Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

اجتہادی غلطیاں
ARI Id

1689956726155_56117753

Access

Open/Free Access

Pages

۵۳۴

جتہادی غلطیاں
۲۱ جولائی سن ۱۹۶۰ کے مقدمہ رشیدہ بیگم بنام شہاب الدین میں مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے ایک رکن فاضل جج محمد شفیع صاحب نے مذکورہ مقدمہ کے فیصلے میں تعدد ازواج کے مسئلے پر سورہ النساء کی آیت نمبر ۳’’ وَاِنْ خِفْتُمْ اِلَّاّ ۔۔۔۔ ثَلَاثَ وَرُبَاعًا ‘‘ کے تحت اجتہاد کیا اگرچہ حضانت اور سرقہ کے بارے میں بھی اجتہاد کیا لیکن ہمارا مضمون تعدد ازواج کے بارے میں ہے لہذا اسی کو زیر بحث لاتے ہیں ۔اور مولانا مودودی کے جوابات ان اجتہادی غلطیوں کے بارے میں پیش کرتے ہیں ۔
پہلی غلطی: تعجب ہے کہ فاضل جج کو اپنے ان دونوں فقروں میں تضاد کیوں نہ محسوس ہوا ۔ پہلے فقرے میں جو اصولی بات انہوں نے خود فرمائی اس کی رو سے زیر بحث آیت کا کوئی لفظ زائد از ضرورت یا بے معنی نہیں ہے ۔ اب دیکھئے ! آیت کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ اس کے مخاطب افراد مسلمین ہیں ۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ ’’ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ یتیموں کے معاملے میں تم انصاف نہ کر سکوگے تو جو عورتیں تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کر لو دو دو سے ، تین تین سے اور چار چار سے ، لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اگر نہ کر سکوگے تو ایک ہی سہی ۔۔۔‘‘ ظاہر ہے کہ عورتوں کو پسند کرنا ، ان سے نکاح کر نا اور اپنی بیویوں سے عدل کرنا یا نہ کرنا افراد کا کام ہے نہ کہ پوری قوم یا سوسائٹی کا۔ لہٰذا باقی تمام فقرے بھی جو بصیغہ جمع مخاطب ارشاد ہوئے ہیں ، ان کا خطاب بھی لا محالہ افراد ہی سے ماننا پڑے گا ۔ اسی طرح یہ پوری آیت اول سے لے کر آخر تک دراصل افراد کو ان کی انفرادی حیثیت میں مخاطب کر رہی ہے اور یہ بات انہیں کی مرضی پر چھوڑ رہی ہے کہ اگر عدل کر سکیں تو چار کی حد تک جتنی عورتوں کو پسند کریں ، ان سے نکاح کر لیں ، اور اگر یہ خطرہ محسوس کریں کہ عدل نہ کر سکیں گے تو ایک ہی پر اکتفا کریں ۔ سوال یہ ہے کہ جب تک فا نکحو اما طاب لکم اور فان خفتم الا تعد لو اکے صیغہ خطاب کو فضول اور بے معنی نہ سمجھ لیا جائے اس آیت کے ڈھانچے میں نمائندگان قوم کس راست سے داخل ہو سکتے ہیں ؟ آیت کا کون سا لفظ ان کے لیے مداخلت کا دروازہ کھولتا ہے ؟ اور مداخلت کی اس حد تک کہ وہی اس امر کا فیصلہ بھی کریں کہ ایک مسلمان دوسری بیوی کر بھی سکتا ہے یا نہیں ، حالانکہ کر سکنے کا مجاز اسے اللہ تعالیٰ نے خود با لفاظ صریح کر دیا ہے ، اور پھر ’’ کر سکنے ‘‘ کا فیصلہ کرنے کے بعد وہی یہ بھی طے کریں کہ ’’ کن حالات میں اور کن شرائط کے مطابق کر سکتا ہے ۔‘‘حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ چیز فرد کے اپنے انفرادی فیصلے پر چھوڑی ہے کہ اگر وہ عدل کی طاقت اپنے اندر پاتا ہو تو ایک سے زائد کرے ورنہ ایک ہی پر اکتفا کرے۔
۲۔دوسری غلطی: وہ یہ کہتے ہیں کہ از راہ قیاس ایسی شادی کو یعنی ایک سے زائد بیویوں کے ساتھ شادی کو یتیموں کے فائدے کے لیے ہونا چاہیے جیسا بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ آیت میں چونکہ یتامیٰ کے ساتھ انصاف کا ذکر آ گیا ہے اس لیے لامحالہ ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کے معاملے میں کسی نہ کسی طرح یتامیٰ کا معاملہ بطور ایک لازمی شرط کے شامل ہونا چاہیے۔ اس بارے میں عرض ہے کہ اگر قرآن میں کسی خاص موقعہ پر جو حکم دیا گیا ہو اور اس موقعہ کا ذکر بھی ساتھ کر دیا گیا ہو وہ حکم صرف اس موقعہ کے لیے خاص ہو گا تو اس سے بڑی قباحتیں لازم آئیں گی جیسے مثلا عرب کے لوگ اپنی لونڈیوں کوپیشہ کمانے پر زبر دستی مجبور کرتے تھے قرآن نے اس کی ممانعت ان الفاظ میں فرمائی’’ لاتکر ھو ا فتیتکم علی البغاء ان اردن تحصنا ‘‘ ( النور ۳۳پارہ۱۸) ترجمہ ’’ اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو اگر وہ بچی رہنا چاہتی ہوں ‘‘۔
کیا یہاں از راہ قیاس یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ یہ حکم صرف لونڈیوں کے متعلق ہے اور یہ کہ لونڈی اگر خود کو بدکار رہنا چاہتی ہو تو اس سے پیشہ کرایا جا سکتا ہے ۔ خاص واقعاتی پس منظر جب تک نگاہ میں نہ ہو آدمی قرآن کریم کی ایسی آیات جن میں کوئی حکم بیان کرنے سے کسی خاص حالت کا ذکر کیا گیا ہے ، ٹھیک سمجھ نہیں سکتا ۔
آیت وان خفتم الا تقسطو ا فی الیتمیٰ کا واقعاتی پس منظر یہ ہے کہ عرب میں اور قدیم زمانے کی پوری سوسائٹی ، صد ہا برس سے تعدد ازواج مطلقا مباح تھا ۔ اس کے لیے کوئی نئی اجازت دینے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ قرآن کا کسی رواج عام سے منع نہ کرنا خود ہی اس رواج کی اجازت کا ہم معنی تھا ۔ اس لیے فی الحقیقت یہ آیت تعدد ازواج کی اجازت دینے کے لیے نازل نہیں ہوئی تھی بلکہ جنگ احد کے بعد جو بہت سی عورتیں کئی کئی بچوں کے ساتھ بیوہ رہ گئی تھیں ان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے نازل ہوئی تھی ۔ ان مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی تھی کہ اگر شہدائے احد کے یتیم بچوں کے ساتھ تم یوں انصاف نہیں کر سکتے تو تمہارے لیے ایک سے زائد بیویاں کرنے کا دروازہ پہلے ہی کھلا ہوا ہے ، ان کی بیوہ عورتوں میں سے جو تمہیں پسند ہوں ان کے ساتھ نکاح کر لو،تا کہ ان کے بچے تمہارے اپنے بچے بن جائیں اور تمہیں ان کے مفاد سے ذاتی دلچسپی پیدا ہو جائے اس سے یہ نتیجہ کسی منطق کی رو سے نہیں نکالا جا سکتا کہ تعدد ازواج صرف اسی حالت میں جائز ہے جبکہ یتیم بچوں کی پرورش کا مسئلہ درپیش ہو ۔ اس آیت میں کوئی نیا قانون بنایا ہے وہ تعدد ازواج کی اجازت دینا نہیں ہے کیونکہ اس کی اجازت تو پہلے ہی تھی اور معاشرے میں ہزاروں برس سے اس کا رواج موجود تھا ، بلکہ دراصل اس میں جو نیا قانون دیا گیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ بیویوں کی تعداد پر چار کی قید لگا دی ہے جو پہلے نہ تھی ۔
