Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

ام المومنین سیدہ ماریہ قبطیہؓ
ARI Id

1689956726155_56117752

Access

Open/Free Access

Pages

۵۱۱

ام المومنین سیدہ ماریہ قبطیہؓ
سیدہ ماریہ قبطیہ بنت شمعون کو بطور ہدیہ شاہ مقوقس نے آپؐ کی خدمت میں بھیجا تھا۔(تبیان القرآن جلد ۱۲ ص ۱۰۳) پر ہے’’ دو بہنیں ماریہ اور سیرین ‘ ایک ہزار مثقال سونا، بیس ملائم کپڑے، خچر(دلدل) ایک درازگوش گدھایفغور یا عفیر تھا اور اس کے ساتھ ایک خصی شخص جس کا نام ثابور تھا اور ایک بوڑھا شخص جو ماریہ کا بھائی تھا ۔اس نے مدینہ پہنچ کر اسلام قبول کر لیا تھا۔مقوقس مصر کے ہر قل (قیصر روم) کا نائب تھا۔ مقوقس اس کا لقب تھا۔مسلمان مورخین نے اس کا نام جریج بن سینا القبطی بتایا ہے۔ مقوقس نے تحائف بھیجے جن میں دو قبطی النسل کی معزز خواتین، ایک خلعت، سواری کے لیے گھوڑا( افرازہ نامی) ایک سفید خچر( دلدل) اور ایک گدھا یفغور یا عفیر شامل تھے۔(دائرۃ معارف الاسلام ج۲۱ص ۴۵۵) لیکن صاحب مدارج النبوہ ( مدارج النبوہ جلد دوم ص ۲۸۳) لکھتے ہیںکہ ان تحائف میں ایک نیزہ ،بیس قد کا لباس اور ہزار مثقال سونا، مزید لکھتے ہیں کہ حاطب بن بلتعہ کو سو مثقال سونا اور پانچ کپڑے بطور انعام کے دئیے‘‘۔ آپﷺ نے حضرت ماریہ کو حرم نبوی میں داخل فرمایا۔ان سے جناب ابراھیم پیدا ہوئے۔ساتویں روز ان کا عقیقہ کیا گیا۔سر منڈھا کر بالوں کے برابر چاندی تول کر صدقہ کی۔ دو مینڈھے ذبح کیے۔جناب ابراھیم ۱۷ یا ۱۸ ماہ کی عمر میں ہجرت کے دسویں سال انتقال کر گئے۔آپﷺ نے فرمایا: بخدا !! ابراھیم ہم تمھاری موت سے نہایت غمگین ہیں،آنکھ رو رہی ہے اور دل غم زدہ ہے مگر ہم ایسی کوئی بات زبان سے نہ کہیں گے جس سے ہمارا رب راضی نہ ہو‘‘ ۔
رسمِ باطل کا خاتمہ: جس روز آپ کا انتقال ہو ا، اتفاق سے سورج کو گہن لگا۔عرب سمجھتے تھے کہ سورج گرہن اور چاند گرہن کسی بڑے آدمی کی موت سے واقع ہوتے ہیں ۔اس عقیدہ کی بنیاد پر مدینہ کے مسلمان یہ کہنے لگے کہ سورج گرہن حضرت ابراھیمؓ کی وفات کے سبب ہوا ہے۔آپﷺ کو یہ بات ناگوار گزری کیوں کہ یہ بات عقیدہ توحید کے خلاف تھی۔کیوں کہ اللہ ہی خالق و مالک ہے، جو زندگی اور موت دیتا ہے۔کسی اور کے بس میں نہیں کہ کوئی کسی کو زندگی دے یا موت۔ یہ زمانہ جاہلیت کی رسم تھی۔ لوگوں کے سامنے آپﷺ نے خطبہ دیا( تقریر فرمائی) فرمایا: ’’ سورج اور چاند کو کسی کی موت سے گرہن نہیں لگتا بل کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ جب تم ایسا دیکھ لو تو نماز پڑھو اور اللہ جل شانہ کے حضور جھک جائو‘‘۔
حضرت ماریہ آزاد کر دی گئیں:بادشاہ مقوقس نے حضور کی خدمت میں دو قبطی کنیزیں حضرت ماریہ اور سیرین ہدیہ کے طور پر بھیجیں۔حضورؐ نے سیرین کو حضرت حسان کے حوالے کیا اور ماریہؓ کو اپنی ملک میں رکھا۔ انھیں کے بطن سے حضرت ابراھیمؓ ۸ھ میں پیدا ہوئے۔حضرت ماریہؓ کو رسول اللہ ﷺنے اپنی جاگیر العالیہ میں رکھا تھا یہ وہ جگہ ہے جو اموال بنو نظیر میں سے آنحضرت ﷺکے حصہ میں آئی تھی۔حضرت ابراھیم ؓکی ولادت سے حضرت ماریہ ؓ آزاد کردی گئیں اور حضور ﷺنے فرمایا’’ اعتق ام ابراھیم ولدھا‘‘ یعنی ابراھیم کی ماں کو اس کے بیٹے نے آزاد کر دیا۔ (ن جلد اول ۵۱۸)
