Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

ام المومنین حضرت عائشہؓ
ARI Id

1689956726155_56117747

Access

Open/Free Access

Pages

۴۰۱

ام المومنین حضرت عائشہؓ
اعتراض نمبر۱۰۷
حضرت عائشہ ؓ کی عمر کے بارے میں کتب و احادیث میں چند ایسی روایات ہیں جن میں آپ کی عمر بوقت نکاح چھ سال اور رخصتی کے وقت نو سال کا ذکر ہے ۔ جس طرح بخاری شریف جلد نمبر ۳ کتاب النکاح ص ۹۴ پر یہ روایت ہے ’’ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ نے نکاح کیا ان کے ساتھ جب وہ چھ سال کی تھیں اور داخل کی گئیں آپ ﷺ پر (زفاف کے لیے ) جب وہ نو سال کی تھیں اور نو سال تک آپ کے پاس رہیں ۔ ‘‘ (۲) سر ولیم میور لکھتا ہے کہ ’’آنحضرتﷺ سے شادی کے وقت سیدہ عائشہ ؓ کی عمر دس گیارہ برس سے زیادہ نہ تھی ۔‘‘
جواب: مستشرقین نے دو مو قعوں پر بی بی عائشہ ؓ کی عمر کو متنازعہ بنایا ہے ۔ اول جب آنحضرت ﷺ کی حضرت عائشہ ؓ سے نسبت طے ہوئی ۔ دوم :جب شادی انجام پذیر ہوئی ۔ بات تو ایک ہی ہے اگر نسبت کے وقت عمر کا درست تعین ہو جاتا تو آگے غلطی کا امکان نہ رہتا بات یہیں ختم نہیں ہوتی کیونکہ کئی مسلم مورخین نے بھی ٹھوکر کھائی ہے شائد انہیں سہو ہوا ہے یا بلا تحقیق لکھتے چلے گئے یہاں تک کہ چوٹی کے محدثین بھی اپنی کتب احادیث میں یو نہی نقل کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر بخاری شریف میں پانچ ،مسلم شریف میں چار ،اور ابو دائود میں ایک روایت ہے ۔ان روایات کو قبول کر کے مقدس و محترم ہستیوں کی شان میں گستاخی و بے ادبی کرتے رہے ۔ آئیے دیکھیں کہ حقیقت کیا ہے ؟۔
دلیل اول : امام بخاری کہتے ہیں جب قرآن کریم کی ۵۴ ویں سورہ القمر نازل ہوئی تو وہ (عائشہ) خاصی سمجھدار تھیں اور اس سورہ کی چند آیات انہیں یا د ہو گئی تھیں ۔ وہ انہوں نے اپنے والد سے سنی تھیں۔ سورہ القمر کا نزول چار یا پانچ نبوت ہے اس طرح بعثت کے دسویں سال میں ان کا سن ۶۔۵ سال ہونا درست نہیں کیونکہ ایسا ہو تو پھر ان کی پیدائش سورہ القمر کے نزول کے وقت ہوئی حالانکہ انہیں اس سورہ کی چند آیات از بر تھیں تو ماننا پڑے گا کہ اس وقت سیدہ عائشہ ؓ کی عمر نو یا دس سال ہو گی ۔
دلیل دوم: ایک روایت میںہے کہ براء بن عازب ؓ نے کہا ’’میں اور عبداللہ بن عمر ؓبدر کی جنگ میں کم سن تھے اور بدر کی جنگ میں مہاجرین کی تعداد ساٹھ سے کچھ اوپر تھی اور انصار دو سوچالیس سے کچھ زیادہ تھے ۔ اس حدیث کی شرح میں غلام رسول رضوی تفہیم البخاری میں لکھتے ہیں کہ ان دونوں کی عمریں حد بلوغ سے کم تھیں ‘اس لیے بدر میں شریک ہونے کی اجازت نہ ملی ۔ آپ ﷺ ان لوگوں کو جنگ میں شرکت کی اجازت نہیں دیتے تھے جو بالغ نہیں ہوتے تھے ۔۔۔ علامہ عینی کہتے ہیں کہ قاضی عیاض اور ابن تین نے اعتراض کیا کہ جنگ احد میں حضرت عبداللہ پیش ہوئے تو کم سن پایا گیا اور جنگ میں شریک نہ ہو سکا یہ روایت بخاری کی روایت کے خلاف ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں حدیثوں میں منافات نہیں کیونکہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ دونوں جنگوں میں پیش کیے گئے تھے ۔ خودحضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کا قول ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جس روز انہیں بدر کی جنگ میں پیش کیا گیا تو ان کی عمر تیرہ سال تھی اور جنگ احد میں ان کی عمر چودہ سال تھی اس لیے ان کو شامل نہیں کیا گیا تھا ۔
اہم نکتہ :حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ا س دن (غزوہ احد) حضرت ام سلیم ؓ اور حضرت عائشہ ؓ کو دیکھا کہ وہ کپڑا اٹھائے ہوئے پانی کی مشکیں بھر بھر کر اپنی پیٹھ پر لاتیں ، مردوں کے منہ میں ڈالتیں اور لو ٹ جاتیں اور میں ان کے پازیب دیکھ رہا تھا ۔ ان دونوں موقعوں پر ان کی عمریں کم تھیں ۔ (تفہیم البخاری ۔۶۔۱۷)غزوہ احد میں حضرت انس ؓ کم سن تھے اس لیے ان کا ام المومنین کا پازیب دیکھنے میں حرج نہیں یا اچانک ان کی نظر پڑی ہو گی لہٰذا یہ نہ کہا جائے کہ حضرت انس ؓ کا غیر محرمہ کی پنڈلی دیکھنا کیسے جائز ہے نیز اس وقت پردہ کی آیت نازل نہیں ہوئی تھی پردہ کی آیت ام المومنین حضرت زینب ؓ سے نکاح کے وقت نازل ہوئی تھی اور احد کا واقعہ اس نکاح سے پہلے کا ہے ۔( حوالہ بالا )
آثار و احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ نابالغ کو جنگ میں شرکت کی اجازت نہ تھی بلکہ صرف بالغ کو یہ رعایت حاصل تھی جو پندرہ سال کی عمر کو پہنچ چکے ہوتے ، جس طرح حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو جنگ احد میں پیش کیا گیا لیکن اجازت نہ ملی کیونکہ ان کی عمر بالترتیب تیرہ اور چودہ سال تھی اور جب جنگ خندق ہوئی ،اس میں پیش کیا گیا تو اجازت مل گئی کیونکہ اس وقت ان کی عمر پندرہ سال ہو چکی تھی لہٰذا حضرت عائشہ ؓ بالغ تھیں اور ان کی عمر پندرہ سال یا اس سے اوپر تھی تبھی تو بدر اور احد کی جنگوں میں حصہ لے رہی تھیں اور انہیں منع نہیں کیا گیا ۔
فتوی ٰ:امام شافعی ؒ کا مذہب یہ ہے کہ وہ لڑکے اور لڑکی کی عمر پندرہ سال حد بلوغ قرار دیتے ہیں ۔ امام ابو یوسف اور امام محمدؒ کا بھی یہی مذہب ہے اور اسی پر احناف کا فتویٰ ہے ۔(تفہیم البخاری ج۔اول۔ص۱۸۶)
اہم نکتہ : بعض کہتے ہیں کہ غزوہ احد اور غزوہ خندق کے درمیان دو سال کا فاصلہ ہے غزوہ احد میںحضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو حضور ﷺ کے سامنے پیش کیا گیا تو ان کی عمر چودہ سال تھی اس لیے جہاد کی اجازت نہ دی گئی ۔ امام بخاری نے موسی بن عقبہ کے قول کی جانب میلان کیا ہے ۔ انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ انہوں نے آپ ﷺ سے احد کے روز عرض کی تھی کہ آپ جہاد کی اجازت مرحمت فرمائیں ، اس وقت ان کی عمر چودہ سال تھی تو آنحضرت ﷺ نے ان کو اجازت نہ دی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ احد اور خندق کے غزوات کے درمیان ایک سال سے زیادہ کا زمانہ نہ تھا ۔ ان کی یہ حجت مکمل نہیں ہے ۔ ممکن ہے کہ ابن عمر ؓ نے جنگ احد کے وقت چودہویں سال میں قدم رکھا ہو اور احزاب میں پندرہ سال مکمل کر چکے ہوں، اس طرح یہ مدت دو سال بنتی ہے گویا جنگ احد اور احزاب کے درمیان دو سال کا فاصلہ ہوا ، اس اعتبار سے غزوہ احزاب پانچ ہجری میں ہوا ،اور یہ ثابت ہے کہ غزوہ احزاب پانچ ہجری میں ہوا ۔( تفہیم البخاری ۔ ج۔۶۔ص۱۷۔باب غزوہ بدر)
حضرت براء بن عازب ؓ نے کہا کہ میں اور عبداللہ بن عمر ؓ کو جنگ بدر میں پیش کیا گیا ہمیں کم سن پایا گیا ۔ ہم دونوں کی عمریں حد بلوغ سے کم تھیں اس لیے بدر میں شرکت کی اجازت نہ ملی کیونکہ آپ انہی لوگوں کو جنگ میں شامل فرماتے جو بالغ ہوتے تھے ۔
علامہ عینی نے کہا کہ قاضی عیاض اور ابن تین نے اعتراض کیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا کہ میں احد میں جنگ کے لیے پیش کیا گیا تو مجھے کم سن پایا گیا ، مجھے کم سنی کے باعث جنگ احد میں شامل نہ کیا گیا ۔ یہ روایت بخاری کی روایت کے خلاف ہے ۔ اس کا جواب یہ کہ ان دونوں حدیثوں میں منافات نہیں کیونکہ حضرت عبداللہ ؓ کو دونوں جنگوں میں پیش کیا گیا ۔ خود عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ جس روز بدر میں اسے پیش کیا گیا تھا اس کی عمر تیرہ سال تھی اور انہیں شامل ہونے سے روک دیا گیا تھا اسی طرح احد کے معرکہ میں پیش کیا گیا ، اس وقت ان کی عمر چودہ سال تھی تو انہیں مسترد کر دیا گیا کیونکہ دونوں موقعوں پر ان کی عمر کم تھی ۔
دلیل سوم: ابو نعیم اصبہانی کی روایت ہے کہ سیدہ اسمائؓ بنت ابو بکر ہجرت سے ۲۷ سال قبل پیدا ہوئیں اور ۷۴ ہجری میں وفات پائی ۔ الاستیعاب میں ہے کہ سیدہ اسماء ؓ جو اپنے بیٹے عبداللہ بن زبیر ؓ کی موت کے بعد ۷۳ ہجری میں فوت ہوئیں ۔ وہ نا بینا ہو گئی تھیں اور بوقت انتقال ان کی عمر سو سال تھی ۔
البدایہ والنہایہ اور الکمال فی اسماء الرجال میں ہے کہ حضرت اسماء ؓ اپنی بہن عائشہ ؓ سے دس سال بڑی تھیں ۔ حافظ ابن عبدالبر نے بھی یہی لکھا کہ سیدہ اسماء ؓ حضرت عائشہ سے دس سال بڑی تھیں (خاتم النبین ۔۶۵) ۔ امام ذہبی نے بھی عبدالرحمن بن ابی الرشاد کا قول نقل کیا ہے کہ سیدہ اسماء کی عمر عائشہ ؓ سے دس سال زیادہ تھی ۔ علامہ ابن جوزی نے لکھا کہ سیدہ اسماء ؓ ہجرت سے ستائیس سال قبل پیدا ہوئیں ،سترہ آدمیوں کے بعد ایمان لائیں اور تہتر ہجری میں وفات پائی اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ سیدہ اسماء ؓ کی عمر بوقت ہجرت ستائیس سال ہے اور وہ عائشہ ؓ سے دس سال عمر میں بڑی ہیں تو بوقت ہجرت بی بی عائشہ ؓ کی عمر سترہ سال ہوئی اور بوقت رخصتی اٹھارہ یا انیس سال ۔۔۔ نیز ابن اسحق ، زرقانی ،ابن سید الناس اور امام سہیلی اور امام ابن کثیر نے حضرت عائشہ ؓ کے قبول اسلام کا ذکر کیا ہے ۔’’ اور وہ کم سن تھی ‘‘ کے الفاظ درج کیے ہیں لہذا کم سنی میں قبول اسلام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انہیں سوجھ بوجھ تھی کہ وہ اسلام میں داخل ہو رہی ہیں ۔ یہ سوجھ بوجھ کا زمانہ پانچ اور چھ سال کی عمر کا ہو سکتا ہے لہذا بوقت ہجرت سیدہ عائشہ ؓ کی عمر سترہ یا اٹھارہ سال اور بوقت رخصتی اٹھارہ یا انیس سال ہے کیونکہ رخصتی ہجرت کے ایک یا دو سال بعد ہوئی ۔
دلیل چہارم: بخاری کی بعض روایات میں یہ منقول ہے کہ سیدہ عائشہ ؓ چار یا پانچ نبوت کو پید ا ہوئیں ، اس بات کی تردید کی، ابن ہشام نے اپنی کتاب السیرت النبویہ میں سن ایک نبوت میں جو حضرات ایمان لائے ان کی فہرست دی ہے اس میں بی بی عائشہ ؓ کا نام شامل ہے الفاظ یہ ہیں ’’پھر سید نا ابو عبیدہ بن الجراح دولت ایمان سے مشرف ہوئے اور سیدہ اسماؓ بنت ابو بکر صدیق ؓ اور سیدہ عائشہ ؓ بنت ابو بکر صدیق ؓ ایمان سے بہرہ ور ہوئیں اور سیدہ عائشہ ؓ ان ایام میں چھوٹی تھیں ۔‘‘ اس سے دو فائدے حاصل ہوئے ۔ سن ایک میں ایمان لانے والوں میں سیدہ عائشہ ؓ شامل ہیں اگرچہ ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ وہ کم سن تھیں ، تو جو لوگ کہتے ہیں کہ ان کی پیدائش چار یا پانچ نبوت کی ہے ، درست نہیں ہے ۔
دوم: سیدہ عائشہ ؓ ایمان لانے یا نہ لانے کو سمجھتی ہیں ،اگر اس وقت عمر پانچ یا چھ سال مان لی جائے تو ہجرت کے وقت آپ کی عمر اٹھارہ سال بنتی ہے نیز ہجرت کے ایک یا دو سال بعد رخصتی ہوئی ، اس حساب سے آپ کی عمر اٹھارہ انیس سال بنتی ہے ۔ ۔۔۔ ایمان لانے والوں کے بارے ابن سعد نے لکھا ہے کہ سیدہ خدیجہ ؓ کے بعد جو عورتیں ایمان لائیں ، وہ ام الفضل زوجہ حضرت عباس ؓ اور اسماء ؓ بنت ابی بکر ؓ اور ان کی بہن عائشہ ؓ تھیں ۔ شرح زرقانی نے بھی یوں ہی ذکر کیاہے البتہ عائشہ ؓ کے نام کے ساتھ بریکٹ میں یہ لکھ دیا ہے کہ ’’ وہ چھوٹی تھیں ‘‘ ۔
دلیل پنجم: حضرت خولہ ؓ نے آپ ﷺ سے عرض کی کہ آپ شادی کیوں نہیں کر لیتے ؟ فرمایا ! کس سے ؟ خولہ نے کہا! بیوہ بھی ہے اور کنواری بھی ۔فرمایا بیوہ کون ہے اور کنواری کون ؟ خولہ نے جواب دیا کہ بیوہ حضرت سودہ ؓ بنت زمعہ اور کنواری عائشہ ؓ بنت ابو بکر صدیق ؓ ۔ اس جواب پر آپﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ حضرت عائشہ ؓ ابھی کم سن بچی ہے ، نا بالغ ہے اور اس کی رخصتی میں دیر لگے گی ، یہ بھی نہیں فرمایا کہ وہ میرے منہ بولے بھائی کی بیٹی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اس وقت بالغ تھیں اور گھریلوامور نمٹانے کی اہل تھیں۔ دوسرا یہ کہ حضرت خولہ نے کم سن بچی اور نابالغ کا نام ہی کیوں لیا تھا ؟ اگر وہ کم سن تھی تو خولہ کو ایسا رشتہ کروانے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ تیسر ایہ کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے عائشہ ؓ کو آنحضرت ﷺ کو بیاہنے میں یہ عذر پیش نہیں کیا کہ وہ ابھی کم سن ہے البتہ یہ بات بطور عذر پیش کی کہ رسول اللہ ﷺ مجھے اپنا منہ بولا بھائی کہتے ہیں اور بھائی کی بیٹی بھتیجی ہوتی ہے تو پھر یہ رشتہ کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ عرب معاشرہ میں منہ بولے بھائی کی بیٹی کو حقیقی بھتیجی سمجھا جاتا ہے اور یہ رشتہ حرام جانا جاتا ہے نیز یہ کہ حضرت عائشہ ؓ کے والدین کو آنحضرت ﷺ سے اپنی کم سن بیٹی کو بیاہ دینے میں جلدی ہی کیا تھی ؟ دوسری طرف روف و رحیم نبی ﷺکیونکر کم سن سے شادی کرنے کے خواہا ں ہو سکتے ہیں ؟(نعوذ باللہ ) (سید الوریٰ۔۳۔۴۵)
دلیل ششم :روایات کی تحقیق :اس مفہوم میں روایات بخاری میں پانچ‘ مسلم میں چار اور ابو دائود میں ایک ہے ۔ بظاہر یہ دس روایتیں ہیں مگر حقیقت میں یہ صرف تین ہیں کیونکہ بخاری کی پانچ‘ مسلم کی دو اور ابو دائود کی ایک روایت ، یہ آٹھوں ایک ہی راوی سے یعنی ہشام بن عروہ سے مروی ہیں وہ حضرت عائشہؓ سے روایت کرتے ہیں جب کہ مسلم کی باقی دو روائتیں ہیں ان میں سے ایک زہری عروہ سے اور عروہ عائشہ ؓ سے راوی ہیں جب کہ دوسری میں ابراہیم ، اسود سے اور اسود حضرت عائشہ ؓ سے روایت کرتا ہے ۔ ہشام کو امام مالک کذاب کہتے ہیں لیکن دیگر محدثین ان کو ثقہ اور نہایت قوی راوی شمار کرتے ہیں ۔ تاہم اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ آخری عمر میں ان کو کسی قدر نسیان اور وہم کا عارضہ لاحق ہو گیا تھا ۔۔۔۔ اللہ اکبر! حضرت عائشہ کی رخصتی نو سال میں کراتے کراتے نوبت یہاں تک پہنچی کہ نو کا ہندسہ ہشام کے ذہن پر اس حد تک مسلط ہوا کہ انہوں نے اپنی بیوی کی رخصتی بھی نو سال میں کر ڈالی ۔۔۔۔ !! چلیں کوئی بات نہیں ، ہشام کو اگر نو سال اتنے ہی پسند ہیں تو یوں ہی سہی مگر انتہائی حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک دوسری روایت میں ہشام بتاتے ہیں کہ میری بیوی مجھ سے تیرہ سال عمر میں بڑی تھی ۔ واہ جی ، ہشام صاحب زندہ باد ! کیا کہنے آپ کے ۔۔۔ !! آپ نے ایسی عورت سے جو عمر میں آپ سے تیرہ سال بڑی تھی اس وقت شادی کر لی جبکہ اس کی عمر نو سال تھی گویا اپنی پیدائش سے چار سال پہلے آپ شادی کر چکے تھے ۔ ۔۔۔۔ہشام کی زندگی کے دو ادوار یعنی مدنی اور عراقی ہیں ۔ مدنی دور ۱۲۱ ہجری تک قائم رہا اس دور میں ان کے سب سے اہم شاگرد اما م مالک ہیں ۔ انہوں نے اپنی کتاب موطاء میں ہشام سے کئی روایات لی ہیں لیکن نکاح والی روایات موطاء میں دستیاب نہیں ہیں ۔ امام ابو حنیفہؒ بھی ہشام کے اسی دور کے شاگرد ہیں انہوں نے بھی روایات لی ہیں مگر اس روایت کو نقل نہیں کیا ۔ ۱۳۱ ہجری تک ہشام بلاشبہ سب کے نزدیک ثقہ تھے لیکن ۱۳۱ ہجری میں انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی پر ایک لاکھ روپے قرض لے کرخرچ کیے اس امید پر کہ خلیفہ وقت سے مدد لے کر قرض اتار دوں گا ۔ بنو امیہ کی حکومت بدلی اور بنو عباس برسر اقتدار آ گئے ،خلیفہ منصور کے سامنے دست سوال دراز کیا ، اس نے صرف دس ہزار دئیے ، یہ ان کا پہلا دماغی صدمہ تھا ۔جس کے باعث اس نے روایات میں بہکنا شروع کیا ۔ ۱۴۶ ہجری کو بغداد میں وفات پائی ۔ ان کی روایات میں گڑ بڑ اس دور سے متعلق ہے چنانچہ یعقوب بن ابی شیبہ کا بیان ہے کہ ہشام کی وہ روایات جو اہل عراق ان سے نقل کرتے ہیں ان کا کوئی بھروسہ نہیں اور شادی والی روایت اہل عراق کی روایت ہے ۔ حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ ہشام کے حافظہ میں آخری عمر میں تغیر آ گیا تھا ۔ حافظ عقیلی نے تو یہاں تک لکھ ڈالا کہ ہشام آخری عمر میں سٹھیا گئے تھے ۔ ہشام کے شاگرد امام مالک نے بھی ہشام کی عراق والی روایات کے باعث اعتراض کیے ہیں ۔ ابن حجر کا بیان ہے کہ عراقی روایات کے باعث تمام اہل مدینہ نے ان پر اعتراض کیے ہیں ۔( شمع حقیقت ۔۳۰۳)
