Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات > اعلانِ نبوت سے پہلے حضوؐر کا عقیدہ اور ایمان

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

اعلانِ نبوت سے پہلے حضوؐر کا عقیدہ اور ایمان
ARI Id

1689956726155_56117744

Access

Open/Free Access

Pages

۳۶۱

اعلان نبوت سے پہلے حضورؐ کا عقیدہ اور ایمان
اعتراض نمبر۹۳
ما رگولیس کہتا ہے حضرت خدیجہ ؓ اور آنحضرت ﷺ قبل از نبوت ‘ دونوں سونے سے پہلے ایک بت کی پرستش کر لیا کرتے تھے جس کا نام عزیٰ تھا ۔ ( مارگولیس ۔امہات المو منین ۔۵۹)
۲ ۔انسائیکلو پیڈیا آف اسلام واقعہ غرانیق کے تحت متعدد الزامات تحریر کیے ، اس کے بعد کہا ’’ابتدائی اعتقادات کی جھلک اس طرح بھی نظر آتی ہے کہ عربوں کی طرح انہیں ( محمد ﷺ) بھی جن و شیطان پر عقیدہ تھا ۔ مکہ اپنے حرم کے ساتھ ان کے نزدیک بھی مقدس تھا جن کے تقدس اور رسوم کو انہوں نے اپنے مذہب میں باقی رکھا پھر ایک مرتبہ کفر کی طرف لوٹ جانے کی خواہش نے زور کیا جس پر جلد قابو پا لیا ‘‘۔
جواب: انبیاء اور رسل اعلان نبوت و رسالت سے قبل بھی صفات خداوندی سے آشنا ہوتے ہیں اور ذرا برابر انہیں ان صفات میں شک و شبہ نہیں ہوتا ارشاد ربانی ہے ’’ و لقد الھنا ابراہیم۔۔۔۔۔ عالمین‘‘۔ ’’ترجمہ ‘‘ بے شک ہم نے ابراہیم ؑ کو پہلے ہی سے ان کی شان کے مطابق رشد عطا کیا اور ہم ان کی استعداد کو پہلے سے خوب جانتے تھے ۔‘‘ یہ رشد کیا ہے ؟ سورہ الحجرات میں ہے کہ ’’ رشد قلب میں ایمان و اطاعت خدا وندی کی محبت اور کفر و فسق اور معصیت کی نفرت راسخ ہو جائے اس کا نام رشد ہے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ سید نا ابراہیم ؑ ابتدا ہی سے رشد و ہدایت پر تھے یہی حال تمام انبیاء و رسل کا ہے ۔ آپ کا ارشاد ہے ’’ جب میرا نشوو نما شروع ہوا ‘ اس وقت سے بتوں کی شدید نفرت اور عداوت اور اشعار سے سخت نفرت میرے دل میں ڈال دی گئی ۔‘‘
(۲) مارگولیس اس الزام کی دلیل میں امام احمد بن حنبل کی روایت پیش کرتا ہے ‘ روایت یہ ہے ۔‘ ’’قال عروہ احد تنی جار لخدیجہ بنت خویلد انہ سمع النبی ﷺ وھو یقول لخدیجہ خل اللات خل العزیٰ واللہ لا اعبد ابدا قال فتقول خدیجۃ خل الللات خل العزیٰ قال کانت صنمھم اللتی کانوا یعبدون ثم یضطحبون ‘‘ (ضیا النبی ۔۲۔۱۷۹) ’’ ترجمہ عروہ نے مجھ سے کہا خدیجہؓ بنت خویلد کے ایک ہمسایہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو حضرت خدیجہ ؓسے یہ کہتے ہوئے سنا کہ اے خدیجہؓ ! اللہ کی قسم کہ میں کبھی لات و عزیٰ کی پرستش نہیں کروں گا ‘ خدیجہؓ کہتی تھی لات کو جانے دیجیے‘ عزیٰ کو جانے دیجیے ( یعنی ان کا نام تک نہ لو) عروہ کہتے ہیں کہ لات و عزیٰ وہ بت تھے جن کی پرستش اہل عرب سونے سے پہلے کیا کرتے تھے اس کے بعد وہ بستر پر لیٹتے ۔‘‘
