Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات > ازواجِ مطہرات ،زیادہ شادیاں اور عرب روایات

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

ازواجِ مطہرات ،زیادہ شادیاں اور عرب روایات
ARI Id

1689956726155_56117745

Access

Open/Free Access

Pages

۲۶۹

ازواجِ مطہرات ، زیادہ شادیاں اور عرب روایات
اعتراض نمبر ۹۵
نجران کے یہو دیوں نے سرکار دو عالم ﷺ کے خلاف ایک یہ الزام دھرا کہ آ پ ﷺ کی یہ ساری محنت اور جان ماری اس مقصد کے لیے ہے کہ جو مقام و رتبہ حضرت مسیح ؑ کا چلا آ رہا ہے وہ آپ ﷺ کے قبضہ میں آ جائے اور عیسائیوں اور دیگر افراد کو آہستہ آہستہ اپنے آہنی شکنجہ میں جکڑ کر اپنی پرستش اور پوجا پاٹ میں لگا لیا جائے ۔
جواب: اس اعتراض سے پہلے اس کا پس منظر بیان کرنا ضروری ہے تاکہ حقیقت سامنے آ سکے ۔ یمن کے ایک شہر نجران جو تہتر گائوں پر مشتمل تھا وہاں سے ایک عیسائی وفد ساٹھ افراد پر مشتمل سن ۹ ہجری میں آ پ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ ان افراد میں رئیس الوفد عبدالمسیح تھا ‘ دوسرا شخص ایہم جو سیاسی امور کا نگران تھا اور تیسرا ان کا لاٹ پادری اور روحانی پیشوا ابو حارثہ بن علقمہ تھا ۔ صحابہ کرام ؓ عصر کی نماز ادا کر چکے تو اس وقت یہ وفد ،مسجد نبوی میں آ یا یہ لوگ بھی نماز پڑھنے لگے صحابہ کرام نے منع کر نا چاہا لیکن آ پﷺ نے فرمایا انہیں چھوڑ دو ۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آ پﷺ نے ان پر اسلام پیش کیا اور قرآنی آ یات تلاوت فرمائیں لیکن انہوں نے اسلام قبول نہ کیا اور انہوں نے کہا ’’ ہم آ پ ﷺ سے پہلے کے مسلمان ہیں ‘‘۔ آ پ ﷺ نے فرمایا تم نے جھوٹ بولا ۔۔۔ تین چیزیں تمہیں اسلام سے روکتی ہیں ۔ اول صلیب کی عبادت دوم سئور کا گوشت سوم تمہارا یہ گمان کہ مسیح ؑ اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہے ۔ (نعوذ باللہ ) ایک روایت کے مطابق ان میں سے ایک شخص نے کہا ’’مسیح اللہ کے بیٹے ہیں کیونکہ وہ بن باپ کے پیدا ہوئے ‘‘ ۔ دوسرے شخص نے کہا ’’ مسیح اللہ ہیں کیونکہ انہوں نے مردے زندہ کیے ‘ غیب کے متعلق بتایا ‘ ساری امراض سے شفایاب کیا ‘ مٹی سے پرندہ بنا کر اڑا دیا ‘‘۔ان کے افضل شخص نے کہا آپ انہیں برا بھلا کیوں کہتے ہیں ‘ آ پﷺ کا گمان ہے کہ وہ بندے ہیں ۔آپ ﷺ نے فرمایا وہ اللہ تعالیٰ کا (خاص) بندہ ہے اور وہ پاکیزہ کلمہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم ؓ کی طرف پھینکا تھا ‘‘۔ یہ فرمان سن کر عیسائی غضب ناک ہو گئے اور انہوں نے کہا ’’ ہم صرف اس صورت میں آپ ﷺ سے راضی ہوں گے جب آپ ﷺ کہیں گے کہ حضرت عیسیٰ ؑ الہ ہیں اگر آ پ ﷺ سچے ہیں تو ہمیں اللہ تعالیٰ کا ایسا بندہ دکھائیں جو مردوں کو زندہ کرتا ہو ‘ مادر ذات اندھے اور کوڑھی کو شفا یاب کرتا ہو ‘ مٹی سے پرندہ بنائے پھر اس میں پھونک ماریں اور وہ پرندہ بن کر اڑ جاتا ہو ۔‘‘آ پﷺ نے سکوت فرمایا پھر یہ آ یت طیبہ تلاوت فرمائی ’’ اِنَّ مَثَلَ عِیسیٰ عِندَاللہ کَمَثَلَ اٰ دَمَ ط خَلَقَہُ تُرَاب ِثُمَّ قاَلَ لَۃ‘ کُن فَیَکُونَ ۔۔۔ لعنۃ اللہ علیٰ الکذ بین(آل عمران)’’ بے شک مثل عیسیٰ کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک آ دم کی مانند ہے بنا یا اسے مٹی سے پھر فرمایا اسے ہو جا تو وہ ہو گیا ۔(اے سننے والے ) یہ حقیقت ( کہ عیسیٰ انسان ہیں ) تیرے رب کی طرف سے ( بیان کی گئی ) ہے پس تو نہ ہوجا شک کرنے والوں سے پھر جو شخص جھگڑا کرے آ پﷺ سے اس بارے میں اس کے بعد کہ آ گیا آ پ ﷺ کے پاس علم تو آ پﷺ کہہ دیجئے کہ آئو ہم بلائیں اپنے بیٹوں کو بھی اور تمہارے بیٹوں کو بھی اور تمہاری بیٹیوں کو بھی اور اپنی بیٹیوں کو بھی اور اپنی عورتوں کو بھی اور تمہاری عورتوں کو بھی ‘ اپنے آپ کو بھی اور تم کو بھی پھر بڑی عاجزی سے اللہ کے حضور دعا کریں پھر بھیجیں اللہ تعالیٰ کی لعنت جھوٹوں پر ‘‘۔
پھر آ پ ﷺ نے فرمایا ’’ اللہ رب العزت نے مجھے حکم دیا کہ اگر تم اسلام کے لیے سر تسلیم خم نہیں کرتے تو میں تمہارے ساتھ مباہلہ کروں ۔۔۔ عیسائیوں نے مشاورت کے لیے وقت مانگا ‘ باہم مشاورت کے بعد ان میں سے ایک نے کہا ’’ با خدا ! تم خوب جانتے ہو کہ یہ وہ ہستی نبی مرسل ہے ‘ کوئی قوم کسی بھی نبی پر لعنت نہیں کرتی مگر اسے جڑ سے اکھیڑ دیا جاتا ہے ‘ اگر تم اپنے دین پر رہنا چاہتے ہو تو انہیں چھوڑ دو اور ان کے ساتھ صلح کر کے اپنے وطن لوٹ چلو ‘‘۔ انہوں نے مباہلہ سے معذرت کر لی اور جزیہ پر مصالحت کر لی۔ اہل نجران کے رد میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران میں کئی آ یات نازل فرمائیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ ھو الذی یصور کم فی الا رحام کیف یشائُ (آل عمران) ’’ وہی ہے جو تمہاری تصوریں بناتا ہے (مائوں کے ) رحموں میں جس طرح چاہتا ہے ۔‘‘اگر آ پ ﷺ عیسیٰ ؑ والا منصب لینا چاہتے تو نجران کے وفد سے یہ نہ فرماتے کہ ( آدم ٌ)کو مٹی سے بنایا پھر فرمایا اسے ہو جا تو وہ ہو گیا ‘‘ کیونکہ عیسائی تو مسیح کو خدا اور خدا کا بیٹا مانتے ہیں ۔آپ ﷺ اس کی مخالفت اور رد فرما رہے ہیں اسی بات پر تو عیسائی ناراض ہو گئے آ خر کار جزیہ دے کر مصالحت کر لی ۔