۳۔ تیسری غلطی: اگر ایک مسلمان کہتا ہے کہ میں ایک سے زیادہ بیویاں نہیں کروں گا کہ میں اس کی استطاعت نہیں رکھتا تو آٹھ کروڑ مسلمانوں کی اکثریت بھی ساری قوم کے لیے یہ قانون بنا سکتی ہے کہ قوم کی معاشی ، تمدنی اور سیاسی حالت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ اس کا کوئی فرد ایک سے زیادہ بیویاں کرے ۔اس عجیب طر ز استدلال کے متعلق ہم عرض کریں گے کہ ایک مسلمان جب یہ کہتا ہے کہ وہ ایک سے زیادہ بیویاں نہ کرے گا تو وہ اس آزادی کو استعمال کرتا ہے جو اس کی خانگی زندگی کے بارے میں خدا تعالیٰ نے اسے دی ہے ۔ وہ اس آزادی کو شادی نہ کرنے کے بارے میں بھی استعمال کر سکتا ہے ۔ ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنے میں بھی استعمال کر سکتا ہے ، بیوی مر جائے تو دوسری شادی کرنے یا نہ کرنے میں بھی استعمال کر سکتا ہے اور کسی وقت اس کی رائے بدل جائے تو ایک سے زائد بیویاں کرنے کا فیصلہ بھی کر سکتا ہے لیکن جب قوم تمام افراد کے بارے میں کوئی مستقل قانون بنا دے گی تو فرد سے اس کی وہ آزادی سلب کر لے گی جو خدا نے اسے دی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اسی قیاس پر کیا قوم کسی وقت یہ فیصلہ کرنے کی بھی مجاز ہے کہ اس کے آدھے افراد شادی کریں اور آدھے نہ کریں؟یا جس کی بیوی یا شوہر مر جائے وہ نکاح ثانی نہ کرے ؟ ہر آزادی جو افراد کو دی گئی ہے اسے بنائے استدلال بنا کر قوم کو یہ آزادی دینا کہ وہ افراد سے ان کی آزادی سلب کرے ، ایک منطقی مغالطہ تو ہو سکتا ہے مگر ہمیں یہ نہیں معلوم کہ قانون میں یہ طرز استدلال کب سے مقبول ہوا ہے ۔ تاہم تھوڑی دیر کے لیے ہم یہ مان لیتے ہیں کہ آٹھ کروڑ مسلمانوں کی اکثریت مثلاََ ان میں چار کروڑ ایک ہزار مل کر ایسا کوئی فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر آٹھ کروڑ مسلمانوں میں سے صرف چند ہزار مل کر اپنی ذاتی رائے سے اس طرح کا کوئی قانون تجویز کریں اور اکثریت کی رائے کے خلاف اسے مسلط کر دیں تو فاضل جج کے بیان کردہ اصول کی رو سے اس کا کیا جواز ہو گا ؟ آٹھ کروڑ مسلمانوں کی آبادی میں سے ایک لاکھ بلکہ پچاس ہزار کا بھی نقطہ نظر یہ نہیں ہے کہ قوم کی معاشی ، تمدنی اور سیاسی حالت اس امر کا تقاضہ کرتی ہے کہ ایک مسلمان کے لیے ایک سے زائد بیویاں رکھنا تو قانوناََ ممنوع ہو البتہ اس کا گرل فرینڈز سے آزادنہ تعلق یا طوائفوں سے ربط و ضبط یا مستقل داشتہ رکھنا از روے قانون جائز ہے ۔ خود وہ عورتیں بھی جن کے شوہر کا نکاح ہو جائے تو ان کی زندگی ستی سے بد تر ہو جائے گی لیکن اسی عورت سے ان کے شوہر کا ناجائز تعلق رہے تو ان کی زندگی جنت کا نمونہ بنی رہے گی ۔
۴۔چوتھی غلطی: فاضل جج صاحب کہتے ہیں کہ اس آیت کو دوسری دو آیتوں سے ملا کر پڑھنا چاہیے ان میں سے پہلی آیت سورہ النور کی ۳۳ ہے جس میں طے کیا گیا ہے کہ جو لوگ شادی کرنے کے ذرائع نہ رکھتے ہوں ، ان کوشادی نہیں کرنی چاہیے ۔ اگر ذرائع کی کمی کے باعث ایک شخص کو ایک بیوی سے روکا جا سکتا ہے تو انہی وجوہ یا ایسے ہی وجوہ کی بناء پر اسے ایک سے زیادہ بیویاں کرنے سے روکا جا سکتا ہے ۔
یہاں پھر موصوف نے خود اپنے بیان کردہ اصول کو توڑ دیا ہے آیت کے اصل الفاظ یہ ہیں ’’ ویستعفف الذین لا یجدون ۔۔۔ من فضلہ (النور۔۲۴۔۳۳) ترجمہ ’’اور عفت مآبی سے کام لیںو ہ لوگ جو نکاح کا موقع نہیں پاتے یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے ‘‘
ان الفاظ سے ایسے لوگوں کو نکاح نہ کر نا چاہیے کا مفہوم کیسے نکلتا ہے اگر قرآن کی کسی آیت کے الفاظ کو فضول اور بے معنی سمجھنا درست نہیں ہے تو نکاح سے منع کر دینے کا تصور اس آیت میں کسی طرح داخل نہیں کیا جا سکتا ۔ اس میں تو صرف یہ کہا گیا ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ نکاح کے ذرائع فراہم نہ کر دے اس وقت تک مجرد لوگ عفت مآب بن کر رہیں ، بدکاریاں کر کے اپنے نفس کی تسکین نہ کرتے پھریں تا ہم کسی نہ کسی طرح نکاح سے منع کرنے کا مفہوم ان الفاظ میں داخل کر بھی دیا جائے ، پھر بھی اس کاروئے سخن فرد کی طرف ہے قوم کی طرف ہے نہ کہ ریاست کی طرف ۔ یہ بات فرد کی اپنی صوابدید پر چھوڑی دی گئی ہے کہ وہ کب اپنے کو شادی کر لینے کے قابل کرتا ہے اور شادی کے قابل کب نہیں پاتا اور اسی کویہ ہدایت دی گئی ہے( اگر فی الواقع ایسی کو ئی ہدایت کی بھی گئی ہے ) کہ جب تک وہ نکاح کے ذرائع نہ پائے ، نکاح نہ کرے اس میں ریاست کو یہ حق کہاں دیا گیا ہے کہ وہ فرد کے اس ذاتی معاملے میں دخل دے اور یہ قانون بنا دے کہ کوئی شخص اس وقت تک نکاح نہ کرنے پائے جب تک وہ ایک عدالت کے سامنے اپنے آپ کو ایک بیوی اور گنتی کے چند بچوں کی ( جن کی تعداد مقرر کر دینے کا حق بھی فاضل جج کی رائے میں یہی آیت ریاست کو عطا کرتی ہے ) پرورش کے قابل ثابت نہ کر دے ؟ آیت کے الفاظ اگر ’’ فضول اور بے معنی ‘‘ نہیں ہیں تو اس معاملے میں ریاست کی قانون سازی کا جواز ہمیں بتایا جائے کہ اس کے کس لفظ سے نکلتا ہے ؟ اور اگر نہیں نکلتا تو اس آیت کی بنیاد پر مزید پیش قدمی کر کے ایک سے زائد بیویوں اور مقررہ تعداد سے زائد بچوں کے معاملے میں ریاست کو قانون بنانے کا حق کیسے دیا جا سکتا ہے ؟
۵۔پانچویں غلطی: دوسری آیت جسے سورہ النساء کی آیت نمبر تین کے ساتھ ملا کر پڑھنے اور اس سے ایک حکم نکالنے کی فاضل جج نے کوشش کی ہے ، وہ سورہ النساء کی آیت نمبر۱۲۹ ہے ۔ اس کا صرف حوالہ دینے پر انہوں نے اکتفا نہیں فرمایا ہے بلکہ اس کے الفاظ انہوں نے خود نقل کر دئیے ہیں اور وہ یہ ہیں ۔’’ ولن تستطعوا ان تعدلو۔۔۔ غفور الرحیما ‘‘ اور تم ہرگز یہ استطاعت نہیں رکھتے کہ عدل کرو عورتوں ( یعنی بیویوں ) کے درمیان خواہ تم اس کے کیسے ہی خواہش مند ہو لہٰذا (ایک بیوی کی طرف ) بالکل نہ جھک پڑو کہ ( دوسری کو ) معلق چھوڑ دو اور اگر تم اپنا طرز عمل درست رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو تو اللہ یقینا درگزر کرنے والا رحیم ہے ‘‘
ان الفاظ کی بنیاد پر فاضل جج پہلے تو یہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے کہ بیویوں کے درمیان عدل کرنا انسانی ہستیوں کے بس میں نہیں ہے پھر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ ریاست کا کام ہے کہ ان دونوں آیتوں میں تطبیق دینے کے لیے ایک قانون بنائے اور ایک سے زیادہ بیویاں کرنے پر پابندیاں عائد کر دے وہ کہہ سکتی ہے کہ دو بیویاں کرنے کی صورت میں چونکہ سالہا سال کے تجربات سے یہ بات ظاہر ہو چکی ہے اور قرآن مجید میں بھی یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ دونوں بیویوں کے ساتھ یکساں برتائو نہیں ہو سکتا لہٰذا یہ طریقہ ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا تا ہے ۔ہمیں سخت حیرت ہے کہ اس آیت میں سے اتنا بڑا مضمون کس طرح اور کہاں سے نکل آیا ۔
اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ ضرور فرمایا ہے کہ انسان دو یا زائد بیویوں کے درمیان پورا پورا عدل کرنا چاہے بھی تو نہیں کر سکتا ، مگر کیا اس بنیاد پر اس نے تعدد ازواج کی وہ اجازت واپس لے لی ہے جو عدل کی شرط کے ساتھ اس نے خود ہی سورہ النساء کی آیت نمبر ۳ میں دی تھی ۔؟ آیت کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ اس فطری حقیقت کو صریح لفظوں میں بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ دو یا زائد بیویوں کے شوہر سے صرف یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ایک بیوی کی طرف ہمہ تن نہ مائل ہو جائے کہ دوسری بیوی یا بیویوں کو معلق چھوڑ دے یعنی پورا عدل نہ کر سکنے کا حاصل قرآن کی رو سے یہ نہیں ہے کہ تعدد ازواج کی اجازت ہی سرے سے منسوخ ہو جائے بلکہ اس کے برعکس اس کا حاصل صرف یہ ہے کہ شوہر ازدواجی تعلق کے لیے ایک بیوی کو مخصوص کر لینے سے پرہیز کرے اور تعلق و ربط سب بیویوں سے رکھے خواہ اس کا دلی میلان ایک ہی کی طرف ہو ۔ حکومتی اور عدالتی مداخلت اس صورت میں پیش آتی ہے جب شوہر نے ایک بیوی کی خاطر دوسری بیویوں کو معلق کر کے رکھ دیا ہو اس صورت میں وہ بے انصافی واقع ہوگی جس کے ساتھ تعد د ازواج کی اجازت سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا لیکن کسی منطق کی رو سے اس آیت کے الفاظ اور اس کی ترکیب اور فحویٰ سے یہ گنجائش نہیں نکالی جا سکتی کہ معلق نہ رکھنے کی صورت میں ایک ہی شخص کے لیے زائد بیویوں کو ازروے قانون ممنوع ٹھہرایا جا سکے ، کجا کہ اس میں سے اتنا بڑا مضمون نکال لیا جائے کہ ریاست تمام لوگوں کے لیے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کو مستقل طور پر ممنوع قرار دے قرآن کی جتنی آیتوں کو بھی آدمی چاہے ، ملا کر پڑھے لیکن قرآن کے الفاظ میں قرآن ہی کا مفہوم پڑھنا چاہے ۔ کوئی دوسرا مفہوم کہیں سے لا کر قرآن پڑھنا اور پھر یہ کہنا یہ مفہوم قرآن سے نکل رہا ہے ، کسی طرح بھی درست طریق مطالعہ نہیں ہے کجا کہ اسے درست طریق اجتہاد مان لیا جائے ۔ آگے بڑھنے سے پہلے ہم فاضل جج کو اور ان کا سا طرز فکر رکھنے والے دوسرے حضرات کو بھی ، ایک سوال پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ قرآن مجید کی جن آیات پر وہ کلام فرما رہے ہیں ، ان کو نازل ہوئے ۱۳۷۸ سال گزر چکے ہیں۔ اس پوری مدت میں مسلم معاشرہ دنیا کے ایک بڑے حصے میں مسلسل موجود رہا ہے ۔آج کسی ایسی معاشی یا مدنی یا سیاسی حالت کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی جو پہلے کسی دور میں بھی مسلم معاشرے کو پیش نہ آئی ہو لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ پچھلی صدی کے نصف آخر سے پہلے پوری دنیائے اسلام میں کبھی یہ تخیل پیدا نہ ہوا کہ تعددازواج کو روکنے یا اس پر سخت پابندیاں لگانے کی ضرورت ہے ؟ اس کی کوئی معقول توجیہ اس کے سوا کی جا سکتی ہے کہ اب ہمارے ہاں تخیل ان مغربی قوموں کے غلبے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جو ایک سے زائد بیوی رکھنے کو ایک قبیح و شنیع فعل ، اور خارج از نکاح تعلقات کو ( بشرط تراضی طرفین) حلال و طیب یا کم ازکم قابل در گزر سمجھتی ہیں ؟ جن کے ہاں داشتہ رکھنے کا طریقہ قریب قریب مسلم ہو چکا ہے مگر اسی داشتہ سے نکاح کر لینا حرام ہے ؟ اگر صداقت کے ساتھ فی الواقع اس کے سوا اس تخیل کے پیدا ہونے کی کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی تو ہم پوچھتے ہیں کہ اس طرح خارجی اثرات سے متا ثر ہو کر قرآنی آیات کی تعبیریں کرنا کیا کو ئی صحیح طریق اجتہاد ہے ؟ اور کیا عام مسلمانوں کے ضمیر کو ایسے اجتہاد پر مطمئن کیا جا سکتا ہے ؟( سنت کی آئنی حیثیت ۲۳۹)
اعتراض نمبر۱۵۴
عیسائی کہتے ہیں کہ اسلام نے چار (شادیوں) کو ہی کیوں جائز قرار دیا‘‘۔ ( رحمت اللعالمین جلد اول۔۱۶۴۔۱۶۵)
جواب:قاضی (رحمۃ اللعالمین۔۱۶۴) فرماتے ہیں’’ ہم پوچھتے ہیں کہ کیا مسیحؑ نے یہودیوں کے رواج کثرت زوجات میں کوئی اصلاح کی تھی؟ اگر نہیں تو یہ بھی اسلام کی خصوصیت ہے کہ اس نے جملہ مذاہب عالم میں سے اس مسئلہ کے متعلق ایک حد مقرر کی۔ انجیل متی ۲۵ باب کو شروع سے پڑھ کر دیکھیں جس میں ایک دولہا کے ساتھ دس کنواریوں کی شادی کا ذکر ہے جن میں پانچ تو دلہا کے ساتھ گئیں اور پانچ اپنی نادانی سے پیچھے رہ گئیں۔یہ تمثیل کثرت زوجات کی دلیل سمجھی جاتی ہے۔قرآن مجید میں دو تین چار تک اجازت دے کر پھر فرمایا گیا’’ فَاِنْ خِفْتُمْ اَنْ لَّا تَعْدِلُوْا فَواحِدَۃً‘‘۔ اگر یہ اندیشہ ہو کہ تم اپنی بیویوں کے لیے عدل نہ کر سکو گے تب صرف ایک بیوی کرنا۔ پھر یہ بھی فرمادیا ’’ وَلَن تَستَطِیعُوا اَن تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَائِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ‘‘۔ تم کبھی اپنی بیویوں کے درمیان عدل نہ کر سکو گے اگرچہ تم خود بھی ایسا کرنا چاہتے ہو۔ پس یہ اسلام ہے جس نے دنیا کی تمام مذہبی کتابوں سے پیشتر ’’ تب صرف ایک بیوی‘‘ کے الفاظ کو قانونی اور حکمی طور پر بیان کیا ہے۔ اسلام کے لیے یہی فخر اور فضل کافی ہے۔ جب قومی عزت و وقار کا حصرآبادی پر ہو، تب اس وقت قومی عزت کے لیے ایک سے زیادہ بیوی کرنا ضروری ہو جاتا ہے ۔گویا ذاتی آرام ایک سے زیادہ بیوی کرنے میں نہیں رہتا لیکن دنیا کے عقل مند جانتے ہیں کہ مبارک وہ ہیں جو قوم کے لیے اپنے آپ کو قربان کر دیتے ہیں۔عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے ہر خاتون کے اپنے اپنے جذبات ہوتے ہیں ۔ ہر عورت اپنے حقوق کے حصول کی متمنی ہوتی ہے اس سلسلے میں شادی کے مسئلہ کو دیکھیں تو عورتوں کی تعداد کے زیادہ ہونے کے باعث ہر عورت شادی نہیں کر سکتی لہٰذا اسے اس کا حق اور اس کے جذبات کی تسکین کے لیے اسلام نے نہایت اعلیٰ اور خوبصورت نظام دیا کہ مرد انصاف کر سکے تو وہ چار عورتوں سے شادی کر سکتا ہے اس صورت میں عورتوں کی زیادہ تعداد آڑے نہیں آتی۔
اعتراض نمبر۱۵۵
بعض کہتے ہیں کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہے جس سے عورت کو کم تر مرتبہ دیا گیا ہے۔ ( اسلام میں خواتین کے حقوق۹۹)
جواب:اسلام کے قانون وراثت کا سطحی مطالعہ کرنے سے یہ مغالطہ لگتا ہے کہ عورت کا مرتبہ مرد سے کم تر ہے۔شاید یہ غلط فہمی قرآن حکیم کی درج ذیل آیت پاک کی حکمت صحیح طور پر نہ سمجھنے کے سبب پیدا ہوتی ہے۔ ’’ لِلذَّ کَرِ مِثلُ حَظِّ الاُ نثَیَنِ‘‘۔ ( النساء ۱۷۶) (ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہے)۔
مرد و عورت کے مساوی حصہ کی نظیر:علامہ طاہر القادری( اسلام میں خواتین کے حقوق۔۱۰۲) لکھتے ہیں ’’ معاشرے میں بعض مرد اورعورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن پر عمر رسیدگی یا کسی اور سبب سے مالی ذمہ داریوں کابوجھ رہتا یا کم از کم مرد پر عام حالات کی طرح عورت کے مقابلہ میں زیادہ بوجھ نہیں ہوتا۔وہ دونوں یکساں مالی ذمہ داریوں کے حامل ہو جاتے ہیں۔ یہ مقام اس وقت آتا ہے جب مرنے والے کے والدین زندہ ہوں اور اس متوفی کی اولاد بھی ہو، جب اس صاحب اولاد متوفی کی وراثت تقسیم ہو گی تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکہ کا ۶؍۱ حصہ ملے گا۔
