Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

حلف الفضول
ARI Id

1689956726155_56117736

Access

Open/Free Access

Pages

۳۱۱

حلف الفضول
انسانی معاشرے کے معرض وجود میں آتے ہی مسائل جنم لیتے ہیں ۔ ایک ساتھ مل جل کر زندگی گزرانے کے دوران اختلافات اور تنازعات سر اٹھانے لگتے ہیں ظلم و نا انصافی ‘ رائے کا اختلاف ‘ حقوق و فرائض میں بے اعتدالی کا بازار گرم ہو جاتا ہے حتی کہ نوبت جنگ و جدل تک پہنچ جاتی ہے ۔ توہین آمیزی و بے ادبی ‘ عصمت دری اور مال و اسباب پر قبضہ جما لینا معمول بن جاتا ہے ۔ یہ چیزیں معاشرے کے امن و سکون کو تہہ و بالا کر دیتی ہیں‘ جس سے معاشرے کی ترقی کا پہیہ رک جاتا ہے ۔ معاشی اور معاشرتی نمو کا عمل تعطل کا شکار ہو جاتا ہے ۔ جزیرہ نمائے عرب میں کوئی باقاعدہ اور منظم حکومت نہیں تھی اس وقت عدالتیں بھی نا پید تھیں ،جہاں مظلوم اپنے حق کے حصول کے لیے ان کے دروازے پر دستک دے سکتا ۔ تمام عرب قبائلی نظام میں جکڑا ہو ا تھا ۔ قبیلے کا سردار ہی طاقت کا سر چشمہ ہوتا تھا اور اس کا حکم ماننا ازبس ضروری تھا ۔ قبائل خود ہی اپنے معاملات کو نمٹاتے تھے ۔ کوئی قبیلہ کسی دوسرے قبیلہ کے فرد کو قتل کر دیتا تو مقتول کا قبیلہ صرف اپنے فرد کے قاتل کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتا تھا بلکہ قاتل کا پورا قبیلہ اس کے نشانے پر ہوتا تھا اور یہ انتقامی آگ کبھی سلگتی اور کبھی بھڑکتی رہتی تھی ۔ اس قبائلی نظام میں یہ خرابی بھی تھی کہ کمزور قبیلہ طاقت ور سے اپنا انتقام لینے سے قاصر تھا اور دل ہی دل میں کڑھتا رہتا تھا ۔ اس وجہ سے کئی قبائل کا متحدہ محاذ قائم تھا اس صورت میں اگر کسی کمزور قبیلہ پر وار ہوتا تو وہ اپنے متحدہ قبائل کے ساتھ مل کر مقابلہ کرتا گویا یہ بچائو اور حفاظت کا ایک طریقہ موجود تھا ۔ عرب معاشرے میں طاقت کے قانون نے امن و سلامتی کو دائو پر لگا رکھا تھا۔ کمزور قبائل جن کا کسی سے اتحاد نہ ہوتا تھا وہ طاقت ور قبائل کے رحم و کرم پر ہوتے تھے اور انہیں غلام بنا لیتے تھے ۔ پرانی باہمی رنجشیں اور دشمنیاں کبھی سرد کبھی بھڑک اٹھتی تھیں۔ البتہ متحدہ قبائل جوانمردی سے ان کا مقابلہ کرتے جو ان پر ظلم کرتے فتح کے بعد غنیمت آپس میں بانٹ لیتے تھے اور وہ ایک کے حلیف اور دوسرے کے حریف قبائل قرار پاتے تھے۔ حریف و حلیف کا یہ نظام بھی قدیمی تھا یعنی جنگوں میں ان کا ایکا ہوتا اور ایک دوسرے کے معاون ہوتے تھے پھر بھی مختلف قبائل کے دوسرے قبائل سے تعلقات بھی رہتے تھے ان کی مہمان نوازی اور آئو بھگت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتے تھے حتیٰ کہ دشمن قبائل کے کمزور افراد کے مال و منال اور املاک کو نقصان نہیں پہنچاتے تھے ۔بچوں اور خواتین کی حفاظت کا بیڑا بھی اٹھاتے تھے یعنی حلیف قبائل باہم یک جان اور دو قالب ہوتے تھے ۔ جنگ اور برے حالات میں ان کی تمیز کرنا مشکل تھا کہ کوئی کون سے قبیلے سے ہے بلکہ چھوٹے بڑے قبیلے کا تشخص اور امتیازی شان برابری اور مساوات کی شکل اختیار کر لیتی تھی ۔ جیسے دوران جنگ موت واقع ہونے سے تمام ہلاک شدگان کا خون بہا ادا کرنا یکساں ہوتا تھا ۔اس طرح کمزور حلیف کی برابری اور عزت برقرار تھی ۔
عرب گمراہی اور بے علمی کے باعث نسلی امتیاز ‘ شخصی برتری اور انا پرستی میں غرق تھے ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر طیش میں آ جاتے ‘ تلواریں بے نیام ہو جاتیں اور اپنے بھائی بندوں کا بے دریغ قتل کر کے خون کی ندیاں بہا دیتے تھے ۔ تھوڑی سی انا کو ٹھیس پہنچتی تو مدتوں کے کیے گئے معاہدوں پر خط تنسیخ کھینچ دیا جاتا پھر کسی کا جان و مال محفوظ نہیں تھا افراتفری اور انتشار کا دور دورہ تھا ۔مقامی اور غیر مقامی افراد میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا تھا ہر شخص ان کی نشانے پر ہوتا تھا مسافر بچارے دن کی روشنی میں لٹ جاتے اور کوئی ان کا فریاد رس نہ تھا۔ اس کس مپرسی کے عالم میں بنو جرہم کے اور بنو قطورہ کے چند نیک اور رحم دل لوگ سر جوڑ کر بیٹھے اور اس تشدد و بر بریت پر غور و خوض کر کے وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ ایک صلح کا معاہدہ عمل میں لایا جائے جس سے ظلم کا خاتمہ ہو اور امن و سلامتی کی ٹھنڈی ہوائوں کا راج ہو ۔ آخر کار بنو جرہم اور بنو قطورہ میں معاہدہ ہوا جو تاریخ میں حلف الفضول کے نام سے موسوم ہے۔ اس معاہدہ کے نام کی وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جن افراد نے اس معاہدہ کی تحریک اور اس کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ان کے نام کی نسبت سے اس معاہدہ کا نام رکھا گیا ان کے نام یہ ہیں (۱) فضل بن شراعہ(۲) فضل بن بضاعتہ (۳) فضل بن قضاعہ ‘ بعض کے نزدیک ان بانیان کے نام یہ ہیں ۔(۱) فضیل بن حرث (۲) فضیل بن واعہ(۳) فضیل بن فضالہ ‘ ان نیک افراد کے ناموں میں چونکہ فضل کا مادہ موجود تھا بایں سبب اس کا نام حلف الفضول رکھا گیا ۔ یہ حلف الفضول اول تھا۔
