Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

شادی سے متعلق روایات
ARI Id

1689956726155_56117743

Access

Open/Free Access

Pages

۳۳۹

شادی سے متعلق روایات
(۱) طبرانی نے عبداللہؓ بن عباسؓ سے روایت کی کہ حضرت خدیجہؓ کے والد آنحضرت ﷺ کے ساتھ نکاح کرنا نہیں چاہتے تھے حضرت خدیجہؓ نے کھانا پکایا اور اپنے باپ اور قریش کے چند لوگوں کو بلایا۔ سب لوگوں نے کھانا کھایا اور شراب پی یہاں تک کہ خویلد کو نشہ چڑھ گیا اس وقت خدیجہؓ نے اپنے باپ سے کہا ! میری شادی آنحضرت ﷺسے کر دیں چنانچہ ان کی شادی آنحضرت ﷺ سے کر دی خدیجہؓ نے اپنے باپ کو خلوق لگائی اور انہیں نیا جوڑا پہنایا ۔ اس وقت یہ رواج تھا چنانچہ جب باپ کا نشہ اترا تو اس نے نیاجوڑا اور خلوق لگی دیکھی تو دریافت کیا کہ میرا یہ حال کیسا ہے ؟ خدیجہ نے کہا کہ میری شادی محمدؐ بن عبداللہؓ سے ہو گئی ہے ‘ باپ نے کہا ! میں ایک یتیم سے تمھاری شادی نہیں کروں گا ‘ اللہ کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہو گا ۔ خدیجہ نے اپنے باپ سے کہا کہ آپ قریش کے سامنے یہ کہیں گے کہ میں نشہ میں تھا اور میں نے اپنی بیٹی کی شادی کر دی ۔ چنانچہ خدیجہؓ کے باپ نے جب یہ بات سنی تو راضی ہو گئے ۔ (سیرت خدیجۃ الکبری ٰ از محمد حسیب القادری ۔۲۷۔۲۶)
(۲) ایک اور روایت : حضرت عمار ؓبن یاسر فرماتے ہیں ‘ میں سب سے زیادہ جانتا ہوں ‘ حضورﷺ کے خدیجہؓ سے بیان کے بارے میں کیونکہ میں حضور کا ہم عمر تھا اور میں آپ کا دوست اور پیارا تھا ۔ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک دن باہر نکلا اور ہم بازار حزورہ میں پہنچ گئے ۔ ہمارا گزر سیدہ خدؓیجہ کی بہن کے پاس سے ہوا ‘ وہ ایک بچھونے پر بیٹھی تھی جس کو وہ فروخت کرنا چاہتی تھی اس نے مجھے آواز دی ‘ میں اس کی طرف لوٹ آیا ۔ رسول اللہ ﷺ میرے لیے اپنی جگہ پر کھڑے رہے ۔ اس نے مجھ سے کہا کہ کیا تیرے اس دوست ( محمد ﷺ) کو خدیجہؓ سے شادی کرنے کی ضرورت ہے؟ عمارؓ کہتے ہیں کہ میں آپ ﷺ کی طرف لوٹ کر آیا تو میں نے آپ کو یہ بات بتائی حضور ﷺ نے فرمایا‘ ہاں ! کیوں نہیں : میں نے جا کر رسول اللہ ﷺکی یہ بات اس کو بتا دی ۔ اس نے کہا کہ تم لوگ صبح کو ہمارے پاس آنا ‘ چنانچہ ہم لوگ ان کے پاس پہنچ گئے ۔ ہم نے ان کو اس طرح پایا کہ انہوں نے گائے ذبح کی ہوئی تھی اور خدیجہ ؓ کے والد کو ایک جوڑا بھی پہنایا ہوا تھا اور ان کی داڑھی کو بھی رنگ لگایا ہوا تھا ( پیلا رنگ یا مہندی وغیرہ ) میں نے خدیجہ کے بھائی سے بات کی ‘ اس نے اپنے والد سے بات کی ‘ حالانکہ وہ اس وقت شراب پئے ہوئے تھے ۔ رسول اللہ ﷺ کا ان کے سامنے ذکر کیا گیا اور ان کا مرتبہ بھی ۔ تم نے ان سے خدیجہ کے ساتھ بیاہ دینے کی درخواست کی ‘ انہوں نے خدؓیجہ کو ان کے ساتھ بیاہ دیا ۔ ان لوگوں نے گائے کے گوشت سے کھانا بنایا ہم لوگوں نے اس میں سے کھانا کھایا ‘ پھر ان کے والد سو گئے ‘ پھر وہ اٹھے تو چیخ رہے تھے کہ یہ کیسا جوڑا ہے اور شراب کیسی ہے اور یہ کھانا کیسا ہے ؟ چنانچہ ان کی بیٹی نے جس نے خدؓیجہ کی شادی کی بات عمار سے کی تھی ‘ اس نے ان سے کہا کہ یہ جوڑا تمہیں محمدؐ بن عبداللہ ‘ تمہارے داماد نے پہنایا ہے اور یہ گائے ہدیہ کی تھی ہم نے اس کو ذبح کیا ہے اور تم نے خدیجہؓ کے ساتھ بیاہ کیا ہے ۔ا س نے انکار کیا کہ اس نے خدیجہ ؓ کو ان کے ساتھ بیاہ دیا ہے اور چیختا ہوا باہر نکل گیا حتیٰ کہ ایک پتھر کو اٹھا کر لے آیا اور بنو ہاشم رسول اللہ ﷺکے ساتھ نکل آئے اور اس کے پاس گئے اور اس سے بات کی ‘ پھر وہ کہنے لگے کہ وہ تمھارا بندہ کہاں ہے جس کے بارے میں تم کہتے ہو کہ میں نے اس کے ساتھ خدؓیجہ کا بیاہ کر دیا ہے ؟ ( ترجمہ دلائل النبوہ۔۲۔ص۔۳۲۵)
رسول اللہ اس کے سامنے آگئے ‘ جب اس نے آپ کی طرف دیکھا تو کہا کہ اگر میں نے اس کے ساتھ بیاہ دی ہے تو ٹھیک ہے اور اگر نہیں بیاہی تھی تو اب میں نے اسے اس کے ساتھ بیاہ دیا ہے ۔ اس طرح بھی عمار کی سند سے روایت ہے ایک بار خدیجہ کو ابو ہالہ نے کوہ صفا و مروہ کے درمیان دیکھا اور ہالہ نے خود حضرت عمار کے ذریعہ رسول اللہ کو خدیجہ کا پیغام دیا آپ نے قبول کیا اور دوسرے دن آپ اپنے چچائوں کے ساتھ خدیجہ کے گھر گئے اور ابو طالب نے نکاح پڑھا ۔۔۔۔ علامہ یعقوبی نے خویلد بن اسد کی اس شادی میں بحالت نشہ اور بحالت ہوش ناراضی کی روایت بیان کی ہے ۔پھر اس روا یت کے بعد ابن اسحق کی روایت کا حوالہ دیتا ہے کہ خویلد نے خود اپنے ہاتھوں سے اس شادی کی تقریبات کو برضا و رغبت انجام دیا۔ ڈاکٹر مظہر الدین اپنے ایک مضمون نقوش رسول نمبر ۱۔ ۵۷۷ بحوالہ تاریخ یعقوبی عمار والی روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ حضرت عمار والا حدیث کا ٹکڑا الحاقی معلوم ہوتا ہے ۔ اس کا مقصد حضرت عمار کی عظمت و شان کی سیاسی رجحان کے سبب ظاہر کرنا ہے۔
یہ روایت بھی کی جاتی ہے کہ حضرت خدیجہ نے اپنے چچا سے ان کی رضا مندی پہلے ہی سے حاصل کرنے کی جرات نہیں کی مبادا کہ وہ محمد ﷺ کی غربت کی وجہ سے اعتراض کریں اور خاندان کے دوسرے افراد کی طرح انہوں نے اپنے چچا کو بھی اجتماع کا اصل مقصد بتائے بغیر ہی مدعوکیا ۔ جہاں تک آپ ﷺ کے چچا کا تعلق ہے تو وہ تقریر کرنے کے لیے اس وقت کے رسم ورواج کے مطابق خدیجہؓ کے اشارہ کا انتظار کرنے لگے تھے جب کھانا کھلا دیا گیاتو حضرت خدیجہ ؓنے اس طرف خصوصی توجہ دی جو کچھ ان کے چچا نے پیا جب چچا نے پینا شروع کیا تو خدیجہؓ نے انہیں خوبصورت چادر سے ڈھانپ دیا ‘ انہیں زعفران سے بنی ہوئی خلوق لگائی ا ور پھر ابو طالب کو اشارہ کیا ۔ ابو طالب کھڑے ہوئے ‘ انہوں نے معمول کے مطابق عورت کے خاندان کے سر براہ سے باضابطہ اجازت چاہی ۔ اپنی تقریر میں ابو طالب نے اپنے بھتیجے کی بے مثل و بے نظیر خوبیوں کو بیان کیا جو کسی بھی دوسرے مکی جوان میں نہیں تھیں ‘ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا بھتیجا اگرچہ امیر نہیں ہے مگر دولت ڈھلتے سائے کی طرح ہے ‘ تاہم قابل ذکر بات ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو بہت پسند کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو بہتر سمجھتے ہیں ‘ چنانچہ دونوں کے ملن میں اس سے زیادہ مناسب و موزوں بات نہیں ہو سکتی ۔ خدیجہ کے چچا زاد ورقہ بن نوفل کو بھی لازمی طور پر اعتماد میں لیا گیا ۔ وہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے یہ کہہ کر اس تجویز کی تائید کی کہ ’’ محمد ﷺ ایک ایسے اچھی نسل کے اونٹ کی مانند ہیں جسے بٹھانے کے لیے اس کی ناک پر چھڑی نہیں مارنا پڑتی ‘‘۔ حضرت خدیجہؓ کے چچا ساکت و جامد رہے اور ان کی خاموشی ہی کو رضا مندی سمجھا گیا ۔معمول کی تالیوں اور مبارکبادیوں کی گونج میں مہمان خشک کھجور اور مصری کی ڈلیوں کی طرف لپکے ‘ جو روایتاََ دلہا کے سر پر پھینکی جاتی ہیں یہ شام کا وقت تھا جب بوڑھا چچا عمرو بن اسد نیند سے بیدار ہوا اور انتہائی حیران زدہ ہو کر پوچھا کہ یہ خوشبویات ‘ مہک آمیز دھواں ‘ پر تکلف لباس اور موسیقی کہا ں سے آئے ؟ خدیجہ ؓنے جواب دیا ’’ لیکن یہ تو آپ ہی ہیں جنہوں نے عبداللہ کے بیٹے محمد ﷺ سے شہر کے معززین کی مو جودگی میں آج میرا نکاح کیا ہے۔ اس پر چچا اور آزاد و خود مختار بھتیجی میں تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہوا ۔ ابن سید الناس اس میں اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شادی شدہ جوڑے کے دونوں طرف سے کچھ نوجوان رشتہ داروں نے ہتھیار اٹھا لیے تھے لیکن انہیں استعمال کرنے کی ضروت پیش نہیں آئی ۔ جب عمرو نے دیکھا کہ دلہا ایک اعلیٰ خاندان کا اور شریف النسل نوجوان ہے اور یہ کہ خدؓیجہ کوئی مصلحت رعایت نہیں کرے گی تو اس نے بہتر یہی سمجھا کہ خاموشی اختیار کی جائے اور اس میں شوہر کو اپنی دلہن لے جانے کی خوشی وآمادگی کے ساتھ اجازت دے دی ۔ ‘‘ ( پیغمبر اسلام ۔ڈاکٹر محمد حمید اللہ ۔ص ۷۶)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...