وَلاَ بِوَلِِدِہٖ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنَ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ‘‘۔ ( النسائ۱۱،پارہ۴)
’’ اور (میت کے) ماں باپ کے لیے ان دونوں میں سے ہر ایک کو (برابر) ترکہ کا چھٹا حصہ(ملے گا) بہ شرط کہ مورث کی کوئی اولاد نہ ہو‘‘۔
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ہے۔ ’’ وَاِن کَانَ رَجُلاً یُّورَثُ کَلٰلَۃً اَوِ امْرَأَۃُ وَّلَہٗ اَخٌ اَوْ اُختٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسْ‘‘۔
’’ اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جا رہی ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئی اولاد اور اس کا ماں کی طرف سے ایک بھائی یا ایک بہن ہو ( یعنی اخیائی بھائی یا بہن) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیے ( برابر طور پر) چھٹا حصہ ہے‘‘۔
اس طرح باوجود یہ کہ وراثت کی تقسیم مرد وعورت کے مابین ہو رہی ہے ، یہ برابر ہوگی۔اگر اسلام کے نظام وراثت میں محض مرد ہونے کی وجہ سے عورت کے حصے سے دو گنا قرار پایا ہوتا یا عورت کا حصہ محض عورت ہونے کی وجہ سے نصف ہوتا تو پھر اس مقام پر جب وہ ماں باپ کی حیثیت سے وراثت لے رہے ہیں ۔تویہاں بھی ان کے حصے کا فرق برقرار رہتا جب کہ یہاں ایسا معاملہ نہیں ہے۔ گویا عورت کا حق وراثت مرد سے نصف نہیں کیا گیا بل کہ مرد کا حقِ وراثت اس کی اضافی ذمہ داریوں کی وجہ سے بڑھا دیا گیا ہے۔اس طرح مرد و عورت کی معاشرتی، سماجی اور عائلی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مالی توازن قائم کر دیا گیا ہے تاکہ مرد اپنے اوپر عائد جملہ ذمہ داریوں سے بطور احسن عہدہ بر آ ہو سکیں۔ عورت کو اپنے والدین کے گھر سے وراثت کا حق ملتا ہے اور سسرال کے ہاں جانے سے سسرال سے بھی حقِ وراثت ملتا ہے۔ دونوں طرف سے اسے حصہ مل رہا ہے لیکن اس کے بر عکس بیٹے کو صرف والدین کی طرف سے وراثت کا حق ملتا ہے۔ لہٰذا بیٹے کی مالی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے اسے دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ دیا جاتا ہے۔
ضمناََ اعتراض
روبن لیوی لکھتے ہیں کہ اپنے قانون وراثت کے لیے تو محمد ﷺ بلا شبہ وقتی تقاضوں کے ہاتھوں مجبور تھے جب مرد ان کے آدرش کے لیے میدان جنگ میں جان قربان کر رہے تھے تو آپ قدیم نظام کو کیونکر برقرار رکھ سکتے تھے جبکہ اس صورت میں مومنین کی بیویاں اور بچے تو محروم رہ جاتے اور وہ لوگ اس ( جائداد ) سے مستفید ہوتے جو آپ ﷺ کے کٹڑ مخالفین تھے ۔( روبن لیوی) ’’محمد رسول اللہ اکر م طاہر ۔۲۹۸‘‘
جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ عورتوں نے ہجرت کرنے میں شرکت کی۔ جنگوں میں بھی حصہ لیا زخمیوں کی دیکھ بھا ل کے علاوہ پانی پلانے کا کام بھی کرتی تھیں نماز با جماعت مسجد میں پڑھتی تھیں ایک موقعہ پر آپ ﷺ نے فرمایا میں مسجد میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں ، چاہتا ہوں کہ میں اس کو لمبا کروں ، پھر میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو میں نماز مختصر کر دیتا ہوں اس اندیشہ کی بنیاد پر کہ اس کی ماں کو تکلیف دوں گا (بخاری شریف۔ کتاب الصلوۃ)
ظہار کو ختم کرکے صنف نازک پر احسان فرمایا ۔ مہر مقرر کرکے عورت کی عزت افزائی کی ایک وقت تھا کہ حضرت عمر ؓ نے کم آمدنی والے لوگ جو مہر کی زیادہ رقم ادا کرنے پر پریشان تھے ، مہر کی رقم کم کرنے کا اعلان فرمایا تو مجمع سے ایک عورت بول اٹھی اور اس آیت کو پڑھا ۔
’’ وَّ اٰ تَیتُم اِ حدٰ ھُنَّ قِنطَا راََ فَلاَ تاَخُزُوا مِنہُ شَیہئََ (النساء ۲۰،پارہ۴) (ترجمہ) تو خواہ تم نے اسے ڈھیر سارا مال ہی کیوں نہ دیا ہو اس میں سے کچھ واپس نہ لینا‘‘ اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا اگر یہ عورت نہ ہوتی تو آج عمر ؓ ہلاک ہو جاتا ۔
بعض مستشرقین نے عورت کے مرتبہ کو گھٹانے کی کوشش کی ہے اور عورت کو اسلام کے عطا کردہ حقوق کو سیاسی مصلحتوں کا پلندہ کہا یا پھر جاہلیت کے معاشرے کی باقیات سے جوڑ دیا جبکہ عورت کو تمام حقوق عطا کر کے صنف نازک کو مردوں کے برابر لا کھڑا کیا اس بات کا روبن لیوی کو بھی اعتراف ہے وہ کہتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں عورتوں کو اپنی عزت و ناموس کو دائو پر لگائے بغیر خلع مل جاتی تھی ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ روبن لیوی ایک عجیب بات کہہ دیتا ہے کہ محمد ﷺ کے عہد میں بھی نظام کہن کے کچھ ایسے اثرات باقی تھے جن کی رو سے شادی کا مطلب خاوند کا بیوی پر مکمل حاکمیت نہ تھا ‘‘
اس کا جواب یہ ہے کہ اس بچارے کو یہ خبر نہ ہوئی کہ دور جہالت کا معاشرہ مرد کی غیر مشروط مکمل حاکمیت کا عکاس ہے اس وقت عورت کو اسلام نے وراثت و حق نکاح ، حق خلع ، جائداد و نان نفقہ کا حق دوسری شادی کا حق و لعان کا حق یعنی اسلام نے ہر شعبہ میں عورت کو حقوق عطا کر کے بڑا احسان کیا ۔ یہ اس وقت حقوق دئیے جب عرب معاشرہ جاہلیت کے گھٹا ٹوپ منحوس رسم و رواج میں گھرا ہو ا تھا ۔ عرب بیٹی کی پیدائش پر نادم ہوتے اور جل بھن جاتے ۔ لوگوں سے منہ چھپاتے پھرتے حتی کہ نو مولود بیٹیوں کو زندہ در گور کر کے سکھ کا سانس لیتے تھے قرآن مجید میںہے ’’ جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہو نے کی خبر سنائی جاتی تو اس کے چہرے پر کلونس چھا جاتی اور وہ بس خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ، لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس بری خبر کے بعد کسی کو کیا منہ دکھائے اور سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یا مٹی میں دبا دئے ‘‘ (النحل ۔۵۹۔۵۸) ۔
یہ اسلام کا اعجاز ہے کہ اس نے بیٹی کو رحمت کا اعزاز بخشا بہن کو نعمت قرار دیا اور مائوں کے قدموں تلے جنت کی خوشخبری سنائی ۔ آجکل بھی بیٹیوں کو زندہ قبر میں ڈالنے کی مختلف صورتیں ایجاد ہو چکی ہیں لیکن اسلام ان بھیانک رسموں کو کسی طور قبول نہیں کرتا ۔
