Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات |
حسنِ ادب
سیرتِ سرورِؐعالم: پر اعتراضاتِ مستشرقین کے جوابات

ام المومنین حضرت سودہؓ
ARI Id

1689956726155_56117754

Access

Open/Free Access

Pages

۳۹۴

ام المومنین حضرت سودہ ؓ
حضرت سودہ ؓ کے والد کا نام زمعہ اور والدہ کا نام شموس بنت قیس تھا ۔ آپ کے نانا قیس نبی پاکﷺ کے پردادا حضرت ہاشم کی بیوی ام سلمیٰ کے بھائی تھے ۔ ان کا تعلق مدینہ کے قبیلہ بنو نجار سے تھا ۔ حضرت سودہ ؓ کی پہلی شادی چچا زاد سکران بن عمرو(سقران) سے ہوئی ۔ حضرت خدیجہ ؓ کے انتقال کے بعد گھر کے انتظام کرنے میں تبدیلی آئی ۔ نگہداشت کرنے والا بچیوں کے لیے نہیں تھا ۔ دو چھوٹی بچیاں ام کلثوم اور حضرت فاطمہ ؓ تھیں ۔ حضرت خولہ ؓ نے خود کو آنحضرت ﷺ کی خدمت کے لیے مخصوص کر رکھا تھا ۔ انہوں نے ایک دن ادباََ درخواست کی کہ آپ شادی کر لیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ! کس سے ؟ حضرت خولہ ؓ نے کہا ایک بیوہ سودہ بنت زمعہ اور ایک کنواری حضرت عائشہ ؓ بنت ابو بکر صدیق ؓ ہے ۔ آپ نے فرمایا ’’ دونوں کے لیے پیغام لے جائو ‘‘ ۔ بالآخر دونوں یکے بعد دیگرے آپ ﷺ کے عقد میں آئیں ۔
اعتراض نمبر۱۰۳
حضرت سودہ ؓ کو بوڑھی ہونے کے سبب آپ ﷺ نے طلاق دے دی ۔
جواب: عبدالدائم دائم ( سید الوریٰ ۔۳۔۳۷۸۔۳۷۷) فرماتے ہیں ’’ بعض کتب میں مذکور ہے کہ جان دو عالم ﷺ نے ان کو طلاق کہلا بھیجی ۔ حضرت سودہ ؓ کو حد سے زیادہ قلق ہوا اور وہ اس راہ پر بیٹھ گئیں جس سے آپ ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے پاس آیا جایا کرتے تھے ۔ جب آپ نے جان دو عالم ﷺ کو دیکھا تو عرض کی ! میں آپ کو اس ذات کو واسطہ دیتی ہوں اور پوچھتی ہوں ، جس نے آپ پر کتاب اتاری اور اپنی مخلوق میں سے آپ کو برگزیدہ بنایا ، آپ نے مجھے طلاق کیوں بھیجی ؟ آپ نے مجھ میں کوئی ایسا عیب دیکھا ہے جس کی وجہ سے آپ ناراض ہو گئے ہیں ۔ ‘‘ نہیں ! جان دو عالمﷺ نے فرمایا : للہ آپ رجوع فرما لیں ، میں بوڑھی ہوں مجھے مرد کی چنداں ضرورت نہیں لیکن میں یہ چاہتی ہوں کہ میرا حشر آپ ﷺ کی ازواج میں ہو ۔ آخر جان دو عالم ﷺ نے ان سے رجوع فرما لیا اس پر حضرت سودہؓ نے کہا کہ میں اپنی باری کا دن حضرت عائشہ ؓ کو دیتی ہوں۔ لیکن یہ بات جان دو عالم ﷺ کی شان کے شایاں نہیں اور آپ کی ذات اقدس سے بعید ہے کہ آپ ﷺ حضرت خدیجہ ؓ کے بعد ایک عمر رسیدہ سے شادی کر لیں جو گھر کی حفاظت و نگرانی کے لیے مو زوں ہو اور ماں کی طرح نو عمر بچیوں کی دیکھ بھال کرے اور چند سال بعد جب گھر میں دوسری نو عمر بیویاں آجائیں تو اس کو صرف اس لیے طلاق دینے پر آمادہ ہو جائیں کہ وہ بوڑھی ہو گئی ہیں ۔ پھر جب وہ اپنی باری کا دن آپ ﷺ کی چہیتی بیوی کو ہبہ کر دیں تو اس بوڑھی عورت حضرت سودہ ؓ کو اپنی زوجیت میں رکھنے پر آمادہ ہو جائیں ، حالانکہ حضرت سودہ ؓ سے پہلے جس وقت آپ ﷺ کا عالم شباب تھا ، آپ نے ایک عورت حضرت خدیجہ ؓ کے ساتھ پچیس سال گزار دیئے اور اس دوران آپ ﷺنے کسی عورت سے نکاح کرنے کا خیال تک نہیں فرمایا ، اگر آپﷺ چاہتے تو آپﷺ کے لیے نو جوان باکرہ عورتوں کی کمی نہ تھی لیکن آپ ﷺنے ایسا نہیں کیا تاآنکہ خدیجہ ؓ کا وصال ہو گیا۔ آپﷺ عمر بھر ان کو یاد فرماتے رہے حتیٰ کہ حضرت عائشہ ؓ کو بھی ان پر رشک آتا تھا ۔‘‘ بوڑھی ہونے کے سبب آپ نے طلاق نہیں دی تھی بلکہ یہ از خود حضرت سودہ ؓ کا وہم و گمان تھا کہ کہیں آپﷺ انہیں طلاق نہ دے دیں ۔
اعتراض نمبر۱۰۴
آنحضرت ﷺ کا زیادہ میلان حضرت عائشہ ؓ کی طرف ہونے کے باعث انہیں اپنی باری ہبہ کر دی تا کہ ان کی محبوب بیوی کی یہ خدمت کر کے جان دو عالم کی مزید قربت و محبت حاصل کر سکے ۔
جواب: ترمذی اور طبرانی میں سید نا ابن عباس سے روایت ہے کہ سیدہ سودہ ؓ کو یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں آپ ﷺ انہیں طلاق نہ دے دیں اس پر سودہ ؓ نے عرض کی کہ آپ مجھے طلاق نہ دیں بلکہ اپنے ہاں رکھیں ، میں اپنی باری حضرت عائشہ ؓ کو دیتی ہوں ، چنانچہ انہوں نے اپنی باری حضرت عائشہ ؓ کو دے دی ، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ’’ فلاجناح علیھا ۔۔۔ والصلح خیر ‘‘ ( النساء ۱۲۸،پارہ۵)
حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے ، وہ فرماتی ہیں کہ سودہ بنت زمعہؓ جب بوڑھی ہو گئیں تو انہیں اندیشہ ہوا کہ کہیں رسول اللہ ﷺ انہیں اپنے آپ سے جدا نہ کر دیں ، سیدہ سودہ ؓ نے عرض کی ! یا رسول اللہ ﷺ ! میری باری عائشہ ؓ کے لیے ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی اس عرضداشت کو قبول فرمایا ۔ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔
’’ و ان المراۃ خافت من بعلھا نشوزا اواعراضا فلا جناح علیھا ان یصلھا بینھما صلحا والصلح خیر ‘‘ ( ترجمہ ) اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے غالب احتمال بے پرواہی کا ہو سو دونوں کو اس امر میں کوئی گناہ نہیں کہ دونوں باہم ایک خاص طور پر صلح کر لیں اور یہ صلح بہتر ہے )
اہم نکتہ : شایدکسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ آنحضرت ﷺ نے سودہ ؓ سے حضرت عائشہ ؓ کو باری لے کر دینے کو کہا ہو ،(نعوذ باللہ) یہ بالکل خیال باطل ہے اور مفسد ذہن کی اختراع ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت سودہ ؓ کو از خود اندیشہ ہوا کہ آپ بوڑھی ہو گئی ہیں اور آنحضرت ﷺ کہیں طلاق نہ دے دیں ۔ انہوں نے اس بناء پر اپنی مرضی سے اپنی باری حضرت عائشہ ؓ کو ہبہ کر دی ۔ نیز اس اصل واقعہ کے دو اہم سبب ہیں ۔ اول ’’ فربہی ‘‘ جس کی تصدیق اس بیان سے ہوتی ہے کہ حجتہ الوداع کے موقعہ پر تیز نہ چل سکنے کی وجہ سے سودہ ؓ نے آپ ﷺ سے عرض کی ، یا رسول اللہ ! میرے لیے بھیڑ میں چلنا بہت دشوار ہے اس لیے مجھے اجازت مرحمت فرما دیں کہ میں رات کو منٰی چلی جائوں ‘‘۔ آپ نے اجازت فرما دی اور سودہ ؓ رات کو ہی مزدلفہ سے منیٰ روانہ ہو گئیں ۔ بخاری شریف کتاب المناسک صفحہ ۶۱۳ پر حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت سودہ ؓ نے مزدلفہ کی رات نبی ﷺ سے روانگی کی اجازت مانگی وہ بھاری بھر کم بدن کی تھیں تو آپ ﷺ نے انہیں اجازت دے دی ۔ ‘‘حضرت عائشہ ؓ سے یہ روایت بھی ہے کہ ہم لوگ مزدلفہ میں اترے تو حضرت سودہ ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے لوگوں کے روانہ ہونے سے پہلے روانگی کی اجازت مانگی اور وہ سست رفتار تھیں تو آ پ ﷺ نے اجازت دے دی وہ لوگوں کے ہجوم سے پہلے ہی روانہ ہو گئیں اور ہم لوگ ٹھہرے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی پھر ہم لوگ آ پ ﷺ کے ساتھ لوٹے اگر میں بھی رسول اللہ ﷺ سے اجازت مانگتی جیسا کہ حضرت سودہ ؓ نے اجازت مانگی تھی تو میرے لیے بہت سی خوشی کی بات ہوتی ۔
دوم: ان کی قوت سماعت کمزور ہو گئی بالآ خر بہری ہو گئیں ۔ ( ن۔۲۔۶۴۹) اندیشہ ان دو سبب سے تھا ۔ فرائض کی بجا آوری میں کوتاہی کا لاحق ہونا بدیہی امر تھا ۔ فرض کریں آپﷺ بلائیں اور وہ سن نہ پائیں اگرچہ یہ بہرے پن کے عارضہ کے سبب ہے نہ کہ جان بوجھ کر حکم عدولی ہے ، اس کو بھی سوء ادب سمجھتی ہیںاور ان اندیشوں اور خدشات کی بناء پر عرض کی کہ یا رسول اللہ ! میرے لیے متاہلانہ زندگی میں کوئی کشش نہیں ، میری صرف یہ خواہش ہے کہ میں یوم نشور کو آپ ﷺ کی زوجہ کی حیثیت سے اٹھائی جائوں ، چنانچہ رسول اللہ انہیں گھرلے آئے ۔( ن۔۲۔۶۴۹) حضرت سودہ ؓ کی التجا محض ان کے اپنے گمان سے تھی جس کی تصدیق حضرت عائشہ ؓ کے بیان سے ہوتی ہے جو اوپر گزر چکا ہے ۔ نیز حضرت سودہ ؓ کا اپنی باری عائشہ ؓ کو دے دینے میں آنحضرت ﷺ کا کوئی عمل دخل نہ تھا ۔ یہ کام حضرت سودہ ؓ نے اپنی مرضی سے کیا تھا ۔
اہم نکتہ ؛ اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت سودہ ؓ نے اپنی باری حضرت عائشہ ؓ کو کیوں ہبہ کی اور کسی دوسری زوجہ کو ہبہ نہیں کی ۔ (۱) حضرت سودہ ؓ نے یہ سارا کام اپنی مرضی سے کیا تھا ۔ وہ اپنی باری کی مالک ہے، جسے چاہے اپنی باری تفویض کریں ۔
(۲)ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی کسی ایک کا کسی دوسرے کے ساتھ زیادہ تعلق اور لگائو ہو سکتا ہے جبکہ تمام ازواج مطہرات بڑی محبت اور پیار کے ساتھ ایک ساتھ رہتی تھیں کبھی کشیدگی کی نوبت نہیں آئی نیز حضرت سودہ ؓ کا کسی سوکن کے ساتھ اختلاف نہیں تھا لیکن حضرت سودہ ؓ اور حضرت عائشہ ؓ کی قربت کی ایک وجہ یہ تھی کہ آگے پیچھے حرم نبوی میں داخل ہوئی تھیں اس کے علاوہ حضرت عائشہ ؓ کی شادی میں حضرت سودہ ؓ نے پوری دلجمعی اور محبت سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ ایک عرصہ تک دونوں ساتھ ساتھ رہیں جس سے بہ نسبت دوسری ازواج کے ان کی Understanding زیادہ تھی کسی قسم کا اختلاف کبھی آڑے نہ آیا ۔ اور یہ پیار بھرے بتائے سالوں کا نتیجہ ہو سکتا ہے کہ سودہ ؓ نے اپنی باری عائشہ ؓ کو دے دی ۔
