Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

ام المومنین حضرت زینب ؓ بنتِ جحش
ARI Id

1689956726155_56117750

Access

Open/Free Access

Pages

۴۴۶

ام المومنین حضرت زینب ؓ بنت جحش
نام زینب ؓ ، کنیت ام الحکم ، قبیلہ قریش کے خاندان اسد بن خزیمہ ہے ۔ان کاپہلا نام برہ تھا ۔ آپ ﷺ نے تبدیل فرما کر زینب رکھا ۔( مسلم شریف حدیث نمبر ۲۱۴۲)
آنحضرت ﷺ کے نکاح میں آنے سے قبل آپ ﷺ کے متبنیٰ بیٹے زید بن حارثہ کے عقد میں تھی ۔ وہ آنحضرت ﷺ کی پھوپھی زاد بہن تھی ۔اس وقت عرب معاشرہ میں دستور تھا کہ غلاموں سے مناکحت کو باعث ننگ و عار سمجھتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے سیدہ زینب ؓ کو اپنے غلام زید بن حارثہ ؓسے شادی کرنے کا پیغام دیا تو زینب ؓ اور ان کے بھائی عبداللہ بن جحش ؓ نے صاف انکار کردیا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔’’ وماکان لمومن ولا مومنۃ اذاقضی ٰ اللہ و رسولہ امرا ان یکون لھم الخیرہ من امر ھم و من یعص اللہ و رسولہ فقد ضل ضلا لاََمبینا ‘‘۔ اس آیت میں مومن سے عبداللہ بن جحش ؓ اور مومنہ سے زینب ؓ مراد ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ کسی مومن اور مومنہ کے لیے یہ زیبا نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی فیصلہ دے دے تو ان کو اپنے معاملہ میں کوئی اختیار رہے اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی بلا شبہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہوا ۔اس لیے اس آیت کے نزول پر دونوں بہن بھائی راضی ہو گئے اور بحکم خدا وندی حضرت زینب ؓ کا نکاح حضرت زید ؓ سے ہو گیا ۔ شادی تو ہو گئی مگر لڑائی ہوتی رہتی جس سے زید ؓ آنحضرت ﷺ سے اس معاملہ کی شکایت کرتے اور عرض کرتے کہ میں زینب ؓ کو چھوڑ دیتا ہوں لیکن آپﷺ اسے منع فرماتے ۔ جب مزاج میں موافقت اور یکسانیت کا عنصر مفقود رہا تو بالآخر زید ؓ نے طلاق دے دی ، یہ سن کر آپ ﷺ خاموش ہو گئے ۔
سید ناانس ؓ سے مروی ہے کہ سیدہ زینب ؓ کی عدت پوری ہو گئی تو رسول اللہ ﷺ نے زید ؓ ہی کو حکم دیا کہ تم خود جا کر زینب ؓ سے میرے نکاح کا پیغام دو ( تا کہ اچھی طرح ثابت ہو جائے کہ یہ نکاح زید ؓ کی رضامندی سے ہوا) حضرت زید ؓ پیغام لے کر سیدہ زینب ؓ کے گھر گئے اور دروازہ کی طرف پشت کر کے کھڑے ہو گئے( حالانکہ پردہ کا حکم ابھی نازل نہیں ہوا تھا مگر یہ کمال ورع اور کمال تقویٰ تھا ) اور کہا : اے زینب ! مجھے رسول اللہ ﷺ نے تم سے اپنے نکاح کا پیغام دے کر بھیجا ہے ۔ سیدہ زینب ؓ نے فی البدیہہ جواب دیا کہ میں اس وقت تک کچھ نہیں کہہ سکتی ، جب تک میں اپنے پروردگار سے مشورہ نہ کر لوں ( یعنی استخارہ نہ کر لوں ) اس وقت اٹھیں اور گھر میں جا کر ایک جگہ جو مسجد کے نام سے عبادت کے لیے مخصوص کر رکھی تھی ، وہاں جاکر استخارہ میں مشغول ہو گئیں ،ادھر جبرائیل یہ آیت لے کر نازل ہوئے ۔’’فلما قضیٰ زید منھا وطرازوجناکھا ۔۔۔۔‘‘ ترجمہ: پس جب زید ؓ زینب ؓ سے اپنی حاجت پوری کر چکے اور ان کو طلاق دے دی تو اے محمد ہم نے زینب ؓ کا نکاح تم سے کر دیا ‘‘۔اس کے بعد آنحضرت ﷺ سیدہ زینب ؓ کے مکان پر تشریف لے گئے ،اور زینب ؓ حرم نبوی میں آگئیں ۔ آپ ﷺ کی اس شادی پر طرح طرح کی باتیں کفار نے کیں ۔ یہ بھی کہا کہ ہمیں تو منع کیا جاتا ہے کہ اپنے بیٹوں کی طلاق یافتہ بیویوں سے شادی نہ کریں اور خود اپنے متبنیٰ بیٹے کی بیوی سے شادی رچا لی ۔ اللہ تعالیٰ نے خود اس الزام کا جواب فرمایا ’’ مَا کاَنَ مُحَمَّدُ اَباَاَحَدِِمِّن رِجاَلِکُمْ وَ لَکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیٍْٔ عَلِیْمًاoاے لوگو! محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ۔‘‘
سیدہ زینبؓ کی شادی کے سلسلہ میں آیت کی تفسیر میں من مرضی کی رنگین داستانیں رقم کی گئی ہیں ۔ جو باطل تو ہیں ہی مگر نہایت دل خراش اور توہین و بے ادبی سے بھر پور ہیں ۔ آیت یہ ہے ۔’’وَاِذْتَقُوْلُ لَلَّذِیْ اَنعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاَنعَمْتَ عَلَیْہِ اَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ اللّٰہَ وَتُخْفٰی فِیْ نَفسِکَ مَا اللّٰہُ مُبْدِ یْہِِ وَتُخشَی الَّناَسَ وَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰہُ ط فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْھَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَھَا لِکَیْ لَا یَکُوْنَ عَلیَ الْمُؤْ مِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآ ئِ ھِمْ اِذَاقَضَوْا مِنْھُنَّ وَطَرًا ط وَکَاْنَ اَمرُاللّٰہِ مَفْعُوْلاًo (الا حزاب ۳۶،پارہ ۲۲) ترجمہ : اور یاد کرو (اے نبی ﷺ) جب تم اس شخص سے جس پر اللہ نے انعام فرمایا اور تم نے بھی انعام کیا ، کہہ رہے تھے ۔۔۔ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈر! اور ( اے نبی ) تم چھپا رہے تھے اپنے دل میں اس چیز کو جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور ڈر رہے تھے لوگوں سے حالانکہ اللہ تعالیٰ زیادہ حق دار ہے اس بات کا کہ تم اس سے ڈرو ۔ پس جب زید اس سے ( اپنی بیوی سے) ضرورت پوری کر چکا تو ہم نے تمہاری شادی اس کے ساتھ کر دی تا کہ اہل ایمان پر ان کے منہ بولے بیٹو ں کی بیویوں کے بارے میں کوئی تنگی نہ ہو ، جبکہ وہ ( منہ بولے بیٹے ) اپنی بیویوں سے ضرورت پوری کر لیں، اور اللہ کا حکم ہر حال میں پورا ہو کر رہتا ہے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے لے پالک بیٹوں کے بارے میں صریحاََ حکم فرمایا اور اسی شادی کے موقع پر حکم ہوا۔ ارشاد خدا وندی ہے ’’ وَمَا جَعَلَ اَدْ عِیَآ ئَ کُمْ اَبناَ ئَ کُم ط ذَلِکُمْ قَو لُکُمْ بِاَفوَ اھِکُمْ ط وَاللّٰہُ یَقُولُ الْحَقَّ وَھُوَ یَھدِیْ السَّبِیْلَ o اُدعُوْھُمْ لاِ ٰبَآ ئِ ھِم ھُوَ اَقسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ ج ۔‘‘ (ترجمہ) اور نہ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹابنایا ہے، یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے نکال دیتے ہو اور اللہ حق بات کہتا ہے اور وہی صحیح راستے کی طرف راہنمائی کرتا ہے ۔ منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکار و ، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے ۔‘‘ اس آیت و َاِذ تَقُول ُ ۔۔۔ اَمرَ اللہ ِ مَفعُولا( الاحزاب۳۶،پارہ۲۲) کے بارے میں مفسرین کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ عتاب ظاہر کر رہا ہے کہ بظاہر تو اے نبی ! تم زید کو طلاق دینے سے روک رہے تھے ، مگر دل میں یہی خواہش تھی کہ زید ؓ طلاق دے تاکہ تم اس کی بیوی سے شادی کر لو ، لیکن اس بات کو چھپا رہے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ اس بات کو ظاہر کرنے والا تھا ۔ آخر زید نے طلاق دینی تھی اور تمہاری اس ساتھ شادی ہونا تھی اس لیے جب زید نے طلاق دینے کی بات کہی تو تمہیں اس سے یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ ، یہ بات تم نے محض لوگوں کے ڈر کی وجہ سے کہہ دی ، حالانکہ لوگوں کی نسبت اللہ زیادہ حقدار ہے اس کا کہ تم اس سے ڈرو ۔وَتَخْفٰی فِی نَفسِکَ مَا اللّٰہُ مُبْدِ یْہِِ وَتُخْشَی النَّاسَ ج وَاللّٰہُ اَحَقَّ اَنْ تَخْشٰہُ ط ’’اور چھپا رہے تھے تم اپنے دل میں اس چیز کو جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور ڈرتے تھے تم لوگوں سے حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے اس کا، کہ تم اس سے ڈرو۔‘‘علامہ قرطبی کہتے ہیں کہ قتادہ ، ابن زید اور مفسرین کی ایک جماعت جس میں طبری وغیرہ بھی شامل ہیں ، نے یہی تفسیر بیان کی ہے ۔
اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کو سیدہ زینب ؓ اب زیادہ اچھی لگنے لگی تھی اورآپﷺ شادی کے لیے از حد بے قرار ہو گئے تھے ، تو جناب والا! بتائیے کہ آپ ﷺنے ان سے پہلے شادی کیوں نہ کی ۔ کنواری بھی تھیں ، متبنیٰ بیٹے کی بیوی بھی نہیں تھی اور کفالت کے سبب آپ کی نظروں کے سامنے بھی تھیں ، اب جب کہ وہ منکوحہ ہو گئیں ، زیدؓ سے شادی ہو گئی تو اتنی محبت بھڑک اٹھی اور بے تابی اس قدر بڑھی کہ آپﷺ خواہش مند تھے کہ کوئی لمحہ آئے کہ زید طلاق دیں اور آپ اس سے شادی کر لیں ۔۔۔ خدا کی پناہ ! اس کا جواب جماعت مفسرین یہ دیتی ہے کہ آپ ﷺ نے ایک دن اتفاقاََ سیدہ زینب ؓ کو اس حال میں دیکھ لیا تھا کہ اس سے پہلے کبھی دیکھا نہ تھا ۔ اس وجہ سے ان سے محبت شدید ہوئی۔ اس کا استدالال انہوں نے ایک غیر معتبر روایت سے کیا جو مختلف الفاظ کے ساتھ متعدد تفسیروں اور تاریخوں میں مذکور ہے ۔ صاحب سیدالوریٰ بحوالہ علامہ قرطبی جو اپنی تفسیر الجامع الاحکام القرآن میں لکھتے ہیں ’’ مقاتل نے کہا کہ جب نبی ﷺ نے زینب ؓ کی شادی زید ؓ سے کر دی تو وہ زید کے پاس کچھ عرصہ تک رہیں پھر ایک دن نبی ﷺ زید کو تلاش کرتے ہوئے ان کے گھر آئے تو آپ ﷺ نے زینب ؓ کو کھڑے دیکھا وہ گوری چٹی ، خوبصورت اور گدرائے ہوئے بدن والی ایک بھر پور قرشی عورت تھیں ۔ انہیں دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کو ان سے محبت ہو گئی اور آپ نے کہا: سُبحاَنَ اللہ ِ! مُقَلِّبِ القُلوُب ( پاک ہے اللہ ، دلوں کو پھیرنے والا) یہ تسبیح زینب ؓ نے بھی سن لی اور جب زید آئے تو ان کو یہ بات بتا دی ۔ زید سمجھ گئے اور رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ یارسول اللہ ﷺ! مجھے زینب ؓ کو طلاق دینے کی اجازت دیجئے کیونکہ اس میں کبر ہے ، وہ مجھ پر برتری جتاتی ہے اور اپنی زبان سے مجھے دکھ پہنچاتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا ۔۔۔ اَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ اللّٰہَ ( اپنی بیوی کو پاس رکھ اور اللہ سے ڈر) اس روایت میں نہایت دل خراش باتیں بیان ہوئی ہیں ۔ اول یہ کہ سیدہ زینب ؓ خوبصورت ، گوری چٹی تھیں ۔ کیا یہ حسن اور حسن میں شباب اب آیا تھا؟ گوری چٹی اب نظر آئی تھی ، کیا وہ پہلے سے خوبصورت اندام نہیں تھیں جب کہ وہ کفالت میں آپ کے سامنے رہیں؟ آپ نے ان کو کنوارے پن میں دیکھا تھا ، اس وقت محبت میں کیوں گرفتا ر نہ ہوئے ؟
سیدہ زینب ؓ نے رسول ﷺ کی تسبیح بتائی تو زید ؓ سمجھ گئے ۔۔۔ کیا سمجھے َ پہلے بہن بھائی تو زیدؓ سے رشتہ کرنے کو تیار نہ تھے جب آیت کا نزول ہوا تو بسر و چشم اور برضا ورغبت تیار ہو گئے ۔ یہاں کبر جتلاتی ہے اپنی برتری بتاتی ہے اور اپنی زبان سے دکھ پہنچاتی ہے ۔ یہ کیونکر درست ہے کہ سیدہ ؓ نے یہ نسبت قبول فرمائی اور اب وہ ایسی باتیں کریں نا ممکن ہے ۔ ایسے سوالات کے جوابات کے لیے ایک اور روایت کا سہارا لیا گیا ہے ۔ روایت یہ ہے ’’ اللہ تعالیٰ نے ہوا کو بھیجا تو اس نے زینب ؓ سے پردہ ہٹا لیا اور زینب ؓ اس وقت عام گھریلو لباس میں تھیں ، جب رسول اللہ ﷺ نے ان کو اس حال میں دیکھا تو وہ آپ ﷺ کے دل میں کھب گئی اور زینب بھی سمجھ گئی کہ میں رسول اللہ ﷺ کے من کو بھا گئی ہوں ۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب رسول اللہ ﷺ زید ؓ کو ڈھونڈتے ہوئے وہاں آئے ۔ پھر جب زید ؓ گھر آئے تو جو کچھ پیش آیا تھا ، زینب ؓ نے ان سے کہہ دیا ، اس وقت زید ؓ نے زینب ؓ کو طلاق دینے کا ارادہ کر لیا ۔ ‘‘
اس روایت کو علامہ قرطبی نے ’’ کہا گیا ہے ‘‘ کے الفاظ سے بیان کیا ہے ۔ روایت گھڑنے والا مجہول ہے ۔ علامہ نے اسے مقاتل کے حوالے سے نقل کیا ہے اور مقاتل ابن سلیمان ایسا مفسر ہے جو اسرائیلی روایات کا شیدائی ہے اور مانا ہوا کذاب ہے ۔ یہ روایت گھڑنے والے نے تمام مومنین کی ماں کا پاس نہ کیا ۔ جان دو عالم ﷺجیسے پیکر حیا کی جانب ایسی باتیں منسوب کر دیں نیز اللہ تعالیٰ کو بھی اس عشقیہ کہانی میں شامل کر لیا اور کہہ دیا۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا کو بھیجا تو اس نے زینب ؓ سے پردہ ہٹا دیا، گویا اللہ تعالیٰ بھی اس عشق کو پروان چڑھانے میں شامل تھا ۔۔۔۔۔۔۔ !!( تفصیل کے لیے دیکھئیے سید الوریٰ ۔ ۳۔۴۵۱)
مقاتل کے بارے محدثین کی آراء
وکیع نے کہا ۔۔۔ کذاب تھا ۔
یحییٰ نے کہا۔۔۔۔ اس کی حدیث کسی کام کی نہیں ہے ۔
جوز جانی نے کہا ۔۔۔ دجال اور بے باک تھا ۔
ابن حبان نے کہا ۔۔۔ قرآن کی تفسیر میں یہود و نصاریٰ کی ایسی روایتیں لیا کرتا تھا جو ان کی کتابوں کے موافق ہوتی تھیں اور اللہ تعالیٰ کو مخلوق جیسا سمجھتا تھا اور حدیث میں جھوٹ بولتا تھا ۔
خارجہ بن مصعب نے کہا ۔ ۔میں کسی یہودی کا خون بہانے کا بھی روادار نہیں ہوں لیکن مقاتل اگر مجھے تنہائی میں مل گیا تو اس کا پیٹ ضرور چاک کر دوں گا ۔
اس طرح کی اور روایتوں میں بھی الجھنیں ہیں جیسے علی ابن حسین بن علی سے ایک روایت کی جاتی ہے ، اس میں بھی ایسی باتیں ہیں جو محل نظر ہیں ، البتہ اس میں دوسری روایتوں کی طرح لغویت نہیں ہے۔
دراصل یہ کہانی علی ابن زید بن جدعان نے تیار کی ہے جو اس روایت کی جملہ اسانید کا مرکزی راوی ہے ۔ یہ شخص پیدائشی اندھا تھا مگر قدرت نے حافظہ بلا کا عطا کیا تھا ۔۔۔۔ بیشتر آئمہ جرح و تعدیل اس کے لیے اچھی رائے نہیں رکھتے ہیں اور کچھ محدثین اسے سچا اور قابل قبول قرار دیتے ہیں ، مگر اکثریت کی رائے اس کے خلاف ہے ۔ ان کی آراء کا حاصل یہ ہے کہ وہ زیادہ قوی نہیں بلکہ ضعیف اور لاشی ہے ۔ حدیثوں کو الٹ پلٹ دیتا ہے ۔۔ ۔۔ احمدا بن عجلی کہتے ہیں کہ وہ شیعہ مسلک رکھتا تھا۔یزید ابن ذریع کہتے ہیں ’’ میں نے علی ابن زید کو دیکھا تو ہے مگر اس سے کوئی روایت نہیں اٹھائی کیونکہ وہ رافضی تھا ۔۔۔۔ ابو احمد ابن عدی کہتے ہیں ’’ تمام اہل بصرہ میں غالی شیعہ تھا ۔ شیعت میں غلو کا یہ عالم تھا کہ اس قسم کی روایتیں بھی رسول اللہﷺ کی طرف سے منسوب کرنے سے نہیںہچکچاتا تھا ۔۔۔۔ ( جب تم معاویہ کو ان لکڑیوں پر یعنی منبرپردیکھو تو اسے قتل کر دو اور ایک روایت میں ہے کہ اسے سنگسار کر دو ۔ ( سید الوری ٰ ۔۳۔۴۵۷۔۴۵۸)
