Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

حلف الفضول کی امتیازی شان
ARI Id

1689956726155_56117737

Access

Open/Free Access

Pages

۳۲۳

حلف الفضول کی امتیازی شان
یہ معاہدہ انسانیت کی بھلائی ،خیر خواہی اور بنی نوع انسان کو ظلم و بربریت اور ناانصافی کے چنگل سے آزاد کرانے اور امن و سلامتی کو عام کرنے کا نام ہے۔ اس کی امتیازی شان اس کے نام سے عیاں ہے عربی زبان میں معاہدہ کے لیے متعدد اصطلاحات مثلا عہد ‘ معاہدہ ‘ عقد ‘ حلف ‘ میثاق ‘ بیت اتفاقیہ ‘ اعلامیہ وغیرہ موجود ہیں مگر اس معاہدہ کے لیے حلف کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے یعنی اس میں قسم کا مفہوم بھی شامل ہے کیونکہ قسم کھا کر کسی چیز کو بیان کرنا اس کی پختگی اور مضبوط ارادہ و عزم کا اظہار ہوتا ہے نیز یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ جس بات پر قسم اٹھائی جا رہی ہے وہ بات پر وقار اور ذیشان ہے اور قسم کو اٹھانے والے بھی مکرم و محترم و محتشم ہیں ۔مرتبہ و مقام کے لائق وہی ذات بے ہمتا ہے جو واحد ہ لا شریک ہے ۔ عہد رسالت میں کفار بتوں کی قسمیں بھی اٹھاتے تھے لیکن گمان غالب ہے کہ حلف الفضول کا ڈول ڈالنے والی تمام سعادت مند روحیں تھیں جو اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتی تھیں اور نیکی و بھلائی کے فروغ کے لیے کوشاں تھیں ‘ برائی کے خاتمے اور بھلائی کو عام کرنے کی توفیق اللہ کی طرف سے تھی اور اسی کی رضا کے لیے یہ معاہدہ عمل میں آیا ۔جبکہ مطیبوں اور احلا ف نے اس حلف کو نا پسند کرتے ہوئے اسے حلف الفضول کا نام دیا اور اس عہد کو قوم کے فضول کاموں سے شمار کرنے لگے ۔اگرچہ یہ بات معاہدہ کی رو ح کے خلاف ہے لیکن مخالف نے یہ بات کہہ دی ہے تو یہ محض اس کی دشمنی کا اظہار ہے ۔ (الوفا۔۱۷۵)
۲دوسری امتیازی شان یہ ہے کہ حلف الفضول انسانیت کی بھلائی اور فلاح کا معاہدہ تو ہے ہی لیکن یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ معاہدوں کے طے پانے میں دو فریق شرکت کرتے ہیں جبکہ اس معاہدہ میں ایک ہی فریق موجود نظر آتا ہے اور دوسرا فریق منظرسے غائب ہے ۔اس کے باوجود دوسرے فریق کا دائرہ بہت وسیع ہے یعنی وہ پوری انسانیت کو دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ قدیم معاہدہ کی ایک شق یہ تھی جو تجدیدی معاہدہ میں بھی ہے کہ ’’ ہم قوی کو ضعیف اور مقیم سے مسافر کا حق دلائیں گے کیونکہ ان دونوں معاہدوں کے اغراض و مقاصد ایک ہی تھے یہ مرد عورت ‘ مقیم ‘ مسافر ‘ ملکی و غیر ملکی اور امیر غریب کو محیط تھا گویا یہ پوری انسانیت کے لیے ایک دستور کا درجہ رکھتا ہے ۔
۳۔ تیسری امتیازی شان یہ ہے کہ اس معاہدہ میں فریق اول کی بجائے فریق دوم کو فائدہ حاصل ہے۔ فریق دوم جہاں کہیں کا ہو یا کوئی بھی ہو ‘ مکہ میں اس پر ظلم نہ ہونے دیا جائے گا ۔اس کی ممکنہ داد رسی کی جائے گی ۔ حقوق چھیننے والے افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور ان کا حق طاقت ور سے دلادیا جائے گا ۔
۴۔ امتیازی شان یہ ہے کہ یہ معاہدہ خود اختیار کردہ ہے یہ ظلم و زیادتی کے خلاف ایک معاشرتی اور اخلاقی تحریک ہے ۔یہ غیر حکومتی ادراہ ہے کیونکہ وہاں کوئی حکومت قائم نہ تھی جس کی سر پرستی اسے حاصل ہوتی البتہ قبائل کے افراد کی امداد حاصل تھی ۔ یہ آزاد اور رضا کارانہ انجمن ہے اور رفاہی تنظیم ہے جو عرب سماج کے گندے کاموں اور بد ترین لڑائیوں کے خلاف تھی اور اچھی روایات کو پھیلانے کے لیے قائم ہوئی تھی ۔ لوگوں میں بھلائی کی تڑپ اٹھی تو انہوں نے اس معاہدہ کو برضا و رغبت قبول کیا اور اپنی ذمہ داریوں کو ہر قیمت پر پورا کرنے کا بیڑا اٹھایا‘ جس نے قبائلی نظام کی چولیں ہلا دیں بلکہ قبائلی نظام پر کاری ضرب پڑی کہ ان کی مطلق العنانی چراغ سحرثابت ہوئی ۔
۵۔ یہ امتیازی شان ہے کہ آپ ﷺ کی عمر مبارک بیس سال تھی جب یہ معاہدہ طے پایا ۔آپ ﷺ کا فرمان ہے ( ترجمہ) جاہلیت میں جو معاہدہ ہوا اسلام نے اس کے استحکام ہی کو بڑھایا ہے ۔ (سیرت ابن ہشام ۔۱۔۱۵۹)
آپ ﷺ اس معاہدہ سے شاداں و فرحاں تھے ۔اسلام نے اس کے استحکام کو بڑھایا ہے۔ سے اشارہ ملتا ہے کہ اگر کوئی کام عہد جاہلیت میں ہوا اور وہ عمدہ ہے تو اسے اگلے دور میں بھی لاگوہونا چائیے کی توثیق فرمادی بلکہ آپ ﷺ کے عہد بعثت سے پہلے بھی معاہدہ اسی نام سے طے پایا تھا جس میں آپ ﷺ نے شرکت فرمائی تھی ۔حضرت زبیر کی تحریک پر ان کی زیر نگرانی معاہدہ لکھا گیا ۔ معاہدہ کا حلف اٹھاتے ہوئے کہا ’’ خدا کی قسم ! ہم سب ایک ہاتھ بن جائیں گے اور ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کریں گے یہاں تک کہ ظالم مظلوم کو اس کا حق ادا کر دیں اور ہم اس عہد پر پابند رہیں گے جب تک سمندر اون کو تر کرتا ہے ۔ قدیم معاہدہ کی توثیق فرما دی اور اپنے دور بعثت سے پہلے ہونے والے معاہدہ میں شرکت فرما کر مہر ثبت کر دی کہ آئندہ بھی اس قسم کے معاہدے امن میں لائے جائیں ‘جس سے معاشرے کا امن بحال ہو اور ایک مثالی معاشرہ قائم ہو سکے ۔زمانہ جاہلیت میں کوئی کام نیکی اور بھلائی کا ہوتا ہے تو اسے اسلام برقرار رکھتا ہے جیسا کہ آپ ﷺ کے مذکورہ فرمان سے ظاہر ہے نیز اسلام محض ان کاموں سے روکتا ہے جن میں شرک اور اسلام کی تعلیمات کے خلاف باتیں ہو ں جبکہ دوسری طرف اچھی باتوں کی تائید اور ان کو پھیلانے کی ترغیب دیتا ہے ۔
۶ ۔ اس معاہدہ کی امتیازی شان یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے بنفس نفیس اس میں شرکت فرمائی ۔ جب معاہدہ کی تحریر مکمل ہو چکی تھی اور ہر شخص باری باری اپنی شہادت ثبت کیے جا رہا تھا تب حضرت زبیر بن عبدالمطلب بولے ’’ آپ کو مبارک ہو آپ نے اپنے دادا ابراہیم ؑ کے دین کو دوبارہ زندہ کیا ۔اسے ایک نئی زندگی دی ہے ‘ یہ کام پورا ہو چکا ہے ۔آئو اب عاص بن وائل کی خبر لیں اس سے مظلوم کا حق دلوائیں ‘‘ یہ سن کر عبداللہ بن جدعان بولے !