آپ ﷺ پوجا پاٹ اور بتوں کی پرستش کے خلاف تھے جیسا کہ پیچھے مستشرقین کی آراء سے تائید اور مخالفین کی تردید واضح ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ آ پﷺ نے اس طرح کا کوئی دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی ایسے منصب کی طلب کا اشارہ تک آ پﷺ کی حیات مبارکہ میں ملتا ہے لیکن مخالف نے خود اپنے ذہن سے ایک طومار گھڑ لیا اور اپنی جگہ یہ ٹھہرا لیا کہ محمد ﷺ کا مقصد تو یہی تھا کہ عیسیٰ ؑ کی طرح بن کر اپنی پوجا کرائیں ۔۔۔ دعوی ٰ نہ کیا ہو تو نہ سہی ‘ دل میں اسی بات کا ارداہ تھا ‘ ابھی ارداہ سامنے نہیں آ یا تو کیا ہوا آثار بتاتے ہیں کہ کبھی نہ کبھی یہ ارادے سامنے آ کر رہیں گے ۔نجران کے وفد کے ارکان کے کان ان فضولیات سے بھرے گئے جس پر ایک رکن ابو نافع قرظی نے یہ سوال آ پ ﷺ سے کھلم کھلا کیا کہ ’’ کیا آ پ ﷺہم سے یہ چاہتے ہیں کہ ہم آ پ ﷺ کو اس طرح پوجیں جیسے نصاریٰ عیسیٰ ؑ کی پوجا کرتے ہیں ‘‘۔ ایک دوسرے رکن الرئیس نے بھی پوچھا کہ ’’ اے محمد ﷺ ! کیا آپ ہم سے یہی چاہتے ہیں اور اسی کے لیے دعوت دیتے ہیں ۔؟ آ پﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ خدا کی پناہ! اس بات سے کہ میں خدا کے سوا کسی اور کی بندگی کروں یا اس کے سوا کسی اور بندگی کی دعوت دوں پس مجھے خدا نے اس مقصد کے لیے نہیں اٹھایا ہے اور نہ مجھے اس کا حکم دیا ہے ۔ قرآن نے اس موقع پر تنبیہ کی ’’ ما کان بشر عن یؤ تہ اللہ الکتاب وا لحکم والنبوۃ ثم یقول للناس کو نو ا عبادالی من دون اللہ (سورۃ آل عمران ۷۹،پارہ ۳) (ترجمہ) کسی انسان کا یہ منصب نہیں ہے کہ خدا اسے کتاب اور حکمت اور نبوت سے سرفراز کرے تو پھر وہ لوگوں سے یہ کہے کہ اللہ کی بجائے میرے بندے بن جائو‘‘۔
کسی نے کہا سوتے وقت آپ ﷺ ایک بت کی پوجا کر کے سوتے تھے ‘ کسی نے کہا آپﷺ نے بتوں کی پرستش کی ۔کسی نے کہا کہ آپ ﷺ نے خانہ کعبہ میں موجود بتوں پر تنقید نہیں کی ‘ سب سے بڑھ کر وفد نجران کے اراکین نے حد کر دی اور بول پڑے کہ آ پﷺ ہم سے اپنی پرستش کروانا چاہتے ہیں تاکہ حضرت مسیح کا مقام و مرتبہ حاصل ہو جائے ۔ آ پﷺ نے تو بت پرستوں کو خدا پرست بنا دیا ‘ بڑے بڑے بتوں کو آپ ﷺ کے حکم سے صحابہ کرام نے پاش پاش کر دیا ‘ کعبہ میں رکھے بتوں کو توڑ کر کعبہ کو صاف کر دیا ‘ تو کیسے وہ ذات دوسروں کو اپنی پوجا کے لیے کہے گی کیونکہ اپنی پوجا کروانا بتوں کی پوجا سے کیا کم تھا ‘ نہیں اسی لیے ہر قسم کے بت کو توڑ کر اللہ تعالیٰ کی توحید کا ڈنکا بجایا اور عام کیا ۔یہ سب مفروضے اور من گھڑت باتیں ان کے اپنے ذہن کی پیدا وار ہیں ‘ ماخذ کلیتاََ اس کا رد کرتے ہیں اور باطل ٹھہراتے ہیں ‘ یہ بدایتاًََ غلط ہے کیونکہ وہ ذات جو ایک خدا کی ایک وقت میں دعوت دے اور دوسرے وقت میں دیوی دیوتائوں ‘ بتوں ‘ مجسموں کی پوجا پاٹ کروانے کا حکم دے سکتا ہے یا اپنی پرستش کا مطالبہ کر سکتا ہے ۔ ہر گز ہر گز نہیں !
اس اعتراض کے رد میں ان کے ہمنوا ئوں کی آراء بیان کی جاتی ہیں ۔
نپولین بونا پارٹ :۔۔ پندرہ سال کے قلیل عرصہ میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتائوں کی پرستش سے توبہ کر لی ‘ مٹی کی بنی ہوئی دیویاں مٹی میں ملا دی گئیں یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آ پ ﷺ کی تعلیم کا ۔
مسٹر صیبان : انہوں نے وحدانیت پر زور دیتے ہوئے انسانوں کو بت پرستی اور انسان پرستی سے اس علمی اور عقلی قاعدہ کے ذریعے سے نجات دلائی کہ دنیا اور دنیا کا ہر ذرہ ذرہ ہلاک ہونے سے محفوظ ہو گیا ۔
مسٹر سیمیر(فرانسیسی ) بجائے تثلیث کے لغو عقیدہ کے ‘ وحدانیت کے پاک عقیدہ کا اعلان فرمایا یہی چیز اسلام کا اصل اصول ہے اور آپ ﷺ کی کامیابی کی کنجی ہے ۔

اعتراض نمبر۹۶
نصاریٰ کا دعویٰ ہے کہ آپ ﷺکے اعتقادات میں جو تغیر پیدا ہوا وہ عہد نبوت سے ہواا ورنہ اس سے پہلے آپ کا طرز عمل وہی تھا جو آپ کے خاندان اور اہل شہر کا تھا چنانچہ آپ ﷺ نے پہلے صاحبزادے کا نام عبدالعزیٰ رکھا تھا ‘ یہ روایت تاریخ صغیر بخاری میں ہے ‘‘لیکن یہ روایت اگر درست بھی ہو تو اس سے آنحضرت ﷺ کی نسبت کیونکر استدلال ہو سکتا ہے حضرت خدیجہ ؓ اسلام سے پہلے بت پرست تھیں انہوں نے یہ نام رکھا ہو گا ۔ آنحضرت ﷺ ابھی تک منصب ارشاد پر مامور نہیں ہوئے تھے اس لیے آپ ﷺ نے تعرض نہ فرمایا ۔
جواب : در اصل یہ روایت فی نفسہ بھی ثابت نہیں ۔ اس روایت کا زیادہ تر صحیح سلسلہ وہ ہے جو امام بخاری نے تاریخ صغیر میں روایت کیا ہے جس کا پہلا راوی اسماعیل یعنی اسماعیل بن اویس ‘ اگرچہ بعض محدثین نے اس کی توثیق کی ہے لیکن گروہ کثیر کی رائے حسب ذیل ہے ۔
۱۔ معاویہ بن صالح کہتے ہیں ۔۔۔اسماعیل اور اس کا باپ دونوں ضعیف ہیں ۔
۲۔ یحیٰ بن مخلط کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ جھوٹ بولتا ہے اور محض ہیچ ہے ۔
۳۔ امام نسائی کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ضعیف اور غیر ثقہ ہے ۔
۴۔ نصر بن مسلمہ مروزی کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔وہ کذاب ہے ۔
۵۔ دار قطنی کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں اس کو صحیح روایت کے لیے پسند نہیں کرتا
۶۔ سیف بن محمد کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ جھوٹی حدیثیں بناتا ہے ۔