’’ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں ‘‘جو کہتے ہیں کہ عورتیں شیطان سے بھی زیادہ مکار ہیں۔ وہ سورہ یوسف کی قرآنی آیت اِنَّ کَیدَ کُنَّ عَظِیم ’’ بے شک عورتوں کا مکر بہت بڑا ہے اور شیطان کے بارے میں ہے ’’ اِنَّ کَیْدَ الشَّیْطَآ نَ کاَ نَ ضَعِیْفًا ‘‘ (بے شک شیطانی مکر بہت کمزور ہے ، اس موخرالذکر آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ شیطانی مکر ضعیف اور کمزور ہے اور اول الذکر آیت میں عورتوں کے مکر کو بڑا یعنی عظیم کہا گیا ہے اس لیے عورت شیطان سے زیادہ عیار ہے ۔ تو اس سلسلے میں گزارش ہے کہ بعض سلسلہ کلام میں آیت کی معنویت کو سمجھنے سے قاصر رہے ، دراصل شیطان کے مکر والی آیت اللہ تعالیٰ کا قول ہے اور اول الذکر آیت میں عزیز مصر کے رد عمل کو پیش کیا گیا ہے جو اپنی زوجہ کی بے وفائی پر آگاہ ہوا اور بول اٹھا کہ بے شک عورتوں کا مکر بہت بڑا ہے ۔ ایک اور مفسر نے یہ تو اقرار کیا کہ مذکورہ قول اللہ تعالی ٰ کا نہیں ، زلیخا کے شوہر کا ہے تا ہم اسے یہ اعتراض ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس قول کی تردید نہیں کی اس وجہ سے اللہ تعالی ٰ کی تائید حاصل ہے ۔جب بات واضح ہے تو پھر کسی تائید کی ضرورت نہیں رہتی اور نہ ہی تردید کی۔ ( محمد رسول اللہ( اکرم طاہر) ۔۲۷۲)
اعتراض نمبر۱۵۶
مستشرقین کہتے ہیں" The fatal point in isalm is the degradition of women" یعنی اسلام کا تباہ کن پہلو عورت کو حقیر درجہ دینا ہے۔‘‘(امہات المومنین ۱۵)
جواب:اسلام سے قبل کے مذاہب تجرد کو پارسائی اور اخلاقی معیار گردانتے تھے۔اس کا سبب یہ تھا کہ عورتوں کو حقیر سمجھتے تھے اور کسی خاطر میں نہیں لاتے تھے اور اپنی زندگی میں عورتوں کو شامل کرنا گناہ سمجھتے تھے۔ انسائکلو پیڈیا بڑٹانیکا میں ہے’’ تجرد کسی نہ کسی شکل میں پوری مذہبی تاریخ میں موجود رہا۔ عملی طور پر وہ دنیا کے تمام بڑے مذہبوں میں پایا جاتا رہا‘‘( امہات المومنین ۱۵) اسلام نے اس کا قلع قمع کر دیا۔ سرکارِ دو عالمؐ نے فرمایا’’ نکاح میری سنت ہے جو شخص میری سنت سے اعراض کرے گا اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں‘‘۔
ان کہنے والوں کے اپنے اندرونی حالات کا جائزہ پیش کریں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں، نبض ڈوبنے لگتی ہے، سانس رکنے لگتا ہے کہ یہ لوگ کیا ہیں؟ کس قسم کے ہیں؟ کہنے کو کچھ کہتے ہیں مگر کرتے کچھ اور ہیں۔ امریکہ کی کارکن خواتین کے بارے میں رپورٹ ملاحظہ کیجئے۔ ایک بنک کے پریزیڈنٹ سڈنی ٹیلر نے اپنے بنک کی ایک خاتون کارکن مائیکل ونس کو جسمانی ایذا دی اور اس کی عصمت دری کی۔یہ سلسلہ چار سال تک چلتا رہا۔ یہ خاتون عورتوں کی ایک تنظیم کی مدد سے عدالت میں گئی۔ڈسٹرکٹ کورٹ نے اپیل خارج کر دی اس وجہ سے کہ وہ چار سال تک خاموش رہی اور اس نے بنک کے شکایتی نظام سے مدد کی درخواست نہیں کی۔ عدالت نے کہا کہ ان دونوں کے درمیان رضا کارانہ تعلق تھا۔ ہائی کورٹ سے مسئلہ حل نہ ہوا۔آخر سپریم کورٹ میں پہنچا۔ گذشتہ پانچ برسوں میں دفتروں میں کام کرنے والی عورتوں کی نصف تعداد اس قسم کی بد سلوکی کا نشانہ بنی۔دوم.۴فیصد کو پریشان کیا گیا۔ ریاستی اور میونسپل حکومتوں کے مختلف شعبوں میں کار کن ۶۰ فیصد خواتین نے بتایا کہ جنسی بد سلوکی کے لیے عام تجربہ بن چکی ہے۔
ملازمتیں:۱۹۶۴ء میں لنڈن جانسن نے ایک صدارتی حکم میں عورتوں کو زیادہ سے زیادہ سرکاری ملازمتیں دینے کو کہا۔ اس چارٹ پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں لگ پتہ جائے گا۔
ادارہ؍ اونچے سکیل کی سرکاری ملازمتیں
عہدہ
مرد
عورت
فیڈرلاپیل کورٹ
۹۷ جج
۱ جج
فیڈرل ڈسٹرکٹ کورٹ
۲۰۲ جج
۴ جج
سپریم کورٹ
۹ جج
صرف کلرک جج کی ۱ عورت
امریکی سینٹ
۔
۱
ہائوس آف ریپریزنٹیٹو
۔
۱۱
کل ججز
۱۰۰۰۰
۲۰۰
اٹارنی جنرل
۔
۔
فیڈرل سروس ڈسٹرکٹ اٹارنی
۹۳
۔
سائنس دان
۹۰%
۱۰%
نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے منتخب ممبر ۸۰۰ سے زیادہ
۹۱%
۹%
نوبل انعام پانے والے
۲۷۸
۶
وکلائ( قانون دان عورتیں ۸۴% پرائیویٹ کام کرتی ہیں)
۵۰ %
۱۳%
ٹوٹل:۳۲۵۰۰۰
۳۲۵۰۰۰؍۳۱۶۰۰۰
۹۰۰
کوئی عورت تا حال صدر نہ بن سکی اورنہ ہی کوئی عورت نائب صدر کے عہدے تک پہنچی ہے۔ ہمارے ملکوں میں عورتیں وزیر اعظم اور صدر کے عہدے تک پہنچی ہیں۔ تمام دیگر شعبوں میں خاطر خواہ شریک کار ہیں مگر ہمارے مخالفین کا معاملہ یہ ہے کہ ’’ اوروں کو نصیحت خود میاںفضحیت! امریکی سپریم کورٹ کی پیشانی پر یہ فقرہ لکھا ہوا ہے’’ قانون کے تحت یکساں انصاف‘‘ لیکن آپ نے مذکورہ چارٹ میں دیکھا کہ عورت کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے اسے یکساں انصاف کہا جا سکتا ہے؟ پھر کس بنیاد پر عورت کے وکیل بنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام کا تباہ کن پہلو یہ ہے کہ اسلام عورت کو حقیر درجہ دیتا ہے۔ وہ اسلام جو مائوں کے قدموں تلے جنت ٹھہراتا ہے۔وہ اسلام کا پیغمبر ﷺہے جو حقیقی نہیں رضاعی ماں بہن کے بیٹھنے کے لیے اپنی چادر بچھا دیتا ہے۔ وہ اسلام ہے جس کا شارح اپنی بیٹی کی آمد پر اٹھ کر استقبال کرتا ہے ۔وہ اسلام جو دختر کشی کی لعنت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یہی دین اسلام ہے جو دو بہنوں کو بہ یک وقت زوجیت میں لینے سے منع فرماتا ہے۔ عورت کے ہر شعبہ زندگی سے متعلق حقوق عطا کرتا ہے۔ خواہ ماں بہن بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے حق ہو یا شادی بیاہ، خیار بلوغ، کفالت، تحفظ، بچوں کی پرورش، خلع، مہر، میراث ، گواہی اور رائے دہی کے حق سے سرفراز کرتا ہے۔ لیکن مستشرقین پھر بھی ہم سے گِلہ کرتے ہیں کہ وفادار نہیں۔ یہ تو ان کی نا انصافی اور عقلی فتور کی جلوہ گری ہے۔
اعتراض نمبر۱۵۷
بعض حقِ رائے دہی کا سہرہ مغرب کے سر رکھتے ہیں‘‘۔
جواب:اسلام نے عورت کو سربراہ مملکت کے چنائو، قانون سازی اور دیگر ریاستی معاملات میں مردوںکے برابر رائے دہی کا حق عطا کیا ہے۔ برطانیہ میں ۱۸۹۷ء میں رائے دہی کے لیے جدو جہد کا آغاز ہوا۔ ۱۹۱۸ء میں تیس سال سے زائد عمر خواتین کو رائے دہی کا حق دیا گیا۔ امریکہ میں جولائی ۱۷۷۶ء کا اعلان آزادی کو بہت اہمیت دی جاتی ہے مگر اس میں بھی عورت کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا۔ رچرڈ این کرنٹ کہتا ہے’’ نو آبادیاتی معاشرہ میں ایک شادی شدہ عورت کے کوئی حقوق نہ تھے اور نہ ہی انقلاب آزادی سے اس میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی‘‘۔ انیسویں صدی کی امریکہ کی عورتوں کی علم بردارSusan B Anthony کو ۱۸۷۲ء میں صدارتی الیکشن میں ووٹ ڈالنے پر گرفتار کر لیا گیا اور ایک سو ڈالر کا جرمانہ کیا گیا۔ کیوں کہ رائے حق دہی حاصل نہیں تھا۔ عورتوں کو حق رائے دہی کے تفویض کرنے کے لیے جدو جہد ہوتی رہی ۔ بالآخر پہلی بار سب سے پہلے نیوزی لینڈ وہ ملک ہے جس نے یہ حق ۱۸۹۳ء میں عورتوں کو دیا۔ آج کی جدید دنیا میں عورت کو حق رائے دہی طویل مسافت طے کرنے کے بعد بیسویں صدی میں حاصل ہوا۔ ۱۴۴ ممالک میں عورتوں کو ملنے والے حق رائے دہی کی جدو جہد ۱۸۹۳ء سے شروع ہوئی اور ۱۹۸۰۔۱۹۷۵(Vanuatu) تک حق رائے دہی ملتا رہا۔ جب کہ مسلمان خواتین کو مدتوں پہلے یہ حق اسلام نے عطا کر رکھا تھا۔ قرآن حکیم میں عورتوں کی بیعت سے متعلق ہے۔ ترجمہ: اے نبی جب آپ کی خدمت میں مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں گی اور چوری نہیں کریں گی اور اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی اور اپنے ہاتھوں اور پائوں کے درمیان سے کوئی جھوٹا بہتان گھڑ کر نہیں لائیں گی( یعنی شوہر کو دھوکہ دیتے ہوئے کسی غیر کے بچے کو اپنے پیٹ سے جنا ہوا نہیں بتائیں گی) اور (کسی بھی) امر شریعت میں آپ کی نا فرمانی نہیں کریں گی تو آپ ان سے بیعت لے لیا کریں اور ان کے لیے اللہ سے بخشش طلب فرمائیں‘ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے‘‘۔ (الممتحنہ ۶۰۔۱۲)
آپ کی اس سنت مبارکہ پر عمل خلافت راشدہ میں بھی ہوتا رہا اور رائے دہی کے معاملات میں خواتین بھرپور شرکت کرتی تھیں۔ حضرت مسور بن مخرمؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے اپنے بعد جانشین کے انتخاب کے لیے چھ رکنی کمیٹی بنائی تو حضرت عبد الرحمن بن عوف کو چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا۔ا نھوں نے استصوابِ عام کے ذریعے مسلسل تین دن گھر گھر جا کر لوگوں کی آراء معلوم کیں۔جن کے مطابق بھاری اکثریت نے حضرت عثمان ؓ کو خلیفہ بنائے جانے کے حق میں ہاں کر دی۔ اس الیکشن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ تاریخ میں پہلی بار ایسی مثال قائم کی گئی۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے آج سے چودہ سو سال قبل عورت کو حقِ رائے دہی عطا کیا‘‘۔ ( اسلام میں خواتین کے حقوق۱۱۱ ۔ ۱۲۶) دہلی ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس مسٹر راجندر سچر نے ایک مرتبہ دہلی کی ایک تقریب میں کہا’’ تاریخی طور پر اسلام عورتوں کو جائیداد اور پراپرٹی کے حقوق عطا کرنے میں بہت زیادہ فراخ دل اور ترقی پسند واقع ہوا ہے۔ یہ ایک مُسلّمہ حقیقت ہے کہ ۱۹۵۶ء تک ہندو Codebill (کوڈ بل) بننے سے پہلے ہندو عورتوں کا جائیداد میں کوئی حصہ نہ تھا۔ جب کہ اسلام مسلم عورتوں کو یہ حقوق چودہ سو سال قبل دے چکا تھا‘‘۔ ( امہات المومنین۔۱۵۔۱۴) اسی طرح اسلام نے ہر شعبہ زندگی سے متعلق حقوق ‘عورت کو عطا کیے اور حقِ رائے دہی بھی اسلام کا مرہون منت ہے۔
اعتراض نمبر ۱۵۸
امت کے لیے تو مثنیٰ و ثلث اور ربع کے اجازت کے بعد چار تک کی تحدید کر دی گئی اور جن امیتوں کے پاس چار سے زیادہ بیویاں تھیں ان سے چار کے علاوہ کو جدا کیا گیا لیکن خود حضورؐ نے اس پر عمل نہیں فرمایا بل کہ جو نو بیویاں نزول آیت کے وقت تھیں وہ بدستورر ہیں۔ اپنے لیے یہ رعایت اور امت کو اس رعایت سے محروم رکھتے ہیں ‘ کیا مصلحت ہو سکتی ہے؟ یہ دوہرا معیار کیوں؟
جواب:ڈاکٹر حمید اللہ کی تقریر؛ ’’ تعداد ازواج کے سلسلے میں قرآن مجید کے نئے حکم سے ازواج مطہرات کو آگاہ کیا کہ ایک مرد کے ہاں چار بیویاں بہ یک وقت رہ سکتی ہیں۔ احکام خدا وندی کی بنیاد پر رسول اللہ نے انھیں بتایا’’ اگرچہ میں تم سب کو اپنی بیوی کی طرح رکھنے کو تیار ہوں مگر ایک شرط پر کہ میں ازواجی تعلقات ایک وقت میں چار سے رکھوں گا۔اس پر سب نے اتفاق کیا۔ رسول خدا نے آیت کے الفاظ کی تعبیر اس طرح کی جیسا قرآن بتاتا ہے(۳۳۔۵۱) ’’ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غم زدہ نہ ہوں‘‘۔ دراصل نبی کریم جن چار بیویوں سے ازواجی تعلقات رکھتے تھے ان میں وہ رد وبدل کرتے رہتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد پہلی چار کی جگہ دوسری چار جگہ لے لیتی تھیں لیکن قرآنی آیات کی تفسیر و تعبیر اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آئی۔چناں چہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگلی آیت نازل ہوئی(۳۳۔۵۲) اس کے بعد آپ کے لیے عورتیں حلال نہیں ورنہ یہ آپ ان سے اور عورتیں تبدیل کریں۔اگرچہ آپ کو ان کا حسن پسند آئے۔اِلّا جو آپ کی مملوکہ ہوں اور اللہ ہر چیز پر نگران ہے۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ خود رسول اللہ کی ذات شادی کے معاملے میں بھی قانون سے بالا تر نہیں‘‘۔ ( محمد رسول اللہ۔۲۵۸۔۲۵۶)۔ ( ن ۲۔۶۴۶)
سورہ الاحزاب آیت ۵۰ تا ۵۳ کا ترجمہ: ’’ اے نبی ! ہم نے تمھارے لیے حلال کردیں وہ بیویاں جن کے مہر تم نے ادا کیے ہیں اور وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے تمھاری ملکیت میں آئیں اور تمھاری وہ چچا زاد اور پھوپھی زاد اور ماموں زاد اور خالہ زاد بہنیں جنھوں نے تمھارے ساتھ ہجرت کی اور وہ مومن عورت جس نے اپنے کو نبی کے لیے ہبہ کیا ہو، اگر نبی ان سے نکاح کرنا چاہیں،یہ رعایت خالصتاََ تمھارے لیے ہے دوسرے مومنوں کے لیے نہیں ہے۔ہم کو معلوم ہے کہ تمام مومنوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں ہم نے کیا حدود عائد کی ہیں۔ تمھیں اختیار ہے کہ اپنی بیویوں میں سے جسے چاہیں اپنے سے الگ رکھو، جسے چاہو اپنے ساتھ رکھو اور جسے چاہو الگ رکھنے کے بعد اپنے پاس بلا لو،اس معاملے میں تم پر کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اس طرح زیادہ متوقع ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی اور وہ رنجیدہ نہ ہوں گی اور جو کچھ بھی تم ان کو دو گے اس پر وہ سب راضی رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ تم لوگوں کے دلوں میں ہے اور اللہ علیم و حلیم ہے۔ اس کے بعد دوسری عورتیں تمھارے لیے حلال نہیں ہیں اور نہ ہی اس کی اجازت ہے کہ ان کی جگہ اور بیویوں کو لے آئو، خواہ ان کا حسن تمھیں کتنا ہی پسند ہو البتہ لونڈیوں کی تمھیں اجازت ہے۔ اللہ ہر چیز پر نگران ہے‘‘۔ ان آیات میںمذکورہ الزام کا جواب دیا گیا ہے’’ جنھیں مہر دے کر تم اپنے نکاح میں لائے ہو‘ ہم نے تمھارے لیے حلال کی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس جواب کا مطلب یہ ہے کہ ۱:عام مسلمانوں کے لیے چار کی قید لگانے والے بھی ہم ہیں اور اپنے نبی کو اس قید سے مستثنیٰ کرنے والے بھی ہم خود ہیں۔
۲: اگر وہ قید لگانے کے ہم مجاز ہیں تو آخر اس استثناء کے مجاز ہم کیوں نہیں ہیں؟
۳: قرآن کی ایک محکم آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ نبی نے چار بیویوں کے عام قانون سے اپنے آپ کو مستثنیٰ نہیں کیا بل کہ یہ استثناء کا فیصلہ ہمارا کیا ہوا ہے۔