ایک شبہ کا ازالہ:مقوقس نے دو خواتین سگی بہنیں ماریہ قبطیہ اور سیرین بطور تحفہ آپؐ کی خدمت اقدس میں بھیجی تھیں ’’سیرین ‘‘نام جو اصلاََ فارسی نام ہے اس کا معرب شیریں ہے کیا وہ ایرانی لڑکی تھی اور کیا وہ اپنی دیگر ساتھی لڑکیوں سے جدا ہو کر پیچھے رہ گئی تھیں ان کا کارواں آگے نکل گیا اور اس نے بعد ازاں عیسائیت قبول کر لی ‘ یہ ایسے سوالات ہیں جو ہنوز جواب طلب ہیں۔ ابن عبدالحکم جو مصری تاریخ کے ایک قدیم مصنف ہیں ‘ نے اسے ’’ حنہ ‘‘ کا نام دیا ہے جبکہ اپنے ایک بیان میں انہوں نے مذکورہ لونڈی کا نام قیصرہ بھی لیا ہے ‘ اگر واقعی ایسا ہی ہے تو ان کا بتدائی نام اور اصلی نام ’’ حنہ یا قیصرہ ‘‘ نہیں ہے بلکہ سیرین ہے مذکورہ نام عیسائیت کے قبول کرنے کے بعد معروف ہوئے ہوں گے انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا اصل نام دوبارہ اختیار کر لیا(پیغمبر اسلام ’’ محمد حمید اللہ ۔۳۲۲) ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے ماریہؓ سے نکاح کیوں کیا اور سیرین سے نکاح نہ کیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ماریہؓ نے سیرین سے پہلے اسلام قبول کیا جب کہ سیرین نے کچھ ترددکے بعد اسلام قبول کیا۔ قبول اسلام میں اولیت اختیار کرنے پر آپﷺ نے ماریہ کو حرم میں داخل فرمایا۔سید امیر علی( حیات محمد۔۴۳۸) بتاتے ہیں کہ ’’ یہ دو کنیزیں سگی بہنیں تھیں۔ رسول اکرم نے انھیں دعوتِ اسلام دی تو ماریہ نے فوراََ اور سیرین نے کچھ توقف کے بعد کلمہ شہادت پڑھا۔اس لیے ماریہ حرم نبوی میں داخل کی گئیں‘‘۔ اولیت کی اہمیت کے پیشِ نظر قرآن کریم نے صحابہ ؓکی شان میں ’’ السابقون الاولون‘‘ کے الفاظ سے خطاب فرمایا ہے۔
ایک اور شبہ کا ازالہ:حضرت حاطبؓ کی تعلیم سے دونوں خواتین اسلام میں داخل ہو چکی تھیں تو پھر نبی کریمﷺ نے انھیں دعوتِ اسلام کیوں دی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ کہیں کسی خوف اور ڈر کے سبب تو اسلام قبول نہیں کر بیٹھیں یا آپ ﷺ اپنی موجودگی میں اسلام کے قبول کرنے کے الفاظ ان کی زبان سے سننا چاہتے تھے تاکہ آپؐ کے حضور اس بات کی تصدیق ہو سکے کہ انھوں نے برضا و رغبت اسلام قبول کیا تھا،کسی ڈر اور خوف سے نہیں۔
اعتراض نمبر۱۴۲
مستشرقین کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ لونڈیوں سے متمتع ہوتے تھے۔وہ دو لونڈیاں ریحانہ بنت زید بن عمرو‘ اور بعض کے نزدیک ریحانہ بنت شمعون اور ماریہ قبطیہ کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔ ایک مورخ نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ بانی اسلام(ﷺ) جب سات سو مقتولوں کی لاشوں کو تڑپنے کا تماشا دیکھ چکا تو گھر آکر تفریح خاطر کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ ۔ بعض نے لکھا کہ ریحانہ کے بارے حکم دیا کہ الگ کر لی جائے اور چند دن بعداپنے حرم میں داخل کر لیا‘‘۔ بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ تقسیم سے پہلے ہی آپ کے لیے ریحانہ الگ کر لی گئی تھی وغیرہ وغیرہ۔