مندرجہ بالا دس روایتوں میں سے آٹھ تو ہشام کی وجہ سے باطل ٹھہریں ۔ اب رہ گئیں مسلم کی دو روایتیں تو ان کی صورت حال یہ ہے کہ مسلم کی پہلی روایت میں سند اس طرح ہے ۔ حدیث بیان کی ہم سے عبد بن حمید نے ، اس نے کہا حدیث بیان کی ہم سے عبدالرزاق نے ، اس نے کہا ہم سے حدیث بیان کی معمر نے ، اس نے زہری سے اس نے عروہ سے ، اس نے عائشہ ؓ سے ۔ اس روایت میں زہری عروہ سے روایت کرتے ہیں اور محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہاامام زہری نے عروہ سے کچھ نہیں سنا ۔ ابن حاتم نے ذکر کیا کہ محدثین اس بات پر متفق ہیں کہ زہری نے عروہ سے کچھ نہیں سنا ، جب زہری کا عروہ سے سماع حدیث ثابت نہیں تو پھر درج بالا روایت کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے ۔ ۔۔اس سند کے ایک راوی عبدالرزاق ہیں ان کو اگرچہ بہت سے محدثین نے ثقہ قرار دیا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ یہ شیعہ تھے ۔۔ زید ابن مبارک کہتے ہیں کہ ایک دفعہ عبدالرزاق ہمارے سامنے ابن حدثان کی وہ حدیث بیان کر رہا تھا جس میں ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وراثت سے حصہ طلب کرنے کے لیے حضرت عباس ؓ اور حضرت علی ؓ ، حضرت عمر ؓ کے پاس آئے تو حضرت عمر ؓ نے عباس ؓ سے کہا کیا تم اپنے بھتیجے کا حصہ لینے آئے ہو اور علی ؓ سے کہا کہ تم تو وہ حصہ طلب کرنے آئے ہو جو تمہاری بیوی کو باپ سے ملتا ہے ۔ ۔۔۔ زید نے بتایا کہ یہاں پہنچ کر عبدالرزاق رک گیا اور کہا ’’ ذرا! دیکھو اس جھوٹے ( نعوذ باللہ ) یعنی عمرؓ کو ۔ کبھی کہتا ہے بھتیجے کی وراثت اور کبھی کہتا ہے بیوی کے باپ کی وراثت ، یہ نہیں کہتا کہ رسول اللہ کی وراثت ۔‘‘ زید کہتے ہیں کہ یہ بات سن کر میں اٹھ کر چلا آیا پھر لوٹ کر نہیں گیا نہ اس سے کوئی روایت لی ۔
مسلم کی دوسری روایت پر نظر ڈالتے ہیں جس میں چار راوی بیک وقت بیان کرتے ہیں کہ حدیث بیان کی ہم سے ابو معاویہ نے ، اس نے اعمش سے ،اس نے ابراہیم سے ،اس نے اسود سے ، اس نے عائشہ ؓ سے ۔۔۔۔۔ ان میں سے پہلے دو راوی یعنی ابو معاویہ اور اعمش دونوں شیعہ تھے ۔ کئی علماء تو اعمش کو ہلکے درجہ کا شیعہ قرار دیتے ہیں ۔۔۔ مشہور و معروف محدث ان کے بارے میں لکھتے ہیں ’’ وہ اپنی فضیلت اعتماد ،عظمت شان اور شیعہ ہونے کے سبب مشہور ہیں ۔۔۔۔ بہرحال اعمش ہلکے درجے کا شیعہ ہوں یا اعلی درجے کے ، اصل مسئلہ یہ ہے کہ ابو معاویہ پکا شیعہ تھا۔ علامہ ذہبی کہتے ہیں کہ ان کا غالی ہونا مشہور ہے ۔( یعنی شیعیت میں غالی ہونا )‘‘ پکا شیعہ ہونے کے علاوہ یہ ارجاء کا عقیدہ بھی رکھتے تھے اور مرجئہ میں سے تھے اور یہ تو آپ جانتے ہوں گے کہ حضرت الشیخ نے غنیۃ الطالبین میں مرجئہ کو گمراہ فرقوں میں شمار کیا ہے ۔ اس گمراہی کی وجہ سے محدث وکیع ان کے جنازہ میں شامل نہیں ہوئے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ وکیع ان کے جنازہ میں اس لیے حاضر نہیں ہوئے تھے کہ وہ مرجئہ تھے ۔ ‘‘ (صاحب سید الوریٰ کا بیان ختم ہوا )
دلیل ہفتم : سیدہ زینب بنت جحش کی شادی پر طوفان کھڑا ہو گیا کہ متبنیٰ بیٹے کی بیوی سے شادی کر لی ۔ پہلے جب زینب ؓ کنواری تھی آپ ﷺ نے اس سے نکاح کیوں نہ کیا ؟ اپنے پرائے سب نے دل کھول کر اعتراضات کی بوچھاڑ کردی حتیٰ کہ قرآن پاک نے اس کاجواب دیا اور دشمنان اسلام کی بولتی بند کر دی اس طرح سے زمانہ جاہلیت کی ایک باطل رسم کا خاتمہ ہو گیا ۔ لیکن بی بی عائشہ ؓ کی شادی کے بارے کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھتی ، کوئی شور شرابہ نہیں ہوتا ، کسی قسم کا طوفان بدتمیزی برپا نہیں ہوتا حالانکہ وہ وقت آپﷺ کی دشمنی و مخالفت کے لیے نہایت سازگار تھا ۔ وہ جو چھوٹی چھوٹی بات کا بتنگڑ بنا دیتے تھے اس پر ان کی زبانیں کیونکر گنگ ہو گئیں ، ان کے لب کیوں سل گئے ؟ بات یہی ہے کہ سیدہ عائشہ ؓ کی شادی کے وقت عمر اٹھارہ انیس سال تھی جس کے سبب سار اماحول مہر بلب تھا ۔
دلیل ہشتم: یہ بھی ذہن میں رہے کہ شائد ’’ عشرہ ‘‘ کا لفظ راوی کی بھول سے چھوٹ گیا ہو یا جان بوجھ کر روایت سے حذف کر دیا گیا ہو اس لیے کہ پیغمبر کو معتوب کیا جا سکے حالانکہ آپ ﷺ کے خاندان میں شادیاں اس انداز سے انجام پذیر ہوئیں ۔ سیدہ فاطمہ کی اکیس یا چھبیس سال اور ام کلثوم کی اٹھارہ سال کی عمر میں شادی ہوئی ۔ سیدہ زینب ؓ بنت جحش کی زید بن حارث سے شادی ۳۴ ویں سال میں ہوئی۔ حضرت ابو بکر ؓ کے خاندان میں سیدہ اسماء ؓ کی شادی چھبیس یا ستائیس سال میں ہوئی ، وہ سیدہ عائشہ ؓ سے عمر میں دس سال بڑی تھیں ۔تو اس وقت حضرت عائشہ ؓ کی عمر سولہ یا سترہ سال ہوئی اور رخصتی کے وقت اٹھارہ یا انیس سال ہوئی ۔ (امہات المومنین ۔۱۲۷)
دلیل نہم: شیعہ مورخ محمد بن جریر طبری نے لکھا کہ حضرت ابو بکر ؓ کی دو شادیاں تھیں ، ان سے چار اولادیں ہوئیں اور یہ تمام اولادیں زمانہ جاہلیت میں ہوئیں ، اب اگر حضرت عائشہ ؓ بقول ابن جریر بعثت سے چند سال قبل بھی پیدا ہوں تو رخصتی کے وقت ان کی عمر پھر بھی پندرہ سال بنتی ہے ۔
دلیل دہم: حضرت ابو بکر ؓ نے حبشہ ہجرت کرنے کا ارادہ کیا تو انہیں یہ فکر ہوا کہ پہلے اپنی بیٹی کا نکاح کروں ۔ مطعم نے اپنے بیٹے جبیر کے لیے حضرت عائشہ ؓ کا رشتہ طلب کیا تھا اس سلسلے میں جب حضرت ابو بکر ؓ مطعم بن عدی کے پاس گئے تو اس کی بیوی نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ تم ہمارے بیٹے کو بھی بے دین بنا لو گے ۔ یہ سن کر حضرت ابو بکر ؓ واپس چلے آئے ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہجرت حبشہ کے وقت یعنی سن پانچ نبوی میں حضرت عائشہ ؓ کی عمر اتنی تھی کہ ان کے والد کو ہجرت حبشہ کرنے سے پہلے ان کو بیاہ دینا چاہتے تھے ۔ ولیم میور کو مغالطہ ہوا کیونکہ وہ آنحضرت ﷺ کی نسبت جو مکہ میں طے پائی اور آپ کی عائشہ ؓ سے شادی جو سن دو ہجری میں مدینہ میں ہوئی ، کے وقت کو آپس میں گڈ مڈ کرتا ہے ۔( حوالہ بالا)
دلیل یازدہم: اس سازش ( کم سنی کی سازش) کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حضرت فاطمہؓ بھی بعثت سے پانچ سال قبل پیدا ہوئیں لیکن شیعوں کا دعویٰ ہے کہ حضرت فاطمہؓ نبوت کے پانچ سال بعد پیدا ہوئیںاور نکاح کے وقت ان کی عمر نو سال تھی حتی کہ تحفۃالعوام میں جو اردو زبان میں شیعوں کی کتاب ہے یہ تحریر ہے کہ جب لڑکی نو سال کی ہو جائے تو اس کی شادی کر دی جائے ،لہٰذا اس فریب کاری کو چھپانے اور اپنے باطل نظریہ کو پوشیدہ رکھنے کے لیے اورحضرت فاطمہ ؓ اور حضرت عائشہ ؓ کی عمر میں مطابقت قائم کرنے کی خاطر حضرت عائشہ ؓ کی عمر کا ہُّوا کھڑا کر دیا گیا ۔
دوازدہم: ایک روایت میں حضرت عائشہ ؓ نے سورہ القمر کی آیت نمبر ۴۶ کے نزول کے بارے میں کہا کہ وہ اس وقت جاریہ تھی ۔ ایک باشعور لڑکی سے ہی نزول آیات کا زمانہ یاد رہنا ہی متوقع ہو سکتا ہے اس طرح سے حضرت عائشہ ؓ زمانہ جاہلیت میں پیدا ہو چکی تھیں ۔ (حوالہ بالا)
واقعہ افک
اعتراض نمبر۱۰۸
’’ سر ولیم میور کہتا ہے کہ بنی مصطلق کے خلاف بھیجی ہوئی مہم جب مدینہ واپس آئی تو عائشہ ؓ کا محمل آپ کے سامنے دروازہ کے پاس مسجد کے متصل رکھا گیا ،لیکن جب کھولا گیا تو وہ خالی تھا ، تھوڑی دیر کے بعد صفوان جو ایک مہاجرتھے نمو دار ہوئے ،اونٹ پر عائشہ ؓ بیٹھی ہوئی تھیں اور آگے آگے صفوان تھے۔‘‘ مزید لکھتا ہے کہ ’’ اگرچہ صفوان نے بڑی جلدی کی تاہم فوج کو نہ پا سکے ۔ پس لوگوں کے اترنے اور خیمہ نصب کرنے کے بعد عائشہ ؓ صفوان کی رہبری منظر عام کے سامنے داخل شہر ہوئیں۔‘‘ (سیرت عائشہ ؓ از سلیمان ندوی ۔۹۴۔۹۵)
جواب : یہ واقعہ افک سے متعلق سر ولیم میور کی نفرت و تعصب پر مبنی رائے کا اظہار ہے ۔ حقیقت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ۔ کتب و احادیث اور السیّر اس کی نفی کرتی ہیں حالانکہ تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ صفوان چند گھنٹوں کے بعد دوپہر کے وقت اگلی منزل پر فوج سے آ ملے ۔ یہ سرے سے مدینہ کا قصہ ہے ہی نہیں بلکہ ولیم میور خود منافقین کا طرف دار بن کر اس گھناؤنے الزام میں شامل ہو کر اپنی اسلام دشمنی کا اظہار کرتا ہے جب کہ اس واقعہ کی سچائی کا اعلان قرآن پاک یوںکرتا ہے ۔
ماَ یَکُوْنُ لَنَا اَنْ نَّتَکَلَّمَ بِھٰذَا،سُبْحٰنَکَ ھَذَا بُھتَانٌ عَظِیْمٌo ترجمہ:’’کہا جاتا کہ ہمیں نہیں پہنچتا کہ ایسی بات کہیں ، الہٰی پاکی ہے تجھے ، یہ بڑا بہتان ہے۔‘‘
ضمناََ اعتراض
’’ سر ولیم میور نے ایک اور شوشہ چھوڑا کہ حسان نے اپنے شاعرانہ تخیل کو بدل کر ایک نہایت عمدہ نظم لکھی جس میں عائشہ ؓ کی عفت ،حسن عقل مندی اور چھریرے خوبصورت بدن کی تعریف تھی ۔ خوشامد بھری ہوئی تعریف نے عائشہ ؓ اور شاعر میں میل کرا دیا ۔‘‘
مذکورہ اعتراض کی بنیاد یہ ہے کہ حسان ؓ نے واقعہ افک میں حصہ لیا تھا جس سے عائشہ ؓ ان سے ناراض تھیں جب کہ ایسا نہیں ہے ۔بخاری و مسلم میں اس کا سبب خود حضرت عائشہ ؓ کی زبانی موجود ہے کہ حسان ؓ آپ ﷺ کی طرف سے کافروں کو جواب دیتے تھے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگ حسان ؓ کو برا کہتے ہیں لیکن خود حضرت عائشہ ؓ اپنی زبان سے برا نہیں کہتی تھیں بلکہ لوگوں کو اس سے روکتی تھیں ۔ یہ مستشرق اس ناراضی کو کم کرنے بلکہ دور کرنے کا سبب عمدہ نظم لکھنا بتاتا ہے جس میں خوشامد بھر ی تعریف نے ان دونوں میں میل کرا دیا ۔ الامان! ندوی صاحب فرماتے ہیں کاش انگلینڈ کا مستشرق اعظم ہم کو بتا سکتا کہ تمام نظم کے شعروں میں حضرت عائشہ ؓ کے حسن، عقل مندی اور چھریرے خوبصورت بدن کی تعریف کس شعر میں مذکورہے شائد ہمارے محقق کو یہ بھی نہیں معلوم کہ حضرت عائشہ ؓ کو جب یہ شعر سنایا گیا تو ان کا سن اس وقت چالیس برس کا تھا ،ان کا جسم اس وقت چھریرا نہیں بلکہ پندرہ سولہ سال میں بھاری ہو گیا تھا۔ (سیرت عائشہ از سلیمان ندوی ۔ص۹۶)
سر ولیم میور کی عربی دانی کا کمال ہے وہ کہتا ہے کہ اس نظم میں عائشہ ؓ کے چھریرے خوبصور ت بدن کی تعریف تھی۔ چھریرے بدن کی ہجو سے حضرت عائشہ ؓ کو بہت رنج ہوتا تھا۔ حسان جب اس فقرہ پر پہنچے جس میں ان کی لاغری کی طرف اشارہ تھا تو شوخی کے ساتھ شاعر کو روکا اور خود شاعر کی فربہی کی برائی کی ۔۔۔ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ اس طرز اخلاق اور حلیہ کا پتہ نہیں چلا ، ناچار خود سر ولیم میور کے بتائے ہوئے اشارہ پر ہم نے جستجو کی تو نظر آیا کہ تصویر کا قصور نہیں تھا بلکہ خود یورپ کے سب سے بڑے ماہر عربیات کے دماغی شیشہ کا قصور تھا ۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ حضرت حسان ؓ کے شعر کا دوسرا مصرع یہ تھا ’’ وتصبح غرثیٰ عن لحوم الغوافل ۔۔۔ ترجمہ: وہ بھولی بھالی عورتوں کا گوشت نہیں کھاتیں عربی محاورہ میں کسی کا گوشت کھانا ، اس کی غیبت اور پیٹھ پیچھے برائی کرنے سے عبارت ہے ۔ حضرت حسان کا مقصود یہ ہے کہ آپ کسی کی غیبت اور پیٹھ پیچھے برائی نہیں کرتیں ۔ حضرت عائشہ ؓ نے تعریضاََ کہا لیکن تم ایسے نہیں ہو ( یعنی تم غیبت کرتے ہو ) اور پیٹھ پیچھے برائی کرنے کے مرتکب ہوئے ہو ۔ یہ واقعہ افک کی طرف اشارہ تھا، اس سے یہ مقصود نہ تھا کہ میں تو دبلی ہوں مگر تم موٹے ہو ۔‘‘(سید کا بیان ختم ہوا ۔۹۵۔۹۶)اس جاہلانہ کمال کا تماشہ یورپ کے عجائب زار کے سوا ہم کو کہاں نظر آ سکتا ہے آ خر میں ہم کو ان کا ممنون ہونا چاہیے کہ اصل الزام کے بطلان سے ان کو بھی انکار نہیں ‘ لکھتے ہیں ’’ ان کی (حضرت عائشہ ؓ ) کی ما قبل اور ما بعد زندگی ہم کو بتاتی ہے کہ وہ اس جرم سے بالکل بے گناہ تھیں ۔‘‘
سر ولیم میور الزام پر الزام دھرتا ہے اور سیدھی بات نہیں کرتا ہمیشہ کج فہم رہتا ہے ۔ لیکن کبھی کبھار وہ کوئی سچی بات کہہ دے تو یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اب حقیقت پسند ہو گیا ہے اور اسلام کو سمجھنے لگا ہے ایسا ہرگز نہیں بلکہ وہ دروغ گوئی سے کام لیتا ہے ۔ ایک وقت میں کچھ کہا اور دوسرے وقت میں کچھ کہا یہ تضاد بیانی اس کے ہاں بکثرت ملتی ہے ۔ اسی واقعہ کے متعلق پہلے تین الزام دھرے پھر ان کی تردید کر دی ،وہ لکھتا ہے ’’ ان کی ( حضرت عائشہ ؓ کی ) ما قبل و ما بعد کی زندگی ہم کو بتاتی ہے کہ وہ اس جرم سے بالکل بے گناہ تھیں ۔ ‘‘ یہ لکھ کر بھی ہیر پھیر کی بات کی ہے اسے یہ علم نہیں کہ الزام اور جرم میں زمین آسمان کا فرق ہے کیونکہ الزام ثابت ہو جائے تو جرم بنتا ہے لہٰذا الزام بے ثبوت بے بنیاد اور باطل ہے تو اسے لکھنا چاہیے تھا کہ عائشہ ؓ اس الزام سے بالکل بے گناہ تھیں ۔ چلو دشمنی نہ چھوٹی مگر کچھ تو اپنے بیان کی تردید و نفی کر دی ۔ چونکہ مستشرق غلط اور وضعی روایات سے الزامات اخذ کرتے ہیں اس لیے ان کے اعتراضات کا جواب اصل روایات کے مطابق دیا جاتا ہے ۔
واقعہ افک کی اصل حقیقت /حدیث الافک :