عربی صرف و نحو کا معمولی طالب علم بھی جان لے گا کہ روایت مذکور میں ’’ کانو ا‘‘کا لفظ آیا ہے جو جمع کاصیغہ ہے جس کا یہ معنی ہے کہ اہل عرب لات و عزیٰ کی پرستش کیا کرتے تھے ۔ اگر آنحضرت ﷺ اور حضرت خدیجہ ؓ کی طرف اشارہ ہوتا تو صیغہ جمع کی بجائے تثنیہ استعمال ہوتا ‘ جس کا معنی یہ ہوتا کہ دونوں پرستش کرتے تھے ۔ مارگولیس کو جمع اور تثنیہ کے صیغہ میں فرق نظر نہیں آتا ہے۔ بڑا عالم ہے اس سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ اسے اس فرق کا علم نہ ہو البتہ
اب اس کے طرز تجاہل کو کیا کہے کوئی
وہ بے خبر تو نہیں پھر بھی بے خبر سا لگے
یہ اس کی اسلام دشمنی ہے کہ واقعات کو توڑ مروڑ کر غلط استدلال کر کے شکوک و شبہات کا جامہ پہنا دیتا ہے مگر یہ اس کی بھول ہے کہ اس کی اسلام دشمنی کی شاطرانہ چال کو نہ سمجھا جا سکے کیونکہ
ع ’’تاڑنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں ‘‘
(۳) آنحضرت ﷺ اپنے معبود بر حق کی قسم کھا رہے ہیں کہ آپ ﷺ لات و عزیٰ کی ہرگز پرستش نہیں کریں گے نیز ان بتوں کے مقابل معبود حقیقی کی قسم اٹھاتے ہیں‘ کسی بت کی نہیں ‘ جس سے ان کی توحید پرستی روز روشن کی طرح آشکار ہوتی ہے ۔ نیز توحید کا پیغام پہنچانے والے الصادق و الامین نبی ﷺ نے خدا وند ان محسوس یعنی بتوں کو اپنے ہاتھ سے توڑا ‘ اپنے اصحاب کو توڑنے کا حکم فرمایا کہ انہیں جہاں دیکھیں ‘ توڑ دیں آپ کے زمانہ میں بتوں کے وجود کو اس دنیا سے مٹانے کے بعد ان کا نام اور ان سے منسلک قصوں اور کہانیوں کو بیان کرنے سے پرہیز کیا گیا ۔ قرآن و سنت میں بر سبیل تنبیہ کے ذکر کرنا تھا نہ کہ ان کا ذکر بت پرستی کا اعادہ تھا ۔ اس شدت کے ساتھ بت پرستی کے خاتمہ کے لیے اقدامات کیے گئے اور کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی ۔ دوسری طرف حضرت خدیجہ ؓ بتوں کا نام نہ لینے کا کہتی ہیں ۔ ان کا نام تک سننا گورا نہیں کرتیں مگر مارگولیس ہے کہ اس حدیث سے غلط استدلا ل کر کے آنحضرت ﷺ اور خدیجہ ؓ پر بت پرستی کا الزام لگاتا ہے ۔ بت پرست ثابت کرنے کی ناکام ‘ باطل اور بے کار سعی اور کوشش کی ہے ۔ مستشرقین نے اسلام ‘ پیغمبرﷺ اسلام اور اسلام کے پیروکاروں کی توہین و گستاخی کرنے کا ٹھیکہ اپنے نام لے رکھا ہے ۔ وہ ایسے بے ادب اور توہین آمیز گستا خانہ کلمات لکھتے ہیں کہ مہذب انسان کسی ادنیٰ فرد کے لیے بھی لکھنا ‘ کہنا یا سننا گورا نہیں کرتا ۔ ان کی علمی خیانت اور بد د یانتی کی انتہا ہے ۔ ان کی فتنہ انگیز اور تعصب و منافرت سے بھر پور غلط نگاری کی امتیازی شان یہی ہے ۔ کذب و افترا ‘ الزام تراشی اور بہتان طرازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اس کے بجز جانبداری اور تضاد بیانی میں بہت طاق اور ہوشیار ہیں۔ اسی مستشرق کا یہ بیان ملاحظہ کیجئے ۔ the biographersof the prophet muhammed from a long series which it is impossible to end but in which it would be honourable to find a place. (ترجمہ) محمد ﷺ کے سیرت نگاروں کا ایک طویل سلسلہ ہے جس کا ختم کرنا نا ممکن ہے لیکن آپ کے سیرت نگاروں میں جگہ پانا باعث شرف اور موجب عزت ہے ۔‘‘