۷۔ سلمہ بن شعیب کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھ سے خود اس نے اقرار کیا ہے کہ جب کبھی کسی بات میں اختلاف ہوتا تھا تو میں ایک حدیث بنا لیتا تھا ۔ ( سیرت النبی ۔۱۔۱۲۵)
اس روایت کا یہ جز ’’ نصاریٰ کا دعوی ٰ ہے کہ آپ کے اعتقادات میں جو تغیر ہوا وہ عہد نبوت سے ہوا ‘‘ کو زیر بحث لاتے ہیں۔ یہ بات بھی درست نہیں اس پر مولانا شبلی بحوالہ مستدرک فرماتے ہیں یہ امر قطعی طور پر ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺنے نبوت سے پہلے بت پرستی کی برائی شروع کر دی تھی اور جن لوگوں پر آپ کو اعتماد تھا ان کو اس بات سے منع فرماتے ‘ اس بات سے نصاریٰ کو دھوکہ ہوا کہ آپ اعلانیہ بتوں سے منع نہیں فرماتے تھے ابتدائی مراحل میں کئی وجوہ پر با اعتماد لوگوں کو اس پیغام کی دعوت دیتے تھے ۔ اگر آپ مخالفت نہ کرتے اور ( نعوذ باللہ ) آپ کا عقیدہ بھی یہی ہوتا اور با اعتماد لوگوں کو کھلی چھٹی دے دیتے کہ جائو اور بت پرستی کرو ‘ لیکن ایسا کسی طور ثابت نہیں ۔
(۲) بخاری شریف کی ایک طویل حدیث کا ٹکڑا یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے زید بن عمرو بن نفیل سے بلدح میں آپ پر وحی کے نزول سے پہلے ملاقات کی۔ بلدح ( وادی کا نام ) کے لوگوں نے آپﷺ کے سامنے دستر خوان بچھا دیا ‘ لیکن آپ ﷺنے اس میں سے کچھ کھانے سے انکار کر دیا پھر زید نے کہا : جو تم بتوں کے نام پر ذبح کرتے ہو ‘ میں نہیں کھاتا ہوں میں تو وہی کھاتا ہو ں جس پر اللہ کا نام ذکر کیا گیا ہو ۔ ( تفہیم البخاری۔۵۔۸۰۹) یہ واقعہ قبل از نبوت کا ہے آپ کا یہ عمل بت پرستی کے خلاف عملی تربیت و تعلیم کا نمونہ ہے ۔ آپ ﷺ شروع دن ہی سے ان تمام مشرکانہ رسوم سے اجتناب کرتے تھے ‘بعثت سے قبل اور بعد میں۔ آپ بت پرستی کا خاتمہ کرنے کے لیے تشریف لائے اور ایک خدا کاپیغام پہچانے آئے تھے جو رحمان و رحیم ہے ۔ اور ان اللہ علی کل شیء قدیر‘‘ ۔ مستشرقین پر لازم ہے کہ وہ ان سوالات کا جواب دیں ۔
(ا) آپ نے عمر کے کسی حصہ میں بت پرستی کا اقرار کیا ہو یا کسی بت کی پرستش کی ہو یا یہ کہا ہو کہ پہلے پہل میں بت پرستی کی طرف مائل تھا اور بعد میں اللہ تعالی ٰنے مجھے سیدھی راہ دکھادی اور بت پرستی کو ترک کر دیا ۔ ( ب) یا کسی دوست اور ساتھی کے ساتھ کسی بت کے سامنے سجدہ ریز ہوئے ہوں یا کسی موقعہ پر بت پرستی کی تائید و حمایت کر کے کسی خاص گروہ کو رعایت بخش دی ہو کہ تمہیں بت پرستی کی اجازت ہے یا گھر کے کسی فرد نے یہ کہا ہو کہ آپ پہلے بت پرست تھے ؟
اہم نکتہ: اگر کوئی کہے کہ مسند امام احمد میں ایک روایت ہے جو مذکورہ بخاری کی روایت کے متضاد ہے تو ان میں سے کون سی روایت معتبر ہے اور کون سی غیر معتبر ؟
مسند کی روایت میں ہے ’’ آنحضرت ﷺ نے زید بن عمرو بن نفیل کو اس کھانے پر بلایا اور زید نے انکار کر دیا اور پھر آنحضرت ﷺ نے اس تاریخ سے کبھی بتوں پر ذبح کیا ہوا تیار شدہ کھانا نہیں کھایا ‘‘ جواباََ عرض ہے اول یہ کہ مسند کے راویوں کا حال نہیں ملتا، اس لیے یہ روایت معتبر نہیں ہے ۔بخاری کی روایت کے مقابل یہ قابل وقعت نہیں آپ کی زید بن عمرو سے ملاقات قبل از نزول وحی ہوتی ہے اور آپﷺ نے نبوت سے پہلے بت پرستی کی برائی شروع کر دی تھی تو پھر یہ کیسے مان لیا جائے کہ اس واقعہ کے بعد آپﷺ نے بتوں کے نام پر ذبح کیے ہوئے جانور کا تیار شدہ کھانا کھایا ہو ۔آنحضرت ﷺ بت پرستی کی مخالفت نہ کرتے تو مشرکین مکہ درپے آزار نہ ہوتے ۔ بت جنہیںکفار خدا کے حضور اپنا سفارشی سمجھتے تھے اور ان کی سفارش کی قبولیت کے دعویدا ر تھے ۔ وہ بتوں کو چھوڑ نہیں سکتے تھے۔ ان طاقتور سفارشیوں کو تنقید کا نشانہ بننا گوارا نہیں کر سکتے تھے دوسری طرف آپ ﷺ ایک خدا کی وحدانیت کا پیغام پہنچا رہے تھے جس پر کفار سیخ پا ہو گئے اور آپ کے جانی دشمن بن گئے مگر آپ ﷺ نے جان کی پروا کیے بغیر اللہ کے پیغام کو پہچانے کا فریضہ ادا کرتے رہے ‘ اور بتوں کی پوجا کو باطل کہتے رہے ۔ غور فرمائیے کہ وہ ذات جو زمانہ بھر کی دشمنی مول لے لے اور ہر قدم پر جاں گسل خطرات پیش ہوں اور وہ کسی مرحلہ پر بھی پیچھے نہ ہٹا ہو تو وہ کیونکر بتوں کی پرستش کرے گا ؟ اگر آپ ان کے مذہب کو باطل نہ کہتے تو وہ آپ کے مخالف اور دشمن نہ ہوتے اور نہ ہی مصائب کے پہاڑ راہ میں کھڑے کرتے ۔ فتح مکہ کے موقع پر کعبہ کو بتوں سے صاف کیا گیا سارے بت توڑ دیئے گئے ۔ اتنے بڑے دشمن موجود تھے لیکن کسی کی زبان سے یہ الفاظ نہ نکلے کہ دیکھو کل تک تو وہ بت پرست تھا اور آج بت شکن بن گیا ہے ۔ لات و منات کے بعد تراشا جانے والا بت عزیٰ تھا فتح مکہ کے پانچ دن بعد خالد بن ولید کو تیس صحابہ کی جماعت کے ساتھ ہدایت فرمائی کہ اس بت کو توڑ دو ۔ ( ن۔۴۔۴۱۵) آپﷺ کے حکم کی تعمیل کی گئی ۔ سُوَع قبیلہ ہذیل کا بت مُشلل کے مقام پر نصب تھا ‘ اسے گرانے کا حکم حضرت عمر و بن العاصؓ کو ملا ‘ اس نے تعمیل کی ۔ الغرض پیغمبر اسلام ﷺنے بعثت سے قبل اور بعد بت پرستی کی مخالفت کی اور ہر ممکن اس کے خاتمہ کے اقدامات کیے ۔ ’’ ایڈورڈگبن‘‘ کہتا ہے مکہ کے پیغمبر نے بتوں کی ‘ انسانوں کی ‘ ستاروں کی اور سیاروں کی پرستش کو اس معقول دلیل سے رد کر دیا کہ جو شے طلوع ہوتی ہے غروب ہو جاتی ہے جو حادثہ ہے وہ فانی ہے جو قابل زوال ہے وہ معدوم ہو جاتی ہے چنانچہ اس کے معتقدین ہندوستان سے لے کر مراکو تک موحد کے لقب سے ممتاز ہیں اور بتوں کو ممنوع سمجھتے ہیں اور بت پرستی کا خطرہ مٹا دیا گیا ۔ ( خطبات احمدیہ۔۱۵)