حدیث بیان کی ہم سے عبدالعزیز بن عبیداللہ نے ، اس نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے ، اس نے صالح سے ، اس نے ابن شہاب سے ، اس نے عروہ بن زبیر اور سعید بن مسیب نے اور علقمہ بن وقاص نے اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے عائشہ ؓ سے جو نبی ﷺ کی بیوی ہیں ۔ جب کہا ان کے بارے میں اہل افک نے جو کچھ کہا ۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ ان سب نے یعنی عروہ ، سعید ،علقمہ اور عبیداللہ نے مجھے اس قصہ کا کوئی نہ کوئی ٹکڑا سنایا اور ان میں سے بعض زیادہ یاد رکھنے والے تھے اور بہتر انداز میں بیان کرنے والے تھے اس قصہ کو بہ نسبت بعض کے ۔ اور میں نے ان میں سے ہر ایک سے حدیث کے اس حصہ کو یاد کر لیا جو اس نے عائشہؓ کے حوالے سے مجھے سنایا اور بعض کی حدیث بعض دوسروں کی بیان کردہ حدیث کی تصدیق کرتی ہے ۔ اگرچہ بعض کو بہ نسبت دوسروں کے زیادہ یاد تھی ۔ ان سب نے کہا کہ عائشہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر کرنے کا ارادہ فرماتے تھے تو آپ اپنی بیویوں کا قرعہ ڈالتے تھے جس کا نام قرعہ میں نکلتا اسے اپنے ساتھ لے جاتے تھے ۔ ایک غزوہ میں رسول اللہ ﷺ نے قرعہ ڈالا تو اس میں میرا نام نکل آیا ، میں آپ کے ساتھ روانہ ہوئی ، اس وقت حجاب کا حکم نازل ہو چکا تھا اس لیے کجاوہ میں بٹھا کر اتاری اور چڑھائی جاتی تھی ۔ جب رسول اللہﷺ غزوہ سے فارغ ہو کر واپس آئے اور ہم مدینہ کے قریب تھے تو رات کو رسول اللہ ﷺ نے چلنے کا حکم دیا ، جب چلنے کا اعلان ہوا تو میں ( حوائج ضروریہ سے فراغت کے لیے ) روانہ ہوئی اور لشکر کی حدود سے نکل گئی ۔ جب میں فارغ ہو کر اپنی سواری کے پاس آئی اور اپنے سینہ کو ٹٹولا تو پتہ چلا کہ میرا ہار ،جو خزف یمنی کا تھا ، ٹوٹ گیا ہے اور کہیں گر پڑا ہے ۔ میں واپس گئی اور اپنا ہار ڈھونڈھنے لگی ، اس کی تلاش میں مجھے دیر ہو گئی ، جو لوگ مجھے سوار کراتے تھے انہوں نے کجاوہ اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیا اور ان کا یہ خیال تھا کہ میں بیٹھ گئی ہوں کیونکہ اس وقت کی عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں ، موٹی نہیں ہوتی تھیں ، نہ ان کو گوشت نے ڈھانپا تھا کیونکہ کھانا بہت کم کھاتی تھیں اس لیے کجاوہ اٹھانے والوں نے اس کو ہلکا نہ جانا اور اونٹ پر رکھ دیا ۔ اس وقت کم سن لڑکی تھی وہ سب اونٹ کو لے کر چل دئیے اور میں نے اپنا ہار لشکر روانہ ہونے کے بعد پایا جب میں لشکر کی جگہ آئی تو وہاں پکارنے والا تھا نہ جواب دینے والا ۔ میں اپنی سابقہ قیام گاہ پر اس خیال کو بیٹھ گئی کہ جب سب کو میرا گم ہونا معلوم ہو گا تو مجھے تلاش کرنے ضرور آئیں گے ۔ اس طرح میں اپنی جگہ بیٹھی تھی کہ مجھے نیند آنے لگی اور میں سو گئی ۔ صفوان بن خطل ذکوانی لشکر کے پیچھے رہتا تھا ( تاکہ گری پڑی چیز اٹھا لائے ) وہ صبح میرے پاس آئے اور سوتے آدمی کی پرچھائی سی دیکھی ، اس نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا کیونکہ پردہ کے حکم سے پہلے مجھے دیکھا ہوا تھا ، اس نے انا للّٰہ و اناالیہ راجعون، پڑھا ۔ میں اس کے انا للّٰہ پڑھنے سے بیدار ہو گئی اور اپنی چادر سے منہ چھپا لیا ۔ اللہ کی قسم ! ہم نے کوئی بات نہ کی نہ میں نے اس سے انا اللہ پڑھنے کے سوا کچھ سنا ۔ صفوان نے اتر کر اپنی سواری کو بٹھایا اور اس کا اگلا پائوں باندھا ، میں اٹھ کر اس پر سوار ہو گئی تو صفوان اونٹ کو کھینچتا ہوا چل پڑا اور ہم شدت گرمی میں بوقت دوپہر لشکر میں جا پہنچے ، وہ سب ٹھہرے ہوئے تھے ۔ ان میں سے جس نے ہلاک ہونا تھا ( تہمت لگا کر ) ہلاک ہوا اور جو شخص بڑا مرتکب ہوا تھا اس بہتان کا وہ عبداللہ بن ابی بن سلول تھا ۔ عروہ نے کہا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ عبداللہ بن ابی کے رو برو یہ تہمت پھیلائی جاتی تھی اور اس موضوع پر گفتگو ہوتی رہتی تھی جسے وہ خاموشی سے سنتا اور مزید کریدتا رہتا تھا ۔ عروہ نے یہ بھی بتایا کہ اہل افک میں سے سوائے حسان بن ثابت ، مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش کے اور کسی کا نام معلوم نہیں ، حالانکہ کچھ اور لوگ بھی تھے لیکن مجھے ان کا علم نہیں تاہم جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ، وہ عصبہ یعنی ایک گروہ تھا اور ان کے بڑے کو عبداللہ بن ابی کہا جاتا تھا ۔ عروہ نے کہا کہ عائشہ ؓ اس بات کو نا پسند کرتی تھیں کہ وہی تو ہے ( رسول اللہ ﷺکی مدح میں) کہا ہے کہ میں ، میرا باپ ، میرا دادا اور میری عزت اور ناموس محمد ﷺ پر قربان ہے ۔
عائشہ ؓ نے کہا کہ ہم لوگ مدینہ پہنچے تو میں ایک مہینہ تک بیمار رہی اور تہمت لگانے والوں کی باتیں لوگ پھیلاتے رہے مگر مجھے کچھ پتہ نہیں تھا ۔ البتہ بیماری کی حالت میں اس وجہ سے کچھ شک ضرور تھا کہ نبی ﷺ میرے ساتھ اس طرح پیش نہیں آتے جس طرح اس سے قبل بیماری کے دوران پیش آیا کرتے تھے ، اب تو صرف تشریف لاتے ، سلام کرتے پھر پوچھتے تو کیسی ہے ؟ تا ہم مجھے صحیح طور پر اس شر کا قطعاََ ادراک نہ تھا ایک رات میں اور مسطح کی ماں ’’ مناصح ‘‘ کی طرف (حوائج ضروریہ سے فراغت کے لیے ) نکلیں ۔ ہم لوگ رات کو ہی جایا کرتے تھے کیونکہ اس وقت گھروں میں بیت الخلا نہیں تھے اور ضروریات کے سلسلے میں ہمارا دستور وہی جو عربوں کا پہلے سے چلا آتا تھا یعنی فراغت کے لیے باہر جایا کرتے تھے اور گھروں میں بیت الخلا سے تکلیف محسوس کرتے تھے ۔ میں اور ام مسطح جا رہی تھیں ۔ ام مسطح ابی رہم بن عبدالمطلب بن عبدالمناف کی بیٹی ہے اور اس کی والدہ صخر بن عامر کی بیٹی ہے جو ابو بکر صدیق ؓ کی خالہ ہے ۔ مسطح کا باپ اثاثہ ہے جو عباد بن مطلب کا بیٹا ہے ۔ اچانک ام مسطح اپنی چادر میں پھنس کر لڑ کھڑائیں اور کہا ’’ مسطح ہلاک ہو جائے ‘‘ میں نے اس سے کہا ! تو نے بہت بری بات کہی ہے تو ایسے آدمی کو برا کہتی ہے جو بدر میں شریک تھا ۔ اس نے کہا ! اے بی بی ! کیا تم نے وہ نہیں سنا جو اس نے کہا ؟ میں نے پوچھا۔ اس نے کیا کہا ؟ تو اس نے مجھ سے تہمت لگانے والوں کی بات بیان کی ہے جسے سن کر میری بیماری اور بڑھ گئی ۔ جب میں اپنے گھر آئی تو رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور سلام کے بعد پو چھا ۔ تو کیسی ہے ؟ میں نے عرض کی اگر اجازت ہو تو اپنے والدین کے گھر چلی جائوں ۔ میرا مقصد یہ تھا کہ اس خبر کے متعلق ان سے جا کر تحقیق کروں ۔ رسول اللہ ﷺنے اجازت دے دی ، چنانچہ میں نے اپنی والدہ سے پوچھا ۔ امی لوگ کیا باتیں کرتے ہیں ؟ انہوں نے کہا ۔۔ بیٹی تو ایسی باتوں کی پروا نہ کر ، واللہ جو عورت حسین ہو اور اس کے شوہر کو اس سے محبت ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں تو اس قسم کی باتیں ہوا ہی کرتی ہیں ۔ میں نے کہا ۔ ۔ سبحان اللہ ! کیا لوگ واقعی اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں ؟ میں نے وہ رات اس حالت میں گزاری کہ میرے آنسو تھمتے تھے نہ مجھے نیند آتی تھی ۔ جب صبح ہوئی اور وحی اترنے میں دیر ہو گئی تو رسول اللہ ﷺ نے علیؓ بن ابی طالب اور اسامہ بن زیدؓ کو بلایا اور اپنی اہلیہ کو چھوڑنے کے سلسلے میں ان سے مشورہ طلب کیا ، اسامہ چونکہ جانتا تھا کہ آپ ﷺ اپنے گھروالوں کو پاک دامن سمجھتے ہیںاور اپنی بیویوں سے محبت کرتے ہیں۔ اس لیے اس نے ویسا ہی مشورہ دیا اور کہا ۔۔ یا رسول اللہ ﷺ وہ آپ کی گھر والی ہیں اور میں آپ کے گھر والوں میں بھلائی ہی جانتا ہوں۔ لیکن حضرت علی ؓنے کہا۔۔ یا رسول اللہ ! اللہ نے آپ پر تنگی نہیں کی اور عورتیں اس کے سوا بھی بہت ہیں آپؐ لونڈی سے دریافت کریں ، وہ آپ سے سچ بیان کرے گی ۔ رسول اللہ ﷺ نے بریرہ کو بلایا اور فرمایا اے بریرہ ! کیا تو نے ( عائشہ ؓ میں ) کوئی ایسی بات دیکھی ہے جو تجھے شبہ میں ڈال دے ؟ بریرہ نے عرض کی ۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ، میں نے ان میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جو عیب کی ہو بجز اس کے کہ وہ کم سن ہیں ، آٹا گوندھا ہوا چھوڑ کر سو جاتی ہے اور بکری کھا جاتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ منبر پر کھڑے ہو گئے اور عبداللہ بن ابی کے مقابلے میں تعاون طلب کیا ۔ آپ ؐنے فرمایا۔ اے جماعت مسلمین ! کون ہے جو میرا ساتھ دے اس شخص کے مقابلے میں جس نے مجھے میرے گھر والوں کے متعلق اذیت دی حالانکہ اللہ کی قسم ! میں اپنے گھر والوں میں بھلائی ہی جانتا ہوں اور جس مرد کا یہ نام لیتے ہیں ، اس میں بھی بھلائی ہی دیکھتا ہوں۔ وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہی میرے گھر والوں پر داخل ہوتا ہے ۔ یہ سن کر سعد بن معاذؓ جو بنی عبدالاشہل سے تھا ، کھڑا ہوا اور کہا یا رسول اللہ ! میں آپ کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں ، اگر وہ شخص قبیلہ اوس کا ہو اتو میں اس کی گردن اڑا دوں گا اور اگر وہ ہمارے بھائی خزرج قبیلہ کا ہو تو آپ جیسا حکم دیں گے ہم اس پر عمل کریں گے ، یہ سن کر قبیلہ خزرج کا ایک شخص کھڑا ہو گیا جس کے چچا کی بیٹی حسان کی ماں تھی اور اس قبیلہ کی ایک شاخ سے تھی ۔ سعد بن عبادہ ؓجو خزرج کا سردار تھا وہ اس سے پہلے ایک اچھا آدمی تھا مگر اس کو قومی عصبیت نے اکسایا اور اس نے کہا ۔ اللہ کی قسم ! نہ تو اسے مارے گا نہ اس کے قتل پر قادر ہے اور اگر وہ تیرے قبیلے سے ہوتا تو تواس کے قتل کو ہرگزپسند نہ کرتا پھر اسید بن حضیر کھڑا ہوا جو سعد بن معاذ کے چچا کا بیٹا تھا اور سعد بن عبادہ سے کہا ۔ تو جھوٹ کہتا ہے اللہ کی قسم ، ہم اسے قتل ضرور کریں گے ، تو منافق ہے اور منافقوں کی طرف سے جھگڑا کرتا ہے ۔ اس طرح دونوں قبیلے اوس اور خزرج بھڑک اٹھے اور قریب تھا کہ لڑ پڑتے جبکہ رسول اللہ ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے ان کو چپ ہونے کا کہہ رہے تھے یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گئے اور آپ ﷺ بھی خاموش ہو گئے ۔
یہ سارا دن میں نے روتے ہوئے گزارا ، نہ میرے آنسو تھمتے تھے اور نہ مجھے نیند آتی ، میرے والدین میرے پاس تھے اور میں دو راتیں اور ایک دن مسلسل روتی رہی ، نہ میری آنکھ لگی نہ آنسو رکے اور مجھے یوں لگتا تھا کہ رو رو کر میرا کلیجہ پھٹ جائے گا ۔ ایک موقعہ پر میرے ماں باپ میرے پاس بیٹھے تھے اور میں رو رہی تھی کہ اتنے میں ایک انصاری عورت نے اندر آنے کی اجازت طلب کی ۔ میں نے اجازت دے دی ، وہ بھی میرے ساتھ آکر رونے لگی ۔ ہم اسی حال میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور سلام کر کے بیٹھ گئے حالانکہ جب سے مجھ پر تہمت لگی تھی میرے پاس نہیں بیٹھے تھے اور ایک مہینہ تک انتظار کرتے رہے تھے لیکن میرے بارے میں کوئی وحی نازل نہیں ہوئی، آپ نے تشہد پڑھا پھر فرمایا ۔ اے عائشہ ؓ ! تیرے متعلق مجھے ایسی خبر ملی ہے کہ اگر تو اس سے پاک ہے تو اللہ تعالیٰ تیری پاکیزگی ظاہر کر دے گا اور اگر تو اس گناہ میں مبتلا ہے تو اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کر اور توبہ کر ، اس لیے کہ جب بندہ اپنے گناہوں کاا قرار کر لیتا ہے تو اللہ تعالی ٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے ۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی گفتگو ختم کی تو میرے آنسو تھم گئے اور آنکھوں میں قطرہ تک باقی نہ رہا میں نے اپنے والد سے کہا ، میری طرف سے رسول اللہ ﷺ کو جواب دیں ! انہوں نے کہا ۔ واللہ میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ کو کیا کہوں ۔ پھر میں نے اپنی ماں سے کہا !میری طرف سے رسول اللہ ﷺ کو جواب دیں ، انہوں نے کہا!واللہ میں نہیں جانتی کہ رسول اللہ ﷺ کو کیا جواب دوں ؟ عائشہ ؓ نے کہا میں کم سن اور زیادہ قرآن پڑھی ہوئی نہ تھی ، تاہم میں نے کہا ۔ بخدا میں جانتی ہوں کہ تم نے وہ چیز سن لی ہے جو لوگوں میں مشہور ہے اور وہ تمہارے دلوں میں بیٹھ گئی ہے اور تم نے اس کو سچ سمجھ لیا ہے ، اب اگر میں یہ کہوں کہ میں اس سے پاک ہوں تو تم میری بات کو سچا نہیں جانو گے اور اگر میں اسی بات کا اقرار کروں کہ اللہ جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں ۔تو تم مجھے سچا نہیں سمجھیں گے ۔ پھر میں نے بستر پر کروٹ بدل لی اور چونکہ میں اس تہمت سے پاک تھی اس لیے مجھے امید تھی کہ اللہ تعالیٰ میری پاک دامنی ظاہر کر دے گا ، لیکن یہ توقع نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے بار ے میں وحی نازل فرمائے گا ، جس کی تلاوت کی جائے گی کیونکہ میں اپنے کو زیادہ سے زیادہ یہ سوچتی تھی کہ اللہ تعالیٰ خواب میں رسول اللہ ﷺ کوکوئی ایسا منظر دکھا دے گا‘ جس سے اللہ تعالیٰ میری پاک دامنی ظاہر فرما دے گا ۔ پھر اللہ کی قسم آپﷺ اس جگہ سے ہٹے بھی نہ تھے اور نہ گھر والوں میں سے کوئی باہر گیا تھا کہ آپ پر وحی کی کیفیت طاری ہو گئی جو نزول وحی کے وقت ہوا کرتی تھی اور اس کلام کے ثقل کی وجہ سے جو آپ پر نازل ہو رہا تھا ، سردی کے دنوں میں بھی آپ کے چہرہ پر پسینہ موتیوں کی طرح بہنے لگا ، جب رسول اللہ ﷺ کی یہ کیفیت دور ہوئی تو ہنسنے لگے اور پہلا کلمہ جو آپ کے منہ سے نکلا وہ یہ تھا کہ عائشہ ؓ ! اللہ کا شکر ادا کرو ، اس نے تمہاری پاک دامنی بیان کی ۔ مجھ سے میری ماں نے کہا۔ رسول اللہ کے سامنے کھڑی ہو جا ، میں نے کہا ۔ اللہ کی قسم ! میں رسول اللہ کے لیے نہیں کھڑی ہوں گی اور صرف اللہ کا شکر ادا کروں گی ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دس آیات نازل فرمائیں ۔ اَنَّ الَّذِینَ جَا ئُ وابِالاِ فکِ ۔۔ جب اللہ تعالیٰ نے میری براء ت نازل فرمائی تو ابو بکر صدیق ؓ نے جو مسطح بن اثاثہ پر رشتہ داری اور اس کی تنگ دستی کی وجہ سے خرچ کیا کرتے تھے ، کہا کہ اللہ کی قسم ! مسطح نے عائشہ ؓ کے بارے میں جو کچھ کہا ، اس کے بعد اب میں مسطح پر کچھ خرچ نہیں کروں گا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ و الایا قل اولوا الفضل ۔۔۔ غفور رحیم ‘‘ ابو بکر نے کہا کہ میں تو پسند کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری مغفرت فرمائے اس لیے وہ مسطح پر جو خرچہ کیا کرتے تھے ، دوبارہ شروع کر دیا اور کہا۔۔ اللہ کی قسم ! اب میں کبھی اس کا خرچہ نہیں روکوں گا ‘‘۔
حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے زینب بن جحشؓ سے بھی میرے بارے میں پوچھا تھا کہ تو اس کے متعلق کیا جانتی ہے یا تو نے کیا دیکھا ہے ، تو اس نے کہا کہ میں اپنے کانوں اور آنکھوں کی حفاظت کرتی ہوں اور میں نے بھلائی کے سوا کچھ نہیں جانا ، حالانکہ ازواج نبی ﷺ میں وہی تھیں جو میری ہمسری کیا کرتی تھیں مگر اس تقویٰ کی وجہ سے اللہ نے ( تہمت لگانے سے) بچا لیا البتہ ان کی بہن حمنہ اس کے لیے لڑتی رہی ، تو ہلاک ہوئی ان کے ساتھ جو ہلاک ہوئے ( تہمت لگانے کی وجہ سے ) ابن شہاب نے کہا کہ یہ وہ کچھ جو مذکورہ بالا جماعت رواۃ کی وساطت سے مجھ تک پہنچا ۔ عروہ نے بتایا کہ عائشہ ؓ نے کہا جس شخص کو میرے ساتھ متہم کیا گیا وہ کہا کرتا تھا کہ اللہ کی قسم ! میں نے تو کسی بھی عورت کے قابل پردہ حصہ جسم سے پردہ نہیں ہٹایا ،عائشہ ؓ نے یہ کہا کہ بعد میں وہ اللہ کے راستے میں مارا گیا تھا ۔ یہ روایت زہری سے مروی ہے اور مضطرب اور قابل استشہاد ہے ۔ یہ روایت نہیں بلکہ ایک کہانی ہے ۔ زہری کا کہنا ہے کہ اخبر نی عروہ ،ایک کھلی تدلیس ہے اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ زہری نے عروہ سے کچھ نہیں سنا،معلوم نہیں کس نے سنا اور عروہ کی جانب منسوب کردیا ۔ یہ ساری تفصیل جو حدیث افک میں منقول ہے ، زہری کی روایت کے سوا کسی اور میں نہیں ملتی اور زہری کا ارسال اور تدلیس مشہور ہے اور زہری کا ادراج بھی محدثین میں بہت مشہور ہے ۔ زہری سے اوپر اس روایت کا بالکل وجود نہیں ہے بلکہ زہری کے وقت میں بھی یہ روایت عام نہ تھی صرف اس کے خاص تلامذہ کو ہی اس کا علم تھا ، بعد میں زہری کی اس روایت کا تتبع اور مرتب شکل میں عبدالرزاق نے اپنے مصنف میں معمر کے واسطے سے بیان کیا ، وہیں سے یہ روایت آگے چلی ۔ امام احمد نے اس روایت کو عبدالرزاق سے لیا اور بعد میں ان کے ہم عصر محدثین نے اسے قبول کیا ۔۔۔ یہ اصل روایت زہری کی ہے ۔ محمد بن اسحق نے بھی زہری سے اس کو روایت کیا ۔ ابن ہشام نے ، ابن اسحق سے روایت لی اور اس کو مہذب صورت میں عبدالرزاق بن ہمام نے اپنی کتاب المصنف میں بیان کیا ۔یہ شخص سیدہ عائشہؓ سے بہت ہی ناراض ہے ۔ ان کی اہانت سے اسے بڑی خوشی ہوتی ہے ۔ زہری کی روایت عبدالرزاق کے دور میں بھی عام ہوتی تو اسے اس دور کی کتابوں میں آنا چاہیے تھا لیکن اس دور میں موطاء امام مالک ، امام محمد اور امام ابو یوسف کی کتب میں نہیں ملتی ۔ مسند ابو دائود طیالسی اور واقدی اور ابن سعد نے بھی اس کا ذکر نہیں کیا ۔ ( خاتم النبین ۔ ص۔۷۰۵تا۷۰۷)
روایت میں ہے ’’ اٹھانے والوں نے بغیر دیکھے ہوج اٹھا کر رکھ دیا‘‘ لیکن آخر وزن توکچھ ہونا ہی تھا جس سے اٹھانے والوں کو عائشہ ؓ کی موجودگی یا غیر موجودگی کا علم ہو جاتا مگر اس کا جواب یہ گھڑا ’’ اس زمانہ میں عورتیں کم کھاتی تھیں ، اس لیے دبلی ہوتی تھیں ‘‘ ۔ کمزور ہو یا جس قدر دبلی ہوآخر کچھ وزن تو ہوتا ہے جس سے لازمی طور پر ان کے ہوج میں ہونے یا نہ ہونے کا علم ہو سکتا تھا ۔
دوم: رسول اللہ ﷺ قسم اٹھا کر کہتے ہیں کہ میں اپنی اہلیہ میں خیر اور بھلائی کے سوا کچھ نہیں جانتا اور پھر آپ ﷺ کا یہ کہنا کہ (اگر تو گناہ میں مبتلا ہو چکی ہے تو توبہ اور استغفار کر) آپ سے یہ تضاد بیانی منسوب کرنا حبیب خدا ﷺکی توہین ہے ۔ اللہ تعالیٰ بچائے !
