلام کی نئی مذہبی تحریک حضرت محمدﷺ کے زمانے میں مکہ کے حالات سے ابھری ہو گی ، ایک نیا مذہب اس وقت تک وجود میں نہیں آتا ‘جب تک اس کے لیے کافی عوامل موجود نہ ہوں ۔ آنحضرتﷺ اور ان کے انتہائی پیروئوں کی نظروں میں کچھ ضروریات آئی ہوں گی جن کو اس نا پختہ مذہب کے عقاید اور معمولات کے ذریعہ پورا کیا گیا ۔
جواب: رسالت کی دعوت کا محور و مرکز ایمان با للہ ہے یعنی آپ ﷺ کی دعوت کا آغاز اس سے ہوا کہ اللہ کے سوا کو ئی الہ نہیں ہے اور مدت العمر اسی مشن کو آگے بڑھاتے رہے اور لوگوں کو حقیقی پرور دگا ر سے آشنا کر کے انہیں صرف اور صرف اللہ کی بندگی پر گامزن کرتے رہے ۔ اسلام سے پہلے عرب کی یہ حالت تھی کہ وہ آسانی سے اس طریق دعوت سے رام ہونے والے نہیں تھے ۔ انہیں اپنی زبان دانی پر فخر و ناز تھا وہ بخوبی جانتے تھے کہ لا الہ اور لا الہ الااللہ کا مطلب کیا ہے یعنی اقتدار پورے کا پورا کاہنوں ‘ پروہتوں ‘ قبائلی سرداروں اور امراء و حکام لے ہاتھ سے نکل کر اللہ کی طرف لوٹا دیا جائے گا ۔ وہ جانتے تھے کہ لا الہ الا اللہ کا اعلان دنیاوی اقتدار کی بساط لپٹنے کے لیے ہے جس نے الوہیت کی حاکمیت کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔ وہ جانتے تھے کہ یہ نعرہ ان تمام نظاموں اور ان کے وضع کردہ قوانین کے خلاف کھلا چیلنج اور اعلان بغاوت و جنگ ہے جو غاصبانہ قبضہ کی بنیاد پر بنے ہیں اس لیے انہوں نے اس انقلابی اقدام کا نفرت و تعصب ‘ تشدد و دشمنی سے استقبال کیا ۔ کیا یہ حالات دعوت حق کے لیے ساز گار تھے ۔ ظہور اسلام کے وقت زرخیز و شاداب علاقے عربوں کے ہاتھ میں نہیں دیگر اقوام کا قبضہ تھا جیسے شمال میں شام کے علاقے رومیوں کے قبضہ میں تھے جن کے ماتحت عرب کے شیوخ حکمرانی کرتے تھے جنوب میں یمن کا پورا علاقہ اہل فارس کے قبضہ میں تھا انہوں نے عرب حکام کو حکمرانی کے لیے سونپ رکھا تھا ۔ آپﷺ کو عرب الصادق والامین تسلیم کر چکے تھے ۔ حجر اسود کے نصب کرنے میں آپ ﷺ کو اپنا حکم بنا چکے تھے ۔ نسب کے لحاظ سے آپ ﷺ بنو ہاشم کے اونچے گھرانے کے چشم وچراغ تھے ۔ اس وقت اگر آپ ﷺ چاہتے تو قومیت کا نعرہ بلند کر کے عربوںکو اپنے گرد اکھٹا کر لیتے جو معمولی جھگڑوں پر سالہا سال کی جنگوں میں پھنسے ہوئے تھے ۔ حضورﷺ اگر چاہتے تو ان سب عربوں کو ایک جھنڈے تلے جمع کر کے انہیں قومیت کا درس دیتے اور شمال کے رومی اور جنوب کے ایرانی استعمار کے قبضہ سے عرب سر زمین کو آزاد کرانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ۔ عرب قومیت اور عربیت کا پرچم لہرا کر اور جزیرہ عرب کے اطراف و اکناف کو ملا کر متحدہ عرب ریاست کی داغ بیل ڈال دیتے مگر آپ ﷺ نے تو حید کا اعلان کیا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور ساتھ اس طرف بھی توجہ دلائی کہ اس اعلان کے بعد آپ ﷺ خود اور وہ کم تعداد افراد اس دعوت پر لبیک کہیں اور ہر قسم کی تکلیف واذیت اور مصائب و آلام برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جائیں ۔ یہ تشدد اور ظلم کا نشانہ نہ بننے کے لیے اہل ایمان کے لیے حق نہیں چاہتا تھا مگر اس کے سو ا کو ئی راستہ نہیں بچا تھا جو اس دعوت کے مزاج کے ہم آہنگ ہو کیونکہ یہ درست نہیں تھا کہ رومی و ایرانی طاغوت سے نجات پا کر عربی طاغوت کے پنجہ میں جکڑ دیا جاتا ۔ جب طاغوت کے زیر اثر ہی رہنا ہے تو طاغوت رومی ہو یا ایرانی یا عربی ‘ کسی صورت مفید و کار آمد نہیں ہے ۔ یہ ملک اللہ کا ہے اور اس پر صرف اللہ کا اقتدار ہی ہونا اور رہنا چاہیے ۔ انسان کاا نسان پر غلبہ نہ ہو ‘ انسان صرف اللہ کے بندے اور اس کے غلام ہیں ۔ اسلام انسانوں کے لیے جس قومیت کا علمبردار ہے وہ اسی ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کے ایمان و عقیدہ کی بنیاد پر طے ہو تی ہے ۔ رنگ و نسل ‘ اور علاقہ و زبان کے امتیازات کی قطعاََ کوئی گنجائش نہیں ہے ۔سب اس عقیدہ کی نگاہ میں نعرہ توحیدی کے تحت مساوی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس وجہ سے اس فطری طریق کو اپنایا اور قومیت کے نعرہ کو اہمیت نہ دی ۔۲۔ اقتصادی لحاظ سے عرب کا معاشرہ دولت کی نا منصفانہ تقسیم اور عدل گستری کے غیر صحت مندانہ نظام میں جکڑا ہوا تھا اور چند لوگوں کا گروہ سیاہ و سفید کا مالک تھا ۔ مال و دولت اور تجارت کو سودی دھندے سے بڑھاتا جا رہا تھا جس کے نتیجہ میں عرب کی اکثریت نادار اور افلاس کا شکار تھی ۔ مال دار لوگ ہی عزت والے تھے عوام بچارے جو دولت سے بے حال اور تہی دامن اور عزت و شرف سے بے بہرہ تھے ان حالات کے پیش نظر نبی اکرم ﷺ نے اجتماعی اقتصادی تحریک نہیں چلائی‘ جس کے لیے وہ حالات ساز گار تھے ۔ غریب عوام کو دولت کی انصاف مندانہ تقسیم پر ابھارتے اور سرمایہ داروں سے مظلوم اور محنت کش طبقے کو حق دلاتے جس سے کمزور طبقہ امیروں کے خلاف ڈٹ جاتا ۔ یہ نہج اپنایا جاتا تو نہایت موثر ہوتا مگر یہ نہ اپنایا جس سے پورا معاشرہ لا لہ الا اللہ کے خلاف صف آرا ہو جاتے اور چیدہ چیدہ لوگ اسلام کے پیروکار ہوتے لیکن اس طریق پر چلنے کی راہ اختیار نہ کی کیونکہ دعوت اسلامی کے لیے یہ مناسب نہیں ہے عدل و انصاف کی اجارہ داری صرف اس ہمہ گیر لا لہ الاا للہ کے نظریہ سے ممکن ہے جو معاملات کو اپنے قبضہ میں لینے کی بجائے اللہ کے ہاتھ میں دیتا ہے اور معاشرہ اس فیصلہ کو بخوشی قبول کرتا ہے اور ہر فرد کے دل کی آواز خواہ وہ دینے والے یا پانے والے کی آواز ہو دلوں میں گھر کر جاتی ہے کہ وہ جس نظام کے نفاذ کا خواہاں ہے اس کا شارع اللہ تعالیٰ ہے اور اس نظام کی اطاعت سے دنیا و آخرت میں فلاح و کامیابی ہوتی ہے تلوار اور ڈنڈے کے زور اور ظلم و تشدد پر قائم نظام ہو جس میں انسانوں کے دل اور ان کی روحیں سسک سسک کر دم توڑ رہی ہوں وقتی طور پر غالب آ سکتا ہے یعنی چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات والی بات ہو گی ۔ آج کل کے نظاموں میں یہی کچھ ہو رہا ہے جو غیر اللہ کی الوہیت پر قائم ہیں ۔ ظہور اسلام سے قبل جزیرۃالعرب کی اخلاقی سطح زوال و ادبار کا شکار تھی صرف چند اخلاقی قدریں اخلاق سے عاری اور خام حالات میں تھیں ۔ ظلم و تشد د کی فضا نے پورے معاشرہ کو لپیٹ میں لے رکھا تھا ۔ بقول زمانہ جاہلی کے ایک شاعر ’’ جو ہتھیار کی طاقت سے اپنا دفاع نہیں کرے گا تباہ و برباد ہو جائے گا اور جو خود بڑھ کر ظلم نہیں کرے گا تو وہ خود ظلم کا شکار ہو جائے گا ۔ دین عوامل کے بغیر وقوع پذیر نہیں ہوتا اور یہ بھی درست ہے کہ دین معاشرہ میں ظلم و ستم ، نا انصافی اور جہالت و بربریت کی روک تھام کے لیے وجود میں آتا ہے جب انسانیت اپنے دکھوں کا مداوانہیں کر سکتی تو وہ کسی ایک ایسے مسیحا کی آمد کا انتظار کرتی ہے جو ان کے دکھوں کا علاج کرے کیونکہ تنم تنم زخم پنبہ کجا نہم کی سی کیفیت ہوتی ہے اور انسانیت پکار پکار کر کہتی ہے ’’میرے دکھ کی دوا کرے کوئی ‘‘ ایسے میں اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہوتا ہے اور اپنے رسول مقبول کو گمراہ ، پسی ہوئی ،ظلم کی ماری مخلوق کی طرف مبعوث فرماتا ہے لیکن ایسا نہیں کہ جہالت عروج پر ہو اور دکھوں میں جکڑی اور مفلوج انسانیت خود بخود ہدایت کی طرف گامزن ہو جائے جبکہ قعرمذلت میں ڈوبی اور زبوں حالی کا شکار قوم پر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہوتا ہے تب اس کے کرم کے صدقے رسول مبعوث ہوتا ہے جو لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچاتا ہے اور صراۃ مستقیم پر چلنے کا درس دیتا ہے ۔
مکہ میں بلکہ عرب میں عیسائیت و یہودیت کی ذرا برابر کامیابی نہ ہوئی اور یہ دونوں مذاہب ان ضرورتوں کو پورا نہ کر سکے جنہیں دین اسلام نے پورا کر دکھایا پھر بھی مستشرق اسلام کو نا پختہ دین کہتا ہے جس نے لوگوں کی ہر طرح کی ضرروتوں کو پورا کیا۔ مستشرق یہودیت و عیسائیت کی ناکامی کے باوجود اسلام سے افضل شمار کر رہا ہے حالانکہ اسے اچھی طرح خبر ہے کہ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس کی مہر قرآن نے ثبت کردی ۔الیوم اکملت۔۔۔ ‘‘ لیکن جسے مستشرق ناپختہ دین کہتا ہے لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کر دیا مستشرق یہودیت و عیسائیت کو ناکامی کے باوجود اسلام سے افضل شمار کر رہا ہے حالانکہ اسے اچھی طرح خبر ہے کہ دین اسلام نا پختہ دین نہیں ہے۔ ایک مکمل اور اکمل دین ہے۔ جس نے ہر طرح سے انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں ہدایات فراہم کیں اور انسانیت کو ذلت کے گڑھے سے نکالا ۔
اعتراض نمبر۷۸