ایڈورڈ گبن کے بیان پر حاشیہ چڑھاوں گا ۔ اس نے مکہ کا پیغمبر لکھا جبکہ آپ ﷺ ساری دنیا کے لیے رسول بن کر آئے اور پوری دنیا کے لیے رہتی دنیا تک کے لیے بلکہ حشر تک کے لیے رسول ہیں ۔ ارشاد ربانی ہے ’’ وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ کَآ فَّۃًَ لّلِناَّس‘‘ (السبا۲۸، پارہ ۲۲) اور سورت اعراف میں ہے ’’قُلْ یَاَیُّھَاَالنَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اَللّٰہِ اَلَیَْکُمْ جَمِیْعًا‘‘ ترجمہ : تم فرمائو اے لوگو! میں تم سب کی طرف رسول ہوں ۔ پھر یہ کہنا کہ معتقدین ہندوستان سے مراکو تک موحد کے لقب سے ممتاز ہیں حالانکہ صرف ہندوستان سے مراکو تک نہیں بلکہ پوری دنیا میں آپ ﷺ کے معتقدین موجود ہیں اور یہ صرف موحد نہیں بلکہ مومن ہیں ‘ جو اللہ پر ‘ اس کے فرشتوں پر ‘ اس کے پیغمبروں پر ‘ اس کی کتابوں پر ‘ آخرت کے دن پر اور خیرو شر پر ‘ اور موت کے بعد اٹھنے پر جو اللہ کی طرف سے ہے ‘ ایمان رکھتے ہیں ۔ ( امنت باللہ و ملائکۃ وکتبہ و رسلہ والیوم الآخر ولقدر خیر ہ وشرہ من اللہ تعالیٰ والبعث بعد الموت‘‘)
اعتراض نمبر۹۷
۱۔تین سال تک نبی کریم ﷺ نے نہ تو توحید کا تصور پیش کیا اور نہ ہی آپ نے بتوں کے خلاف کچھ کہا ۔ ابتداء میں محمد ﷺ کے عقائد اپنے دیگر ہم قوم لوگوں کے عقائد سے متفق تھے ۔ (ٹارانڈ رائے)
۲۔واٹ کہتا ہے، قرآن حکیم بتوں کے وجود کاا نکار نہیں کرتا بلکہ ان کی طاقت کا انکار کرتا ہے ۔ (ضیاالنبی ۔۷۔۳۶۴)
۳۔ قرآن مجید نے بعض بتوں کی مخالفت کی ہے لیکن بعض دوسرے بتوں کے متعلق اسلام نے مصالحت کا رویہ اپنایا ہے ۔
۴۔ آپ نے جو حملے بتوں پر کیے وہ حملے ان بتوں کے خلاف نہیں تھے جو خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے تھے بلکہ آپ ﷺ کے حملے خانہ کعبہ کے بتوں کے علاوہ دیگر صنم کدوں کے بتوں کے خلاف تھے ۔ (حوالہ بالا )واٹ یہ بھی کہتا کہ محمد ﷺ نے کعبہ میں مورتیوں کی پوجا پاٹ پر کبھی براہ راست تنقید نہیں کی اس کے نزدیک قرآن نے کعبہ کے بتوں کی مذمت نہیں کی ہے اور نہ ہی تنقید کی ہے اگر کعبہ کے بتوں کی مخالفت کرتے تو عرب کے لوگ مکہ آ نا جانا بند کر دیتے اور تجارت ٹھپ ہو جاتی ۔
۵۔حضور نے بتوں کو فرشتے قرار دیا اور ان کی شفاعت کو تسلیم کیا ‘ آپ نے صرف ان کو خدا کی بیٹیاں کہنے سے منع کیا ۔
۶۔ اسلام نے شرک کو ختم کیا لیکن مشرکانہ نظریات و رسوم کو جاری رکھا ۔( حوالہ بالا)
جواب:(۱) آپ ﷺنے ابتدائی تین سالوں میں نہ توحید کا تصور پیش کیا اور نہ ہی آپ نے بتوں کے خلاف کچھ کہا ۔ اس کی دلیل مستشرقین یہ پیش کرتے ہیں کہ کفار نے آپ ﷺکی مخالفت نہ کی اگر شروع ہی سے بتوں کے خلاف کہتے تو شروع دن ہی سے کفار آپﷺ کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوتے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آپﷺ نے جب سے اسلام کا پیغام دینا شروع کیا اسی وقت سے شرک سے باز رہنے اور توحید پر ایمان لانے کی ہدایت فرما رہے تھے ۔ آپ نے تبلیغ عام یعنی اعلانیہ تبلیغ سے قبل لوگوں کو خفیہ طریقے سے اسلام کی دعوت دی وہ دعوت توحید تھی جس نے اسلام کو گلے لگایا اور اس کی زبان سے توحید کے اقرار کا اعلان ہوا یعنی اس نے لا الہ الا اللہ پڑھا ۔ یہ خفیہ تبلیغ ہی تھی جس کی بدولت حضرت صدیق ؓ اور خدیجہ ؓ ایمان کی دولت سے مالامال ہوئے ۔ اس خفیہ تبلیغ کے ذریعے تقریباََ چالیس کے قریب افراد مشرف با اسلام ہوئے ۔ حضرت صدیق ؓ نے پیغمبر خداﷺ کی دعوت کے جواب میں یوں کہا ’’ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ‘ آپ نے سچ فرمایا ہے اور آپ سچوں میں سے ہیں ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی معبود برحق نہیں ‘ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں‘‘ ۔ اسی طرح بچوں میں حضرت علی ؓ اور غلاموں میں حضرت زید ؓ حلقہ اسلام میں داخل ہوئے ۔ یہ ہستیاں تین سال کے بعد نہیں بلکہ شروع ہی سے ایمان لائیںتھیں
(۲) بعض مستشرقین صرف قرآن مجید کو فوقیت دیتے ہیں اور اعتماد رکھتے ہیں لیکن اگر وہ تھوڑا سا غور کر لیتے تو یہ راز ان پر عیاں ہو جاتا ۔ ابتدائی آیات کے نزول میں سورۃ مدثر شامل ہے اس میں بتوں کی مخالفت ہے اور آپ ﷺکورسالت کے فرائض کی ادائیگی کا حکم دیا جا رہا ہے ۔ ’’یاایھا المدثر ہ قم فانذر ہ و ربک فکبر ہ’ ثیا بک فطھرہ والر جز فاھجر o ترجمہ : اے چادر لپیٹنے والے اٹھیے اور ڈرائیے اور اپنے پروردگارکی بڑائی بیان کیجئے اور اپنے لباس کو پاک رکھیے اور بتوں سے دور رہیے ۔‘‘
سورہ الشعراء میں ہے ’’ فَلاَ تَدعُ مَعَ اللہ اِلٰھاَ اٰ خَرَ فَتَکُون مِن المُُعَذِبِینَ‘‘ ترجمہ : پس نہ پکارو اللہ کے ساتھ کسی کو اور خدا کو ورنہ تو ہو جائے گا ان لوگوں میں جنہیں عذاب دیا گیا ہے ۔
کتنی حیرت کی بات ہے کہ ابتداء میں بتوں کی مخالفت نہیں کی ‘ کیا انہیں علم نہیں کہ جو مسلمان اسلام میں داخل ہوئے انہوں نے توحید کا ترانہ لا الہ الا اللہ پڑھا تھا ‘ یہ ترانہ تمام بتوں خواہ وہ کعبہ میں تھے یا باہر کہیں ، سب کی خدائی کا انکار تھا ۔ نہ جانے مستشرقین کو اس کلمہ توحید میں بتوں کی مخالفت کا عنصر کیوں نظر نہیں آتا؟