اب مقاتل کی اور علی ابن زید کی بیان کردہ دونوں روایتیں من گھڑت ہیں تو ان روایات پر مبنی ہر دو تفسیریں بھی کالعدم ہو جائیں گی ۔۔۔۔
اس تفسیر پر غور فرمائیں : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ اور یاد کرو ( اے نبی ) جب تم اس شخص سے جس پر اللہ نے انعام فرمایا اور تم نے بھی انعام کیا، کہہ رہے تھے ۔
اَمسِک عَلَیکَ زَوجَک: ۔۔۔اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ۔
وَاتَّقِ اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اللہ سے ڈر
وَتُخفَیٰ فِی نَفسِکَ مَا اللّٰہُ مُبْدِیْہِ ۔۔۔۔۔اور چھپاتے تھے تم ( اے نبی ) اپنے دل میں اس چیز کو جسے اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا تھا ۔
وَتَخْشَی النَّاسَ ج وَاللّٰہُ اَحَقَّ اَنْ تَخْشٰہُ۔۔۔اور ڈرتے تھے لوگوں سے حالانکہ اللہ زیادہ حق دار ہے اس کا ‘کہ تم اس سے ڈرو ۔
یہ چار جملے بہت خوبصورت ترتیب کے ساتھ ایک ہی لڑی میں پروے ہوئے ہیں ۔ مفسرین نے وضعی اور غیر صحیح روایات کے زیر اثر آخری دو جملے پہلے دو جملوں سے الگ کر دیئے ہیں اور یہ سمجھ لیا ہے کہ پہلے دو جملوں میں رسول اللہ ﷺ زید ؓ سے کہہ رہے ہیں ’’ امسک علیک زوجک ،اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ ! واتق اللہ ، اور اللہ سے ڈر ‘‘ ۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ پر عتاب فرماتے ہوئے آپ ﷺ سے کہہ رہا ہے وَتَخَفیٰ فیِ نفسک ما اللہ مبدیہہ ، اور چھپاتے تھے تم ( اے نبی ) اپنے دل میں اس چیز کو جسے اللہ ظاہر کرنے والا ہے ،وَتَخْشَی النَّاسَ ج وَاللّٰہُ اَحَقَّ اَنْ تَخْشٰہُط ’’ اور ڈرتے تھے لوگوں سے حالانکہ اللہ تعالی ٰ زیادہ حقدار ہے اس کا ، کہ تم اس سے ڈرو !
حاصل یہ کہ ابتدائی دو جملوں میں اللہ تعالیٰ متکلم ہے اور زید ؓ مخاطب ہے جبکہ آخری دو جملوں میں اللہ تعالیٰ متکلم ہے اور رسول اللہ ﷺ مخاطب ہیں ۔۔۔۔۔ درحقیقت یہ چاروں جملے رسول اللہ ﷺ نے زید ؓ سے کہے تھے ۔ یعنی اے زید ! اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ ، اور ( اے زید ؓ ) اللہ سے ڈر ، اور ( اے زید ؓ ) تو چھپا رہا ہے اپنے دل میں اس چیز کو جسے اللہ ظاہر کرنے والا ہے ، اور ( اے زید ؓ ) تو ڈرتا ہے لوگوں سے حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے اس کا کہ تو اس سے ڈرے ۔ ۔۔۔۔ اب اس کی وضاحت دیکھئے
حضرت زید ؓ نے بی بی زینب ؓ کی شکایت کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ وہ مجھ پر برتر ی جتاتی ہے اور اپنی زبان سے دکھ پہنچاتی ہے ، تو یہ بات سراسر خلاف حقیقت تھی ۔ شادی سے پہلے انہوں نے زید ؓ کے رشتہ پر نا گواری کا اظہار ضرور کیا تھا مگر اس دوران جب یہ آیت نازل ہوئی جس کا ترجمہ یہ ہے ’’ کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملہ میں فیصلہ کر دیں تو پھر اسے اس معاملہ میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانی کی وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا ‘‘ تو زینب ؓ نے جان دو عالم ﷺ سے پوچھا ! ۔۔۔ قَد رَضِیْتَہُ لِیْ یاَ رَسُوْلَ اللّٰہُِ مُنْکَحًا ۔۔۔ ؟ ( یا رسول اللہ ! کیا آپ ﷺ نے زید ؓ کو میرے لیے شوہر کے طور پر پسند کر لیا ہے ۔) جان دو عالم ﷺنے جواب دیا ۔ نعم ( ہاں ) یہ سن کر بی بی صاحبہ نے فی الفور سر تسلیم خم کیا اور کہا ۔۔۔ اگر یہ بات ہے تو میں ہرگز رسول اللہ کی نافرمانی نہیں کرتی ۔۔ میں نے اپنے کو زید ؓ کے نکاح میں دے دیا ۔ جو حق پسند دوشیزہ شادی سے پہلے رسول اللہ ﷺ کے رو برو عہد و اقرار کر لے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے حکم سے سر تابی نہیں کرتی اور پھر آپ ﷺ کی خوشنودی کا اتنا خیال رکھے کہ ایسے مواقع پر ایک کنواری بچی کو جو فطری شرم و حیا لاحق ہوتی ہے اس کو آپﷺ کی رضا پر قربان کرتے ہوئے اپنے منہ سے کھل کر کہہ دے کہ میں نے اپنے آپ کو زید ؓ کے نکاح میں دے دیا ، اس سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ اس نے شادی کے بعد شوہر کو دکھ دینے اور ایذا پہنچانے کا وطیرہ اپنا لیا ہو گا ۔۔۔ !۱
کیا اس کو مندرجہ بالا آیات بھول گئی تھیں کیا وہ نہیں جانتی تھیں کہ جس شخص کو رسول اللہ ﷺ نے میرے لیے بطور شوہر پسند کیا ہے ، اس کو ایذا اور دکھ دے کر میں رسول اللہ ﷺ کی نا فرمانی کی مرتکب ٹھہروں گی ؟ کیا اس کو شوہر کی اطاعت اور اس کی نافرمانی کی ممانعت سے متعلقہ رسول اللہ ﷺ کے سارے احکام نسیاََ منسیاََ ہو گئے تھے ؟ یا جان بوجھ کر بی بی نے ان احکامات کو پس پشت ڈال دیا تھا اور ۔۔ مَنْ یَّعْصِ اللّٰہ َ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَ لاً مُّبِیْنًا کے زمرے میں داخل ہونے پر کمر بستہ ہو بیٹھی تھی ؟ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ ! ایسا ہر گز نہیں ہوا تھا ، نہ اس اطاعت شعار خاتون سے اس طرز عمل کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ جان دو عالم ﷺچونکہ اپنی پھوپھی زاد کے مزاج سے بخوبی آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ وہ شوہر کو دکھ دینے والی کوئی حرکت کر ہی نہیں سکتی ، اس لیے جب زید ؓ طلاق کی اجازت طلب کرنے آئے اور شکایت کی کہ زینب ؓ احساس برتری میں مبتلا ہے اور مجھے ایذا پہنچاتی ہے ، تو آپ سمجھ گئے کہ زید ؓ کسی غلط فہمی میں مبتلا ہو کر خواہ مخواہ اپنی بیوی سے بد گمان ہو گیا ہے ، اس لیے آپ ﷺ نے زید ؓ کو تنبیہہ کی ’’ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور خدا سے ڈر‘‘ یعنی اس پر ایسے الزامات مت لگا جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ آپ خود سوچیے ! کہ اگر زینب ؓ فی الواقع تیز مزاج ہوتیں تو پھر اللہ سے ڈر ، کہنے کا کیا موقعہ تھا ؟ اس صورت میں تو یہ کہنا چاہیے تھا کہ اس کی تلخی و تیز مزاجی پر صبر کر اور کسی نہ کسی طرح نباہ کرنے کی کوشش کر ! اتق اللہ’’ یعنی خدا سے ڈر! کا تو صاف صاف مطلب یہی ہے تو جو شکایتیں لگا رہا ہے وہ خلاف واقعہ ہونے کی وجہ سے تقوی ٰ کے تقاضوں کے منافی ہیں ، اس لیے خدا سے ڈر اور ایسی باتیں نہ کر !
مزے کی بات یہ ہے کہ ’’ اتق اللہ ‘‘ کا یہ مفہوم بعض مفسرین نے بھی بیان کیا ہے چنانچہ علامہ قرطبی لکھتے ہیں ’’ یعنی کہا گیا ہے کہ اتق اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ سے ڈر اور اس حوالے سے زینب ؓ کی برائی مت بیان کر کہ وہ بڑائی جتاتی ہے اور خاوند کو دکھ دیتی ہے ، اس تفسیر سے واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زید ؓ کی شکایات کو درست نہیں سمجھا اور اتق اللہ کہہ کر ان کو ایسی باتیں کرنے سے منع کر دیا ، لیکن اتق اللہ کا اگر یہ مفہوم تسلیم کر لیا جاتا تو پھر زینبؓ کی تیز مزاجی اور شوہر کی تحقیر و تذلیل کے وہ افسانے کہاں جاتے ’ جنہیں داستان گوئی کے رسیا راویوں نے بڑی محنت سے تیار کیا تھا ، اس لیے یہ تفسیر روایات کے غوغا میں دب گئی اور عام مفسرین اس طرف چلے گئے کہ اتق اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ سے ڈر اور اپنی بیوی کو طلاق مت دے حالانکہ اگر زینب ؓ فی الواقع جھگڑالو اور شوہر کی نافرمان ہوتی تو پھر ایسی عورت کو طلاق دینے سے بھلا تقویٰ کی کیا خلاف ورزی لازم آتی تھی ۔۔۔ ؟ کیا تقوی ٰ کا یہی تقاضہ ہے کہ بیوی جو چاہے کہتی رہے اور جس طرح اس کی مرضی ہو خاوند کی توہین کرتی رہے اور خاوند سب کچھ کان دبا کر سنتا رہے اور ٹک ٹک دیدم ، دم نہ کشیدم کی تصویر بنا رہے ۔۔ ؟
قارئین کرام ! اب آپ کے ذہن میں یہ سوال قدرتی طور پر ابھر رہا ہو گا کہ اگر زینب ؓ احساس برتری میں مبتلا نہ تھی، نہ ان کے مزاج میں کسی قسم کی تلخی پائی جاتی تھی تو پھر زید ؓ نے ان کو طلاق کیوں دی ۔؟ اور وہ بھی رسول اللہ ﷺ کے منع کرنے کے باوجود ۔۔۔ ۔۔۔۔؟ آخر زید ؓ کی اتنی شدید غلط فہمی اور بد گمانی کاکوئی نہ کوئی سبب تو ہوگا ۔۔۔۔۔!!
جواباَ عرض ہے کہ اس کا سبب حضرت زید ؓ کی کوئی نفسیاتی گرہ تھی جس کی وجہ سے ایک زینب ؓ ہی کیا ، وہ کسی بھی عالی نسب اور خاندانی عورت کے ساتھ نباہ نہیں کر سکتے تھے ، اور انتہائی مختصر عرصے میں نوبت طلاق تک پہنچ جاتی تھی ۔ اس بات کی تہہ تک پہنچنے کے لیے حضرت زید ؓ کی عائلی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالنی پڑے گی ۔حضرت زید ؓ کی پہلی شادی ام ایمنؓ سے ہوئی ۔ ام ایمن ؓجان دو عالم ﷺکے والد ماجد کی کنیز تھی جو وراثت میں جان دو عالم ﷺکے حصہ میں آئی ۔ جان دو عالم ﷺنے حضرت خدیجہ ؓ سے نکاح کے موقعہ پر انہیں آزاد کر دیا ۔ آزادی کے بعد ان کی پہلی شادی عبید بن یزید سے ہوئی ، جس سے ایمن نام کا بیٹا پیدا ہوا ، ا ور اسی نسبت سے آپ ام ایمن ؓ کہلائیں ۔ عبید بن یزید کے بعد ان کی شادی زید ؓ سے ہوئی ، اس وقت وہ بالکل نوجوان تھے جبکہ ام ایمن ان سے دو گنی عمر والی ایک گرم و سرد چشیدہ عورت تھیں ۔ اگر عمر کے تفاوت کو مد نظر رکھا جائے تو ایسی بے جوڑ شادی شائد ہی کو ئی ہو گی مگر ازدواجی حوالے سے دیکھا جائے تو یہ ایک کامیاب ترین شادی تھی جو زید ؓ کے دنیا سے رخصت ہونے تک قائم رہی اور کسی نا خوشگوار نشیب و فراز سے دو چار نہیں ہوئی ۔ اس کی وجہ محض یہ تھی کہ شوہر و بیوی دونوں ایک مرتبہ کے تھے ، یعنی معاشرتی اور سماجی معیار دونوں کا یکساں تھا ۔ ام ایمن آزاد کردہ لونڈی تھیں جبکہ زید ؓ آزاد کردہ غلام تھے ۔ معاشرتی معیار کی اسی یکسانیت نے دونوں میں ہم آہنگی پید ا کر دی اس لیے بخوبی گزر بسر ہونے لگی ، لیکن زینب ؓ کا معاملہ ام ایمن ؓ سے یکسر مختلف تھا ۔ وہ نہایت اونچے خاندان کی معزز خاتون تھیں ۔ اس بناء پر زید ؓ ان کے مقابلہ میں احساس کمتری کا شکار ہو گئے اور ان سے نباہ نہ کر سکے ، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ زینب ؓ کسی قسم کے احساس تفاخر و برتری میں مبتلا نہیں تھیں بلکہ در حقیقت خود زید ؓ احساس کمتری کے اسیر تھے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ زینب ؓ کے علاوہ بھی کسی عالی نسب عورت کے ساتھ گزارا نہ کر سکے ۔ علامہ ابن حجر لکھتے ہیں ۔ ’’ ترجمہ ( جب زید ؓ نے زینب ؓ کو طلاق دے دی تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی شادی ام کلثوم بنت عقبہ سے کرادی ، پھر انہوں نے ام کلثوم کو بھی طلاق دے دی اور درہ بنت ابی لہب سے شادی کر لی ، پھر درہ کو بھی طلاق دے دی اور زبیر کی بہن ہند بنت العوام سے شادی کر لی ) یہ تمام عورتیں خاندانی لحاظ سے نہایت معزز اور بلند پایہ تھیں ۔ اگر زینب ؓ میں مزاج کی تلخی تھی تو دیگر شریف النسب خواتین کے بارے میں کیا کہا جائے گا ، جنہیں زید ؓ نے طلاق دے دی تھی ۔۔۔ ؟ کیا وہ بھی جھگڑالو اور بد مزاج تھیں؟ کیا ام کلثوم بھی کبر میں مبتلا تھیں اور اپنی برتری جتاتی تھیں ۔۔۔ ؟ کیا درہ بھی ان کی توہین کرتی تھیں اور ایذا پہنچاتی تھی ۔۔۔۔۔؟
زینب ؓ کے سلسلے میں تو پھر بھی بقول مورخین یہ پس منظر موجود تھا کہ انہوں نے ابتدا میں زید ؓ سے رشتہ ہو نے پر ناگواری کا اظہار کیا تھا ، بعد میں آیت نازل ہونے اور رسول اللہ ﷺکے کہنے اور سننے پر بظاہر رضامند ہو گئی تھیں مگر دل سے خوش نہیں تھی اس لیے زید ؓ سے نباہ نہ کر سکیں ۔ اگر زینب ؓ کے بارے میں یہ باتیں مان بھی لی جائیں تو دیگر خواتین کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ نہیں تھا ، وہ سب تو اپنی خوشی اور رضامندی سے زید ؓ کے عقد میں آئی تھیں ، پھر ان کے ساتھ زید ؓ کی کیوں نہ نبھ سکی ۔۔۔ ؟ زید ؓ کی شکایتیں لگانے کے باوجود زینب ؓ نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور مکمل خاموش رہیں ، چاہتیں تو جوابی شکایت لگا سکتی تھیں ، یا کم ازکم اپنا دفاع کر ہی سکتی تھیں ، مگر انہوں نے معاملہ اپنے رب پر چھوڑے رکھا اور خود اس جھگڑے سے بالکل کنارہ کش رہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو ان کے صبر اور رضا بالقضا کا یہ انداز اتنا پسند آیا کہ جب زید ؓ نے ان کو طلاق دے دی تو اس صمد و بے نیاز مولا نے بنفس نفیس ان کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے کیا اور ان کو امہات المومنین ؓکے مقدس اور پاک زمرے میں شامل کر دیا ۔ اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ ( اے نبی ) جب زید ؓ نے زینب ؓ سے اپنی ضرورت پوری کر لی اور اسے چھوڑ دیا ، تو ہم نے خود تمہار عقد اس کے ساتھ کر دیا ، اس طرح مومنین پر واضح ہو گیا کہ منہ بولے بیٹے اگر اپنی بیویوں کو طلاق دے دیں تو ان سے نکاح کرنے میں کوئی حرج اور تنگی نہیں ہے ۔ ( سید الوریٰ سے اقتباس ختم ہوا )
حضرت زید ؓ ہوں یا زینب ؓ ، دونوں پر اللہ تعالیٰ کی نوازشات ہیں جس طرح زینب ؓ کو یہ خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ دنیا بھر کی خواتین کے نکاح ان کے اولیاء نے کرائے مگر زینب ؓ کا نکاح خود رب العالمین نے کرایا اور فرمایا ۔۔۔۔ زَوَّجنَا کَھاَ اور حضرت زید ؓ کو یہ انعام خدا وندی عطا ہوا کہ جہاں بھر کے ممتاز اور بڑے بڑے افراد کا نام لے کر اللہ تعالیٰ نے ذکر نہیں فرمایا جبکہ زید ؓ کا نام بارگاہ ایزدی سے قرآن پاک میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا اور فرمایا ۔۔۔۔ ( فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌٌُ ) صرف حضرت زید ؓ کا نام قرآن مجید میں کیوں آیا ہے ؟ حضرت امام سہیلی نے لکھا کہ آپ کا نام باقی صحابہ کو چھوڑ کر اس لیے قرآن مجید میں ہے جب آیت ادعوہم لا بانھم نازل ہوئی تو زید ؓ کو زید ؓ بن محمد ﷺکہنے کی بجائے زید ؓ بن حارثہ کہنے لگے ۔ چونکہ زید بن محمد پکارا جانا ان کے لیے بہت بڑی شرافت تھی ۔ اس شرافت کے چھن جانے سے وہ مغموم ہوئے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس وحشت اور غم کو دور کرنے کے لیے قرآن کریم میں ان کا نام درج فرما دیا ، اب انہیں وہ شرافت ملی کہ نمازوں اور محرابوں میں پڑھا جانے لگا۔ ( فیوض الرحمان ترجمہ روح البیان ۔ ج۔۸ ۔ص۔۵۲۲)