ولیم کہتا ہے کہ ماحول اتنا سازگار اور تبلیغ اتنی پرجوش تھی کہ مذہب اسلام ایک گھر سے دوسرے گھر اور ایک قبیلے سے دوسرے قبیلے تک پھیلا ، یہودی سب کچھ حیرت سے دیکھ رہے تھے اور جن لوگوں کو بت پرستی کی قباحتوں سے دور رکھنے کے لیے کئی نسلوں سے کوشش کر رہے تھے وہ لوگ اب اپنے بتوں کو جھوٹا ، چھچھوندروں اور چمگادڑوں کے سامنے پھینک کر خدائے واحد پر ایقان لا رہے تھے ۔اس کامیابی کا راز وسیلے کی موزونیت میں تھا ، یہ مذہب مقامی تھا اور طبیعتوں کے موافق تھا ۔ یہودی مذہب جو اجنبی ممالک کی پیداوار تھا وہ عربوں کی ہمدردیاں حاصل نہ کر سکا اور اسلام جو عربی عقائد ، توہمات ، قومیت اور رسوم کی پیوند کاری سے بنا تھا وہ سرعت کے ساتھ عربوں کے دلوں میں گھر کر گیا ۔( ضیا النبی ۔۷۔۳۳۴)
جواب: جب تک اللہ تعالیٰ کی رحمت شامل حال نہ ہو تب تک ایک نا خوشگوار ماحول خوشگوار ماحول نہیں بن پاتا اور تبلیغ اتنی پر جوش اور دلوں میں گھر کر جانے والی نہیں بنتی ‘ ہاں جب وہ رحمت معاون و مدد گار ہوتو مفلوج ، ظلم و ستم اور نا انصاف زدہ ماحول بھی سازگار بن جاتا ہے۔
سارے موسم تیرے موسم کیا ساون کیا چیت
تو چاہے تو مٹی سونا، نہیں تو سونا ریت
۲۔ ولیم میور نے خود اقرار کیا کہ یہودیت ناکام ہو چکی تھی کیونکہ ان کے عقائد، عبادتیں اور ضابطے بے روح ہو چکے تھے اس وجہ سے کہ وہ دین اصل نہیں رہا تھا بلکہ تحریف شدہ تھا یعنی انسانوں کا بنایا ہوا مذہب رہ گیا تھا ۔ وہ مذہب جو انسانی ذہن کی پیداوار ہو وہ بھلا کب پروان چڑھ سکتا ہے وہ تو ازخود ختم ہو جاتا ہے دوسروں کو ہدایت کیسے دے سکتا ہے ؟ ولیم میور نے پرجوش تبلیغ کو مان لیا جس کی اثر انگیزی سے اسلام ایک گھر سے دوسرے گھر اور ایک قبیلے سے دوسرے قبیلے تک پھیلنے لگا۔ ولیم میور یہ کہنا چاہتا ہے کہ مذہب تو یہودیت ہی اچھا ہے لیکن وہ درآمد شدہ ہے اس لیے عربوں نے اسے پذیرا ئی نہ بخشی بلکہ مسترد کر دیا ۔ یہ بھی مستشرق کی بھول ہے اور خطا ہے کیونکہ وہ مذہب جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جاتا ہے وہ سچا ہوتا ہے اگرچہ وقتی طور پر اسے کم لوگوں کی تعداد قبول کرتی ہے جبکہ اس کی حقانیت میں کسی قسم کا ریب نہیں ہوتا مگر جب اس میں ملاوٹ یعنی لفظی و معنوی تحریف ہو جائے وہ اپنا اثر کھو دیتا ہے کیونکہ وہ اب اصل دین نہیں رہا ہے بلکہ انسانی ذہن کی پیداوار ہو چکاہے ۔ پرجوش تبلیغ کام نہیں آتی جب تک دین سچا نہ ہو اور سچا دین صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہوتا ہے ۔ تحریف شدہ یا انسانوں کا خود بنایا ہوا مذہب پرجوش تبلیغ سے کبھی کامیاب نہ ہوا ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے ۔
۳۔ ولیم میور تضاد کا شکار ہے اس کی کس بات کو مانیں اور کس کو نہ مانیں وہ تو سیماب صفت ہے ۔وہ کہتا ہے کہ اسلام نے عربوں کو بت پرستی سے توحید کی طرف لانے کی کوشش کی اور پھر یہ کہتا ہے کہ اسلام عربی عقائد ، توہمات ، قومیت اور رسوم کی پیوندکاری سے بنا ہے یہ تضاد ہے اور اجتماع ضدین ممکن نہیں لیکن ولیم میور کے نزدیک تضاد کی کھلم کھلا گنجائش ہے جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث اور توحید میں فرق نہیں ہے ۔ ان کے حساب سے ایک اور تین برابر ہوتے ہیں ۔ وہ تین خدائوں کو مان کر بھی توحید پرست ہیں ۔ عربوں کے عقائد میں رسوم و قیود کا کوئی عمل دخل نہیں تھا ۔ اسلام بت شکن ہے جبکہ عرب بت پرست تھے عرب باپ دادکے دین پر فخر کرتے تھے ۔ اسلام نے ان کے آباء کے مذہب کو جھوٹا کہا ۔ عربوں میں خاندانی شرافت کو اہم سمجھا جاتا تھا اسلام نے اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور اعلان کیا کہ تم میں وہ اچھا ہے جو متقی و پرہیز گارہے ۔ عمل کی اساس تقویٰ پر رکھی ۔معیار زندگی یہ تھا کہ ایک بے دین امیر ایک غریب ایماندار دیندار کے مقابلے میںپرکاہ کے برابر بھی نہیں تھا ۔
۴۔ ولیم میور کا یہ کہنا کہ یہودیت درآمدی مذہب تھا جس کی بناء پر ناکام ہوا ، اسی طرح عیسائی مذہب پر بھی یہ اعتراض وارد ہوتا ہے ۔ یہودی مذہب لوگوں کو مائل کرنے اور اپنے مشن کو جزیرہ نمائے عرب میں پھیلنے میں ناکام رہا اس طرح عیسائیت کا مشن بھی لوگوں کو اپنی طرف نہ لا سکا ۔ یہودیت کی حمایت میں اور ناکامی کے الزام کو سر سے اتارنے کی دانستہ کوشش کی ہے تاکہ یہودیت کی بریت سے عیسائیت کی بھی اس الزام سے بریت ہوجائے گی ‘ لیکن اہل علم ان کی چالوں سے بے خبر نہیں رہ سکتے ۔ مستشرقین کو اسلام دشمنی نے ہلا کر رکھ دیا ہے وہ اس دشمنی میں باولے ہوئے جا رہے ہیں نیز ایک مستشرق کچھ کہتا ہے دوسرا کچھ کہتا ہے جیسے مذکورہ بیان میں ولیم میور نے کہا کہ درآمدی مذہب کی وجہ سے یہودیت کو ناکامی کا سامناکرنا پڑا۔ دوسری طرف ’’ واٹ‘‘ کہتا ہے دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مکہ والے یہودیت اور نصرانیت کے زیر اثر توحید کی طرف گامزن تھے ۔ یہ تضاد ان کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے ۔ آپ نے دیکھا کہ ولیم درآمدی مذہب کی بناء پر ناکامی کا اقرار کرتا ہے اور ’’واٹ‘‘ عربوں کو ان مذاہب کے ذریعے توحید کی طرف گامزن ہونے کی بات کرتا ہے ۔ کس بات میں وزن ہے ؟ کس کی بات تاریخ کی کسوٹی پر پوری اترتی ہے ؟ بلکہ یہ درست ہے کہ دونوں کے اعتراضات باطل ہیں ۔
۵۔ ورقہ بن نوفل اپنے ہم مذہب بزرگ کی بات مان لیتے تو خوب تھا ، جو سمجھتا ہے کہ ایک نبی عنقریب آنے والا ہے اس کی تشریف آوری کی دنیا منتظر ہے جس کی نبوت و رسالت کی گواہی ورقہ بن نوفل نے دی ، جس کی رسالت و نبوت کی گواہی حبشہ کے شہنشاہ نجاشی نے دی ، اس وقت کے راہبوں اور عالموں نے شہادت دی کہ وہ مامور من اللہ ہیں اور انہی کے دم قدم سے اسلام پوری دنیا میں پھیل گیا اور دیگر مذاہب پر غالب آ گیا کیونکہ یہ دین اللہ کی طرف سے تھا ۔
اعتراض نمبر۷۹
’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ جا کر یہ کوشش کی کہ اسلام کو مذہبِ قدیم’یہودیت‘ سے بدل دیا جائے۔ (واٹ۔ن۔۱۱۔۵۳۷)۔
مدینہ جا کر شہکار کارنامہ جو ابتداََ کیا‘ میثاقِ مدینہ ہے۔جس میں یہودیوں نے پیغمبر کی حیثیت کو مان لیا اور دسُتور میں بار بار مسلمانوں اور یہودیوں کا الگ الگ ذکر ہے تو پھر یہ تسلیم کیسے کر لیں کہ اسلام کو یہودیت میں بدلنے کی کوشش کی جبکہ دونوں مذاہب کا اپنا اپنا امتیاز اور تشخص برقرار ہے ۔ان کے جرم کی پاداش میں انھیں سزائیں دی گئیں ۔گویا آپؐ مجاز اتھارٹی اسلام تھے۔تحویلِ کعبہ جو سترہ ماہ بعد عمل میں آئی اور مسلمانوں کا قبلہ و کعبہ ان کے اجداد کا قرار پایا۔یہ کوشش اسلام کی یہودیت مذہب بدلنے کی تھی یا یہودیت کے خلاف تھی۔ حالانکہ مسلمان بیت المقدس کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں لیکن رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہی ٹھہرا۔مستشرق ولیم میور نے تحویل قبلہ کے متعلق کہا کہ ایک خاص وقت کے بعد یہودیت و عیسائیت سے بے زاری کی کوشش تھی۔ بالکل درست ہے کہ عیسائیت اور یہودیت کے تحریف شدہ مذہب سے بے زاری تھی۔ ان کے غلط عقاید سے منافرت تھی اور ان کے طعن پر کہ پرچار اپنے دین کا مسلمان کرتے ہیں اور عبادتیں اور نمازیں ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرکے پڑھتے ہیں ۔ بنا بریں اللہ تعالی نے مسلمانوں پر فضل کیا اور انھیں وہی قبلہ عطا فرمایا جو ان کے اجداد ابراھیمؑ اور اسمٰعیل ؑکا تھا۔
اہم نکتہ: روایتی اسلام کہتا ہے کہ محمدﷺ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے،لیکن یہ بات جدید مغربی محققین کے نزدیک مشکوک ہے ۔یہ بات تو صرف اس عقیدہ پر زور دینے کے لیے کہی جاتی ہے کہ محمد کا قرآن لانا ایک معجزہ تھا۔ اس کے بر عکس ہمیں معلوم ہے کہ مکہ کے بہت سے باشندے پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔اس لیے یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ ایک کامیاب تاجر اس قسم کے فنون سے ضرور واقف ہوگا‘‘ (واٹ، علوم اسلامیہ اور مستشرقین ۔۱۴۱)
جواب:واٹ کہتا ہے کہ ’’مکہ کے بہت سے باشندے پڑھنا لکھنا جانتے تھے‘‘۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اہلِ مکہ پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔مگر سارے خواندہ نہ تھے، توواٹ نے یہ فرض کر لیا کہ آنحضرت (ﷺ) بھی پڑھے لکھے تھے۔لیکن یہ بات درست نہیں کیوں کہ ایک ہی شہر میں کافی افراد کا پڑھا لکھاہونااسی شہر کے کسی دوسرے آدمی کے ناخواندہ ہونے کی دلیل نہیں ہو سکتی۔نیز واٹ کے الزام کے اس جملہ’’ کہ مکہ کے بہت سے باشندے پڑھنا لکھنا جانتے تھے‘‘ کا اس بات سے رد ہوتا ہے کہ مکہ کے تمام لوگ پڑھے لکھے نہ تھے۔ اگر سارے افراد پڑھے لکھے ہوتے تب کہا جا سکتا تھا کہ آپ ﷺبھی پڑھے لکھے تھے مگر ایسا نہیں ہے۔اور رسول اللہﷺ کے امیت یا نا خواندگی کا نظریہ متاخرین کی ایجاد نہیں ہے بلکہ ان کے آباء کا نظریہ بھی یہی تھا جس کے رد میں اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔ارشاد خداوندی ہے۔