تجدیدی معا ہدہ حلف الفضول یا حلف الفضول دوم:اسلام کے آغاز تک عربوں میں جنگی سلسلہ چلا آ رہا تھا حرب فجار کے نام سے کئی جنگیں ہو چکی تھیں ۔ یہاں پر اس جنگ فجار کا ذکر کیا جا رہا ہے جس میں آپ ﷺ نے شرکت فرمائی ۔اس وقت آپ ﷺ کی عمر بیس سال تھی ۔ عر ب معاشرہ میں ہر وقت جنگ کے بادل منڈلائے رہتے تھے، اس سے پہلے سینکڑوں لوگ خون میں نہلا چکے تھے، ہزاروں گھر اجڑ چکے تھے، کئی بچے یتیمی کا داغ لیے پرورش پا رہے تھے ،حالات کی سنگینی جوں کی توں رہتی تھی، راستے غیر محفوظ تھے قافلے کسی کی پناہ لینے کے بغیر سفر نہ کر سکتے تھے ۔ اس جنگ کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ عکاظ کے میلے میں جانے کے لیے نعمان بن منذر والئی حیرہ اپنے نمائندوں سے پوچھتا ہے کہ میرا سامان تیار ہے اسے عکاظ تک لے جانے کا ذمہ کون لیتا ہے ؟ بنو کنانہ کے نمائندہ براض نے کہا کہ میں قافلے کو پناہ دیتا ہوں نعمان نے کہا ’’ میں تو ایسے شخص کی تلاش میں ہوں جو میرے قافلے کو اہل نجد و تہامہ سے پناہ دے‘‘ ۔ یہ سن کر عروہ جو بنی ہوازن کا سردار تھا بولا یہ تمہارے قافلے کو کیا پناہ دے گا۔ آپ یہ قافلہ میرے حوالے کریں میں آپ کے قافلے کو اہل نجد و تہامہ سے پناہ دیتا ہوں ۔ براض بھڑک اٹھا اور غصہ سے لال پیلا ہو گیا مگر وہ عروہ رحال کا ہم سر نہ تھا اس نے چپ سادھ لی ۔ نعمان اپنا قافلہ رحال کو دے دیتا ہے ، براض عروہ کی ٹوہ میں لگ جاتا ہے آخر کار براض موقعہ پا کر ایک دن عروہ کو قتل کر دیتا ہے یہ معاملہ شدت اختیار کر جاتا ہے اور جنگ کی نوبت آ جاتی ہے۔ اس جنگ میں ایک طرف قریش اور دوسری طرف بنو ہوازن تھے ۔ آغاز جنگ میں بنی قیس بڑی شدت سے قریش اور بنو کنانہ پر حملہ کرتا ہے ان کے پائوں اکھڑ جاتے ہیں ۔ لیکن حرب بن امیہ ڈٹا رہتا ہے صبح سے دوپہر تک قیس کا پلہ بھاری رہا مگر دوپہر کو حالات کا رخ بدل جاتا ہے قریش بڑی پھرتی اور تیزی سے قیس کے لوگوں کو قتل کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ میدان جنگ لاشوں سے اٹ جاتا ہے اب فریقین میں لڑنے کی سکت باقی نہیں رہتی صلح کی بات چیت ہونے لگتی ہے آخر اس بات پر اتفاق ہوتا ہے کہ فریقین کے مقتولین کا شمار کیا جائے ‘ جس فریق کے مقتول زیادہ ہو ںوہ قبیلہ مخالف سے ان زائد آدمیوں کا خون بہا وصول کرے ۔ شمار کیا جاتا ہے تو بنی قیس کے بیس یا چالیس آدمی زیادہ ہلاک ملتے ہیں اب قریش کے پاس رقم نہیں ہے کہ اتنے آدمیوں کا خون بہا ادا کر سکتے ۔ قریش کے سردار حرب نے کہا میں اپنے بیٹے ابو سفیان کو بنی قیس کے پاس رہن رکھتا ہوں اور کہا ’’ جب ہم تمہارا تاوان ادا کر دیں گے اس وقت اپنے بیٹے کو چھڑا لیں گے ۔اس جنگ کا پس منظر بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ ﷺ نے اس جنگ میں شرکت فرمائی یا نہیں ۔شرکت تو کی لیکن کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ہاتھ اس لیے نہیں اٹھایا ‘ باقاعدہ جنگ میں حصہ نہیں لیا کیوں کہ اول تو یہ کہ دونوں فریقین کافر تھے اور مسلمانوں کو لڑائی کا حکم صرف اللہ پاک نے دیا کہ اللہ کا بول بالا ہو۔دوم: یہ لڑائی ایام الحرام میں ہوئی۔اس لڑائی کو فجار اس لیے کہتے ہیں کہ ایام الحرام میں یعنی ان مہینوں میں لڑی گئی جن میں جنگ کرنا جائز نہیں تھا۔ ’’ امام سہیلی نے صاف تصریح کی ہے کہ آنحضرتﷺ نے خود جنگ میں حصہ نہیں لیا ‘ وہ لکھتے ہیں’ اور آپ نے اس لڑائی میں جنگ نہیں کی، حالاں کہ آپ لڑائی کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ لڑائی ایام الحرام میں پیش آئی تھی۔نیز یہ وجہ تھی کہ فریقین کافر تھے اور مسلمانوں کو لڑائی کا حکم صرف اللہ نے اس لیے دیا کہ اللہ کا بول بالا ہو( ش۔۱۱۹) اس موقع پر آپ کی عمر دس سال یا بیس سال تھی؟ ہیکل کہتا ہے کہ میرے خیال میں پندرہ اور بیس برس میں تطبیق ایسے ہو سکتی ہے کہ جب لڑائی شروع ہوئی تو آپؐ دس سال کے تھے،جب جنگ چار سال بعد ختم ہوئی تو آپ کی عمر چودہ سال تھی۔بلوغت کی کمی کی وجہ سے جنگ میں اولاََ حصہ نہ لیا ،صرف تیر جمع کرکے اپنے بزرگوں کے حوالے کردیتے تھے مگر جنگ کے آخری سال میں جو تقریباََ چار سال مسلسل جاری رہی، پختہ عمر کو پہنچنے کے سبب خود بھی لڑائی میں حصہ لینے لگے جیسا کہ حرب الفجار کے تذکرہ میں آپؐ نے فرمایا: ’’ میں خود بھی اپنے عم ہائے بزرگوار کے ساتھ حرب الفجار میں شامل تھا اور اپنے ہاتھوں سے دشمنوں پر تیر برسائے اور مجھے اس پر کوئی پچھتاوا نہیں۔( حیات محمد۔۱۱۳)