اعتراض نمبر ۱۲۵
آنحضرت ﷺ نے خود اپنے قول کی اپنے فعل سے مخالفت کی اور اصول شکنی کرتے ہوئے سیدہ زینب ؓ سے شادی کر لی جو ان کے منہ بولے بیٹے کی بیوی تھی ۔
جواب: گربہ کشتن روز اول کے مصداق جب معاشرے میں کوئی رسم بد پھیل رہی ہو تو اس کی آغاز ہی میں بیخ کنی کرنا آسان ہو تا ہے اگر آغاز سے غفلت برتی جائے اور اس کا تدارک نہ ہو سکے اور یہ جڑ پکڑتی جائے تو اس کا خاتمہ ازحد مشکل اور کٹھن ہو جاتا ہے ۔ یہ افراد کے دل و دماغ پر چھا جاتی ہے اور ناسور کی طرح معاشرے میں سرایت کر جاتی ہے ‘ اس کے مضر اثرات موجود نسل اور آنے والی نسلوں کے افراد کے لیے سم قاتل ہوتے ہیں لمحہ فکریہ یہ ہے کہ لوگوں کو اس رسم بد کا ادراک بھی ہوتا ہے اور اس کے برے اثرات سے بھی با خبر ہوتے ہیں پھر بھی اس رسم کی اندھا دھند پیروی کرتے چلے جاتے ہیں اور یہ آہستہ آہستہ رسم بد ان کے رسم و رواج کا حصہ ہی نہیں بلکہ مذہبی رکن کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے حالانکہ رسم بد کے اپنانے والوں کے مذہب میں اس کی قطعاََ اجازت نہیں ہوتی بلکہ یہ مذہب کے خلاف رسم اپنے پنجے گاڑھ چکی ہوتی ہے ۔ اسی طرح عرب معاشرے میں کئی بری رسموں میں سے ایک رسم بد تنبیت کی تھی جسے نیست ونابود کرنا آسان نہ تھا ۔کیونکہ عوام کو اپنا مخالف بنانا تھا اور ہر طرف سے طوفان بد تمیزی اور طعن و تشنیع کے تیروں کی بوچھاڑ ہو جاتی ۔ اس کی ہوش ربا اور بلند بالا موجیں اتنی مضبوط اور مستحکم ہوتی ہیں کہ ایسے پہاڑ بھی ان کے سامنے کھڑے نہیں رہتے اور بڑے بڑے لوگوں کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں ۔ یہ تو اللہ کا فضل ہے کہ وہ اپنے کرم سے ایسے ذرائع پیدا کر دیتا ہے جس سے لغو و فضول اور قبیح رسوم کی سونامی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتی ہے ۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مخلوق خدا پر اپنا رحم فرماتے ہوئے ایک ذریعہ بصیرت جناب مصطفیٰ ﷺ منتخب فرمایا ۔ آ پﷺ نے اپنے عمل سے اس بد ترین رسم تنبیت کو ختم کر دیا ۔ متبنیٰ کی بیوی بعینہ حقیقی بیٹی کے تھی عرب کا قانون اپنے منہ بولے بیٹے جسے حقیقی بیٹے کا درجہ حاصل تھا ‘ کی زوجہ سے نکاح کی اجازت نہیں دیتاتھا اس کے حرام ہونے میں انہیں قطعاََ کوئی شبہ نہ تھا ۔ جب سیدنا زید ؓ بی بی زینب ؓ کو طلاق دے دی تو آپ ﷺ نے بحکم خدا وندی انہیں شرف زوجیت بخشا اس طرح اس بد نما رسم پر کاری ضرب لگا کر ہمیشہ کے لیے اس کا قلع قمع کر دیا ۔
رسم تنبیت قدرت خدا وندی کا گستاخانہ جواب تھی ۔ متبنیٰ بنانے والا شخص گویا خدا سے یہ کہا کرتا تھا کہ اگر تو نے مجھے اولاد نرینہ سے محروم کیا ہے تو کیا ہوا ‘ یہ دیکھا میں نے بیٹا حاصل کر لیا ہے اس کے علاوہ اس رسم کا خاندانی وارثان باز گشت کے حقوق پر بہت برا اثر پڑتا تھا بلکہ یہ کا رروائی زہر قاتل تھی کیونکہ ورثاء تو حقیقی طور پر وارث ہوتے تھے اور یہ محروم کنندہ مصنوعی طریقہ سے وارث بنایا جاتا تھا خصوصاََ جب املاک و جائیدا د جدی پیدا کردہ ہوتی تھی اس طرح رسم تنبیت سے تمام خاندان میں عداوتوں اور نفرتوں کی بنیاد قائم ہو جاتی تھی اور کبھی نہ ختم ہونے والے جھگڑے برپا ہو جاتے تھے ۔ بننے والے فرزند جو شجرہ خاندان سے کٹی ہوئی شاخ کی مانند ہوتا تھا اس کے دل اور روح میں یہ حقیقت کانٹے کی طرح کھٹکتی رہتی تھی کہ اس نئے خاندان سے حقیقت میں اس کا کوئی خونی تعلق نہیں ہے بلکہ دکھاوے کی ساری بنیاد ظاہر داری اور اوپری رسوم پر ہے ۔ وہ اگر اپنے حقیقی بھائیوں کو اچھی حالت میں دیکھتا تو ان پر حسد رکھتا تھا اور اگر اس کے حقیقی بھائی اسے اچھی حالت میں دیکھتے تو اس سے حسد کیا کرتے تھے ، متبنیٰ کرنے والا اگرچہ لے پالک کو اس کے بچپن اور لڑکپن میں بڑے لاڈ ‘ چائو اور پیار سے پرورش کیا کرتا لیکن اس کے جوان ہونے کے بعد جب دیکھتا کہ اس شخص کے خاندانی اوصاف سے وہ کافی حد تک معرا اور اس کے رشتہ داروں کے ساتھ اس کی کتنی بیگانیگی اور دوری ہے اس سے اس کا دل بجھ جاتا ۔اس رسم نا گفتہ بہ کی اصلاح کے لیے بلکہ ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ ﷺ کو منتخب فرمایا اور قرآن پاک میں بھی اس کا بطلان فر مادیا۔ قرآن مجید میں ہے ’’ خدا نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا بیٹا نہیں بنایا۔ یہ تمہاری باتیں اپنے ہی منہ کی ہیں اور اللہ سچ فرماتا ہے اور سیدھے راستہ پر چلاتا ہے ایسے بیٹوں کو ان ہی کے باپوں کے نام سے پکارا کرو خدا کے ہاں یہی بات ٹھیک انصاف کی ہے ۔ اور یہ بھی فرما دیا ’’ ما کان محمد ابا احدمن رجالکم ( محمد ﷺ تم مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں )‘‘ ان آیات سے اس بری رسم کا بطلان ہو گیا ہے ۔ نیز اللہ تعالیٰ فرما چکا تھا ’’ لقد کان لکم فی رسو ل اللہ اسوۃ حسنۃ ‘‘ ( اس سے اس جہالت کا پہاڑ اکھاڑ پھینکنے اور سمندر پاٹ دینے کے لیے آ پ ﷺ ہی کو نمونہ بنایا ) لے پالک کو بیوی ہمیشہ کے لیے اس کے باپ پر حرام ہوتی ہے اب کہ زید ؓ کی بیوی کو حکم قرآنی سے نبی ﷺ کی بیوی بنا دیا گیا لہٰذا تنبیت کی تائید میں کسی بھی اور چھوٹی بڑی تاویل کی گنجائش نہ رہی ۔ حضرت زینب ؓ کی شادی زید سے ہونے میں ایک اور خطر ناک اور قبیح رسم کا خاتمہ مقصود تھا وہ بھی خاک بوس ہوئی ۔ وہ رسم یہ تھی کہ خاندانی کروفر ‘ خاندانی امتیاز اور افتخار نے عرب معاشرے میں ڈیرے ڈال رکھے تھے بڑے اور چھوٹے کی تفریق کی دھن ان کے سر پر سوار تھی اور یہ جنون ان کے دل ودماغ پر اس قدر چھایا ہوا تھا کہ میدان جنگ میں بھی مبارزت طلبی کرتے تو قریش ببانگ دہل کہتے کہ ہمارے درجے اور پلے کا آدمی مقابلہ میں آ ئے جیسا کہ جنگ بدر میں عتبہ بن ربعیہ جو مکہ کے رئیس ‘ ابو سفیان کا سسر اور بنو امیہ کا چشم و چراغ تھا ‘ میدان میں اترا ۔ ایک طرف اس کا بھائی شیبہ بن ربیعہ اور دوسری طرف اس کا بیٹا ولید تھا۔ دعوت مبارزت دی تو تین انصاری ‘ عوف بن حارث ؓ معوذ بن حارث ؓ اور عبداللہ بن رواحہ ؓ نکلے ۔ عتبہ نے پوچھا تم کون ہو ؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ ہم انصار میں سے ہیں ۔ یہ سن کر عتبہ نے کہا ہم کو ان لوگوں سے مطلب نہیں ہم اپنی قوم سے لڑنا چاہتے ہیں جو ہمارے برابر اور مساوی جوڑ کے ہوں ‘ پھر اونچی آواز سے بولا ! اے محمد (ﷺ) ہماری قوم میں سے ہمارے برابر کے لوگ لڑنے کے لیے بھیجو ۔ یہ سن کر حضور ﷺ نے حمزہ بن عبد المطلب ؓ ‘ علی بن ابی طالب ؓ اور عبید ہ بن الحارث کو بھیجا ان تینوں کا تعلق بنی ہاشم سے تھا اس کے ساتھ ہی خاندانی عصبیت کا ایک اور واقعہ بھی سن لیں ۔ ابو لہب جو حضور ﷺ کا جانی دشمن اور خون کا پیا سا تھا۔ اس کے بارے امام جوزی ؒ نے لکھا ہے کہ ابو طالب کی وفات کے بعد جب آ پ پر طرح طرح کی مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تو آپ ﷺ کی بے بسی کو دیکھ کر ابو لہب کا دل بھی تڑپ اٹھا اور وہ بڑے درد دل کے ساتھ آ پﷺ کی خدمت میں آ یا اور کہنے لگا ’’ محمد (ﷺ) جو کچھ تمہاری مرضی میں آ ئے کرو اور جس طرح ابو طالب کی زندگی میں آپ دینی دعوت دیتے تھے اب بھی اسی طرح اس دعوت کو دیتے رہو ‘ مجھے لات و عزیٰ کی قسم ! جب تک میں زندہ ہوں کوئی شخص تیری طرف نظر بھی اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا ‘‘ ۔ اس کے بعد حارث بن قیس بنی عدی نے آ پﷺ کو گالیاں دیں تو ابو لہب اس کے گھر گیا اور اس کی خوب گوشمالی کر کے واپس آیا ‘ اس کے بعد ایک مجمع میں جا کر کہا اے قریش کی جماعت! ابو لہب صابی ہو گیا ہے ؟ یہ آواز قریش پر بجلی بن کر گری چنانچہ قریشی فوراََ اس کے مقام پر گئے ۔ ابو لہب نے کہا ’’ میں نے عبدالمطلب کی ملت سے مفا رقت نہیں کی لیکن یہ بات مجھے قطعاََ گوارا نہیں کہ میرے بھتیجے پر ظلم اور زیادتی ہو ‘‘۔ روسائے قریش نے از راہ نفاق ابو لہب کی پالیسی کو سراہا اور کہا کہ یہ قدم اٹھا کر تم نے واقعی صلہ رحمی کا حق ادا کر دیا ۔۔۔ اس خاندانی تفاخر کو مٹانے کے لیے آ پ ﷺ نے اپنے غلام زید بن حارثہ ؓ کے ساتھ اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب ؓ کی شادی کر دی غلام و آزاد ‘ امیر اور غریب کے فرق کے بت کو پاش پاش کر دیا اور خطبہ حجۃ الوداع کے موقعہ پر یہ دہرا کر ’’ کسی عربی کو عجمی پر ‘ کسی عجمی کو عربی پر ‘ کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضلیت نہیں ‘ مہر ثبت کر دی اور بی بی زینب ؓ کے زید ؓ سے نکاح کر کے عرب کے جاہلی افتخار اور وقار پر کاری ضرب لگائی اور ہمیشہ کے لیے اس فرق کو پیوند خاک کر دیا اور اس کی جگہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کا قانون انسانیت کو دیا ’’ان اکر مکم عند اللہ اتقا کم ‘‘ اس کا رد اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ’’ اور خدا نے تمہارے متبنیٰ کو تمہارا بیٹا نہیں بنایا یہ تمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں ، اللہ حق کہتا ہے اور وہی راستہ کی ہدایت کرتا ہے، متبنیٰ کو اپنے باپ کی طرف منسوب کر کے پکارا کرو ۔۔۔۔ درحقیقت یہ پابندی بیٹے کے اپنے مر حوم باپ کی بیوی سے شادی کرنے سے متعلق تھی بعد ازاں ایک وحی کے نزول کے ذریعے حکم ہوا کہ لے پالکوں کا مقام حقیقی اور قدرتی بیٹوں جیسا نہیں ، جس سے اسلام نے متبنیٰ بنانے کو ممنوع قرار دیا ۔ جان ڈیون پورٹ لکھتا ہے ’’ جناب محمد ﷺ کے خلاف ان کے دشمنوں کا یہ الزام کہ لے پالک کی بیوی سے شادی کرنا ناجائز تھا ، بے معنی ہے ۔ اصل حقائق یہ ہیں کہ نفاذ اسلام سے پہلے عربوں میں ایک رسم تھی کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ماں کہہ کر مخاطب کر بیٹھتا تو وہ اس عورت کے ساتھ بطور خاوند نہیں رہ سکتا تھا ، اسی طرح اگر کوئی شخص کسی نوجوان کو بیٹا کہہ کر مخاطب کرتا تو اس نوجوان کو فی الفور حقیقی بیٹے جیسے حقوق کا حق دار ٹھہرایا جاتا مگر قرآن کریم نے ایسی تمام روایتوںں کو کالعدم قرار دے دیا ۔۔۔۔۔۔کوئی شخص اپنے لے پالک کی بیوی سے شادی کرے تو ایسی شادی شرعاََ جائز ہو گی ۔ اس رسم بد کو ختم کرنے کے لیے یہ شادی معرض وجود میں آئی اگرچہ اور بھی کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں ۔
اعتراض نمبر۱۲۶
عیسائی حضرات، زینب ؓ کی شادی کے واقعہ سے رنجیدہ اور ملول ہیں کیوں؟
جواب:کیا تورات نے تنبیت کو حق ٹھہرایا ہے ؟ کیا مسیحؑ نے تنبیت کو جائز تسلیم کیا ؟ اور ایک حرف بھی اس کے جواز میں کہا ہے اگر نہیں تو عیسائیوں کو رنج کیوں ہے ؟اس پر وہ سیخ پا کیوں ہوتے ہیں ؟ در حقیقت حضرت زینب ؓ کی شادی سے کئی ایک قبیح رسوم کا خاتمہ ہوا ہے ان میں سے ایک تثلیث ہے ۔ گویا اس رنج کی وجہ یہ ہوئی کہ نبی ﷺ کے اس مبارک نکاح سے نہ صرف رسم تنبیت کا بطلان ہوا بلکہ تثلیث کی چولیں ہلا دیں کیونکہ جب اسلام نے ثابت کر دیا کہ ایک انسان کو دوسرے انسان کا بیٹا کہنا ‘ ایسی حالت میں کہ دونوں کے درمیان خون کا رشتہ نہ ہو ‘ بالکل جھوٹ اور باطل ہے اور کامل افتراء و صریح بہتان ہے کھلم کھلا دروغ ۔ کیونکہ انسان کو خدا کے ساتھ کوئی مشابہت ہے ہی نہیں ‘ یہ جسم اور روح سے مرکب انسان جو سینکڑوں حوائج انسانی کا محتاج ہے جو ایک دن پیدا ہوا ہے اور اس سے پہلے نہ تھا جو ایک دن مر جائے گا ‘ وہ لقمہ فناہو گا کیونکر اس حی و قیوم زندہ ‘ خدا کا فرزند ہو سکتا ہے جس کی ذات سرمدی ازل سے بھی اول اور ابد سے بھی آخر ہے پس یہی ہے وہ راز ہے جس کی وجہ سے عیسائی مبلغین و مستشرقین اس قصہ سے زیادہ ناراض رہا کرتے ہیں ۔
اعتراض نمبر۱۲۷
بعض کہتے ہیں کہ حکم خدا وندی شادی کرنے کا نازل ہوا ، اس کے باوجود آپ ﷺ نے تاخیر کی حالانکہ لوگوں کی تنقید کیے بغیر رب العزت کی مرضی اور حکم کی بجا آوری کرنا چاہیے تھی ۔
جواب: اس کا مفصل جواب پچھلے صفحات میں گزر چکا ہے اور یہ تاخیری پہلو بھی روایات پر مبنی تفسیروں کی گڑ بڑ سے پیدا ہوا ہے ۔ البتہ یہاں اتنا ذکر کرنا ضروری ہے کہ آپ ﷺ نے زید ؓ کے طلاق دینے کے بعد اور عدت ختم ہونے کے بعد شادی کر لی ۔ جو حضرات تاخیر سے شادی کو ڈر کی وجہ بتاتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ بتائیں جب آپ ﷺ نے شادی کر لی اس وقت ڈر کہاں چلا گیا تھا ؟ لوگوں کی تنقید کی بھی پروا نہ رکھی ، تو پھر یہ جرات کیسے ہوئی ؟ ارشاد ربانی ہے ۔
اَلَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْ نَ رِساَلَتِ اللّٰہِ وَلَتَخْشَوْنَہُ وَلاَ یَخْشَوْنَ اَحَدًا الاَّ اللّٰہ (ترجمہ )’’ جو امید کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور اللہ سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ۔‘‘ تو پھر یہ بات کس درجہ میں قابل قبول ہو سکتی ہے کہ باقی رسولوں کی تو یہ شان ہو کہ لَا یَخْشَوْنَ اَحدًا اِلاَّ اللّٰہَ ، اور جملہ انبیاء و رسل کے سردار تاجدار سے کہا جائے ،وَتَخْشَی النَّاسَ ج وَاللّٰہُ اَحَقَّ اَنْ تَخْشٰہُ ۔۔۔ بعض تفاسیر کے مطابق وَتَخْشَی النَّاسَ ج وَاللّٰہُ اَحَقَّ اَنْ تَخْشٰہُسے مخاطب جان دو عالم ﷺ ہیں اور اللہ پاک آ پﷺ پر عتاب نازل کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ اے نبی ! تم لوگوں سے ڈرتے ہو حالانکہ اللہ تعالیٰ زیادہ حق رکھتا ہے اس بات کا کہ تم اس سے ڈرو یہ خطاب آ پ سے نہیں ہے اس کی چند وجوہ ہیں اولاََ ۔۔۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ایک اچھی قوم کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے ولا یخا فون لو متہ لا یم ‘ یعنی وہ لوگ اسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے ‘‘ عام خوف خدا رکھنے والا شخص ڈر کو خاطر میں لاتا تو آپ ﷺ کیسے ڈریں گے مساجد کی تعمیر وغیرہ کر نے والے لوگوں کی شان میں ارشاد ربانی ہے ’’ و لم یخشی الا االلہ ‘‘ یعنی اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرے ۔ وہ لوگ جو ملامت کرنے والے سے نہیں ڈرتے ‘ مقدس کاموں کی تکمیل میں لو گ کسی ڈر اور خوف کا شکار نہیں ہوتے اور متقین کو بھی ڈر نہیں ہوتا تو بھلا رسولوں کو ڈر کیونکر لا حق ہو سکتا ہے جبکہ ان کے بارے میں نص قطعی موجود ہے ۔ ارشاد خدا وندی ہے ’’اَلَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْ نَ رِساَلَتِ اللّٰہِ وَلَتَخْشَوْنَہُ وَلاَ یَخْشَوْنَ اَحَدًا الاَّ اللّٰہ ‘‘ ( جو اللہ کے پیغامات لوگوں تک پہنچاتے ہیں (رسول ) اور اللہ سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ۔) تمام رسولوں کی شان وریٰ الوریٰ ہے اور وہ اس صفت سے بدرجہ اتم متصف ہیں تو تمام انبیاء اور رسل کے سرتاج کے متعلق کہا جائے کہ لوگوں کے ڈر سے شادی میں تاخیر کی ‘ یہ محض معترض کے تعصب کا نتیجہ ہے ۔
مذکورہ الزام کے رد میں ایک حدیث پاک درج کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کو نصرت الرعب عطا کی گئی تھی۔ صیححین میں حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ’’ مجھے پانچ ایسی چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں ملیں ان میں سے پہلی یہ ہے ’’ ابھی ایک ماہ کی مسافت ہو کہ دشمن پر میرا رعب طاری ہو جاتا ہے ۔‘‘ ۔۔۔۔آپ ﷺ کی ۲۳ سالہ زندگی میں جھانک کر دیکھا جائے تو آ پ ﷺ شہر مکہ کے اندرون وبیرون تن تنہا دن رات آتے جاتے نظر آتے ہیں مگر کسی کو حملہ کرنے کا یارا نہ ہوا ۔تجارتی سفروں ‘ شہروں اور منڈیوں میں ہزاروں اشخاص سے آمناسامنا ہوا کلمہ توحید بلند کیا اور کفر و شرک سے پرہیز کرنے کی تعلیم دی ۔ مکہ سے دور قبائل جو اخلاق سے عاری اور خون بہانے کے خوگر تھے وہاں جاتے تھے اور صرف ابو بکر ؓ ہمراہ ہوتے ہر جگہ دعوت تو حید دیتے لیکن کوئی بھی مذہبی جنون یا اپنے مذہب کی مخالفت پر آ پﷺ سے لڑنے کو تیار نہ ہوتا تھا ۔ طائف کا حکمران اور اہل طائف آ پﷺ کے شدید مخالف تھے اوباش اور آوارہ لڑکوں نے آ پﷺ پر آوازے کسے اور سنگ باری کر کے لہو لہان کر دیا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس موقع پر ان کے دلوں میں آ پ ﷺکا رعب کیوں نہ ڈالا گیا ؟ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے عظیم مظاہر ہیں۔ ان حکمتوں کے مظاہر میں سے ایک یہ ہے کہ رسل و انبیاء علیھم السلام کی عادت ہے آ زمائش کی جاتی ہے اور یہ ان کے لیے عاقبت کی نیکی ہوتی ہے اس میں حکمت الہٰی یہ ہے کہ اگر انبیاء کو ہمیشہ نصرت دی جائے تو البتہ مسلمانوں میں وہ لوگ شامل ہو جائیں گے جو کہ مسلمانوں میں سے نہیں ہیں اور صادق اپنے غیر سے جدا ہونے والا نہ ہوگا اور اگر ہمیشہ رسل علیھم اسلام کو شکست ہو تو بعثت ( اعلان و ظہورنبوت ) سے مقصود حاصل نہ ہوگا چنانچہ حکمت الہٰی نے ان دو امروں کے درمیان جمع کرنے کا تقاضا کیا تاکہ سچائی جھوٹ سے جدا ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ منافقوں کا نفاق مسلمانوں سے چھپا ہوا تھا ۔ اپنے قول و فعل سے جو شے چھپائے رکھی تھی ‘ وہ صاف ظاہر ہو گئی ۔ انہی مظاہر میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض جگہوں میں نصرت کی تاخیر نفس کی شکست اور اس کی بلندی و تکبر کی شکست مقصود ہوتی ہے ۔ اور یہ بھی حکمت ہے کہ مومن بندوں کے لیے جو درجات اور منازل اللہ تعالیٰ نے رکھی ہیں ان تک پہنچنے کے لیے ابتلاء و رنج کے اسباب جمع کر رکھے ہیں کہ ان کی وجہ سے وہ درجات اور منازل تک پہنچ پائیں ۔
اب اپنے اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں یعنی نصرت الرعب ! اس وقت یمن کی سلطنت ایران کے قبضہ سے نکل جاتی ہے اور کسی جنگ کے بغیر اسلام کے مطیع ہو جاتی ہے مگر سلطنت ایران یمن کی طرف منہ بھی نہیں کرتی اس لیے کہ حضور ﷺ کا رعب ان کے دل و دماغ پر مستولی تھا۔ شمالی عرب ‘ سلطنت رومہ کے اقتدار سے نکل جاتا ہے اور رومہ کا شہنشاہ فوج کی فراہمی اور حملہ آواری کا حکم جاری کر دیتا ہے اور اس کے دفاع کے لیے حضور ﷺ عرب کی سرحد تبوک تک تشریف لے جاتے ہیں مگر ایک ماہ کی راہ پر ( یروشلم میں ) بیٹھے ہوئے ایمپرر (emperior)کادل خوف کے مارے ڈوبنے لگتا ہے حتیٰ کہ سابقہ احکام جنگ منسوخ کر کے دم بخود ہو کر بیٹھ جاتا ہے ۔عرب کی قدیم ترین سلطنتیں حیرہ و غسان قائم تھیں انہی کے دربار کے شعراء خاص حسان بن ثابت اور کعب انصاری تاج پوش بادشاہوں کو چھوڑ کر رسول اللہ ﷺ کے آستان پر حاضر ہو جاتے ہیں مگر ان حکمتوں میں سے کسی کو یہ جرات نہیں ہوتی کہ اپنے شاعروں کو واپس لینے کے لیے طاقت کا اظہار کریں اور دربار عالی کے خدام تک کوئی دھمکی آمیز فقرہ بھی پہنچا سکیں ۔ذی ظلیم ‘ ذی بران کی حکومتیں یمن کی جانب اور مکہ سے متصل قائم تھیں ہر ایک حکومت کے پاس باقاعدہ فوج بھی تھی اور خزانے بھی لیکن وہ گھر بیٹھے حضور ﷺ کا کلمہ پڑھنے لگتے ہیں ۔ ذوالکلاح حمیری جو اپنے کو سجدہ کرواتا تھا وہ خدا بنا بیٹھا تھا پھر بھی وہ پریشان ہے کیونکہ ایسے کئی فرعون اس اللہ کے بندے یعنی رسول اللہ ﷺ نے غرقاب کر دیے ۔ نبی اکرم ﷺ کی یہ صفت دور و نزدیک ہر جگہ پائی جاتی ہے ۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں ’’ جو کوئی حضور ﷺ کے سامنے یکا یک آ جاتا وہ خوف زدہ ہو جاتا ۔وہی جانی دشمن ابو جہل جب تاجر سے مال لے کر رقم ادا کرنے سے مکر جاتا ہے تو آپ ﷺ اس تاجر کے ساتھ ابو جہل کے گھر جاتے ہیں اور دستک دیتے ہیں وہ باہر آ تا ہے تو آ پ ﷺ کو دیکھ کر اس قدر خوف زدہ ہو جاتا ہے کہ فوراََ گھر لوٹتا ہے اور رقم لا کر تاجر کو تھما دیتا ہے ۔ یہ عطا کردہ نصرت جہاں آ پ ﷺ کی عزت و عظمت کو چار چاند لگا رہی ہے وہاں یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ آ پ ﷺ کوسوائے خدا کے کسی کا خوف دل میں نہیں تھا ۔ فرض کریں کہ ڈر کی وجہ سے تاخیر ہوئی‘ مان لیں تو کیا عرب معاشرہ نے اس شادی کو جائز قرار دیا تھا یا رسم تنبیت کو خیر باد کہہ چکے تھے یا تاخیر کی وجہ سے ڈر جاتا رہا تھا ؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا لہٰذا یہ الزام کہ شادی رچانے میں ڈر کی وجہ سے تاخیر کی گئی سراسر غلط ہے ۔
ولیم میور کی زینب ؓکی شادی سے متعلق افسانوی داستان
محمد ﷺ کی عمر ساٹھ سال کے قریب تھی لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمر میں اضافہ کے ساتھ جنس کے معاملہ میں بھی اضافہ ہو رہا تھا اور ان کے بڑھتے ہوئے حرم کی کشش ان کو اپنی وسیع حدود سے تجاوز سے باز رکھنے کے لیے کافی نہ تھیں۔ ایک روز وہ اپنے منہ بولے بیٹے زیدؓ سے ملنے ان کے گھر گئے ۔ وہ گھر پر موجود نہ تھے ، انہوں نے دستک دی اور زید ؓ کی بیوی زینب ؓ رسول اللہ ﷺ کا مہذبانہ استقبال کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے لگیں ، لیکن ان کا حسن نیم و ادروازے کے راستے محمد ﷺ کی مشتاق نگاہوں کے سامنے اپنے آپ کو منکشف کر چکا تھا ۔ اس منظر سے مغلوب ہو کر انہوں نے بے ساختہ کہا : سبحان اللہ ! اے اللہ ! لوگوں کے دلوں کو کیسے پھیر دیتا ہے ۔ وہ الفاظ جو محمد ﷺ نے واپس جاتے وقت اپنی زبان سے ادا کیے تھے ، وہ زینب ؓ نے سن لیے تھے ۔ وہ اپنی فتح پر نازاں تھیں اور انہوں نے یہ واقعہ اپنے خاوند کے سامنے بیان کرنے میں ذرا جھجک محسوس نہ کی ۔ زید ؓ یہ سن کر فوراََ آپ ﷺ کے پاس گئے اور ان کی خاطر اپنی زوجہ کو طلاق دینے کے لیے پیش کش کی ۔ انہوں نے کہا : خدا سے ڈر اور اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ ! یہ الفاظ بے دلی سے ان کی زبان پر آئے تھے ۔
طلاق کے بعد وہ قصہ یوں بیان کرتا ہے ’’ اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے شادی ایسی بات تھی جو عرب جیسے ملک میں نئی تھی ۔ آپ نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ اس نکاح سے ان کی بڑی بد نامی ہو گی لیکن محبت کا شعلہ بجھنے والا نہیں تھا ۔ آپ ﷺ نے ضمیر کی ہر خلش کو جھٹک دیا اور ہر قیمت پر زینب ؓ کو حاصل کرنے کا تہیہ کر لیا‘‘ ۔ شادی تو حکم ربی تھا مگرسر ولیم میور کہتا ہے اس نکاح سے محمد ﷺ کی کچھ بدنامی نہ ہوئی اور اپنی شہرت کو محفوظ رکھنے کے لیے انہوں نے وحی کا سہارا لیا اور ایک آیت کی تشہیر کی گئی ، جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ صرف اس شادی کو جائز قرار دیا گیا تھا بلکہ اس بات پر آپ ﷺ کو تنبیہ کی گئی کہ انہوں نے لوگوں کے خوف سے اس شادی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیوں کیا ؟ پھر قرآنی آیات پر تبصرہ کرتا ہے ’’ کیا وحی کے مزاج کو اس سے آگے لے جانا ممکن ہے؟ اس کے باوجود یہ آیت وحی جس میں زینب ؓ سے شادی نہ کرنے پر آپ ﷺ کو تنبیہ کی گئی ہے اور دیگر آیات جن میں آپ ﷺ کے اپنے اہل خانہ کے ساتھ تعلقات کا ذکر ہے ، وہ سب قرآن مجید کا حصہ ہیں اور آج تک دنیا ئے اسلام کی ہر مسجد میں کلام اللہ کے طور پر ان کی تلاوت ہوتی ہے ۔‘‘
جواب: ضیا النبی جلد ۷ ص ۵۳۵ پر ہے کہ مستشرق یہ بتائے کہ اس نے آپ ﷺ کی زینب ؓ سے محبت کا جو افسانہ تراشا ہے ، کیا اس قسم کے افسانے کے مرکزی کردار سے زندگی میں کسی عظیم کارنامے کی توقع کی جاسکتی ہے ؟ جو شخص ساٹھ سال کی عمر میں بھی اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتا ، صنف نازک کی کشش سے وہ رشتوں کے تقدس کو بھی بھول جاتا ہے ، اپنی شہرت اور وقار کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے ایسے کام کرتا ہے جو خود اس کے اصولوں کے بھی خلاف ہوں اور اس کے وقار کے لیے بھی تباہ کن ہوں ، کیا یہ ممکن ہے کہ ایسا شخص جب عنفوان شباب میں تھا تو اس وقت اس کے جذبات اس کے کنٹرول میں ہوں گے اور وہ جذبات سے آزاد ہو کر انسانیت کی خدمت میں مگن ہو گا ؟ اس بات کو نہ عقل تسلیم کرتی ہے اور نہ ہی انسانی تجربہ ۔ ساٹھ سال کی عمر جذبات کی طغیانی کی عمر نہیں ہوتی اور اس عمر کے انسان کی عقل اس کے جذبات پر غالب ہوتی ہے۔ جس شخص کی عمر ساٹھ سال ہو لامحالہ وہ اپنے دور شباب میں اپنی خواہشات کے ہاتھوں کھلونا بنا ہوگا اور ایسے شخص سے کسی عظیم کارنامے کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ ‘‘
ولیم میور کی کہانی سابقہ بیان کردہ روایات سے جوڑی گئی ہے ان کا شافی جواب پیچھے گزر چکا ہے اور اس کہانی کا رد ان میں موجود ہے ۔
دوسرا جز: میور کا یہ کہنا ’’ کیا وحی کے مزاج کو اس سے آگے لے جانا ممکن ہے ؟ اس کے باوجود یہ آیت اور وہ وحی جس میں زینب ؓ سے شادی نہ کرنے پر آپ ﷺ کو تنبیہ کی گئی ہے اور دیگر آیات جن میں آپ ﷺ کے اپنے اہل خانہ کے ساتھ تعلقات کا ذکر ہے ، وہ سب قرآن کا حصہ ہیں اور آج تک دنیائے اسلام کی ہر مسجد میں ان آیات کی تلاوت ہوتی ہے ‘‘۔