ناز ہم سے اور دشمن سے نیاز
طاق ہے فتنہ گر ہر کام میں
اگر کوئی مسلمان سیرت نگار بھی مارگولیس کے بیان کی تائید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’ ایک نہایت پتہ کی بات لکھی ہے ‘‘ ۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ
بات کو سمجھ لینا عام بات ہے لیکن
بات کی نزاکت کو لوگ کم سمجھتے ہیں
بھلا جو شخص الزام لگائے ‘ بہتان طرازی کرے ‘ گستا خانہ اور توہین آمیز کلمات استعمال کرے ‘ علمی بد دیانتی اور خیانت کا ارتکاب کرئے جیسا اوپر حدیث میں آپ نے مشاہدہ کیا کہ غلط رنگ دے کر شک کا پہاڑ کھڑا کرنے کی کو شش کی ۔ آپ ﷺ اور حضرت خدیجہ ؓ کو بت پرست ثابت کرنے کی کوشش کی (نعوذ باللہ ) ایسے سیرت نگاروں کا سیرت نگاری میں جگہ پانا باعث ننگ و عار ہے ‘ باعث ذلت و خواری ہے نہ کہ عزو شرف کم پڑھے لکھے لوگ مستشرقین کے دام فریب سے مشکل بچ سکتے ہیں ۔
(۴) اس روایت کے آخری جملہ میں ہے کہ اہل عرب سونے سے پہلے لات و عزیٰ کی پوجا پاٹ کرتے تھے پھر بستر پر لیٹتے تھے ۔ اس میں تو دو رائیں ہو ہی نہیں سکتیں کیونکہ ظہور اسلام سے قبل کفرو شرک کے گھٹا ٹوپ اندھرے چھائے ہوئے تھے ۔ بتوں کی پوجا پاٹ ان کا مذہبی اور عبادتی معمول تھا ۔ کئی لوگ ہدایت کی روشنی کی آس لگائے بیٹھے تھے حتی کہ خالق کائنات نے دکھی انسانیت کی فریاد سن لی اور اپنے آخری پیغمبر ﷺ کو بنی نوع انسان کی رہنمائی اور رشد و ہدایت کے لیے بھیجا ۔ وہ روشنی بانٹنے والا ‘ اور ہدایت کے راستے پر گامزن کرنے والا کیسے بت پرستی کر سکتا ہے ؟ آپ ﷺ حضرت خدیجہ ؓ کا سامان تجارت شام کے شہر بصریٰ لے جاتے ہیں اپنا سامان فروخت کرتے ہیں اور شام کی مصنوعات خریدتے ہیں اونٹوں پر سامان لادتے ہیں کہ اس اثناء میں کسی گاہک سے خریدو فروخت پر اختلاف ہو جاتا ہے ‘ اس پر گاہک کہتا ہے کہ آپ ﷺ لات و عزیٰ کی قسم کھائیں تو میں بات مان لوں گا ۔ آپ ﷺنے فرمایا ‘ میں جھوٹے خدائوں کی قسم نہیں کھایا کرتا ۔ وہ اس قدر متاثر ہوتا ہے کہ وہ شخص کہتا ہے ۔’’ القول قومک ‘‘( اے الصادق و الامین ) ‘ جو آپ کہتے ہیں وہی سچ ہے ‘ قسم کی ضرورت نہیں ۔ ( ضیاالنبی ۲۔۵۴۸)۔
غیروں کی آراء : حضرت محمد ﷺ کی زندگی انسانیت کا ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے جو عمل سے مالا مال ہے ‘ انہوں نے فرض شناسی اور خدمت انسانی کی زندہ مثال پیش کی۔ آپ ﷺ نے ۲۳ سال کے قلیل عرصہ میں بت پرستی اور توہم پرستی کو مٹا کر واحدانیت کا سبق پڑھایا ۔ ( لالہ موہن سروپ ۔ نقوش ۴۔۴۵۸) ۔
آپ ﷺنبی تھے ‘ بت پرستی کو باطل ‘ غلط اور لغو جانتے تھے ‘ انہوں نے اپنی قوم کو وحشیانہ مذہب اور پست اخلاق سے نجات دلائی ۔ ممکن نہیں کہ ہم ان کے قلبی خلوص اور دینی حمیت سے انکار کریں ۔ (پرنسپل ایڈ ورڈ سارتھ ۔ نقوش ۴ ۔۴۹۱) ۔
مسٹر گارس کہتا ہے ’’ محمد ﷺ نے ان کو خدا پرست بنا دیا جو عرب بت پرست تھے ‘‘ ۔ ( حوالا بالا۔۴۹۳) ۔