جزیرہ نمائے عرب میں کوئی منظم حکومت نہ تھی نہ وہاں باقاعدہ عدالتیں تھیں تاکہ مظلوم کی داد رسی کے لیے ان کا دروازہ کھٹکھٹا سکے ۔سارا عرب معاشرہ قبائلی نظام میں جکڑا ہوا تھا ہر وقت بد امنی اور انتشار اور جنگ و جدل کی کالی آندھیاں چل رہی تھیں کہ تھمنے کا نام تک نہ لیتی تھیں لوگ جنگ فجار کی تباہ کاریوں سے نڈھال اور بے حال ہو چکے تھے۔ بیرون علاقہ سے آنے والے مسافر بھی اس افراتفری اور بر بریت سے محفوظ نہ تھے وہ بچارے دن دہاڑے لوٹ لیے جاتے تھے۔ قبیلہ قین کا ایک مشہور شاعر حنظلہ اگرچہ ایک ذی مرتبہ قریشی عبداللہ بن جدعان کی پناہ میں آیا اور پناہ لینے کے باوجود سر بازار لٹ گیا ۔اس صورت حال سے مکہ کے وہ باشندے جن کو اللہ تعالیٰ نے درد مند دل عطا کیا تھا بہت پریشان تھے ۔انہیں ہرگز یہ پسند نہیں تھا کہ مکہ کا کوئی رئیس بے یارو مدد گا ر مسافر اور تاجر پر ظلم کرے اور وہ لا چار ہو کر تماشائی بنے رہیں ۔ اسی اثناء میں ایک واقعہ پیش آتا ہے جو تجدیدی حلف الفضول کے معرض وجود میں آنے کا باعث بنتا ہے وہ واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ زبید (یمن ) کا ایک تاجر اپنا تجارتی سامان لیے مکہ مکرمہ آیا ۔مکہ کے رئیس عاص بن وائل نامی نے اس تاجر سے سامان خریدا لیکن اس کی قیمت چکانے سے صاف مکر گیا ۔ وہ اجنبی تھا اس کی یہاں نہ جان نہ پہچان تھی اس نے عاص بن وائل کے دوست قبائل عبدالدار ‘ مخزوم ‘ جمہح ‘ سہم اور عدی بن کعب سے شکایت کی ‘ بجائے اس کے کہ وہ اس کی مدد کرتے الٹا تاجر کو ڈانٹ پلائی اس کے بعد تاجر نے یہ کام کیا کہ طلوع آفتاب کے بعد جب قریش حرم کعبہ میں حسب معمول اپنی محافل جمائے بیٹھے تھے وہ جبل ابو قبیس پر چڑھ گیا اور بلند آواز سے پکار کی ’’ اے فھر کی اولاد اس مظلوم کی فریاد سنو ! جس کا مال و متاع مکہ شہر میں لٹ گیا ہے وہ غریب الدیار ہے ‘ اپنے وطن سے دور ‘ اپنے مدد گاروں سے دور‘‘
’’ وہ ابھی احرام کی حالت میں ہے اس کے بال بکھرے ہوئے ہیں اس لیے ابھی عمرہ بھی ادا نہیں کیا ‘ اے مکہ والو ! میری فریاد سنو ‘ مجھ پر حطیم اور حجر اسود کے درمیان ظلم کیا گیا ہے ‘‘۔
’’ عزت و حرمت تو اس کے لیے ہے جس کی شرافت کامل ہو، جو فاجر اور دھوکہ باز ہو اس کے لباس کی کوئی حرمت نہیں ۔‘‘ حرم میں موجود قریشیوں نے یہ آواز سنی مگر کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ اس کی مدد کرتا سوائے حضرت زبیر بن عبد المطلب کے ۔جنہوں نے اس بے یارو مدد گار تاجر کی فریاد پر لبیک کہا ‘ اٹھ کھڑے ہوئے اور اعلان کیا ’’ اس فریاد کو نظر انداز کرنا ہمارے بس کا روگ نہیں ۔ ‘‘ پس بنی ہاشم ‘ بنی زہرہ بنی تیم بن مرہ وغیرہ قبائل عبداللہ بن جدعان کے گھر جمع ہوئے ان سب نے معاہد ہ کیا۔ یہ معاہدہ حضرت زبیر بن عبدالمطلب کی تحریک سے عمل میں آیا اور انہی کی نگرانی میں یہ معاہدہ لکھا گیا ۔ اس معاہدہ کا حلف اٹھاتے ہوئے کہا ’’ خدا کی قسم ! ہم سب ایک ہاتھ بن جائیں گے اور ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کریں گے یہاں تک کہ ظالم مظلوم کو اس کا حق ادا کر دے اور ہم اس عہد پر ایک دوسرے کی مدد کریں گے ۔‘‘ اور ہم اس عہد پر پابند رہیں گے جب تک سمندر ‘ صوف (اون) کو تر کرتا ہے اور جب تک حراء اور ثبیر کے پہاڑ اپنی جگہ پر قائم رہیں گے اور معاش میں ہم ایک دوسرے کی ہمدردی کریں گے اس معاہدہ کی دفعات یہ تھیں ۔
(۱) ہم ایک دوسرے کی حق تلفی نہیں کریں گے۔
(۲) ہم قوی سے ضیعف اور مقیم سے مسافر کا حق دلوایا کریں گے ۔
(۳) ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کریں گے ۔
جب معاہدہ کی تحریر مکمل ہو گئی ہر شخص نے اپنی شہادت باری باری ثبت کر دی تو زبیر بن عبدالمطلب بولے ’’ آپ کو مبارک ہو ‘ آپ نے اپنے دادا ابراہیم ؑ کے دین کو دوبارہ دوام بخشا ہے اسے نئی زندگی دی ہے ‘ یہ کام پورا ہو چکا ہے آئو اب عاص بن وائل کی خبر لیں اور اس سے مظلوم کا حق دلوائیں۔‘‘ عبد اللہ بن جدعان بولے ! ٹھہرو ‘ابھی نہیں ابھی یہ کام نا مکمل ہے حضرت زبیر نے حیرت سے پوچھا : یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔ہم تو سمجھتے ہیں کہ یہ کا م مکمل ہو چکا ہے مگر آپ کہہ رہے ہیںکہ ابھی نا مکمل ہے ‘ ہم کچھ سمجھے نہیں ؟ عبداللہ بن جدعان نے مسکرا کر حضرت زبیر کی طرف دیکھا کہ ایک شخص کی شہادت ابھی باقی ہے جو معتبر شخص ہے ‘ اس کی شہادت کے بعد معاہدہ مکمل ہو گا ‘ وہ شخص جو ہم میں سے سب سے زیادہ امن پسند ‘ غریبوں کا ہمدرد ‘ صلح جو اور وعدہ وفا ہے اس کی شہادت کے بغیر معاہدہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔ وہ شخص ہے محمد ﷺ ۔ ان کی شمولیت سے یہ معاہدہ سند کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔ آپ ﷺ کو بلایا گیا اور سب کچھ بیان کیا گیا ۔آپ ﷺ نے فرمایا ’’ میرے لیے اس سے بڑی سعادت اور کیا ہو گی کہ مجھے صلح اور امن کے لیے یاد کیا جائے ‘ میں دل و جان سے حاضر ہوں ‘‘۔ اب معاہدہ مکمل ہوا تو یہ افراد عاص بن وائل کے گھر گئے اور اسے تاجر کے سامان کی رقم ادا کرنے کو کہا ۔ عاص بن وائل موقعہ کی نزاکت کو بھانپ گیا کہ اب بہانہ نہیں چلے گا وہ خاموش اپنے گھر گیا اور رقم لا کر عبداللہ جدعان کے ہاتھ میںتھما دی۔ اس نے زبیر بن عبد المطلب کے حوالے کی جنہوں نے زبیدی تاجر کا حق اسے ادا کر دیا اور سب خاموشی سے واپس چلے گئے ۔
قابل غور : بعض کہتے ہیں کہ معاہدہ حلف الفضول کئی بار ہوا ہے ‘ کئی بار کا تعین واقعات مختلفہ کی بنیاد پر کرتے ہیں ان واقعات کو گڈ مڈ کر دیا گیا ہے ان واقعات کے التباس سے معاہدہ کے کئی بار وقوع پذیر ہونے کا شبہ پیدا ہوتا ہے ۔درج ذیل میں اس کی وضاحت کی جاتی ہے ۔
واقعہ دوم: پیچھے ایک واقعہ کا ذکر ہوا جو معاہدہ حلف الفضول دوم کا باعث بنا ۔ اب دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ایک جنوبی علاقہ کا بدو فریضہ حج ادا کرنے مکہ مکرمہ آیا اس کے ساتھ اس کی بیٹی بھی تھی جو بڑی خوبصورت تھی ۔ مکہ کے دولت مند تاجر نبیہ بن الحجاج نے اس کی بیٹی کو اغوا کر لیا باپ کو کچھ سجھائی نہ دیا آخر کار اس نے سوچا کہ اپنے قبیلے کے پاس واپس جائے اور انہیں اپنی داستان غم سنائے اور ان سے مدد کی درخواست کرے لیکن پھر اسے یاد آیا کہ اس کے قبیلہ کے مردوں کی تعداد بہت کم ہے۔ وہ مکہ کے دس قریشی قبائل کا مقابلہ نہیں کر سکتے وہ اسی پریشانی کے عالم میں سرگرداں تھا کہ جناب محمد ﷺ کو اس واقعہ کی اطلاع ملی ۔آپ ﷺ نے قریش کے نو جوانوں کو اپنے پاس بلایا اور انہیں کہا کہ قریشی نے ایک اجنبی سے زیادتی کی ہے جو نہایت نا زیبا حرکت ہے ۔اس پر ہم خاموش تماشائی نہ بنے رہیں چنانچہ قریشی نوجوان کعبہ شریف میں اکھٹے ہوئے اور سب نے حلف اٹھایا ۔ حلف کے الفاظ یہ تھے ’’ ہم قسم کھاتے ہیں کہ ہم مظلوم کی مدد کریں گے یہاں تک کہ ظالم سے وہ اپنا حق واپس لے لے اور ہم قسم اٹھاتے ہیں کہ اس حلف سے اس کے بغیر ہمارا کوئی اور مقصد نہیں ہو گا ‘ ہم اس بات کی پروا نہیں کریں گے کہ مظلوم غنی ہے یا فقیر۔‘‘ جب انہوں نے قسم اٹھائی تھی تو آپ ﷺ ان کے ساتھ تھے ‘ نوجوانوں نے حجرا سود کو دھویا اور اس کا دھوون پیا ‘ اس کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ وہ اپنی قسم پر پختہ رہیں گے ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نو جوانوں کے ہمراہ اس ظالم تاجر کے پاس گئے اس کے مکان کا محاصرہ کر لیا اور اس سے مطالبہ کیا کہ وہ اس لڑکی کو عزت و آبرو کے ساتھ واپس کر دے ۔ تاجر نے نہایت غلیظ اور بے غیرتی کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ ایک رات مجھے مہلت دے دو ‘ میں صبح لڑکی اس کے باپ کو لوٹا دوں گا لیکن نوجوانوں نے اس تجویز کو ٹھکرا دیا اور اسے مجبور کیا کہ ابھی لڑکی واپس کرو بادل نخواستہ اس نے لڑکی واپس کر دی ۔
امام السہیلی کا بیان ہے کہ خثعم خاندان کا اک فرد عمرہ یا حج کرنے اپنی بیٹی’’ قتول ‘‘ کے ہمرہ جو دنیائے عرب کی حسین ترین عورت تھی ‘ مکہ آیا ۔ نبیہ بن الحجاج نامی مکہ کے ایک باشندہ نے اس لڑکی کو اغوا کر لیا، اس کا باپ بے چارہ بہت پریشان ہوا۔آخر اس نے اِس شخص کے خلاف دہائی دی۔ لوگوں نے اس سے کہا کہ وہ حلف الفضول والوں سے جا کر فریاد کرے۔ چنانچہ وہ کعبہ کے پاس آکے پکارا ؛ اے حلف الفضول والو! مدد! وہ تلواریں بے نیام کیے چلے آئے۔انھوں نے کہا محافظ تیرے پاس آگئے ہیں ‘ بتائو کیا بات ہے؟ اس نے کہا نبیہ بن الحجاج نے میری بیٹی مجھ سے زبردستی چھین لی ہے۔