اس کا جواب یہ ہے کہ سر ولیم میورکی رائے میں خدا کی طرف سے جو قانون نازل ہو، اس میں انسانوں کی خانگی زندگی کا ذکر نہ ہو ،خانگی امور سے متعلق الہامی کتاب میں ذکر وحی کے ساتھ مذاق کے زمرہ میں آتا ہے ۔ کاش ولیم تھوڑا سا غور کر لیتا تو اس پر یہ حقیقت واضح ہو جاتی کہ بائبل میں خد اکے مقدس نبیوں اور رسولوں کی طرف جو باتیں اور انسانیت کے خلاف حرکتیں بیان کی گئی ہیں ، وہ اس مستشرق کو وحی کے ساتھ مذاق نظر نہیں آتیں ۔ قرآن مجید انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے اور انسانی زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق رہنمائی فراہم کرتا ہے ، تو کیا خانگی معاملات میں رہنمائی وحی کے ساتھ مذاق ہے ؟ علامہ قرطبی کے حوالہ سے مصنف ( ضیا النبی ۔۷۔۵۲۹) لکھتے ہیں کہ یہاں جو افسانہ گھڑا گیا ہے یہ ان لوگوں کی طرف سے ہے جنہیں نبی کریم ﷺ کی عصمت کا علم نہیں یا انہوں نے دانستہ شان نبوت کو گھٹانے کی کوشش کی ہے ۔ علامہ آلوسی کی بھی یہی رائے ہے ۔
’’امام ابو بکر ابن العربی اس الزام کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ قصہ باطل ہے اس کی طرف دیکھنا بھی صحیح نہیں ہے ۔ حضرت زینب ؓ ہر وقت اور ہر جگہ آپ کے ساتھ رہیں ، ان کے درمیان حجاب نہ تھا کہ حضور ان کو دیکھ نہ سکتے تھے نیز یہ کیسے ممکن ہے کہ دونوں نے ایک ساتھ پرورش پائی ہو اور حضور ﷺ انہیں ہمیشہ دیکھتے رہے ہوں مگر ان کی محبت حضور ﷺ کے دل میں پیدا نہ ہوئی ہو اور جب ان کی شادی ہو چکی اور وہ اپنے خاوند کے ساتھ رہ رہی ہو تو اچانک حضور ﷺ کے دل میں ان کی محبت پیدا ہو گئی ہو ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی جان حضور ﷺ کو ہبہ کی تھی اور کسی کو پسند نہ کیا تھا ، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود حضور ﷺ نے پروا نہیں کی تھی ، تو وہ محبت جو اتنا عرصہ حضور ﷺ کے دل میں پیدا نہ ہوئی تھی، وہ اچانک کیسے پیدا ہو گئی َ؟ یقیناََ حضور ﷺ کا قلب اطہر اس قسم کی چیزوں سے قطعاََ پاک ہے ۔ ‘‘
منٹگمری واٹ اس لغو الزام کو یوں رد کرتا ہے ’’ ہر قسم کی کہانیوں کے باوجود یہ بات نا ممکن ہے کہ زینب ؓ کی جسمانی کشش کی وجہ سے محمد ﷺ کے قدم ڈگمگائے ہوں ۔ کہا جاتا ہے کہ محمد ﷺ کی دوسری بیویاں زینب ؓ کے حسن سے خائف تھیں لیکن محمد ﷺ کے ساتھ شادی کے وقت ان کی عمر ۳۵ یا۳۶ سال تھی ۔ ایک عرب عورت کے لیے یہ عمر بڑی شمار ہوتی ہے ‘‘۔ ایک اور موقعہ پر اس شادی کو یوں بیان کرتا ہے۔ ’’یہ بات بالکل ناممکن ہے کہ محمد ﷺ جیسا ۵۶ سالہ شخص ایک ایسی عورت کے متعلق جذبات کی رو میں بہہ گیا ہو جس کی عمر ۳۵ سال یا اس سے زیادہ تھی ‘‘ اس شادی کی حکمت بیان کرتے ہوئے یہی مورخ لکھتا ہے ’’ زینب ؓ بنت جحش سے محمدﷺ کی شادی کے وقت جو تنقید ہوئی تھی اس کی وجہ زمانہ جاہلیت کی ایک رسم تھی‘ جس کواسلام نے ختم کردیا اور اس شادی سے آپ ﷺ کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ لوگوں کے رویہ پر اس پرانی رسم کا جو غلبہ تھا ، اس کو ختم کیا جائے ۔ اس شادی کا یہ مقصد اس کے دیگر ممکنہ مقاصد کے مقابلے میں کتنا اہم تھا ؟‘‘ واٹ کی تردید نے ولیم میور کے الزام کی دھجیاں بکھیر دی ہیں ۔ باسوورتھ کہتا ہے ’’ غلط فہمی کی بنیاد پر کی گئی اتہام طرازی سیدہ زینب ؓ کی داستان میں کار فرما نظر آتی ہے مثال کے طور پر سیدہ زینب ؓ بنت جحش جناب پیغمبر ﷺ کی پھوپھی زاد بہن تھیں اور جب پیغمبر ﷺ کی ان کے ساتھ شادی کوئی امر مانع نہیں تھا خصوصاََ جب دونوں عنفوان شباب سے گزر رہے تھے ۔ (امہات المومنین اور مستشرقین۔ ص۔۱۶۶)
اعتراض نمبر ۱۲۸
ولیم میور اور ٹارانڈرائے اس قصہ کو افسانوی رنگ میں پیش کرتے ہیں لیکن فدنزیو (Fidenzio ) نے اسے مزید پر کشش بنایا ہے اور تاریخی حقائق کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے تخیل کی بنیاد پر افسانہ کو یوں لکھتا ہے ۔ ’’ اس علاقہ میں سید روس نامی ایک شخص رہتا تھا، جس کی بیوی زینب تھی۔ یہ اپنے زمانہ کی خوبصورت عورت تھی ۔ محمد ﷺ نے اس کے حسن و جمال کا شہرہ سنا اور ان کے دل میں اس کی محبت نے میں ڈیرے ڈال لیے ۔ محمد (ﷺ) نے اس عورت کو دیکھنے کا ارادہ کیا اور اس کے خاوند کی عدم موجودگی میں اس کے گھر گئے ۔ انہوں نے عورت سے اس کے خاوند کے متعلق پوچھا: عورت نے کہا ( یا رسول اللہ! ) آپ کیسے ہمارے گھر تشریف لائے ہیں ، میرا خاوند تو اپنے کام پر گیا ہوا ہے ؟ عورت نے اس ملاقات کی خبر اپنے خاوند سے پوشیدہ رکھی ۔ خاوند نے اس سے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ یہاں تشریف لائے تھے ۔ اس نے جواب دیا، ہاں ! وہ یہاں آئے تھے ، خاوند نے پوچھا: کیا اس نے تمہارا چہرہ دیکھا تھا ؟ اس نے کہا:ہاں ! انہوں نے میرا چہرہ دیکھا تھا اور دیر تک اسے دیکھتے رہے ، اس پر اس عورت کے خاوند نے کہا کہ اس کے بعد میرا تمہارے ساتھ رہنا نا ممکن ہے ۔ (ضیا النبی ۔۷۔۵۳۳)
جواب : مستشرقین نے اپنے تعصب کی بنیاد پر اپنے اپنے انداز میں من مرضی کے اعتراض کیے ہیں فدنزیو نے بھی اپنے انداز میں نہایت دل خراش اور لغویت سے بھر پور کہانی بیان کی ہے ۔ اس اعتراض کی تردید اور رد میں ان کے اپنے ہم نوا جان بیگٹ گلب (John bagot glubb ) کا بیان نقل کرتے ہیں ۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’ یہ بات غور کرنے کے قابل ہے کہ جب پیغمبر اسلامﷺ نو جوان تھے ۔ خدیجہ کے بطن سے ان کے چھ بچے تھے ، لیکن ان کے بعد ماریہ قبطیہ سے ایک بیٹے کے علاوہ دوسری عورتوں سے ان کی کوئی اولاد نہ ہوئی ۔ آپ کی اکثر زوجات گویا بالکل نوجوان تو نہ تھیں البتہ وہ بچوں کو جنم دینے کے قابل تھیں ۔ مدینہ میں محمد ﷺ کو فرصت کاوقت بہت کم ملتا تھا اور اکثر اوقات آپ ذہنی اور جسمانی طور پر بہت زیادہ تھکے ہوئے ہوتے ہوں گے ، خصوصاََ جبکہ آپﷺ کی عمر ساٹھ سال کے لگ بھگ تھی ، یہ حالات ایسے نہیں جن میں مرد زیادہ جنسی تعلقات کی طرف رغبت محسوس کرتے ہوں ۔‘‘ (حوالہ بالا۔۵۴۳)
حضور ﷺ کی ایک حدیث پر خوبصورت انداز میں تبصرہ کرتا ہے جس سے بیگٹ مذکور ہ اعتراض کی نفی کر تا ہے ۔ حدیث یہ ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس دنیا میں مجھے عورت اور خوشبو پسند ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے ‘‘۔ بیگٹ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آپ کا عورتوںکی محبت کو عبادت کے ساتھ جمع کرنا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ آپ کا عورتوں کی معیت کا شوق بالکل معصوم تھا ۔ ( حوالہ بالا) عنفوان شباب میں آپ ﷺ نے کسی زوجہ مطہرہ کے حسن و جمال سے متاثر ہو کر شادی نہیں کی تھی ۔ آپ ﷺ نے تو کفار مکہ کی پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا جب انہوں نے کہا کہ اگر آپ حسین و جمیل دوشیزہ سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو اس کا ہم انتظام کر دیتے ہیں ۔ زید ؓ آپ کا متبنیٰ تھا اور آپ کا غلام تھا اور زینب ؓ آپ کی پھوپھی زاد بہن تھیں جس کا نکاح آپ نے اپنے غلام زید ؓ سے کیا لیکن سید روس ایک غیر معروف نام ہے جس کا آپ سے رشتہ نامعلوم ہے اور زینب سے بھی کوئی آگاہی نہیں کہ اس کا آپ ﷺ کے ساتھ کیا رشتہ تھا صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ وہ زینب سید روس کی بیوی تھی اس طرح سے اس کہانی کے من گھڑت ہونے کی غلطی معلوم ہوتی ہے بلکہ اس کہانی کاہر لفظ اس کے وضعی ہونے کی شہادت دے رہا ہے۔
اعتراض نمبر۱۲۹
B.Z.Uمیں ایم فل اور پی ایچ ڈی طلبہ و طالبات کے ایک عالم دین سے پوچھے گئے سولات بسلسلہ تفردات ’’ سید الوریٰ ‘‘ میں ایک طالب علم کا سوال یہ تھا کہ آیت ’’ وماکان لمومن ولا مومنتہ اذا قضی اللہ ورسولہ ‘‘ میں عورت کی آزادی رائے کو سلب کیا جا رہا ہے ۔
جواب: روز اول ہی سے مخلوقات خدا میں برتری و بڑائی اور خاندانی افتخار اور امتیاز کے عناصر پائے جاتے ہیں ۔ معاشرہ رنگ و نسل ‘ لسانی اور علاقائی لحاظ سے بٹ چکا ہے ان عارضی امتیازات و مفادات نے علم و عمل کو اپنی بساط میں لپیٹ کر علم و عمل کی سیدھی راہ ٹیڑھی کر دی ہے ۔ہر فرد پربلند و بالا مقام کے حصول کی دھن سوار ہے ۔ قصہ آدم و ابلیس نے دو رویوں مثبت اور منفی برتری اور کمتری کو جنم دیا ۔ فوقیت کی انگیخت پر ابلیس نے کہا ’’ انا خیر منہ ‘‘ اور اس دعوی کی دلیل یہ پکڑی کہ ’’ خلقتنی من نار و خلقنہ من طین ‘‘اللہ تعالیٰ کو یہ بڑا بول پسند نہ آیا اور ’’ فاخرج منھا فانک رجیم ‘‘ فرماکر راندہ درگاہ بنا دیا ۔ اسلام میں برتری اور بڑائی اور اس پر اترانے اور فخر کرنے کی قطعَاَ کوئی گنجائش نہیں ہے جس نے بھی اس پر عمل کیا وہ سزا کا مستحق ٹھہرایا گیا ۔دوسری طرف نسل رنگ ‘ لسانی اور علا قائی تفاخر پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ ان امتیازات کو ختم کر کے انسان کی عزت و وقار کا وہ نفع بخش سنہری ضابطہ ’’ ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم ‘‘عطا فرمایا جس کی رو سے ایرانی نژاد فارسی مسلمان صحابی سلمان کو مخاطب کر کے یہ اعزاز ’’ سلمان من اہل البیت‘‘بخشا ۔ ایک موقعہ پر ان امتیازات کے خاتمہ کے لیے فرمایا ’’ الناس کلھم بنی آدم و آدم من تراب ‘‘ ( تمام انسان بنی آدم ہیں اور آدم مٹی سے ہیں )
اسلام میں سب انسانوںکو برابری کا مذہبی ‘ اخلاقی اور قانونی حق حاصل ہے ۔ رنگ و نسل کی تفریق اس برابری کے حق کو چھین نہیں سکتی ۔غسان کا ولی عہد جبلہ بن ایہم نے عیسائیت کو خیر باد کہہ کر اسلام قبول کر لیا وہ ایک دن شہانہ لباس میں ملبوس محو طواف تھا ‘ ساتھ ہی ایک بدو بھی خانہ کعبہ کے طواف میں مگن تھا کہ اچانک بلا ارداہ بدو کا پیر جبلہ کے لباس سے جا ٹکرایا‘ نسلی تفاخر سے بھرا شہزادہ نے آئودیکھا نہ تائو بدو کے تھپڑ رسید کیا ۔ ہر بندہ حالات سے با خبر تھا اور ہر کوئی جانتا تھا کہ یہاں انصاف ملتا ہے اور ہر فیصلہ بر مبنی انصاف ہوتا ہے ۔بدو حضرت عمر ؓ کی خدمت میں شکایت کرتا ہے ‘ خلیفہ نے انصاف کو سارے تقاضے پورے کرتے ہوئے ولی عہد شہزادہ کے خلاف اپنا فیصلہ دیا : فرمایا ! دیکھو جبلہ ! اسلام میں سب انسان برابر ہیں اور اس حق کو رنگ و نسل ‘ علاقہ اور لسان کمزور نہیں بنا سکتے ‘ اس غریب بدو کو راضی کر دو ‘ ورنہ سزا کے لیے تیار ہو جائو ’’ اَلاِْ نْسَاَنُ بِا َصْغَرَ بِہ القَلْبُ وَاللِّسَانُ ‘‘اس بنیادی تمہید کے بعد اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں ۔
ایک طالب علم کا سوال یہ تھا کہ قاضی صاحب نے پھوپھی زاد بہن کے حوالے سے جب یہ گفتگو کی تو اس سے پہلے وہ یہ کہہ چکے تھے کہ عورت کو مکمل آزادی دی گئی ہے حتیٰ کہ اللہ کے نبی ‘ آخری پیغمبر ﷺ بھی کسی عورت سے نکاح کی خواہش کریں تو وہ عورت انکار کر سکتی ہے ۔ چونکہ اسے بھی آزادی رائے کا حق حاصل ہے لیکن جب یہ واقعہ ہوا اور آپ ﷺ نے چاہا کہ بی بی زینب ؓ کا نکاح زید ؓ سے ہو جائے اور اس پر آپ ﷺ نے بی بی زینب ؓ کو زیدؓ سے نکاح کا پیغام بھیجا تب یہ آیت نازل ہوئی ’’ وما کان لمومن ولا مومنتہ اذا قضی اللہ و رسولہ ‘‘کیا یہ ڈرایا دھمکایا نہیں جا رہا ہے ؟ اس آیت کے بعد ان کا مان جانا اس بات کو اور اس آیت کا خاص اس موقعہ پر نزول جیسا کہ قاضی صاحب بتا رہے ہیں تو یہ کس بات کی طرف اشارہ ہے ؟ پروفیسر حافظ سلیم نے کہا کہ تمہارا مطلب یہ ہے کہ یہ بات آزادی نسواں کے خلاف ہے ‘ کھل کر کہیں طالب علم نے کہا جی ! ان کی گفتگو سے بظاہر یہی لگ رہا ہے ‘ کیونکہ وہ فرما رہے ہیں کہ عورت کوآزادی رائے کا حق حاصل ہے جیسے ایک خاتون حضرت ریحانہ ؓ نے انکار بھی کر دیا اس پر قاضی صاحب نے کہا کہ میں عرض کروں کہ ایک ہے فیصلہ ہو جانا کسی چیز کا ‘ اذا قضی اللہ و رسولہ اور ایک ہے کسی چیز کو بطور مشورہ کے پیش کرنا ۔پہلے تو حضرت زینب ؓ کے سامنے حضور ﷺ نے مشورہ کے طور پر نکاح کا پیغام بھیجا ‘ اس وقت ان کی طبیعت نہ مانی پھر جب قضی اللہ و رسولہ ‘ ہو گیا ‘ یعنی اللہ اور رسول نے فیصلہ فرما دیا ‘ اس کے بعد کسی کو حق نہیں ہے ۔ بی بی ریحانہ ؓ والایہ معاملہ نہیں ہوا تھا ان سے شادی کرنے کا مشورہ تو کیاتھا لیکن قضی اللہ و رسولہ کا مسئلہ نہیں ہو اتھا ۔ میرا مطلب یہ ہے کہ بی بی ریحانہ ؓ نے اس وقت انکار کر دیا تھا لیکن پھر اگر وحی آتی کہ کسی مومن کو حق نہیں ہے وہ نبی ﷺ کے بارے میں اس طرح کی بات کرے تو پھر ان کے لیے انکار کی گنجائش نہ تھی : اس سوال پر پروفیسر عبدالباسط ڈاکٹر عبدالقدوس اور ڈاکٹر سعیدالرحمن نے بھی طالب علموں کے علاوہ حصہ لیا بالآخر نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے طالب علم نے کہا کہ میرا سوال وہیں کا وہیں ہے ۔ پروفیسر سعید الرحمن اس طالب علم سے مخاطب ہوئے اور کہا اس پر تم سے ایک assignmentلکھوائوں گا پھر باقی حضرات کی طرف متوجہ ہو گئے ۔