’ وَمَاکُنتَ تَتلُوا مِن قِبلَہ مِن کِتٰبِِ وَّلَا تَخُطَّہ‘ بِیَمِینِکَ اِ ذَ الار تا؟ بَ ا لمُبطَبُلونَ (العنکبوت ۴۸، پارہ۲۱)ترجمہ: اور اس سے پہلے آپ کسی کتاب کی تلاوت نہیں کرتے تھے اور نہ ہی اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے تب تو یہ بطلان والے شک بھی کر سکتے ۔‘‘معنی بالا کے لحاظ سے اسم نبی الامی حضور ﷺ کا عظیم معجزہ ہے ۔اسم امی ُ ان کی طرف منسوب ہے اس اعتبار سے کہ نبی ﷺ بوجہ پاکی فطرت و عصمت من جانب رب العزت جملہ عیب و نقائص سے ایسے ہی پاک صاف ہیں جیسے کہ ماں کے پیٹ سے بچہ پیدا ہوتا ہے ۔ یہودیوں نے اہل عرب کا نام امیون رکھ دیا تھا ۔ قرآن مجید سورہ آل ِعمران میں ہے ذَ لِکَ بِاَ نھُم قاَ لُو ا لَیسَ عَلَیناَ فیِ الاُ مِینَ سَبِیلُ‘(ترجمہ: یہودی کہتے ہیں کہ ہم ان امی لوگوں کے ساتھ خواہ کچھ بھی برتائو کریں ہم پر کچھ مواخذہ نہ ہوگا)
یہ نام آپ ﷺ کے سوا ’’ النبی الامی اور کسی نبی کا لقب نہ تھا ۔ حضور ﷺ کا ہی لقب انبیاء کرام اور سابقہ امم کو بتلایا گیا ہے ۔لفظ امی سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی مکرم ﷺ کاطرز و طریق خواندگی اہل دنیا سے بالا تر تھے ۔
دوم:واٹ نے جو کسی کامیاب تاجر کے نا خواندہ نہ ہونے کا مفروضہ قائم کیا ہے کہ ایک کامیاب تاجر اس قسم کے فنون سے ضرور واقف ہوگا۔ اس کے لیے دور نہ جائیں خود اس زمانہ کے کسی شہر کے کامیاب تاجر وں کے حالات معلوم کر لیجیے۔آپ کو بہت سے ایسے تاجر مل جائیں گے جو پڑھنا لکھنا نہیں جانتے ہوں گے۔ کم سے کم میں ایک ایسے تاجر کی مثال پیش کر سکتا ہوں جو پڑھنا لکھنا نہیں جانتا ، البتہ اس کا حافظہ اچھا تھا اور اچھا خاصا حساب کر سکتا تھا۔اگر یہ مثال چودھویں صدی ہجری میں پائی جا سکتی ہے تو ہجرت سے قبل اس تصور سے کیوں کسی کا دل گھبراتا ہے ( علوم اسلامیہ اور مستشرقین۔۱۴۲) ۔کیوں کسی کے پیٹ میں مروڑ اُٹھتے ہیں یہ تو حقیقت ہے جس کا ثبوت ہر وقت فراہم ہو سکتا ہے آپ ﷺ اس جہان کے کسی معلم سے تعلیم یافتہ نہ تھے بلکہ انہیں خالق حقیقی نے خود علم کے زیور سے مزین فرمایا جیسا کہ الرحمن علم القران سے ثابت ہے ۔
ارشاد ربانی ہے’’اس (کتاب) کے نزول سے پہلے آپ ﷺ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے ، اگر ایسا ہوتا تو باطل پرستوں کو شبہ ہو جاتا ! اس سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے دنیاوی کسی استاد سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا ۔ قریش مکہ کے سامنے آپ ﷺ کی بتائی زندگی تھی وہ جانتے تھے کہ آپ ﷺ نے کبھی کوئی کتاب نہ قلم ہاتھ میں لیا۔۔۔ و قالو ا اساطیر الا و لین اکتبھ فھی علیٰ علیہ بکرۃ و اصیلا (الفرقان ۵، پارہ۱۸) ’’ اور انہوں نے یہ کہا یہ پہلے لوگوں کی لکھے ہوئے قصے ہیں جو اس (رسول ) نے لکھوا لیے ہیں ، سو وہ صبح شام اس پر پڑھے جاتے ہیں ‘‘۔ اس آیت میں آپ ﷺ کے لکھنے اور پڑھنے کی نفی کو آپ ﷺ کے اعلان نبوت سے مقید کیا ہے اور یہی مقصود ہے کیونکہ اگر اعلان نبوت سے اور نزول قرآن سے پہلے آپ ﷺ کا لکھنا پڑھنا ثابت ہوتا تو اس شبہ کی راہ نکل سکتی تھی۔۔۔اس قید لگانے کا یہ تقاضہ ہے کہ اعلان نبوت کے بعد آپ ﷺ سے لکھنے پڑھنے کا صدور ہو سکتا ہے اور بعد میں آپ ﷺ کا لکھنا پڑھنا اس استدلال کے منافی نہیں ہے
اعتراض نمبر۸۰
سید موددی کہتے ہیں ’’ ان لوگوں کی جسارت حیرت انگیز ہے جو نبی ﷺ کو خواندہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، حالانکہ یہاں قرآن مجید صاف الفاظ میں حضور ﷺ کے نا خواندہ ہونے کی آپ کی نبوت کے حق میں ایک طاقت ور ثبوت کے طور پر پیش کر رہا ہے ، جن روایات کا سہارا لے کر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ حضور ﷺ لکھے پڑھے تھے یا بعد میں آپ ﷺ نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا ، وہ اول تو پہلی ہی نظر میں رد کر دینے کے لائق ہیں کیونکہ قران کے خلاف کوئی روایت بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی ، پھر وہ بجائے خود بھی اتنی کمزور ہے کہ ان پر کسی استدالال کی بنیاد قائم نہیں ہو سکتی، ان میں سے ایک بخاری کی روایت یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کا معاہدہ جب لکھا جا رہا تھا تو کفار مکہ کے نمائندے نے محمد ؑ کے نام کے ساتھ رسول اللہﷺ لکھے جانے پر اعتراض کیا ۔ اس پر حضور ﷺ نے کاتب یعنی حضرت علی کو حکم دیا کہ رسول اللہ ﷺ کا لفظ کاٹ کر محمد بن عبداللہ لکھ دو ، حضرت علی ؓ نے رسول اللہ کا لفظ کاٹنے سے انکار کر دیا ۔اس پر حضور ﷺ نے ان کے ہاتھ سے قلم لے کر وہ الفاظ خود کاٹ دئیے اور محمد بن عبد اللہ لکھ دیا ہو سکتا ہے کہ صحیح صورت واقعہ یہ ہو کہ جب حضرت علیؓ نے ’’رسول اللہ ‘‘ کا لفظ کاٹنے سے انکار کر دیا تو آپ ﷺ اس جگہ ان سے پوچھ کر اور ان سے یا کسی دوسرے کاتب سے ابن عبداللہ کے لفظ لکھوا لیے ہوں (الی قولہ) تاہم اگر واقعہ یہی ہو کہ حضور ﷺ نے اپنا نام اپنے ہی دستے مبارک سے لکھا ہو تو ایسی مثالیں دنیا میں بکثرت پائی جاتی ہیں کہ ان پڑھ لوگ صرف اپنا نام لکھنا سیکھ لیتے ہیں ، باقی کوئی چیز نہ پڑھ سکتے ہیں اور نہ لکھ سکتے ہیں ۔( تفہیم القرآن ۳۔)
جواب: پہلی بات یہ ہے کہ مولانا موددی کا یہ لکھنا درست نہیں ہے کہ اعلان نبوت کے بعد نبی کا لکھنا قرآن مجید کی اس آیت اور اس کے استدلال کے خلاف ہے کیونکہ قرآن مجید میں آپ ﷺ کے لکھنے اور پڑھنے کی مطلقاََ نفی نہیں کی بلکہ نزول قرآن سے پہلے آپ ﷺ کے لکھنے پڑھنے کی نفی کی ہے ، لہٰذا نزول قرآن کے بعد جن احادیث میں آپ ﷺ کے لکھنے کا ثبوت ہے ، وہ روایات قرآن مجید کے خلاف نہیں ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ صحیح بخاری و مسلم شریف اور دیگر صحاح ستہ کی بکثرت احادیث سے رسول اللہ کا لکھنا ثابت ہے اور مولانا موددی کا ان احادیث کو بجائے خود کمزور کہنا لائق التفات نہیں ہے ۔ ثالثاََ مولانا موددی نے جو یہ تاویل کی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ آپ ﷺ نے کسی اور کاتب کو لکھوا دیا ہو ، یہ احتمال بلا دلیل ہے اور الفاظ کو بلا ضرورت مجاز پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے ۔ رابعاََ اس بحث کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ مولانا نے نبی امی ﷺ کو عام ان پڑھ لوگوں پر قیاس کیا ہے اور لکھا ہے ’’ اگر آپ ﷺ نے اپنا نام اپنے ہی دست مبارک سے لکھا ہو تو ایسی مثالیں دنیا میں بکثرت پائی جاتی ہیں کہ ان پڑھ لوگ صرف اپنا نام لکھنا سیکھ لیتے ہیں ، باقی کوئی چیز نہیں پڑھ سکتے اور نہ لکھ سکتے ہیں ۔‘‘ عام لوگوں کا ان پڑھ ہونا نقص اور ان کی جہالت ہے اور رسول اللہ ﷺ کا امی ہونا ، آپ ﷺ کا کمال ہے کہ دنیا میں کسی استاد کے آگے زانواے تلمذ نہیں کیا ، کسی مکتب میں جا کر لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا اور براہ راست خدائے لم یزل سے علم پا کر اولین و آخرین کے علوم فرمائے اور پڑھ کر بھی دکھایا اور لکھ کر بھی دکھایا ۔
امام مسلم فرماتے ہیں ’’ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے قیصر ، نجاشی اور ہر سردار کی طرف خط لکھا اور ان کو اسلام کی دعوت دی ‘‘۔ صحیح بخاری میں ہے کہ معاہدہ حدیبیہ پر مشرکین کے اعتراض پر آپ ﷺ نے رسول اللہ کا لفظ کاٹ دیا اور محمد بن عبداللہ لکھ دیا ۔ علامہ عینی لکھتے ہیں کہ اللہ نے امی کہا ، تو آپ ﷺ نے کیسے لکھا؟ خود علامہ عینی نے اس کے تین جواب دئیے ، ایک یہ کہ امی وہ شخص ہے جو مہارت سے نہ لکھتا ہو نہ وہ جو (بالکل) نہ لکھتا ہو ۔ دوسرا جواب یہ کہ اس حدیث میں اسناد مجازی ہے ۔ تیسرا جواب یہ کہ آپ ﷺ کا یہ لکھنا معجزہ تھا ۔(شرح مسلم ۵۔۵۴۳)
اعتراض نمبر۸۱
حضرت محمد (ﷺ) نے اپنی دعوت میں جو تصورات پیش کیے ان میں کئی تصور مانی مذہب سے ماخوذ تھے وہ کہتا ہے کہ یہ تصور کہ ہر امت کے پاس الہامی ہدایت آتی ہے ‘ یہ تصور سب سے پہلے مانی مذہب نے پیش کیا ۔اسی طرح یہ تصور بھی مانی نے پیش کیاکہ دنیا میں جتنے رسول یا پیغمبر آئے، وہ ایک ہی پیغام لے کر تشریف لائے تھے(ٹارانڈرائے) ضیاالنبی۔جلد۷ ص ۳۳۸)