۴: وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے آپ کی ملکیت میں آئیں‘ اس اجازت کے مطابق حضور نے غزوہ بنی قریظہ کے سبایا میں سے حضرت ریحانہؓ‘ غزوہ بنو المصطلق کے سبایا میں سے حضرت جویریہ‘ ؓ غزوہ خیبر کے سبایا میں حضرت صفیہؓ اور مقوقس مصر کی بھیجی ہوئی ماریہ قبطیہ کو اپنے لیے مخصوص کیا۔ ان میں سے مقدم الذکر تین کو آپ ﷺنے آزاد کر کے ان سے نکاح کیا تھا لیکن ماریہ قبطیہ کو اپنے لیے مخصوص کیا۔ ان میں سے مقدم الذکر تین کو آپ نے آزاد کرکے نکاح کیا تھا لیکن ماریہ سے بر بنائے ملک یمین تمتع فرمایا۔
۵: آپ کی چچا زاد، ماموں زاد، پھوپھی زاد اور خالہ زاد بہنوں میں سے وہ خواتین جو ہجرت میں بھی آپ کے ساتھ رہی ہوں بل کہ یہ تھا کہ وہ بھی اسلام کی خاطر راہ خدا میں ہجرت کر چکی ہوں۔ حضور کو اختیار دیا گیا کہ ان رشتہ دار مہاجر خواتین میں سے بھی جس سے چاہیں نکاح کر سکتے ہیں۔ اس اجازت کے مطابق ۷ھ میں آنحضرتؐ نے ام حبیبہ سے نکاح فرمایا۔
۶: ضمناََ اس آیت میں یہ بھی ہے کہ چچا، ماموں، پھوپھی اور خالہ کی بیٹیاں ایک مسلمان کے لیے حلال ہیں۔اس معاملہ میں اسلامی شریعت عیسائی اور یہودی دونوں مذاہب سے مختلف ہے۔ عیسائیوں کے ہاں ایسی عورت سے نکاح نہیں ہو سکتا جس سے سات پشت تک مرد کا نسب ملتا ہو اور یہودیوں کے ہاں سگی بھانجی، بھتیجی تک سے نکاح جائز ہے۔
۷: وہ مومن عورت جو اپنے آپ کو نبی پاک کے لیے ہبہ کرے یعنی بلا مہر اپنے آپ کو حضور کے نکاح میں دینے کے لیے تیار ہو اور اگر حضور اسے قبول کریں ، اس اجازت سے آپ نے شوال ۷ھ میں حضرت میمونہ سے نکاح فرمایا لیکن آپ نے پسند نہ کیا کہ مہر کے بغیر ان کے ہبہ سے فائدہ اٹھائیں۔ اس لیے آپ نے ان کی کسی خواہش اور مطالبہ کے بغیر ان کو مہر دیا تھا۔ بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ حضور کے نکاح میں کوئی موہوبہ بیوی نہ تھی مگر اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ آپ نے ہبہ کرنے والی بیوی کو بھی مہر دیے بغیر نہیں رکھا۔
۸: (یہ رعایت خالصتاََ تمھارے لیے ہے دوسرے مومنوں کے لیے نہیں) اس فقرہ کا تعلق اگر صرف قریب کے فقرہ سے مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ دوسرے کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ کوئی عورت خود کو اس کے ہبہ کرے اور بلا مہر اس سے نکاح کرے اور اگر اس کا تعلق اوپر کی پوری عبارت سے مانا جائے تو اس سے مراد ہوگی کہ چار سے زیادہ نکاح کرنے کی رعایت بھی صرف نبی مکرمﷺ کے لیے ہے عام مومنین کے لیے نہیں ہے۔ اس آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کچھ احکام نبی کریم ﷺکے لیے خاص ہیں۔جن میں امت کے دوسرے لوگ آپ کے ساتھ شریک نہیں ہیں۔ قرآن و سنت کے ذریعے ایسے متعدد احکام کا پتہ چلتا ہے مثلاََ حضورﷺ کے لیے نماز تہجد فرض تھی اور باقی تمام امت کے لیے نفل ہے۔ آپ ﷺکے لیے اور آپﷺ کے خاندان والوں کے لیے صدقہ حرام ہے اور کسی دوسرے کے لیے حرام نہیں۔ آپ ﷺکی میراث تقسیم نہیں ہو سکتی تھی،باقی سب کی میراث کے لیے وہ احکام ہیں جو سورہ النساء میں ہیں۔ آپﷺ کے لیے چار سے زائد بیویاں حلال کی گئیں، بیویوںکے درمیان عدل آپ پر واجب نہیں کیا گیا، اپنے نفس کو ہبہ کرنے والی عورت سے بلا مہر نکاح کرنے کی آپ کو اجازت ہے اور آپ کی وفات کے بعد آپ کی بیویاں تمام امت پر حرام کر دی گئیں۔ ان میں سے کوئی خصوصیت بھی ایسی نہیں جو حضور کے علاوہ کسی مسلمان کو حاصل ہو نیز کتابیہ عورت سے نکاح ممنوع تھا حالاں کہ باقی امت کے لیے وہ حلال ہے۔
۹: قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَ ضْنَا عَلَیْھِمْ فِیْ اَزْوَاجِھِمْ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ لِکَیِْلَا یَکُوْنَ عَلَیِْکَ حَرَجٌ‘‘۔ ہم کو معلوم ہے کہ عام مومنوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں ہم نے کیا حدود عائد کیں تمھیں ان حدود سے ہم نے اس لیے مستثنیٰ کیا ہے تا کہ تمھارے اوپر کوئی تنگی نہ رہے‘‘۔ یہ وہ مصلحت ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺکو عام قاعدہ سے مستثنیٰ فرما دیا۔ ’’ تنگی نہ رہے‘‘ کا مطلب یہ نہیں کہ نعوذ باللہ آپ کی خواہشات نفسانی بہت بڑھی ہوئی تھیں۔اس سے آپ کو بہت سی بیویوں سے شادی کی اجازت دے دی گئی تھی تا کہ آپ صرف چار بیویوں تک محدود نہ رہیں اور تنگی محسوس نہ کریں۔ اس فقرہ کا مطلب صرف وہی شخص لے سکتا ہے جو تعصب میں اندھا ہو کر اس بات کو بھول جائے کہ محمد ﷺ نے ۲۵ سال کی عمر میں ایک ایسی خاتون سے شادی کی جن کی عمر ۴۰ برس تھی اور پورے ۲۵ سال تک آپﷺ ان کے ساتھ نہایت خوش گوار ازواجی زندگی بسر کرتے رہے۔ ان کے انتقال کے بعد آپ نے ایک سن رسیدہ خاتون حضرت سودہؓ سے نکاح کیا اور چار سال تک تنہا وہی آپﷺ کی بیوی رہیں۔ اب کون صاحب عقل اور ایمان دار یہ تصور کر سکتا ہے کہ ۵۳ سال عمر گذرجانے کے بعد یکا یک حضورﷺ کی خواہشات نفسانی بڑھتی چلی گئیں۔اور تنگی محسوس کی‘ دراصل تنگی نہ رہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف تو اس کارِ عظیم کو نگاہ میں رکھے جس کی ذمہ داری اللہ پاک نے آپ پر ڈالی تھی۔ دوسری طرف ان حالات کو سمجھیں جن میں یہ کارِ عظیم انجام دینے کے لیے آپ کو مامور کیا گیا تھا۔ تعصب سے ذہن پاک کر کے ان دونوں حقیقتوںکو سمجھ لینے سے ہر فرد بخوبی جان لے گا کہ بیویوں کے معاملے میں آپ کو اجازت دینا کیوں ضروری تھا اور چار کی قید میں آپ کے لیے کیا تنگی تھی۔( تفہیم القرآن۴۔۱۱۳)
دوسروں کے لیے چار، اپنے لیے نو بیویوں کی چھوٹ کیوں؟ اور بعض اسے سنت قرار دیتے ہیں( اس الزام کے جواب میں محمد جعفر کی تقریر)
مسیحی اور دوسرے غیر مسلموں اور ان کے ہم نوا آزاد خیال حضرات کی نظروں میں حضور اکرم کا بہ یک وقت نو بیویاں حرم میں رکھنا بہت کھٹکتا ہے اور دوسری طرف خود مسلمان حضور کی صحیح پوزیشن کو نہ سمجھنے کے باعث ہر حال میں تعدد ازواج کو سنت قرار دیتے ہیں۔ یہ دونوں نظریے نظرِ ثانی کے محتاج ہیں۔ایک شبہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ امت کے لیے تو مثنیٰ، ثلث اور ربع کے نزول کے بعد چار تک تحدید کر دی گئی اور جن امتیوں کے پاس چار سے زیادہ بیویاں تھیں ان سے چار کے علاوہ جدا کر دیا گیا لیکن خود حضور نے اس پر عمل نہیں کیا بل کہ جو نو بیویاں نزول آیت کے وقت تھیں وہ بدستوررہیں۔ اپنے لیے یہ رعایت اور امت کو اس رعایت سے محروم رکھنے میں کیا مصلحت ہو سکتی ہے؟ بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ حضورؐ کے لیے یہ رعایت ہے اور امت اس رعایت سے محروم ہے لیکن معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے۔ مند رجہ ذیل حقائق پر غور کیجئے۔