جواباََ عرض ہے کہ بی بی زینب ؓ کو حضرت زید ؓ سے نکاح کا پیغام بھیجا جاتا ہے یہ ایک مشورہ اور تجویز تھی ۔ یہ بات بالکل درست ہے پھر یہ کہنا کہ ططبیعت نہ مانی ‘ اس کے بعد قضی اللہ و رسولہ ‘ ہو گیا یعنی اللہ اور اس کے رسول نے فیصلہ دے دیا کہ اس کے بعد کسی کوکوئی حق نہیں ۔۔۔ یہاں پر قاضی صاحب کو سہو ہوا ہے وہ یوں کہ مشورہ ہو یا تجویز اس میں مکمل طور پر عورت کو رائے کی آزادی ہے لیکن بات یہاں گڈ مڈ ہو گئی ہے جب بی بی زینب ؓ نے کہا ’’ میں زید ؓ کو پسند نہیں کرتی ہوں کہ میں ایک قریشی خاتون ہوں اورنسب کے لحاظ سے اس سے بہتر ہوں ‘‘ تجویز کو صرف اور صرف نسبی برتری پر تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے‘ جو غلط ہے کیونکہ اسلام کسی بڑائی اور برتری کو پسند نہیں کرتا بلکہ برتری کا معیار ان الفاظ میں برملا کرتا ہے ’’ اِنَّ اَکرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقَاکُمْ ‘‘ اللہ تعالیٰ نے بی بی زینب ؓ کی آزادی رائے کو اس وقت سلب کیا جب اس میں حسب و نسب کی خام خیالی برتری کی باطلانہ آمیزش ہوئی ۔ اگر یہ باطلانہ آمیزش نہ ہوتی اور سیدھا سادھا جواب دیا جاتا کہ میں انہیں نا پسند کرتی ہوں یا اس کے علاوہ بی بی ام ہانی کی طرح معقول عذر پیش کرتی تو پھر اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ اور ہوتا یعنی بی بی زینب ؓ کی آزادی رائے کا پورا پورا احترام اور خیال رکھا جاتا ۔اس مثال کو پڑھئے جس سے یہ معاملہ صاف اور واضح ہو جاتا ہے اور ہمارے موقف کی تائید ہوتی ہے نیز مسئلہ کی نزاکت کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے ۔ حضرت ام ہانی ( دختر ابو طالب ) کا شوہر ہبیرہ بن ابی وہب اپنی اولاد کو چھوڑ کر دم دبا کر بھاگ گیا ۔ ازاں بعد حضرت علیؓ نے حضور ﷺسے عرض کی کہ ام ہانی اسلام قبول کر چکی ہیں لہٰذا اگر قرابت کے ساتھ رشتہ ء مناکحت بھی ہو جائے تو کیا ہی اچھا ہو ! آپ ﷺ نے علیؓ کی تجویز منظور فرمائی اور نکاح کا پیغام بھیجا ۔ ام ہانی نے جواب میں کہا : میں جب زمانہ جاہلیت میں آ پ ﷺ کی ذات سے انس و محبت کرتی تھی تو زمانہ اسلام میں تو اس کا کیا ہی کہنا مگر میں بال بچوں والی ہوں اور اسے برا جانتی ہوں کہ آپ ﷺ کی زحمت کا باعث بنو ں۔ (امیر المومنین علی : ۴۴۔۴۵)
آپ ﷺ نے ان کے عذر کو شرف قبولیت بخشا اور آپ ﷺ نے زبردستی اپنا فیصلہ نہیں ٹھونسا اور نہ ہی دھونس دھمکی سے منوایا بلکہ ان کی مجبوری اور جائز عذر کو قبول فرمایا ۔ یہ ہے آزادی رائے کا احترام ‘ لیکن بی بی زینب ؓ والے معاملہ میں عذر درست نہ تھا اسلامی تعلیمات کے خلاف اور ابلیسی نظریات کے مطابق تھا اگر یہ عذر تسلیم کر لیا جاتا تو جہالت اور اسلا م میں کیا فرق رہ جاتا ؟ زمانہ جہالت میں اشراف کی بیٹیاں آزاد شدہ غلاموں سے نکاح کرنا عار اور توہین سمجھتی تھیں جبکہ اسلام اس کے خلاف درس دیتا ہے کہ چاہے کوئی بھی اسلام کے خلاف برتری و بڑائی کا اظہارہو اسے ناجائز سمجھ کر اس برتری کے بت کو ہمیشہ کے لیے پاش پاش کر دیا جائے ۔خطبہ حجۃ الوداع کے موقعہ پر آپ ﷺ نے فرمایا ’’ اے لوگو ! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم ؑ مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں ۔ اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ متقی ہو اور پر ہیز گار ‘ یاد رکھو کہ کسی عربی کو عجمی پر کوئی برتری نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت ہے نہ کسی گورے کو کالے پر اور نہ کسی کالے کو گورے پر کوئی برتری ہے مگر تقویٰ کی وجہ سے ۔‘‘ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہاں ! عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور اللہ کے کلمہ کے ساتھ حلال کیا ہے ‘ یہ بھی جان لو کہ تمہارا بھی تمہاری بیویوں پر حق ہے اور ان کا بھی تمہارے اوپر حق ہے ۔۔۔۔ یہ وہ بنیاد ہے جس پر بی بی زینب ؓ کے نکاح کے لیے اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ صادر ہوا ۔یہ بھی یاد رہے کہ یہ فیصلہ نہ دھمکی تھا اور نہ زبردستی اس حکم کو منوایا گیا بلکہ یہ بی بی زینبؓ کے خام عذر کی بنیاد پر فیصلہ آیا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی فیصلہ کردیں تو کسی مومن یا مومنہ کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی طرف سے کوئی اضافہ کرے ۔آزادی رائے کے باب میں اسلامی تاریخ کا یہ ایک تاباں اور درخشاں باب ہے اور نبی پاک ﷺ صحابہ کرام کی آراء کے بڑے قدر دان تھے اور کئی مواقع پر ان کی آزادی رائے کو پسند کیا اور قبول فرمایا ۔
اعتراض نمبر ۱۳۰
ایک دانشور کا سوال ہے کہ جب بی بی زینب ؓ کنواری تھیں تو اس وقت آپ ﷺ ان سے نکاح نہیں کرتے ہیں اور جب وہ شادی شدہ ہو جاتی ہیں تو ایک سال کے اندر ہی آپ ﷺ کا دل کرتا ہے کہ میں ان سے نکاح کروں یہ بات خلاف عقل لگتی ہے گھٹیابندہ بھی ایسی حرکت نہیں کرسکتا تو ایسا کام آپﷺ کیوں کرتے ہیں ؟ صرف رسم کو توڑنے کے لیے ؟
جواب : جب نبی ﷺ نے زینب ؓ کی شادی زید ؓ سے کر دی تو وہ زید ؓ کے پاس کچھ عرصہ تک رہیں پھر ایک دن نبی ﷺ زید ؓ کی تلاش میں ان کے گھر گئے تو آپ ﷺ نے زینب ؓ کو کھڑے دیکھا اور زینب ؓ گوری چٹی ‘ خوبصورت اور گدرائے بد ن والی ایک بھر پور قریشی عورت تھیں ۔ انہیں دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کو ان سے محبت ہوگئی اور آپ ﷺ نے فرمایا ’’ سبحان اللہ مقلب القلوب ‘‘ ( اللہ دلوں کو پھیرنے والا ہے ) یہ تسبیح بی بی زینب ؓ نے بھی سن لی جب زید ؓ آئے تو ان کو یہ بات بتائی زید سمجھ گئے ۔ اور رسول اللہ سے کہا یا رسول اللہ ! مجھے زینب ؓ کو طلاق دینے کی اجازت فرما دیں کیونکہ اس میں کبر ہے ‘ وہ مجھ سے برتری جتاتی ہے اور اپنی زبان سے مجھے دکھ پہنچاتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا : امسک علیک زوجک و اتق اللہ ‘‘ ( اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈر ) مذکورہ روایت میں نہایت دل خراش باتیں ہیں ۔ مثال کے طور پر کبر ‘ گوری چٹی ‘ خوبصورت ‘ گدرائے بدن والی اورایک بھر پور قریشی عورت وغیرہ وغیرہ ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی محبت نے آپ ﷺ کے دل میں اس وقت کیونکر گھر نہ کیا جب وہ کنواری تھیں ‘ غیر شادی شدہ تھیں اور ان سے شادی کرنے میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں تھی ۔ اس وقت ان کی خوبصورتی اور گدرائے بدن کا اثر آپ ﷺ پر کیوں نہ ہوا ۔اب ایسا کیا ہوا کہ شادی کے بعد اس قدر پسند آئیں کہ آپ ﷺ زید ؓ اور زینب ؓ کے درمیان علیحدگی کے خواہش مند ہوئے اللہ کی پناہ ! آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ مباح کاموں میں طلاق سب سے ناپسندیدہ عمل ہے ۔ کیا یہ فرمان آپ ﷺ کے لیے نہیں تھا صرف دوسروں کے لیے تھا ؟ ہر گز ہرگز نہیں کیونکہ آپ ﷺ نے زید ؓ کو طلاق دینے سے منع فرمایا تھا ۔ اس روایت میں ہے کہ ’’ آپ ﷺ کا دل کرتا ہے کہ وہ زینب ؓ سے نکاح کر لیں ‘‘ اب اچانک انہیں زینب ؓ سے شادی کرنے کا خیال کیونکر ہوا جب کہ شادی سے پہلے ان سے رشتہ مناکحت نہ جوڑا ۔ آپ ﷺ نے عمر بھر لوگوں کو جوڑا ہے ‘ توڑا نہیں تو اب زید ؓ کے گھر کو کیوں آباد رہنا پسند نہیں کرتے یہ نا ممکن ہے کہ بی بی زینب ؓ کی خوبصورتی اتنی پسند آئی اور ان سے نکاح کے لیے دل آ گیا حالانکہ آپ ﷺ کی زندگی میں حسین و جمیل خواتین کی کمی نہ تھی ۔ آپ ﷺ کو یہ طلب ہوتی تو عرب معاشرہ جس میں نکاح کرنے کی رکاوٹ نہ تھی ‘کر سکتے تھے مگر ایسا نہیں کیا آپ ﷺ کا دل کرتا ہے کہ الفاظ شان نبوت میں گستاخی ہے اور آپ ﷺ پر یہ الزام لگانا توہین اور بے ادبی ہے ۔ دوسری طرف بی بی زینب ؓ نے اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ پر سرخم تسلیم کیا اور دل و جان سے زید ؓ کے ساتھ نکاح کرنے پر رضا مندی ظاہر کردی ۔
شادی کے بعد پھر سے بڑائی اور برتری جتلانا شروع کر دی ہو ممکن نہیں ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ پر شادی کرنے پر رضا مندی ظاہر کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کی پاسداری رکھے گی اور اپنے شوہرِ نامدار کا ادب و احترام کرے گی اور گھر کے کاموں کو سلیقہ شعاربیوی کی طرح نمٹائے گی انہوں نے ایسا ہی کیا اور ان کی طرف سے کسی قسم کی برتری جتانے کی ایذا رسانی نہیں ہوتی ۔ البتہ سو ہاتھ لمبا رسہ سرے پے گانٹھ یعنی زید ؓ احساس کمتری کا شکار تھا اس مصیبت میں دو چار ہو کر حضرت زید ؓ نباہ نہیں کر سکتے تھے اور طلاق دے دی ۔
ایسا کوئی غیر جانب دار مصنف خواہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو ‘ ایسی دکھ دینے والی اور دلخراش بات نہیں کر سکتا جیسی اپنوں نے ‘ زخموں پر مرہم کا پھاہا رکھنے کی بجائے نمک پاشی کی ۔ وہ ذات جس نے پچیس سال تک جوانی کا زمانہ بغیر شادی کے بِتا دیا اور برائیوں کے شکنجہ میں جکڑا عرب معاشرہ میں کوئی برائی بھی آپ ﷺ کے پاک دامن اور عصمت کو مکدر اور آلودہ نہ کر سکی ۔دین اسلام کی دعوت سے کفار اور مشرکین لرزاں و ترساں تھے کیونکہ انہیں معلوم ہو رہا تھا کہ ان کے خدائوں اور معبودان باطل ‘ دیوی دیوتائوں کا اقتدار چراغ سحری ہے اس کو روکنے کے لیے آپ ﷺ کو ڈرایا دھمکایا گیا ‘ بادشاہ بنانے کا لالچ دیا گیا اور عرب کی دوشیزہ حسینائوں کی پیشکش کی لیکن آپ ﷺ پر دھونس و دھمکی کا کچھ اثر نہ ہوا لالچ کے برے جال میں نہ پھنسے اور دل فریب و دلکش پیشکش کو ٹھکرا دیا اور دعوت توحید کو لوگوں تک پہنچانے پر سودابازی نہیں کی ۔ جب آپ ﷺ کی عمر مبارک ۵۷ سال تھی ‘ اس وقت عہد جوانی قصہ پارینہ ہو چکا تھا اور کہولت کا دور سایہ فگن تھا نہ جانے کس چیز نے آپ ﷺ کو انگیخت دی کہ جذبات کے سمندر میں تلاطم خیز طوفان برپا ہوتا ہے اور بی بی زینب ؓ جس سے جوانی میں شادی نہ کی اس کی گوری رنگت اور خوبصورت ‘ گدرائے بدن کو دیکھ کر اب دل کر تا ہے ۔ ایسا کچھ بھی نہیں بلکہ یہ شادی بی بی زینب ؓ کے تالیف قلب کے لیے تھی ۔
جب زید ؓ نے اپنی بیوی زینب ؓ کو طلاق دے دی تو جہاں بی بی زینب ؓ کو دھچکا لگا ہو گا وہاں آ پ ﷺ کو بھی بہت دکھ اور صدمہ وہوا ہو گا کیونکہ وہ رشتہ جو آپ ﷺ نے خود کروایا تھا ٹوٹ جاتا ہے ۔ ہر طرف سے آوازے کسے جاتے ہیں اور طرح طرح کی باتیں کر کے طوفان بد تمیزی امڈ آتا ہے ۔ طعن و تشنیع کے تیروں کی بوچھاڑ ہوئی ہو گی ۔ کسی نے کہا ہو گا کہ غلام سے شادی کرنے کا نتیجہ دیکھ لیا ‘ کسی نے کہا کہ بچاری زینب ؓ کی ایک نہ سنی گئی اگرچہ اس نے صاف انکار کیا تھا ۔ کوئی یہ کہتا ہو گا کہ بھلا غلام کب اپنے بنتے ہیں ۔ کوئی کہتا ہو گا اپنے خاندان کے وقار کو بھی بٹہ لگایا لیکن شادی قائم نہ رہی ‘ اب معاشرہ میں اس کی عزت کیا رہ گئی اور معاشرہ اسے قبول کرتا ہے یا نہیں یعنی اس سے کوئی شادی کرنے کو تیار ہوتا ہے کہ نہیں کیونکہ فی الحال اس کی دنیا اجڑ چکی تھی ‘ مقدر گہنا گیا تھا اور بظاہر یہی لگتا تھا مگر کسے خبر تھی کہ اس کا مقدر پہلے سے بھی روشن اور تابناک ہے ۔ اس گلشن معاشرت میں پھر سے بہار بے خزاں آنے کو ہے۔ اس کے بخت کا ستار ا طلوع ہونے کو ہے اور اس کی عزت و عظمت کی بلندی پر اوج ثریا بھی رشک کناں ہے آخر کار بختوں کا سورج چمکا ‘ سارے دکھ اور غم کافور ہوگئے اور سارے سکھ بی بی زینب ؓ کی جھولی میں سمٹ آئے وہ یوں کہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور بی بی زینب ؓ کا نکاح خود اللہ تعالیٰ نے نبی مکرم ﷺ سے کر دیا اور بی بی زینب ؓ ام المومنین کے اعزاز سے نوازی گئیں ۔ آ پ نے یہ شادی بی بی زینب ؓ سے محض تالیف قلبی کی وجہ سے کی تھی کسی رسم بد کے خاتمے پر اس کا انحصار نہ تھا البتہ اگر کوئی رسم قبیح اس شادی کے سبب ملیا میٹ ہو گئی تو فبھا ۔نہ اس سبب سے آپ ﷺ نے بی بی زینب ؓ سے نکاح کیا کہ ان کی رنگت سفید اور جوانی سے بھرا بدن اور بھر پور قریشی تھیں ۔صرف اور صرف طلاق کے بعد ان کو سہارا دینے کے لیے یہ اقدام اٹھایا گیا تھا ۔
اعتراض نمبر ۱۳۱
آپﷺ نے رسم تنبیت توڑنے کے لیے بی بی زینبؓ سے نکاح کیا ۔