(۳) قرآن کریم بتوں کے وجود کا انکار نہیں کرتا صرف ان کی طاقت کا انکار کرتا ہے ۔ ( واٹ )
اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام سے قبل لوگ حجر و شجر ، شمس و قمر، آگ اور دیگر محسوس خدائوں کی پوجا کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ انسان خدائی کا دعویٰ کر کے خدا بن بیٹھا ۔ جب کہ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ اللہ ہی ساری کائنات کا خالق و مالک ہے ، زندگی و موت اس کے قبضۂ قدرت میں ہے ۔ عزت و ذلت دینے والی وہی ذات بے ہمتا ہے ۔ یہ نظام ہستی وہی چلا رہا ہے ، صرف وہی خدا ئے واحد ہے ’’ قل ھو اللہ احد‘‘ وہی عبادت کے لائق ہے اس ذات کے سوا کسی کی عبادت کرنا ، کسی کو خدا سمجھنا کائنات کا خالق جاننا شرک ہے ۔ اسلام یہ بتانے نہیں آیا تھا کہ کائنات میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی چیز ایسی نہیں جس کی عبادت کی جاتی ہو جب کہ یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ لوگ محسوس خدائوں کی پوجا پاٹ کرتے تھے بلکہ اسلام بتانے یہ آیا تھا کہ جن چیزوں کو کفار خدا سمجھ بیٹھے ہیں یہ خدا نہیں ہیں ۔ یہ کسی کام کے نہیں ہیں اور نہ نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ اگر ان کے منہ پر مکھی بیٹھ جائے تو اسے اڑانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ یہ محض مجبور و عاجز اور بے بس بھلا خدا ہو سکتے ہیں ؟ خدا تو وہ ہے جس کی شان ہے ’’ ان اللہ علی کل شی قدیر ‘‘ اسلام بتوں کا قلع قمع کرنے آیا تھا ۔ بت پرستی کو جڑ سے اکھاڑنے آیا تھا لیکن اسلام جو دین حق ہے اس کی تعلیمات سے ایسی توقع رکھنا نا ممکن ہے کہ وہ ایسی بات کی تعلیم کرے جو خلاف واقعہ ہو ۔
(۴) قرآن حکیم نے بعض بتوں کی مخالفت کی لیکن بعض دوسرے بتوں کے متعلق اسلام نے مصالحت کا رویہ اپنایا ۔ یہ بات بھی درست نہیں کیونکہ اسلام نے بتوں کی مخالفت کا بیڑا اٹھایا تو کفار اسلامی تعلیمات کے مخالف ہو گئے ۔ مشرکین اسلام کے نام لیوا ؤں کے جانی دشمن بن گئے ، کیا یہ دشمنی بتوں سے مصالحت کا نتیجہ تھی ۔ عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ دشمنی تب ہوتی ہے جب آپ ان کے خلاف بات کرتے ہیں ۔ مصالحت سے دشمنی پیدا نہیں ہوتی پھر حد یہ ہے کہ اس باطل نظریہ کی دلیل قرآن کی آیات سے لاتے ہیں ۔ ارشاد ربانی ہے
اَفرَئَ یتُم اللَّاتَ وَالعُزیَّ۔ وَمَنوَ ۃَ الثَّا لِثَۃَ الاُ خرَیٰ (النجم ۱۹،۲۰، پارہ۲۷) ترجمہ : اے کفار! کبھی تم نے غور کیا لات و عزیٰ کے بارے اور منات کے بارے میں جو تیسری ہے ۔
مستشرقین کا کہنا ہے کہ لات و عزیٰ اور منات جو طائف کی وادی نخلہ اور بحیرہ احمر کے کنارے نصب تھے ۔ یہ مکہ کے گرد ونواح میں بت تھے ۔ ان کی مخالفت نام لے کر کی مگر مکہ میں موجود اور مکہ سے باہر دوسری بستیوں کے بتوں کی مخالفت نہیں کی گئی ۔ اس کی ایک اور دلیل یہ بھی لاتے ہیں کہ حضور کی مخالفت انہی لوگوں نے کی جو مکہ کے باسی تھے لیکن ان کی جائدادیں طائف میں تھیں ۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضور نے مکہ کے بتوں کی مخالفت اس خوف سے نہ کی کہ کہیں مکہ کے سردار ان کے مخالف نہ ہو جائیں ۔ ان حضرات کے لیے اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ توحید کا پیغام یعنی لا الہ الا اللہ تین بتوں کی مخالفت میں تھا یا سب بتوں کے لیے ؟ یہ مستشرقین کے لیے چیلنج ہے کہ اس کا جواب دیں ، ان شاء اللہ وہ اس کا جواب نہیں دے پائیں گے ۔
الف۔ انہیں یہ بھی علم ہے کہ مکہ کے بڑے بڑے سرداروں نے آپ کی مخالفت میں کمر کس لی تھی اگر مکہ کے بتوں سے مصالحت اسی سبب سے تھی کہ مکہ والے ناراض نہ ہو جائیں ، مخالفت میں سینہ سپر نہ ہو جائیں تو یہ مقصد فوت ہو جاتا اور یہ مقصد پورا نہیں ہوتا کیونکہ مکہ کے سرداروں کی جائدادیں طائف میں تھیں اور آپ ﷺ نے طائف کے بتوں کی مخالفت کی جس سے وہ آپﷺ کے دشمن بن گئے ۔ ان کے مخالف ہو جانے سے وہ کون سی وجہ تھی کہ آپ مکہ کے بتوں کے بارے میںنرم رویہ اختیار کرتے ؟ خوف یا ڈر تو ان کی دشمنی کی وجہ سے تھا ، مگر جب وہ دشمن جان بن گئے تو بتوں کے خلاف کچھ نہ کہنا اور نرم رویہ اختیار کرنا چہ معنی دارد ۔
ب۔کفار اپنے خدائوں کی بادشاہی اور خدائی کو خطرے میں دیکھ رہے تھے آپ ﷺ کے بتوں کی مخالفت میںدلائل و براہین سے ان کے پادری سیخ پا ہو رہے تھے تدبیریں سوچنے سر جوڑ کر بیٹھ گئے ۔ ان تدابیر اور ان کے رد عمل کا نقشہ قرآن کریم یوں کھینچتا ہے ۔
’’ اَجَعَل َ ا لاَ لِھَہَ اِ لَھاََ وَّ احِدََ ۔اَنَّ ھذَا لَشَیئََ عُجَابَ وَالطَلَقَ المَلَکُ مِنھُم فِی المِلَّۃَ الاَ خِرَۃِ اِنَّ ھَذَا اِلاَّ اخِتِلاَ قُ (ص۴۔۵،پارہ۲۳)
ترجمہ : کیا بنا دیا ہے اس نے بہت سے خدائوں کی جگہ ایک خدا ، بے شک یہ بڑی عجیب بات ہے اور تیزی سے چل دئیے قوم کے سردار اور یہاں سے نکلواور جمے رہو اپنے بتوں پر بے شک اس میں اس کا کوئی مدعا ہے ، ہم نے تو ایسی بات آخری ملت میں بھی نہیں پائی ، یہ بالکل من گھڑت مذہب ہے ۔