جواب:اکثر مستشرقین دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات ،یہودیت و عیسائیت سے ماخوذ ہیں۔ شکر ہوا کہ ٹارانڈراے ان کے باطل نظریات کا رد کرتا ہے ، وہ بڑا دور اندیش نکلااور اسے وہ چیزیں نظر نہیں آئیں جو اسلام نے عیسائیت و یہودیت سے اخذ کی ہوں البتہ دبے لفظوں میںاس بات کا بھی اقرار کرتا ہے کہ یہودیت و عیسائیت اسلام کی تعلیمات سے متصادم ہیں ۔ یہودی و عیسائی اسرائیلی نسل کو خدا کی پیاری قوم سمجھتے ہیں اور الہامی ہدایت کا مستحق بھی ٹھہراتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ نبوت و رسالت ان کے خاندان میں بند ہے اور ان کے خاندان کے لیے مخصوص ہے ‘جب کہ قرآن کریم فرماتا ہے’’ لِکُلّ ِ قَومِِ حَاد‘‘ ’ ہر قوم کے لیے ہادی ہے‘ اور ایک ہی دین تمام ہادیوں کا تھا ۔یہ بات یہود و نصاریٰ کو کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے۔ ارشادِ خدا وندی ہے۔ترجمہ: آپ فرمائیے: بلکہ ہم تو ابراھیمؑ کا دین لیتے ہیں جو ہر باطل سے جدا تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے، یوں کہو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو ہماری طرف اترا اور جو اتارا گیا ابراھیم ؑ ‘ اسمعیل ؑ‘ اسحق ؑ و یعقوبؑ اور ان کی اولاد پر اور عطا کیے گئے موسیٰ ؑ و عیسیٰ ؑاور جو عطا کیے گئے باقی انبیاء کو اپنے رب کے پاس سے‘ ہم ان میں فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے حضور گردن رکھتے ہیں ‘‘۔
دوم:یہ نہایت غور طلب امر ہے کہ اگر مذہب مختلفہ کی چند باتیں یکساں ہوں تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں مذہب فلاں مذہب سے ماخوذ ہے جس طرح ٹارانڈراے نے سمجھ رکھا ہے کہ مانی مذہب میں ہے کہ ہر امت کے پاس الہامی ہدایت آتی ہے اسلام کی تعلیم بھی یہی ہے ۔تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اسلام مانی مذہب سے ماخوذ ہے۔مانی مذہب کی تعلیمات اسلام کے خلاف ہیںان کے بارے میں کیا کہا جائے گا یہی نا کہ اسلام نے ان چیزوں کو اپنا لیا جو ان کے فائدہ کی تھیں اور باقی چھوڑ دیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام مانی مذہب سے ماخوذ نہیں ہے اسلام بجائے خود ایک مکمل و اکمل دین ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ ﷺ کے ذریعے انسانیت کو عطا فرمایا ۔
اعتراض نمبر ۸۲
مانی کی قوم یہودیت و عیسائیت کے مذہبی تسلط سے آزادی چاہتی تھی۔ مانی نے اپنی قوم کو آزادی کے حُصُول کی ترغیب دی اور اپنی قوم میں مقبولیت حاصل کر لی۔ محمدﷺ نے بھی مانی کے تجربہ سے فائدہ اُٹھایا اور اپنی قوم کو یہودیت و عیسائیت کے چنگل سے نکالنے کی تحریک چلائی اور اپنی قوم میں مقبول بھی ہوئے اور اس تحریک میں انھیں کامیابی بھی ہوئی۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ’’ یہ بات واضح ہے کہ مذہبی آزادی کی کوششوں نے مانی اور باطنی فرقوں کو مشرقی اقوام میں جو بے پناہ مقبولیت عطا کی تھی ‘ محمدﷺاس سے ضرور متاثر ہوئے ہوں گے‘‘۔(حوالہ بالا)
جواب:مستشرق یہ کہنا چاہتا ہے کہ دیگر مشرکین اقوام کی طرح عرب بھی یہودیت اور عیسائیت کے مذہبی تسلط میں جکڑے ہوئے تھے اور جس طرح مانی نے مذہبی تسلط سے اپنی قوم کو نکالنے کی کوشش کی۔ آپ ﷺ نے بھی اسی طرح قوم کو تسلط سے نکالنے کے لیے کوشش کی اور مقبولیت حاصل کرنے کی سعی کی اس کی غلطی اس طرح واضح ہوتی ہے کہ یہ مستشرق نہیں بتاتا کہ عرب ان مذاہب میں کس کے چنگل میں پھنسا ہوا تھا ۔عرب وہ قوم ہے جسے روم اور ایران کی حکومتیں اپنے سیاسی تسلط میں جکڑنے میں ناکام رہیں۔ وہ کسی دوسری قوم کے سیاسی و مذہبی تسلط میں کیسے آ سکتی تھی؟ عرب روایات دوسری قوموں کی روایات میں خلط ملط نہ ہوئیں ‘ خالص رہیں ۔یہ بات ان کی آزادی کو ظاہر کرتی ہے۔یہ کسی اور کے تسلط میں آنے کی نفی ہے۔
۲: یہ مستشرق نہیں بتاتا کہ مانی مذہب کے تصورات جنابِ محمد ﷺ کو کیسے پہنچ پائے تھے۔کیا عربوں کے ساتھ مانی قوم کے تعلقات استوار تھے؟ نہیں نہیں وہ خود ہی اقرار کر لیتا ہے۔ اوروہ کہتا ہے’’ محمد ﷺ مانی مذہب کے نظریاتی نظام کے متعلق یا تو بالکل کچھ نہ جانتے تھے اور یا بہت کم جانتے تھے۔ آپؐ نے ان کے صرف نظریات کو پکڑ لیا جن کا آپ کے ارد گرد مذہبی ماحول سے گہرا تعلق تھا ‘‘۔ ایک طرف اقرار دوسری طرف انکار ‘ صاف چھپتے بھی نہیں ‘ سامنے آتے بھی نہیں۔ ان کی کس بات کو مانا جائے گویا مستشرق کی گو مگو کی کیفیت اس کے اندر کے چور کی یعنی باطل افکار کا پتہ دیتی ہے۔ مفروضہ کا کمال دیکھیے’’ یا تو بہت جانتے تھے یا بالکل نہیں جانتے تھے‘‘ ۔ اس کھلے تضاد پر یقین ممکن نہیں ۔خود تذبذب کا شکار ہے۔اس غیر یقینی صورتِ حال میں کسے پڑی کہ خواہ مخواہ اس کے باطل نظریہ کو بہ دل و جان تسلیم کرلے۔ محض سید الابرارؐ سے بغض و عناد نے ان مستشرقین کو اپنے خود ساختہ مذہب کا دیوانہ بنا رکھا ہے اور ہر طرح سے اپنے مذہب سے پیار کرتے نظر آتے ہیں۔ان کی حالت یوں ہے ۔
اس کے پیار نے بے ترتیب کیا ہے اتنا
بچھڑ کے خود کو سلجھانے میں وقت لگے گا
نیز جو مذہبی معلومات نہیں تھیں ان کو آپ ﷺ کے عیسائیت قبول نہ کرنے اور رسالت کا دعویٰ کرنے کا سبب سمجھتا ہے ۔اس طرح ہمیں اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ کیوں محمدﷺ نے عیسائی بننے کے متعلق کبھی سوچا تک نہ تھا ۔مانی مذہب کا وحی کے متعلق عقیدہ پہلے ہی ان کے کانوں تک پہنچ چکا تھا اور وہ عقیدہ یہ تھا کہ عالم عیسائیت وحی کے اعزاز کے لیے مختص نہیں بل کہ عیسائی بھی ان متعدد حلقوں میں سے ایک ملت ہیں جن کے پاس الہامی ہدایت آچکی تھی۔اس کے علاوہ جس نظریہ نے ان کے دل پر گہرا اثر کیا وہ یہ تھا کہ ہر امت کے پاس رسول آیا تھا ‘ انھوں نے سوچا کہ وہ شخص کہاں ہے جو ان کی قوم کو الہامی روشنی سے مستفیض کرے گا ؟اس خیال کے علاوہ انھوں نے عیسائی راہبوں کی تلاوت صحف کی محفل میں زبور اور دیگر صحائف کی تلاوت کرتے دیکھا تھا‘ ان دونوں چیزوں نے مل کر وحی اور کتاب سے تلاوت کے خیال کے لیے راستہ ہموار کیا۔( ضیا النبی۔جلد ۷،ص ۳۴۱۔۳۴۰)
پہلے بیان ہو چکا کہ مختلف مذاہب میں چند چیزیں یکساں اور مشترک ہوں تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں مذہب فلاں مذہب سے ماخوذ ہے ۔یہ عقیدہ کہ وحی کے اعزاز کے لیے عیسائیت ہی مختص نہیں بل کہ متعدد حلقوں میں سے ایک ملت ہیں جن کے پاس الہامی ہدایت آچکی تھی۔یہ وہ عقیدہ و نظریہ ہے جو مانی سے قبل چلا آرہا تھا۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کی ہدایت کے لیے اپنے رسول بھیجتا رہا ہے۔ ایسا تو نہیں ہو سکتا۔
کہ انسان کی تخلیق کے بعد اسے بے مہار چھوڑ دیا جائے اور اس کی ہدایت کا سامان نہ کیا جائے ۔ انسانیت کی ہدایت کے لیے انبیاء دنیا میں تشریف لاتے رہے بل کہ یوں کہنا درست ہوگا اور مانی کے عقیدہ کا بطلان بھی ہوگاکہ مانی نے سابقہ ہدایت کی روشنی سے یہ نتیجہ اخذ کیا نہ کہ از خود اس نے یہ عقیدہ ایجاد کیا ۔ جب یہ عقیدہ اس کا اپنا ہی نہیں تو کوئی اس سے کیا اثر لے سکتا ہے بل کہ وہ تو اسی عقیدہ سے متاثر ہوگا جو شروع سے چلا آرہاہے حالانکہ مانی نے تو ثنویت کا عقیدہ زرتشت سے اخذ کیا تھا۔
اہم نکتہ: بعض کہتے ہیں کہ مکہ عبادتی مرکز تھا ۔ دنیا کی ہر قوم اور ہر مذہب کے لوگ مکہ آتے جاتے تھے وہ آپ ﷺ کو اپنے عقائد و نظریات سے آگاہ کرتے تھے جن پر عالمی دین کی بنیاد رکھی ۔ تاریخ کے حوالے سے یہ بھونڈا انداز ہے اس پر تاریخ گواہ ہے کہ آپ ﷺ نے حصول علم کے لیے کسی کے سامنے زانوے تلمذ تہ نہیں کیا نیز مستشرقین آپ ﷺ کے سر پرستوں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے آپ ﷺ کی تعلیم پر توجہ نہ دی صرف یہ خیال رکھا کہ آپ ﷺ کے جسم و جان کا رشتہ قائم رہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستشرقین بھی آپ ﷺ کے تعلیم حاصل نہ کرنے پر متفق نظر آتے ہیں ۔ ان تمام باتوں کے باوجود وہ پھر بھی یہ تاثر دیتے ہیں کہ حضور ﷺ کی نظر تمام نظریات اور فلسفوں پر تھی جو اس زمانہ میں جس کسی علاقے میں بھی متعارف رہ چکے تھے حالانکہ جس وقت آپﷺ دنیا میں تشریف لائے اس وقت بھی انسائکلو پیڈیا قسم کے علمی خزانے دستیاب نہیں تھے جن سے دنیا کی مختلف قوموں اور افراد کے متعلق ضروری معلومات حاصل ہو سکتیں ۔
۲: اس دور میں اس قدر سہولیات نہ تھیں جو آج میسر ہیں ‘ دُور دراز علاقوں سے تعلقات کا فقدان ‘ کتابوں کی کمی ‘ دوسرے ملکوں میں آنے جانے کے پر پیچ راستے اور مشکلات کے علاوہ ان کے نظریات اخذ کرنا جو اس قوم کے دینی ماحول کے لیے ساز گار ہوں ،کہنا کتنی نادانی کی بات ہے ۔ ؟ ذرا سوچیے کہ نبی مکرم نے علم کے حُصول کے لیے کسی کے سامنے زانو ئے تلمیذ تہ نہیں کیا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مکہ میں تھوڑے سے لوگ پڑھے لکھے تھے۔اس کاادراک مستشرقین کو بھی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ آپﷺ کی تعلیم پر مطلقاََ توجہ نہ دی اور صرف یہ خیال رکھا کہ آپ کے جسم و جان کا رشتہ قائم رہے۔
یہ تاریخ سے ثابت نہیں ہوتا کہ آپ ﷺنے باہر سے آنے والے لوگوں کے لیے خصوصی انتظام کر رکھا ہو‘ جن سے ان کے مذاہب کی معلومات حاصل کریں، اگر آپ کو اس وقت کے مذاہب سے واقفیت ہوتی اور ان کی تعلیمات کو قبول کرتے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ غارِ حرا میں کیوں جاتے تھے؟ وہاں جانے کا مقصد سچ کی تلاش اور حقیقت کی معرفت ہی تو تھی‘ اگر یہ سب کچھ مروجہ مذہب سے مل جاتا تو غار کی راہ نہ لیتے۔ مختصر مانی مذہب کی کہانی سن لیں۔