مجھے بیٹی کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا ہے۔وہ اس کے ساتھ نبیہ کے دروازے پر گئے۔دستک دی۔ وہ باہر آیا۔ حلف الفضول اراکین نے کہا: لڑکی نکالو!تم تباہ ہو جائو گے۔تم یقیناََ جانتے ہو کہ ہم کون ہیں ؟ اور ہم نے قسم کھائی ہے۔ اس نے جواب دیا’ میں ایسا ہی کروں گا لیکن مجھے ایک رات اس کے ساتھ گزار نے دو۔ انھوں نے کہا: خدا کی قسم ! ہم تجھے ایسا نہیں کرنے دیں گے۔پس وہ لڑکی لے آیا اور ان کے حوالے کر دی۔ اس واقعہ کورومانیہ کا وزیر کونستا نس جیور جیو یوں نقل کرتا ہے’’ اس واقعہ کا علم جب سرکارِ دو عالم ﷺکو ہوا ‘ آپ نے قریش کے دس نوجوانوں کو اپنے پاس بلایا اور انھیں فرمایا کہ قریشی نے تاجر کے ساتھ نا زیبا حرکت کی ہے‘ اس پر ہمیں خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ چنانچہ قریش کے نو جوان کعبہ شریف کے پاس جمع ہوئے اور سب نے یہ حلف اٹھایا’’ ہم قسم کھاتے ہیں کہ ہم مظلوم کی مدد کریں گے یہاں تک کہ ظالم سے وہ اپنا حق واپس لے لے اور ہم قسم اٹھاتے ہیں کہ اس حلف سے اس کے بغیر ہمارا کوئی اور مقصد نہیں ہوگا۔ ہم اس بات کی پرواہ نہیں کریں گے کہ مظلوم غنی ہے یا فقیر‘‘ لہٰذا مُسلّح دستہ نے تاجرکی مدد کی اور اس کا حق واپس دلا کے رہے‘۔ یہی مصنف لکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں ایک اور روایت بھی ہے کہ ایک پردیسی تاجر مکہ مکرمہ آئے ‘ ابو جہل نے اس سے کچھ سامان خریدالیکن اس کی قیمت ادا کرنے سے انکار کر دیا اس پردیسی تاجر کو نو جوانوں کے اس جتھے کے بارے میں کوئی علم نہ تھا ۔ وہ فریاد کناں اپنے قبیلے کے پاس آیا ‘ انہیں بر انگیختہ کیا کہ وہ اس کی مدد کریں لیکن ایک محدود افراد پر مشتمل قبیلہ قریش کے دس قبیلوں سے کیسے ٹکر لے سکتا تھا ؟ انہوں نے معذرت کر لی، وہ تاجر پھر مکہ لوٹ آیا ۔ حضور ﷺ کو ابو جہل کی اس حرکت کا علم ہوا تو آپ ﷺ بنفس نفیس ابو جہل کے گھر تشریف لے گئے اور اس سے مطالبہ کیا کہ وہ اس سامان کی قیمت تاجر کو ادا کر دے ۔ مرتا کیا نہ کرتا چنانچہ بادل نخواستہ اسے قیمت ادا کرنا پڑی ۔
۴۔ مکی دور کا واقعہ ہے کہ ابو جہل قبیلہ اراش کے ایک شخص سے کچھ اونٹ خرید لیتا ہے اور طے شدہ رقم کی ادائیگی سے صاف مکر جاتا ہے ۔ وہ شخص مسجد حرام میں قریش کے سرداروں کے سامنے اپنے پر ہونے والے ظلم کی فریاد کرتا ہے کہ ابو الحکم ( ابو جہل ) نے مجھ بے نوا، اور پردیسی کا حق مار لیا ہے حاضرین میں سے کوئی شخص بھی ابو جہل سے بات کرنے کو تیار نہ تھا بلکہ اپنے سے بار اتارنے اور آپ ﷺ کا تمسخر اڑانے کی خاطر حرم شریف کے ایک کونے میں بیٹھے شخص محمد ﷺ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ وہ تمہارا حق دلوا سکتے ہیں ۔ حقیقت ہے کہ قریش نے تو بات از راہ مذاق کی تھی کہ وہ حق دلوا سکتے ہیں لیکن یہ بات بھی مبنی بر حقیقت ہے کہ آپ ﷺ حق دلوا سکتے ہیں ۔ آپ ﷺ حق نہ دلوائیں گے تو اور کون دلوا سکتا ہے ؟ اس تاجر کی درخواست پر آپ ﷺ فوراََ اس کے ساتھ ابو جہل کے گھر تشریف لے گئے دستک دی ‘ آواز آئی کون ؟ آپ ﷺ نے پورے وقار کے ساتھ جواب دیا ’’ میں محمدﷺ ہوں ‘‘ ۔۔۔۔ باہر آئو اس آواز میں نہ جانے کیا تاثیر تھی کہ وہ سنتے ہی باہر آ جاتا ہے آپ ﷺ کو دیکھ کر اس کا رنگ فق ہو گیا آپ ﷺ ابو جہل سے فرماتے ہیں ’’ اس آراشی کا حق ادا کر دو ‘‘ وہ بلا تاخیر اور لیت و لعل کیے بغیر گھر لوٹتا ہے اور اس اجنبی کے واجبات ادا کر دیتا ہے ۔ ابو جہل کے ساتھیوں کو معلوم ہو اتو انہوں نے کہا ہمیں تم سے اس بزدلانہ حرکت کی امید نہ تھی ۔ وہ اپنی بے بسی پر کہتا ہے ‘ میں تو ان کی آواز سن کر خوف زدہ ہو گیا تھا پھر جب باہر آتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے پاس ایک خوف ناک اونٹ جبڑے کھولے کھڑا ہے اب بھلا میں یہ مطالبہ پورا نہ کرتا تو کیا کرتا ۔( محمد رسول اللہ ۔ پرو فیسر اکرم طاہر۔۱۴۰۔۱۴۱) کہیں پانی پینے پلانے پر جھگڑا۔۔ کہیں گھوڑا آگے دوڑانے پہ جھگڑا، یعنی معمولی معمولی باتوں پر جھگڑا ہوتا ‘پھر بعض جھگڑے اتنا طول کھینچتے کہ ختم ہونے کا نام نہ لیتے تھے۔ برس ہا برس یہ سلسلہ جاری رہتا۔ان لڑائیوں کے مسلسل سلسلے نے سینکڑوں گھرانوں کو تباہ کر دیا تھا۔ قتل و غارت ان کا مشغلہ بن چکا تھا۔ اخلاق نام کی کوئی شے نہ بچی تھی۔ ایسے حالات میں بعض لوگوں میں قتل و غارت سے نجات اور اصلاح عامہ کی تحریک پیدا ہوئی۔ جنگ فجار سے لوگ پھرے تو زبیر بن عبد المطلب نے جو رسول اللہ کے چچا اور خاندان کے سردار تھے ‘ نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم میں سے ہر شخص مظلوم کی حمایت کرے گا ‘ کوئی ظالم مکہ میں نہ رہنے پائے گا۔ زبردست کو زیر دست پر ظلم کرنے سے روکا جائے گا۔ جس پر ظلم ہوگا اس کی حمایت کریں گے۔ مسافروں کی حفاظت اور ملک سے بد امنی کو دور کیا جائے گا۔ چنانچہ خاندان ہاشم ‘ زہرہ اورتیم ‘ عبداللہ بن جدعان کے گھر جمع ہوئے اور معاہدہ ہوا جو حلف الفضول کے نام سے موسوم ہے۔ اس معاہدہ کو حلف الفضول اس لیے کہا جاتا ہے کہ اول اس معاہدہ کا خیال جن لوگوں کو آیا ان کے نام میں لفظ ’’ فضیلت‘‘ کا مادہ داخل تھا۔مثلاََ فضیل بن حرث ‘ فضیل بن واعہ اور مفضل وغیرہ۔ یہ لوگ جرہم اور قطورا قبیلہ کے تھے۔ اگرچہ یہ معاہدہ بے کار گیا اور ہر کوئی اسے بھول گیا البتہ بانی اول کو نیک نیتی کا پھل یہ ملا کہ ان کے ناموں کی یادگار باقی ہے ،چنانچہ قریش نے از سرِ نو بنیاد ڈال دی جسے حلف الفضو ل دوم کہتے ہیں۔