سوم: یہ احتمال اس قدر بڑھا کہ آپ ﷺ نے حضرت اسامہ ؓ اور حضرت علی ؓ سے حضرت عائشہ ؓ کے بارے میں پوچھا ۔ حضرت اسامہ نے نہایت مہذب اور واضح طریقہ سے حضرت عائشہ ؓ کی بریت بیان کی جب کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا ’’یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺپر کوئی تنگی نہیں فرمائی اور عورتیں اس کے علاوہ بھی بہت ہیں ۔‘‘ دوسری عورتوں کی ترغیب دینے کا مطلب واضح ہے کہ طلاق اور دوسری شادی کا مشورہ بریت سے متضاد ہے اور یہ حضرت علی ؓ کی توہین ہے کیونکہ ایسے مشورہ کی ان سے ایسی توقع غیر متوقع ہے ۔
چہارم: حضرت ام رومان اور حضرت صدیق ؓ حضرت عائشہ ؓ کے کہنے پر بھی رسول اللہ ﷺ سے اپنی بیٹی کی بریت اور پاکیزگی کا کچھ نہیں کہتے گویا انہیں بھی تذبذب تھا کہ ان کی بیٹی اس گناہ میں ملوث ہے ۔ لاحول ولاقوۃ۔ حد تو یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے کہا اور اپنی ماں باپ اور شوہر کو مخاطب یوں ہوئیں ۔ اللہ کی قسم میں جانتی ہوں کہ تم لوگوں نے میرے بارے میںیہ بات سنی تو تمہارے دلوں میں بیٹھ گئی اور تم نے سچ سمجھ لیا ۔ اب اگر میں کہوں کہ میں اس سے پاک ہوں اور اللہ جانتاہے کہ میں پاک ہوں تو تم مجھے سچا نہیں سمجھیں گے اور اگر میں اس کام کا اعتراف کروں ، جس کے بارے میں اللہ جانتاہے کہ میں اس سے پاک ہوں تو آپ مجھے سچا سمجھیں گے ۔‘‘ ؟
پنجم: یہ الزام منافقین نے دھرا لیکن روایت میں حضرت عائشہ ؓ کی والدہ ام رومان نے عائشہ ؓ کی سوکنوں پر الزام لگایا ۔ وہ بیٹی کو تسلی دیتے ہوئے کہتی ہیں ۔ جب کوئی عورت خوبصورت ہو ،خاوند کی نگاہوں میں پسندیدہ ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں تو ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ وہ اس کے خلاف باتیں نہ بنائیں ۔ دیکھئے کہ بیٹی کی طرف داری میں ازواج حبیب خد ا ﷺ پر تہمت لگائی ہے جبکہ ازواج مطہرات نے عائشہ ؓ کے متعلق ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔
ششم: حضرت زینب بنت جحش کی بہن حمنہؓ کے متعلق کہا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی بہن کی حمایت میں تہمت کی خبر اڑائی ،جبکہ اس وقت سیدہ زینب ؓ کا نکاح بھی نہیں ہوا تھا ۔
ہفتم : مدینہ طیبہ کو روانگی ہوئی تو آپ کے ہمراہ سات سو آدمی تھے اور چھ سو قیدی جن میں ایک سو خواتین تھیں ،ساتھ آئیں ۔پانچ ہزار بکریاں ،دو ہزار اونٹ غنیمت میں آئے ۔ہار کی تلاش میں پیچھے رہ جانے کے بعد حضرت عائشہ ؓ اپنی پہلی جگہ پر تشریف لائیں اور سو گئیں،ذراسوچیے ! کہ وہ تنہا پیچھے رہ گئیں لشکر چل دیا اور کسی لشکری کو ان کے پیچھے رہ جانے کی خبر تک نہ ہوئی بعید از قیاس ہے اور بے فکر ہو کر سو گئیں جبکہ انہیں اس فکر مندی میں نیند کا آنا مشکل ہے ۔
ہشتم: سب سے بڑا الزام ( خاکم بدہن ) نبی پاک ﷺ پر آتا ہے کہ آپ ﷺنعوذ باللہ اس قدر غافل تھے ۔کہ بیوی پیچھے رہ گئی اور انہیں خبر تک نہ ہوئی کہ سیدہ عائشہ ؓ کہا ں ہیں ؟ حالانکہ آپ کا معمول تھا کہ غزوات میں ازواج مطہرات کو آپ ﷺخود سواری پر سوار کرتے تھے تو اس موقع پر اس عمل سے کیونکر پیچھے رہے ۔ اور یہ آپ ﷺ کے عمل کے خلاف ہیں ۔
نہم : منافقین نے حسان ،مسطح اور حمنہ پر الزام لگایا لیکن منافقین میں سے ابن ابی کے سوا کسی کا ذکر نہیں ملتا جبکہ قرآن میں عصبہ کا ذکر ہے اور عصبہ کئی افراد پر مشتمل گروہ ہوتا ہے ۔
دہم: سعد بن معاذؓ ،سعد بن عبادہؓ اور اسید بن حضیرؓ ،عبداللہ بن ابی منافق کے بارے میں الجھ پڑے ۔۔۔ ایک منافق کی حمایت میں بول رہا ہے تو دوسرا اسے منافق اور جھوٹا کہہ رہا ہے کیا صحابہ کی شان میں یہ توہین نہیں کہ وہ اس قسم کے اخلاق کا مظاہرہ کریں ۔ حد تو یہ ہے کہ اوس وخزرج دونوں قبیلے اٹھ کھڑے ہوئے اور لڑنے کے قریب تھے ، انا للہ واناالیہ راجعون‘‘ اوریہ سب کچھ آپ ﷺکی موجودگی میں ہو رہا ہے جبکہ اس ذات کے سامنے آواز بلند کرنے سے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔۔۔ لا ترفعوا اصواتکم ۔۔۔اس پر دال ہے۔
یازدہم : وَالَّذِیْنَ یُوئْ ذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ o (ترجمہ) آپ پر جان وارنے والے آپ ﷺ کو ایذا پہنچانے کی سوچ بھی نہیں سکتے تو بھلا کیونکر آپ ﷺ کو ایذا پہنچا کر عذاب علیم کے مستحق ٹھہرے ۔ ‘‘
بازدہم: تاریخی لحاظ سے صفوان ؓبن معطل کی شرکت غزوہ مریسع میں مشکوک ہے ، واقدی کے بیان کے مطابق وہ پہلی دفعہ غزوہ خندق میں شریک ہوئے اور غزوہ خندق ، غزوہ مریسع کے بعد واقع ہوا ہے تو وہ بی بی عائشہ ؓ ،کے اونٹ پر سوار کر کے کیسے لا سکتے ہیں۔؟ اس طرح سے سارا قصہ غلط ہو جاتا ہے۔ کلبی کہتا ہے کہ صفوانؓ پہلی مرتبہ غزوہ مریسع میں شریک ہوئے جبکہ کلبی واقدی سے زیادہ معتبر نہیں اور اگر کلبی کا بیان درست مان لیا جائے تو سیدنا صفوان ؓ کی پہلی شرکت تھی اور نو وارد آدمی کو کسی غزوہ میں اتنی اہم ذمہ داری نہیں سونپی جا سکتی ۔
سیزدہم: زہری کا اس قسم کی روایت کو بیان کرنے کی وجہ اس کا کور باطن ہے وہ عائشہ ؓ اور حضرت صدیقؓ کا زبردست مخالف ہے ۔ چنانچہ محققین نے اسے رجال شیعہ میں سے لکھا ہے ۔ حضرت مولانا پیر قمر الدین ؒسیالوی نے بھی ابن شہاب کے بارے اپنی کتاب میں لکھا ’’ اب فدک والی روایت میں ایک شخص محمد بن مسلم ہے جس کو ابن شہاب زہری بھی کہتے ہیں ۔ صرف یہی راوی یہ روایت کرتا ہے اس کے ساتھ کوئی شاہد نہیں اور یہ ابن شہاب اہل تشیع کی ’’ اصول کافی ‘‘ میں بیسیوں جگہ پر روایتیں کرتا نظر آتا ہے اور اہل تشیع کی ’’ فروع کافی‘‘ نے تو اس کی روایتوں کے بل بوتے پر کتاب کی شکل اختیار کی ہے ۔ تو بھائیو! اہل تشیع کے اس قدرمشہور و معروف کثیرا لروایات آدمی کی روایت سے اہل السنت پر الزام قائم کرنا اور آئمہ صادقین کو جھٹلانا عجیب نظر و فکر ہے ۔اگر اہل تشیع کے راویوں کی روایات اہل سنت کے لیے قابل توجہ ہوتیں تو پھر بخاری ہو یا کافی کلینی ، میں کیا فرق رہ جاتا ہے ۔‘‘( مذہب شیعہ ص ۔۹۳) محدثین نے ایک ایک حدیث پر غور فکر کیا اور چھان پھٹک کر اس کا درجہ مقررکیا ‘ اسے قبول یا رد کر کے وضاحت کر دی جیسے اسی واقعہ سے متعلق بخاری شریف کی ایک حدیث سے متعلق محدثین کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے اور بعض کہتے ہیں کہ اس روایت میں رواۃ کا تسامح ہے حدیث یہ ہے کہ افک عائشہ صدیقہ ؓ کے بعد حضور ﷺ نے مسجد میں فرمایا کہ کون ہے جوان منافقوں کے مقابلہ میں مستعد ہو حضرت سعد بن معاذ ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میں مستعد ہوں ۔اصحاب سیرت لکھتے ہیں کہ یہ صحیح نہیں ہے ‘ اصحاب سیرت متفق ہیں کہ حضرت سعد ؓ کا غزوہ احزاب کے بعد بنی قریظہ کا فیصلہ کر کے انتقال ہو گیا اور صحیح یہ ہے کہ غزوہ مریسع میں افک کا قصہ ہوا وہ اس کے بعد ہوا اس لیے حضرت سعد بن معاذ ؓ تو افک کے وقت تھے ہی نہیں ‘ اکثر محدثین تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن معاذ ؓ کا نام اس روایت میں رواۃ کا تسامح ہے ۔( اصح السیر ۔۱۱)
اعتراض نمبر۱۰۹
انسائیکلو پیڈیاآف اسلام کے جدید ایڈیشن کے ایک مقالہ میں حدیثو ں کے بارے سیدہ عائشہ ؓ پر الزام لگایا گیا ہے ، کہا جاتا ہے کہ سیدہ عائشہ ؓ ایک ہزار دو سو دس حدیثوں کی راویہ ہیں مگر صحیح مسلم و بخاری میں صرف تین سو حدیثوں کو درج کیا گیا ہے ۔ ( امہات المومنین ۔۱۳۱)
جواب: معترض اس اعتراض سے ایک بات تو یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ تین سو احادیث قابل اعتبار اور معتبر ہیں باقی غیر معتبر ۔ دوسری یہ بات کہ باقی احادیث کی کتب میں حدیثیں جو موجود ہیں ناقابل اعتبار ہیں ۔ در اصل اس مقالہ میں صیححین کی حدیثوں کی تعداد بھی درج نہیں کی گئی ۔ سید سلیمان ندوی سیرت عائشہ ؓ میں بخاری کی ۲۲۸ ،اور مسلم کی ۲۳۲ حدیثو ں کا ذکر کرتے ہیں جو سیدہ عائشہ ؓ کی روایت کی گئی ہیں ۔ ان دونوں کو ملا کر احادیث کی تعداد ۴۶۰ بنتی ہے لہٰذا مقالہ نگار کا تین سو حدیثوں کا ذکر کرنا غلط ثابت ہوتا ہے ۔ علاوہ ازیں ہر محدث کا جامعین حدیث کا اپنا طریقہ ہے ۔ اگر ہم مختلف محدثین کے طریقہ کار میں اختلاف تلاش کرنا شروع کر دیں تو یقیناََ حدیث کے انحراف کے مترادف ہو گا۔ نیز دیگر جامعین نے سیدہ عائشہ ؓ کی حدیثوں کو نقل کیا ہے جیسے مسند امام احمد بن حنبل کے چھٹے باب میں ام المومنین عائشہ ؓ کی بیان کردہ حدیثوں کے اندراجات سے ۲۵۳ صفحات پر مشتمل کتاب بن سکتی ہے ۔ Nabia Abbot ( نابیہ ایبٹ ) سیدہ عائشہ ؓ کو مدینہ کے چوٹی کے محدثین جناب ابو ہریرہ ؓ ، ابن عمر ؓ اور ابن عباس ؓ کے ہم پلہ قرار دیتی ہے ۔ وہ انتہائی قابل رشک یادداشت اور حافظہ کی مالکہ تھیں‘ جنہیں دو تین ہزار کے قریب حدیثیں یاد تھیں ۔ ( حوالہ بالا)
پروفیسر بیون (Bevan ) کہتے ہیں ’’ مسلمانوں کی کتب احادیث میں سیدہ عائشہ ؓ سے روایت کی گئی حدیثیں معتبر ترین اور کثیر التعداد ہیں ۔ایم سلیگ سون کہتا ہے کہ ام المومنین عائشہؓ راویان حدیث میں ممتاز ترین مقام پر متمکن ہیں ۔ ایک ہزار دو سو دس احادیث کی وہ راویہ ہیں ، اور یہ ایسی حدیثیں ہیں جو انہوں نے براہ راست پیغمبر اسلام ﷺ کے دہن مبارک سے سماعت کیں ۔ اکثر اوقات ان سے دینی اور قانونی مسائل پر مشورہ لیا جاتا تھا ۔ لوگ ان کی قابلیت کے رطب اللسان تھے ۔ پڑھنا لکھنا جانتی تھیں اور انہیں کئی قصائد زبانی یاد تھے ۔ ( حوالہ بالا۔۱۳۸۔۱۳۷)
اعتراض نمبر۱۱۰
علامہ آلوسی ؒ لکھتے ہیں کہ شیعہ نے اس آیت ’’ و قر ن فی بیو تکن ۔۔۔ الا ولی ‘‘ سے حضرت عائشہ ؓ پر طعن کیا ہے کہ وہ مدینہ سے مکہ کی طرف گئیں اور مکہ سے بصرہ گئیں اور وہیں پر واقعہ جمل پیش آ یا ‘ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو گھر میں ٹھہرنے کا حکم دیا تھا اور گھر سے نکلنے سے منع فرمایا تھا اور حضرت عائشہ ؓ نے اس حکم کی مخالفت کی ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ گھر کے اندر رہنے کا حکم مطلقاََ ہے نہ گھر سے باہر نکلنے کی ممانعت مطلقاََ ہے اگر یہ مخالفت مطلقاََ ہوتی تو نبی مکرم ﷺ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ازواج مطہرات کو حج ‘ عمرہ اور غزوات میں اپنے ساتھ نہ لے جاتے اور ان کو والدین کی زیارت ‘ بیماروں کی عیادت اور رشتہ داروں کی تعزیت اور شادی بیاہ میں شرکت کی اجازت نہ دیتے اور یہ تمام امور احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں کہ حضرت سودہ ؓ بنت زمعہ کے سوا دیگر ازواج مطہرات نے رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد حج کیا اور حضرت علیؓ اور دیگر صحابہ میں سے کسی نے ان پر اعتراض نہیں کیا اور حدیث صحیح میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد فرمایا : تمہیں اپنی ضرورت کی بناء پر گھر سے باہر نکلنے کی اجازت ہے اس سے معلوم ہوا کہ ازواج مطہرات کو گلیوں اور بازاروں میں گھومنے سے منع فرمایا ہے اور حج یا کسی اور دینی مصلحت کی بناء پر ستر اور حجاب کے ساتھ گھر سے باہر نکلنا ممنوع نہیں ہے ۔ حضرت عائشہ ؓ مدینہ سے مکہ حج کے لیے گئی تھیں جیسا کہ حضرت ام سلمہ ؓ اور حضرت صفیہ ؓ بھی حج کے لیے جا چکی تھیں ۔ مکہ میں جانے کے بعد حضرت عائشہ ؓ نے حضرت عثمان ؓ کے قتل کی خبر سنی اور یہ معلوم ہوا کہ قاتلین عثمان ؓ حضرت علیؓ کے پاس جمع ہو گئے ہیں اس پر حضرت عائشہ ؓ کو شدید رنج ہوا اور انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اب مسلمانوں کی جمعیت ٹوٹ جائے گی اور فتنہ و فساد برپا ہو گا ‘ اسی اثناء میں حضرت طلحہ ؓ ‘ حضرت زبیر ؓ ‘ حضرت کعب بن عجزہ اور دیگر معزز صحابہ قاتلین عثمان ؓ کے برپا کئے ہوئے فتنوں کے سبب مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ چلے آئے انہوں نے دیکھا کہ قاتلین اپنے اس فعل یعنی قتل عثمان ؓ پر فخر کر رہے تھے اور انہوں نے حضرت عثمان ؓ کو بر سر عام برا بھلا کہنا شروع کر دیا ۔۔۔ صحابہ نے بصرہ جانے کی تجویز پیش کی جسے بی بی عائشہ ؓ نے قبول کیا ‘ صحابہ کا خیال تھا کہ بصرہ میں بی بی کا بڑا احترام ہو گا ۔ حضرت عائشہ ؓ مصلحت وقت اور ان صحابہ کی حفاظت کے خیال سے بصر ہ روانہ ہو گئیں ، بی بی عائشہ ؓ کے ہمراہ عبداللہ بن زبیر ؓبھانجے بھی تھے اور دیگر بھانجے بھی ساتھ تھے ۔( مسلم شریف ۔۵۔۔۶۸۹)
علامہ آلوسی لکھتے ہیں ’’ حضرت عائشہؓ پہلی بار جو گھر سے نکلیں تو اپنے محارم کے ساتھ حج کے لیے گئی تھیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا اور دوسری بار جب وہ مکہ سے بصرہ گئیں تو وہ مسلمانوں کی صلح کے قصد سے گئی تھیں اور مسلمانوں میں صلح کروانا نفلی حج سے کم نہیں ہے اور اس سفر میں جو کچھ پیش آیا وہ حضرت عائشہ ؓ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا اس کے باوجود ان کو اپنے سفر پر انتہائی ندامت رہی ‘ روایت ہے کہ وہ ایام جمل کو یاد کر کے اس قدر روتی تھیں کہ ان کا دوپٹہ بھیگ جاتا تھا بلکہ عبداللہ بن احمد نے زوائدالذہد میں اور ابن منذر ‘ابن شیبہ اور ابن سعد نے مسروق سے روایت کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ جب ’’وقرن فی بیوتکن ‘‘کی تلاوت کرتیں تو ان کا دوپٹہ آنسو ئوں سے بھیگ جاتا کیونکہ اس آیت کو پڑھنے سے ان کو وہ واقعہ یاد آ جاتا جب دونوں طرف سے بہت سارے مسلمان شہید ہو گئے تھے۔ اسی طرح حضرت علیؓ بھی اس حادثہ پر افسوس کرتے تھے کیونکہ جنگ کے بعد جب حضرت علی ؓنے طرفین کی لاشیں دیکھیں تو افسوس سے اپنے زانوں پر ہاتھ مارتے اور کہتے کاش ! میں اس سے پہلے مر جاتا اور بھولا بسرا ہو جاتا !