جواب : ام ایمن کی شادی پہلے عبید بن یزید سے ہوئی ۔ ان کے ہاں ایمن نامی بیٹا پیدا ہوا جس کی نسبت سے وہ ام ایمن کہلائیں ۔ ازاں بعد ان کی شادی زید بن حارثہ ؓ جو آپ ﷺ کے غلام تھے ان کے ساتھ ہوئی ۔ یہ شادی عمر کے بہت زیادہ فرق کے باوجود کامیاب رہی ۔ عمر بھر خوب گزر بسر ہوتی رہی حتی کہ زید ؓ کے اس دنیا سے دوسری دنیا کو سفر کرتے وقت تک قائم رہی ۔ زید ؓ کی دوسری شادی آپ ﷺ کی پھوپھی زاد اور حضرت عبدالمطلب کی نواسی زینبؓ سے ہوتی ہے ۔ انہیں طلاق دینے کے بعد زید ؓ ام کلثوم بنت عقبہ سے شادی کر لیتے ہیں ‘ انہیں بھی طلاق دے دی پھر درہ بنت ابی لہب سے شادی کا رشتہ جوڑتے ہیں ان سے بھی نباہ نہ ہوسکا اور نوبت طلاق تک جا پہنچی با لآ خر انہیں بھی طلاق دے دی اور زبیر ؓ کی بہن ہند بنت العوام سے شادی کرلی ۔ یہ تمام خواتین جن سے زید ؓ نے رشتہ مناکحت جوڑا وہ خاندانی عزت و وقار اور بلند درجہ کی تھیں ۔ فرض کریں کہ بی بی زینب ؓ کے مزاج میں سختی و درشتی تھی وہ جھگڑتی رہتی تھیں تو باقی خواتین جنہیں زید ؓ نے طلاق دی تھی وہ بھی سخت و درشت مزاج اور جھگڑالو تھیں یا وہ اپنی خاندانی برتری جتاتی اور زید ؓ کو ایذاء پہنچاتی تھیں ۔۔۔؟ دوسری طرف ام ایمن سے شادی کامیاب رہی اس قدر کامیاب کہ زید ؓ کے مرتے دم تک قائم رہی ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زید ؓ کسی بیماری کا شکار تھے کہ یکے بعد دیگر ے شادیاں کرتے رہے اور طلاق دیتے رہے ۔ وہ بیماری احساس کمتری کی لگتی ہے ۔ ام ایمن کے بجز باقی تمام خواتین اعلی نسب اور عمدہ درجہ کی تھیں ۔ اس درجہ کے تفاوت سے ان کی شادیاں نا کام ہوئیں بی بی زینب ؓ کی غلام سے شادی کی بناء پر بندہ و آقا کا فرق مٹ تو گیا لیکن شادی نا کام ہوئی لیکن ان نکاحوں سے کسی رسم کو مٹانے کی غرض نہیں تھی کیونکہ زید ؓ نے تمام بیویوں کو محض احساس کمتری کے اسیر ہونے کے سبب سے طلاق دی تھی ۔
آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر فرمایا ’’ جاہلیت کے تمام امور میرے قدموں کے نیچے پامال ہیں اور جاہلیت کے تمام خون معاف اور ختم ہیں اور سب سے پہلے میں ربیہ بن حارث بن عبدالمطلب کے بیٹے کا خون جو ہذیل کے ذمہ ہے معاف کرتا ہوں ‘‘ ( یہ بچہ بنو سعد نے دودھ پی رہا تھا کہ بنو ہذیل نے اسے قتل کردیا ) یہ بھی فرمایا ’’ جاہلیت کے تمام سود ختم کر دئیے گئے ہیں تمہارے لیے اب صرف راس المال ہے ‘ نہ تم ایک دوسرے پر ظلم کرو ‘ نہ قیامت کے دن تمہارے ساتھ ظلم کیا جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے سود کو ممنوع قرار دیا ہے سب سے پہلے میں اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کا سارا سود ساقط اور باطل کرتا ہوں ‘‘۔قارئین کرام دیکھا ! کہ ایسی قبیح رسموں کے خاتمہ کے لیے پہل اپنے گھر سے کی کہ کوئی یہ نہ کہہ دے ‘ اوروں کو نصیحت اپنے تیئں فضیحت ۔
اعتراض نمبر۱۳۲
اسلام عورت کو آزادی رائے کا حق نہیں دیتا ‘ اس کی دلیل میں سورہ الا حزاب کی آیت نمبر ۳۶ کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔
جواب : آپ ﷺ نے اپنی پھوپھی زادبہن کو اپنے غلام زیدؓسے نکاح کرنے کا پیغام بھیجا انہوں نے کہا ’’ یا رسول اللہ ! میں زید ؓ کو پسند نہیں کرتی کیونکہ میں ایک قریشی خاتون ہوں اور وہ آزاد کردہ غلام ہیں ‘ اور نسب کے لحاظ سے اس سے بہتر ہوں ‘‘ ۔ اس پر قرآن کریم کی سورہ الاحزاب کی آیت ۳۶ کا نزول ہوتا ہے ( کسی مومن مرد اور عورت کو حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول ﷺ کسی معاملہ میں فیصلہ کر دیں تو پھر اسے اس معاملہ میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل نہیںہے اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانی کی وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا ۔‘‘اس آیت کے نزول کے بعد بی بی زینب ؓ نے زیدؓ سے نکاح کرنے کی حامی بھر لی تاکہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نا فرمانی سے بچ جائیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نکاح کا پیغام آیت قرآنی کے نزول سے پہلے بھیجا تھا یا بعد میں ؟ نکاح کا پیغام وحی کے اترنے سے پہلے بھیجا گیا تھا کیونکہ اگر وحی کا نزول پہلے ہوتا تو نکاح کا پیغام بھیجنے کے ساتھ اس پیغام الہٰی سے بھی مطلع کر دیا جاتا تو بی بی زینب ؓ کبھی انکار نہ کرتیں جیسا کہ انہوں نے آیت مذکورہ سنی تو زید ؓ سے شادی کرنے کی برضا و رغبت ہاں کر دی ۔ یہ انکار کی نوبت اس وقت پیش آئی جب وحی کا نزول نہیں ہوا تھا اور یہ انکار ان کی آزادی رائے کے حق کے عین مطابق تھا لیکن اس انکار میں جو عذر پیش کیا گیا کہ ’’ میں زید ؓ کو پسندنہیں کرتی کیونکہ میں ایک قریشی خاتون ہوں اور وہ آزاد کردہ غلام ‘ اور نسب کے لحاظ سے اس سے بہتر ہوں ۔‘‘یہ وہ باطلانہ نظریہ ہے جو اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے ۔ خاندانی برتری اور بڑائی کے سبب انکار کا عذر باطل ٹھہرا اس ابلیسی نظریہ تفاخر ’’ خلقتنی من نار و خلقنہ من طین ‘‘ کی آمیزش نے بی بی زینب ؓ کے حق آزادی کو سلب کر دیا اس لیے کہ یہ بڑا بول بارگاہ رب العزت میں پسند نہ آیا تبھی اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اپنا فیصلہ سنا دیا ۔ اس آیت کے نزول کا بعد از انکار کا قرینہ اور دلیل یہ ہے کہ یہ تنبیہ بعد از انکار ہو سکتی ہے کیونکہ جب تک انکار نہ کیا جائے تو اس انکار کی تنبیہہ نہیں ہو سکتی اس پر مذکورہ آیت میں فرمایا گیا کہ جب اللہ اور اس کا رسول ﷺ کسی معاملہ میں فیصلہ کر دیں تو پھر اسے معاملہ میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار رہے ۔ یہ وہ سبب تھا جس کی بنیاد پر زید ؓ کی شادی زینب ؓ سے ہوئی یہ آزادی کا حق ان سے چھینا نہیں گیا بلکہ یہ اس وقت سلب کیا گیا جب آزادی رائے کے حق کو غلط استعمال کیا گیا۔کیونکہ اسلام نے ہمیشہ آزادی رائے کا حق دیا ہے ۔ عہد فاروقی میں بعض عورتوں کے مہر کی رقم زیادہ دی جانے لگی جس سے معاشی حیثیت سے کمزور لوگ پریشان حال تھے ‘ اس پر خلیفہ ثانی نے مہر کی رقم کم سے کم مقرر کرنے کے ارادے سے لوگوں کو آگاہ کیا تو مجمع میں سے ایک خاتون نے قرآن مجید کی یہ آیت ’’ الخد ھن قطا را فلا تاخذ منہ اشیاء ‘‘ ( توخود تم نے اسے ڈھیر سارا مال ہی کیوں نہ دیا ہو ‘ اس میں سے کچھ واپس نہ لینا ) حضرت عمر ؓ نے برملا تسلیم کیا کہ خاتون نے سچ کہا اور عمر ؓ غلطی پر ہے ‘ اگر یہ عورت نہ ہوتی تو آج عمر ؓ ہلاک ہوجاتا ‘ اس کے ساتھ انہوں نے یہ وضاحت بھی کر دی کہ مہر اگر آخرت میں فلاح اور عظمت کی چیز ہوتی تو یقینا رسول اللہ ﷺ کی صا حبزادیاں زیادہ مستحق تھیں ۔معترضین کی غلطی اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ وہ سمجھے کہ سورہ احزاب کی آیت نمبر ۳۵ کے نزول سے پہلے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے فیصلہ دے دیا اور زینب ؓ کو مجبورا شادی کرنا پڑی ۔ اور بی بی زینب ؓ کو آزادی رائے کے حق سے محروم کر دیا گیا جبکہ آیت مبارکہ میں نزول بی بی زینب ؓ کے انکار کے بعد ہوتا ہے جس کی ایک دلیل یہ ہے کہ اسلام آزادی رائے کا حق دیتا ہے تو پھر یہ ممکن نہیں کہ اس حق سے کسی کو محروم کر دیا جائے کیونکہ اسلام کی تعلیمات میں تضاد نہیں ہے لہٰذا بی بی زینب ؓ سے آزادی رائے کو چھین لینے کی کوئی معتبر اور معقول وجہ تھی اور وہ وجہ یہ تھی کہ ان کے انکار میں ابلیسی نظریہ کبر و تفاخر کی آمیزش تھی ‘جس کے سبب انہیں اپنے آزادی رائے کے حق سے ہاتھ دھونا پڑے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم کیا ثابت ہوا کہ آزادی رائے کے بنیادی حق کو ختم نہیں کیا گیا تھا اور فیصلہ پرمبنی انصاف تھا ۔ اسی طرح اگر بی بی زینب ؓ کا عذر معقول ہوتا ‘ ابلیسی باطلانہ نظریے کی آمیزش نہ ہوتی تو یقینا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا فیصلہ کچھ اور ہوتا اور ضرور بالضرور بی بی زینب ؓ کی آزادی رائے کا پورا پورا احترام کیا جاتا یو ں کہہ دیں تو بجا ہو گا کہ یہ سب کچھ ان کے کیے کرائے کا نتیجہ تھا ۔ اسلام آزادی رائے کے حق کو عطا کرتا ہے تو بھلا کس طرح کسی سے آزادی رائے کے حق کو چھینا جا سکتا ہے ۔ اسلام کی پوری تعلیمات میں تضاد کی گنجائش نہیں ہے ۔اس لیے مخالفین کا یہ اعتراض باطل ہے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ عورت دو انتہائوں کے چنگل میں پھنسی رہی ہے ۔ ایک یہ کہ زمانہ جاہلیت اور پھر دور ملوکیت کی قبائلی روایات نے اس صنف نازک کو بنیادی حقوق سے محروم کر دیا ۔ دوسری انتہا کہ جدید جا ہلیت کے دل فریب تصورات نے عورت سے نسوانیت کو چھین کر جنازہ نکال دیا ۔ پیارے رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور قانون سازی کرکے عورت کو معاشرے میں عزت و عظمت و احترام دیا ۔ وہ مظلوم اور بے بس مخلوق نہ رہی کہ جس کا کوئی پرسان حال نہ ہو اور اسے بنیادی حقوق بھی ملے اور اپنی نسوانیت کو برقرار رکھتے ہوئے مختلف شعبہ ہائے انسانی زندگی میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ملک و قوم کی خدمت اور ترقی میں فعال کردار ادا کر سکتی ہے ۔ روبن لیوی کہتا ہے کہ اسے یہ اعتراف ہے کہ اسلامی معاشرے میں ایسی عورتیں موجود ہیں جو اپنی عزت کو دائو پر لگائے بغیر اپنے شوہروں سے علیحدگی اختیار کر سکتی تھیں۔ اسلام نے مردو زن کو پورا پورا آزادی رائے کا حق دیا ۔ ایسا نہیں کہ مرد کو آزادی حاصل ہو اور عورت کو نہ ہو ۔
اعتراض نمبر۱۳۳
لفظ طلاق سے بھی یورپین مصنفین بہت برہم ہوا کرتے ہیں ۔ ( رحمۃ اللعالمین ۔۱۔۱۶۴) سر ولیم میور کہتا ہے اگر چھوٹی چھوٹی باتوں سے قطع نظر کی جائے تو بھی مذہب دین اسلام سے تین بڑی بڑی خامیاں پیدا ہوئی ہیں ۔ اول یہ کہ اس میں سے ایک سے زیادہ جوروئوں کا ہونا اور دوم طلاق دے دینا اور سوم غلام بنا لینا۔ ( خطبات احمدیہ۱۵۶۔۱۵۷)
قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری ( رحمت اللعالمین ۔۱۔۱۶۴) فرماتے ہیں کہ وہ یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ جیسٹنین کوڈ میں طلاق کی کامل آزادی عیسائیوں کے لیے بحال رکھی گئی ہے ، وہ یہ بھی فراموش کر دیتے ہیں کہ آج دنیا میں صرف یورپ ہی ہے جہاں طلاق بکثرت دی جاتی ہے اور طلاق منظور کرنے والی عدالتیں جدا گانہ یورپ ہی میں ہیں ۔ اسلام نے تو یہودیوں ، عیسائیوں اور مشرکین عرب کی بے روک ٹوک طلاق پر بہت سی قیود بڑھا دیں جس سے طلاق کی رسم قریباََ ملیا میٹ ہوگئی ۔
( ۱) مہر زوجہ طلاق کی ایک رکاوٹ ہے ۔
(۲) طلاق شرعی تین ہیں ، ہر طلاق ایک حیض کے بعد ہو یہ تین ماہ کی مدت بھی طلاق کی روک ہے۔
(۳) آخری طلاق تک خاوند بیوی ایک گھر میں رہیں یہ تدبیر بھی طلاق کی روک ہے۔
(۴) طلاق پر دو گواہ ضروری ہیں اور یہ بھی اہل غیرت کے لیے جو غیر کے سامنے اپنا پردہ کھولنا نہیں چاہیے ، طلاق کی روک ہے۔
(۵) مطلقہ عورت پہلے خاوند سے نکاح نہیں کر سکتی جب تک کوئی اور اس سے نکاح نہ کرے اور پھر اپنی مرضی سے چھوڑ نہ دے ۔
(۶) سب سے بڑھ کر ان البعض الملال عنداللہ الطلاق ، سب سے زیادہ طلاق روکنے والی یہ حدیث ہے جس کا ترجمہ ہے ’’ جائز کاموں میں سب سے زیادہ قابل نفرت کام اللہ تعالی کے نزدیک طلاق ہے ۔
(۷) قرآن پاک میں ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے صحابی زید ؓ سے فرمایا امسک علیک زوجک واتق اللہ (الاحزاب ۔۳۷) ۔۔۔ لیکن سارے قرآن مجید میں کہیں بھی نہیں آیا کہ کسی کو طلاق دینے کی بابت کہا گیا ہو ۔
(۸) قرآن مجید نے ظہا ر کولغو ٹھہرایا حالانکہ عرب کے نزدیک یہ بھی ایک طلاق تھی ، یہ بھی ایک روک ہے۔
(۹) قرآن مجید میں ایلا کی اصلاح کی حالانکہ عرب میں یہ بھی طلاق کے معنی میں استعمال ہو تا تھا ، اس سے بھی طلاق کی کمی ہوئی۔
(۱۰) قرآن مجید میں لازم ٹھہرایا کہ نا چاقی اور بد سلوکی کی حالت میں ایک ثالث شخص شوہر کے کنبہ کا ہو اور ایک ثالث شخص بیوی کے کنبہ کا مقرر کیے جائیں اور یہ دونوں میاں بیوی کی شکایات سن کر ان کی اصلاح کرادیں ، یہ تدبیر بھی طلاق کی روک کے لیے ہے ۔ اگر کسی مذہب نے طلاق کی روک میں اتنی اور ایسی تدابیر کی تعلیم دی ہے تو وہ پیش کرے ۔ ان احکام کا عملی نتیجہ دیکھو کہ مسلمانوں میں طلاق کا استعمال شاذ وناد ر کیا جاتا ہے لیکن یورپ میں جو عدم جواز طلاق کے مسئلہ پر مفتخر ہے ، کوئی شہر کوئی محلہ ایسا نہ ملے گا جہاں طلاق کی دو چار مثالیں نہ مل سکیں ۔ کاش یہ مستشرقین یہود و نصاریٰ سمجھ پاتے ۔اور اپنے اپنے گھر کی خبر لیتے تو برہم نہ ہوتے ‘آئیے انہیں آئینہ دکھاتے ہیں ۔
امریکہ کے مختلف علاقوں میں شرح طلاق
علاقہ
۹۸
۹۷
۹۶
۹۵
۹۴