( ۲)حضرت ماریہ ؓ سے آپ ﷺ کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی ۔
۳۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ کنیزیں تھیں اکثر ارباب سیر نے بھی ہی کنیزیں لکھا ہے ۔ کیاوہ کنیزیں تھیں ؟ حقیقت کیا ہے؟
جواب: مولانا شبلی نعمانی کی تقریر؛ریحانہ ؓکے حرم میں داخل ہونے کی جس قدر روایتیں ہیں سب واقدی یا ابن اسحاق سے ماخوذ ہیں لیکن واقدی نے تبصریح بیان کیا ہے کہ آنحضرتﷺ نے ان سے نکاح کیا تھا۔ ابن سعد نے واقدی کی جو روایت نقل کی ہے اس میں خود ریحانہؓ کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں۔ فاعتقنی و تزوج بی’’ پھر آنحضرتﷺ نے مجھ کو آزاد کردیا اور مجھ سے نکاح کیا‘‘۔ حافظ ابن حجر نے اصابہ میں محمد بن الحسن کی تاریخ مدینہ سے جو روایت نقل کی ہے اس کے یہ الفاظ ہیں۔
’’ وکانت ریحانۃ القر ظیۃ زوج النبی ﷺ تسکنہ‘‘ ، اور ریحانہ قرظیہ جو آنحضرت کی زوجہ تھیں اس مکان میں رہتی تھیں‘‘۔
حافظ ابن مندہ کی کتاب (طبقات الصحابہ) تمام محدثین مابعد کا مآخذ ہے۔اس میں یہ الفاظ ہیں۔
’’ واستسری ریحانۃ من بنی قر یظۃ ثم اعتقھا ملحقت باھلھا واحتجبت و ھی عندا ھلھا‘‘ ۔ ’’ ریحانہ کو گرفتار کیا اور پھر آزاد کردیا تو وہ اپنے خاندان میں چلی گئیں اور وہیں پردہ نشین ہو کر رہیں‘‘۔
حافظ ابن حجر اس عبارت کو نقل کر کے لکھتے ہیں’’ وھذہ فائدۃ جلیلۃ اغفلھا ابن الاثیر‘‘ اور یہ بڑی مفید تحقیق ہے جس سے ابن اثیر نے غفلت کی‘‘۔
حافظ ابن مندہ کی عبارت سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت نے ان کو آزاد کردیا تھا اور وہ اپنے خاندان میں جا کر بیویوں کی طرح پردہ نشین ہو کر رہیں۔ ہمارے نزدیک محقق واقعہ یہی ہے اور اگر یہی مان لیا جائے کہ وہ حرم بنو یمین میں آئیں تو تب بھی قطعاََ وہ منکوحات میں تھیں،کنیز نہ تھیں۔۔
حضرت ریحانہ ؓکے متعلق کتب سیر میں تین قسم کی روایتیں ہیں۔ایک یہ کہ آپﷺ نے ان کو آزاد کردیا اور وہ اپنے خاندان والوں کے پاس جا کر پردہ نشین ہو کر رہیں۔یہ روایت ابن مندہ کی ہے مگر اس کی تائید میں کوئی دوسری روایت نہیں۔ دوسری قسم کی روایت یہ ہے کہ آپ نے ان کو آزاد کرکے مثل دیگر امہات المومنین کے رکھنا چاہا مگر انھوں نے اس کی غیر معمولی ذمہ داری محسوس کرکے باندی بن کر حضور انور کی خدمت میں رہنا قبول کیا۔ یہ روایت ابن اسحاق کی ہے ۔ تیسری قسم کی روایت یہ ہے کہ حضور انور نے ان کو خود مختار بنا دیا تو انھوں نے اسلام قبول کر لیا تو آپ نے ان کو آزاد کرکے ان سے نکاح کر لیا۔ یہ روایت واقدی کی ہے۔ابن سعد نے واقدی سے مختلف سلسلوں سے اسی روایت کو ذکر کیا ہے اور واقدی نے اسی کو اثبت کہا ہے۔ امام زہری نے بھی زوجیت کی تائید کی ہے( شبلی کا بیان ختم ہوا)