عبداللہ : ٹھہرو ابھی نہیں ‘ ابھی یہ کام نا مکمل ہے ۔
زبیر: یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ہمارے خیال میں تو کام پورا ہو چکا ہے مگر آپ اسے نا مکمل کہہ رہے ہیں ہم کچھ سمجھے نہیں ۔
عبداللہ :مسکراتے ہوئے حضرت زبیر کی طرف دیکھا پھر کہا ۱ ابھی یہ کام مکمل نہیں ہوا کیونکہ ایک شخص کی شہادت باقی ہے ایک معتبر شخص کی ‘ اس کی شہادت کے بعد یہ معاہدہ مکمل ہو گا ۔ وہ شخص جو ہم میں سب سے زیادہ امن پسند ‘ غریبوں کا ہمدرد ‘ صلح جو اور وعدہ کا پابند ہے اس کی شہادت کے بغیر یہ معاہدہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔
زبیر : وہ شخص ہے کون ‘ کچھ ہمیں بھی پتہ چلے ۔؟
عبداللہ : تمہارا بھتیجامحمد ﷺ مجھے یقین ہے کہ وہ حلف الفضول میںضرور شمولیت کریں گے اور ان کے شامل ہونے سے یہ معاہدہ ایک سند کی حیثیت اختیار کر لے گا ۔تم اسے فوراََ بلائو ! آپ ﷺ کو بلایا جاتا ہے عبداللہ کہتے ہیں ‘ محمد ﷺ ہم نے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے معاہدہ تحریر کیا ہے اس پر آپ ﷺ کی شہادت درکار ہے ۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرط مسرت کا اظہار کیا اور فرمایا ’’میرے لیے اس سے بڑی سعادت اور کیا ہو گی کہ مجھے صلح اور امن کے لیے یاد کیا جائے ‘ میں دل و جان سے حاضر ہوں ‘‘ اس پر حضر ت زبیر نے آپ ﷺ کو تھپکی دی ۔معاہدہ آپ ﷺ کے بغیر کچھ اہمیت و حیثیت نہیں رکھتا ، آپ ﷺ کی شرکت نے اسے چار چاند لگا دئیے اور یہ بھی ثابت کر دیا کہ آپ ﷺ برائیوں کو مٹانے اور اچھائیوں کو فروغ دینے والے ہیں ۔
اہم نکتہ : جیورجیو لکھتا ہے ’’ بعثت سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی طرف سے حلف الفضول کے منصوبے کی تجویز بڑی اہمیت کی حامل ہے اس جدت سے حضور ﷺ نے لوگوں کے کھوئے ہوئے حقوق واپس دلانے میں ایک انقلاب برپا کر دیا اور اس تجویز کے ذریعے سارے قبیلے کو ہدف انتقام بنانے کے نظریہ کا قلع قمع کردیا ‘‘۔
اس کا جو اب یہ ہے کہ حلف الفضول کا آغاز حضرت زبیر بن عبدالمطلب نے کیا ۔صاحب ضیاء النبی لکھتے ہیں کہ ’’ حلف الفضول کا آغاز حضرت زبیر بن عبدالمطلب کی تحریک سے ہوا اور اس کے بعد عبداللہ بن جدعان کے گھر چند مشہور قبائل کے سردار جمع ہوئے اور انہوں نے مظلوم کی امداد کرنے کا معاہدہ کیا جو حلف الفضول کے نام سے تاریخ میں مشہور ہوا لیکن اس میں صحیح قوت اور جان اس وقت پیدا ہوئی جب حضور ﷺ نے اس میں سر گرم حصہ لیا اور حضور ﷺ کی ترغیب پر قریشی نوجوانوں کا ایک ایسا مسلح جتھا تیا رہو گیا جو اس معاہدہ کے تحت کیے گئے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہروقت سر دھڑ کی بازی لگانے کے لیے تیار رہتا تھا اور مکہ کے بڑے بڑے سرداروں اور سرمایہ داروں کی مجال نہ تھی کہ ان کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جائے‘ اسی لیے یورپین مورخ نے اس معاہدہ کے نظریہ کو حضور ﷺ کی طرف منسوب کیا ہے ۔ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ اس معاہدہ کا آغاز حضرت زبیر بن عبدالمطلب کی تحریک پر ہوا وہ اس طرح کہ جب ایک تاجر مکہ سردار عاص بن وائل کے ہاتھوں لٹتا ہے تو حضرت زبیر سے اس کی پکار سن کر یارا ئے ضبط نہ رہا ‘ اٹھ کھڑے ہوئے اور اعلان کیا ’’ ما لھذا مترک‘‘ یعنی اب اس فریاد کو نظر انداز کرنا ہمارے بس کا روگ نہیں ۔پھر جب مکی سردار سے اس کا مال واپس دلوایا تو اس موقع پر حضرت زبیر نے مسرت کا اظہار یوں کیا ’’ یہ معاہدہ کرنے والوں نے قسم اٹھائی ہے کہ سر زمین مکہ میں کوئی ظالم نہیں ٹھہر سکے گا ‘‘۔
’’ یہ ایسی بات ہے جس پر ان سب نے متفقہ معاہدہ کیا ہے کہ پردیسی اور فقیر جو ان کے ہاں ہوگا ‘ ہر قسم کے جو رو ستم سے محفوظ ہو گا ‘‘ ۔
آپ ﷺ نے بعثت سے پہلے حلف الفضول منصوبے کی تجویز نہیں دی بلکہ اس تجدیدی معاہدہ کا آغاز آپ ﷺ کے چچا حضرت زبیر کی تحریک سے ہوا اور یہ معاہدہ عبداللہ بن جدعان کے گھر طے پایا تھا‘ جس میں آپ ﷺ نے شرکت فرمائی تھی ۔اس وقت آپ ﷺ کی عمر بیس سال تھی آپ ﷺ نے اس معاہدہ کو فعال کرنے میں از حد کوشش کی ۔ بد امنی لوٹ مار اور جو ر و ستم کا گرم بازار سرد پڑ گیا یہاں تک کہ طاقت ور سے طاقت ور سردار کو ان کے فیصلے چیلنج کرنے کی ہمت نہ رہی
(السیرت النبویہ ۔۱۲۹)علامہ دھلانی لکھتے ہیں ’’وہ ہستی جس نے سب سے پہلے اس معاہدہ کی دعوت دی وہ زبیر بن عبد المطلب تھے ۔ اسی طرح شبلی نعمانی ( ۱۔۱۲۰) لکھتے ہیں ’’ جنگ فجار سے لوگ واپس پھرے تو حضرت زبیر بن عبدالمطلب نے جو رسول اللہ ﷺ کے چچا تھے اور خاندان کے سرگروہ تھے ‘ یہ تجویز پیش کی ‘‘۔