اعتراض نمبر۱۰۵
اگر کوئی یہ کہہ دے کہ سودہ ؓ کو دوبارہ حرم نبوی میں داخل کرنے کے لیے یہ شرط آپﷺ نے عائد کی ، کہ وہ اپنی باری عائشہ ؓ کو دے دیں ۔
۲۔ بعض نے الزام لگایا کہ آ نحضرت ﷺ نے حضرت سودہ ؓ کو طلاق کیوں دی ؟
جواب: یہ بالکل غلط اور انصاف کے خلاف ہے کیونکہ آپ ﷺ سے بڑھ کر اس جہاں میں اور کون منصف ہو سکتا ہے ۔ بیبیوں کے درمیان وہ انصاف برقرار رکھتے تھے کہ مجال ہے کسی کا لمحہ بھر کے لیے دل ذرامیلا ہو جائے ۔ حجرے الگ الگ تھے ۔ شب باشی کی تقسیم ایسی تھی کہ ہر بی بی کے ہاں دن مقرر تھا ۔ سفر میں بھی قرعہ اندازی کے ذریعے ازواج مطہرات کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے ۔ کسی کو شکایت کا موقع نہیں ملتا تھا ۔ ازدواجی زندگی نہایت پر سکون بسر ہو رہی تھی ۔ ہمیشہ گلشن نبوی کی فضا خوشگوار اور معطر رہتی تھی اور گلشن کا ہر پھول اپنی خوشبو پھیلا رہا تھا ۔ ہر پھول کی بھینی بھینی خوشبو اس جہاں کو مہکا رہی تھی ۔ جہاں تک سفارش کا تعلق ہے اس تاریخی واقعہ سے سارا زمانہ واقف ہے کہ حضرت اسامہؓ نے بنی مخزوم کی فاطمہ نامی عورت کی سفارش کی تھی جسے چوری کی پاداش میں ہاتھ کاٹنے کا اعلان ہو چکا تھا ۔ آپ نے اسامہؓ سے فرمایا ’’اگر محمد ﷺ کی بیٹی فاطمہؓ بھی ہوتی تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ‘‘جبکہ کسی کی بے جا سفارش قابل قبول نہیں تو خود ایسی سفارش کیونکر کرسکتے ہیں ۔؟
اہم نکتہ: اگر کوئی یہ کہہ دے کہ حضرت عائشہ ؓ نے سودہؓ سے باری کی ڈیل کر لی ، جس سے آنحضرت خوش ہو گئے اور سودہ ؓ کو اپنے حرم میں داخل کر لیا ۔(نعوذ باللہ )
جواب: یہ حضرت عائشہ ؓ کی شان میں بہت بڑی گستاخی ہے۔ ان کے بارے میں ایسا گمان کرنا بعید از قیاس ہے ۔ حضرت عائشہ ؓ تو وہ ہیں جن کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا ! ’’ اپنے دین کا نصف علم اس حمیرا سے سیکھو‘‘۔ ( ضیا النبی ۔ ۷۔۴۹۷)
حضرت عائشہ ؓ وہ ہیں جن کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا ’’ مردوں میں بہت سے لوگ رتبہ کمال تک پہنچے ہیں مگر عورتوں میں یہ مقام صرف مریم بنت عمران ، آسیہ زوجہ فرعون ، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمدﷺ نے حاصل کیا اور عائشہؓ کو عورتوں پر وہی فضلیت ہے جو ثرید کو تمام کھانوں پر حاصل ہے ‘‘( حوالہ بالا)
ایسا مرتبہ و مقام کی خاتون جس کی تعریف محبوب کبریا ﷺ فرمائیں اور تربیت نبوی سے فیض یاب ہوں اور اپنے عہد کی معلمہ ، محدثہ ، مفسرہ،اور فقیہہ ہوں تو وہ اس قسم کی ڈیل کا ارتکاب کر سکتی ہیں ؟ ہرگز ہرگز نہیں ۔ آپ ہر قسم کے لالچ اور نا انصافی سے پاک ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ دوسری طرف آپ ﷺ کی شان میں بے ادبی کی گئی ہے جبکہ آپ ﷺ سے ایسی ڈیل پر خوش ہونے کی قطعاََکوئی گنجائش نہیں اللہ سوء ادبی سے بچائے !