ہیکل(حیات محمد ۔۳۹۰) کہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی عورتوں میں سے بنی عمرو بن قریظہ کی ایک عورت ریحانہ بنت عمرو بن خناقہ کو اپنے لیے منتخب فرما لیا تھا اور آپ ﷺ کے وصال تک آپ ﷺ کی ملکیت میں آ پﷺ کے پاس رہی ۔ رسول اللہ ﷺ نے پیشکش کی تھی کہ وہ آپ ﷺکی زوجیت قبول کر کے اپنے پر پردہ کرے ریحانہ نے عرض کی یارسول اللہ ! آپ ﷺ مجھے اپنی ملکیت میں ہی رہنے دیں ۔ اس میں میرے لیے بھی اور آپ ﷺ کے بھی سہولت ہے چنانچہ آپ ﷺ نے اسے اپنی حالت پر چھوڑ دیا ۔ جب آپ ﷺ نے اسے گرفتار کیا تھا تو اس نے اسلام سے انحراف کیا تھا اور یہودیت پر ہی ڈٹی رہی ‘اس پر آپ ﷺ اس سے کنارہ کش ہو گئے اور دل میں اس کے معاملے کا خیال کیا پھر ایک موقعہ پر حضور ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ اپنے پیچھے سے کسی کے آنے والے کے جوتوں کی آواز سنی ‘ فرمایا: بے شک یہ ثعلبہ بن سعید کے جوتوں کی آوا ز ہے جو مجھے ریحانہ کے قبول اسلام کی خوشخبری دینے آ رہے ہیں چنانچہ انہوں نے حاضر خدمت ہو کر بتایا ۔ یا رسول اللہ ﷺ !ریحانہ نے اسلام قبول کر لیا ہے اس کے اس عمل پر آ پ ﷺ کو بہت زیادہ خوشی ہوئی ۔
فیوض الرحمان ترجمہ روح البیان جلد ۔۸۔۴۵۹ پر ہے کہ ’’ آپ ﷺ اپنے لیے ریحانہ بنت شمعون کو مخصوص فرمایا کیونکہ وہ قبیلے کے سردار کی بیٹی تھیں اور مسلمان ہو گئی تھیں ‘ انہیں آزاد کر کے نکاح فرمایا اور وہ آپ ﷺ کی زوجیت میں رہیں یہاں تک کہ حجتہ الوداع کے موقعہ پر واپسی پر ان کا انتقال ہوا ۔یہ ہجرت کا دسواں سال تھا ‘ انہیں جنت البقیع میں دفن کیا گیا ‘ یہ واقعہ آخر ذی قعد سن پانچ ہجری میں ہوا ۔
دوم:عالم شباب میں آپﷺ نے چالیس سالہ خاتون سے شادی کی۔اس وقت آپ کی یہ حالت تھی کہ آپ تازہ شادی کے بعد کئی کئی روز تک گھر سے غیر حاضر رہ کر تزکیہ نفس اور ریاضت کشی میں مشغول رہتے تھے۔ بی بی عائشہؓ اور ماریہ قبطیہؓ کے سوا جتنی عورتیں آپ کے عقد میں آئیں سب کی سب بیوہ تھیں یا مطلقہ۔ ان حالات پر فرداََ فرداََ غور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تمام شادیاں جنسی تلذذ کی خاطر نہ تھیں بل کہ کسی اخلاقی ذمہ داری کی خاطر تھیں ۔(ن۔۴۔۴۵۵)
لالہ سرداری لال کہتا ہے ’’ زمانہ جاہلیت کی زہریلی آب و ہوا اور ایسے ہلاکت خیز ماحول میں ایک شخص پرورش پا کر جوان ہو تا ہے اور اس کی یہ حالت ہے کہ اس کے مقدس ہاتھوں نے کبھی شراب کو نہیں چھوا۔اس کی پاک نگاہ کبھی نسوانی حسن و جمال کی دل فر یبیوں کی طرف متوجہ نہیں ہوئی۔ وہ کبھی قتل و غارت میں شریک نہیں ہوا۔ کسی کو برا نہیں کہا۔ کسی کی دل آزاری نہیں کی۔اس نے کبھی قمار بازی میں حصہ نہیں لیا اور لوگ جن برائیوں اور گناہوں میں مبتلا تھے ان میں سے ایک بھی اس نے اختیار نہیں کیا۔ (ن ۴۵۴؍۴)
ٹامس کارلائل کہتا ہے’’ کہنے کوخواہ کچھ کہا جائے لیکن محمدؐ کے دامن پرکبھی ہوس پرستی کا دھبا نہیں لگ سکتا‘ یہ انتہائی غلطی ہو گی اگرہم (آپﷺ)کوعیش پرست سمجھیں اور خیال کریں کہ آپ(ﷺ) کسی طرح عیش و عشرت کے عادی تھے‘‘۔!!