ہیکل ( حیات محمد ) لکھتے ہیں ‘’’ ایک دن حضرت زبیر بن عبد المطلب کی تحریک پر تمام قریش جمع ہوئے۔۔۔۔ اس عہد میں نبی مکرم ﷺ بھی شامل تھے ۔‘‘
حضرت زبیر کی حلف الفضول کی تحریک کے سوا اس تحریک کو سرور عالم سے منسوب کرتے ہیں‘ ماخذ کے خلاف ہے اور اس کی تفصیل معاہدہ کی امتیازی شان نمبر ۶ میں ملاحظہ فرمائیں ۔
عصریات
آپ ﷺ کا فرمان عالی شان ہے ’’ اس معاہدہ یعنی حلف الفضول کے بدلے میں اگر مجھے کوئی سرخ اونٹ دے‘ تب بھی میں لینے کو تیار نہیں اور اس قسم کے معاہدے کی دعوت اسلام میں بھی اگر کوئی مجھے دے تو میں اسے قبول کروں گا ۔‘‘اس ارشاد گرامی سے اشارہ ملتا ہے کہ معاہدہ سرخ اونٹوں سے بھی بہتر اور قیمتی ہے ( آجکل جن کی قیمت کئی بلین روپے ہو سکتی ہے) اور انسانی فلاح و بہبود اور کمزور و ناتواں افراد کے لیے عدل و انصاف فراہم کرنے کو ترجیح دی اور ان تمام مال و دولت کی پیشکشوں اور منفعتوں کا قلع قمع کردیا جو بھلائی کی راہ میں سد راہ بنتی ہیں ۔ یکسر ذاتی اغراض کو نظر انداز اور تج کر کے انسانیت کی بھلائی کا بیڑا اٹھانے کی ترغیب و تعلیم دی ۔ آج ہمیں بھی ان تمام رکاوٹوں اور حائل مشکلات کا سامنا کر کے ایسے معاہدوں کو عمل میں لانا چاہیے ۔ بغیر کسی غرض کے برضا و رغبت ایسی رفاہی تنظیموں ‘ انجیوز اور اداروں کے قیام کی کوششیں برو ئے کار لائیں ۔ اور ذی شعور لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کر کے مسائل کا حل ڈھونڈ نکالیں ۔
ہر کام کے آغاز میں دقتیں اور قباحتیں پیش آتی ہیں لیکن ارادے مضبوط ہوں اور قلب سلیم خیر خواہی کے جذبات سے معمور ہو اور نیتیں صاف ہوں تو یقینا آہستہ آہستہ تمام مشکلیں راہ سے ہٹتی جاتی ہیں اور ایک مثالی معاشرہ جنم لیتا ہے‘ جس طرح حلف الفضول نے باہمی جھگڑوں اور لڑائیوں کا خاتمہ کیا ‘ بد امنی ‘ لوٹ مار اور افراتفری کی گھٹائیں چھٹ گئیں بلکہ نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ اس معاہدہ کو ایسی پذیرائی اور طاقت ملی کہ بڑے سے بڑے سرداروں اور امرا کو ارکین معاہدہ کے فیصلے کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ دوسری طرف مظلوم پر ظلم ڈھانے اور غریبوں کے حقوق پائمال کرنے سے تحفظ بہم پہنچایا۔ آجکل بھی گرل گائیڈ ز ‘ سکاوٹس‘ ہلال احمر ‘ رفاہی فاونڈیش اور انجیوز وغیرہ قائم ہیں جن کے بارے کہا جا سکتا ہے کہ ان کا خمیر حلف الفضول کے معاہدہ سے اٹھایا گیا ہے تو بجا ہو گا ۔ وبائی امراض ‘ قحط ‘ زلزلہ اور سیلاب جیسی آفات کو باہمی کارروائی سے قابومیں لا سکتے ہیں کیونکہ بسا اوقات حکومتی مشینری سست روی یا بے پروائی کا شکار ہو جاتی ہے اور بر وقت حکومت کے انتظام نہ کرنے سے نا قابل تلافی نقصان ہو تا ہے اس وقت یہ رضا کارانہ کمیٹیاں ‘ انجمنیں اور تنظیمیں میدان میں اتر کر حادثات کی شدت میں ہاتھ بٹا سکتی ہیں‘ جس سے انسانی جانوں کے ضیاع ‘ مال وا جداد اور مکانات کے نقصان کا ازالہ ہو پاتا ہے ۔
یہ درست ہے کہ اسلام کا پورا نظام انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے تحفظ فراہم کرتا ہے اور انصاف کی فراہمی سے بچائو اور بڑوں سے چھوٹوں کے حقوق کو غصب کرنے سے تحفظ دینے کا داعی ہے۔ اسلامی حکومتی ادارے امن وامان برقرار رکھنے میں مصروف عمل رہتے ہیں ۔ معاہدہ کی یہ شق ہے ’’ کہ جب تک سمندر اون کو تر کرتا رہے گا اور جب تک حرا اور ثبیر پہاڑ اپنی جگہ پر قائم ہیں ‘‘ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جب تک دنیا کا نظام چلتا رہے گا اس کے مسائل جنم لیتے رہیں گے ۔ کائنات کی ساری چیزیں اپنا عمل جاری رکھے ہوئے ہوں گی تب تک اس معاہدہ کی روح انسانیت کی بھلائی کا درس دیتی رہے گی اور ظلم و زیادتی کے خلاف پکارتی رہے گی ۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاہدہ بدلتے حالات اور نا مساعد حالات میں بدستور زمانے کی ضرورتوں کو پورا کرتا رہے گا ۔ اور کسی نہ کسی شکل میں اس کی ازسر نو تنظیم ہوتی رہے گی یعنی ہر دور میں اس کی باز گشت سنائی دے گی۔ جس طرح کہ معاہدہ اول کے بعد دوبارہ اس معاہدہ کا احیاء ہوا ۔آپ کا ارشاد گرامی ہے ’’ اگر اب زمانہ اسلام میں بھی اس قسم کے معاہدہ کی طرف بلایا جائوں تو ان میں شرکت کروں گا ‘‘ اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ہمیں اس قسم کے بھلائی اور خیر خواہی کے معاہدوں میں شرکت کرنی چاہیے ۔ بلایا جائے تو دعوت قبول کریں ‘ یہی اسوہ رسول کا تقاضہ ہے کہ ایسے امن و سلامتی کے معاہدوں میں شرکت اور شمولیت کو نا گزیر بنائیں اور لاپرواہی یا کسی غرض و ہوس کی بنیاد پر ترک نہ کریں ۔ ایسے معاہدے بنی نوع انسان کے جذبے کے تحت ہوں یہ غیر حکومتی اور غیر مذہبی تنظیم کی بنیاد پر ہوں ہر مذہب ‘ مسلک اور عقیدہ رکھنے والے لوگ تمام انسانیت کی بلا امتیاز خدمت کریں کسی کی دشمنی میں انسانیت کی خدمت سے ہاتھ نہیں کھینچنا چاہیے مثال کے طور پر بنی کلاب کی طرف ایک سریا بھیجا گیا یہ لوگ بنی حنیفہ کے سردار ثما مہ بن اثال کو گرفتار کر لائے ۔ وہ مسیلمہ کذاب کے حکم پر آپ ﷺ کو ٹھکانے لگانے آیا تھا ( نعوذ باللہ ) مسجد نبوی کے ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا یہاں باندھنے کی حکمت یہ تھی کہ پانچ وقت لوگوں کو بارگاہ خدا وندی میں عجز و نیاز سے التجائیں کرتے دیکھ لے تاکہ اس کا دل بھی پسیج جائے اور دین اسلام کی راہ پر چل نکلے ۔ آپ ﷺ ثمامہ کے پاس سے گزرے : فرمایا : میری نسبت تیرا کیسا گمان ہے ؟ ثمامہََ میرا گمان آپ ﷺ کی نسبت اچھا ہی ہے ۔ اگر آپ ﷺ مجھے قتل کریں گے تو ایک خونی کا قتل کریں گے اگر آپ ﷺ احسان فرمائیں گے تو ایک شکر گزار اور قدر دان احسان فرمائیں گے ۔ اگر مال کی خواہش ہے تو جتنا چاہیں لے لو ۔ رسول خدا ﷺ یہ سن کر خاموش ہو گئے ‘ دوسرے روز گزرے پھر پوچھا ‘ ثمامہ پہلا اور دوسرا جملہ حذف کر دیا صرف یہ جواب دیا اگر آپ ﷺ احسان فرمائیں تو ایک قدر دان اور شکر گزار پر احسان ہو گا ۔ آپ ﷺ خاموش رہے ۔تیسرے روز پھر یہی سوال دوہرایا تو ثمامہ نے دوسرا جملہ بھی حذف کر دیا اور اپنا معاملہ آپ ﷺ کے خلق عظیم اور عفو جمیل پر چھوڑ دیا ۔ آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو ۔ وہ قریب کے نخلستان میں گیا اور غسل کر کے واپس آ گیا اور مشرف با اسلام ہو گیا ۔ مکہ میں عمرہ کرنے گیا تو کسی کافر نے انہیں کہا کہ یہ تو صابی ہو گیا ہے ‘ بے دین ہو گیا ہے اس نے کہا نہیں میں محمد ﷺ کا دین قبول کر چکا ہوں اور مسلمان ہو گیا ہوں ۔۔۔۔ پھر کہا جو غلہ یمامہ سے یہاں آتا تھا اب ایک دانہ بھی نہیں آئے گا جب آپ ﷺ اجازت نہیں فرمائیں گے ۔ غلہ کی بندش نے قریش کی بولتی بند کر دی آخر کار حضور ﷺ کی خدمت میں ایک خط لکھا کہ آپ ﷺ تو صلہ رحمی کا سبق دیتے ہیں اور ہم آپ ﷺ کے رشتہ دار ہیں ہم پر رحم فرمائیں اور ثمامہ سے کہیں کہ غلہ بند نہ کرے ۔ آپ ﷺ نے ثمامہ کو خط لکھا کہ غلہ آنا نہ روکیں ۔ یہ ہے خدمت خلق کا جذبہ جس کے سامنے شدت کی دشمنیاں بھی ختم ہو جاتی ہیں اور ان کی امداد کی جاتی ہے ۔ یہی جذبہ معاہدوں میں کا ر فرما ہو تویہی حلف الفضول معاہدہ کی روح ہے ۔
اعتراض نمبر۸۷
یہ (انجمن حلف الفضول) ناانصافی کے خلاف ایک عام انجمن نہیں تھی۔(واٹ)
جواب:بنیادی وجہ : حلف الفضول کے وقوع پذیر ہونے کی بنیادی وجہ جنگ فجار ہے جس کی تباہ کاریوں سے لوگ تنگ آ چکے تھے سینکڑوں لوگ جان کی بازی ہار چکے تھے مائوں کی گود بچوں سے خالی ہو گئی اور شوہروں کا موت کو گلے لگانے سے سہاگنوں کے سہاگ اجڑ چکے تھے ہر وقت لڑائی کے سائے منڈلاتے رہتے تھے کسی وقت بھی کچھ ہو سکتا تھا ایسے حالات میں سرداروں نے سر جو ڑ لیے اور جنگ کی ہولناکیوں سے بچنے کے لیے سوچ بچار کرنے لگے۔ آخر طے پایا کہ ایک صلح کا معاہدہ عمل میں لایا جائے اور اس کی پابندی کی جائے اور اس میں طے شدہ امور پر ہر قیمت پر عمل ممکن بنایا جائے امام ابن جوزی ( الوفا ۔۱۷۳) لکھتے ہیں ’’ اس حلف اور عہد و پیمان کا موجب و باعث یہ تھا کہ قریش باہم ایک دوسرے کے ساتھ حرم پاک میں ظلم و زیادتی کرتے رہتے تھے تو عبداللہ بن جدعان ‘ زبیر بن عبدالمطلب نے لوگوں کو عہد و پیمان پر آمادہ کیا ۔
فوری وجہ : جنگ فجار ختم ہوئی ہی تھی کہ ناگاہ ایک یمن کے تاجر کا سامان عاص بن وائل خرید لیتا ہے لیکن طے کردہ مقررہ وقت سامان کی قیمت ادا کرنے سے انکار کر دیتا ہے اس پر بنو ہاشم (حضور ﷺ کا خاندان) اور ان کے رشتہ دار و اتحادی ‘ بنو المطلب ‘ بنو زہرہ ( آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ کا خاندان )اور بنو تیم ( حضرت ابو بکر ؓ اور عبداللہ بن جد عان کا خاندان ) جمع ہوئے ۔ ابن الجوزی کے مطابق بنو اسد اور مکہ والوں کے اتحادی گروپ احابیش نے بھی شرکت کی یہ سارے عبداللہ بن جدعان کے گھر اکھٹے ہوئے اور تجدیدی معاہدہ حلف الفضول وقوع پذیر ہوا اس معاہدہ پر آپ ﷺ فخر فرمایا کرتے تھے اس اعزاز کو سرخ اونٹوں کے ریوڑ کے بدلے میں بھی دینے کو تیار نہیں ۔حتیٰ کہ اب بھی آپ ﷺ کمزور کی مدد کے لیے جانے کو تیار ہیں ۔ معاہدہ مندرجہ ذیل ہے ۔
۱۔ملک میں بد امنی دور کریں گے ۔ ۲۔ مسافر کی حفاظت کی جائے گی ،
۳۔ کوئی شخص مقیم ہو یا مسافر ( یعنی مکہ یا کسی اور جگہ کا ہو ) جس پر ظلم ہو اس کی حمائت کریں گے اور اس پر کیے گئے ظلم کا ازالہ کریں گے اور زیر دست پر ظلم کرنے سے زبردست کا ہاتھ روکا جائے گا ۔
۴۔ غریبوں کی مدد کریں گے ۔