اعتراض نمبر۸۶
بعض کہتے ہیں کہ معاہدہ کے قدیم اور جدید معاہدے کئی بار ہوئے ہیں یعنی حلف کے دو بار وجود میں آنے پر تو سبھی سیرت نگاروں اور مورخین نے اتفاق کیا ہے تاہم نا چیز ( پروفیسر محمد طفیل ) کی رائے میں حلف الفضول کا بیڑا بار بار اٹھا یا گیا ہوگا جن میں تین اوقات بالکل واضح ہیں ۔
(۱) رسول اللہ ﷺ کی ولادت با سعادت سے پہلے اور اس وقت اس کا محرک عرب کا اہم قبیلہ بنو جرہم تھا جن کے بانیان اور مو سیسین فضل کے نام سے موسوم تھے اور یہ معاہدہ انہی ناموں کی نسبت اور جمع کے اعتبار سے حلف الفضو ل کہلاتا ہے ۔
(۲) دوسری بار اس معاہدہ کی اس وقت تجدید کی گئی جب دیہاتی لڑکی کا اغواء ہوا اور اس کی تجدید و تدوین میں بہت سے مکہ کے قبائل نے شرکت کی تھی ۔ یہ معاہد ہ عبداللہ بن جُدعان کے گھر پر طے ہوا تھا جس میں خاتم الانبیاء ﷺ نے بنفس نفیس شرکت کی تھی جس کا ذکر احادیث نبویہ میں بھی ملتا ہے اور اس کے مقاصد بھی وہی ہیں جو پہلے معاہدوں میں متعین ہوئے تھے ۔
(۳) تیسری بار حلف الفضول کا معاہدہ بعثت نبوی کے بعد عمل میں آیا ۔۔۔ جیسا کہ اس واقعے سے عیاں ہوتا ہے کہ ایک غیر ملکی تاجر اپنا سامان تجارت لیے مکہ مکرمہ آیا ۔ قریشی سردار ابو جہل نے اس تاجر سے کچھ سامان تجارت خریدالیکن اپنی سرداری کے گھمنڈ میں خریدے ہوئے مال کی قیمت ادا کرنے سے انکار کر دیا ‘ اس غیر ملکی اور اجنبی تاجر کو حلف الفضول کے رضا کاروں اور خدائی خدمت گاروں کا علم نہ تھا۔ وہ اپنے وطن واپس جا کر اپنے قبیلہ سے فریا د کناں ہوا کہ اس بارے میں اس کی مدد کی جائے لیکن محدود افراد پر مشتمل اس کا قبیلہ مکہ کے دس مضبوط اور طاقت ور قبائل سے ٹکر نہیں لے سکتا تھا ۔ ۔۔۔۔۔ تاجر واپس آیا تاکہ وہ کسی تدبیر سے مکہ کے رئیس سے اپنا مال تجارت کی قیمت وصول کر سکے جب محسن انسانیت کو خبر ہوئی تو حلف الفضول نوجوان رضاکاروں کے ساتھ ابو جہل کے گھر تشریف لے گئے ۔ اس سے اجنبی مسافر تاجر کے سامان کی قیمت ادا کرنے یا سامان لوٹانے کا مطالبہ کیا ۔ حضور ﷺ کی ہیبت سے ابو جہل اس قدر مبہو ت ہو ا کہ اس تاجر کے مال کی قیمت ادا کرنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور چارہ کار نہ تھا چنانچہ اس نے خریدے ہوئے مال کی فوری طور پر قیمت تاجر کو ادا کر دی یقینا یہ معجزہ تھا جو عرب معاشرہ میں وقوع پذیر ہوا ۔
جواب: ابو جہل اور تاجر سے منسوب تین واقعات ملتے ہیں ایک رومانیہ کے وزیر جیو ر جیو نے اپنی سیرت کی کتاب میں لکھا ہے دوسرا واقعہ البدایہ والنہایہ کے حوالے سے پروفیسر اکرم طاہر نے ( محمد رسول اللہ ۔۱۴۰۔۱۴۱) لکھا ہے اور تیسرا واقعہ پروفیسر محمد طفیل نے (ماہنامہ ضیاے حرم ۔۲۵۔۲۶)لکھا ہے لیکن کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا ہے۔
پہلے دونو ں واقعات جو ابو جہل اور تاجر کے حوالے سے ہیں بظاہر دو معلوم ہوتے ہیں حقیقت میں وہ ایک ہی واقعہ ہے فرق صرف ہے تو اختصار اور تفصیل کا ہے ۔ ان ہر دو واقعات میں ایک ادنیٰ سا اشارہ بھی نہیں ملتا کہ آپ ﷺ مسلح نوجوانوں کے دستہ کو لے کر ابو جہل کے گھر تشریف لے گئے دوسرے واقعے کے یہ الفاظ ہیں ’’ اس ( تاجر ) کی درخواست پر آپ ﷺ فوراََابو جہل کے گھر تاجر کے ساتھ گئے ۔۔۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ رضا کاروں کے مسلح دستے کے بغیر ابو جہل کے گھر تشریف لے گئے ۔
۲ْ۔ تاجر قریشی سرداروں سے کہتا ہے کہ ابو جہل نے مجھ سے مال لے لیا ہے اور میری قیمت ادا کرنے سے صاف مکر گیا ہے ‘ میری مدد کیجئے ! ان میں ہمت نہ تھی کہ تاجر کی داد رسی کے لیے ابو جہل سے بات کرتے بلکہ انہوں نے اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے راہ نکالی نیز آپ ﷺ کو اذیت دینے کی ترکیب سوجھی ۔ وہ تاجر سے کہتے ہیں کہ وہ شخص جو کعبہ کے کونے میں بیٹھا ہے اسے کہیے کہ میرا حق دلوا دیں وہ حق دلوا سکتا ہے انہوں نے تو از راہ مذاق یہ بات کہی تھی لیکن حقیقت میں یہ درست ہے کہ آپ ْﷺ حق دلوا سکتے ہیں اگر آپ ﷺ حق نہیں دلوائیں گے تو اور کون دلوا سکتا ہے ؟ اگر قریشی سرداروں کو تجدیدی معاہدہ حلف الفضول کا علم ہوتا تو وہ تاجر سے کہتے کہ حلف الفضول والوں کو بلائو ‘ وہ تیری مدد کریں گے ایسا کچھ نہ ہوا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت حلف الفضول کا وجود نہ تھا اگر انہوں نے جان بوجھ کر اس بات کو اخفاء میں رکھا کہ حضور ﷺ کو دکھ پہنچائیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرداروں نے تو یہ بات صیغہ راز میں رکھی لیکن آپ ﷺ کو تو معاہدہ کا علم تھا کیونکہ اس معاہدہ میں شرکت کر چکے تھے اس کے باوجود آپ ﷺ اس مسلح دستے کو اپنے ساتھ لیے بغیر ابو جہل کے گھر تاجر کے ہمرہ تشریف لے جاتے ہیں۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس واقعے سے پہلے حلف الفضول کا معاہدہ نہیں ہوا تھا ۔ فرض کریں اگر یہ مان لیں کہ معاہدہ ہوا تھا اور آپ ﷺ نے مسلح دستے کو اپنے ساتھ لے جانا مناسب نہ سمجھا ہو تو پھر بھی ہر دو صورتوں میں یہ دونوں واقعات تجدیدی معاہدہ حلف الفضو ل کے وقوع پذیر ہونے کا باعث نہیں بنتے ہیں ۔
۳۔جہاں تک واقعہ چہارم کا تعلق ہے اس میں آپ ﷺ قریشی نوجوانوں کو بلاتے ہیں کہ ایک مکی تاجر دولت مند نے ایک دیہاتی کی لڑکی اغوا کر لی ہے ہم خاموش تماشائی نہ بنے رہیں اس کی مدد کرنی چاہیے ۔ پس نو جوانوں نے کعبہ میں حاضر ہو کر حلف اٹھایا ‘ ‘ ہم قسم اٹھاتے ہیں کہ ہم مظلوم کی مدد کریں گے یہاں تک کہ ظالم سے وہ اپنا حق واپس لے لے اور ہم قسم کھاتے ہیں کہ اس حلف سے اس کے بغیر کوئی اور مقصد نہیں ہو گا ‘ ہم اس بات کی پروا نہیں کریں گے کہ مظلوم غنی ہے یا فقیر ۔‘‘ پھر ان نوجوانوں نے حجر اسود کو دھویا اور اس کا دھوون پی لیا ‘ یہ عمل ان کی معاہدہ سے وفا داری اور پختگی کا اظہار تھا ۔ بقول پروفیسر محمد طفیل ’’جو افراد بھی حلف الفضول کا عہد کر کے اس تنظیم کا حصہ بنتے وہ اپنی رضا مندی کی مضبوطی اور عہد کی بجا آوری کے لیے یہ عمل کرتے تھے اور حلف الفضول کی قسم اٹھانے کے بعد وہ بیت اللہ میں حاضر ہوتے ۔وہاں حجر اسو دکو آب زم زم سے دھوتے اور پھر اس دھوون کو پی لیتے۔‘‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تجدیدی معاہدہ حلف الفضول پہلے سے وجود میں آ چکا تھا بعد میں اس معاہدہ میں شمولیت کے لیے حلف اٹھایا جاتا تھا ‘ یہ معاہدہ کا ممبر یا رکن بننے کے لیے ایک قسم کی کاروائی تھی معاہدہ کا ڈول نہیں ڈالا گیا تھا ۔
کرم شاہ صاحب بھیروی (ضیا النبی ۔۱۲۵۔۱۲۶) لکھتے ہیں جب حضور ﷺ نے اس (معاہدہ ) میں سر گرم حصہ لیا اور حضور ﷺ کی ترغیب پر قریشی نوجوانوں کا ایک ایسا مسلح جتھہ تیار ہو گیا جو اس معاہدہ کے تحت کیے گئے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہر وقت سر دھڑ کی بازی لگانے کے لیے تیار رہتا تھا ۔ یعنی معاہدہ موجود تھا اور رونما ہونے والے واقعات کے متعلق یہ دستے کی کاروائیاں تھیں ۔ قریشی نوجوان خانہ کعبہ میں حلف اٹھاتے ‘ نئے سرے سے معاہدہ کی داغ بیل نہیں ڈالتے جیسے آجکل بھی حکومتی عہدے داران اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے لیے حلف اٹھاتے ہیں ۔مثال کے طور پر ججز ‘ صدور ‘ وزیر اعظم ‘ نیشنل اور قومی اسمبلیوں کے اراکین اور سینٹ کے ممبران حلف اٹھاتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ اپنے فرائض میں کوتاہی نہیں کریں گے ملک و قوم کی فلاح کے لیے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لا کر مضبوط اور مستحکم بنائیں گے ۔ اس حلف نامے کا مضمون اورتحریر پہلے ہی چند اہل علم نے تیار کی ہوتی ہے تمام ممبران یا عہدے داران نے تیار نہیں کی ہوتی ممبران تو صرف حلف اٹھاتے ہیں وہ یوں کہ ممبران صرف حلف لینے والے شخص کے ساتھ اس حلف کی تحریر کو دہراتے ہیں یہی حلف کی صورت مذکورہ واقعات میں بھی ہے ۔قریشی مسلح نو جوانوں نے حلف اٹھایا تھا نہ کہ وہ تجدیدی معاہدہ کو عمل میں لائے تھے ۔
معاہدہ اور کاروائی میں فرق ہے ‘ معاہدہ فریقین کے درمیان کسی مسئلہ پر اتفاق کرنے کو کہتے ہیں اور کاروائی معاہدہ طے پاجانے کے بعد طے شدہ امور من و عن خود عمل کرنا اور دوسروں سے عمل کروانے کا نام ہے ۔معاہدہ کی ایک کاروائی ملاحظہ کیجئے اس سے ساری بات سمجھنے میں آسانی ہو گی ۔