عیسائیوں کے روایتی تصورات راسخ ہو چکے تھے ۔ پیغمبر اسلام ﷺ کو انہوں نے اس کسوٹی پر پرکھا اور اس کوشش میں ناکام رہے اور ٹھوکریں کھائیں ۔ مسیح ؑنے متاہل زندگی گزاری جبکہ محمد ﷺ نے سماجی ، سیاسی ، معاشرتی اور تالیف قلبی کے سبب ایک سے زائد شادیاں کیں ان مقاصد کو پس پشت ڈال کر اپنوں نے بھی ( نعوذ باللہ ) نفس پرستی قرار دے دیا ۔
سوم:مزید اس الزام کے رد میں مستشرقین کی آراء لکھتے ہیں۔
ولیم میور: اہل تصنیف محمدﷺکے بارے میں ان کے چال چلن کی عصمت اور ان کے اطوار کی پاکیزگی پر جو اہل مکہ میں کم یاب تھی، متفق ہیں۔
ایمائل ڈر منگھم کہتا ہے کہ’’ وہ نہ تو حریص تھے نہ متکبر‘ نہ متعصب اور نہ ہوائے نفس کے پیرو بل کہ نہایت برد بار ،نرم دل اور بہت ہی بڑے کردارکے مالک تھے۔(ن۴۔ ۴۹۰) باقی الزامات کا رد پچھلے صفحات میں کیا گیا ہے ،ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت موسیٰ ؑ کو حق تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ملا تھا’’ اگر تم دشمن کے خلاف جنگ کرنے کے لیے جائو اور تمھارا خدا دشمنوں کو تمھارے قبضہ میں دے دے ۔تم ان کو قیدی بنا لو اور تم ان میں خوب صورت عورت دیکھو جو تمھیں اچھی لگے اور تم اسے بیوی بنا لو تو تم اسے اپنے گھر میں لائو ۔ وہ اپنا سر مونڈے اور ناخن تراشے اور غلامی کا لباس اتار کر تمھارے گھر میں رہے اور پوراایک قمری مہینہ اپنے ماں باپ کا سوگ کرے۔ اس کے بعد تم اس سے خلوت کرو اور بہ طور دلہن اسے اپنے قبضہ میں لو اور وہ تمھاری بیوی ہے۔ ( ضیاء النبی۴۷۲؍۷ کتاب استثناء باب ۲۱ آیات ۱۳۔۱۰)
چہارم : عیش پسند اور عشرت کے دل دادا لوگ اپنے بے ہودا‘ اور فضول شوق کو پورا کرنے کے لیے طرح طرح کی خورونوش کا اہتمام کرتے ہیں ۔ شراب کباب طاقتور معجونیں اور منشیات کا استعمال کرتے ہیں ۔ آپ ﷺ کی زندگی کے مطالعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہر چند مدنی زندگی میں اشیائے خورونوش وافر تھیں لیکن آپ ﷺ کا معمول حسب سابق تھا ۔ حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ جب بھی آپ ﷺ کے سامنے کھانا رکھا جاتا ، فرماتے ،آواز دے کر پوچھ لو، کوئی بھوکا تو نہیں اور اکثر اصحاب صفہ میں سے کوئی ایک بول پڑتا ، کھانا اسے دے دیا جاتا اور آپ ﷺ تھوڑی سی کھجور یا تھوڑے ستو پھانک کر پیٹ کو سہارا دے لیتے ۔حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ حرم نبوی میں کئی کئی دن چولہا نہیں جلتا تھا ۔ جہاں خورونوش کی یہ حالت ہو وہاں حضور ﷺ کو عیش پسند کے مکرو ہ الزام سے نشانہ تنقید بنانا بڑی حماقت و نادانی ہے ۔
اعتراض نمبر۱۴۲ کادوسرا جز
حضرت ماریہ ؓ سے آپ ﷺ کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی ۔