مسٹر صیبان کہتا ہے ’’ محمد ﷺ بہت بڑے حکیم تھے انہوں نے واحدانیت پر زور دیتے ہوئے انسانوں کو بت پرستی اور انسان پرستی سے اس علمی و عقلی قاعدہ کے ذریعہ سے نجات دلائی تاکہ دنیا اور دنیا کاہر زندہ ہلاک ہونے سے محفوظ ہو گیا۔ ( نقوش ۴ ۔۴۹۲) ۔
پروفیسر گیان کہتا ہے ’’ اسلام اور بانی ٔ اسلام کی نسبت جو میرے خیالات ہیں ان خیال کا حامل اگر مسلمان کہلا سکتا ہے تو بلا شبہ میں مسلمان ہوں اور مجھ کو اس پر فخر ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے بت پرستی کو مٹانے پر زور دیا ‘ یہ بہت ضروری تھا کیونکہ بت پرستی ترقی کی راہ میں ایک سخت رکاوٹ تھی لیکن ان کا مقصد پتھر اور لکڑی کے بتوں کو توڑنے سے زیادہ معنوی بت پرستی کا خاتمہ تھا جو انسان کو عضو معطل بنا دیتی ہے ‘ بت پرستی کی بہت سی قسمیں ہیں مثلا قبیلہ کا بت ‘ لیڈری کا بت ‘ وطنیت کا بت ‘ انسان پرستی کا بت وغیرہ ‘ آپ نے سب بتوں کو توڑ ڈالا ‘‘۔
ضمناََاعتراض
آنحضرت ﷺ نے عزیٰ کے نام پر ایک خاکی بھیڑ ذبح کی تھی ۔ ( مارگولیس) (سیرت النبی ج۔۱۔۱۲۵)
جواب : مارگولیس طرح طرح کے بے بنیاد اور جھوٹے واقعات کو زیر بحث لاتا ہے لیکن اسے معتبر سند کی پروا ہے اور نہ بے بنیاد ہونے سے غرض ‘اگر تعلق ہے تو اسے محض الزام دھرنے سے ہے ۔ یہ روایت و یل ہازن کے حوالے سے نقل کرتا ہے لیکن اس کی سند میں کسی عربی ماخذ کا حوالہ نہیں دیتا ۔ مآخذ ہی نا معلوم ہو تو کہاں سے تلاش کیا جائے ‘ معتبر اور غیر معتبر ہونے کا معاملہ بعد کا ہے اور بغیر مآخذ روایت قابل اعتبار نہیں ہوتی ‘ وہ ایک فرد کی رائے ہو سکتی ہے ۔ اللہ بھلا کرئے ہمارے علمائے کرام کا کہ کہیں نا کہیں سے نہایت جانفشانی اور محنت بسیار سے ایسی روایات کا سراغ لگا لیتے ہیں ‘ پھر ان کی معتبری اور غیر معتبری کو ثابت کرتے ہیں ۔ ’’ مولانا شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ جغرافیہ کی ایک کتاب معجم البلدان میں ایک روایت اسی مضمون کی موجود ہے ‘ اس میں قباحت یہ ہے اول تو اس موضوع خاص میں یہ کتاب خود بے سند ہے ‘ ثانیاََ اس کتاب کی روایت کلبی سے ہے جو مشہور دروغ گو ہے ‘‘ ( سیرت النبی ۔۱۔۱۲۵) ۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ ( پیغمبر اسلام۔ ۶۱) بحوالہ ابن کلبی کی کتاب الاصنام سے لکھتا ہے ’’ قبل از اسلام کم سن محمد ( ﷺ ) کومجبور کیا گیا کہ آپ ایک بت کے لیے بھوری ( خاکستری ) بھیڑ قربان کریں ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ وہی بوانہ کی قربانی ہو ‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بھیڑ آپ کی توہم پرست اور ضیعف الاعتقاد چچیوں نے فراہم کی تھی ‘‘ ۔ بہر حال بھیڑ کالی ہو یا بھوری ‘ آپ ﷺ نے کسی بت کے لیے ذبح نہیں کی ہے ۔ اس کی قاطع دلیل مولانا شبلی نے پیش کر دی کہ الکلبی ایک مشہور دروغ گو ہے تو اس کی یہ روایت نا مقبول اور غیر معتبر ہو گئی ۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ حضرت ام ایمنؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’ قریش زمانہ جاہلیت میں بوانہ کے پاس عید مناتے تھے ‘ یہ ایک بت تھا جس کی قریش پوجا کرتے تھے ‘ اس کی تعظیم کرتے ‘ اس کے لیے جانور ذبح کرتے اور اس کے پاس قسمیں اٹھاتے ۔ قریش ہر سال میں ایک رات وہاں اعتکاف کرتے تھے ۔ ابو طالب اپنی قوم کے ہمراہ آتے تھے ‘ انہوں نے آپ سے بھی وہاں جانے کے لیے کہا : اے محمد عربی ! آپ ہمیشہ بتوں سے پرہیز کرتے ‘ ہمیں خدشہ ہے کہ ان کی وجہ سے کسی اذیت کا سامنا کرنا پڑے ہمارے ساتھ چلیے۔ آپ نے وہاں جانے سے انکار کیا تو ابو طالب سخت ناراض ہوئے ۔ : عورتوں نے کہا آپ ہمارے بتوں سے اجتناب کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے لیے کچھ جمع کرتے ہیں ۔ ان کے اصرار پر آخر حضور ان کے ساتھ گئے ‘ پھر آپ مرعوب اور گھبرا کر واپس آ گئے۔ خواتین نے پوچھا آپ کو کیا ہوا؟ فرمایا! مجھے خطرہ ہے کہ کہیں شیطان مجھے مس نہ کر دے ‘‘ خواتین نے کہا! رب تعالیٰ آپ کو اس آزمائش میں مبتلا نہیں کرے گا ۔ آپ ہر قسم کے اخلاق حمیدہ سے آراستہ ہیں ۔ آپ نے کیا دیکھا ہے ؟ فرمایا ’’ جب بھی میں ان بتوں کے پاس گیا تو اچانک ایک طویل سفید شخص نمو دار ہوا وہ میرے پیچھے زورسے کہتا ’’ محمد عربیﷺ ‘‘ میرے ماں باپ قربان ) بتوں کو ہاتھ نہ لگانا ‘‘ حضرت ام ایمنؓ کہتی ہیں ’’ آپ نے کبھی اس عید میں شرکت نہیں کی ‘حتی ٰکہ رب تعالیٰ نے نبوت کا تاج آپ کے سر پر سجا دیا‘‘۔ ( السیرۃ النبویہ دھلانی ۔۱۔۱۲۵)
یہی روایت ’’الوفا‘‘میں یوں ہے حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ ام ایمن ؓ فرماتی تھیں کہ قریش کا ایک بت معبود تھا جس کو بوانہ کہا جاتا تھا وہ اس کی عبادت اور تعظیم بجا لاتے اور اس کے لیے قربانیاں دیتے اور اس کے پاس سر کے بال ترشواتے اور سال میں ایک دن صبح سے شام تک اس کے پاس معتکف رہتے ۔ ابو طالب بھی قوم کے ہمراہ اس کے پاس جاتے اور آنحضرت ﷺ کے ساتھ اس تقریب میں شرکت کے متعلق بات چیت کرتے تو آپ ﷺ انکار فرما دیتے ۔وہ اس کو بہت محسوس کرتے اور آپ ﷺ کی پھوپھیاں بھی تھیں حتی کہ انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ہمیں آپ ﷺ کے معبودات قریش سے احتراز پر حوادث و مصائب میں مبتلا ہونے کا ڈر لگتا ہے اور کہتی تھیں کہ قوم کے ساتھ عید کے دن شمولیت کیوں نہیں کرتے اور ان کی جمعیت میں کثرت و اضافہ کا موجب کیوں نہیں بنتے ۔ اہل قرابت کا جب اصرار بڑھا تو ایک دن سرور عالم ﷺ ان کے ہمراہ تشریف لے گئے اور ان کی نظروں سے کافی دیر اوجھل رہنے کے بعد جب سامنے آئے تو آپ ﷺ پر خوف کے آثار نمایا ںتھے ۔ آپ ﷺ سے پھوپھیوں نے عرض کیا تمہیں کس امر نے گبھراہٹ میں ڈالا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا مجھے ڈر ہے کہ کہیں مجھ پر ’’ جن ‘‘ اثر انداز ہو گئے ہوں ۔