اعتراض نمبر۱۰۵ کا دوسرا جز
بعض نے الزام دھرا کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت سودہ ؓ کو طلاق کیوں دی۔؟
جواب: حضرت سودہ ؓ نے عرض کی یا رسول اللہ ! میرے لیے متاہلانہ زندگی میں کوئی کشش نہیں ہے ۔ میری خواہش ہے کہ میں یوم نشور آپ کی زوجہ کی حیثیت سے اٹھائی جائو ں ، چنانچہ آپ انہیں اپنے گھر لائے ۔ اگر طلاق رجعی تسلیم کر بھی لیں تو یہ بھی آپ ﷺ کی شان کریمی اور رحمۃاللعالمینی کا تقاضا ہے کہ آپ نے امت کے لیے نمونہ چھوڑا ، جس کی کئی حکمتیں اور اسرار ہیں ۔ رجوع کر کے نئے سرے سے اپنے کاشانہ کو جنت نظیر بنانے کا موقعہ ہاتھ آتا ہے ۔ آئندہ کے پچھتاوے اور اولاد کے بٹنے اور بیوی کے بے سہارا ہونے کی سی بلائوں سے نجات ملتی ہے۔ آپ ﷺ نے حضرت حفصہ ؓ کو بھی طلاق دی تھی اور پھر رجوع فرما لیا تھا ۔
صاحب سید الوریٰ (ج۔سوم ۔ص۔۳۸)فرماتے ہیں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو طلاق دینے کا اختیار دیا ہے لیکن یہ بات اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ٓﷺ کے نزدیک نا پسندیدہ ہے کہ نا گزیروجوہات کے بغیر بیوی کو طلاق دے دی جائے چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ربانی ہے ’’ تمام حلال چیزوں میں سے جو چیز اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ نا پسند ہے ، وہ طلاق ہے ‘‘ اس طرح جب حضرت زید بن حارثہ ؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہی اور اس نے آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’ اپنی بیوی کو طلاق نہ دے اور اللہ سے ڈر !‘‘پھر یہ کیسے تسلیم کر لیں کہ جان دو عالم ﷺ جن کے نزدیک طلاق ایک ناپسندیدہ فعل ہے وہ خود اپنی زوجہ کو محض بڑھاپے کی وجہ سے طلاق دے دیں یا دی ہو گی یا طلاق دینے کا خیال فرمایا ہو گا !!