شادی۔طلاق
شادی۔طلاق
شادی۔طلاق
شادی۔طلاق
شادی۔طلاق
ohio
۸۴۹۲۸
۸۴۹۱۳
۸۳۸۵۱
۸۸۹۶۴
۹۲۱۵۱

۴۶۵۹۶
۴۷۴۲۷
۴۴۹۱
۴۸۲۲۶
۵۰۲۳۵
Franklin
۷۷۶۵
۹۱۶۴
۹۱۹۸
۹۴۷۹
۸۸۸۸

۴۵۶۹
۴۹۴۵
۴۷۲۷
۴۹۰۴
۵۱۹۴
Hamilton
۵۵۸۳
۹۵۶۸
۵۹۱۴
۶۳۵۹
۶۱۳۷

۲۹۷۵
۲۵۳۱
۲۵۰۴
۲۹۰۶
۲۹۵۴
Miami
۸۱۳
۵۱۷
۷۲۵
۹۰۳
۸۸۹

۴۵۹
۴۶۱
۵۱۸
۵۳۰
۵۸۹
Montgomery
۴۰۸۴
۴۱۶۸
۲۸۲۳
۴۵۹۸
۴۶۸۵

۱۷۶۶
۲۶۹۱
۲۸۲۳
۲۸۳۰
۲۸۵۴
Washington
۵۸۱
۵۷۸
۵۹۸
۵۷۵
۶۱۱

۳۱۷
۳۱۱
۳۲۸
۳۲۹
۳۰۰
دیگر ممالک میں شرح طلاق ( ۱۹۹۶ئ)
آسٹریلیا : ۱۰۰،۱۰۶ شادیوں سے ۵۰۰،۵۲ طلاق پر منتج ہوئیں ۔
کیوبا: شرح طلاق ۷۵فی صد ہے
فرانس: ۷۱۶،۱۱۷ طلاقیں ہوئیں جن میں سے ۹۵ فی صد کا مطالبہ عدم تحفظ حقوق کے سبب سے خود خواتین نے کیا ۔
سکاٹ لینڈ : ۶۱۱،۲۹ شادیوں سے ۲۲۲،۱۲ طلاق کا شکار ہوئیں ۔
سوئٹزر لینڈ : ۵۰۰،۳۸شادیوں سے ۸۰۰،۱۷ طلاق کا شکار ہوئیں ۔
۱۹۹۸ میں ہونے والی طلاقوں میں ۸ئ۱۱ خواتین بیس سال سے کم ، ۷،۵۵ خواتین ۲۰ سے ۲۹ سال کے درمیان، ۸،۲۵ خواتین ۳۰ سے ۴۴سال کے درمیان اور ۸،۶ خواتین ۴۵ سے زائد عمر کی ہیں اور ہر آنے والے سال میں شرح طلاق اضافہ پذیر رہی ۔
مغربی معاشرے کے خاندانی ڈھانچے کی شکست و ریخت کی صورت نہایت ابتر ہے پھر بھی مستشرقین اسلامی معاشرے سے برہم نظر آتے ہیں جبکہ مذکورہ طلاق کی شرح میں ان کے پول کی قلعی کھول دی ہے ۔ جو کہتے ہیں کہ اسلام میں عورت کو کم درجہ عطا کیا ہے ۔ کیا یہ مغرب میں عورت کو اونچا درجہ دیا ہے جہاں کوئی گھر طلاق کے ناسور سے دو چار نہ ہواہو، اس سے عورت کے درجہ میں بلندی ہوئی ہے یا جگ ہنسائی ۔ اندازہ لگائیے کہ ۱۹۹۳ ء کے اعداد و شمار کے مطابق ۲۶ ۲۰۳ ملین ہونے والی شادیوں میں سے ۳،۱ملین طلاق کا شکار ہوئیں جو ۱۹۶۰ء کی تعداد کا تین گناہ ہے یہ عزت عورت کو مغرب کے معاشرہ نے بخشی ہے کہ انہیں کچھ دیر کے لیے اپنائے رکھا اور پھر چھوڑ دیا ، ان کی عزت کی قیمت یہی ہے کہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے بعد طلاق کا تحفہ دی کر گھر سے نکال دیا ۔ جبکہ اسلام نے اس فعل طلاق کو سب سے زیادہ مباح کاموں میں نا پسندیدہ چیز قرار دیا اور ایسے اقدامات کیے کہ اسلامی معاشرہ حتی الامکان اس ناسور سے قریباََ آزاد ہے اور مسلم معاشرہ کی ازداوجی زندگی خوب بسر ہو رہی ہے ۔ اور ہنستے بستے گھر نظر آتے ہیں ۔
قدیم و جدید مذاہب میں نکاح کا عام رواج تھا یہ انسان کی ذاتی فلاح اور تمدنی بھلائی کی بنیاد ہے ۔ اور جو چیز فلاح و بہبود کو تہس نہس کر دے اور ذاتی و تمدنی فوائد ختم کر ڈالے وہ شے نہایت نا پسندیدہ اور مضرت رسا ں ہے ۔ وہ ہے طلاق ! اسی سبب سے روم کے گرجامیں اس کی حفاظت کے لیے نکاح کو اپنے ساتھ پاک رسموں میں شمار کر کے مقدس و متبرک ٹھہرایا ہے اورا نگلستان کے پروٹسٹنٹوں نے طلاق کا حکم صرف ایک حالت میں جائز رکھا جبکہ ہائوس آف لارڈز سے زر کثیر صرف کرنے کے بعد حاصل ہوا یہ انتظام ۱۸۵۶ تک قائم تھا ،طلاق سے متعلق مقدمات سننے اور جیوری کی رائے سے ایک نئی عدالت قائم کی گئی ۔
یہودی مذہب :یہودی مذہب میں طلاق دینا بغیر کسی شرط و حالت کے مرد کے اختیار میں تھا۔ اپنی مرضی سے جب چاہیے طلاق دے اور ایسا کرنے سے وہ گناہگار نہیں ہوتا تھا ۔ حضرت عیسی ؑ نے اس حکم کو منسوخ کیا جیسا کہ آجکل عیسائی سمجھتے ہیں اور ایک خاص وجہ کے اور کسی حالت میں طلاق دینا جائز نہیں رکھا ۔ فرمایا : میں تمہیں کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی جورو کو سوائے زنا کے کسی اور سبب سے طلاق دے اور دوسری سے بیاہ کرے وہ زنا ہے اور جو کوئی اس چھوڑی ہوئی عورت سے شادی کرتا ہے وہ بھی زنا کرتاہے ۔ زناکی حالت میں عورت جائز ہی نہیں رہتی اور اسے فارغ کر دینا ضروری ہوتا ہے ، طلاق کے ذریعہ نہیں بلکہ قتل سے ۔۔۔ اس میں شک نہیں کہ مرد وزن میں ایسی خرابیاں پیدا ہو جائیں جو کسی طرح دور نہ ہو سکتی ہوں اور روز روز کی لڑائی ، بد مزگی اور گھر کا سکون تلپٹ ہو جائے اور اولاد پر بھی برا اثر پڑے تو اس کا علاج صرف طلاق ہے جس سے ہر دو یعنی مرد اور عورت کو آزادی ہو جاتی ہے ، جن کی زندگی تلخ اور اجیرن ہو چکی تھی ۔ روز افزوں کی رنجشیں اور لعن طعن سے خلاصی ہو تی ہے توایسے حالات میں طلاق جائز ہے اور کسی طرح بھی حسن معاشرت کے گلشن کو کملانہیں سکتی ، یہی وجہ ہے دین اسلام میں بطور علاج کے جائز اور روا رکھا ہے اس کے باوجود آنحضرت ﷺ نے فرمایا ’’ مباح چیزوں میں سب سے زیادہ خدا کو غضب میں لانے والی چیز طلاق ہے اسی طرح عورتوں کے بارے میں فرمایا ’’ جو عورت اپنے خاوند سے بغیر ضرورت شدید اور بغیر حالت سختی کے طلاق چاہے، اس کو جنت کی خوشبو حرام ہے ۔ ایک دفعہ رسول خدا ﷺ کو اطلاع ہوئی کہ ایک شخص نے اپنی جورو کو دفعتاََ تین طلاقیںدے دی ہیں ، یہ سن کر آپ غصہ میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ کیا خدائے بزرگ کے حکم کو کھیل بنایا ہے ایسی حالت میں بھی کہ میں تم میں موجود ہوں ، یہ سن کر ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! کہ کیا میں اس کو قتل کر ڈالوں ۔ ( یعنی وہ شخص آنحضرت ﷺ کے غصہ ہونے سے یہ سمجھا کہ اس شخص نے قتل کیے جانے کے لائق کام کیا ہے ۔) (خطبات احمدیہ ۔ ۱۷۱)
پوری طرح علیحدگی واقع ہونے کے لیے تین طلاق دینے پر موقوف کیا پھر ساتھ ہی تین طلاق میں ممانعت فرمائی کہ دفعتاََ نہ دی جائیں بلکہ تین طہر میں ۔ دو طلاق تک رجوع کی گنجائش رکھی لیکن تین طلاق کے بعد مکمل جدائی ہو جاتی ہے اس سلسلے میں ایک عمدہ بات یہ ہے کہ طلا ق کے بعد عورت کو الگ رہنا پڑتا ہے جب تک طلا ق مکمل نہ جائے اس سے شائد محبت عود کر آئے اور ایسا جذبہ پیدا ہو کہ دونوں مرد و زن کے دلوں سے طلا ق کا خیال محو ہو جائے ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...