یہ پریشانی دو سبب سے تھی ایک تو بتوں کی مخالفت تھی کہ وہ کچھ نفع و نقصان نہیں دے سکتے وہ منہ پر بیٹھی مکھی کو بھی نہیں اڑا سکتے تو اوروں کے کس کام آ سکتے ہیں ؟ گویا ان کے غلط عقائد کا بھانڈا پھوٹا جا رہا تھا ۔ دوسری وجہ پریشانی کی یہ تھی کہ اسلام کے پرچار سے آئے دن نت نئے لوگ اسلام میں داخل ہو رہے تھے ان میں وہ جری اور بہادر جوان بھی تھے جن کے رعب اور جلال اور طمطراق سے عرب اور عرب سے باہر قیصر و کسریٰ کانپ اٹھتے تھے ۔ یعنی حضرت حمزہ ؓ اور حضرت عمر ؓ جیسے لوگ ایمان لائے بت پرستی کے محل کی عمارت گرنے والی ہی تھی اور یہی فکر ان کے وڈیروں اور سرداروں کی نیندیں اڑائے ہوئے تھا ۔ انہیں اپنے خدائوں کی خدائی ہاتھوں سے نکلتی دکھائی دے رہی تھی ۔ اس وجہ سے پریشان حال تھے ۔قریش مکہ کے لو گ کئی بار آپ ﷺ کے چچا ابو طالب کے پاس جا چکے تھے اور کہہ چکے تھے کہ اپنے بھتیجے سے کہیں کہ وہ ان کے بتوں کو برا بھلا کہنے سے باز رہیں ۔ اس سلسلے میں انہوں نے طرح طرح کی پیش کشیں کیں تاکہ بتوں کی مخالفت چھوڑ دیں ۔ گویا مستشرقین کے پہلے سردار یعنی کفار تو مان رہے ہیں کہ آ پ نے بتوں کی مخالفت کی اور سرداروں نے آپ ﷺ کو روکنے کے بسیار جتن کیے مگر آج کل کے مستشرقین نہ اپنوں کی بات مانتے ہیں نہ غیروں کی ۔ کیا یہ ہٹ دھرمی اور اسلام دشمنی نہیں ہے ۔ ؟
(۵)آنحضرت ﷺ نے بتوں کو فرشتہ قرار دیا ، ان کی شفاعت کو تسلیم کیا ، آپ نے صرف ان کو خدا کی بیٹیاں کہنے سے منع کیا (ضیا النبی ۔۳۶۵)
جواب: انسان نے مختلف مظاہر فطرت کو مسجود ٹھہرا لیا تھا۔ اپنے جیسے انسانوں کو خدا کے مقرب بندے اور رسولوں اور نبیوں کو خدا سمجھ لیااور کبھی فرشتوں کو اِلٰہ بنا بیٹھے اور حق شفاعت کا سہرا ان کے سر سجا دیا۔ قرآن حکیم نے سوائے اللہ تعالیٰ کے تمام ان چیزوں کی عبادت کو لائق نہ سمجھا کیونکہ یہ خود محتاج اور بے بس ہیں ، وہ کیسے خدا ہو سکتے ہیں ؟ قرآن پاک کی آیت جس کا ترجمہ ہے ’’ نہیں ہے مناسب کسی انسان کے لیے کہ عطا کر دے اللہ تعالیٰ اسے کتاب اور حکومت اور نبوت ، تو پھر کہنے لگے لوگوں سے کہ بن جائو میرے بندے اللہ کو چھوڑ کر ، بن جائو اللہ کہنے والے ، اس لیے کہ تم دوسروں کو تعلیم دیتے رہتے تھے کتاب کی اور بوجہ اس کے کہ تم خود بھی اسے پڑھتے تھے اور وہ تمہیں حکم دے گا تمہیں اس بات کا کہ بنا لو فرشتوں اور پیغمبروں کو خدا ، کیا وہ حکم دے سکتا ہے تمہیں کفر کرنے کا بعد اس کے کہ تم مسلمان ہو چکے ہو ۔ ( سورہ آل عمران ۷۹،۸۰، پارہ ۴)
گویا عیسائیت کا اپنا عقیدہ ہے کہ نبی و رسول اور فرشتوں کو خدا سمجھتے ہیں ۔ کسی نبی و رسول نے ایسا کرنے کو کچھ نہیں کہا ۔ انتہا کی حماقت یہ ہے کہ مسیح ؑتو خود کو اللہ کا بندہ کہیں اور بندہ خدا ہونے پر نازاں ہوں مگر گمراہ اور بھٹکے ہوئے لوگوں نے حضرت عیسیٰ ؑ یا فرشتوں کو خدا سمجھ لیا ۔ ارشاد ربانی ہے ’’لَنْ یَّسْتَنْکِفَ اَلْمَسِیْحُ اَنْ یََّکُوْنَ عَبْدَاللّٰہِ وَ لاَ الْمَلٰئِکَۃُ المُقَرَّ بُوْنَo وَمَنْ یَّسْتَنکَفُ عَنق عِباَدَتِہِ وَیَسْتَکْبِرَ فَسَیَحْشُرُھُمْ اِلَیْہِ جَمِیْعًاo
(ترجمہ):’’ ہرگز عار نہ سمجھے گا مسیح ؑکہ وہ بندہ ہو اللہ کا اور نہ ہی مقرب فرشتے اس کو (عار سمجھیں گے) اور جسے عار ہو اس کی بندگی سے اور وہ تکبر کرے تو اللہ جلد ہی جمع کرے گا سب کو اپنے ہاں ۔‘‘
مشرکین فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے ۔ یہودی اور عیسائی عزیر ؑ اور مسیح ؑ کو بیٹا کہتے تھے نیز یہ بھی سمجھتے تھے کہ وہ شفاعت کریں گے ۔ ان غلط عقائد کی تردید قرآن حکیم نے ان الفاظ میں کی ہے ۔ (ترجمہ) اور وہ کہتے ہیں بنا لیا ہے رحمان نے بیٹا ، سبحان اللہ کیونکر ہوسکتا ہے بلکہ وہ تو اس کے معزز بندے ہیں ، نہیں سبقت کرتے اس سے بات کرنے میں اور وہ اس کے حکم پر کار بند ہیں ، اللہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے گزر چکا ہے اور وہ شفاعت نہیں کریں گے مگر اس کے لیے جسے وہ پسند فرمائے اور وہ اس کے خوف سے ڈر رہے ہیں ۔ (الانبیاء ۲۶،۲۸ پارہ ۱۸)
مذکور ارشاد خدا وندی علی الا علان کہہ رہا ہے کہ خدا کے معززبندے اس کی مخلوق ہیں خدا نہیں اور شفاعت بھی اس کی کریں گے جس کا اذن بارگاہ رب العزت سے ہو گا ۔ الغرض کفر و شرک کی تمام صورتوں اور قسموں کی بیخ کنی کر دی اور فرما یا ۔’’ قُل ھُوَ اللہ ُ اَحد ۔ اللہ ُ الَّصمد۔لَم یَلِد۔ وَلَم یُو لَد وَلَم یَکُن لَّہُ کُفُو اََ اَحَد۔ ترجمہ : اے نبی !فرما دیجئے وہ اللہ یکتا ہے ۔ اللہ صمد ہے نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہے ۔ ‘‘ اس بات پر بھی مستشرقین مطمئن نہیں بلکہ انہیں گلہ ہے کہ دو ٹوک فیصلہ آجاتا کہ بت ہیں ہی نہیں جس طرح قرآ ن مجید نے بتوں کی خدائی کا انکار کیا اور جس طرح فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہنے سے منع فرما دیا ، ایسے ہی اعلان ہوتا کہ بت ناموں کے سوا کچھ بھی نہیں اسی طرح فرشتے بھی کچھ نہیں ۔ شائد مستشرقین حفظ مراتب و مقام سے بے خبر ہیں اور ان کی منشاء کے مطابق ہونا غیر فطری اور نا ممکن تھا ۔ اللہ تعالیٰ عادل ہے قدیر ہے ، یہی وجہ ہے کہ بتوں ، انبیاء و رسولوں کو اپنے مقام پر اور فرشتوں کو ان کے مقام پر رکھا ہے ۔