صاحب اصحٰ السیر لکھتے ہیں کہ اس باب میں سب سے بہتر روایت وہ ہے جو ترمذی میں ابن عباس ؓ سے بطریق حسن روایت کیا ہے اور ابو دائود حاکم نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت سودہ ؓ کو خوف ہوا کہ حضور ﷺ طلاق دے دیں گے تو انہوں نے حضور ﷺ سے کہا کہ طلاق نہ دیں ، مجھ کو اپنی زوجیت میں رہنے دیں میں اپنی باری عائشہ ؓ کو دیتی ہوں ۔ دمیاطی وغیرہ نے اس کی صحیح کی ہے کہ حضور ﷺ نے طلاق دی ہی نہیں ‘‘ ( اصحٰ السیر۔۵۶۷)
اعتراض نمبر ۱۰۶
ام المومنین حضرت سودہ ؓ کے ساتھ آنحضرت ﷺ کے تعلقات خادم و مخدوم جیسے تھے ۔
(علوم اسلامیہ اور مستشرقین ۔ص۔۹۹)
جواب: حضرت خدیجہ ؓ کی وفات کے بعد وقتی طور پر گھر کا نظام بکھر سا گیا تھا بچیوںکی پرورش ، ان کی دیکھ بھال ، اور ان کی شادی کا خیال اور تبلیغی سر گرمیوں کا بوجھ سر پر آن پڑا ۔گھر کے انتظام کو چلانے کے لیے خاتون خانہ کی ضرورت تھی ۔ ان حالات و واقعات کے پیش نظر آپ ﷺ نے حضرت سودہ ؓ سے نکاح فرمایا ۔ انہوں نے گھر کے انتظام کو ایسا سنبھالا کہ آنحضرت ﷺ کو فکر نہ رہی اگرچہ اپنی محبوب بیوی کے انتقال کا صدمہ رہا ۔ گھر کے جملہ کاموں کو باحسن طریق سے انجام دیا وہ گھر کی مالکہ تھی اور انہوں نے اپنے گھر کے کام کاج کو ہر طرح سے بنایا اور سنوارا۔ ایسی گھر کی مالکہ کو خادمہ نہیں کہا جا سکتا؟ کیونکہ سلیقہ شعار اور سگھڑ بیوی ہی گھر کے تمام کام کر سکتی ہے ۔ انہوں نے اس کام کی کبھی اجرت طلب نہیں کی اور نہ ہی انہیں اس خدمت کا بارگاہ نبوی سے کوئی معاوضہ ملتا ہے کیونکہ گھر کے کاموں اور دیگر فرائض کی انجام دہی زوجہ کے فرائض میں شامل ہوتی ہے ۔ اسے خادم و مخدوم کے تعلقات سمجھنا حماقت اور بے عقلی ہے ، بلکہ یہ مستشرقین کے اپنے معاشرہ کی بات ہے جہاں بیوی کو گھر کی ملازمہ ہی سمجھا جاتا ہے ۔ آج شادی کی کل چھوڑ دی ایسا حال واقعی خادمہ کے ساتھ ہی کیا جاتا ہے اپنی خامی ، کوتاہی دوسروں کے سر تھوپ دینا ان کا محبوب مشغلہ اور تعصب کا نتیجہ ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ حضرت سودہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی ، یا رسول اللہ ! مجھے آپ طلاق نہ دیں ۔ آپ ﷺنے اس کی اس درخواست کو شرف قبولیت بخشا ۔ حضرت سودہ ؓ نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے بھیڑ میں چلنے سے دشواری ہو گی ، میں رات کو منیٰ چلی جائوں ، آپ ﷺ نے اجازت مرحمت فرمائی ۔ یہ ناراض ہونے کی باتیں ہیں یا خادم و مخدوم کے تعلقات کی باتیں ہیں ؟ جبکہ آپ ﷺ ہر موقعہ پر ان کی دلجوئی فرماتے ہیں یہ کرم فرمائیاں ان الزامات کی گرد کو پاس تک پھٹکنے نہیں دیتیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ دعویٰ بغیر دلیل کے بے بنیاد ہوتا ہے اور اس دعوی ٰ کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہوتی ۔ مستشرقین کے ذمہ یہ قرض ہے کہ وہ کوئی ادنیٰ سا واقعہ بطور مثال پیش کریں جس سے خادم و مخدوم کے تعلقات واضح ہوتے ہوں ۔ مگر وہ ایسا واقعہ پیش کرنے کی مجال نہیں رکھتے ۔ چوتھی بات یہ ہے کہ کوئی بھی عارضہ خادمہ کو لاحق ہو جائے اور کام کاج کرنے سے عاجز و قاصر ہو تو ایسی صورت میں خادمہ کی چھٹی ہو جاتی ہے اور اس کی جگہ دوسری خادمہ کا انتظام کر لیا جاتا ہے ۔ ادھر فربہی اور بہرے پن کے عوارض ہیں لیکن ان عوارض کے با وجود حضرت سودہ ؓ مدت العمر حرم نبوی میں رہیں اور نبی مکرم ﷺ سے عطا کردہ حجرہ میں مقیم رہیں اور ام المومنین ؓ کے اعلیٰ اعزاز کی سر فرازی ان کے ماتھے کا جھومر رہی اور یہی ان کا مقصد حیات اور حاصل زندگی تھا ۔ اور یہ حقیقت ہے کہ۔
حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارہ ہے
تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارہ ہے
اہم نکتہ:بعض یہ کہتے ہیں کہ افک کے واقعہ کی حیلہ سازی میں حضرت سودہ ؓ سے وہی کہلواتی ہیں جو عائشہ ؓ چاہتی ہیں کیونکہ حضرت سودہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے تمھارے ڈر سے وہی کچھ کہا جو تم نے مجھے بتایا تھا ۔
جواب: مذکور الزام نہایت سوء ادبی ہے کیونکہ کیا حضرت سودہ ؓ زوجہ رسول اللہ ﷺنہیں تھی ؟ کیا وہ ام المومنین کے اعزاز سے با مشرف نہیں تھیں ؟ کیا وہ کنیز یا خادمہ تھیں یا چھوٹی بچی جو ڈر کے مارے حضرت عائشہ ؓ کی بات ماننے کے لیے مجبور تھی یہ سوالات اس من گھڑت الزام کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں نیز ثابت ہو رہا ہے کہ اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر یہ سارا قصہ گھڑ لیا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔
سرولیم میور کہتا ہے ’’ اس خاتون کے کردار کے بارے میں اس قدر جانتے ہیں کہ جب وہ اپنے سابقہ خاوند سکران (سقران) کے ساتھ ہجرت کر گئیں تو اس وقت بھی وہ غیر معمولی طور پر اسلام کے نصب العین اور مقاصد کی پرستار اور گرویدہ تھیں ۔ سیدہ خدیجہ ؓ کے سانحہ ارتحال کے بعد سیدہ سودہ ؓ آپ ﷺ کے عقد میں تین چار برس واحد زوجہ کی حیثیت سے آباد رہیں ۔
مستشرقین کی آراء
منٹگمری واٹ کہتا ہے ’’ آنحضرت ﷺ کی سیدہ سودہؓ سے شادی کا اصل مقصد مسلمانوں کی بے سہار ابیو ائوں کو تحفظ و نگاہ داشت دینا ہی ہو سکتا ہے جیسا کہ پیغمبر ﷺ نے بعد میں حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ سے بھی اسی وجہ سے شادی کی ‘‘ ۔(امہات المومنین اور مستشرقین ۔۱۴۸)
کیرن آرم سٹرانگ کہتی ہیں ’’ یہ ایک انتہائی جرات مندی اور دلیری کا کام تھا جس کے لیے مضبو ط قوت ارادی در کار تھی ۔ امت کی غیر محفوظ خواتین کے متعلق فکر مند ہونے اور ان کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے خود پیغمبر اسلام ﷺ نے مثال قائم کی ۔ غزوہ احد کے شہید جہم بن عمرو کی بیوہ سیدہ زینب سے غزوہ احد کے بعد پیغمبر اسلام ﷺ نے ان سے چوتھی شادی کی اور انہیں گھر فراہم کیا ، وہ بدو قبیلہ بنو ہوازن کے سردار کی بیٹی تھیں ، اس شادی سے اس قبیلہ کے ساتھ سیاسی اتحاد بھی مضبوط ہو گیا ۔‘‘
اہم نکتہ :عبداللہ بن جحش کی شہادت کے بعد یعنی تین ہجری میں ام المساکین سے حضور ﷺ نے خود نکاح کیا لیکن صاحب اصحٰ السّیر کہتے ہیں کہ محل تامل یہ ہے کہ عدت وفات چار مہینہ دس دن ہے لیکن غزوہ احد شوال کے مہینہ میں ہوا ، اس لیے سن تین ہجری میں غزوہ احد کے بعد عدت پوری نہیں ہو سکتی تو آپ نے تین ہجری میں عقد کیسے کیا ؟(اصح السیرجلد ۱ول،ص۵۷۶) علامہ زرقانی کہتے ہیں کہ شائد حمل ہو اور وضع حمل سے عدت پوری ہو گئی ہو ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...