ارشاد ربانی ہے ’’ و ان طا ئفتان من المومنین اقتلوا فا صلحو ا بینھما ‘ (الحجرات ۹ ، پارہ۲۶) ’’ اگر مسلمانوں کے دو گروہ جنگ کریں تو ان میںصلح کرا دو ۔ ‘‘ اس آیت کا حکم مرد و زن دونوں پر لاگوہوتا ہے اس وجہ سے حضرت عائشہؓ مسلمانوں میں صلح کرانے کی غرض سے میدان میں اتریں لیکن تقدیر میں صلح ہونا نہ تھا اور جنگ جاری رہی ۔ فریقین کا خون بہتا رہا حتی ٰ کہ بعض لوگوں نے اونٹ کی کو نچیں کاٹ دیں جس پر حضرت عائشہ ؓ سوار تھیں ۔۔ محمد بن ابی بکر تیس عورتوں کی معیت میں ان کو بصرہ لے گئے ۔۔۔ ان کا اجتہاد بر حق تھا اور جن آیات میں اجتہاد کر کے میدان میں آئیں اس کی وجہ سے ان شاء اللہ اجر ملے گا ۔
امہات المومنین کے لیے زمانہ جاہلیت کی زیب و زینت کر کے اور بغیر پردہ کے گھروں سے نکلنے کی ممانعت ہے جبکہ مطلق ممانعت نہیں ہے جیسے حج عمرہ کے لیے جاتی تھیں اور اپنے والدین کے گھر آنا جانا تھا اور عیادت مریض فرماتی تھیں وغیرہ وغیرہ ، اس سے معلوم ہوا کہ شرعی اور دینی معاملات میں نقاب اور ستر کے ساتھ گھر سے نکلنا جائز ہے یعنی مطلقاََ گھر سے نکلنے پر پابندی نہیں ہے ۔ اسی طرح بصرہ کے سفر میں بھی دینی وجوہ یعنی اصلاح بین المسلمین اور قصاص عثمان کی خاطر بصرہ تشریف لے گئیں ‘جس میں کوئی حرج نہیں اور نہ کوئی مانع امر ہے ۔ چنانچہ سیدہ ؓ نے کئی موقعوں پر فرمایا کہ ’’ میں اصلاح بین المسلمین کے جذبہ کے تحت آئی ہوں ۔ (امیر المومنین سیدنا علی ؑ۔۔۔ حکیم محمود احمد ظفر سید نا علی ۔۳۰۳)
دوم: ان کا یہ سفر شرعی محرم کے ساتھ تھا ۔ ان کے ساتھ ان کے دو بہنوئی سیدنا زبیر بن العوام ؓ اور طلحہ بن عبید اللہ اور ایک بہن زادہ عبداللہ بن زبیر تھے ۔ ان دونوں بہنوئیوں کی اور اولادیں بھی ساتھ تھیں ۔ (حوالہ بالا) مذکورہ اعتراض تعصب و نفرت پر مبنی ہے اس کا حقیقت سے کچھ تعلق نہیں کیونکہ وہ اصلاح بین الناس کے جذبہ کے تحت نکلی تھیں لیکن صلح نہ ہو سکی اور جنگ کے شعلے آسمان کو چھونے لگے اور ان شعلوں کو سبائیوں نے اتنی ہوادی کہ وہ ٹھنڈے نہ ہو سکے ، آخر جنگ شروع ہو گئی جس کا سیدہ عائشہؓ کو عمر بھر دکھ رہا ۔ دراصل یہ جنگ نہ ہی بی بی عائشہ ؓ کی خواہش کا نتیجہ تھی اور نہ ہی حضرت علیؓ اس کے خواہاں تھے کیونکہ یہ جنگ سبائیوں نے دونوں فریقین کی مرضی کے خلاف برپا کردی تھی ۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان قطعیت کا درجہ رکھتا ہے جس سے اس اعتراض کے باطل ہونے میں ذرا برابر شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی ۔ فرماتی ہیں ’’ میرا خیال یہ تھا کہ اپنے مقام و مرتبہ کی وجہ سے لوگوں کے مابین جنگ و قتال سے مانع ہوں گی لیکن مجھے یہ خیال نہ تھا کہ لوگوں کے درمیان قتال واقع ہو گا ، اگر مجھے اس سے قبل یہ بات معلوم ہو جاتی تو میں یہاں ہرگز نہ آتی ، فرماتی تھیں : لوگوں نے میری بات نہ سنی اور اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی اور قتال واقع ہو گیا ۔ ‘‘ ( حوالہ بالا)
اعتراض نمبر۱۱۱
ان ( عائشہ ؓ ) کو مطعون کرنے کے لیے ایک غلط روایت بیان کی جاتی ہے کہ حو ئب کے مقام پر کتوں نے آخر بھونکنا شروع کر دیا ۔ طبری اور اس کی پیروی کرتے ہوئے دیگر مورخین نے نقل کیا ہے کہ مکہ سے بصرہ جاتے وقت جب لوگ ایک بستی یا چشمہ کے قریب سے گزرے جس کا نام حو ء ب تھا تو وہاں کے کتوں نے بھونکنا شروع کر دیا ۔ کتوں کے بھونکنے کی آواز پر سیدہ عائشہ ؓ نے اس جگہ کا نام پو چھا ! بتایا گیا کہ اس کا نام حو ء ب ہے ۔ اس پر آپ نے انا للہ انا الیہ راجعون پڑھا اور واپسی کا ارادہ فرما یا ۔ واپسی کی وجہ دریافت کرنے پر سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی ازواج کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’’ نامعلوم تم میں سے کو ن ہو گی جس پر حو ء ب کے کتے بھونکیں گے۔
جواب: حضرت عائشہ ؓ ’’ و قرن فی بیوتکن‘‘ کو پڑھ کر روتی تھیں اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ایک دن نبی مکرم ﷺ نے بشمول حضرت عائشہ ؓ اپنی ازواج مطہرات سے فرمایا تم میں سے کسی ایک حو ء ب کے کتے بھونکیں گے ‘ حضرت عائشہ ؓ نے بصرہ روانگی کے وقت یہ نہیں پوچھا تھا کہ راستہ میں مقام حوء ب آئے گا یا نہیں‘ حتیٰ کہ راستہ میں ایک جگہ پانی کے پاس کتے بھونکنے لگے ‘ حضرت عائشہ ؓ نے محمد بن طلحہؓ سے پوچھا اس پانی کا کیا نام ہے ؟ انہوں نے کہا : حوا ء ب ‘‘ انہیں وہ حدیث یاد آ گئی اور انہوں نے فرمایا : مجھے واپس لے چلو اور بی بی عائشہ ؓ نے آ گے جانے سے انکا ر کر دیا اور واپسی کا قصد کیا لیکن ان کے ہمراہیوں میں سے اکژیت متفق نہ ہوئی اور جو ہونا تھا وہ ہو کر رہا ۔ پس بی بی عائشہ ؓ اس لیے افسوس کرتی تھیں کہ انہوں نے روانہ ہونے سے پہلے یہ معلوم کیوں نہ کر لیا کہ راستہ میں مقام حو ء ب آ ئے گا یا نہیں ۔( علامہ کا بیان ختم ہوا) ۔یہ روایت موضوع ہے صرف سیدہ ؓ کے اقدام قصاص میں مطعون کرنے کے لیے گھڑی گئی ہے نیز طبری نے جن راویو ں کا ذکر کیا ہے وہ تمام مجہول ہیں اور جن لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے یہ وہ گروہ ہے جو ازواج مطہرات اور صحابہ کرام ؓ کے خلاف بدگمانی کے جراثیم رکھتے ہیں ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مکہ سے بصرہ تک اکیس منازل ہیں لیکن ان میں سے کسی منزل کا نام ’’حو ء ب ‘‘ نہیں اور نہ ہی کو ئی بستی یا چشمہ ہے جس کا نام حو ء ب ہے ۔ اس اعتبار سے یہ روایت موضوع ہے ۔ تفصیل کے لیے تفہم البخاری جلد ۴ ص ۷۰۵ دیکھیں ۔( حوالہ بالا ۔۱۴۷)
اعتراض نمبر۱۱۲
بعض حضرات عورت کی سر براہی جائز سمجھتے لیکن جنگ جمل کے واقعہ سے عورت کی سربراہی کی دلیل پکڑتے ہیں اور یہ جواز پیش کرتے ہیں۔
جواب ـ : بعض علماء جنگ جمل میں حضرت عائشہ ؓ کی شرکت سے عورت کی سربراہی کے جواز پر استدلال کرتے ہیں لیکن یہ استدلال بالکل باطل ہے ۔ اول تو حضرت عائشہ ؓ امارت اور خلافت کی مدعیہ نہیں تھیں البتہ وہ امت میں اصلاح کے قصد سے مکہ سے بصرہ گئیں لیکن یہ ان کی اجتہادی خطا تھی اور اس پر وہ تا حیات نادم رہیں ‘ ابن سعد کے حوالے سے ہے کہ جب حضرت عائشہ ؓ ’’ و قر ن فی بیوتکن ‘‘ تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہو ‘‘ کی تلاوت کرتیں تو اس قدر روتیں کہ دوپٹہ آنسووں سے بھیگ جاتا ۔
حافظ ذہبی لکھتے ہیں ‘ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ اپنے بصرہ کے سفر اور جنگ جمل میں حاضری سے کلی طور پر نادم ہوئیں ۔
حافظ ذیلمی ابن عبد البر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ ؓ نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے فرمایا تم نے مجھے اس سفر میں جانے سے کیوں نہ منع کیا ؟ انہوں نے فرمایا : میں نے دیکھا کہ ایک صاحب ( یعنی عبداللہ بن زبیر ؓ ) کی رائے حضرت عائشہ ؓ کی رائے پر غالب ا ٓ چکی تھی ۔
امام حاکم نیشا پوری قیس بن ابی حاذم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ اپنے دل میں سوچتی تھیں کہ انہیں ان کے حجرے میں رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ کے ساتھ دفن کیا جائے لیکن بعد میں انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی ایک بدعت کا ارتکاب کیا ہے اب مجھے آپ ﷺ کی دوسری ازواج مطہرات کے ساتھ بقیع میں دفن کر دینا چنانچہ ان کو بقیع میں دفن کر دیا گیا ۔ ( امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے ۔
عورت کی سربراہی کا تو مذکورہ واقعہ میں کوئی ذکر نہیں ہے اور عائشہ ؓ سربراہی کی مدعیہ تھیں نہ ہی جنگ میں پیشوائی کر رہی تھیں ۔ جنگ جمل کا تو ایک اتفاقی حادثہ تھا جو قاتلین عثمان ؓ کی سازش کے نتیجہ میں واقع ہوا تھا ۔ اسلام نے عورتوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا ہے اور بغیر شدید ضرورت کے باہر نکلنے سے روک دیا ہے ان صاف اور صریح احکام کے ہوتے ہوئے اس بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ مسلمان عورتیں سربراہ مملکت یا اسمبلیوں کی ممبر بنیں یا ریاست کے اہم امور کی مشیر بنیں یا بیرون خانہ سماجی کارکن بنیں ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ( مسلم جلد ۵،ص ۶۹۰)
اعتراض نمبر۱۱۳
مستشرقین اور عیسائی محققین کہتے ہیں ’’ چونکہ بکر عربی میں کنوارے کو کہتے ہیں اور عائشہ ؓ پیغمبر اسلام ﷺ کی تنہا کنواری بیوی تھیں اس شرف و امتیاز کی وجہ سے باپ کا خطاب اسلام میں ابو بکر قرار پایا ‘‘ ( سیرت عائشہ ؓ ۔ص۔۲۴)
جواب: اگر غیر اصل واقعہ سے ناواقف اور بے خبر ہوں تو انہیں الزام دھرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ان کی اس حرکت پر دکھ ہوتا ہے لیکن یہ اسلام دشمنی ان کی گھٹی میں پڑی ہے اس کے علاوہ اپنوں پر بھی افسوس ہوتا ہے کہ انہیں بھی اپنے گھر کی خبر نہیں ہے ۔یاانہیں سہو ہوا ہو ۔ سید امیر علی بھیThe Spirite Of Islam(ترجمہ روح اسلام) میں اس غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔
عرب میں کنیت عزت کی علامت تھی ، حتیٰ کہ کنیت سے اصل نام گم ہو جاتا تھا ۔ ابو سفیان ، ابو جہل اور ابو لہب وغیرہ ، ان سب کو جانتے ہیں لیکن ان کے نام کو خال خال جانتے ہیں ۔ ابو بکر کا بھی یہی حال ہے ۔ یہ کنیت نہ صرف حضرت عائشہؓ کی پیدائش بلکہ خود اسلام کے ظہور سے پہلے رکھی جا چکی تھی اس کے علاوہ پھر انہیں کون بتائے کہ عربی میں کنوارے کو بکر نہیں کہتے ، وہ لفظ زیر کے ساتھ ہے یعنی بِکر ۔ اس طرح ابو بکر ؓ کا اس سے کو ئی تعلق نہیں ہے جیسے بنو بکر بن وائل مشہور قبیلہ تھا ، اس کا بکر کے ساتھ قطعاََ کوئی تعلق نہیں ہے ۔ حضرت ابو بکر ؓ کی تنقیص کرنا ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ مخالفین کی باپ اور بیٹی دونوں سے نہیں بنتی اور ان کی عزت گھٹانے کے لیے طرح طرح کے باطل الزامات جعلی اور دو نمبری بیانات و اعتراضات کی بو چھاڑ کر دیتے ہیں ۔ سوائے اس کے اور کچھ نہیں
ِؓبِکر جوان اور کناورے کو کہتے ہیں یہ مذکر مونث دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ( المنجد ۔ ۶۷)قرآن مجید میں ہے قاَ لَ اِنَّہٗ یَقُولُ اِنَّھاَ بَقَرَۃٌ لاَّ فَاْرِضٌ وَّ لاَ بِکْرٌ ھُوَ عَوَانٌ بَیْنَ ذٰلِک۔َترجمہ:’’ کہا اللہ فرماتا ہے کہ وہ گائے ہے جو نہ بوڑھی اور نہ بالکل بچی ،درمیانی عمر کی ہو۔ َ
اعترا ض نمبر۱۱۴
بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان ؓ کے قتل میں سیدہ عائشہ ؓ کا ہاتھ تھا ۔(امہات المومنین ۔۱۴۷)
جواب: اس سلسلہ میں سیدہ عائشہ ؓ کا اپنا جواب اس الزام سے بریت کا قطعی ثبوت ہے ۔ انہوں نے ایک مرتبہ فرمایا : خدا کی قسم ! میں نے کبھی اس بات کو پسند نہیں کیا کہ حضرت عثمان ؓ کی کسی قسم کی بے عزتی ہو ، اگر میں نے ایسا کبھی پسند کیا ہو تو میں بھی قتل کی جائوں ، اے عبید اللہ بن عدی ( ان کے باپ علی ؓ کے ساتھ تھے ) تم کو اس علم کے بعد کوئی دھوکہ نہ دے ۔
اصحاب رسول کے اصحاب کی تحقیر اس وقت تک نہ کی گئی جب تک وہ فرقہ پیدا نہ ہوا جس نے حضر ت عثمانؓ پر طعن کیا ( نعوذ باللہ) اس نے وہ کہا جو نہیں کہنا چاہیے تھا ، وہ پڑھا جو نہیں پڑھنا چاہیے تھا ۔ اس طرح نماز پڑھنی چاہیے تھی جس طرح انہوں نے پڑھی ۔ ہم نے ان کاموں کو غور سے دیکھا تو پایا کہ وہ صحابہ کے اعمال کے قریب تک نہ تھے ۔ (حوالہ بالا۔۱۴۵)
سیدہ عائشہ ؓ کے بیان میں ایک جملہ یہ ہے کہ اگر میں نے کبھی ایسا پسند کیا ہو تو قتل ہو جائوں ، اس الزام سے یہ بریت کی قطعی دلیل ہے کہ بی بی عائشہ ؓ نے طبعی موت سے وفات پائی اور قتل نہیں ہوئی تھیں۔ (۲) ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے جب اپنی بریت کا اظہار کر دیا تو پھر شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔ پھر فرمایا کہ اے عبید اللہ بن عدی تم کو اس علم کے بعد کوئی دھوکہ نہ دے ، فرما کر وضاحت کر دی کہ اب کسی کے دھوکہ میں نہ آنا ۔ اس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں ، کرتے رہیں گے ، وہ کرتے جائیں لیکن جب تم کو یہ معلوم ہو چکا تو اس کے بعد تمہیں کسی دھوکہ میں نہیں آنا چاہیے نیز سیدنا عثمان ؓ محاصرہ میں تھے ، سیدہ عائشہ ؓ اپنے معمول کے مطابق روانہ ہو گئیں ۔ صحابہ اور دوسری امہات بھی حج کی ادائیگی کے لیے تشریف لے گئیں ۔ کسی کے وہم و گمان میں یہ بات نہ تھی کہ ان کو شہید کر دیا جائے گا ۔ حج سے واپسی پر سید عائشہ ؓ کو حضرت عثمان ؓ کی شہادت کی خبر ملی ، آپ مدینہ جانے کی بجائے واپس مکہ چلی آئیں ۔ اس قتل عثمان ؓ میں سیدہ عائشہ ؓ کے چھوٹے بھائی باغیوں کے لیڈر سمجھے جاتے تھے اس پر سبائیوں نے سیدہ عائشہ ؓ کی شخصیت کو داغدار کرنے کا پراپیگنڈا شروع کر دیا چنانچہ ابن سعد نے لکھا کہ شہادت کے حادثہ سے قبل اشتر نخعی نے سیدہ عائشہ ؓ سے پوچھا کہ اس شخص ( سیدنا عثمان ؓ ) کی نسبت آپ کی کیا رائے ہے ؟ فرمایا! معاذ اللہ ! میں اماموں کے امام کے قتل کا حکم دے سکتی ہوں ۔
اعتراض نمبر۱۱۵
قادیانی اور ہر وہ فرقہ جو آنحضرت ﷺ کے معراج جسمانی کے منکر ہیں اپنے دعویٰ میں سیدہ عائشہؓ کی اس روایت کو دلیل بناتے ہیں جو طبری نے اپنی تفسیر میں نقل کی ہے ۔