۵۔ اللہ کی قسم ! ہم سب ظالموں کے خلاف مظلوموں کا ساتھ دینے کے لیے اس وقت تک یک مشت رہیں گے جب تک مظلوموں کو ان کے سابقہ حقوق نہیں مل جاتے اور یہ ساتھ اس عرصہ تک ہو گا جب تک سمندر ایک بھی بال کو گیلا کرنے کے قابل ہو گا اور جب حرا اور ثبیر پہاڑ اپنی جگہ پر قائم رہیں گے ۔
معاہدہ کے معرض وجود میں آنے کی وجہ صرف اور صرف غریبوں ‘ بے یارو مددگار کے جان و مال و عزت و آبرو ‘ مسافروں کے لٹنے اور طاقتوروں کو ناتوانوں پر ظلم کرنے سے روکنا تھا۔ معاہدہ کی تمام شقیں عدل و انصاف کی فراہمی پر مبنی ہیں۔یہ معاہدہ تو ہے انصاف کی فراہمی اور ظلم و زیادتی سے روکنے اور خاتمہ کے لیے۔ مگر’’ واٹ ‘‘ اسے نا انصافی کی انجمن کہتا ہے۔ تاریخی حقائق کو جھٹلانے اور Face the fact سے چشم پوشی کرنے کے مترادف ہے۔ شائد انھیں حلف الفضول کی شقیں نا انصافی پر مبنی لگتی ہوں ‘ لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں دیتا تو پھر’’ واٹ‘‘ مستشرق کا اعتراض قابلِ تسلیم نہیں ہو سکتا۔
دوم: جس واقعہ کی توثیق تاریخی اعتبار سے ہو تو پھر مفروضوں کی قطعاََ گنجائش باقی نہیں رہتی۔
سوم: پیچھے بیان کیے گئے درد ناک ، اندھیر گردی اور اخلاقی گراوٹ و بربریت کے واقعات ‘ جس قدر بھیانک ہیں اسی قدر حلف الفضول کے اراکین نے اپنی مدد فراہم کر کے ظالموں کے پنجہ استبداد سے غریبوں کو چھڑایا اور ان کی داد رسی کی مثال قائم کر دی۔ یہ واقعات وقوع پذیر ہوئے اور بر وقت امداد کر کے ان کو احسن طریق سے حل کیا گیا۔ اگر انجمن حلف الفضول بر وقت کارروائی نہ کرتی تو مکہ کا باشندہ نبیہ بن الحجاج اپنی ہوس پرستی سے عورت کی چادر عصمت کو تار تار کر دیتا۔ نیز ہو سکتا تھا کہ عورت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسی کے گھر کی ہو رہتی تو پھر کہا جا سکتا تھا کہ انجمن نا انصافی پر مبنی تھی ۔ اس کے مقاصد کچھ اور تھے ۔جبھی تو مظلوم کی مدد نہ کی گئی‘ بل کہ ادھر تو کیفیت یہ ہے کہ اراکین انجمن اپنی تلواریں سونت لیتے ہیں۔ مرنے اور مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں اور فوراََ Action کر کے اغواکنندہ سے لڑکی بازیاب کرا لیتے ہیں۔
’’واٹ‘‘ صاحب سے ہمیں پوچھنے کا یہ حق حاصل ہے کہ بتائیں کس قسم کے انصاف پر انجمن ہونی چاہیے تھی؟ یہ بھی بتائیں کہ انجمن کی کاروائی انصاف پر مبنی نہیں تھی؟ یہ بھی بتائیں کہ اس کے سوا یہ وفاق کس طاقت ور قبیلہ یا مال دار طبقہ کے خلاف تھا اس کی کوئی تاریخی شہادت ملتی ہے؟ ایسے اور اس قسم کے دیگر سوالات کا جواب ’’واٹ‘‘ سے نہ بن پڑے گا ۔اس لیے اسے اور اس کے ہم نوائوں کو یہ اقرار کر لینا چاہیے کہ اس کا بیان سچ پر موقوف نہیںمگر ایسا اقرار تو مستشرقین کی گھٹی میں نہیں ہے۔ ہاں انکار چاہے سو مرتبہ کروالو۔
نتیجہ : ’’ واٹ‘‘ اس معاہدہ سے یہ نتیجہ نکالنا چاہ رہا ہے کہ آپ ﷺ کی قبل از اسلام زندگی گم نامی کی زندگی ہے ۔ اس معاہدہ کی رو سے مکہ کے عقل مند اور منصف مزاج لوگ بہ رضا و رغبت متفق تھے اور ان لوگوں کا تعاون حاصل تھا تمام شرکا ء نے نہایت بے غرضی اور دیانت داری سے یہ ذمہ داری سنبھا ل کر یہ کام کیا تھوڑے عرصہ میں امن و امان قائم ہو گیا چونکہ جزیرہ نمائے عرب میں کوئی منظم حکومت نہ تھی اور نہ وہاں باقاعدہ عدالتیں تھیں کہ مظلوم انصاف کے لیے ان کے دروازہ پر دستک دے سکیں ۔ معاشرہ قبائلی نظام کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا ۔ کسی قبلیے کا کوئی فرد دوسرے قبیلہ کے کسی فرد کو قتل کر دیتا تو مقتول کا قبیلہ محض باز پرس کر کے چپ نہیں ہو جاتا تھا بلکہ قاتل کے سارے قبیلہ کو اپنے انتقام کی آگ میں جھونک دینے کے لیے تیار رہتا تھا ۔ کم زور قبائل کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ طاقت ور سے اپنا حق لے سکتے ۔ایسے کمزور قبائل کے حقوق کے تحفظ کے لیے یہ انجمن بنائی گئی تھی۔
رسول اللہ ﷺ اس معاہدہ کے سر گرم رکن تھے اور اکثر بصد افتخار اس کو یاد فرماتے تھے اور کہتے تھے کہ ’’ میں نے عبداللہ بن جدعان کے گھر پر حلف برداری میں حصہ لیا ، اگر اسلام میں بھی اس قسم کے وفاق کے نام پر مجھے مدد کے لیے پکارا جائے تو میں سرخ اونٹوں کی قیمت پر بھی اس کو ترجیح دوں گا لیکن ’’واٹ‘‘ کے مفروضوں پر قائم اعتراضات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس بات کو ثابت کرنا چاہتا ہے جو کئی مستشرقین کے دل کی بات بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی قبل از اسلام زندگی گم نامی کی زندگی ہے اورآپ ﷺ کی ابتدائی زندگی کے حالات و واقعات پوری طرح نہیں ملتے وہ یوں کہنا چاہیے ہیں کہ وہ آپ ﷺ کی اسلام سے قبل زندگی کے واقعات