(۶)اسلام نے شرک کو ختم کیا لیکن مشرکانہ نظریات اور رسوم کو جاری رکھا ۔ ( ضیا النبی ۔ ج۔۷۔۳۶۳)
مذکور الزام کی تائید میں مستشرقین یہ دلیل لاتے ہیں کہ حج کی رسمیں ، کعبہ اور حجر اسود کے ادب و احترام کو قائم رکھا کیونکہ اسے مشرکین بھی بجا لاتے تھے ۔ ان مشرکانہ رسوم کو ختم کرنے کے لیے کوشش کی گئی مگر یہ رسوم اہل مکہ کے ذہنوں میں راسخ ہو چکی تھیں کہ ان کو ختم کرنا اور حرف مکرر کی طرح مٹا دینا اسلام کی ساکھ کو نقصان پہچانے کے مترادف تھا نیز وہ لوگ ان رسومات کو چھوڑنے کے لیے تیار بھی نہیں تھے ۔
یار لوگوں کا کہنا کہ کسی مصلحت کے سبب مشرکانہ رسومات کو قائم رکھا یہ بے بنیاد الزام ہے ۔ آپﷺ نے اللہ تعالی ٰکے حکم سے ہر قسم اور ہر صورت کے شرک کا قلع قمع کیا خانہ کعبہ میں رکھے ۳۶۰ بتوں کا صفایا کیا مگر خانہ کعبہ کو قائم رکھا ۔ اس کے تقدس کا بہت خیال رکھا ۔ مصلحت اندیشی کا عنصر غالب آتا تو بتوں کو پاش پاش نہ کرتے ۔ بات صرف سمجھنے کی یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت کی ان رسموں کو برقرار رکھا جن سے شرک کی بو نہ آتی تھی ۔ شرک سے ان کا کوئی تعلق اور واسطہ نہ تھا ۔ خانہ کعبہ کی تعمیر حضرت ابراہیم ؑو اسمٰعیل ؑ نے کی ۔ خدائے واحد کی عبادت کے لیے خانہ خدا بنایا ۔ زم زم کا چشمہ حضرت اسمٰعیل ؑ اور ان کی والدہ ماجدہ حضرت ہاجرہ کی یادگار ہیں ، کو محفوظ رکھا ۔ حج کے تمام مناسک حضرت ابراہیم ؑ سے شروع ہوئے تھے اور ان مناسک حج کو ابراہیم ؑ کی سنت سمجھ کر زندہ و جاوداں بنایا ۔ البتہ ایسی رسمیں جو حج کا حصہ نہ تھیں مثلا َ ننگے ہو کر کعبہ کا طواف کرنا ختم کر دیا کیونکہ یہ ان کی خود ساختہ رسم تھی ، اس کے برعکس خانہ خدا کا تقدس ، طواف کعبہ ، وقوف عرفات ، منی ٰ میں قربانی اور صفا و مروہ کے درمیان سعی مشرکانہ رسمیں نہیں تھیں ۔ اسلام نے انہیں جاری و ساری رکھا کیونکہ آپ ﷺ نے شرک کو مٹانا تھا اور ایسی مقدس چیزوںکو جو حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے اہل بیت کی سنت تھیں، کو برقرار رکھنا تھا لہذا واٹ کا الزام محض بے بنیاد ہے
اعتراض ۹۷ ( جزو۔۱)
مستشرقین سمجھتے ہیں کہ شرک کے خاتمہ اور توحید کے لیے ضروری تھا کہ حضور صحیح یا غلط میں تمیز کیے بغیر بھی ہر اس چیز کو ختم کر دیتے جو مشرکین کے ہاں مروج تھی ۔ ( ضیا النبی۷۔۳۸۶)
صحیح یا غلط کی تمیز کیے بغیرختم کر دینے کی بات بے سود اور غیر مفید ہے کیونکہ اچھی چیزکو مٹاناحماقت اور نادانی ہے اس کے برعکس بری چیز کو حرف مکرر کی طرح مٹا دینا دانش مندی ہے ۔ مشرکین مکہ بت پرست تھے ۔ اس کے ساتھ وہ مہمان نواز ، سخی‘ بہادر ، وعدے کے پکے وغیرہ خوبیوں کے مالک تھے ۔ ان خوبیوں کو نہ تو خامیاں کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی انہیں ختم کر سکتے ہیں اور نہ ہی یہ خوبیاں معاشرہ سے ناپید ہو سکتی ہیں ۔ تو کیا اسلام مشرکانہ عقائد کے خاتمہ کے ساتھ ایسی خوبیوں کو بھی مٹا ڈالتا‘ جس سے انسانیت ان معراج نما اور اعلیٰ خوبیوں سے محروم ہو جاتی ، اسے کوئی ذی فہم تسلیم نہیں کر سکتا ۔
نیزمستشرقین نے اسلام اور شرک کے ساتھ تعلق ثابت کرنے کے لیے لکھا کہ جنوں اور شیطانوں اور فرشتوں کے وجود کے عقائد مشرکانہ تھے ، اسلام نے ان کو قائم رکھا ۔
(۲) مستشرقین نے اسلام اور شرک کے ساتھ تعلق ثابت کرنے کے لیے لکھا کہ جنوں اور شیطانوں اور فرشتوں کے وجود کے عقائد مشرکانہ تھے، اسلام نے ان کو قائم رکھا ۔
جواب: یہ محض الزام تراشی میں سب کچھ بھول جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ باتیں جن سے اسلام پر الزام لگاتے ہیں وہ باتیں ان کے مذاہب میں بھی موجود ہوتی ہیں اور وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ مذاہب توحیدی ہیں ۔ مذکورہ عقیدہ یعنی جنوں ، فرشتوں اور شیطانوں کے وجود کا صرف کفار و مشرکین مکہ کا ہی نہیں بلکہ یہودی و عیسائی بھی اس عقیدہ کے قائل تھے ۔ عہد نامہ قدیم و جدید میں ان کا ذکر موجود ہے ۔’’ واٹ‘‘
فرشتوں کے وجود کے عقیدہ کو مشرکانہ بھی کہتا ہے اور پھر خود ہی اس کی تردید کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ عقیدہ یہود ونصاریٰ کے ہاں بھی ہے ۔ وہ لکھتا ہے the christions and jews beloved in the existance of a secondary and subordinat kind of supernatural being angels. یہودی و عیسائی ایک ثانوی قسم کی مافوق الفطرت مخلوق فرشتوں پر یقین رکھتے تھے ۔ مستشرقین کے قلم کی تعصبانہ تحریریں محض ریت کا گھروندا اور جھوٹ کا پلندہ ہیں ۔ فرشتے اللہ کی مخلوق ہیں اور ان کے وجود کا عقیدہ شرک نہیں اس طرح وہ تمام رسوم و عقائد جنہیں اسلام نے بدستور جاری رکھا ، ان کا شرک سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے بلکہ وہ سب توحید کے مظاہر ہیں ۔ انہیں اسلام میں قائم رکھا اور جن کو مٹا دیا وہ اس لیے کہ مشرکانہ اور باطل عقائد تھے لہذا ان کی جڑ کاٹ دینا ہی مناسب تھا ۔ اسلام اللہ کا عطا کردہ دین ہے اس میں تضاد نہیں ہے اور نہ ہی آمیزش کا شائبہ ہے دوسرے ادیان پر غالب آنے والا دین مکمل و اکمل ہی ہو سکتا ہے۔ جس میں مشرکانہ اور باطل باتیں بھی ہوں اور سچی اور کھری باتیں بھی ہوں ‘ ممکن نہیں انہیں تو اپنے مذہب کی تعلیمات کی خبر نہیں ہے (جیسا کہ فرشتوں ‘ جنوں اور شیطانوں کے ) وجود کا عقیدہ ان کے مذہب میں ہے اور اس کے قائل بھی ہیں مگر صاف مکر جاتے ہیں اور نہیں مانتے ۔