۱: مانی کا ایک اہم تصور زرتشت کی ثنویت پسندی سے ماخوذ ہے ان میں سے ایک شر اور دوسرا خیر کا۔ بظاہر خدا اور شیطان کا تصور ‘عیسائیت کی بازِگشت ہے۔
۲: ہر امت کے پاس الہامی ہدایت آتی ہے۔
۳: جتنے پیغمبر آئے ایک ہی پیغام لے کر آئے۔
۴: جنسی تعلقات خواہ وہ تفریحاََ ہوں اجتناب ضروری ہے۔مگر عام پیروئوں کو اس کی اجازت ہے۔
۵: گوشت خوری ممنوع تھی،منتخب لوگوں پر عبادت کی ذمہ داری تھی۔موت کے بعد ارواح جنت میں جاتی تھیں ۔
۶: بارہ برس میں وحی کا نزول ۔
۷: بیس برس نئے عقیدہ کا پرچار وغیرہ وغیرہ۔ ۶۰۰ء تک یہ مذہب مغرب سے نا پید ہو چکا تھا(سو بڑے آدمی، ص ۴۰۹)۔
۱: اسلام معبود ان باطلہ کی نفی کرتا ہے اور ایک خدا کی تعلیم دیتا ہے ’’ قُل ھُوٰا اللہ ُ اَحد۔۔ اِلٰھکُم الہ واحد۔
۲: غلط جنسی اختلاط کی ممانعت ہے لیکن حلال طریقہ سے یعنی نکاح کرنے کی اجازت ہے۔ آپ کا فرمان ’’ النکاح من سنتی‘‘اس کی تصدیق کرتا ہے ۔
۳: حلال چیزوں کی اسلام میں اجازت ہے’’ یَامُرُ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَیِّبٰتِ ۔۔۔۔۔کَانَتْ عَلَیْھِمْ۔۔( ترجمہ: وہ نبی حکم دیتا ہے انھیں نیکی کا اور رد کرتا ہے برائی سے انھیں اور حلال کرتا ہے ان کے لیے ،پاک چیزیں اور حرام کرتا ہے ان پر ناپاک چیزیں اور اتارتا ہے ان سے ان کا بوجھ اور (کاٹتا) وہ زنجیریں جو پکڑے ہوئے تھیں انھیں)۔
۴:دین اسلام کے اوامر و نواہی کا اطلاق کالے گورے ،شاہ و گدا سب پر یکساں ہوتا ہے ۔اس میں عام و خاص کی تمیز نہیں۔عبادت سب کے لیے،اس سے کوئی مستثنیٰ نہیں کہ خاص عبادت میں جُٹے رہیں اور عام کو عبادت سے کھلی چھٹی ہو ۔ارشاد خدا وندی ہے ’’ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ‘‘o
مستشرقین بتائیں کہ اسلام کی تعلیمات ، مانی مذہب سے متصادم ہیں تو اسلام مانی مذہب سے ماخوذکیسے ہوا؟
اعتراض نمبر ۸۳
یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسلام میں جو جو اچھی باتیں ہیں وہ سب اس نے یہودیت یا عیسائیت سے اخذ کی ہیں۔(روح ِاسلام جلددوم،ص۲۴۴)
۲۔ اسلام یہودیت اور عیسائیت کا مرہون منت ہے ۔ ( kleimn ) (مستشرقین مغرب کا انداز فکر ۔۲۱۲)
جواب:یہودی عزیر ؑ اور عیسائی عیسیٰ ؑ کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں ارشاد خدا وندی ہے’’ وقالت الیہود و النصری نھن ابنوئُ ا اللہ و احبائُ ہٗo ترجمہ: اور یہودی اور عیسائی کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور چہیتے ہیں ‘‘اور وہ بھٹک رہے تھے بتوں کی پوجا دین عیسوی کا جز و لاینفک تھی ۔ تمام برائیوں سے حضرت عیسی ٰ ؑ نے روکا لیکن وہ آہستہ آہستہ ان کے مذہب میں در آئیں ۔ عیسائیوں کی اندھا دھند تقلید سے ان کے مذہبی اعصاب مفلوج ہو چکے تھے ۔اور ان مذاہب کا یہ کہنا کہ اسلام مختلف مذاہب کا اشتراک ہے اس کی تعلیمات کے سر چشمے عیسائیت اور یہودیت ہیں ۔ یہ دعوی ٰعہد وسطیٰ کی یاد گار ہے جس میں اسلام کو عیسائیت کی ایک بدعتی شاخ قرار دیا جاتا تھا حالانکہ یہ انہیں معلوم ہے کہ تمام مذاہب میں کسی نہ کسی طور توحید، ہدایت پر عمل ، عبادت، نیکوکاری پر عمل اور بدکاری و رذائل سے اجتناب کی قدریں مشترک ہیں ۔ جن پر مذاہب استوار ہوتے ہیں اور اس بنیاد پر مذاہب عالم سب کے سب ایک دوسرے سے ایسی مماثلتیں رکھتے ہیں نہ کہ ایک دوسرے مذہب سے اخذ کی گئی ہیں ۔ ڈویش(Deutsch) کہتا ہے کہ یہ عام قاعدہ بن گیا ہے کہ اسلام میں جو جو خوبیاں ہیں انھیں عیسائیت سے منسوب کیا جائے۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ نظریہ دیانت دارانہ تحقیق کے نتائج سے مطابقت نہیں رکھتا کیوں کہ محمدﷺکے زمانہ میں جزیرہ نمائے عرب کی عیسائیت نا گفتہ بہ حالت میں تھی۔ اس کی حالت اتنی خراب تھی کہ اس کے مقابلہ میں تو جدید مہری(Modern Amhare ) عیسائیت بھی جس کے بارے میں ہم نے تحیر انگیز قصے سنے ہیں ‘ خالص اور اعلیٰ معلوم ہوتے ہیں۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ مختلف مذاہب میں چند امور مشترک ہوتے ہیں یہ Comeneritiesہیں نہ کہ ایک دوسرے مذہب کی اخذ شدہ باتیں ہیں ۔
لمحہ فکریہ:
غیروں کے ساتھ عہد کی توثیق ہو گئی
تیری زبان سے ہمیں تصدیق ہو گئی
( نسیم اللغات۔۲۹۶)
مولانا مودودی کو بھی یہی اعتراض ہے۔ ’’عَلَیھَا تِسعَۃَ عَشْرَہ‘‘ اس پر انیس فرشتے مقرر ہیں‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں بکثرت باتیں ایسی ہیں جو اہلِ کتاب کے ہاں ان کی مذہبی کتابوں میں بیان کی گئی ہیں لیکن وہ اس کی توجیہہ کرتے ہیں کہ ’’ سیدنا ختمی المرتبت ﷺنے یہ باتیں ان کتابوں سے نقل کی ہیں‘‘۔ اس کے بارے میں علامہ غلام رسول سعیدی (تبیان القرآن۔ج۱۲ص ۳۸۱) لکھتے ہیں کہ اگر بالفرض اہلِ کتاب یہ توجیہہ پیش کرتے تو ان کی یہ توجیہہ قطعاََ باطل اور مردود ہے ۔
نزول قرآن سے پہلے نبی مکرم کسی مکتب میں پڑھنے کے لیے نہیں گئے تھے۔آپ نے اہل ِکتاب کی کتابیں نہیں پڑھی تھیں اور نہ نزولِ قرآن سے پہلے آپ کا لکھنے پڑھنے کے ساتھ کوئی شغل تھا۔قرآن مجید کی اس آیت سے یہ شہادت ملتی ہے۔
’’ وَمَا کُنْتَ تَتلُوْا مِنْ قَبلِہٖ مِنَ الْکِتٰبِِ وَّلاَ تُخُطُّہٗ بِیَمِیْنِکَ اِذَلاَّرْ تَابَ الْمُبْطِلُوْنَ(العنکبوت ۴۸،پارہ۲۰)
ترجمہ: اور قرآن کے نزول سے پہلے آپ نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ کسی کتاب کو اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے ورنہ باطل پرست لوگ شک میں پڑجاتے‘‘
یعنی اگر نزول قرآن سے پہلے آپ ﷺکو پڑھنے کا شوق ہوتا تو آپﷺ کی نبوت اور قرآن کریم کے کلامِ الہٰی ہونے کے منکر شک میں پڑجاتے اور یہ کہتے کہ آپ ﷺہم کو جو کچھ بتا رہے ہیں وہ سب آپﷺ نے پچھلی کتابوں سے پڑھااور نقل کیا ہے اور جب قرآن کریم کے نزول سے پہلے آپ ﷺکے لکھنے پڑھنے کا شغل تھا ہی نہیں ‘ تو کسی کو یہ کہنے کی جرات ہی نہ ہو سکی، یہ جرات مودودی صاحب نے کی ہے۔اللہ تعالیٰ معاف فرمائے۔ صرف یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسلام اور عیسائیت کے بعض بنیادی تصورات میں مماثلت پائی جاتی ہے بل کہ ایسی مماثلت تو بعض عقائد میں یہودیت اور اسلام میں بھی تلاش کی جا سکتی ہے۔ مسیح ؑکی بعض تعلیمات بدھ کی تعلیمات سے مماثلت رکھتی ہیں اس وجہ سے بعض محققین نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ بعض روایات میں حضرت مسیح ؑنے جو چالیس یوم صحرا نوردی کی وہ ایام نوردی نہیں ‘ وہ بدھ مذہب کے کسی معبد میں گزارے تھے۔ (محمد رسول اللہ۔۱۶۷) مستشرقین کو ایسی مماثلیتں اسلام اور عیسائیت میں نظر آئیں جن کی بنیاد پر اسلام کو عیسائیت سے ماخوذ مذہب قرار دیں لیکن انھیں اسلام اور عیسائیت کے بنیادی اختلاف کیوں نظر نہیں آتے جیسے تثلیث (Trinity) الوہیت مسیح(Divinity) اور کفارہ (Atonement)۔
موریس بوکائیے کی کتاب جس کااردو ترجمہ بائیبل ، قرآن اور سائنس کے نام سے ہے، اس کے صفحہ نمبر ۱۷۸ پر رقم طراز ہے ’’ یقینی طور پر بعض دوسرے موضوعات سے متعلق بالخصوص مذہبی تاریخ کے بارے میں بائیبل اور قرآن میں یکسانیتیں ضرور موجود ہیں۔ علاوہ ازیں اس نقطہ نظر سے یہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ یسوع کے خلاف کو ئی شخص بھی اس حقیقت کا اظہار نہیں کرتا کہ وہ بھی بائیبل کی تعلیمات سے اسی نوع کے حقائق لیتے ہیں ۔ یہ بات در اصل مغرب میں بسنے والے حضرات کو اس امر سے باز نہیں رکھتی کہ وہ حضرت محمد ﷺ کو ان کی اپنی تعلیم میں اس قسم کے واقعات پیش کرنے پر الزام دیں وہ بھی اس فتویٰ کے ساتھ کہ وہ ایک فریبی ( نعوذ باللہ من ذالک) شخص تھے اس لیے کہ انہوں نے ان باتوں کو وحی و تنزیل کہہ کر پیش کیا جہا ں پر ثبوت کاتعلق ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے قرآن میں وہ باتیں دہرا دیں جو آپﷺ کو راہبوں نے بتائی تھیں یا املاء کرائی تھیں تو اس کے لیے اس بیان کے علاوہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ ایک عیسائی راہب نے آپ ﷺ کو اعلیٰ قسم کی مذہبی تعلیم دی تھی ۔ بہتر ہو گا کہ کوئی شخص دوبارہ اس بیان کو پڑھے جو آر بلشیر اپنی کتاب محمد کا مسئلہ ( پرابلم ماحوٹ ) میں اس افسانے کے بارے میں بتانے کے لیے دیا ہے ۔