کے منکر ہیں اور یہ کہ آپ ﷺ نے کسی اہم تاریخی واقعہ میں حصہ نہیں لیا چہ جائیکہ اس وفاق میں حصہ لیا ہو جو خاص امن و امان قائم کرنے اور مظلوم و زیر دستوں کی حمایت کے لیے معرض وجود میں آیا ہو جبکہ آپ ﷺ کی زندگی روز روشن کی طرح درخشاں ہے آپ ﷺ کے سر ’’ورفعنا لک ذکر ک ‘‘ کا تاج سجا کر پہلے اور بعد کے فرق کو مٹا دیا اور’’ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ ‘‘ فرما کر آپ ﷺ کی پوری زندگی کو نمونہ قرار دے کر مہر ثبت کر دی کہ آپ ﷺ کی تمام زندگی کھلی کتاب ہے اس کا ہر ہر ورق روشن و درخشندہ ہے آپ ﷺ نے توحید کا درس دیا عدل و انصاف و خیر خواہی و بھلائی اور امداد و تعاون کی تبلیغ کی ۔ ظلم و زیادتی غرض و ہوس اور نا انصافی سے منع فرماتے تھے اور بتوں کی پوجا پاٹ سے روکتے تھے اور یہ معاہدہ جس کی بنیاد سر ا سر خیر و فلاح ہے جس سے گورے کالے کے امتیازات ختم ہو جاتے ہیں اور ہر امیر غریب کو سستا اور بروقت انصاف ملتا ہے۔ یہ آپؐ کی زندگی کے بے نظیر عملی نمونے ہیں ‘جوتاریخ نے اپنے اوراق میں محفوظ کر رکھے ہیں۔
اعتراض نمبر۸۸
’’واٹ‘‘ نے حلف الفضول کے بارے میںایک اور نظریہ قائم کیا ۔اس کا قیاس ہے کہ ہاشم اور المطلب کمزور ہونے کے باعث ایک وفاق کے ضرورت مند تھے۔ انھوں نے حلف الفضول بنو عبد شمس و بنو نوفل ، جو بغیر کسی وفاق کے گزر کرنے کے لیے کافی مضبوط ہو چکے تھے‘ کے خلاف اپنی اعانت کے لیے قائم کیا تھا‘‘ (ن۶۰۷؍۱۱) ۔ نیز ’’واٹ‘‘ اس مفروضہ کی تائید میں دو واقعات کا ذکر بھی کرتا ہے۔ اول مطیبون اور احلاف کا اتحاد‘ دوم حسین بن علی بن ابو طالب اور ولید بن عتبہ بن ابو سفیان کے درمیان جھگڑا‘‘۔
جواب:مزے کی بات یہ ہے کہ’’ واٹ‘‘ بدستور اپنے مفروضوں سے واقعات میں شک و شبہات پید ا کرتا ہے اور اس کی تحقیق اور دعویٰ بے دلیل اور بے بنیاد ہوتا ہے۔
اول: مطیبون اور احلاف کا اتحاد مناصب سے متعلق تھا۔ قصی کے تین بیٹے عبد مناف ، عبدالداراور عبد العزیٰ تھے۔ قصی(ان کے والد) نے جیسے مناصب تفویض کیے‘ عبد مناف نے قبول کیے لیکن عبد مناف کے بیٹے( عبد شمس، ہاشم، المطلب،نوفل) اپنے تایا عبد الدار اور اس کے بیٹوں کی بالا دستی زیادہ دیر تک برداشت نہ کر سکے۔اس طرح کچھ قبائل عبد مناف اور کچھ عبد الدار کے ساتھ ہو گئے۔ عبد مناف نے بنو اسد، بنو زہرہ اور الحارث کے ساتھ وفاق بنایا یہ مطیبون کہلاتے ہیں۔ وہ اس لیے کہ انھوں نے خوشبو کے بھرے پیالہ میں ہاتھ ڈال کر حلف اٹھایا تھا۔ بنو عبدالدار کے حلیف بنو مخزوم ، بنو ہاشم، بنو جمح اور عدی قبائل تھے‘ یہ گروہ احلاف کہلائے۔ احلاف کے معنی ’وفاق‘ کے ہیں۔ قریش الظواہر کے عامر بن لوی اور محارب غیر جانب دار رہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ کہتے ہیں کہ ’’ قبائلی رقابت کی وجہ سے سعد بن سہام حلف الفضول میں شامل نہ ہوئے۔لیکن وہ اسی نوع کا کوئی انتظام کرنا چاہتے تھے۔ ان کے بنو زہرہ سے خوش گوار تعلقات تھے۔وہ رسول اللہ کی والدہ کا قبیلہ تھا۔چنانچہ ان دونوں نے مل کر ’’ حلف الاصلاح ‘‘( معاہدہ صلح) کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے اعلان کیا کہ ’’ اگر بنو قریش یا ان کے حلیف احابیش میں سے کسی کے درمیان جھگڑا ہوا تو وہ فریقین میں مفاہمت کرائیں گے ۔ بنو زہرہ چونکہ دونوں معاہدوں میں اہم حیثیت کے مالک تھے اس طرح غالباََ ان دونوں معاہدوں میں بھی ایک طرح کا رابطہ تھا۔ (ن ۲؍۵۲۱) ’’واٹ‘‘ نے فجار کے سلسلہ میں جس عبارت کا اقتباس دیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عبد مناف کے بیٹوں عبد شمس، نوفل، ہاشم اور المطلب کے خاندانوں نے اپنے دشمنوں کے خلاف بغیر آپس کی کش مکش اور افتراق کے ایک متحدہ محاذ پیش کیا ۔ یہ یاد رہے کہ بقول ابن سعد حلف الفضول کا معاہدہ’’ الفجار‘‘ جنگ کے بعد ایک مہینہ کے اندر اندر قائم کیا گیا تھا۔ یقینا وہ واقعہ جسے ’’واٹ‘‘ بیان کرتا ہے ان چند دنوں میں وقوع پذیر نہیں ہوا تھا۔ (ن۱۱؍۶۰۷) نیز یہ جھگڑا مناصب کی تقسیم کا تھا اور یہ معاملہ ثالثی سے طے پا گیا‘جس سے عبد مناف کو افادہ اور سقایہ کے منصب دئیے گئے تھے۔