۲۔بعض کہتے ہیں کہ وہ کنیزیں تھیں۔ ارباب سیر نے بھی کنیزیں ہی لکھا ہے۔ کیا وہ کنیزیں تھیں؟ حقیقت کیا ہے؟
جواب: مذکور اعتراض کی مستشرقین یہ دلیل دیتے ہیں کہ آپ ﷺ نے شاہوں کے نام خطوط نہیں لکھے تھے ۔ کچھ مستشرقین ان خطوط کے متن میں شک پیدا کرتے ہیں ، ان ہر دو صورتوں میں ماریہ ؓ کے حرم نبوی میں داخل ہونے کا انکار کرتے ہیں نیز ان کے بطن سے حضرت ابراہیمؓ تولد ہوئے ، کا بھی انکار کرتے ہیں انہوں نے تنقیص پیغمبر ﷺ کی انتہا کر دی ہے ۔ آپ ﷺ کے خطوط سے انکار کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ماریہ ؓ کا حرم نبوی میں داخلہ نہیں ہوا تھا اور نہ ہی ان کے بطن سے ان کے بیٹے حضرت ابراہیم ؓپیدا ہوے تھے ۔ کس قدر تعصب اور نفرت کا اظہار ہے جو کسی عام آدمی کے بارے میں نہیں کیا جا سکتا کہ کسی شخص کو اس کی جورو اور اولاد سے محروم کردیا جائے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان کا الزام باطلہ ماخذ اور تاریخ کے خلاف ہے ۔
۲۔جواب:مولانا شبلی نعمانی (سیرت النبی ۲۱۳) بتاتے ہیں کہ ’’ ارباب سیر ماریہ قبطیہ کو لونڈی کہتے ہیں لیکن مقوقس کے خط میں جو لفظ ان کی نسبت لکھا ہے کہ ’’ مصریوں میں بڑی عزت ہے‘‘۔ یہ لونڈی کی شان میں استعمال نہیں کیے جا سکتے۔اس واقعہ کو اس حیثیت سے دیکھنا چاہیے کہ وہ دونوں لونڈیاں نہیں تھیں اور اسلام قبول کر چکی تھیں۔ اس لیے آنحضرتﷺ نے ماریہ ؓ سے نکاح کیا ہوگا نہ کہ لونڈی کی حیثیت سے وہ آپ کے حرم میں آئیں‘‘۔ مقوقس کا جوابی خط قابلِ غور ہے’’ محمد بن عبداللہ کے نام مقوقس رئیس قبط کی طرف سے اسلام علیک، کے بعد میں نے آپ ﷺکا خط پڑھا اور اس کا مضمون اور مطلب سمجھا۔ مجھ کو اس قدر معلوم تھا کہ ایک پیغمبرآنے والے ہیں لیکن سمجھتا تھا کہ وہ شام میں ظہور کریں گے۔ میں نے آپ کے قاصد (ﷺ)کی عزت کی اور دو لڑکیاں بھیجتا ہوں جن کی قبطیوں(مصریوں) میں بہت عزت کی جاتی ہے اور میں آپ کے لیے کپڑا اور سواری کا ایک خچر بھیجتا ہوں‘‘۔ مولانا شبلی نعمانی(سیرت النبی۲۷۳؍۱) حاشیہ پر لکھتے ہیں ’’ ہم نے جاریہ کا ترجمہ لڑکی کیا ہے۔ عربی میں جاریہ لڑکی کو بھی کہتے ہیں اور لونڈی کو بھی‘‘۔ یہ لفظ جو ان کی نسبت لکھا ہے یعنی کہ مصریوں میں بڑی عزت ہے یہ لونڈیوں کی شان میں استعمال نہیں ہوا ہے۔ شبلی نعمانی کے استدلال کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے۔ سیدنا ابراھیم بن محمدﷺ کی والدہ ماریہ خاتون جو قبطی خاندان سے تھیں۔جس طرح والدِ حضرت اسمعٰیلؑ ،حضرت ابراھیمؑ کے ہم عصر شاہِ مصر حضرت بی بی ہاجرہ کو پیش کیا تھا اسی طرح نبی کریم کے ہم عصر شاہِ مقوقس نے ماریہ خاتون کو پیش کیا۔