Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات > حضرت خدیجہ ؓ سے شادی اور ان کا کاروبار

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

حضرت خدیجہ ؓ سے شادی اور ان کا کاروبار
ARI Id

1689956726155_56117742

Access

Open/Free Access

Pages

۳۳۷

حضرت خدیجہؓ سے شادی اور ان کا کاروبار
اعتراض نمبر۹۰
جب آپ ؐ جوان ہوگئے اور مضبوط ہوگئے( آپ کے پاس زیادہ مال نہ تھا) سیدہ خدیجہؓ نے آپﷺ کو تجارت کے لیے اجرت پر بلالیا۔۔اور حضور ؐ کے ساتھ ایک اور آدمی کو اجرت پر رکھ لیا‘‘ ( اردو ترجمہ دلائل نبوہ ۱۔۶۴۔۔ ابوبکر احمد بن الحسین بیہقی)
’ تاریخی کتب سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ نبی مکرمﷺ کو سیدہ خدیجہؓ نے گویا اپنا ملازم یا تجارتی کارندہ مقرر کیا تھا‘‘ ( سیرت اعلان نبوت سے پہلے۔۲۹۵۔۲۹۴)
جواب:صاحب ضیا النبی( ۔۲۔۲۱۷) لکھتے ہیں کہ آپ( خدیجہ) اپنے نمائندوں کو سامان تجارت دے کر روانہ کرتیں‘ جو آپ کی طرف سے کاروبار کرتے۔ اس کی دو صورتیں تھیں ۔
اول: یا تو ملازم ہوتے، ان کی اجرت یا تنخواہ مقرر ہوتی جو انھیں دی جاتی‘ نفع و نقصان سے انھیں کوئی سروکار نہ تھا۔
دوم: یا نفع میں ان کا کوئی حصہ ،نصف یا چہارم مقرر کر دیا جاتا۔ اگر نفع ہوتا تو وہ اپنا حصہ لے لیتے ۔بصورت دیگر یعنی نقصان کی صورت میں ساری ذمہ داری خدیجہؓ پر عائد ہوتی ‘ اس کو شریعت میں’’ عقد مضاربہ‘‘ کہتے ہیں۔ آنحضرت ایک خود مختار اور خوش حال تاجر تھے۔ آپ نے کسی تاجر کی ملازمت کبھی اختیار نہیں کی تھی‘ ڈاکٹر تحسین فراقی نے کتاب کے تعارف میں لکھا ’’ ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ حضرت خدیجہ نے حضورؐ کو اپنا ملازم یا تجارتی کارندہ مقرر کیا تھا۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت خدیجہ ؓ سے نکاح سے بہت پہلے آپؐ خود مختار اور خوش حال تاجر کے طور پر معروف ہو چکے تھے اور اس ذیل میں قیس بن السائب کی روایت استناد کا درجہ رکھتی ہے۔
ایک اور روایت:ابو طالب نے اپنے بھتیجے سے کہا ’’ میں نے سنا ہے کہ (حضرت خدیجہ) اجرت پر ملازم رکھ رہی ہے۔ آپؐ ان سے مل کر ملازمت حاصل کر لیں ۔خدیجہ نے ہر ملازم کا معاوضہ دو دو اونٹ مقرر کیا ہے‘ اگر یہ کام کر سکو تو میں بی بی خدیجہ سے دریافت کروں؟ لیکن ہم اتنے معاوضے پر نہیں کریں گے۔ پھر ابو طالب نے خدیجہ سے بات کی اور کہا ’’ دوسروں کی طرح ہم دو اونٹوں پر مزدوری نہیں کر سکتے،اگر تم میرے برادر زادہ کے لیے چار اونٹ منظور کر لو تو وہ بھی چلے جائیں ‘‘ حضرت خدیجہ ؓ دو گنا دینے پر رضا مند ہو گئیں۔ جیسا کہ اوپر بیان ہو ا ہے کہ آپؐ ایک خود مختار اور خوش حال تاجر تھے۔ آپ نے کسی تاجر کی ملازمت اختیار نہیں کی تھی۔ اس بنا پر ابو طالب نے ملازمت کے لیے نہیں کہا ہوگا بل کہ حصہ داری کے لیے کہا ہوگا جسے خدیجہ ؓ نے قبول کر لیا۔دوم: جب حصہ داری منافع پر ٹھہری تو پھر دوسروں سے دوگنا صلہ لینا چہ معنی دارد؟ اس بات کی تائید درج ذیل بیان سے بھی ہوتی ہے۔
پیر کرم شاہ بھیروی لکھتے ہیں کہ قحط سالی نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ میرے پاس سرمایہ بھی نہیں کہ اسے تجارت میں لگا سکوں۔۔ خدیجہؓ کئی لوگوں کو اجرت دے کر بھیج رہی ہے کہ وہ اس کا مال لے جائیں اور تجارت کریں ۔اگر آپؐ اس کے پاس جا کر اپنی خدمات پیش کریں تو یقیناََ وہ آپ ﷺ کو دوسروں پر ترجیح دیں گی کیوں کہ آپ کے خصال حمیدہ سے خوب واقف ہے ۔اگرچہ میں پسند نہیں کرتا کہ آپﷺ کو شام روانہ کروں کیوں کہ وہاں یہود سے ایذا رسانی کا خطرہ ہے لیکن اب اس کے بغیر کوئی چارہ کار بھی نہیں۔ حضور ﷺ کی غیرت نے کسی کے پاس سائل بن کر جانا گوارا نہ کیا اور اپنے شفیق چچا کو جواب دیا’’ شائد وہ خود ہی مجھے اس سلسلے میں بلا بھیجے۔ ابو طالب نے کہا: مجھے اندیشہ ہے کہ وہ کسی اور کو مقرر کردے گی ۔پھر آپ ایک ایسی چیز کو طلب کریں گے جو پیٹھ پھیر چکی ہوگی۔ حضورؐ نے جواب میں خاموشی اختیار کر لی۔ حضرت خدیجہ ؓنے حضورؐ کے محاسن اخلاق، آپ کی دیانت اور پاک بازی کی شہرت سن رکھی تھی لیکن اس پیش کش کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ جب انھیں چچا بھیتجا کی اس گفت گو کا علم ہوا تو فوراََ پیغام بھیج کر بلایا۔۔۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...