الف: ہر مسلمان کے لیے چچا، ماموں اور خالہ اور پھوپھی زاد بہنیں نکاح میں لانا جائز ہیںلیکن رسول اللہﷺ کے لیے ان نو عورتوں کے بعد ہمیشہ کے لیے نکاح کا دروازہ بند ہو گیا۔ارشاد ربانی ہے۔’’ لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَائُ مِن بَعدوہُ تَبَدَّلَ بِھِنَّ مِن اَزوَاجِِ وَّلَو اَ عجَبَکَ حُسنَھُنَّ‘‘ ’’ اے رسول! اب موجودہ بیویوں کے بعد آپ کے لیے دوسری عورتیں حلال نہیں اور نہ ان کو الگ کر کے دوسری ازواج کرنا حلال ہے اگرچہ دوسری عورتوں کا حسن بھی آپؐ کو بھاتا ہو۔ ان آیات سے واضح ہوتا ہے حضور کے لیے ان سے اسی صورت میں نکاح جائز ہے جب کہ ان عورتوں نے اسلام کی خاطر ہجرت کی ہو ۔ ارشاد خداوندی ہے ’’ بنت عمک و بنت عمتک و بنت خالک وبنت خالتک التی ھاجرن معک‘‘ یہی وجہ ہے کہ حضور کے سگے چچا ابو طالب کی بیٹی ام ہانی حضور کے لیے حلال نہ تھیں کیوں کہ وہ فتح مکہ کے بعد ایمان لائی تھیں جب کہ ہجرت ختم ہو چکی تھی۔
ب: ہر امتی بشرط عدل و انصاف چار بیویاں رکھ سکتا ہے لیکن قانوناََ وہ ان سب کو یا بعض کو الگ کرکے دوسری عورتوں کوحبالہ عقد میں لا سکتا ہے۔ وہ اس طرح قانون سے اپنی ہوس اور نفسانی خواہش کو پورا کرنے کے لیے نا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے سینکڑوں نکاح کر سکتا ہے۔
ف: امت کا کوئی فرد ایک بیوی کی وفات کے بعد یا ضرورت ہو تو زندگی میں دوسری اور یوں ہی تیسری ،چوتھی بیوی کر سکتا ہے لیکن رسول کے لیے ام المومنین میمونہؓ کے بعدیہ دروازہ بند ہو جاتا ہے۔
امت کے لیے بیویوں کو طلاق دے کر اس کے بجائے دوسری بیویاں کرنے کا امکان موجود ہے لیکن رسول اللہ ﷺکو اس کی بھی اجازت نہیں۔
امت کے لیے نا موافقت مزاج یا کسی دوسری عورت کی کشش حسن تبدیل زوج کا بہانہ بن سکتی ہے لیکن رسول اللہﷺ کے لیے یہ راہ بھی مسدود ہے۔ذرا انصاف کیجئے! رعائیتں امت کے لیے ہیں یا رسول اللہﷺ کے لیے ہیں؟ یہاں زیادہ سے زیادہ چار کی تحدید ہے لیکن موت زوجہ، نا موافقت مزاج اور کسی کی کشش حسن تبدیل و تجدید ازواج کے بہانے بن جاتے ہیں لیکن وہاں ایک کے سوا ساری عورتیں سن رسیدہ، بیوہ، مطلقہ ہونے کے با وجود نہ تجدید بعد الموت کی اجازت ہے نہ تبدیل بعد از طلاق کی اور نہ نو پر کسی اضافے کی۔ بنظر غور دیکھتے ہیں تو رعایت امت کے لیے زیادہ ہے یا خود رسول اللہ ﷺکے لیے؟ تقریر ختم ہوئی ۔
نو میں سے پانچ بچ رہیں۔ ان نو بیبیوں میں سے پانچ کو دور نہیں کیا جا سکتا۔ ان کوزوجیت میں رکھنا نا گزیر ہے۔ ارشاد خدا وندی ہے
’’وَمَا کَانَ لَکُمْ اَنْ تُوذُوْا رَسُولَ اللّٰہِ وَلَااَنْ تَنْکَحُوْا اَزْوَاجِہٖ مِن مْ بَعدِہٖ اَبَدًا ، اِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ عِنْدَ اللّٰہِ عَظِیْمًا‘‘ ( الاحزاب۵۳،پارہ۲۲)ترجمہ: اور تمھیں نہیں پہنچتا کہ رسول اللہ کو ایذا دو اور نہ یہ کہ ان کے بعد کبھی ان کی بیبیوں سے نکاح کرو‘‘۔ کیوں کہ جس عورت سے آپ نے نکاح
فرمایا وہ آنحضرت ﷺکے سوا ہر شخص پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو گئی۔اس طرح وہ کنیزیں جو باریاب خدمت ہوئیں اور قرابت سے سرفراز ہوئیں اسی طرح وہ بھی سب کے لیے حرام ہیں( کنز الایمان ص ۷۶۸) اس آیت کی روشنی میں اگر انھیں دور کر دیا جاتا تو کسی اور کے نکاح میں آتی نہیں ہیں تو وہ کس طرح بے کیف زندگی گزارتیں اگر وہ بے یار و مددگار چھوڑ دی جاتیں تو دشمن طوفانِ بدتمیزی برپا کر دیتے اور آوازے کستے اور کہتے پہلے انھیں رکھا،اب ان سے علیحدگی کر لی وغیرہ وغیرہ۔’’ اَلنَّبِیُّ اَوْلیٰ بِالْمُؤْ مِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَاَزَْوَاجُہٗ اُمَّہَاتُھُمْ‘‘(الاحزاب۶، پارہ۲۲)۔ ترجمہ: نبی مومنوں کے ساتھ خود ان کے نفس سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں۔آپ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔
اس صورت میں وہ کسی کے نکاح میں نہیں آ سکتیں ۔وہ مومنوں کی مائیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کہنے، سننے ،سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
بائبل کے موجب حضرت مسیح ؑ کا نسب کہ وہ حضرت مریم ؑ سے بن باپ کے پیدا ہوئے ہیں یہ نسب خود ان کے حق میں درست اور ثابت ہے اور عام ضابطہ میں مرد وزن یعنی جوڑے سے پیدائش ہوتی ہے گویا یہ قانون صرف حضرت مسیحؑ سے متعلق ہے ۔ حضرت موسیٰ ؑ نے ایک قبطی و اسرائیلی کو باہم لڑتے دیکھا تو قبطی کو مکا مار کر ہلاک کر دیا ( کتاب استسناء باب ۲۱) کیا یہ قتل جائز تھا یا ناجائز ۔۔۔ اگر جائز ہے تو بائبل سے ثابت کریںاگر ناجائز ہے تو کیا حضرت موسیٰ ؑ کی نبوت اس سے داغدار نہیں ہوتی ‘ اگر نہیں ہوتی تو اس کی وجہ کیا ہے ؟ اگر قتل ناجائز تھا تو حضرت موسیٰ ؑ کو اس وقت کے قانون کے مطابق قتل کی سزا دی گئی یا نہیں ‘ اگر دی گئی تو ثابت کریں ۔ اگر نہیں دی گئی تو اس کی وجہ کیا ہے ؟اس کی وجہ صرف یہ ہے حضرت عیسیٰ ؑ کی ولادت بن باپ اور حضرت موسیٰ ؑ کا قتل استثنائی اور اسپیشل قانون کے مطابق تھا اسی طرح چار سے زیادہ بیویوں کا رکھنا آپ ﷺ کے حق میں کیونکر استثنائی قانون نہیں ہو سکتا اور اس پر اعتراض کیوں ؟
دوسرا جواب یہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طر ف سے دیا گیا ہے ۔’’ وَلَقَد اَرسَلناَ رُسُلہَ مِن قَبلِکَ وَجَعَلناَ لَھُم اَزواَ جاََ وَّ ذُرِیَّتہ(رعد: ع ۶) ترجمہ: اور البتہ بے شک ہم نے تجھ سے پہلے پیغمبر بھیجے اور ان کو عورتیں اور اولاد دی ‘‘ْ۔
اس آیت میں واضح بتایا گیا ہے کہ اے محبوب ﷺ آپ سے پہلے جو پیغمبر آئے ہیں ہم نے ان کو عورتیں دیں جیسا کہ تجھ کو دیں۔ پہلے پیغمبروں کی بیویاں مانتے ہو تو رسول اکرم ﷺ کی تعدد ازواج پر الزام کیوں ہے ؟
ہیکل نے تصریح کی ہے کہ حضورﷺ کی بیویوں کا نکاح آٹھ ہجری سے قبل یعنی قانون مثنیٰ و ثلث و ربع سے قبل وجود میں آیا َ قانون اربعہ سے قبل امت کے لیے بھی چار سے زائد کی اجازت تھی کیونکہ قانون اربعہ کے نزول سے پہلے فرق ہی نہ تھا ۔ نبی اور امتی کے لیے چار سے زائد کی بندش نہ تھی ۔ اس پر اگر یہ اشکال وارد ہو تو نزول قانون اربعہ کے بعد زائد بیویوں کو الگ کر دیا گیا ہے جسے ابن کثیر نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے تو حضور ﷺ بھی امت کی طرف چار بیویاں جن کا نکاح مقدم تھا ان کو چھوڑ کر باقی کو الگ کر دیتے ‘ تو میں کہتا ہوں اس میں نبی اور امتی کا فرق کیا گیا ہے اور یہ حضور ﷺ کے خصائص میں سے ہے ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...