جواب: آپ ﷺ کی عمر ۵۱ سال نو ماہ کی تھی جب معراج ہوئی ۔ زم زم اور مقام ابراہیم کے درمیان سے آپ ﷺ براق حضرت جبرائیل کے ساتھ پہلے بیت المقدس تشریف لے گئے اور پھر وہاں سے قرب الہٰی کی انتہائی منازل میں بلایا گیا ۔ اس مقام پر ملائکہ کا داخلہ بھی ممنوع ہے ۔ آپ ﷺ نے صبح کو جب کفار سے ذکر کیا تو بڑی شدت کا رد عمل آیا ۔ وہ لوگ جو بیت المقدس سے واقف و با خبر تھے ، انہوں نے بربنائے امتحان سوالات کیے ۔ آپ ﷺ نے ایک ایک سوال کا جواب ٹھیک ٹھیک دیا ۔ راستے میں کچھ کارواں تھے ، آپ ﷺ نے ان کے متعلق بتایا کہ وہ فلاں وقت پر پہنچیں گے اور عین وقت پر وہ پہنچے لیکن کفار تکذیب کرتے رہے اور اپنی ضد پر قائم رہے ۔ بعض لوگ حضرت صدیق ؓ کے پاس گئے اور ان سے کہنے لگے کہ تمہارے یہ رسول کہتے ہیں کہ وہ رات کو بیت المقدس سے ہو آئے ہیں جبکہ قافلہ اس مسافت کو ایک ماہ میں طے کرتا ہے یعنی ایک ماہ جانے میں اور ایک ماہ آنے میں لگتا ہے ۔ جناب صدیق ؓ نے فرمایا: کہ اگر واقعی آپﷺ کہتے ہیں تو میں اس کی تصدیق کرتا ہوں، میں اس سے بھی بڑی بات کہ فرشتہ ان پر وحی لاتا ہے ، کو قبول کرتا ہوں ۔ بعد ازاں ابو بکر ؓ آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا آپ نے ایسا فرمایا ہے ، حضور ﷺ نے فرمایا: کہ ہاں ! صدیق اکبر ؓ نے فرمایا : میں اس کی تصدیق کرتا ہوں ، یا رسول اللہ ! آپ ﷺ جو کچھ فرماتے ہیں سچ ہے۔ اسی دن ابو بکر ؓ کو صدیق کا خطاب ملا۔ اس روایت کو بیان کرنا ضروری ہے تاکہ سیدہ عائشہ ؓ کی روایت کو دعویٰ بنا کر پیش کرنے والوں کی اصل حقیقت ظاہر ہو سکے ، جو کہتے ہیں کہ سیدہ عائشہ ؓ معراج جسمانی کی قائل نہ تھیں ۔ طبری نے اس سند کے ساتھ روایت کیا ہے ’’ ہم سے ابن حمید نے بیان کیا ، اس سے مسلمہ نے اور وہ محمد سے نقل کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ابو بکر کی اولاد میں سے کسی نے بیان کیا کہ سیدہ عائشہ ؓ فرمایا کرتی تھیں کہ حضور ﷺ کا جسد مبارک ( بستر سے ) غائب نہیں ہوا تھا بلکہ معراج آپ ﷺ کی روحانی طور پر ہوئی ( جسمانی نہیں ) یہ روایت کئی طرح سے معتبر نہیں ۔(۱) سیدہ عائشہ ؓ کا بیان اور دوسری طرف جماعت صحابہ کے اقوال موجود ہیں ۔ (۲) قرآن کریم اور احادیث صحیحہ بھی سیدہ عائشہ ؓ کے قول کی مطابقت نہیں کرتی ہیں ۔ (۳) سیدہ عائشہؓ کے اس بیان میں منقول ہے کہ حضور ﷺ کا جسم مبارک غائب نہیں ہوا تھا ۔ سیدہ کو یہ کیسے معلوم ہوا کیونکہ ان کی تو اس وقت شادی بھی نہیں ہوئی تھی اس وقت ان کی عمر روایات کے مطابق ۴ یا ۵ سال تھی ۔ جو لوگ ان کی عمر زیادہ بتاتے ہیں وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی شادی اس وقت نہیں ہوئی تھی ۔ (۴) بااعتبار سند روایت نہایت کمزور ہے ۔
اول طبری خود معتبر شخصیت نہیں ، عقیدہ کے لحاظ سے وہ شیعہ ہے ۔ دوم: طبری نے یہ روایت ابن حمید سے سنی ، یہ رے کا باشندہ تھا اور اس کا انتقال ۲۴۸ ہجری میں ہوا، اس پر بھی علماء جرح و تعدیل نے بہت بحث کی ہے ۔ اس کے بارے میں اسحق کو سبح نے کہا کہ وہ کذاب تھا ۔ صالح جزوہ کا قول ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں دو شخصوں سے زیادہ کو ئی جھوٹ کا ماہر نہیں دیکھا ، ان میں ایک محمد بن حمید مؤرخ اور دوسرا ابن شاذ الکوفی ہے ۔(۵) مسلمہ الابرش بھی ( مسلمہ بن الفضل ) شیعہ تھا ۔ یحیی ٰبن معین ، اسحق بن راہویہ ، ابن المدینی اور دوسرے علماء جرح و تعدیل نے بڑی جرح کی ہے ۔ یحیٰ بن معین نے لکھا کہ وہ شیعہ تھا ۔ ایک راوی ابن اسحق ہے جس کے لیے علماء نقد کے خیالات اچھے نہیں ہیں ، امام نسائی نے اس کو قوی نہیں کہا ہے ۔ ابو حاتم اسے ضعیف کہتے ہیں ، یحییٰ اسے کذاب کہتے ہیں ۔ امام مالک اسے دجالوں میں سے ایک کہتے ہیں ۔ محمد بن حمید کو بھی رے کے محدثین کذاب سمجھتے ہیں ۔ ۱۔فضل رازی ۱۱۔ ابو زرعہ رازی ۱۱۱،۔ ابو حاتم رازی ۔
(۶) محمد ابن جریر کا انتقال ۳۱۰ ہجری میں ہوا اور سیدہ عائشہ ؓ کا انتقال ۵۵ ہجری میں ہوا گویا ۲۵۲ سال میں اس روایت کا ایک فرد کے علاوہ کسی اور کو علم نہ ہوا ۔ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ ابن اسحق اور عائشہ ؓ کے درمیان ایک راوی یعنی ابو بکر صدیق ؓ کے خاندان کے ایک شخص کا نام مذکور نہیں اس لیے یہ روایت پایہ صحت سے فروتر ہے ۔ (سیرت النبی ۔ج۳۔ص۴۳۳) مگر صاحب خاتم النبین کہتے ہیں کہ تین راوی غائب ہیں ۔
حضرت عائشہ ؓ کا مذہب ہے کہ وہ جسمانی معراج کی قائل تھیں ۔ قاضی عیاض مالکی کہتے ہیں کہ یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچا ہے کہ سیدہ عائشہ ؓ کا یہی قول صحیح ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ کی معراج جسم مبارک کے ساتھ تھی ۔ (خاتم النبین ۔ص۔۳۵۰)
مرزائی یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا ’’ قولوا انہ خاتم الانبیاء ولا تقولو ا الا نبی بعد ہ ‘‘ یہ در منشور تحت آیت خاتم النبین اور تکملہ مجمع البحار صفحہ ۸۰ پر ہے ۔ یہاں تلبیس کر کے باقی عبارت کو انہوں نے کا ٹ دیا ہے ۔ یہ لفظ صدیقہ ؓ نے حضرت عیسیٰ ؑ کے سلسلہ میں ارشاد فرمایا ’’ اصلھا فی حیث عیسی ٰ انہ یفعل الخنزیر و بکسر الصلیب و یزید فی الحلال ای یزید فی حلال نفسہ بان و یولد لہ و کان لم یخروج قبل رفعہ الی السماء فزاد فی الھبوط فی الخلال فسحنیز یومن کل احد من اھل الکتاب و یتیقن انہ بشر و عن عائشہ قولو انہ خاتم الا نبیاء ولا تقولوا لا نبی بعدہ ۔‘‘
اس پوری عبارت سے معلوم ہوا کہ صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ ؑ نے آسمان پر اٹھائے جانے سے قبل نکاح نہیں کیا تھا ۔ آسمان سے اترنے کے بعد نکاح کریں گے اور اولاد بھی ہو گی َ‘ یہی حال میں اضافہ ہے خنزیر خوری اور صلیب پرستی کا خاتمہ کریں گے اور سب اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے اس لیے حضور ﷺ کو خاتم الا نبیاء کہولیکن لا نبی بعد ہ ‘ حضرت عیسیٰ ؑ کے نزول سے انکار کی بنیاد پرنہ کہو ان کا مقصد لا نبی بعدہ کی نفی سے فقط یہ ہے کہ اس لفظ کو نزول عیسیٰ ؑ کی نفی کے معنیٰ میں استعمال کر کے مت کہو باقی جدید نبوت کی نفی میں حضرت صدیقہ ؓ خود نفی کی قائل ہیں کہ مسند احمد :۶ : ۱۲۹ میں انہوں نے حضور ﷺ سے مرفوعاََ روایت کی ہے لا نبی بعدی من النبوۃ الا المبشر ات رای الرویا الصا لحۃ ۔ نیز روایت عائشہ ؓ مجہول الا سناد بھی ہے ( مقالات افغانی : ۲۔ ۱۹۔ ۱۸)
اعتراض نمبر۱۱۶
مسلمان کہتے ہیں کہ حضرت محمدﷺ نے تعلیمی اور سیاسی مقاصد کے لیے زیادہ شادیاں کیں مگر شیری جونز کا کہنا ہے کہ ان کی ساری بیویاں بہت خوبصورت تھیں اس لیے اس کے خیا ل میں ان شادیوں میں ذاتی وجوہات ( نفسانی خواہشات ) بھی ہو سکتی ہیں ۔ (جیول آف مدینہ ۔ص۳۵۷) جیسا کہ حضرت زینب ؓ سے شادی کے متعلق لکھتی ہے کہ اتفاق سے ایک دن حضرت محمد ﷺ نے حضرت زینب ؓ کو عریاں دیکھا تو ان سے محبت کرنے لگے اور بالآخر شادی کر لی ۔ (حوالہ بالا ۔ص۱۴۴)
جواب: شیری جونز ایک امریکی خاتون صحافی ہے جس نے اپنے ناول دی جیول آف مدینہ ، ۳۵۸ صفحات پر مشتمل لکھا جو اکتوبر ۲۰۰۸ میں نیو یارک امریکہ سے شائع ہوا اس ناول کے سرورق پر ایک عورت کی تصویر ہے جو انیسویں صدی کے جرمن آرٹسٹ Max Ferinand Deredt کی خیالی پینٹنگ ہے جس میں عربی رسم و رواج کے مطابق ایک عورت کو زیورات اور پر دے والی چادر کے ساتھ دکھایا گیا ہے ۔ اس پینٹنگ کو اس نے The Queen Of The Harem کا نام دیا ہے ۔ آج بھی یہ پینٹنگ BRidge Man Art Libraryسے Euro۳۹ میں دستیاب ہے ۔ اس میں ازواج مطہرات کے لیے انتہائی غیر مہذب زبان اور ان کی طرف بے بنیاد باتیں منسوب کی ہیں ۔ مذکورہ اعتراض اسی صحافی کا ہے ۔ جواب ملاحظہ فرمائیے ۔
ج: نفسانی خواہشات کا زمانہ عموماََ پندرہ سال سے پچاس تک ہوتا ہے آپ نے پچیس سال کی عمر تک اپنی خواہشات پربے مثل ضبط کیا اور پچیس سال تک مجرد رہے اور صاف شفاف زندگی بسر کی آپ کے مخالفین بھی آپ کی عفت و پاک دامنی پر انگلی نہ اٹھا سکے بلکہ اس معاشرہ میں جہاں ہر قسم کی برائی موجود تھی پاک دامن رہے اور قوم انہیں الصادق والامین کے القاب سے پکارتی تھی ۔ پچیس سال کے بعد اپنے سے عمر میں پندرہ سال بڑی خاتون سے شادی کرتے ہیں اور پچاس سال تک اسی خاتون کے ساتھ زندگی کے دن بسر کیے کسی اور عورت سے شادی نہیں کی ۔۔۔۔ کفار نے آپ ﷺ کو چند پیش کشیں کیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ قریش کی جن عورتوں کو آپ پسند کریں ، ہم آپ کی پسند کی دس عورتیں آپ کے نکاح میں دینے کے لیے تیار ہیں لیکن آپ ہمارے بتوں کو برا نہ کہیں تو آپ نے فرمایا :’’ اگر تم میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور میرے بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تو میں اپنے مشن سے باز نہیں آئوں گا ۔ کیسا سنہری موقع تھا اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کر سکتے تھے لیکن آپ کو شادیوں کی خواہش نہیں تھی صرف اور صرف آپ کا کام توحید کی تبلیغ تھا‘ جس کے لیے آپ ﷺ مصائب و آلام برداشت کرتے رہے ۔ پچاس سال تک تنہا خدیجہ ؓ زوجہ رہیں، بعد ازاں ۵۴ سال تک حضرت سودہ ؓ زوجہ رہیں یعنی ایک وقت میں صرف ایک بیوی حرم میں موجود تھی اس کے بعد ڈھلتی عمر میں ایسا کو ن سا طوفان آ جاتا ہے کہ آپ زیادہ شادیاں اور وہ بھی صرف خوبصورت عورتوں کی خواہش میں رچاتے ہیں ۔ شادیوں کا سلسلہ اس وقت چل نکلا جب اقتدار ہاتھ میں تھا آپ واحد فرمانروا تھے ۔ آپ خواہش مند ہوتے تو آپ کے صرف ایک اشارے پر حسین عورتوں کو حاضر کیا جا سکتا تھا لیکن نہیں نہیں وہ اللہ کا رسول ﷺہے اسے توحید کا پیغام پہنچانا ہے دکھی انسانیت کا دکھ اور درد بانٹنا ہے یہی وجہ ہے کہ سوائے ایک زوجہ محترمہ کے باقی سب ازواج بیوہ یا مطلقہ تھیں اور محض ان کی تالیف قلبی کے لیے ان کا سہارا بنے اور حرم میںداخل فرمایا ۔
اعتراض نمبر۱۱۷
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ دعا کرتی تھیں کہ ان کی شادی حضرت محمد ﷺ سے نہ ہو کیونکہ وہ حضرت صفوان بن معطل ؓ سے شادی کرنے کی خواہاں تھیں اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ شادی کے بعد بھی حضرت صفوانؓ کے ساتھ وقت گزارتی تھیں ، اس لیے لوگ انہیں فاحشہ کہتے تھے ( العیاذ باللہ ) ’’حوالہ بالا ۔ص ۱۵۵۔۸۵۔۳۵۔۴۔۳)
جواب: نبی کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں ارشاد ربانی ہے ’’ النبی اولٰی با لمو منین من انفسھم وازواجہ امھاتھم ‘‘ ( نبی مومنوں کے ساتھ خود ان کے نفس سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں اور آپ ﷺ کی بیویاںان کی مائیں ہیں ۔ حدیث میں آتا ہے ’’ بے شک اللہ تعالیٰ انکار فرماتے ہیں مگر یہ کہ جن عورتوں سے میں شادی کروں یا جن مردوں سے میں اپنی بیٹیوں کی شادی کروں وہ جنتی ہوں ‘‘ (امہات المومنین ص۔ ۲۷) حضرت مریم پر الزام لگا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بیٹے حضرت عیسیٰؑ( جو ابھی چند دن کے بچے تھے )کے ذریعے ان کی بریت فرما دی ۔ حضرت یوسف ؑ پر تہمت لگی تو ایک چھوٹے بچے نے ان کی بریت کی گواہی دی۔ جب حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگی تو قرآن مجید نے نبی کی ازواج کو مومنوں کی مائیں کہہ کر اس الزام کا قلع قمع کر دیا کیونکہ اسلام نے روحانی یا خونی رشتہ سے کوئی آدمی اپنی ماں سے نکاح نہیں کر سکتا تو بھلا کوئی مسلمان اپنی ماں سے ناجائز تعلقات جوڑ سکتا ہے ۔؟
ابن زید بیان کرتے ہیں کہ جب مومن اپنی ماں سے بد کاری نہیں کرتا اور نہ ماں اپنے بیٹے سے تو حضرت عائشہ ؓ سارے مومنوں کی ماں ہیں لہٰذا ان کے بارے میں ایسا سوچنا بھی گناہ ہے ۔( تفسیر کبیر سورہ نور زیر آیت نمبر ۱۲)
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ کسی نبی کی بیوی نے کبھی زنا نہیں کیا ۔ ( بحرمحیط ۔ ج ۱۰۔ ص ۲۱۵ سورہ التحریم زیر آیت نمبر ۱۰) ۔ بیوی کا بدکاری کرنا ایسا عیب ہے جس سے کفار بھی نفرت کرتے تھے اور یہ ایک فطری امر ہے کہ کوئی بھی اپنی بیوی کی بدکاری پسند نہیں کرتا لہٰذا حضرت نوح ؑ اور حضرت لوط علیھم السلام کی بیویاں اگرچہ کافرہ تھیں مگر وہ بھی اس اخلاقی جرم میں ملوث نہیں تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کی بیویوں کو انبیاء کی زندگی میں بھی اور ان کی وفات کے بعد بھی زنا سے محفوظ رکھا ہے ۔ جب کسی نبی کی بیوی نے بدکاری نہیں کی تو امام الا نبیاء حضرت محمد ﷺ کی زوجہ مطہرہ کی پاک دامنی کیسے عیب دار ہو سکتی ہے ؟(تفسیر روح المعانی سورہ النور زیر آیت نمبر ۱۷)
نبی کریم ﷺ نے مسجد کے منبر پر کھڑے ہو کر اپنی اہلیہ کی برات کا حلف اٹھا کر بیان کیااور مفتری سے انتقام لینے کا حکم دیا اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی پاک دامنی پر یقین تھا ورنہ آپ حلف نہ اٹھاتے اور نہ ہی مفتری کو سزا کا سزاوار ٹھہراتے ۔ امام رازی لکھتے ہیں کہ اس تہمت کے واقعہ سے پہلے نبی ﷺ کو معلوم تھا کہ حضرت عائشہؓ فحش کاموں کے اسباب و محرکات سے بالکل محفوظ تھیں اور نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ہونا ہی اس کا کافی ثبوت ہے کیونکہ انبیاء کرام کفار کو دین حق کی دعوت دینے کے لیے مبعوث ہوتے ہیں اس لیے واجب ہے کہ انبیاء کرام میں کوئی ایسا عیب نہ ہو جو لوگوں کو متنفر کرے اور جس شخص کی بیوی بدکار ہو اس سے لوگ بہت زیادہ نفرت کرتے ہیں ۔ ( تفسیر کبیر سورہ النور زیر آیت نمبر ۱۱)
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ کسی نبی کی بیوی نے کبھی بے حیائی کا کام نہیں کیا ، یہ حدیث حضور ﷺ سے سن کر فرما رہے ہیں ، لہٰذا یہ حدیث حکماََ مرفوع ہوئی ۔ اس حدیث میں ہے کہ کسی نبی کی بیوی بد کار نہیں ہو سکتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ جس شخص کی بیوی بد کار ہو وہ لوگوں کی نظروں میں ذلیل ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو ذلت و رسوائی سے محفوظ فرمایا ہے ۔ حضرت بی بی عائشہ ؓ کا محمل صفوان اونٹنی کو ٹھیک دوپہر کے وقت تمام لشکر کے سامنے آتے ہیں اور آپ ﷺ بھی اس موقع پر موجود ہیں ۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صحابہ کرام ؓ میں کسی بد گمانی کا نشان تک نہ تھا ، اگر بدنامی کا ڈر ہوتا تو صفوان کبھی لشکر میں نہ آتے بلکہ بی بی عائشہ ؓ کو بوقت شب لاتے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی ۔ صفوان بن معطلؓ کہتے ہیں کہ سبحان اللہ ، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ، میں نے کسی عورت کا پردہ نہیں اٹھایا یعنی ( اس نے کبھی کسی عورت سے جماع نہیں کیا ) ۔
امام قسطلانی شارح بخاری شریف فرماتے ہیں ’’ یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ صفوان نا مرد تھے اور ان کا آلہ تناسل ناکارہ تھا اور وہ ریشہ اور کپڑے کی دھجی کے مانند تھا ، اسی لیے نبی مکرم ﷺ نے صفوان کے متعلق فرمایا’’ ما علمت علیہ الا خیرا ۔
قاضی ابن العربی کہتے ہیں کہ صفوان میں قوت مردمی نہ تھی اور نہ ہی وہ کسی عورت سے کبھی وطی کے مرتکب ہوئے ، ان کے متعلق واقعہ کے دوران معلوم ہوا کہ وہ عورتوں کے جماع پر قدرت نہیں رکھتے۔ یہ قاعدہ صحت ہے کہ خاص بیماریوں کا علم خاص دوستوں یا اپنے قریبی رشتے داروں کو ہوتا ہے ، جب صفوان کی رازداری ان کے دوستوں سے مخفی نہ تھی تو با رواج زمانہ آپ ﷺ سے کیسے پوشیدہ ہو سکتی ہے ۔ یہ قرینہ بتاتا ہے کہ آپ ﷺ خود بی بی عائشہ ؓ کے واقعہ میں شکی نہ تھے ، بلکہ یقین رکھتے تھے ۔ بخاری شریف میں جہاں یہ روایت مروی ہے وہاں حضور ﷺ نے قبل از آیات بی بی عائشہ ؓ کی صفائی مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان فرمائی : ’’ فو اللہ ما علمت علی اھلی الا خیرا‘‘ ترجمہ : با خدا میں اپنے اہل پر سوائے خیر کے کچھ نہیں جانتا ۔