امام السہیلی کا بیان ہے کہ خثعم خاندان کا ایک فرد عمرہ یا حج کرنے اپنی بیٹی ’’ قتول‘‘ کے ہمراہ جو دنیائے عرب کی حسین ترین عورت تھی ‘ مکہ آیا ۔ نبیہ بن الحجاج نامی مکہ کے ایک باشندہ نے اس لڑکی کو اغوا کر لیا ۔ اس کا باپ بے چارہ بہت پریشان تھا آخر اس نے اس شخص کے خلاف دہائی دی لوگوں نے اس سے کہا کہ وہ حلف الفضول والوں سے جا کر فریاد کریں چنانچہ وہ کعبہ کے پاس آ کر پکارا : اے حلف الفضول والو ! مدد ! وہ تلواریں بے نیام کیے چلے آئے انہوں نے کہا محافظ تیرے پاس آ گئے ہیں ‘ بتائو کیا بات ہے ؟ اس نے کہا نبیہ بن الحجاج نے میری بیٹی مجھ سے چھین لی ہے ۔ مجھے بیٹی کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا ہے وہ اس کے ساتھ نبیہ کے گھر گئے ‘ دستک دی ‘ وہ باہر آئے حلف الفضول والوں نے کہا : تم تباہ ہو جائو گے ‘ تم یقینا جانتے ہو کہ ہم کون لوگ ہیں اور ہم نے قسم کھائی ہے ‘ اس نے جواب دیا میں ایسا ہی کروں گا لیکن مجھے ایک رات اس کے ساتھ گزارنے دو ‘ انہوں نے کہا : خدا کی قسم ! ہم تجھے ایسا نہیں کرنے دیں گے پس وہ لڑکی لے آیا اور ان کے حوالے کر دی یہ معاہدہ کی کاروائی تھی کیونکہ معاہدہ اس سے قبل ہو چکا تھا اس معاہدہ پر عمل کرتے ہوئے یہ اقدام کیا گیا تھا ۔
امام السہیلی اور جیو رجیو کے واقعہ میں قدرے اختلاف ہے وہ یہ کہ امام السہیلی کے واقعہ میں انجمن حلف الفضول کے اراکین تلواریں سونتے چلے آئے جب کہ جیور جیو کے واقعہ میں اراکین انجمن کا دستہ بلانے پر آتا ہے اور خانہ کعبہ میں حلف اٹھاتا ‘ حجر اسود کا دھوون پی کر دولت مند تاجر کی طرف چل پڑتے ہیں ۔ اس اختلاف سے قطع نظر یہ حلف الفضو ل والوں کی کاروائی ہے نہ کہ یہ واقعہ معاہدہ کے وجود میں آنے کا باعث بنا ۔
تیسری بار حلف الفضول کا معاہدہ ابو جہل اور تاجر کے معاملہ سے وقوع میں آیا پروفیسر محمد طفیل تیسری بار کے معاہدہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ آپ ﷺ نوجوان رضاکاروں کے ساتھ ابو جہل کے گھر تشریف لے گئے اس سے اجنبی مسافر تاجر کے سامان کی قیمت ادا کرنے کا مطالبہ کیا سرور کونین ﷺ کی ہیبت سے ابو جہل اس قدر مبہوت ہوا کہ اس تاجر کے مال کی قیمت ادا کرنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور چارہ کار نہ تھا چنانچہ اس نے خریدے ہوئے مال کی قیمت فوری طور پر تاجر کو ادا کر دی۔ یقینا یہ معجزہ تھا جو عرب معاشرے میں رو نما ہوا ۔
ڈاکٹر حمید اللہ ( پیغمبر اسلا م ۔۶۵۔۶۶) حلف الفضول کی کاروائی سے متعلق چار واقعات لکھتے ہیں ۔
۱۔ پہلا واقعہ حج یا عمرہ ادا کرنے والے اجنبی شخص کی لڑکی کے اغوا سے متعلق ہے ۔
۲۔ واقعہ یہ ہے کہ ازد قبیلے کے ایک اجنبی نے ابی بن خلف کے پاس چند چیزیں فروخت کیں ‘ جو مکہ کے بڑے سرداروں میں سے تھا لیکن ابی بن خلف طے شدہ رقم ادا کرنا نہیں چاہتا تھا۔ مایوسی کے عالم میں ازدی نے حلف الفضول والوں سے اپیل کی جنہوں نے اسے کہا ’’ ابی بن خلف سے جا کر کہو کہ تم حلف الفضول والوں کی طرف سے آئے ہو اور اگر وہ فوری طور پر تمہاری تسلی تشفی نہ کرے تو پھر اسے ہمارا انتظار کرنے دو ‘‘۔ اس مرتبہ ابی بن خلف نے رقم ادا کر دی اور کوئی زیادہ دیر نہ لگائی ۔اس واقعہ کو ابن جوزی نے بھی حلف الفضول کے وجود میں آنے کو الوفا میں لکھا ہے ۔
۳۔ زبید قبیلہ کا ایک تاجر چند چیزیں بیچنے کے لیے مکہ مکرمہ آیا ۔ ابو جہل نے دوسرے تاجروں اور خریداروںکو زبیدی سے مال خریدنے سے منع کر دیا اور خود اس نے ان چیزوں کی زبیدی کو بہت کم قیمت کی پیشکش کی ، ابو جہل کا اثر و رسوخ تھا کوئی دوسرا شخص زیادہ قیمت کی پیشکش نہیں کر سکتا تھا ۔وہ مغموم اور ستم رسیدہ تاجر محمد ﷺ کے پاس گیا جنہوں نے اس سے تین اونٹ اس قیمت پر خریدے‘ جتنی وہ طلب کر رہا تھا اور ابو جہل سے بات کی جس کی بد مزاجی بڑی مشہور تھی ۔
۴۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپ ﷺ نبوت سے سرفراز ہو چکے تھے یہ واقعہ ابو جہل اور اراش قبیلے کے ایک تاجر کے درمیان ہوا سامان خرید لیا مگر قیمت ادا کرنے سے صاف انکار کر دیا ۔ آپ ﷺ سے تاجر نے درخواست کی کہ اسے اپنا حق واپس دلا دیں ۔آپ ﷺ اس کے ہمراہ ہو لیے اور ابو جہل کے گھر تشریف لے گئے ۔ابو جہل نے آپ ﷺ کی آمد کی وجہ پوچھی ‘ پھر کیا تھا کہ اس نے فوری طور پر سامان کی قیمت ادا کر دی ۔جتنے واقعات رونما ہوئے سوائے پہلے واقعہ جو عاص بن وائل اور تاجر کے، سب کی سب کارروائیاں تھیں۔یہ نہیں کہ جتنے واقعات پیش آئے اتنی ہی مرتبہ ان کا سبب احیاء حلف الفضول تھا ۔ ہمارے موقف کی تائید ڈاکڑ محمد حمید اللہ کے بیان سے بھی ہوتی ہے وہ کہتے ہیں ’’چاہے کچھ بھی ہو مکہ والے حلف الٖفضول پر بہت فخر کرتے تھے ‘جس نے طویل عرصے تک بے شمار مواقع پر مداخلت کی ۔ اس میں صرف ایک کمی تھی کہ کسی نئے ممبر کو اس میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی اور یوں چند دہائیوں کے بعد اس کے آخری ممبر کی وفات کے بعد یہ ختم ہو گیا ۔(پیغمبر اسلام ۔۶۷)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...