فرق صرف اتنا ہے کہ حضرت ابراھیمؑ کے زمانہ کا بادشاہ بت پرست تھا جب کہ آپﷺ کے عہد کا بادشاہ عیسائی ہے۔ اس واقعہ سے وہ پیش گوئی پوری ہوئی جو حضرت دائود ؑ کی معرفت دی گئی ہے ’’ بادشاہوں کی بیٹیاں تیری عزت والیوں میں ہیں بل کہ اوقیر کے سونے سے آراستہ ہو کے تیرے داہنے ہاتھ کھڑی ہیں‘‘ ۔ (رحمت اللعالمین۹۸؍ ۲) ’’ داہنے ہاتھ‘‘ کے الفاظ اہم اور غور طلب ہیں یہ ’’ ملک یمین کا ترجمہ ہے‘‘ سب مورخین ماریہ قبطیہؓ کو ملک یمین بتاتے ہیں جب کہ مذکور پیش گوئی میں پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ وہ شہزادی ہوں گی اور ان کا آنا ملک یمین کی شان میں ہوگا۔
ضمناََاعتراض
حضرت ماریہ قبطیہ پر ثابوریا مابور کی تہمت لگی۔۔
جواب:رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کو اس کی گردن مارنے کا حکم دیا۔جب حضرت علی ؓوہاں پہنچے تو وہ اس وقت ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے غسل کر رہا تھا۔حضرت علیؓ نے اس سے کہا: نکلو! اور اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کو نکالا۔ تب حضرت علی ؓنے دیکھا کہ اس کا آلہ تناسل کٹا ہوا تھا۔ تب حضرت علیؓ رک گئے اور بارگاہِ نبوی میں حاضر ہو کر عرض کی یا رسول اللہ! اس کا آلہ تناسل کٹا ہوا ہے۔اس پر قاضی عیاض مالکی کی بحث بہت خوب صورت اور نفیس ہے ملاحظہ کیجیے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی مکرمﷺ کی زوجہ محترمہ(ماریہ) کو اس سے محفوظ رکھا کہ ان کی طرف سے کوئی تقصیر ہو اور واقعہ یہ تھا کہ ثابور قبطی تھا اور حضرت ماریہ بھی قبطیہ تھیں اور ہم زبان اور ہم علاقہ ہونے کی وجہ سے وہ ان کے پاس آجاتا تھا اور ان سے باتیں کرتا تھا۔نبی پاک ﷺنے اس کوباتیں کرنے سے منع فرمایا تھا اور جب اس نے عمل نہ کیا تو مستحق قتل ہو گیا۔ آپ نے یا تو اپنی مخالفت پر قتل کا حکم دیا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپﷺ کو اس کی پاک دامنی کا علم ہو اور آپ کو معلوم ہو کہ اس کا آلہ تناسل نہیں ہے اس کے باوجود اس کا قتل کرنے حکم فرمایا تاکہ حضرت علی ؓاس کو برہنہ دیکھ لیں اور ان پر حقیقت حال منکشف ہو جائے اور جو لوگ اس کو ماریہ کے ساتھ تہمت لگاتے ہیں وہ تہمت زائل ہوجائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی کی ہو کہ آپ اس کو قتل نہ کریں کیوں کہ آپ پر اس کا حال منکشف ہوجائے گا۔ اور وہ کنویں میں برہنہ نہا رہا تھا۔ہو سکتا ہے آپ نے اس کو حقیقتاََ قتل کرنے کا حکم دیا ہو۔حالاں کہ آپ کو علم تھا کہ وہ قتل نہیں ہوگا کیوں کہ اس تہمت سے بری ہونا آپ کے نزدیک دلیل سے واضح ہو جائے گا ( بتیان القرآن۔جلد۱۲ ص ۱۰۳)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...