اعتراض نمبر۱۱۸
بعض کہتے ہیں کہ ۵۴ ۔۵۵ سال کی عمر میں ۹سال کی لڑکی سے شادی کرنا اور ۱۸ سال کی عمر میں بیوی چھوڑ جانا جبکہ قرآن مجید کی رو سے اس کا نکاح ثانی بھی کسی شخص سے نہ ہو سکتا ہو یہ ظلم نہیں ہے ۔۔۔ معاذاللہ ؟
جواب: اس اعتراض کے پہلے حصہ کا جواب پیچھے تفصیل سے دیا گیا ہے پھر بھی ایک حوالہ پیش خدمت ہے ۔ ابن کثیر اور دیگر مورخین نے لکھا ہے کہ بوقت ہجرت حضرت اسماء ؓ کی عمر ۲۷ سال تھی وہ حضرت عائشہ ؓ کی بڑی بہن تھی ۔ بی بی عائشہ ؓ اپنی بہن اسماء ؓ سے عمر میں دس سال چھوٹی تھیں اور تہتر ہجری میں ان کا انتقال ہوا بوقت انتقال حضرت اسماء ؓ کی عمر سو سال تھی اس حساب سے اگر سو میں سے تہتر سال نکال دیں تو ستائیس سال بچتے ہیں یعنی حضرت اسماء ؓ کی عمر ہجرت کے وقت ستائیس سال تھی اور وہ اپنی بہن عائشہ ؓ سے دس سال بڑی ہیں اس حساب سے حضرت عائشہ ؓ کی عمر ہجرت کے وقت سترہ سال ہوئی اس کے دو سال بعد رخصتی ہوئی اس وقت ان کی عمر انیس سال بنتی ہے ۔
جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر میں بیوہ چھوڑ دیا اور قرآن مجید کی رو سے نکاح ثانی کسی شخص سے نہیں ہو سکتا یہ ظلم ہے ۔حدیث شریف میں ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ ؓ ! مجھے خواب میں تم کو دو دفعہ دکھایا گیا اور کہا گیا کہ یہ آپ کی بیوی ہے ۔ (بخاری شریف کتاب النکاح ۔۳۔۶۸)
اور ترمذی باب المناقب میں ہے کہ جبریل رسول اللہ ﷺ کے پاس حضرت عائشہ ؓ کی تصویر سبز ریشم میں لائے اور آپ ﷺ سے کہا کہ یہ دنیا و آخرت میں آپ کی بیوی ہیں ۔
یہ انتخاب آپ ﷺ کا نہ تھا بلکہ مالک حقیقی کی طرف سے تھا وہ ذات علیم و خبیر ہے اسے علم ہے کہ اس بیوی ؓ سے انسانیت کی تعمیر و ترقی میں کیا عظیم خدمات لینی ہیں اور اس کے بیوہ ہونے کا اختیار بھی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے تو یہ کیسے ظلم ہو سکتا ہے ہاں البتہ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ اگر آپ ﷺ بی بی عائشہ ؓ کو طلاق دے دیتے اور وہ ساری زندگی بیوگی میں گزار دیتی تو ظلم ہوتا کیونکہ وہ قرآن مجید کی رو سے کسی اور شخص سے شادی نہیں کر سکتی تھیں مگر آپ ﷺ نے انہیں طلاق نہیں دی اور مدت العمر ازواج مطہرات کی صف میں شامل رہیں اور ام المومنین کے اعزاز سے سرفراز رہیں ۔ ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ اپنے مخالفین سے پوچھیں کہ کیا انہیں طلاق ہوئی تھی تو اس کا جواب صرف وہ یہی دے سکتے ہیں کہ نہیں ، تو پھر کس منہ سے اسے ظلم سے تعبیر کرتے ہیں ۔ یہ سراسر غلط ہے کہ آپ ﷺ نے انہیں بیوہ بنایا کیونکہ موت و حیات اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے وہ جس کو چاہتا ہے زندگی عطا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے موت دے دیتا ہے اسے علم ہے کہ کس شخص کو کب موت آئیگی اور فلاں شخص نے کتنی دیر بقید حیات دنیا میں رہنا ہے ۔ نوشتہ خدا وندی کے مطابق آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ظاہری زندگی کی مدت پوری کی۔ ازاں بعد مالک حقیقی سے جا ملے ۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے جنہوں نے یہ نہیں سوچا کہ وہ یہ الزام اللہ تعالیٰ پر بھی لگا رہے ہیں اوراس کی قدرت کا بھی انکار کر رہے ہیں ۔ بیوگی کی زندگی اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے اور آنحضرت ﷺ نے بی بی عائشہ ؓ کو نہ زبردستی بیوہ بنایا اور نہ تنہا چھوڑا ۔ آپ ﷺ کے حرم میں حضرت عائشہ ؓ کے علاوہ بھی بیوہ خواتین موجود تھیں ان سب خواتین کی بیوگی پر کسی کو ترس نہیں آتا ، ان کے بارے کوئی بات نہیں ہوتی ، ان پر ظلم ہوا کسی کو نظر نہیں آتا اور صرف بی بی عائشہ ؓ کے بیوہ ہونے کا قصہ کیوں اچھالا جاتا ہے ؟ اس سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پیغمبر اسلامﷺ کے ساتھ محض دشمنی کا نتیجہ ہے ۔ اس کے بجز اجتماعی فوائد کے مقابلہ میں صرف اپنے ذاتی نقصان کی اہمیت اتنی نہیں ہوتی بلکہ کم ہو تی ہے مثال کے طور پر ان کے بیوہ ہونے سے خود ان کو اور ان کے خاندان یا کچھ رشتہ داروں کو نقصان محسوس ہو ا ہو گا ساری دنیا کو دکھ نہیں ہو گا جب کہ اس کے برعکس ان کے بیوہ ہونے کی جتنی عمر ہے اور اس میں جو خدمات سر انجام دیں ، اس دور سے لے کر رہتی دنیا تک کے لیے انسانیت کے لیے فائدے ہی فائدے ہیں نقصانات نہیں ہیں مثلا ان سے مروی ۲۲۱۰ حدیثیں اسلام کا بیش بہا خزانہ ہیں جو ان کے وسیلہ جمیلہ سے قیامت تک کے انسانوں کے لیے مشعل راہ ہیں اور یہ فیض بٹتا رہے گا اور لوگ فیض حاصل کرتے رہیں گے۔دوسری طرف عیسائی حضرات کس منہ سے یہ اعتراض کرتے ہیں جن کے ہاں اجتماعی مفاد کے بغیر بے مقصد مجرد زندگی گزارنا راہبوں اور راہبات کے لیے باعث فخر ہے بلکہ مذہبی خدمات بجا لانے والوں کے لیے لازم ہے ۔جہاں حضرت عائشہ ؓ ان اوصاف سے بدرجہ اتم متصف تھیں جن سے شوہر گرویدہ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ فرمانبرداری ، نکتہ دانی ، مزاج شناسی ، وفاداری اور علمی تبحر کے عناصر خمسہ کا حسین امتزاج تھیں ۔مشہور شعراء کے کئی قصائد یاد تھے ۔ تقریر میں فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیتی ۔ مذہبی علم کا یہ عالم کہ بڑے بڑے صحابہ کرام ؓ ان سے استفادہ کرتے تھے ۔ ان کی اولاد نہ تھی اور حضرت اسماء ؓ کے بیٹے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کو گود میں لے لیا اور ام عبداللہ کنیت تھی ( وہ عبداللہ کی وجہ سے تھی )
اعتراض نمبر۱۱۹
اتنی کم سن لڑکی سے نکاح (معاذ اللہ ) نفس پرستی نہیں ہے ۔؟
جواب: ہم الزام لگانے والوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا ایسا شخص نفس پرست ہو سکتا ہے جس نے ۲۵ سال مجرد گزار دئیے پھر ۲۵ سال کی عمر میں شادی کر کے اس واحد خاتون سے ۵۰ سال بتا دئیے ان کی وفات کے بعد ایک اور سن رسیدہ خاتون حضرت سودہ ؓ سے نکاح کر کے انہی کے ساتھ چار پانچ سال بسر کئے اس وقت بھی حضرت سودہ ؓ آپ ﷺکی تنہا بیوی تھیں۔ جبکہ اس معاشرہ میں حسین و جمیل اور باکرہ لڑکیوں کی کمی نہ تھی اور یہ بھی نہ تھا کہ آپ ﷺ کو رشتہ نہ مل سکتا بلکہ آپ ﷺ جس سے چاہتے شادی کر سکتے تھے اور ان لڑکیوں کے والدین فخر محسوس کرتے اس کے باوجود ایک باکرہ عورت کے سوا جتنی شادیاں بھی کیں ، بیوہ یا مطلقہ تھیں ۔معترضین یہ بتائیں کیا یہی نفس پرستی ، شہوت رانی اور نفسانی خواہش ہے ۔ کاش وہ آپ ﷺ کی شادیوں کی حکمتوں کو سمجھ سکتے جن سے انسانیت کو تا قیامت فائدے ہی فائدے حاصل ہوتے رہیں گے ۔ آپ ﷺ کی شادیوں کے تعلیمی ، تشریعی ، سماجی ، سیاسی ،اجتماعی اور تالیف قلبی وغیرہ کے مقاصد تھے ان خواتین کی بدولت معاشرہ میں ہمہ گیر انقلاب برپا ہوا ۔ آپ ﷺ کے حرم میں گیارہ ازواج تھیں جن میں سے ایک مطلقہ (زینب بنت جحش ) ایک کنواری ( حضرت عائشہ ؓ ) اور باقی تمام بیوائیں تھیں ۔ آنحضرت کی بیوہ یا مطلقہ زوجات مطہرات کی شرح فی صد ۹۱ ہے اس فی صد کے ہوتے ہوئے الزام دھرنے والوں کو ظالم ہی قرار دیا جا سکتا ہے ۔
رسوائے زمانہ ، گستاخ رسول آریہ سماج لیڈر ’’راج پال ‘‘ جس نے پیغمبر اسلام ﷺسے عصبیت کے اظہار کے لیے بدنام زمانہ کتاب شائع کی جس کی پاداش میں وہ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا وہ بھی آپ ﷺ کی عائلی زندگی کے بارے اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکا ۔ وہ کہتا کہ ’’ محمد(ﷺ) کا پہلا نکاح ۲۵ سال کی عمر میں ہوا یہاں تو آریہ سماجوں کو ماننا پڑے گا کہ محمد (ﷺ) نے شاستر کے متعلق زندگی کا پہلا حصہ مجرد رہ کر گزارا ۔ وہ برہم چاری تھے اور ان کا حق تھا کہ شادی کریں ۔معیار خانہ داری کے پچیس سال وہ ایک ہی بیوی پر قانع رہے اور وہ بھی دو خاوندوں کی بیوہ جو نکاح کے وقت چالیس سال اور انتقال کے وقت ۶۵ سال کی تھیں اس بوڑھی عورت سے اس جواں مرد نے نباہ کیا ، یہ بات محمد(ﷺ) کی پاکیزہ زندگی پر دلالت کرتی ہے ۔ (نبی ﷺ کی خانگی زندگی ۔۱۴)
اعتراض نمبر۱۲۰
ازواج مطہرات نبی کریم ﷺ سے مطمئن نہیں تھیں اور وہ آپ ﷺ کو ضدی اور سخت مزاج بھی کہتی تھیں ۔( جیول آف مدینہ ۔ص۱۳۲)
جواب:سورہ آل عمران : ۱۵۹ آیت کا ترجمہ ’’ پس (صرف ) اللہ کی رحمت سے آپ نرم ہو گئے ہیں اور اگر ہوتے آپ تند مزاج ، سخت دل تو یہ لوگ منتشر ہو جاتے آپ کے آس پاس سے ، تو آپ درگزر فرمایئے ان سے اور بخشش طلب کیجئے ان کے لیے اور صلاح مشورہ کیجئے ان سے اس کام میں اور جب آپ ارادہ کر لیں ( کسی بات کا ) تو پھر توکل کرو اللہ پر بے شک اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے توکل کرنے والوں سے ‘‘ ۔ اس آیت سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکے قلب اقدس کو اپنی رحمت سے شفقت والا بنایا اگر آپ ﷺ درشت خو ہوتے تو لوگ پروانہ وار آپ ﷺ کے گرد جمع نہ ہوتے ۔ حضرت انس ؓ نے آپ ﷺ کی دس سال خدمت کی ، ایک دن بھی ایسا نہ آیا جس دن آپ ﷺ نے ان سے سختی کی ہو بلکہ وہ خود کہتے ہیں کہ میں آ پ ﷺ کی خدمت اقدس میں دس سال رہا آپ ﷺ نے کسی دن مجھے اف تک نہیں کہا ۔ یہ سلوک سب کے ساتھ تھا جس میں آپﷺ کی ازواج مطہرات بھی شامل ہیں ۔ فتو حات کا سلسلہ شروع ہواجس سے مدینہ میں عام مسلمانوں کی معاشی حالت بہتر ہو گئی اس پر ازواج مطہرات نے بھی نان و نفقہ بڑھانے کی درخواست بارگاہ نبوی میں پیش کی یہ بات گراں گزری اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ اے نبی ! اپنی ازواج مطہرات سے فرما دیجئے کہ اگر تم دنیوی زندگی اور اس کی آرائش کی خواہاں ہو تو آئو میں تمہیں مال ومتاع دے دوں اور پھر بڑی خوبصورتی کے ساتھ رخصت کر دوں ‘‘ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو آپ ﷺ نے سب سے پہلے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا میں آج تم سے ایک بات پوچھنے والا ہوں تم اس کے جواب میں جلدی نہ کرنا بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کر کے اس کا جواب دینا ، اس کے بعد آپ ﷺ نے یہ آیات پڑھیں تو اس کے جواب میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے عرض کیا ’’ کیا میں اس بات میں اپنے والدین سے مشورہ کروں ؟(میرا فیصلہ بالکل واضح ہے ) میں اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول اور دار آخرت کو منتخب کرتی ہوں ‘‘۔ مسلم شریف کتاب الطلاق باب ۵)باقی تمام ازواج نے بھی یہی جواب دیا اگر حضرت عائشہ کے دل میں بقول شیری جونز حضرت صفوانؓ سے شادی کرنے کی خواہش تھی تو طلاق لینے کا یہ بہترین موقع تھامگر سبحان اللہ ! ایک تو ازواج مطہرات کو نبی کریم ﷺ سے محبت تھی دوسرا آپ ﷺ کے حسن اخلاق اور بہترین سلوک کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے آپ ﷺ کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی اگر آپ ﷺ درشت خو ہوتے تو واقعی وہ کنارہ کش ہو جاتیں مگر ایسا کچھ نہیں ہوا ۔
حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کے سوا کبھی کسی کو نہیں مارا ، نہ کبھی کسی عورت پر ہاتھ اٹھایا اور نہ کبھی کسی خادم کو مارا ۔ ( مسلم شریف کتاب الفضائل )
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی سے اپنی ذات کے لیے انتقام نہیں لیا لیکن جب کوئی اللہ تعالیٰ کی حدود کی خلاف ورزی کرتا تو آپ ﷺ اس سے اللہ تعالیٰ کے لیے انتقام لیتے ۔ ( بخاری شریف ۔کتاب الادب)
آپ ﷺ کا فرمان ہے ’’ یعنی جو سب سے زیادہ خوش خلق ہو اپنے اہل عیال کے ساتھ سب سے اچھے سلوک والا ہو وہ سب سے زیادہ ایمان میں کامل ہو گا ۔ (سیرت مصطفی جان رحمت ۔۵۔۱۵۰)
آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے اہل کے لیے تم سب سے بہتر ہوں ۔
علامہ مجددالدین فیروز آبادی صراط مستقیم میں فرماتے ہیں حضور اقدس ﷺ جب رات کو مکان میں تشریف فرما ہوتے ایسی آواز سے سلام فرماتے کہ جاگتے سن لیتے اور سوتے نہ جاگتے ۔
صحیح مسلم کتاب النکاح ، حضرت انس ؓ ام المومنین صفیہ ؓ و ام المومنین زینب ؓ سے روایت کرتے ہیں ’’حضور اقدس ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات پر گزرنا شروع کیا ان میں ہر ایک کو سلام فرماتے اور سلام علیکم کے بعد مزاج پرسی کرتے ۔ ( سیرت مصطفی جان رحمت ۔۳۔۱۵۱)
ترے خلق کو حق نے عظیم کہا تری خلق کو حق نے جمیل کہا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہو گا شہا ترے خالقِ حسن ادا کی قسم
وَ لَو کُنْتَ فَظًّا غَلَیْظَ الْقَلْبِ لاَ انْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ترجمہ: اور محمد ﷺ اگر تم درشت خو اور سخت دل ہوتے تو لوگ تمہارے پاس سے چل دیتے ۔
آپ ﷺ کے اخلاق و اوصاف کی قریش شہادتیں دیتے ہیں اور وہ ایک حرف بھی آپ ﷺ کے اخلاق اور صداقت کے خلاف پیش نہ کر سکے ۔ مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے خلیق اور شفیق ہونے پر مہر ثبت کر دی ہے ۔ دراصل یہی معجزانہ کشش تھی جو لوگوں کو اسلام کی طرف کھینچ رہی تھی اور کفار و مشرکین کے اوہام اور جاہلانہ رسومات مٹا رہی تھی ۔ مسلم شریف میں ہے کہ ایک شخص نے آپ ﷺ سے بہت سی بکریاں مانگیں ، آپ ﷺ نے دے دیں اس پر آپ کے فیا ضانہ رویہ کا اثر اس قدر ہوا کہ وہ مشرف با اسلام ہو گیا اور واپس اپنے قبیلے میں جا کر کہتا ہے لوگو! مسلماں ہو جائو کیونکہ محمد ﷺ اس قدر دیتے ہیں کہ ان کو خود اپنے تنگ دست ہونے کا مطلق خوف نہیں ہوتا ۔ وہ ہستی جو دسروں کے ساتھ اس قدر پیار کرے تو یہ نا ممکن ہے اور بداہتاََ غلط ہے کہ آپ ﷺ اپنے گھر والوں کے لیے سخت مزاج تھے ۔
ام المومنین حضرت جویریہ ؓ