یکسانیت کا ایک اور نقطہ بھی قرآن مجید میں دیگر بیانات اور عقائد کے دوران پیش کیا جاتا ہے جو نہایت ہی دور لے جاتا ہے ۔ غالباََ وقت کے اعتبار سے بائیبل سے بھی کہیں بعید زمانہ میں ۔ کچھ زیادہ عمومیت سے گفتگو کی جائے تو پتہ چلے گا کہ آفرنیش سے متعلق بعض اساطیر صحف مقدسہ میں تلاش کر لیے گئے ہیں مثلاَیہ عقیدہ جو بالنیشیا کے باشندے دور اولین کے ان سمندروں کے وجود کے بارے میں رکھتے ہیں ، جو تاریکی میں لپٹے ہوئے تھے یہاں تک کہ روشنی ہوئی وہ الگ الگ ہوئے اور اسی طرح زمین و آسمان بنے ۔ یہ اسطورہ تخلیق سے متعلق اس بیان کے مانند ہے جو بائیبل میں دیا گیا ہے ۔ جس میں بلاشبہ ایک نوع کی مماثلت ہے لیکن یہ ایک سطحی بات ہو گی اگر بائیبل پر یہ الزام لگایا جائے کہ اس نے آفرینش کے بارے میں اس اسطورہ کو نقل کر دیا ہے ۔ یہ کہنا بھی اسی طرح ایک سطحی بات ہے کہ دور اولین کا وہ مادہ جس سے ابتدائی مرحلہ میں کائنات کا ہیولیٰ تیار ہوا ، ایک ایسا تصور جو جدید سائنس نے قائم کیا ہے ، اس کی تقسیم کے بارے میں قرآن مجید کا تصور وہی ہے جو آفرینش کے متعلق کسی نہ کسی شکل میں مختلف اساطیر میں موجود تھا اور قرآن مجید میں اس کو وہیں سے اخذ کیا ۔‘‘ (بائبل ‘ قرآن اور سائنس ۔۱۷۸)
ضمناََاعتراض
مائیکل ہارٹ ( the.100 ) کہتا ہے عیسائیت اور اسلام دونوں ہی یہودی عقیدہ توحید سے ماخوذ ہیں ۔
جوابـ : وہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت محمد ﷺ تک تمام انبیاء ایک ہی دعوت توحید کے داعی، مبلغ اور موید ہیں قرآن حکیم میں اس حقیقت کبریٰ کو بیان کیا گیا ہے ۔ـ’’ وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لاالہ الا انا الا انا فاعبدون ‘‘ ( الانبیاء ۲۵،پارہ ) ترجمہ ـ: اور تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف ہم وحی کرتے تھے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں سو میری عبادت کرو ‘‘
آنحضرت ﷺ سے اہل مدینہ نے بیعت عقبہ کے موقعہ پر درخواست کی کہ ان کے ساتھ ایک معلم کو بھیج دیں تا کہ وہ اہل مدینہ کی تعلیم و تربیت انجام دیں آپ ﷺ نے مصعب بن عمیر کو ان کے ہمراہ مدینہ روانہ فرمایا ۔ ان کی شبانہ روز سعی و کوشش سے مدینہ کا ایک ایک گھر اسلام کے نور سے جگمگا اٹھا اگرچہ اوس کے چند گھرانے ابھی اسلام کے دامن سے دور تھے ۔ حضرت مصعب بن عمیر کی امامت میں اوس و خزرج اور ایسے قبائل نماز ادا کرتے تھے جو اس سے قبل ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ان کی دشمنی کا لاوا پھوٹتا رہتا تھا ۔ لڑائی جاری رہتی اور یہ لڑائی کا سلسلہ نہ ختم ہونے والے عرصہ پر محیط تھا ۔ اب بد ترین دشمن ایک ہی صف میں شانہ بشانہ ایک خدا کے حضور عبادت میں مصروف تھے یہ ایک عظیم انقلاب تھا ۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے بطور احسان مندی قرآن مجید میں یوں فرمایا ’’ واذ کر وا نعمۃ اللہ علیکم اذ کنتم اعدآئََ فالف بین قلو بکم فاصبحتم بنعمۃ اخوانا و کنتم علی ٰ شفا حفر ۃ من النار فانقزکم منہا ‘‘ (ترجمہ) اور تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جبکہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پس اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کی اور اپنی نعمت سے تمہیں بھائی بھائی بنا دیا اور تم لوگ آگ سے بھرے گڑھے کے قریب تھے تو اس نے تم کو بچا لیا ۔‘‘
مدینہ کے یہود جن کے اوس و خزرج قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے ، نے اس انقلاب کو بڑی حیرت سے دیکھا انہیں یہ توقع ہرگز نہیں تھی کہ اوس اور خزرج کے خون خوار قبائل آسانی سے دین اسلام کی تعلیمات پر ایمان لائیں گے ۔ ظلم و ستم ، قتل و غارت او ر لوٹ کھسوٹ سے بازرہ کر دوسروں کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے ذمہ دار بن جائیں گے اور اس قسم کے دوسرے رذائل اور کفر و شرک کو ترک کر کے اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار بندے بن جائیں گے ۔ اس سے قبل یہود نسل در نسل بت پرستی اور شرک کو ختم کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن ناکام رہے
سر ولیم میور کہتا ہے ’’The jews looked on in amazement at the people , who they Had in vain endeavoured for generations to convince of the errors of polytheism and to dissuade from the abominatoins of idolatory and of their own accord casting away their idol sand professing belief in the one true God,,
’’یہود نے ان لوگوں کو بڑی حیرت سے دیکھا جنہیں شرک و الحاد کی غلطیوں پر قائل کرنے اور بت پرستی سے ہٹانے کی سخت ناکام کوشش وہ نسلاََ بعد نسل کرتے چلے آئے تھے ، وہی لوگ اب یکایک اور برضا و رغبت اپنے بتوں کو چھوڑ کر صرف ایک سچے خدا پر ایمان کا اظہار کر رہے تھے ‘‘۔( نقوش رسول نمبر ۔جلد نمبر ۔۵۔صفحہ نمبر ۔۷۹)
اعتراض نمبر ۸۴
مذہب اور الہٰیات کی تشکیل میں شام کے مسیحی اثرات کو بڑا دخل ہے( ش۔۱۔۱۱۸)
جواب:اس الزام میں پھر وہی غلطی دہرائی جا رہی ہے یعنی۔
الفاظ نئے ہیں مگر افکار پرانے
دستار تو بدلی ہے مگر سر نہیں بدلا
مستشرق یہ نہیں بتاتا کہ وہ کون سے مسیحی اثرات تھے جن کا اسلام پر بڑا عمل دخل ہے ۔ اسلام اثر تو تب قبول کرتا اگر یہ دین ‘ دین خداوندی نہ ہوتا بل کہ کسی انسان کے ذہن کی پیداوار ہوتا۔۲: اسلام کی تعلیمات مسیحیت سے متصادم ہیں‘ عیسائی ایک سے تین اور تین سے ایک کے چکر میں پھنس کر رہ گئے ہیں مگر اسلام صرف ایک خدا کا درس دیتا ہے۔ ’’ قُل ھواللہ احد‘‘ اِلھٰکُم اِلَہ وَاحد‘ عیسائیت مسیح ؑ کی موت کے دعوے دار ہے جب کہ اسلام ان کو زندہ آسمانوں پر اٹھائے جانے کا عندیہ دیتا ہے ۔مسیحؑ کا سولی پر چڑھنا تمام انسانوں کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ادھر اسلام اعلان کرتا ہے کہ ہر فرد اپنے کیے کا جواب دہ ہے ۔’’ لیس لا نسا ن الا ما سعیٰ‘‘ وغیرہ وغیرہ، مستشرقین کا خیال ہے کہ دنیا کی ہر قوم اور مختلف المذاہب کے لوگ مکہ آتے جاتے تھے‘ انھوں نے آپؐ کو اپنے اپنے عقائد سے مطلع کیا جس پر ایک نئے عالمی دین کی بنیاد رکھی۔ ذرا سوچیے کہ لوگ تو مختلف مذہب کے آتے ہیں اور سب کو چھوڑ کر صرف شام کی مسیحیت کا بڑا عمل دخل ہے‘ کیوں ؟ یا تو یہ کہا جا تا کہ شام کے مسیحی خاص طور پر آپﷺ کو اپنے عقائد سے مطلع کرتے تھے۔آپ بھی ان کی باتوں میں دل چسپی لیتے تھے، اگر وہ آپ کو ملنے نہ آتے تو آپ ان کو بلا لیتے یا مسیحی مذہب سچا لگا ایسی کوئی بات نہیں کیونکہ اسلام اور مسیحت کی تعلیمات متصادم ہیں اور دیگر مذکور سوالات بھی باطل ہیں کیوں کہ دور و نزدیک کے لوگوں میں ایک نبی کی آمد کا چرچا تھا اور مکہ والے اس نبی سے باہر کے لوگوں کو ملاقات کرنے سے روکتے تھے۔
اور طرح طرح کے الزامات دھرتے تھے تو بھلا دوسری جگہوں سے آنے والے لوگوں کو کیا پڑی تھی کہ اپنا عقیدہ ظاہر کرتے کیونکہ وہ عقائد تو نبی کو ناپسند تھے اور اس کی تعلیمات کے خلاف تھے، البتہ نبی کی تلقین و ترغیب اور ہدایت سے باہر آنے والے لوگوں کو اپنے عقیدہ سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اہلِ مدینہ کی مثال اس کی واضح مثال ہے۔ اہلِ مدینہ نے بھی سن رکھا تھا کہ ایک نبی نئے دین کی تلقین کرتا ہے، وہ آتے ہیں، آپ ؐ کی باتیں سنتے ہیں اورمشرف بہ اسلام ہو جاتے ہیں ۔ مگر مستشرقین کی یہ خام خیالی کی باتیں ہیں۔ مائیکل ہارٹ (The100 ) بتاتا ہے کہ ’’ حضرت محمد ﷺ نہ صرف اسلام کی الہیات کی تشکیل میں فعال تھے بل کہ اس کے بنیادی اخلاقی ضوابط بھی بیان کیے، علاوہ ازیں انھوں نے اسلام کے فروغ کے لیے بھی مساعی کیں اور اس کی مذہبی عبادات کی بھی توضیح کی‘‘ ۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ دین اسلام اللہ کا عطا کردہ ہے۔ جیسے جیسے احکامات ملتے رہے ، دین کی تشکیل ہوتی رہی۔ ایسا بھی نہیں کہ آپؐ نے ازخود الہیات کی تشکیل کی ہو بل کہ وہ تو ’’ وما ینطق۔۔۔۔۔۔ الاوحی یوحیٰ‘‘ کی کھلی تفسیر تھے۔مائیکل کا یہ نظریہ اس کی کبیدہ خاطر ہونے کا اظہار ہے۔
اعتراض نمبر ۸۵
آنحضرت ﷺنے نبوت کی تعلیم مسیلمہ سے پائی( مارگولیس ن ۴۸۹؍۱۱)
۲۔ آنحضرت ﷺ نے مسیلمہ کذاب سے حنیفی دین کا لقب لیا ۔ (حوالا بالا)
جواب:نبوت وہبی ہوتی ہے کسبی نہیں ۔صاحب معارج القدس ( امام غزالی) فرماتے ہیں ’’ نبوت انسانیت کے رتبہ سے بالا تر ہے جس طرح انسانیت ‘ حیوانیت سے بالاتر ہے۔وہ عطیہ الہی اور موہبت ربانی ہے۔ سعی و محنت اور کسب و تلاش سے نہیں ملتی۔ ارشادِ خدا وندی ہے۔
اللہ ُ اَعلَمُ وَحَیثُ یَجعَلُ رِسَالَتہ‘ ‘ (الانعام۱۲۴،پارہ ۸ ) ترجمہ: اللہ بہتر جانتا ہے کہ جہاں وہ اپنی پیغمبری کا منصب بنائے ۔۔ سورہ شوریٰ میں ہے’’ وَکَذٰالِکَ اَوحَیْنَا اِلَیکَ رُوحًا مِّنْ اَمْرِنَا، مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَلْاَیْمَانُ وَلٰکِن جَعَلنَاہُ نُورًا نَّھْدِیْ بِہٖ مَن نَّشَاء ُ مِنْ عِباَدِنَا وَ اِنَّکَ لَتَھْدِ یْ اِلیٰ صِرَ ا طٍ مُّسْتَقِیْمِ ( شوری، ۵۲،پارہ۲۵)
ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے تیرے پاس اپنے حُکُم سے روح بھیجی تُو پہلے نہیں جانتا تھا کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے؟ لیکن اس کو ہم نے ایک نور بنایا جس سے ہم نے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہیں راہ سمجھائیں ‘ ۔’’ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ ِیُوتِیْہِ مَنْ یَّشَآء ُ ‘‘(جمعہ۴، پارہ ۲۸)’’یہ نبوت اللہ کا فضل ہے جس کو چاہے دے‘‘
اوپر کی آیات قرآنی میں واضح ثبوت ہے کہ منصب نبوت محض اتفاقی نہیں کہ مجاہدہ و مراتب عبادت و ریاضت سے حاصل ہو جائے۔ یہ منصب عطیہ الہی اور فضلِ خدا وندی ہے۔ اللہ عزوجل جس کو چاہے عطا کرے۔ کسی انسان میں یہ ملکہ اور قابلیت نہیں کہ اپنی جدو جہد ‘ سعی و کوشش سے از خود یا کسی دوسرے کے تعلیم دینے سے حاصل کر سکے۔ اس طرح نبوت کی تعلیم اور کتاب اللہ بھی اللہ کی طرف سے منصب نبوت پر فائز ہستی کو دی جاتی ہے۔ارشادِ خدا وندی ہے۔
’’ وَاَنزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعلَمُ، وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہِِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا‘‘ (النساء ۱۱۳، پارہ ۵)ترجمہ: خدا نے تجھ پر کتاب اور حکمت اتاری اور تجھ کو وہ سکھایا جو تُو نہیں جانتا تھااور تجھ پر خدا کابڑا فضل ہے‘۔
نبوت کے فرض منصبی میں اہم فرض عوام الناس کی تعلیم ہے ۔نبی پر وحی نازل ہوتی ہے ، اللہ کے احکام بذریعہ وحی اترتے ہیں ۔ان احکامات سے نبی بندوں کو تعلیم دیتا ہے۔ارشادِ خدا وندی ہے۔
’’ وَجعَلْنٰھُمْ اٰئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِناَ‘‘ (الانبیاء ۷۳،پارہ۱۷) ’’اور ہم نے پیغمبروں کو ایسا پیشوا بنایا جو ہمارے حکم سے راہ دکھاتے ہیں۔
سورہ الاعراف میں ہے’’ اُبَلِّغُکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ‘‘(الاعراف) (ترجمہ) میں تمھیں رب کا پیغام پہنچاتا ہوں اور میں تمھارا خیر خواہ ہوں‘ ۔ نبی بندوں سے ان کی تعلیم پر کوئی معاوضہ نہیں لیتا اس کا اجر و ثواب صرف اللہ کے ذمہ ہے۔ارشادِ ربانی ہے۔’’ یٰقَوْمِ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِنَّ اَجْرِیْ اِلَّا عَلَی اَّلَذِیْ فَطَرَنِِیْ، اَفلَا تَعْقِلُوْنَ‘‘ ( ہود۵۱،پارہ۱۲) (ترجمہ ) اے قوم میں تم سے اجر طلب نہیں کرتا۔ میری مزدوری تو اس کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا تو کیا تم کو عقل نہیں‘‘۔
ف: نبوت اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔دوم: نبوت عطا ئے خدا وندی ہے یعنی وہبی ہے کسبی نہیںہے۔
سوم: نبی مامور من اللہ ہوتا ہے۔ چہارم: نبی کی تعلیم قادرِ مطلق کی طرف سے ہے۔
پنجم: عوام کو پیغام توحید کی تعلیم دی جاتی ہے جیسے سورہ الاعراف میں ہے ’’ میں تم کو اپنے رب کا پیغام پہنچاتا ہوں ،عوام کو مفت تعلیم دیتا ہوں ۔اس کا معاوضہ اور اجر اللہ پاک کے ذمہ ہے‘‘۔
ششم: وہ بے غرض نصیحت کرتا ہے ۔وہ یقیناََ خیر خواہ ہوتا ہے اور سچا ہوتا ہے ،باطل کار جو کسی کو گمراہ کرتا ہے ضرور کسی نہ کسی مقصد اور غرض سے کرتا ہے ،اس سے حق و باطل اور نبی و غیر نبی کا فرق واضح ہو جاتا ہے۔یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ آپ نے کسی سے تعلیم حاصل نہیں کی او ر جو آپؐ کو مسیلمہ سے نبوت کی تعلیم حاصل کرنے کا کہتا ہے یہ اس کی بھول ہے اور تاریخی حقائق سے چشم پوشی ہے نیز تعصب و خود غرضی اور حقائق کو مسخ کرنے کی ناکام سعی وکوشش ہے۔ کیا مسیلمہ نے دعویٰ کیا کہ نبی آخر الزماں کو نبوت کی تعلیم اس نے دی؟ حالانکہ مسیلمہ کے پاس اس دعویٰ کو پیش کرنے کا بہترین موقع تب تھا جب وہ نبوت کا دعویدار بن بیٹھا تھا اور نبی مکرم سے کہا تھا کہ اسے بھی کارِ نبوت میں شریک کریں ۔تو کیا مسیلمہ نے اپنی زبان سے کہا تھا کہ کل تک آپ نے مجھ سے نبوت کی تعلیم لی اور آج مجھے ساجھی نہیں بنایا! میری دی ہوئی تعلیم سے لوگوں کو اپنا پیرو بنایا اور اب مجھے پوچھتابھی نہیں؟ وہ کیوں کہتا جب اس نے تعلیم کا دعویٰ ہی نہیں کیا نیز ان باتوں سے تاریخ بھی خاموش ہے مگر مارگولیس کے کانوں میں چودہ صدیاں گزرنے پر کہاں سے بھنک پڑی کہ دعویدار (مسیلمہ) خاموش ہے مگر مارگولیس (گواہ) ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے‘ واہ جی واہ! مدعی سست گواہ چست۔
اس مکتوب اور جوابی مکتوب سے اس سے تعلیم حاصل کرنے کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔ مسیلمہ کذاب کا مکتوب بنام جان دو عالمﷺ’’من مسیلمہ رسول اللہ انی محمد رسول اللہ امابعد فانی تدا شرکت ھد فی الامر وان لنا نصف الارض و لقریش نصفھا ولکن قریشاََ قوم یعتدون‘‘(ترجمہ: مسیلمہ رسول اللہ کی طرف سے ،محمد رسول اللہ ﷺ کے نام ، معلوم ہو کہ اس(امر نبوت) میں آپ کا شریک کار ہوں ‘(عرب کی) سر زمین نصف ہماری اور نصف قریش کی ہے لیکن قریش کی قوم زیادتی اور نا انصافی کر رہی ہے۔
صادق مصدق علیہ تحیۃ والسلام کا مکتوب مسیلمہ کذاب کے خط کا جواب:
’’ بسم اللہ الرحمن الر حیم،، (اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے)
من محمد رسول اللہ الی مسیلمہ کذاب!( من جانب محمد رسول اللہ بنام مسیلمہ کذاب)
سلام علی من اتبع الھدی اما بعد فان الارض اللہ یرثھا من تشاء من عبادہ والعاقبۃ للمتقین‘ ( آئمہ تلبیس ۶۳)
(سلام اس پر ہو جو ہدایت کی پیروی کرے، اس کے بعد معلوم ہو زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کو مالک بنا دیتا ہے اور عاقبت کی کامرانی متقین کے لیے ہے۔)
چہ نسبت خاک راباعالم پاک۔ مکتوب کا تقابل مقصود نہیں ، صادق اور کذاب کافرق جانتے ہیں اور ہدیہ قارئین کرتے ہیں تاکہ مستشرقین کے غبارہ سے ہوا نکل جائے۔

۱: آنحضرت ؐ نے مکتوب کی ابتدا بسم اللہ شریف سے کی
۲: آپ نے خود کو رسول اللہ لکھا اور مسیلمہ کو کذاب لکھا‘ رسول نہیں لکھا ۔یعنی خود کو رسول کہنے سے کوئی رسول نہیں بن جاتا بل کہ یہ
عطیہ الہٰی ہے اللہ کا فضل ہے اس فضل سے

مسیلمہ اپنے خط کی ابتدا بسم اللہ سے نہیں کرتا
مسیلمہ نے اپنے آپ کو اللہ کا رسول لکھا اور آقا کریم کو بھی اللہ کا رسول تسلیم کیا
ساتھ ہی یہ بھی مانا کہ آپ ہدایت پر ہیںکسی اور ہدایت کی پیروی نہیں کرتے
مسیلمہ محروم ہے۔یہ بھی لکھا کہ سلام ہو اس پر جو ہدایت قبول کرے اور پیروی کرے تو اس کے لیے سلامتی ہے،بصورت دیگر عذاب کا مستحق ہے آپ نے کذاب کہہ کر مدعی نبوت کے دعویٰ کو یکسر ردکر دیا کہ وہ رسول ہے اور نہ ہی نبی اور نہ ہی وہ نبوت میں شریک کار ہو سکتاہے
۳: زمین اللہ تعالیٰ کی ہے ،اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا اسے مالک بنا دیتا ہے، زمین کسی کی ملکیت نہیں ،جب تک اللہ تعالیٰ مالک نہ بنا دے دعویٰ کرنے سے زمین
کا مالک نہیں ہوتااور نہ ہی زمین ملتی ہے،سب کچھ اسی ذات بے ہمتا کا ہے اور اس کے قبضہ قدرت میں ہے اور یہ سب کچھ اسی کی عطا ہے تو قریش قوم کے لیے زیادتی و نا انصافی برت رہی ہے۔اسے نا انصافی کہنا بے بنیاد و بیکار ہے۔

نیز یہ بھی تحریر نہیں کرتا کہ جو تعلیم مجھ سے پائی اس پرکاربند ہیں۔
بجز اس کے مسیلمہ نبوت کو عطائے الہٰی سمجھتا ،اسے ایک دنیاوی اعزاز سمجھتا ہے ، وہبی نہیں کسبی جانتا ہے۔اس زعم میں وہ متمنی تھا کہ آنحضرت اسے کار ِنبوت میں شریک بنائیں۔زمین نصف ہماری نصف قریش کی، لیکن قریش قوم زیادتی و ناانصافی کر رہی ہے۔
۴:آخرت پر ایمان کا ذکر فرمایا اور آخرت میں کامیاب جماعت کے لیے بشارت دی کہ وہ جماعت متقین کی ہے اور یہی قوم کامیاب ہے۔
ملاقات:انیس افراد پر مشتمل بنو حنیفہ کا ایک وفدجس میں مسیلمہ کذاب بھی تھا ‘مدینہ آیا۔ وفد رملہ بنت حارث کے گھر ٹھہرا۔اس وفد کو پانچ اوقیہ چاندی عطا کی، سامان کی حفاظت کے باعث مسیلمہ کی بارگاہ نبوی میں غیر حاضری کی اطلاع کی گئی‘ کریم آقا ﷺنے اس کے لیے بھی چاندی عطا کی۔
اخلاق میں کردار میں یکتا ہیں محمدؐ
ان جیسا زمانے میں کوئی اور نہیں ہے
اور فرمایا: یہ سن لو ۔اس نے تمھیں مکان کی خبر نہیں دی‘ جب وہ واپس مسیلمہ کے پاس گئے اور اسے حضور ؐ کا ارشاد سنایا جو کریم آقا نے اس کے بارے میں فرمایا تھا‘ اس نے کہا : آپ نے اس لیے فرمایا ہے کہ آپ جانتے ہیں۔ آپ کے بعد خلافت میرے لیے ہوگی اور بد بخت نے اس کلام سے استدلال کرکے نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ دعویٰ نبوت کے بعد بڑا لشکر لے کر مدینہ آیا اور جنابِ رسول اللہﷺ نے اس کی اور اس قوم کی تالیف کے لیے ان کے پاس تشریف لے گئے‘آپ کا خیال تھا کہ وہ مسلمان ہو جائیں گے جب کہ انھیں قرآن سنایا جائے گا ۔ قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ مسیلمہ کذاب اس وقت تک خودکو مسلمان ظاہر کرتا تھا اور کفر چھپاتا تھا، اس کے بعد اس نے کفر کا اظہار کردیا، اس وقت آپ کے ساتھ حضرت قیس بن شماس تھے‘ وہی وفودکا جواب دیتے تھے۔اس وقت آپ کے ہاتھ میں کھجور کی شاخ کا ایک ٹکڑا تھا اور آپ نے اجمالی کلام فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اگر تو نے اعراض کیا تو تُو ہلاک ہو جائے گا ۔چنانچہ وہی ہوا جو آقا دو جہاں کی زبان مبارک سے صادر ہوا( تفہیم البخاری۔۵۰۲؍۵)