واقعہ دوم: ابن اسحاق سے یزید بن عبد اللہ بن اسامہ بن الہادی اللیشی نے بیان کیا‘ انھوں نے محمد بن ابراھیم الحارث تیمی سے روایت سنی کہ حسین بن علیؓ بن ابی طالب اور ولید بن عتبہ بن ابو سفیان کے درمیان کسی جائیدادکے متعلق جھگڑا تھا‘ جو ’’ ذی المروہ‘‘ میں تھی(وادی قریٰ کی ایک وادی یا بستی) ۔ ان دنوں مدینہ پر حاکم ولید بن عتبہ تھا اور یہ عہدہ اس کے چچا معاویہ بن ابو سفیان نے دیا تھا۔ ولید نے اپنے اقتدار میں حسین ابن علیؓ سے زیادتی کی تھی۔حسینؓ نے فرمایا: میں خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ تجھے میرے حق میں انصاف کرنا ہوگا۔ ورنہ میں اپنی تلوار لوں گااور مسجد رسول اللہ میں کھڑا ہو کر حلف الفضول کی رو سے امداد طلب کروں گا ‘‘ ۔ راوی کہتا ہے کہ حسین ؓ کی اس گفت گو کے وقت عبد اللہ بن زبیر بھی پاس تھے، انھوں نے کہا : میں بھی خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ اگر انھوں نے حلف الفضول کی رو سے امداد طلب کی تو تلوار لے کر ان کے ساتھ کھڑا ہو جائوں گا ۔ یہاں تک کہ ان دونوں کے حق میں انصاف کیا جائے یا ہم سب مر جائیں گے۔ راوی کہتا ہے کہ یہ خبر جب مِسوَر بن مخرمہ بن نوفل الزھری کو پہنچی تو اس نے بھی وہی کہا اور عبدالرحمن بن عثمان بن عبید اللہ تیمی کو یہ معلوم ہوا تو اس نے بھی وہی کہا۔یہ بات جب ولید بن عتبہ تک پہنچی تو اس نے حسین کے حق میں انصاف کیا‘ یہاں تک کہ وہ اس معاملہ پر راضی ہوگئے( ابن ہشام ۱۶۰؍۱)
اہم نکتہ:حسین بن علی بن ابی طالبؓ اور ولید بن عتبہ بن ابو سفیان کے جھگڑے کو قدیم حلف الفضول کا حوالہ نہیں سمجھنا چاہئیے۔امام حسینؓ نے قدیم حلف الفضول کے نمونہ پر اتحاد قائم کرنے کی دھمکی دی تھی جو ظالموں کے خلاف مظلوموں کے تحفظ کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ جواد علی کہتے ہیں کہ ’’ حسینؓ ابن علیؓ کے حوالہ سے یہ اخذ کرنا ممکن نہیں کہ قدیم حلف الفضول اس وقت بھی زیرِ عمل تھا۔ مزید یہ کہ حلف الفضول بنو امیہ کے خلاف بنو ہاشم کا سیاسی اتحاد تھا جیسا کہ ’’واٹ‘‘ نے خیال کیا ہے ۔یہ درست نہیں کیوں کہ حسینؓ ابن علیؓ کی زندگی میں اس کا بہترین موقع وہ تھا جب ان کا سیاسی تنازعہ بنو امیہ سے ہوا تھا مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا اور یہ بھی واضح رہے کہ حسینؓ ابن علیؓ نے اس نازک مرحلہ پر بھی کبھی حلف الفضول انجمن سے فریاد نہیں کی‘‘ ۔ سو بات کی ایک بات کہ حلف الفضول اس وقت زیرِ عمل نہ تھا۔ ختم ہو چکا تھا۔البتہ آنحضرتﷺ کی شادی یعنی ۵۹۵ تک پوری طاقت سے یہ حلف برقرار تھا(ن۱۱؍۶۰۸۔۶۰۷)
اعتراض نمبر۸۹
’’واٹ ‘‘ قبیلہ ہاشم کی اہمیت گھٹانے کے لیے ایک اور شوشہ چھوڑتا ہے کہ بنو ہاشم نے حلف الفضول میں بہت اہم کردارادا کیا تھا۔یہ تنظیم ان قبائل نے بنائی تھی جو مکہ کے اجارہ دار قبائل کے خلاف تھے اور خود وہ قبائل کمزور تھے۔۔ وہ کہتا ہے جن قبائل نے حلف الفضول کا معاہدہ کیا تھا‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ وہ قبائل تھے جو یمن کی طرف سے تجارتی قافلے بھیجنے کی اہلیت نہ رکھتے تھے یا وہ قبائل تھے جو شام اور مکہ کے درمیان ہونے والی تجارت میں ہی خصوصی مہارت رکھتے تھے۔( ضیا النبی ۱۹۸؍۷)
جواب:’’واٹ‘‘ کا یہ الزام کہ بنو ہاشم اور عبد المطلب کے کمزور ہونے کے باعث یہ معاہدہ اجارہ دار قبائل کے خلاف وفاق تھا۔ سابقہ اعتراض میں اس کا رد کر دیا گیا ہے۔ پھر لفظوں کے ہیر پھیر سے ’’واٹ‘‘ نے اسے تجارتی ضرورت قرار دیا۔ ’’ واٹ‘‘ کا سارا کام مفروضوں پر مبنی ہے ۔ان مفروضوں پر انحصار کرتا ہے سوائے اس کے اور کچھ نہیں۔ بھلا سوچیے کہ مفروضے کب تک حقیقت کے سامنے ٹھہر سکتے ہیں ؟ بنو ہاشم کا قبیلہ تو وہ ہے جس کے امجاد نے غسان و روم کے شہزادوں سے تجارتی معاہدے کیے۔ بازنطینی ‘ مکہ تعلقات کچھ دیر خوش گوار رہے۔ بعدازاں قصی کے پوتے ہاشم نے ۴۶۷ء میں قیصر روم سے شام اور فلسطین کے مابین مکی تجارتی قافلوں کی قیادت کا پروانہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ مزید برآں شہنشاہ نجاشی کے نام ایک تجارتی خط بھی دیا تاکہ وہ انھیں اسی نوعیت کا اجازت نامہ ان قافلوں کے لیے دے دے‘ جو حبشہ جا رہے ہوں(حمید اللہ۔پیغمبر اسلام۔۲۲۶) ان کی وسیع پیمانے پر تجارت کو کسی قسم کا خطرہ نہ تھا کہ وہ وفاق کرتے۔ دوم: بنو ہاشم کا قبیلہ خانہ کعبہ کا متولی تھا ۔ دُور دراز سے آنے والے زائرین اور تاجران ان سے شناسا تھے۔ اس قبیلہ کے تجارتی قافلے جہاں کہیں بھی جاتے انھیں کوئی بھی نہ لُوٹتا۔ یہ خانہ کعبہ کی متولیت ہونے کا اعزاز بھی تھا۔
سوم: بنو ہاشم قبیلہ افرادی لحاظ سے بھی اتنا کمزور نہ تھا۔ ان واقعات سے اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ ابو جہل کا قبیلہ مضبوط تھا اور اسے حلیف کی حمایت بھی حاصل تھی۔قبیلہ کی سرداری اس کے نام منسوب تھی۔حضرت حمزہ‘ ہاشمی جو ان نے اپنے بھتیجے محمدﷺ کے ساتھ ابو جہل کی گستاخی کا یوں نوٹس لیا کہ اپنی کمان سے ابو جہل کا سر پھاڑ دیا۔ اہلِ محفل دیکھتے رہے لیکن حضرت حمزہ کا ہاتھ نہ روک سکے۔یہ اسی کمزور قبیلہ کا ایک فرد ہے جس نے ابو جہل اور اس کے موجود حمائتیوںکی پروا کیے بغیر اس پر وار کیا۔اگرچہ کچھ لوگ حمزہ کے خلاف اٹھنا چاہتے تھے، جنھیں ابو جہل نے روک دیا۔اس سے یہ کوئی مطلب اخذ نہ کر بیٹھے کہ اگر ابو جہل اپنے ساتھیوں کو نہ روکتا تو حمزہ کا نہ جانے کیا حال ہوتا۔ نہیں نہیں یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں کیوں کہ حمزہ نے ان کے پاس بیٹھے حمایتیوں کو دیکھ لیا تھا۔اگر وہ ان سے ڈر تے تو حملہ ہی نہ کرتے مگر ایسانہیں ہوا۔حمزہ کے دل میں جو آیا وہ کر ڈالا۔یہ ایک فرد کی طاقت کا مظاہرہ ہے تو پورے قبیلہ کی طاقت کا کیا عالم ہوگا؟