انہوں نے کہا یہ تو ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں شیطان کی آزمائش سے دو چار کرے کیونکہ تم امتیازی شان ‘ خصلتوں اور پاکیزہ صفات کے مالک ہو ۔ ذرا بتلائیے تو سہی تم نے دیکھا کیا ہے جس سے یہ اندیشہ لاحق ہوا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا میں جب بھی کسی بت کے قریب گیا ‘ ایک سفید رنگت دراز قد شخص میرے قریب آجاتااور مجھے کہتا ہے ’’ اے محمد ﷺ پیچھے ہٹ جائیے اس بت کو ہاتھ مت لگائیے ۔ ام ایمن ؓ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد کبھی بھی آپ ﷺ ان کی عید میں شریک نہ ہوئے تاآنکہ آپ ﷺ کو شرف نبوت کے ساتھ مشرف کیا گیا اور اعلان نبوت کا حکم دیا گیا ۔ آپ ﷺ بتوں سے متنفر اور بے زار تھے اور قطعا ًان کی طرف توجہ نہیں فرماتے تھے ۔ ہرگز اوثان و اصنا م کے قریب نہیں جاتے تھے بلکہ ان کی قباحت اور عیوب و نقائص بیان کرتے تھے ۔
محمد بن عمرو نے اپنے شیوخ سے نقل کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ کو جب بحیرا راہب نے حقیقت احوال دریافت کرنے کے لیے لات و عزا کا وسیلہ دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا مجھے ہرگز ان کا واسطہ نہ دو ‘ جتنا بغض ان سے ہے اتنا اور کسی شے سے بھی نہیں ہے ۔
اعتراض نمبر۹۴
آ پ ﷺ اپنی قوم کے دین و مذہب پر تھے ۔
جواب: امام احمد بن حنبلؓ فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ کہے کہ رسول کریم ﷺ اپنی قوم کے دین و مذہب پر تھے تو اس نے بہت بری بات کی ۔ کیا یہ امر روز روشن کی طرح عیاں نہیں ہے کہ آپ ﷺ بتوں کے لیے ذبح کیے ہوئے جانوروں اور انصاب پر ذبح کیے ہوئے جانوورں کا گوشت بالکل نہیں کھاتے تھے ۔
ابو الوفا علی بن عقیل نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ قبل از بعثت حضرت ابراہیم ؑ کے مذہب پر کار بند تھے جس امر کا بھی ملت ابراہیمی سے ہونا آپ ﷺ کے نزدیک پایہ صحت کو پہنچتا آپ ﷺ اس پر عمل فرماتے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا بعد از بعثت و نزول وحی بھی پہلی شریعتوں پر آپ ﷺ عمل پیرا رہے یا نہیں ‘ اس میں دو روایتیں ہیں اول یہ کہ بذریعہ وحی جن امور کا شریعت رسل میں سے ہونا معلوم ہوتا اس پر عمل فرماتے نہ اہل کتاب سے سن کر اور نہ ہی کتب سابقہ کو دیکھ کر ‘ ابو الحسن تمیمی کا مختار یہی ہے اور امام ابو حنیفہ کے اصحاب کا مسلک یہی ہے ۔دوسری روایت یہ ہے کہ آپ ﷺ کسی دوسری شریعت پر عمل پیرا نہیں تھے بلکہ جو وحی آ پﷺ پر نازل ہوتی اسی پر کار بند رہتے ۔(اپنی شریعت ہونے کی رو سے اگرچہ وہ پہلی شریعتوں کے موافق ہی کیوں نہ ہوتی ) معتزلہ اور اشاعرہ کا مختار یہی ہے اور امام شافعی ؒ سے دونوں قول منقول ہیں ،مثل دونوں روایتوں کے جن حضرات نے آپ ﷺ کو پہلی شریعتوں پر متعبد اور کار بند تسلیم کیا ہے ۔ان میں پھر اختلاف ہے کہ آپ ﷺ کس پیغمبر کی شریعت پر عمل فرما تھے ۔ بعض کہتے ہیں کہ صرف ابراہیم ؑ کی شریعت پر اور حضرت امام شافعی ؒ کے متبعین کا مختار یہی ہے اور ایک جماعت کامختار یہ ہے کہ آپ ﷺ حضرت موسیٰ کلیم اللہ ؑ کی شریعت پر عمل فرما تھے ما سوائے ان امور کے جو ہماری شریعت میں منسوخ ہو چکے تھے ۔ امام احمد ؒ کے کلام سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک آپ ﷺ کسی ایک نبی کی شریعت پر پابندی نہیں فرماتے تھے بلکہ جو امر بھی درست طریقہ پر معلوم ہوتا کہ کسی نہ کسی پیغمبر کا معمول ہے اور ان کی شریعت میں درست و صحیح ہے اس پر عمل فرما لیتے بشرطیکہ اس پر خط نسخ نہ کھینچ دیا گیا ہو اور کلام مجید سے بھی بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’ اولئک الذین ھدی اللہ فبھداھم اقتدہ‘‘ یہی وہ مقدس گروہ انبیاء ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی کمالات اور امتیازی اوصاف سے موصوف فرمایا ہے لہذا تم بھی ان کی سیرت و کردار اور اخلاق و اعمال کو اپنائو۔(ڈاکٹر حمید اللہ)
ابن قتیبہ فرماتے ہیں کہ عرب ہمیشہ کے لیے دین اسماعیل ؑ کی جو بات بھی ان کو معلوم تھی اس پر کار بند رہے۔ انہی امور میں سے حج بیت اللہ ‘ ختنہ ‘ تین طلاق کے بعد رجوع کا سقوط ‘ ایک اور دو طلاق کی صورت میں خاوند کے لیے حق رجعت کا اعتراف و تسلیم ‘ قتل نا حق کی دیت سو اونٹ ‘ غسل جنابت ‘ قرابت یا رشتہ داری کی وجہ سے حرام ہو جانے والی عورتوں کے ساتھ نکاح حرام سمجھا اور محبوب خدا ﷺ ان کے ساتھ ایمان باللہ اور عمل با شرائع مثل ختان ‘ غسل جنابت اور حج میں موافقت فرماتے تھے ۔ (بظاہر اس دعویٰ پر قول باری تعالی ٰ ماکنت تدری ما الکتا ب ولا الا یما ن سے اعتراض وارد ہوتا تھا کیونکہ ظاہری معنی یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کو پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے ؟ تو ابن قتیبہ نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اس سے مراد تفصیلات شریعت ہیں نہ کہ تصدیق و اقرا ر کیونکہ حضور ﷺ کا معاملہ تو الگ ہے ( آپ ﷺ کی فطرت سلیمہ اور خلوص نیت و محویت اور تقدم رسالت و نبوت ‘ ارواح انبیاء ؑ کے لیے روح نبوی کا مربی ّ ہونا ‘ ملائکہ کو درس تسبیح و تقدیس دینا ‘ آبائواجداد کی اصلاب میں ذکر خدا وندی اور تسبیح و تقدیس میں مشغول رہنا اور وقت ولادت سر بسجود ہونا وغیرہ ایسے امور ہیں جو آپ ﷺ کے ایمان باللہ پر شاہد عادل ہیں اور نا قابل انکار و تردید و براہین و دلائل ان سے قطع نظر ) آپ ﷺ کے آبائواجداد کو زمانہ شرک میں دار ِفانی سے رحلت کر گئے وہ بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے تھے اور اسی کے لیے حج بھی ادا کرتے تھے حالانکہ وہ اہلِجاہلیت میں سے تھے اور وہ دور شرک و کفر کا تھا ( تو جب وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان سے بے خبر نہیں تھے تو سرور انبیاء اور سید المر سلین ﷺ کیونکر بے خبر ہو سکتے تھے۔ (الوفا ۔ص۔۱۷۷۔۱۷۸)
٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...