ف:اس سے قبل بھی مسیلمہ نے آپ ؐ سے ملاقات کی تھی۔کیا یہ ملاقات دوبدو تھی‘ کس مقام پر اور کتنے آدمیوں کے ہمراہ ہوئی تھی؟ وہ ملاقات کس سلسلہ میں تھی؟ اگر دو بدو ملاقات تھی تو کیا تاریخ اس کا ذکر کرتی ہے؟ مسیلمہ نے کسی ایسی ملاقات کا ذکر کیا ہو کہ آپؐ میرے پاس تشریف لائے اور میں نے انھیں نبوت کی تعلیم دی؟ مذکورہ تمام سوالات مارگولیس کے اعتراض کا رد کرتے ہیں۔ صرف مارگولیس کے بے بنیاد دعویٰ کو کیوں کر تسلیم کیا جا سکتا ہے جب کہ وہ کوئی سند بھی پیش نہیں کرتا ۔اس پر مستزاد حیرانی والی بات یہ ہے کہ بنو حنیفہ کے وفد کا ایک فرد بھی گواہی نہیں دیتا کہ ملاقات کے وقت تعلیم سے متعلق کوئی بات چھڑی ہو؟ آپ یمن کے شہر جرش میں بغرض تجارت دوبار تشریف لے گئے تھے، ان سفروں میں بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ کہیں کسی مقام پر آپؐ کی ملاقات مسیلمہ سے ہوئی ہو۔(ش۔۱۲۲)
مسیلمہ کی طرح عامر بن طفیل نے آنحضرت ﷺسے کہا تھا کہ میرے تمھارے درمیان تین باتیں ہیں۔ بادیہ کے مالک تم اور شہروں کا میں یا اپنے بعد مجھے جانشین بنائیں ، ورنہ غطفان کو لے کر چڑھ آئوں گا۔ آنحضرتﷺ نے منظور نہیں فرمایاتھا (ش۔۲۲۸)۔ مسیلمی عقائد سنیں جن سے مارگولیس کے اعتراض کی رہی سہی کسر نکل جائے گی۔ ۱: بے جہت نماز پڑھنا۔۲: ہر مسلمان پر فرض ہے کہ مسیلمہ کو پیغمبر مانے ورنہ اسلام سے خارج۔۳: مسیلمہ آپ کی رسالت میں ہارون کی طرح ساجھی تھے۔۴: مسیلمہ کے پیروکار اپنے آپ کو رحمانیہ کہتے تھے۔۵: مسیلمہ پر فاروق اول صحیفہ نازل ہوا پھر کتاب فاروق ثانی بھی ملی۔۶: اقربا میں شادی کرنا مذموم۔۷: تعداد ازدواج نا جائز سمجھتے تھے۔۸: رمضان کے روزے ممنوع۔۹: تین نمازیں ظہر، عصراور مغرب مقرر کیں ۔۱۰: ظہر مشرق اور عصر مغرب کے رخ پڑھیں۔۱۱: سنت پڑھنا نا جائز۔۱۲: نماز میں درود پڑھنا ختم۔
معجزات کی نقالی مہنگی پڑی: مسیلمہ کذاب نے مرغی کے انڈے کو بوتل میں ڈال رکھا تھا‘ کہا کہ یہ بشری طاقت سے نہیں ‘ اگر کسی میں ہمت ہے تو کر دکھائے۔شاید کوئی فکرمند ہو تو انڈے کو چند دن سرکہ میں بھگوئے رکھے ۔نرم ہو تو بوتل میں ڈال رکھے‘ یہ شعبدہ ہے معجزہ نہیں۔۲: شِیردار بکری کے تھن پر دودھ کے لیے ہاتھ پھیرا اور برکت کی دعا کی، اس کا سارا دودھ خشک ہو گیا۔
۳: اس نے سنا کہ آنحضرت ﷺلعاب دہن سے آشوب ِ چشم اچھا کر دیتے تھے۔اس نے بھی ایک مریض کی آنکھ میںلعاب دہن لگایا ۔وہ بے چارہ ہمیشہ کے لیے اندھا ہو گیا۔صاحب آئمہ تلبیس دبستان مذہب میں لکھتے ہیں کہ وہ سن ۱۰۵۳ میں محمد قلی نام کے ایک شخص سے مشہد میں ملا،وہ مسیلمہ کا پیروکار تھا۔اس نے کہا مسیلمہ کے اشارے سے چاند نیچے اترا اور اس کی گود میں اصحاب کی موجودگی میں آ بیٹھا۔ اس کا گزر خشک درختوں پر ہوا‘ اس کی دعا سے وہ سب ہرے ہوگئے‘
طفل نوزائیدہ نے اس کی نبوت کی شہادت دی، اس پر ایک جماعت ایمان لے آئی‘ لیکن کوئی مسیلمی اپنے مقتداء کے کسی معجزہ کے کسی راست باز عینی شاہد کا نام نہیں بتا سکتا‘ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسیلمی معجزات ڈھکوسلے تھے۔محض مسیلمیوں کی دماغی اختراع تھی سچ ہے کہ’’ پیراں نمی پرند‘ مریداں می پراند‘‘
اعتراض نمبر۸۵کا دوسرا جز
مسیلمہ کذاب سے حنیفی دین کا لقب لیا۔۔۔( مارگولیس نقوش رسول نمبر۔۱۱۔۴۸۹؍)
جواب: پہلے الزام میں ’’ آنحضرتﷺ نے نبوت کی تعلیم مسیلمہ سے پائی کا رد بتفصیل بیان کیا گیا ہے اب اس الزام کا دوسرا جز کہ حنیفی دین کے لقب مسیلمہ سے لیا ،محض الزام ہے اس کی اصل نہیں۔ حالانکہ یہ لقب آقائے دو جہاں کے آبائو اجداد کو بارگاہ ایزدی سے عطا ہوا۔ارشاد ربانی ہے۔
’’ قُلْ بَلْ مِلَّۃَ اِبرَاھِیْمَ حَنِیْفًا ،وَمَا کَانَ مِنَ المُشْرِکِیْنَ‘‘۔( البقرۃ،۱۳۵،پارہ ۱) (ترجمہ) آپ فرما دیجیے( اے نبی) بل کہ ہم تو ابراھیم کا دین (حنیف) لیتے ہیں جو ہر باطل سے جدا تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے‘‘۔
حنیفاََ سے حضرت ابراھیم ؑ کا لقب حنیف مشہور ہوا‘ اور سارے نبیوں کا یہی دین حنیف تھا۔ آپؐ اپنے جد امجد حضرت ابراھیم ؑ کے دین کی نسبت سے حنیفی کہلائے نہ کہ مسیلمہ کذاب سے یہ لقب لیا بل کہ یہ لقب بارگاہ رب العزت سے اس وقت جنابِ ابراھیم ؑ کو عطا ہوا جب کہ مسیلمہ کا نام ونشان تک نہ تھایعنی وہ پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ صدیوں سے جان دو عالم کے آباء اس لقب سے نوازے گئے‘ یہاں تک کہ پھر اس حنیفی دین کے لقب کا تاج آنحضرت ﷺکے سر سجایا گیا۔ یہ وہی دین حنیف ہے جو باطل کو مٹانے والا ہے اور ہر جہل و تعصب و خرافات کی بیخ کنی کرنے والا ہے ۔ بقول شاعر
قوم سے تُو بھی یونہی جہل و تعصب کو مٹا
جس طرح دین حنیفی سے مٹے لات و منات
والدہ ماجدہ کی شہادت:وفات کے وقت سیدہ آمنہ نے اشعار پڑھے جن میں سے کچھ کا ترجمہ یہ ہے ‘ ’’ اے میرے بیٹے! حق اور باطل جو باہم مل گئے ہیں۔تو باطل سے حق کو جدا کرنے کے لیے مبعوث ہوگا۔ حق اور اسلام کے بیان میں مبعوث ہوگا کہ وہ تیرے باپ ابراھیمؑ کا دین ہے‘ وہ محسن اور خدا کے مطیع تھے۔( مواہب لدنیہ۔۱۔۱۱۶)
ابو طالب کااستفسار:بسا اوقات آنحضرتﷺ اپنی رفیقہ حیات اور چچیرے بھائی علیؓ کو لے کر ارد گرد کے صحرائوں کی تنہائیوں میں نکل جاتے۔ تاکہ اللہ کے احسانوں کا شکریہ ادا کریں ‘ ایک دن تینوں نماز میں مصروف تھے ۔ابو طالب ادھر آنکلے ۔انھوں نے آنحضرتﷺ سے پوچھ لیا یہ کون سا مذہب ہے جس کی تم پیروی کرتے ہو؟ آپ نے جواب فرمایا: یہ اللہ کا ‘ اس کے فرشتوں کا ‘ اس کے نبیوں کا اور ہمارے جدِ امجد حضرت ابراھیم ؑ کا مذہب ہے۔ارشاد ربانی ہے۔’’ وَوَصّٰی بِھَا اِبْرَاھِیْمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوبُ، یٰبُنَیَّ اِنَّ اللّٰہ َ اصْطَفٰی لَکُمْ فَلَا تَمُوْ تُنَّ اِلَّاوَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ‘‘۔ ( البقرہ ۱۳۲،پارہ۱) ’اور اس دین کی وصیت کی ابراھیم نے اپنے بیٹوں کو اور یعقوب نے کہا اے میرے بیٹو! بے شک اللہ نے یہ دین تمھارے لیے چن لیا ہے‘ تو نہ مرنا مگر مسلمان‘‘۔ یہ وہی دین حنیف ہے جس کی آپ پیروی کرتے تھے اور لقب آپ کو دین حنیف سے ملا۔( روح ِاسلام ،ص ۹۷) ۔
مارگولیس حنیفی کا لقب مسیلمہ سے جوڑتا ہے کہ اس سے آپؐ کو ملا ۔یہ مستشرق جس گرو کا چیلا ہے اس کی کیا کہیے۔نبی ہونے کا دعویٰ کرنے کے بعد اسے سوجھی کہ کتاب بھی اس کی طرف سے منسوب ہو جسے کہا جائے کہ من اللہ ہے۔ آئیے اس کی کتاب کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں۔ قارئین کرام خود فیصلہ کریں گے کہ یہ کلام الہٰی ہے کہ نہیں؟ کیا یہ سرقہ ہے یا کسی عبارت سابق کی نقل کرکے رد وبدل سے کلام وحی بنایا ہے؟ یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ یہ کیسا بے معنی‘ بے ربط ‘ بے کار اور باطل معارضہ ہے۔ سورہ الفیل جیسی سورہ بنائی؛ ملاحظہ کیجیے۔’’ الفیل وماا لفیل لاذنب و میل و خرطوم طویل ان ذلک من خلق ربنا الجلیل۔۔(ترجمہ) ’ ہاتھی اور ہاتھی کیا ہے؟ اس کی بد نما دُم اور لمبی سونڈ ہے ۔یہ ہمارے رب جلیل کی مخلوق ہے‘‘۔ جبکہ قرآن کریم کی سور ہ الفیل میں ایک تاریخی واقعہ کا بیان ہے یعنی ابرہہ جو کعبہ کو ڈھانے آیا تھا وہ اپنے لشکر سمیت عذاب الہٰی میں مبتلا ہوا جس سے وہ اور اس کا سارا لشکر بھس کی طرح ہو گیا ۔
۲: اِنَّا اَعطَینکَ الجَواھِرَ، فَصَلَّ لِرَبّکِ وَھَاجِر، اِنَّ مُبغَضَّکَ رَجُلُ فَاجِرَ‘‘ (ترجمہ) ’ ہم نے دیے تم کو جواہر ‘ سو نماز پڑھ اپنے رب کی اور ہجرت کر‘ بے شک جو دشمن رکھنے والا ہے تجھ کو وہ بدکردار ہے‘‘ (حیات محمد ،،ہیکل ۵۸۱)
یہ مسیلمہ کذاب کا فاروق اول کے صحیفہ سے کلام ہے جو عام فہم آدمی بھی فرق جان سکتا ہے اورجان کر اسے نبی کاذب کہے گا۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ قتل ہوا تھا‘ اس کے قتل کی پیش گوئی الصادق الصدوق نبیؐنے فرمائی تھی جو سچ ثابت ہوئی۔ایسے عقائد جھوٹے نبی کے ہی ہو سکتے ہیں اور ایسا کلام بھی ایسے کاذب نبی ہی کا ہو سکتا ہے۔ مگر مارگولیس ایسے کذاب سے حنیفی لقب کی وصولی منسوب کرتا ہے۔حالاں کہ یہ لقب آپ کے آبائو اجداد کا تھااور بارگاہ الہی سے عطا ہوا تھااور یہ وہ دین پسندیدہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا۔ یہی دین حنیف ہے۔ اور یہی دین اسلام ہے ۔
٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...