ہجرت مدینہ کے موقع پر رات کے وقت ہر قبیلہ کا ایک جوان درِ نبوت کا محاصرہ کیے ہوئے ہے کہ آپؐ کی برآمدگی پر یک بارگی حملہ کر کے نعوذباللہ کام تمام کر دیں۔ یعنی کسی ایک قبیلہ کو جرات نہیں ہوتی کہ ہاشمی قبیلہ کی دشمنی مول لیتا۔ اس لیے قبائل سے ایک ایک جوان پہرہ میں شریک ہوتا ہے۔ اسی طرح عتبہ اور ولید بن عتبہ نے اپنے مقابل جنگ بدر میں جو جنگجو طلب کیے اور یہ شرط لگائی کہ اپنے خاندان کے آدمیوں کو بھیجو۔ آپ نے حمزہؓ، عبیدہؓ اور علیؓ کو مقابلہ کا حکم دیا۔قریش نے قبول کیا کیوں کہ پہلے جو جنگجو ان کے مقابلہ پر گئے تھے انھیں ہم پلہ نہ سمجھ کر مطالبہ کیا کہ اپنے خاندان کے آدمیوں کو بھیجو۔ گویا ان جنگجوئوں کو اپنے ہم پلہ سمجھتے تھے۔ حضرت ام حبیبہ بنت ابو سفیان سے آپ نے نکاح کیا۔ اس پر ابو سفیان اور دیگر قبیلہ کے افراد کو کوئی اعتراض نہ تھا کیوں کہ وہ بنی ہاشم کو اپنا ہم پلہ سمجھتے تھے۔بایں سبب اس نکاح کی خبر سن کر ابوسفیان باوجود دشمنی کے حضورؐ کے ساتھ رشتہ پر فخر کیا کرتا تھا۔ اگر ام حبیبہ کسی ایسے مسلمان سے شادی کر تیں جو ان کا ہم پلہ نہ ہوتا تو ان کی عداوت میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا۔ (ضیاالنبی۵۱۱) حلف الفضول تجارتی معاہدہ تھا نہ طاقت ور قبائل کے خلاف وفاق تھا۔ بقول وزیر رومانیہ کونستانس جیورجیو حلف الفضول عبارت ہے اس منظم دستہ سے جو مسلح نوجوانوں پر مشتمل تھا اور جن کا مقصد یہ تھا کہ کسی مظلوم کا حق ضائع نہ ہو‘‘ ۔ بے یارومددگاراور مظلوم جو بڑوں کا نشانہ ستم بنے ہوئے تھے ،ان وڈیروں کا رعب داب، دھونس اور طاقت کی ایسی دھاک بیٹھی ہوئی تھی کہ کسی کوروکنے کا حوصلہ نہ تھا، اس معاہدہ سے اب بے کسوں کو ایک سہارا مل گیا جب بھی کسی پر ظلم و زیادتی ہوتی تو اس ظالم سے ظلم کا حساب چکاتے۔ حلف الفضول کا دستہ داد رسی کے لیے میدان میں اتر آتا۔ ملک سے لوٹ مار، بد امنی کا خاتمہ، مسافروں، تاجروں اور غریبوں کی امداد خواہ وہ مقامی ہو یا غیر مقامی ، زبردست سے زیر دست کے حقوق کا تحفظ ،جان و مال اور عزت و آبرو کی پاسداری وغیرہ حلف الفضول کے مقاصد تھے۔ نہ کوئی معاشی اور نہ ہی کوئی تجارتی اور نہ ہی کسی طاقت ور قبیلہ کے خلاف کمزور قبیلہ کا اتحاد تھا۔ بل کہ یہ تو ہر اس فرد ، اس قبیلہ کے خلاف اقدام تھا جو ظلم و زیادتی کو محبوب مشغلہ سمجھتاتھا۔حلف الفضول کی ایک شق یہ ہے کہ’’ اس حلف سے اس کے بغیر( مظلوم کی داد رسی کے) ہمارا کوئی اور مقصد نہ ہوگا‘‘ سے ہمارے موقف کی تائید اور ’’واٹ‘‘ کے مفروضہ کی تردید ہوتی ہے
سیرت ابن ہشام میں ہے کہ انہوں نے پختہ پیمان باندھا اور باہمی معاہدہ کیا کہ وہ جس کسی کو اہل مکہ میں سے یا ان تمام انسانوں میں سے جو مکہ مکرمہ میں داخل ہو اسے وہ ظلم کا شکار پائیں تو یقینا اس کا ساتھ دیں گے اور وہ اس وقت تک ظلم کے خلاف مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں گے جب تک اس ظلم کا ازالہ نہ ہو جائے ۔اس روایت کی روشنی میں معاہدہ کے ارکان ایک ایسی تحریک کا آغاز کرتے ہیں ۔
اہم نکتہ: بعض روایات میں ہے کہ حضوراکرمؐ نے حلف المطیبین میں بھی شرکت کی۔ مگر یہ موقف درست نہیں ۔کیوں کہ یہ معاہدہ حضور اکرمؐ کے عالم رنگ و بو میں جلوہ افروز ہونے سے قبل طے پایا تھا۔یہ معاہدہ بنو عبد مناف بن قصی یعنی بنو ہاشم ، بنو عبد شمس، بنو مطلب، بنو نوفل،بنو زہرہ، بنو تیم، بنی حارث کے مابین ہوا تھا۔انھیں مطیبون کہا جاتا تھا۔ان کے ساتھ ان کے چچا زاد بنو عبد الدار بن قصی بھی تھے۔ بنو مخزوم، بنو سہم، بنو جمح اور بنو عدی ان کے حلیف تھے۔ انھیں احلاف کہا جاتا تھا۔ (السیرۃ النبویہ۔۱۔۱۳۱)
نیز مطیبون اور احلاف کا اتحاد اس وقت قائم ہوا جب بنو عبد مناف کا جھگڑا بنو عبد الدار سے اس بات پر ہوا تھا کہ وہ بھی اپنے جد قصی کے قائم کردہ اختیارات و مناصب میں حصہ رکھتے ہیں۔ یہ معاملہ ثالثی سے طے ہوا تھا جس کی رُو سے افادہ اور سقایہ کے مناصب عبد مناف کو دئیے گئے تھے۔ باقی بدستور عبدالدار کے پاس رہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...