اعتراض نمبر۹۸
واٹ کہتا ہے محمد ﷺ نے کعبہ میں مورتیوں کی پوجا پر کبھی براہ راست تنقید نہیں کی ۔ اس کے نزدیک قرآن نے کعبہ کے بتوں کی مذمت نہیں کی ہے اور نہ ہی تنقید کی ہے ۔ اگر کعبہ کے بتوں کی مخالفت کرتے تو عرب کے لوگ مکہ آنا بند کر دیتے اور تجارت ٹھپ ہو جاتی ۔
جواب: آپﷺ کی تنقید اور بتوں کی مخالفت سے قریش پریشان تھے ۔ اسی لیے تو بار بار آپ ﷺ کے چچا حضرت ابو طالب کے ہاں آتے اور ہر بارکہتے کہ اپنے بھتیجے کو منع کریںکہ ہمارے خدائوں کو برا بھلا نہ کہیں ۔لیکن آپ ﷺکے چچا نے آپؐ کا ساتھ نہ چھوڑا حتیٰ کہ مقاطعہ قریش کی وجہ سے آپ شعب ابی طالب میں تین سال تک رہے دوسری طرف کفار نے مکمل طور پر بائیکاٹ کیے رکھا لیکن آپ نے بتوں کی مخالفت اور ایک خدا کی پرستش کرنے کی تبلیغ جاری رکھی اس سلسلے میں آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں نے پہاڑ جیسی مصیبتوں کا مقابلہ کیا ۔ حتیٰ کہ آپؐ کو جان سے مار دینے کا منصوبہ بنایا(نعوذ باللہ) ۔ یہ محض مذہبی مخالفت کا نتیجہ تھا، کوئی تجارتی مفاد نہ تھا ۔
۲۔ بتوں کی مخالفت جاری تھی اور لوگ مکہ میں آتے جاتے تھے ۔ ہر سال لوگ حج کو آتے رہتے تھے اور حج کے پہلے اور بعد بھی یہ لوگ تجارتی غرض سے مکہ آتے تھے کسی قسم کی کوئی رکاوٹ پیش نہ تھی ۔ واٹ کو چاہیے تھا کہ بتوں کی مخالفت کے سبب جن لوگوں یا قبائل میں مکہ میں آنا جانا چھوڑ دیا تھا ان کا حوالہ دیتا ۔مگر مفروضوں پر بات کرنے والے کو حوالوں سے کیا لینا دینا۔ الطبقات الکبیرمیں ابن عباس فرماتے ہیں ’’ آ پ ﷺ گھر میں کوئی ایسی چیز دیکھتے جس پر صلیب کا نشان ہوتا تو اسے توڑ دیتے تھے ۔ (نقوش رسول نمبر ۔ ۱۔۵۳۸)آ پ ﷺ نے جہاں تبلیغ کے فرض کو پورا کیا اور دین اسلام کی تعلیمات کو عام کیا اسی طرح اپنے کردار سے عملی طور بھی اسلام کے خلاف ہر بات کا رد فرمایا جیسا کہ اوپر والی روایات سے ظاہر ہے ۔
آ پ ﷺ کا دین توحید الہٰی کا گل سر سبزہے نیز اس دین کے ساتھ وحدت انسانیت ‘ دین و دنیا کی یک جائی و یکسانیت ‘ معاش و معاد کے امتزاج اور دنیا و آخرت کے باہمی ربط کا حامی و علمبردار ہے آپ ﷺ کا دین مسجد و بازار عبادت و معاملات ‘ خد اپرستی اور دنیا داری کی دوئی کا یکسر قائل نہیں بلکہ آپﷺ کے دین وحدت نے انسانی زندگی کو ایک ‘ کل ‘‘ کی صورت میں پیش کیا جس میں انسان کے جملہ انفرادی و اجتماعی دینی و دنیاوی ‘ قومی و طبقاتی ‘ نجی و عائلی ‘ تجارتی و زراعتی ‘ صنعتی و معاشی ‘ اقتصادی سیاسی و معاشرتی ‘ عمرانی احوال و معاملات کا انتہائی منصفانہ قابل عمل حل پیش کر دیا جس نے جملہ طبقات انسانی کے مفادات و ضروریات کی رعایت کی ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ رسول اللہ ﷺ کا پیغام اس کا اپنا نہیں تھا بلکہ اس کا ہر قول و فعل رضائے الہٰی کا پیغام رسا ں اور نمونہ ہوتا ہے اس کا مخلوق سے تعلق اپنی انسانی و ذاتی نسبت سے کم اور اپنی نبوت اور نسبت الہٰی سے زیادہ ہوتا ہے ۔قرآن مجید میں ہے ’’ ترجمہ : محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے پیامبر اور اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا جاننے والا ہے ‘‘۔ اس آیت میں یہ اشارہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ سے تمہارا نسبی تعلق نہیں اس لیے ان کے کلام کو ان کی بشری حیثیت سے نہ پڑھو بلکہ ان کی رسالت کی حیثیت سے ان کے ہر قول و فعل اور پیام و کلام اور ان کے عطا کردہ ہر نظام کو مانو خواہ وہ عبادات سے متعلق ہو یا معاملات سے ہو ‘ معاشرت سے ہو یا معاشیات سے ‘ اقتصادیات سے ہویا سیاسیات سے ہو ‘ تدبیر مدن سے ہو یا عائلی قوانین سے یعنی زندگی کے جس طبقے سے یا جس مسئلے کے متعلق انہوں نے جو حل پیش فرما دیا اور طریقہ بتا دیا ان کا ذاتی نہیں بلکہ رسول اللہ ہونے کی حیثیت سے انہوں نے اللہ تعالیٰ کے علم و پیام اور حکم و منشاء کو انسانیت تک پہنچایا ہے یعنی ان کی بات اللہ تعالیٰ کی بات اور ان کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے ۔ اطیعوا اللہ و اطیعو الرسول شاہد ہے ۔ مذکورہ بحث سے کئی باتوں کے بجز ایک یہ کہ آ پﷺ آخری رسول و نبی ہیں ۔ آپﷺ اپنا ذاتی پیغام نہیں سناتے بلکہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ دین لوگوں تک پہنچاتے ہیں ۔ دوسرا یہ کہ دین توحید میں دوئی کا قطعاََ عمل دخل نہیں ہے کہ ایک وقت میں اس کی تعلیم بتوں کو توڑنے اور ان کی عبادت کے باطل طریقہ کو نیست و نابود کر دے اور دوسرے لمحے ان کی پوجا پاٹ کی تعلیم کی اجازت دے دے ‘ یہ کبھی اور کسی صورت ممکن نہیں ہے کیونکہ اسلام میں کسی قسم کے تضاد کی قطعاََ گنجائش نہیں ہے ۔ یہ دین انسانیت کے لیے قیامت تک کے لیے ہے یہی اسلامی کامیابی و کامرانی ‘ فوز و فلا ح اور نجات کا واحد ذریعہ ہے اور آخری نظام ہے جس میں کسی تبدیلی و تغیر کو دخل حاصل نہیں ہے مستشرقین اسلام کے ساتھ تعلق جوڑنے کے لیے ایسے ایسے الزامات تراشتے ہیں جن کا حقیقت سے دور تک کا واسطہ نہیں ہوتا ہے ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...