ان کا اصل نام برہ تھا ۔ بنی مصطلق کے قبیلہ کے سردار حارث کی بیٹی تھیں ۔ اس قبیلہ کے اہل مکہ سے دوستانہ تعلقات تھے ۔ برہ کی شادی مسافع ابن صفوان سے ہوئی ۔ دونوں یعنی مسافع اور حارث اسلام کے سخت ترین دشمن تھے ۔ حارث مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری میں سرگرم تھا ۔ اس سے قبل کہ وہ مدینہ پر چڑھ دوڑتا ، اسلامی لشکر روانہ ہوا اور مریسع( ایک آبادی کا نام ) میں قیام کیا۔ اہل قبیلہ نے تیر برسائے دوسری طرف مجاہدین نے بھی جوابی کارروائی کی ۔ بالآخر یک بارگی حملے سے مشرکین کے پائوں اکھڑ گئے ۔ ان کے دس آدمی مارے گئے ، جن میں برہ کا شوہر مسافع ابن صفوان شامل تھا ۔ غنیمت میں دو ہزار اونٹ ، پانچ ہزار بکریاں ہاتھ آئیں اور چھ سو مرد ، عورتیں اور بچے قیدی ہوئے ۔ قبیلہ کے سردار حارث کی بیٹی برہ بھی قیدیوں میں شامل تھی ۔ غنیمت کی تقسیم میں برہ ، حضرت ثابت بن قیس ؓ کے حصہ میں آئیں ۔ برہ نے ثابت ؓ کو پیشکش کی کہ رقم لے کر مجھے آزاد کر دیں ۔ انہوں نے کہا: تم مجھے نو اوقیہ سونا دے دو ، تو میں تمہیں آزاد کر دوں گا ۔ حضرت ثابت ؓ نے وعدہ کر لیا ۔ اس غرض سے وہ پہلے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں ۔ آپ ﷺ نے دریافت کیا کون ہو ، اور کیسے آنا ہوا ؟ میں حارث بن ضرار کی بیٹی ہوں جو اپنے قبیلہ کا سردار تھا ، قید ہو کر آئی ہوں اور ثابت بن قیسؓ کے حصہ میں آ گئی ہوں ، انہوں نے نو اوقیہ سونا میں مکاتبہ کیا ہے ۔ میں ادا نہیں کر سکتی ، میری اعانت فرمائیں تاکہ مکاتبت ادا کر سکوں ۔ آپ ﷺ نے مکاتبت کی رقم خود ادا کر دی اور برہ کو آزاد کر دیا ۔ آزاد ہو کر انہوں نے عرض کی کہ میں آپ کی خدمت میں رہنے کو فوقیت دیتی ہوں ، والد کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا ۔ جب آپ کو علم ہوا تو آپ نے حارث کو برہ کے نکاح کا پیغام بھیجا ۔ انہوں نے قبول کر لیا اور چار سو درہم حق مہر پر اپنی بیٹی آپ ﷺ کی زوجیت میں دے دی ۔ آپﷺ نے نام برہ بدل کر جویریہ رکھ دیا ۔
اعتراض نمبر ۱۲۱
ابن اسحق نے کہا مجھ سے محمد بن ابی جعفر نے بواسطہ عروہ ابن زبیر ، حضرت عائشہ ؓ سے یہ روایات بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی مصطلق کے قید یوں کی جب تقسیم کی تو جویریہ بنت حارث ، حضرت ثابت بن قیس بن شماش یا ان کے عم زادہ کے حصہ میں آئیں ۔ انہوں نے اپنے مالک سے کتابت کی درخواست کی ۔ جویریہ بہت حسین و جمیل و ملیح تھیں ، جو انہیں دیکھتا ، اس کے دل پر قابض ہو جاتیں ۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئیں کہ ان سے کتابت کے سلسلے میں مدد حاصل کریں ۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں : خدا کی قسم ! میں نے انہیں اپنے حجرہ کے دروازہ پر دیکھا ، مجھے کراہت ہوئی ، میں سمجھ گئی کہ جو ( حسن و جمال ) میں نے دیکھا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ بھی دیکھیں گے ۔ بہر حال جویریہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئیں اور عر ض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میں حارث ابن ضرار کی بیٹی ہوں جو اپنی قوم کے سردار ہیں ، جو مصیبت مجھ پر آ پڑی اس سے آپ با خبر ہیں ۔ ثابت بن قیس کے عم زادہ کے حصے میں پڑی ہوں ۔ میں نے انہیں کتابت پر راضی کیا ہے ۔ یہ مکاتبت نواوقیہ سونا پر کی گئی ہے ۔ اب میں آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوں کہ اپنی کتابت میں آپ سے مدد لوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے ساتھ اس سے بہتر برتائو کیا جائے تو پسند کرو گی ؟ جویریہ نے پوچھا : وہ کیا یا رسول اللہ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ کہ میں تمہاری طرف سے بدل کتابت ادا کر دوں اور تم سے رشتہ ازدواج قائم کر لوں ۔ جویریہ نے جواب دیا جی ہاں ! یا رسول اللہ ﷺ (میں راضی ہوں ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میںنے کر لیا ۔ ( ابن ہشام ۔جلد دوم ۔ص۔ ۳۵۷۔۳۵۶)
جواب :
حسن ہے یا کہ میرا حسنِ نظر
تیری رعنائیاں نہیں جاتیں
بعض کہتے ہیں کہ حسن دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے یعنی کسی آنکھ کو کوئی صورت اتنی بھا جاتی ہے کہ دیکھنے والا اس پر فریفتہ و شیدا ہو جاتا ہے ‘جب کہ وہی صورت کسی دوسری آنکھ کو سرے سے متاثر نہیں کرتی( سید الوریٰ جلد سوم ۔۱۸) اوپر کی روایت میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے بجز اس کے اگر یہ ہوتا کہ جو انہیں کوئی دیکھتا اس کے دل پر قابض ہو جاتیں ، تو حضرت ثابت ؓ یا ان کے عم زادہ کبھی کتابت کے لیے تیار نہ ہوتے مگر ادھر معاملہ اس کے برعکس ہے کہ وہ تو جویریہ ؓ کی درخواست پر کتابت کے لیے راضی ہو جاتے ہیں ۔ شبلی نعمانی کہتے ہیں کہ یقیناََ یہ ان کی ذاتی رائے ہے ۔
(۲) آپ ﷺ نے تعلیمی تشریعی ، سیاسی و سماجی مقاصد وغیرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے شادیاں کیں لیکن ان میں جذبہ ترحم اور تالیف قلبی غالب تھا ۔ آپ محروم اور مصائب میں گھری خواتین کی دستگیری کرتے ہیں ۔ یہ امر بالیقین ثابت شدہ ہے کہ آپ ﷺ نے کوئی ایک شادی بھی ایسی نہیں کی جو حسن جمال سے متاثر ہو کر انجام پذیر ہوئی ہو ۔ اگر خوبصورت عورت کا حصول ہی ہوتا تو عرب میں سینکڑوں خوبصورت دوشیزائیں تھیں اور کوئی رکاوٹ بھی نہ تھی مگر آپﷺ نے اس طرف کبھی دھیان نہیں دیا ۔ حد تو یہ ہے کہ کفار مکہ نے خوبصورت اور حسین و جمیل خواتین کی پیشکش کی تھی لیکن آپ ﷺ نے یکسر ٹھکرا دیا تھا ۔
مولانا شبلی نعمانی کہتے ہیں۔’’ اصل واقعہ یہ ہے کہ حضرت جویریہ ؓ کا باپ عرب کا رئیس تھا ۔ حضرت جویریہ ؓ جب گرفتار ہوئیں تو حارث آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا : کہ میری بیٹی کنیز نہیں بن سکتی ، میری شان اس سے بالاتر ہے ، آپ ﷺ اس کو آزاد کر دیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ یہ معاملہ خود جویریہ ؓ کی مرضی پر چھو ڑ دیا جائے ۔ حارث نے جا کر جویریہ ؓ سے کہا کہ محمد ﷺ نے تیری مرضی پر رکھا ہے ۔ دیکھنا ! مجھے رسوا نہ کرنا ۔ انہوں نے کہا میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں رہنا پسند کرتی ہوں ، چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ان سے شادی کر لی ‘‘۔ یہ روایت حافظ ابن حجر نے اصابہ میں ابن مندہ سے نقل کر کے لکھا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے ۔ ابن سعد نے بھی یہ روایت کی ہے ۔ طبقات ابن سعد میںیہ روایت بھی ہے کہ حضرت جویریہ ؓ کے والد نے ان کا زر فدیہ ادا کیا اور جب وہ آزاد ہو گئیں تو آنحضرت ﷺ نے ان سے نکاح کیا ( سیرت النبی ۔۱۔۲۴۳) ابن اسحق کی روایت کے اشکال جاتے رہے ۔
سر ولیم میور کہتا ہے ’’ جونہی شادی کی بازگشت چار دانگ عالم میں سنی گئی تو لوگ کہتے تھے کہ اب بنی مصطلق ان کے رشتہ دار بن رہے ہیں ، اس لیے بنی مصطلق کے بقیہ قیدیوں کو حضرت جویریہ ؓ کے حق مہر میں آزاد کر دیا جائے اور اس سے بڑھ کر خوش آئند بات یہ تھی کہ حضرت عائشہ ؓ نے آنے والے دنوں میں فرمایاکہ اس کے بعد کوئی عورت ان لوگوں کے لیے سیدہ جویریہ ؓ سے بڑی نعمت نہ ہوگی ‘‘۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ’’ میں نے جویریہ ؓ سے زیادہ کسی عورت کو اپنی قوم کے حق میں بابرکت نہیں دیکھا ، جس کی وجہ سے ایک دن میں ایک سو گھرانے آزاد کیے گئے۔‘‘ ( امہات المومنین۔۲۶۴)
اہم نکتہ: حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے ، وہ فرماتی ہیں میں نے نہیں دیکھا کہ کوئی عورت جویریہؓ سے زیادہ اپنی قوم کے لیے عظیم البرکت ثابت ہوئی ہو ۔ بنی مصطلق سے ایک سو اہل بیت قید تھے ، سب چھوڑ دئیے گئے ۔ علامہ زرقانی فرماتے ہیں کہ ایک سو اہل بیت سے مراد ایک سو آدمی نہیں ہیں کیونکہ ان کی تعداد سات سو سے زیادہ تھی بلکہ ایک سو گھر کے باشندے مراد ہے ۔
ام المومنین حضرت حفصہؓ
آپؓ خلیفہ دوم حضرت عمر ؓ کی صاحبزادی ہیں ۔آپؓوالدہ کا نام زینب بنت مظعون تھا ۔اعلانِ نبوت سے پانچ سال قبل پیدا ہوئیں ۔ حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کے بعدآپؓ کا قبیلہ مسلمان ہو گیا ، اس وقت حضرت حفصہ ؓ بھی اسلام لائیں ۔ ان کا پہلا نکاح حضرت خنیس بن حذافہ ؓ سے ہوا ۔ وہ ابتدائی ایام میں ہی اسلام قبول کر چکے تھے انہوں نے پہلے حبشہ ہجرت کی اور بعد ازاں سیدہ حفصہ ؓ کے ہمراہ مدینہ کی طرف ہجرت کی ۔ جنگ احد میں جام شہادت نوش فرمایا ۔ حضرت حفصہ ؓ کی عمر اکیس سال تھی جب وہ بیوہ ہوئیں ۔ ان کے والد نے حضرت عثمانؓ سے نکاح کرنے کا کہا کیونکہ ان کی اہلیہ بی بی رقیہ ؓ بنت رسول ﷺ کا انتقال ہو چکا تھا ۔ حضرت عثمانؓ نے چند دن کی مہلت مانگی ۔ کچھ دنوں کے بعد پوچھا تو حضرت عثمان ؓ نے نفی میں جواب دیا اور کہا کہ میں نکاح کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے کہا تو انہوں نے بھی خاموشی اختیار کی اور کوئی جواب نہ دیا ۔ آخر کار ایک دن بارگاہ نبویﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ! میں نے حفصہ ؓ سے شادی کے لیے حضرت عثمانؓ سے کہا ، انہوں نے صاف انکار کردیا پھر میں نے ابو بکر ؓ سے کہا تو انہوں نے خاموشی اختیار کی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ فکر نہ کرو ،حفصہؓ کی شادی اس شخص سے ہو گی جو ابو بکر ؓ و عثمانؓ سے افضل ہے اور عثمان ؓ کی شادی اس خاتون سے ہو گی جو حفصہ ؓ سے بہتر ہے ‘‘۔ پھر آپ ﷺنے فرمایا’’تم اپنی بیٹی کی شادی میرے ساتھ کر دو ‘‘۔ حضرت عمر ؓ نے اپنی بیٹی کا نکاح آپ ﷺ کے ساتھ بعوض چار سو درہم حق مہر کے کر دیا ۔ تریسٹھ برس کی عمر میں سیدہ حفصہ ؓ علیل ہوئیں اور اس دنیا فانی سے رحلت فرما گئیں ۔ مدینہ کے گورنرمروان نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی ۔
طبرانی میں ہے ’’سیدنا قیس بن زید ؓ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے سیدہ حفصہ ؓ کو طلاق دے دی ۔ اسی اثناء میں ان کے دو ماموں قدامہ بن مظعون اور عثمان بن مظعون ان کے پاس آئے ۔ دیکھا کہ حفصہ ؓ رو رہی ہے اور فرما رہی ہیں ، خدا کی قسم ! آپ ﷺ نے مجھے کسی عیب کی وجہ سے طلاق نہیں دی ۔ پس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے جبرائیل نے کہا ہے کہ حفصہ ؓ کی طلاق سے رجوع کر لیجئے ،کیونکہ وہ بہت زیادہ روزے رکھنے والی اور بہت زیادہ نماز پڑھنے والی پرہیز گار ہے اور وہ جنت میں بھی آپ ﷺ کی بیوی ہو گی ‘‘۔
نبی مکر مﷺ کا ہر فعل مبنی بر حکمت ہوتا ہے اور انصاف کے عین مطابق ہوتا ہے اور یہ طلاق دراصل ہلکی سی سزا تھی جو حضرت حفصہ ؓ کی طبیعت کی تیز مزاجی کی وجہ سے دی گئی تھی ، یہ محض تنبیہہ کے لیے تھی تاکہ اس عارضی انقطاع سے وہ سمجھ جائیں اور ان کی تیز مزاجی میں دھیماپن پیدا ہو ۔ دوسری طرف حضرت جبرائیل اللہ تعالیٰ کا پیغام ، طلاق سے رجوع کرنے کا لاتے ہیں اور سیدہ حفصہؓ کو جنت میں بھی آپ ﷺ کی زوجہ ہونے کی خو شخبری دی جاتی ہے ۔ اس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ اس ہلکی سزا سے امت کے لیے ایسے حالات میں کیا کرنا چاہیے ‘ کا سبق موجود ہے ۔ ؟
ایمائل ڈر منگھم کہتے ہیں کہ سیدہ حفصہ ؓ بنت عمر ؓ جو بیوہ تھیں ، کو پیغمبر خدا نے شریک حیات بناتے ہوئے حضرت عمر ؓ سے بہترین تعلق اور رشتہ قائم کر لیا ۔ یہ اس مستشرق کی اپنی رائے ہے کیونکہ آپ ﷺ اور حضرت عمر ؓ کے مابین دینی رشتہ استوار تھا ۔ یہ تعلق خون کے رشتوں سے بڑھ کر ہوتا ہے دین کی خاطر خونی رشتے ختم ہو سکتے ہیں لیکن خونی رشتوں اور عصبیت کی بنیاد پر تعلقات سے دین کا رشتہ ختم نہیں ہو تا ۔ دینی رشتہ کی خاطر عرب کے لوگ اسلام کو گلے لگانے والے بن گئے اور تمام علائق دنیوی یا مخالف دین تعلقات کو خاطر میں نہیں لائے۔
p.delacy johnson) ) پی ڈیلسی جانسن :جناب پیغمبر ﷺ نے ایک اور بیوہ سیدہ حفصہ ؓ سے شادی کر کے حضرت عمر ؓ بن خطاب سے اتحاد و دوستی کو اتنا پختہ کر دیا جیسے ان کی دوستی اور رفاقت حضرت ابو بکر ؓ سے تھی ۔ ( امہات المومنین ۔ص۔۱۴۴)
ہنری لیمنز متعصب عیسائی پادری ہے انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں سیدہ حفصہ ؓ سے متعلق لکھے گئے ایک مضمون میں تسلیم کرتا ہے کہ ’’ یوم احد کے فوراََ بعد نبی اکرم ﷺ نے عمر بن خطاب ؓ کے تعاون کی خاطر سیدہ حفصہ ؓ سے شادی کی ۔
ولیم میور : سیدہ حفصہؓ کو حرم نبوی میں بطور زوجہ داخل کرنے سے آپ ﷺ نے ان کے والد جناب عمر ؓ سے دوستی کے بندھن کو مستحکم کر دیا ۔
جان بیگٹ: پیغمبر ﷺ پہلے ہی عائشہ ؓ سے شادی کر چکے تھے اور حفصہ ؓ بن عمر ؓ سے شادی کر کے پیغمبر اپنے دونوں قریبی جان نثار ساتھیوں کو اپنے مزید قریب کرنا چاہتے تھے ۔
واٹ : اواخر جنوری ۴۵ء میں جناب محمد ﷺ نے سیدہ حفصہ ؓ سے شادی فرمائی جو عمر ؓ کی بیٹی تھیںٍٍٍٍ۔وہ پیغمبر اسلام ﷺکے بعد مسلمانوں کے خلیفہ ثانی مقرر ہوئے ۔ ایک پنتھ دو کاج کے مصداق اس طرح سے ایک طرف تو جناب پیغمبر ﷺ نے اپنے نائب کمان دار اور ساتھی عمر ؓ سے رشتہ مضبوط کر لیا اور دوسری طرف سیدہ حفصہ ؓ کی دلجوئی مقصود تھی ۔ اس شادی یا دیگر شادیوں کا پیغمبر ﷺ نے اپنے لیے یا اپنے پیرو کاروں کے لیے خود اہتمام کیا ‘ ان میں سیاسی مقاصد یقینا پیش نظر تھے چاہے کوئی دیگر وجوہات تھیں یا نہیں تھیں ۔
مذکورہ مستشرقین کی یہ اپنی آراء ہیں ان کی آراء سے کئی وجوہ کی بنیاد پر اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔اول یہ کہ حضرت عمر ؓ نے خود اپنی بیٹی کی شادی کے لیے حضرت ابو بکر ؓ و عثمان ؓسے بات چیت کی ‘ انہوں نے نفی میں جواب دیا ۔ اس کے بعد عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ سارا قصہ سنایا تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’ حفصہ ؓ کی شادی اس شخص سے ہو گی جو ابو بکر ؓ و عثمان ؓ سے افضل ہے‘‘ اگر آپ ﷺ دوستی کو بڑھانے اور مستحکم کرنے کے خواہش مند تھے تو بجائے عمر ؓ کے خود آپ ﷺ کو حفصہ ؓ کے نکاح کا پیغام بھیجنا چاہیے تھا ۔ یہاں صورت مختلف ہے ۔
دوم: ان کے شوہر نے جنگ احد میں جام شہادت نوش کیا اس پر حضرت عمر ؓ کو ان کی بیوگی اور بچارگی کا احساس تھا اس لیے انہوں نے اپنی بیٹی کے نکاح کا پیغام دیا۔ آپ ﷺ ان کے دکھ اور درد سے بے خبر نہ تھے لہٰذا اس ابتلاء و آزمائش کی گھڑی میں ان کے زخموں کا مداوا ‘ اپنے حرم میں شامل فرما کر کیا ۔
مذکورہ مستشرقین کی آراء سے اس بات پر اختلاف ہے کہ سیدہ حفصہ ؓ سے آپ ﷺ نے شادی کر کے حضرت عمر ؓ سے دوستی پکی کر لی حالانکہ حضرت عمر ؓ اس سے پہلے اسلام قبول کر چکے تھے اور اسلام کے سچے اور سچے ُ وفادار تھے ۔ جن مسلمانوں نے اسلام قبول کیا ان کے لیے اسلام ہی اوڑھنا بچھونا تھا اور عمر بھر اسلام پر قائم رہے ۔ یہ رشتہ اس قدر پکا اور پختہ تھا کہ ساری عمر ٹوٹنے کا نام و نشان تک نہیں ملتا تو بھلا حضرت عمر ؓ کی بیٹی حضرت حفصہ ؓ سے آپ ﷺ کی شادی کرنے سے حضرت عمر ؓ کے ساتھ اسلام کے رشتہ کی بجائے شادی کا رشتہ کیونکر مضبوط اور مستحکم کہا جاسکتاہے ۔یہ اس کی اپنی رائے ہے حالانکہ آپ ﷺ اور حضرت عمرؓ کے درمیان بہتر مذہبی تعلق کا رشتہ تھا اور دین کا رشتہ خونی رشتوں سے افضل ہوتا ہے۔ دین کی خاطر خونی رشتے ختم ہو جاتے ہیں مگر دینی رشتہ دوسرے علائق کے سبب ختم نہیں ہوتا ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...